سرورق
تمہید
جو ضوفشاں نہ تیرا نور جان جاں ہوتا
مری آسودگی کا راز افشا ہو نہیں سکتا
عرج خود کشی پر عاشق مستانہ آپہنچا
جو صفائے دل سے ہے بہرہ ور وہ نشان دیتا ہے یار کا
طلوع صبح آئینہ ہے حسن روئے دلبر کا
سایہ پندار ہستی گرفنا ہو جائیگا
خدائی میں فرشتوں سے سوا رتبہ ہے انساں کا
زخمہ زن تار رگ جاں پہ ہے دلبر اپنا
بہار خوشۂ رز ہے شراب ارغواں کا رازداں ہونا
جس دن عدم سے جانب ہستی سفر ہوا
جذبۂ نور میں جب تک اثر نار نہ تھا
موجود چشم ودل کی صداقت میں یار تھا
نو ایماں واصل خلد بریں ہوتا رہا
بادۂ وحدت اثر نے اتنا غافل کر دیا
نور میں واصل کسی مہجور کا دل ہو گیا
کھاتی رہی نہ زلف صنم پیچ و تاب کب
کسی کا چہرہ عالمتاب ہے شمس وقمر ہو کر
عالم افروز ہے جو شمس و قمر کی صورت
نور عرفاں کو ترستی ہی رہیں چشمان دل
بہتر طواب کعبہ سے ہے سیر کوئے دل
رنگ شفیق ہے سینۂ لعل یمن میں گل
عین الیقین میں وہم وگماں کا گذر کہاں
مری ہستی تہ وبالا زمین و آسماں کر لیں
نظر کے پاس جو پنہاں ہے عین وحدت میں
تو رشک آفتاب ہے شان جلا میں
عجب سامان نیرنگی ہے قدرت کے نظاروں میں
چلا فنا کا پتہ نقشۂ بتاں سے ہمیں
لوح محفوظ پہ نقش ستم ایجا نہیں
مرگ وہ خواب ہے جسکی کوئی تعبیر نہیں
ہم اپنی ہستی کو جتنا مٹائے جاتے ہیں
جلوہ گر آفاق میں برکات یزداں ہو گئیں
بصیرت کی نظر سے حق و باطل دیکھتے جاؤ
اے بشر رسوا نہ کر تو ناخن تدبیر کو
عجب کیا دل کی تہمت سے بری روح رواں پھر ہو
اے طائر خیال تیری حد کہیں نہ ہو!
ہیچ تھی اے دل تیری دار فتگی باطل کیساتھ
گرد اب بحر حسن ہے عادت حجاب کی
عیاں ہے کار سازی عالم کثرت میں وحدت کی
نہاں ہے اپنے دل میں جو تجلی ذات برتر کی
عجب عقدہ کشائی ہے تصوف کے مسائل کے
عالم فنا پذیر بھی ہے بیزوال بھی
ہم نے خود داری میں پابندی جلوت دیکھی
منظور ہو بقا تو خودی کو فنا کرے
ہوش جب قلب سے قالب کو رواں ہوتا ہے
نکہرالطوں میں رنگ حقیقت مجازسے
کوئی چلمن نشیں ہے ظلمت شب کے نظاروں سے
نیرنگ تماشائے جہاں پیش نظر ہے
مسکن نور تجلی سینۂ روشن میں ہے
نظر وقف تجلی ہے تصور کیف ساماں ہے
چشم ودل بارگہ جلوۂ جانا نہ ہے
امید فضا عندلیبوں کی خو ہے
چشم ودل تک جو کبھی جذبۂ رنداں آئے
روز روشن ہے تیرے رخ کی ضیا میرے لئے
چشم ودل کو پردہ دار جلوہ جاں دیکھئے
عمر رفتہ نے کیا فکر سے آزاد مجھے
زبان گنگ ہے تعریف لامکاں کیلئے
غزل بطور خاتمہ
ہے سر کے قلم ہونے سے خامہ کی روانی
YEAR1934
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER जामे प्रेस, दिल्ली
YEAR1934
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER जामे प्रेस, दिल्ली
سرورق
تمہید
جو ضوفشاں نہ تیرا نور جان جاں ہوتا
مری آسودگی کا راز افشا ہو نہیں سکتا
عرج خود کشی پر عاشق مستانہ آپہنچا
جو صفائے دل سے ہے بہرہ ور وہ نشان دیتا ہے یار کا
طلوع صبح آئینہ ہے حسن روئے دلبر کا
سایہ پندار ہستی گرفنا ہو جائیگا
خدائی میں فرشتوں سے سوا رتبہ ہے انساں کا
زخمہ زن تار رگ جاں پہ ہے دلبر اپنا
بہار خوشۂ رز ہے شراب ارغواں کا رازداں ہونا
جس دن عدم سے جانب ہستی سفر ہوا
جذبۂ نور میں جب تک اثر نار نہ تھا
موجود چشم ودل کی صداقت میں یار تھا
نو ایماں واصل خلد بریں ہوتا رہا
بادۂ وحدت اثر نے اتنا غافل کر دیا
نور میں واصل کسی مہجور کا دل ہو گیا
کھاتی رہی نہ زلف صنم پیچ و تاب کب
کسی کا چہرہ عالمتاب ہے شمس وقمر ہو کر
عالم افروز ہے جو شمس و قمر کی صورت
نور عرفاں کو ترستی ہی رہیں چشمان دل
بہتر طواب کعبہ سے ہے سیر کوئے دل
رنگ شفیق ہے سینۂ لعل یمن میں گل
عین الیقین میں وہم وگماں کا گذر کہاں
مری ہستی تہ وبالا زمین و آسماں کر لیں
نظر کے پاس جو پنہاں ہے عین وحدت میں
تو رشک آفتاب ہے شان جلا میں
عجب سامان نیرنگی ہے قدرت کے نظاروں میں
چلا فنا کا پتہ نقشۂ بتاں سے ہمیں
لوح محفوظ پہ نقش ستم ایجا نہیں
مرگ وہ خواب ہے جسکی کوئی تعبیر نہیں
ہم اپنی ہستی کو جتنا مٹائے جاتے ہیں
جلوہ گر آفاق میں برکات یزداں ہو گئیں
بصیرت کی نظر سے حق و باطل دیکھتے جاؤ
اے بشر رسوا نہ کر تو ناخن تدبیر کو
عجب کیا دل کی تہمت سے بری روح رواں پھر ہو
اے طائر خیال تیری حد کہیں نہ ہو!
ہیچ تھی اے دل تیری دار فتگی باطل کیساتھ
گرد اب بحر حسن ہے عادت حجاب کی
عیاں ہے کار سازی عالم کثرت میں وحدت کی
نہاں ہے اپنے دل میں جو تجلی ذات برتر کی
عجب عقدہ کشائی ہے تصوف کے مسائل کے
عالم فنا پذیر بھی ہے بیزوال بھی
ہم نے خود داری میں پابندی جلوت دیکھی
منظور ہو بقا تو خودی کو فنا کرے
ہوش جب قلب سے قالب کو رواں ہوتا ہے
نکہرالطوں میں رنگ حقیقت مجازسے
کوئی چلمن نشیں ہے ظلمت شب کے نظاروں سے
نیرنگ تماشائے جہاں پیش نظر ہے
مسکن نور تجلی سینۂ روشن میں ہے
نظر وقف تجلی ہے تصور کیف ساماں ہے
چشم ودل بارگہ جلوۂ جانا نہ ہے
امید فضا عندلیبوں کی خو ہے
چشم ودل تک جو کبھی جذبۂ رنداں آئے
روز روشن ہے تیرے رخ کی ضیا میرے لئے
چشم ودل کو پردہ دار جلوہ جاں دیکھئے
عمر رفتہ نے کیا فکر سے آزاد مجھے
زبان گنگ ہے تعریف لامکاں کیلئے
غزل بطور خاتمہ
ہے سر کے قلم ہونے سے خامہ کی روانی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।