سرورق
ترتیب
نوجوان نسل کے نام
پیش لفظ
حمد
نعت
جو دل ستارہ خو نہ ہو
یہ بستیاں ویراں نہیں
سرگزشت
خالی ہاتھ
وہ لمحہ
سویرا ہو تو کیسے ہو
احوال ایک سفر کا
پانچواں موسم
جلاوطن
گواہی
دشت امروز
آنسو ہے گلاب ہے دیا ہے
ایک آئینہ روبرو ہے ابھی
نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
جلے بجھے دیوے
ایک بے وفا لمحہ
آندھیوں کے بازار میں
کبھی یوں تو نہیں ہوتا
اندیشے
رسم وآداب جدا عفت پندار جدا
ہر ایک قطرہ خوں ہے دیے جلائے ہوئے
اور کوئی دیا بجھے دیدہ نم ابھی نہیں
ہم نے خواب دیکھے تھے
اجتماعی المیہ
تبصرہ
رموز مملکت
بے چارگی چارہ گراں
مری زمین پہ جو موسم کبھی نہیں آیا
کوئی چراغ تو روشن تم اپنےگھر رکھنا
نہ کر امتیں کسی خواب کی نہ کسی یقیں کا سائیباں
مجبوریاں
ابھی ٹھہرو
لمحہ لمحہ
اس نے کہا
طلسم درد کی زنجیر سے رہائی نہ دے
عرض حال
نظمیں تمہارے نام
اس دن
تصویر کائنات
روز و شب کی کوئی صورت تو بنا کر رکھوں
یہ تو سہی کہ شہر گل دور بہت ہی دور ہے
تو کیا اب ہم نہیں ہیں
آئینوں کے دکھ
کوئی تو ہو
آس
بڑھتے ہوئے سائے
دامان بہار
دوریاں
عہد زیاں
صبر آیانہ تاب آوے ہے
ہوا کے سامنے ہر رنگ کم ادا ٹھہرے
اک پل گزار یا جگ بیتے
بروگ
گنے ہوئے تھے قدم انحراف کیا ہوتا
وصال وہجر کے موسم
نامہ بر
شام وسحر کے درمیاں
داستانوں میں لکھے گئے
آئینے
سرمایہ
وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے
ہے درد ابھی جادو اثر ٹھہرو ذرا
کہیں وقت تھم نہ جائے
اے دل بے ہنر
بچھی ہوئی بساط کائنات ہے
سانحہ ایک نہیں
خسارہ
سانحہ
ایک اور خبر
قبیلہ فراق میں
دیار شب میں نہ ہم سا بے خبر کوئی
دستک ہوا کی ہو تو بہ طرز فغاں نہ ہو
بھرپور رنگ موسم گل کا نظارہ تھا
ہیں کہیں تو شہر بھر میں ابھی نکہتوں کے ڈیرے
ایک منظر
ہر جنبش نگہ پہ بدلنا پڑا مجھے
اچانک دلربا موسم کا دل آزار ہوجانا
جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
گماں کے مرحلوں سے آگے
اے غم رائگاں
یقیں آئے نہ آئے
ہمیں خود سے بھی ملنا تھا کسی ہم راز سے پہلے
نظمیہ
صدیوں کا سفر
التماس
ایک شعر
سرورق
ترتیب
نوجوان نسل کے نام
پیش لفظ
حمد
نعت
جو دل ستارہ خو نہ ہو
یہ بستیاں ویراں نہیں
سرگزشت
خالی ہاتھ
وہ لمحہ
سویرا ہو تو کیسے ہو
احوال ایک سفر کا
پانچواں موسم
جلاوطن
گواہی
دشت امروز
آنسو ہے گلاب ہے دیا ہے
ایک آئینہ روبرو ہے ابھی
نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
جلے بجھے دیوے
ایک بے وفا لمحہ
آندھیوں کے بازار میں
کبھی یوں تو نہیں ہوتا
اندیشے
رسم وآداب جدا عفت پندار جدا
ہر ایک قطرہ خوں ہے دیے جلائے ہوئے
اور کوئی دیا بجھے دیدہ نم ابھی نہیں
ہم نے خواب دیکھے تھے
اجتماعی المیہ
تبصرہ
رموز مملکت
بے چارگی چارہ گراں
مری زمین پہ جو موسم کبھی نہیں آیا
کوئی چراغ تو روشن تم اپنےگھر رکھنا
نہ کر امتیں کسی خواب کی نہ کسی یقیں کا سائیباں
مجبوریاں
ابھی ٹھہرو
لمحہ لمحہ
اس نے کہا
طلسم درد کی زنجیر سے رہائی نہ دے
عرض حال
نظمیں تمہارے نام
اس دن
تصویر کائنات
روز و شب کی کوئی صورت تو بنا کر رکھوں
یہ تو سہی کہ شہر گل دور بہت ہی دور ہے
تو کیا اب ہم نہیں ہیں
آئینوں کے دکھ
کوئی تو ہو
آس
بڑھتے ہوئے سائے
دامان بہار
دوریاں
عہد زیاں
صبر آیانہ تاب آوے ہے
ہوا کے سامنے ہر رنگ کم ادا ٹھہرے
اک پل گزار یا جگ بیتے
بروگ
گنے ہوئے تھے قدم انحراف کیا ہوتا
وصال وہجر کے موسم
نامہ بر
شام وسحر کے درمیاں
داستانوں میں لکھے گئے
آئینے
سرمایہ
وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے
ہے درد ابھی جادو اثر ٹھہرو ذرا
کہیں وقت تھم نہ جائے
اے دل بے ہنر
بچھی ہوئی بساط کائنات ہے
سانحہ ایک نہیں
خسارہ
سانحہ
ایک اور خبر
قبیلہ فراق میں
دیار شب میں نہ ہم سا بے خبر کوئی
دستک ہوا کی ہو تو بہ طرز فغاں نہ ہو
بھرپور رنگ موسم گل کا نظارہ تھا
ہیں کہیں تو شہر بھر میں ابھی نکہتوں کے ڈیرے
ایک منظر
ہر جنبش نگہ پہ بدلنا پڑا مجھے
اچانک دلربا موسم کا دل آزار ہوجانا
جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
گماں کے مرحلوں سے آگے
اے غم رائگاں
یقیں آئے نہ آئے
ہمیں خود سے بھی ملنا تھا کسی ہم راز سے پہلے
نظمیہ
صدیوں کا سفر
التماس
ایک شعر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔