کلام مومن
پھوڑاتھا دل نہ تھا یہ موئے پر خلل گیا
نہ کیونکر مطلع دیواں ہو مطلع مہرو حدت کا
ان سے بد خو کا کرم بھی ستم جان ہوگا
لگے خد نگ جب اس نالۂ سحر کا سا
موئے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا
دیدۂ حیران نے تماشا کیا
سم کہا موے تو درد دل زار کم ہوا
گر غیر کے گہر سے نہ دل آرام نکلتا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وصل کی شب شامش سے میں سوگیا
ٹانکنے چاک گریباں کو تو ہر بار لگا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
وقت جوش بحر گر میں جو گرم نالہ تھا
ہماری جاں تجھ بن شب دل نا کام لیتا تھا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
میرے کوچے میں عدد مضطر وناشاد رہا
میں نے تم کو دل دیا تمنے مجھے رسوا کیا
کسی کا ہوا آج کا تھا کسی کا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
دل بیتاب کو گر باندہ کر رکھوں ٹھہرے گا
وعدہ وصلت سے دل شاد کیا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
روز جز ا جو قاتل دل جو خطاب تھا
دیکھ لو شوق نا تمام مرا
ناز بیجا سے سوا شرم کے حاصل نہ ہوا
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبرد کہلا دیا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نگہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
کیا فہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
آئے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھا منا
لے اڑی لاشہ ہو الاغر بس تن ہوگیا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
راز نہاں زباں اغیار تک نہ پہونچا
وعدے کی جو ساعت دم کشش ہے ہمارا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
ہم سرے اس زلف سے اب یہ بھی ایسا ہوگیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
چلوں کے بدلے مجکوزمیں پر گرا دیا
اشک دانہ نہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
اثر اوسکو ذرا نہیں ہوتا
عضہ بیگانہ دار ہو نا تھا
گرمیں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا ہوا ہواگر وہ بعد امتحان اپنا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
گئے وہ خواب سے اوٹہ غیر کے گہر آخر شب
ردیف الباء
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
یان سے کیا دنیا سے اوٹہہ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گہر نسبت
ردیف التاء
سودا تھما بلائے جوش پر رات
کرتے ہیں عدو وصل میں حرمان کی شکایت
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
ردیف الجیم
پنجۂ شانہ سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الثاء
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
ردیف الحاء
رویا کریں گے آپ بھی پھروں اسی طرح
گر چند ے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
ہم دام محبت میں ادھر چھوٹے ادھر بند
عدونے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الدال
ردیف الخاء
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بہکا کاغذ
غربت میں گل کہلائے ہے کیا کیا وطن کی یاد
ردیف الذال
اے تند خوآجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
ردیف الراء
نہ کیوں کر بس مواجاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
بے مروت ناتواں ہیں ہنس دے روتا دیکھ کر
کوہ وصحرا میں پے فرحت پھر اتی ہے بہار
مومن خدا کے واسطے ایسا مکان نہ چھوڑ
ردیف الزاء
ہے چشم بند تو بھی ہے آنسو داں ہنوز
ردیف الراء ہندی
ہجران کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
لب پہ دم آیا ولے نایلہ نہیں ہے ہنوز
ردیف شین
ردیف السین
کہا گیا جی غم پنہاں افسوس
کل دیکھ کے وہ غدار آتش
یوں ہے شعاع داغ مرے دلکے آس پاس
روز ہوتا ہے بیان غیر کا اپنا اخلاص
ردیف الصاد
کہا نیند تجھ بن مگر آئے غش
ہاں ماں کہا بیچ بوئے زلف دوتاقرض
بے صبر کر کہا ں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
ردیف الطاء
ہاں تو کیوں کر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ردیف الظاء
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغاں شمع
ردیف الغین
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دل میں جائے داغ
ردیف القاف
مجلس میں تانہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف الفاء
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
قہر سے موت ہے قضا ہے عشق
ردیف الکاف
امتحاں کیلئے جفا کب تک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جان ہونے تک
پھر نہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک حبیب جان تلک
لگائی آہ نے غیروں کے گہر آگ
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہی ںیہ کرخت دل
ردیف اللام
ردیف الکاف فارسی
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
مرد عشق سیتزہ کار ہے دل
شام سے تا صبح مضطر صبح سے تا شام ہم
سرمہ ہیں اس چشم جادو فن میں ہم
ردیف المیم
پاتے تھے چین کب غم دوری سے گہر میں ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
صفحۂ حچوں پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
ردیف النون
لاش پر آنیکی شہرت شب غم دیتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
کہے ہے چھیڑ نے کو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
ناصح ناداں یہ دانائی نہیں
ہوگئی گہر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
چین آتا ہی نہیں سوتے ہیں جس پہلو ہمیں
بزم میں اس کی بیان دروغم کیونکر کریں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
جیب درست لائق لطف وکرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
ہے جلوہ ریز نور نظر گرو راہ میں
غنچہ سان خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو ہیں
صورت وکہائے جو کبھو جا کے خواب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
آہ فلک فگن ترے غم سے کہاں نہیں
ردیف الواؤ
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر را ت کو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
آئے ہو جب بڑہا کر دل کی جلن گئے ہو
اعجاز جاں وہی ہے ہمارے کلام کو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
خالی ہوائے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
ردیف الہاء
چل پر ے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
سیماب سے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
دل بستگی سے ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
ردیف الیاء
خوشی نہ ہو مجھے کیوں کر قضا کے آنے کی
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آجائے
تیری پا بوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
ہوئی تاثیرآہ وزاری کی
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
منہ کو بنہ سیانا صح کی پختہ گری اتنی
نہ دنیا بوسہ باگو فلک جھکتا زمیں پر ہے
پامال اک نظر میں قرار ثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سرمیں پھرتے
کشتہ حسرت دیدار ہیں یارب کسکے
وہ گردوں دیکھ یہ حالت ہوئی تغیر شیشہ کی
مجھے یاد آگئیدو ہیں اسکے قدو قامت کی
مجھ پہ طوفان اٹھائے لوگوں نے
سرمگیں چشم سے کیو ں تیز نظر کرتا ہے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میر خطا لگتی
فغاں کیا دم بھی لینا پارہ ہائے دل اڑاتا ہے
کیوں بنیخونابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
جہاں سے شکل کو تیری ترس ترس گذرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہاں تک دم بخود رہتے نہ ہوں کیجئے نہ ہاں کیجئے
کیا مرے قتل پہ حامی کوئی جلا د بھر ے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لئے
تسلی دم وابسیں ہوچکی
اجل سے خوش ہو ں کسی طرح ہو وصال تو ہے
ہے دل میں غبار اوسکے گہرانپانہ کریں گے
اجل بلب تیرے شیوں سے ہے
نہ کٹی ہم سے شبب حد ائی کی
شب تم جو بزم میں آنکھیں چرا گئے
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
جذب دل روز آزمانا چھوڑ دے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
مشورہ کیا کیجے چرخ پیرسے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
میں احوال دل مر گیا کہتے کہتے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دل گیر سے
مومن سوے شرق اس بت کا فرکا تو گھر ہے
دل میں اوس شوخ کے جو راہ نہ گی
بندہا خیال جنان بعد ترک یار مجھے
دعا بلا تھی شب غم سکون جان کے لئے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
نہ ربط اس سے نہ یاری آسمان سے
کلام مومن
پھوڑاتھا دل نہ تھا یہ موئے پر خلل گیا
نہ کیونکر مطلع دیواں ہو مطلع مہرو حدت کا
ان سے بد خو کا کرم بھی ستم جان ہوگا
لگے خد نگ جب اس نالۂ سحر کا سا
موئے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا
دیدۂ حیران نے تماشا کیا
سم کہا موے تو درد دل زار کم ہوا
گر غیر کے گہر سے نہ دل آرام نکلتا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وصل کی شب شامش سے میں سوگیا
ٹانکنے چاک گریباں کو تو ہر بار لگا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
وقت جوش بحر گر میں جو گرم نالہ تھا
ہماری جاں تجھ بن شب دل نا کام لیتا تھا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
میرے کوچے میں عدد مضطر وناشاد رہا
میں نے تم کو دل دیا تمنے مجھے رسوا کیا
کسی کا ہوا آج کا تھا کسی کا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
دل بیتاب کو گر باندہ کر رکھوں ٹھہرے گا
وعدہ وصلت سے دل شاد کیا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
روز جز ا جو قاتل دل جو خطاب تھا
دیکھ لو شوق نا تمام مرا
ناز بیجا سے سوا شرم کے حاصل نہ ہوا
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبرد کہلا دیا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نگہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
کیا فہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
آئے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھا منا
لے اڑی لاشہ ہو الاغر بس تن ہوگیا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
راز نہاں زباں اغیار تک نہ پہونچا
وعدے کی جو ساعت دم کشش ہے ہمارا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
ہم سرے اس زلف سے اب یہ بھی ایسا ہوگیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
چلوں کے بدلے مجکوزمیں پر گرا دیا
اشک دانہ نہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
اثر اوسکو ذرا نہیں ہوتا
عضہ بیگانہ دار ہو نا تھا
گرمیں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا ہوا ہواگر وہ بعد امتحان اپنا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
گئے وہ خواب سے اوٹہ غیر کے گہر آخر شب
ردیف الباء
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
یان سے کیا دنیا سے اوٹہہ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گہر نسبت
ردیف التاء
سودا تھما بلائے جوش پر رات
کرتے ہیں عدو وصل میں حرمان کی شکایت
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
ردیف الجیم
پنجۂ شانہ سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الثاء
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
ردیف الحاء
رویا کریں گے آپ بھی پھروں اسی طرح
گر چند ے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
ہم دام محبت میں ادھر چھوٹے ادھر بند
عدونے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الدال
ردیف الخاء
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بہکا کاغذ
غربت میں گل کہلائے ہے کیا کیا وطن کی یاد
ردیف الذال
اے تند خوآجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
ردیف الراء
نہ کیوں کر بس مواجاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
بے مروت ناتواں ہیں ہنس دے روتا دیکھ کر
کوہ وصحرا میں پے فرحت پھر اتی ہے بہار
مومن خدا کے واسطے ایسا مکان نہ چھوڑ
ردیف الزاء
ہے چشم بند تو بھی ہے آنسو داں ہنوز
ردیف الراء ہندی
ہجران کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
لب پہ دم آیا ولے نایلہ نہیں ہے ہنوز
ردیف شین
ردیف السین
کہا گیا جی غم پنہاں افسوس
کل دیکھ کے وہ غدار آتش
یوں ہے شعاع داغ مرے دلکے آس پاس
روز ہوتا ہے بیان غیر کا اپنا اخلاص
ردیف الصاد
کہا نیند تجھ بن مگر آئے غش
ہاں ماں کہا بیچ بوئے زلف دوتاقرض
بے صبر کر کہا ں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
ردیف الطاء
ہاں تو کیوں کر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ردیف الظاء
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغاں شمع
ردیف الغین
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دل میں جائے داغ
ردیف القاف
مجلس میں تانہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف الفاء
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
قہر سے موت ہے قضا ہے عشق
ردیف الکاف
امتحاں کیلئے جفا کب تک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جان ہونے تک
پھر نہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک حبیب جان تلک
لگائی آہ نے غیروں کے گہر آگ
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہی ںیہ کرخت دل
ردیف اللام
ردیف الکاف فارسی
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
مرد عشق سیتزہ کار ہے دل
شام سے تا صبح مضطر صبح سے تا شام ہم
سرمہ ہیں اس چشم جادو فن میں ہم
ردیف المیم
پاتے تھے چین کب غم دوری سے گہر میں ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
صفحۂ حچوں پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
ردیف النون
لاش پر آنیکی شہرت شب غم دیتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
کہے ہے چھیڑ نے کو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
ناصح ناداں یہ دانائی نہیں
ہوگئی گہر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
چین آتا ہی نہیں سوتے ہیں جس پہلو ہمیں
بزم میں اس کی بیان دروغم کیونکر کریں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
جیب درست لائق لطف وکرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
ہے جلوہ ریز نور نظر گرو راہ میں
غنچہ سان خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو ہیں
صورت وکہائے جو کبھو جا کے خواب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
آہ فلک فگن ترے غم سے کہاں نہیں
ردیف الواؤ
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر را ت کو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
آئے ہو جب بڑہا کر دل کی جلن گئے ہو
اعجاز جاں وہی ہے ہمارے کلام کو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
خالی ہوائے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
ردیف الہاء
چل پر ے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
سیماب سے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
دل بستگی سے ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
ردیف الیاء
خوشی نہ ہو مجھے کیوں کر قضا کے آنے کی
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آجائے
تیری پا بوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
ہوئی تاثیرآہ وزاری کی
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
منہ کو بنہ سیانا صح کی پختہ گری اتنی
نہ دنیا بوسہ باگو فلک جھکتا زمیں پر ہے
پامال اک نظر میں قرار ثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سرمیں پھرتے
کشتہ حسرت دیدار ہیں یارب کسکے
وہ گردوں دیکھ یہ حالت ہوئی تغیر شیشہ کی
مجھے یاد آگئیدو ہیں اسکے قدو قامت کی
مجھ پہ طوفان اٹھائے لوگوں نے
سرمگیں چشم سے کیو ں تیز نظر کرتا ہے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میر خطا لگتی
فغاں کیا دم بھی لینا پارہ ہائے دل اڑاتا ہے
کیوں بنیخونابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
جہاں سے شکل کو تیری ترس ترس گذرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہاں تک دم بخود رہتے نہ ہوں کیجئے نہ ہاں کیجئے
کیا مرے قتل پہ حامی کوئی جلا د بھر ے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لئے
تسلی دم وابسیں ہوچکی
اجل سے خوش ہو ں کسی طرح ہو وصال تو ہے
ہے دل میں غبار اوسکے گہرانپانہ کریں گے
اجل بلب تیرے شیوں سے ہے
نہ کٹی ہم سے شبب حد ائی کی
شب تم جو بزم میں آنکھیں چرا گئے
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
جذب دل روز آزمانا چھوڑ دے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
مشورہ کیا کیجے چرخ پیرسے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
میں احوال دل مر گیا کہتے کہتے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دل گیر سے
مومن سوے شرق اس بت کا فرکا تو گھر ہے
دل میں اوس شوخ کے جو راہ نہ گی
بندہا خیال جنان بعد ترک یار مجھے
دعا بلا تھی شب غم سکون جان کے لئے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
نہ ربط اس سے نہ یاری آسمان سے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.