سر ورق
چند معروضات
تعارف
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دل بہم پہنچا بند میں تب سے سارا تن جلا
منہ تکا ہی کرےہے جس تس کا
ہمارے آگے ترا بج کسو نے نام لیا
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
سحر گہ عید میں دورِ سبو تھا
سب ہوے نادم پے تدبیر ہو جاتا سمیت
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
آئے ہیں میر منہ کو بنائے جفا سے آج
گل کی جفا بھی جانی، دیکھی وفائے بلبل
میں کون ہوں اے ہم نفسان سوختہ جاں ہوں
شیخ جی آؤ مصلیٰ گروِ جام کرو
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
کرو تو کل کہ عاشقی میں نہ یوں کروگے تو کیا کروگے
یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
ادھر سے ابر اٹھا کر جو گیا ہے
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
نکتہ مشتاق ویار ہے اپنا
دل کھو گیا ہوں میں نہیں دیوانہ پن کے بیچ
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
غافل ہیں ایسے سونے ہیں گویا جہاں کے لوگ
میر دریا ہے سنے شعرزبانی اس کی
کرتے ہیں جو کہ جی میں ٹھانے ہیں
یار بن تلخ زندگانی تھی
جنوں میں ساتھ تھا کل لڑکوں کا لشکر جہاں میں تھا
زار رکھا، بے حال رکھا، بے تاب رکھا، بیمار رکھا
اگر وہ ماہ نکل گھر سے ٹک ادھر آتا
فکر میں مرگ کے ہوں سردر پیش
دیکھو میں اپنی رات کو خوں ناب تھا سو تھا
نہ خوشہ یاں نہ دانہ یاں، جلانا گھاس کیا حاصل
تاچند دہ ستم کرے، ہم درگزر کریں
یہ سرا سونے کی جاگہہ نہیں بیدار ہو
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
وفاداری نے جی مارا ہمارا
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری، نیند نہیں آتی ہے رات
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
عشق کی چوٹیں پے درپے جو اٹھائی گئیں گھائل ہے دل
ناز کی کوئی یہ بھی ٹھسک ہے جی کا ہے کو کڑھاتے ہو
ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
جی رکا رکنے سے پرے کچھ تو
کیا کریں بے کس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم
سادے جتنے نظر آتے ہیں دیکھو تو عیار ہیں سب
منہ کئے اودھر زرد ہوے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں
حاکم شہر حسن کے ظالم کیوں کہ ستم ایجاد نہیں
دل کھلتا ہے وہاں حجتِ زندانہ جہاں ہو
عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں بتاتے رہو
گئے تھے سیرِ چمن کو اٹھ کر گلوں میں ٹک جی لگا نہ اپنا
دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
بس اب بن چکے روئے و موے سمن بو
مکتوب دیر بھیجا ہر دو طرف سے سادہ
ہم رو رو کے دردِ دل دیوانہ کہیں گے
جامہ مستیٔ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
منعم نے بنا ظلم کی رکھ، گھر تو بنایا
جس سرکو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
ہزار رنگ کھلے گا چمن کے ہیں شاہد
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
چمن میں ہم بھی زنجیر ی رہے ہیں
قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
سرسری تم جہان سے گزرے
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا
رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
کس کی مسجد، کیسے بت خانے کہاں کے شیخ و شاب
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت ہے
جی سدا ان ابرووں ہی میں رہا
ہوں رہ گزر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد
میر صاحب زمانہ نازک ہے
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
افسوس دے کہ منتظر اک عمر تک رہے
ہو آدمی اے چرخ، ترکِ گردشِ ایام کر
ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
حاصل بجز کدورت اس خاکداں سے کیا ہے
مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
مشکل ہے مٹ گئے ہوے نقشوں کی پھر نمود
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
مشہور ہیں دلوں کی مرے بے قرار یاں
جن کے لئے اپنے تویوں جان نکلتے ہیں
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
بار بار وعدوں کی راتیں آئیاں
آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یہاں
دن نہیں، رات نہیں، صبح نہیں، شام نہیں
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
ہم سے تو تم کو صد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
اب حال اپنا اس کے ہے دلخواہ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زبان
کل میر نے کیا کیا کی مے کےلیے بیتابی
آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت گر یہ
لاعلاجی ہے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جانہ تھی
آج کل بیقرار ہیں ہم بھی
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
رنح کھینچے تھے، داغ کھائے تھے
خوب ہی اے ابراک شب آؤ باہم رویئے
جوش دل آئے بہم دیدۂ گریان ہوئے
جب نام ترا لیجئے، تب چشم بھر آوے
حرم کو جایئے یا دیر میں بسر کریے
بندِ قبا کوخوباں جس وقت وا کریں گے
اے حب جاہ والو، جو آج تا جور ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زخموں پہ زخم جھیلے، داغوں پہ داغ کھائے
دیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علمِ تیر پھر
غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مرجائے
بیماررہے ہیں اس کی آنکھیں
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مرگئے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب، ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تسلی ان نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو
اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
مرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
پہنچا نہیں کیا سمع مبارک میں مرا حال
پرستش کی اتنی کہ اے بت تجھے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہئے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب
غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
برقع میں کیا چھپیں دے ہو ویں جنہوں کی یہ تاب
یاد ایّا مے کی ہنگامہ رہا کرتا تھا رات
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
جیسی عزت مرے دیوالوں کی امیروں میں ہوئی
سخت کرچی کیونکہ یک باری کریں ہم ترک شہر
دل کھو گیا ہوں میں نہیں دیوانہ پن کے بیچ
آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار
مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں اردیا کر
کیا لطف تھا کہ میکدے کی پشتِ بام پر
جنوں میں اب کی کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور شمنی کر
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
حال میرا شہر میں کہتے رہیں گے لوگ دیر
حال آں کہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
لیا چیرہ دستی سے گر میر سرتک
آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گر یہ ناک
تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ
کب تک رہیں گے پہلو لگاے زمیں سے ہم
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب وہاں عیاں نہیں
کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا
کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں
دم بدم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں
کس کنے جاؤں الٰہی کیا دوا پیدا کروں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرد لاتا نہیں ہرگز
عشق میں جی کو صبر وتاب کہاں
یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہو
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یہاں جو نثار کریں
باغِ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
کرتے ہیں جو کہ جی میں ٹھانے ہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
ہیں طالب سورت سبھی، مجھ پر ستم کیوں اس قدر
لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
ہر بات پر خشونت طرزِ جفا تو دیکھو
اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو
یہی مشہور عالم ہیں دو عالم
ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو
آزار کھینچنے کے مزے عاشقوں سے پوچھ
ہوے کیا کیا مقدس لوگ آوارہ ترے غم میں
اب جو نصیب میں ہے سو دیکھ لوں گا میں بھی
مستی ان آنکھوں سے نکلے ہے اگر دیکھو خوب
باغباں بے رحم، گل بے دیدہ، موسم بے وفا
آوے کہنے میں، رہا ہو غم سے گر احوالِ کچھ
دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ لانا بھی
دلیل اس بیاباں میں دل ہی ہے اپنا
ہیں بد مزاج خوباں پر کس قدر ہیں دلکش
بو کیے کمھلاے جاتے ہو، نزاکت ہاے رے
کعبے میں جاں بلب تھے ہم دوری بتاں سے
بے مہرو وفا ہے وہ، کیا رسم وفا جانے
کعبے گئے کیا کوئی مقصد کو پہنچتا ہے
اب تو ہم ہو چکتے ہیں ٹک تیرے ابرو خم ہوتے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
ان دلبروں کو دیکھ لیا،، بے وفا ہیں یے
ساکنِ دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے
میں اور تو ہیں دونوں مجبور طور اپنے
زلف ہی در ہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے
مستی میں جا وبے جا مدِ نظر کہاں ہے
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جادوی ہے
کیا حال بیاں کرے عجب طرح پڑی ہے
کہاں یارو قیس اب جو دنیا کرے ہے
کوفت سے جاں لب پہ آئی ہے
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
ربط دل کو اس بت بے مہر کینہ ور سے ہے
کارِ دل اس مہِ تمام سے ہے
دل اگر کہتا ہوں تو کہتا ہے وہ، یہ دل ہے کیا
ہر آن تھی سرگوشی یا بات نہیں گا ہے
بیتاب تہہِ تیغ ستم دیر رہا میں
پیش کچھ آؤ یہیں ہم تو ہیں ہر صورت سے
دل عجب شہر تھا خیالوں کا
شیون میں شب کے ٹوٹی زنجیر میر صاحب
شعر کے پردے میں میں نے عم سنایا ہے بہت
تجھ سے ہزار ان نے بنا کر دیئے بگاڑ
اے مرغِ چمن صبح ہوئی زمزمہ سرکر
نہ درد مندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
تھی جملہ تن لطافت عالم میں جا کے ہم تو
ہے یارِ دوش جس کے لئے زندگی سودہ
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
یاں آپ ہی آپ آکر گم آپ میں ہوے ہو
جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
گھر سے اٹھ کر کونے میں بیٹھا، بیت پڑھے دوباتیں کیں
کہتے ہیں بہار آئی، گل پھول نکلتے ہیں
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقشِ قدم یاں
شہروں ملکوں میں جو یہ میرکہاتا ہے میاں
اب کی ماہِ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
قتل کیے پر غصہ کیا ہے، لاش میر اٹھوانے دو
گردش میں وے مست آنکھیں ہیں جیسے بھر پیمانے دو
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
تم بن چمن کے گل نہیں چڑھتے نظر کبھو
آج ہمارا جی بے کل ہے تم بھی غفلت مت کریو
گرچہ شانِ کفر ارفع ہے ولے اے راہباں
نہ باتیں کرو سرگردانی کے ساتھ
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
دیکھیے کیا ہو سانجھ تلک احوال ہمارا ابتر ہے
کیسے نازو تبخیر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے
کیا کیا ہوے ہیں اہلِ زباں ڈھیرخاکِ کے
ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
بہار آئی نکالو مت مجھے اب کے گلستاں سے
مت رنج کھینچ مل کر ہشیار مرد ماں سے
قصر و مکاں و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے
دل کو گل گہتے تھے، درد و غم سے مرجھایا گیا
کرتا ہوں اللہ اللہ، درویش ہوں سدا کا
ہم کوے مغاں میں تھے ماہِ رمضاں آیا
خوب کیا جو اہلِ کرم کے جود کا کچھ نہ خیال کیا
آنکھیں لگی رہتی ہیں اکثر چاک قفس سے اسیروں کی
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا
راز کیا، بیمار کیا، اس دل نے کیا آزار کیا
جوش رونے کا مجھے آیا ہے اب
دل نے کام کیے ہیں ضایع دلبر ہے دل خواہ بہت
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
ہم تو لبِ خوش رنگ کو اس کے مانا لعلِ احمر آج
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
ایک کو اندیشہ کار ایک کوہے فکرِ یار
جدائی تا جدائی فرق ہے ملتے بھی ہیں آکر
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل
حالِ فکرِ سخن میں کچھ نہ رہا
یارب اس محبوب کو پھر اک نظر دیکھیں گے ہم
جس کے تئیں پردا ہو کسی کی آنا جانا اس کا ہے
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں
دل کے گئے بیدل کہلاے اگے دیکھے کیا کیا ہوں
باغ میں جو ہم دیوانے سے جا نکلیں ہیں نالہ کناں
یوں ناکام رہیں گے کب تک ، جی میں ہے اک کام کریں
داغ فراق سے کیا پوچھو ہو آگ لگائی سینے میں
شعر ہمارے عالم کے ہر چار طرف کیا دوڑے ہیں
دل اس کے مو سے لگ کے پریشان ہوا نہ تو
جی کی لاگ بلا ہے کوئی دل جینے سے اٹھا بیٹھو
دستِ جنوں نے اب کے کپڑوں کی دھجیاں کیں
بے دل ہوئے بے دیں ہوے، بے وقرہم ات گت ہوے
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
عشق میں کھوئے جاؤ گے تو بات کی تہہ بھی پاؤ گے
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
کہہ صوفی چل مے خانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
آج ہمیں بے تابی سے ہی صبر کی دل سے رخصت تھی
لیا پوچھو ہو کیا کہیے میاں دل نے بھی کیا کام کیا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا
اب یاں سے ہم اٹھ جائیں گے خلقِ خدا ملکِ خدا
دل تڑپے ہے، جان کھپے ہے، حال جگر کا کیا ہوگا
عشق کیے پچھتاوے ہم تو دل نہ کسو سے لگا نا تھا
تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب
یارب کدھر گئے وے جو آدمی روش تھے
دل کے گئے بے کس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب
دل کی تہہ کی کہی نہیں جاتی، نازک ہیں اسرار بہت
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
کیا پوچھو ہو سانجھ تلک پہلو میں کیا کیا تڑپا ہے
وہ نو بادۂ گلشنِ خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
ابرِ سیہ قبلہ سے اٹھ کر آیا ہے مے خانے پر
نظر کیوں گئی رودمو کی طرف
مہر قیامت، چاہت آفت، فتنہ فساد بلا ہے عشق
کیا ہم میں رہا گردشِ افلاک
دل کی تڑپ نے ہلاک کیا ہے دھڑکے نے اس کے اڑائی خاک
صحرا کو جیسے کشادہ دامن ہم تم سنتے آتے ہیں
وہ نہیں ملتا ایک کسو سے مرتے ہیں اودھر جاجا لوگ
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
عشق ہمارے درپے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
ہر کوچے میں کھڑے رہ رہ کر ایدھر اودھر دیکھو ہو
پلکیں پھری ہیں ، کھنچی بھنویں ہیں، ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں
عشق کے دین اور مذہب میں مر جانا واجب آیا ہے
دل کی تہہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں
منہ کیے اودھر زرد ہوے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں
قالب میں جی نہیں ہے اس بن ہمارے گویا
کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجکو
صوفیا ں خم وا ہوے ہیں ہاے آنکھیں وا کرو
کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حدو حساب سے افزوں ہے
ہاے ستم، ناچار معیشت کرنی پڑی ہر خار کے ساتھ
گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں اہل نظر کی یکسر
رات کو تھا کعبے میں میں بھی شیخِ حرم سے لڑائی ہوئی
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
پتا پتا ، بوٹابوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جب جل گئے تب ان نے کینے کی ادا کی ہے
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
کیسا کیسا ہو کے جدا پہلو سے اس بن تڑپا ہے
عہد جنوں ہے موسم گل کا اور شگوفہ لایا ہے
کارِ عدالت شہر کا ہم کو اک دن دو دن ہو وے تو پھر
کیا کیا مکان شاہ نشیں تھے وزیر کے
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے، جان سے آخر سارے گئے
گرچہ نظر ہے پستِ پا پر لیکن قہر قیامت ہے
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزادی ہے
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم سے جدا ہوے ہیں
طرفہ خوش رو دمِ خوں ریز ادا کرتے ہیں
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
ہر چند جذبِ عشق سے تشریف یاں بھی لاے وہ
عشق میں ہم نے جاں کنی کی ہے
دل ہے میری بغل میں صد پارہ
اب نہ حسرت رہے گی مرنے تک
چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے
رباعیات
مثنوی در ہجو خانۂ خود
مسدس بہ طرزِ و اسوخت
مخمس در شہر کا ماحسب حالِ خود
مثنوی خواب و خیالِ میر
سر ورق
چند معروضات
تعارف
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دل بہم پہنچا بند میں تب سے سارا تن جلا
منہ تکا ہی کرےہے جس تس کا
ہمارے آگے ترا بج کسو نے نام لیا
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
سحر گہ عید میں دورِ سبو تھا
سب ہوے نادم پے تدبیر ہو جاتا سمیت
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
آئے ہیں میر منہ کو بنائے جفا سے آج
گل کی جفا بھی جانی، دیکھی وفائے بلبل
میں کون ہوں اے ہم نفسان سوختہ جاں ہوں
شیخ جی آؤ مصلیٰ گروِ جام کرو
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
کرو تو کل کہ عاشقی میں نہ یوں کروگے تو کیا کروگے
یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
ادھر سے ابر اٹھا کر جو گیا ہے
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
نکتہ مشتاق ویار ہے اپنا
دل کھو گیا ہوں میں نہیں دیوانہ پن کے بیچ
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
غافل ہیں ایسے سونے ہیں گویا جہاں کے لوگ
میر دریا ہے سنے شعرزبانی اس کی
کرتے ہیں جو کہ جی میں ٹھانے ہیں
یار بن تلخ زندگانی تھی
جنوں میں ساتھ تھا کل لڑکوں کا لشکر جہاں میں تھا
زار رکھا، بے حال رکھا، بے تاب رکھا، بیمار رکھا
اگر وہ ماہ نکل گھر سے ٹک ادھر آتا
فکر میں مرگ کے ہوں سردر پیش
دیکھو میں اپنی رات کو خوں ناب تھا سو تھا
نہ خوشہ یاں نہ دانہ یاں، جلانا گھاس کیا حاصل
تاچند دہ ستم کرے، ہم درگزر کریں
یہ سرا سونے کی جاگہہ نہیں بیدار ہو
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
وفاداری نے جی مارا ہمارا
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری، نیند نہیں آتی ہے رات
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
عشق کی چوٹیں پے درپے جو اٹھائی گئیں گھائل ہے دل
ناز کی کوئی یہ بھی ٹھسک ہے جی کا ہے کو کڑھاتے ہو
ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
جی رکا رکنے سے پرے کچھ تو
کیا کریں بے کس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم
سادے جتنے نظر آتے ہیں دیکھو تو عیار ہیں سب
منہ کئے اودھر زرد ہوے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں
حاکم شہر حسن کے ظالم کیوں کہ ستم ایجاد نہیں
دل کھلتا ہے وہاں حجتِ زندانہ جہاں ہو
عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں بتاتے رہو
گئے تھے سیرِ چمن کو اٹھ کر گلوں میں ٹک جی لگا نہ اپنا
دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
بس اب بن چکے روئے و موے سمن بو
مکتوب دیر بھیجا ہر دو طرف سے سادہ
ہم رو رو کے دردِ دل دیوانہ کہیں گے
جامہ مستیٔ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
منعم نے بنا ظلم کی رکھ، گھر تو بنایا
جس سرکو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
ہزار رنگ کھلے گا چمن کے ہیں شاہد
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
چمن میں ہم بھی زنجیر ی رہے ہیں
قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
سرسری تم جہان سے گزرے
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا
رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
کس کی مسجد، کیسے بت خانے کہاں کے شیخ و شاب
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت ہے
جی سدا ان ابرووں ہی میں رہا
ہوں رہ گزر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد
میر صاحب زمانہ نازک ہے
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
افسوس دے کہ منتظر اک عمر تک رہے
ہو آدمی اے چرخ، ترکِ گردشِ ایام کر
ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
حاصل بجز کدورت اس خاکداں سے کیا ہے
مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
مشکل ہے مٹ گئے ہوے نقشوں کی پھر نمود
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
مشہور ہیں دلوں کی مرے بے قرار یاں
جن کے لئے اپنے تویوں جان نکلتے ہیں
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
بار بار وعدوں کی راتیں آئیاں
آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یہاں
دن نہیں، رات نہیں، صبح نہیں، شام نہیں
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
ہم سے تو تم کو صد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
اب حال اپنا اس کے ہے دلخواہ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زبان
کل میر نے کیا کیا کی مے کےلیے بیتابی
آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت گر یہ
لاعلاجی ہے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جانہ تھی
آج کل بیقرار ہیں ہم بھی
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
رنح کھینچے تھے، داغ کھائے تھے
خوب ہی اے ابراک شب آؤ باہم رویئے
جوش دل آئے بہم دیدۂ گریان ہوئے
جب نام ترا لیجئے، تب چشم بھر آوے
حرم کو جایئے یا دیر میں بسر کریے
بندِ قبا کوخوباں جس وقت وا کریں گے
اے حب جاہ والو، جو آج تا جور ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زخموں پہ زخم جھیلے، داغوں پہ داغ کھائے
دیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علمِ تیر پھر
غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مرجائے
بیماررہے ہیں اس کی آنکھیں
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مرگئے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب، ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تسلی ان نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو
اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
مرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
پہنچا نہیں کیا سمع مبارک میں مرا حال
پرستش کی اتنی کہ اے بت تجھے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہئے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب
غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
برقع میں کیا چھپیں دے ہو ویں جنہوں کی یہ تاب
یاد ایّا مے کی ہنگامہ رہا کرتا تھا رات
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
جیسی عزت مرے دیوالوں کی امیروں میں ہوئی
سخت کرچی کیونکہ یک باری کریں ہم ترک شہر
دل کھو گیا ہوں میں نہیں دیوانہ پن کے بیچ
آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار
مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں اردیا کر
کیا لطف تھا کہ میکدے کی پشتِ بام پر
جنوں میں اب کی کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور شمنی کر
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
حال میرا شہر میں کہتے رہیں گے لوگ دیر
حال آں کہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
لیا چیرہ دستی سے گر میر سرتک
آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گر یہ ناک
تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ
کب تک رہیں گے پہلو لگاے زمیں سے ہم
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب وہاں عیاں نہیں
کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا
کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں
دم بدم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں
کس کنے جاؤں الٰہی کیا دوا پیدا کروں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرد لاتا نہیں ہرگز
عشق میں جی کو صبر وتاب کہاں
یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہو
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یہاں جو نثار کریں
باغِ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
کرتے ہیں جو کہ جی میں ٹھانے ہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
ہیں طالب سورت سبھی، مجھ پر ستم کیوں اس قدر
لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
ہر بات پر خشونت طرزِ جفا تو دیکھو
اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو
یہی مشہور عالم ہیں دو عالم
ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو
آزار کھینچنے کے مزے عاشقوں سے پوچھ
ہوے کیا کیا مقدس لوگ آوارہ ترے غم میں
اب جو نصیب میں ہے سو دیکھ لوں گا میں بھی
مستی ان آنکھوں سے نکلے ہے اگر دیکھو خوب
باغباں بے رحم، گل بے دیدہ، موسم بے وفا
آوے کہنے میں، رہا ہو غم سے گر احوالِ کچھ
دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ لانا بھی
دلیل اس بیاباں میں دل ہی ہے اپنا
ہیں بد مزاج خوباں پر کس قدر ہیں دلکش
بو کیے کمھلاے جاتے ہو، نزاکت ہاے رے
کعبے میں جاں بلب تھے ہم دوری بتاں سے
بے مہرو وفا ہے وہ، کیا رسم وفا جانے
کعبے گئے کیا کوئی مقصد کو پہنچتا ہے
اب تو ہم ہو چکتے ہیں ٹک تیرے ابرو خم ہوتے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
ان دلبروں کو دیکھ لیا،، بے وفا ہیں یے
ساکنِ دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے
میں اور تو ہیں دونوں مجبور طور اپنے
زلف ہی در ہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے
مستی میں جا وبے جا مدِ نظر کہاں ہے
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جادوی ہے
کیا حال بیاں کرے عجب طرح پڑی ہے
کہاں یارو قیس اب جو دنیا کرے ہے
کوفت سے جاں لب پہ آئی ہے
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
ربط دل کو اس بت بے مہر کینہ ور سے ہے
کارِ دل اس مہِ تمام سے ہے
دل اگر کہتا ہوں تو کہتا ہے وہ، یہ دل ہے کیا
ہر آن تھی سرگوشی یا بات نہیں گا ہے
بیتاب تہہِ تیغ ستم دیر رہا میں
پیش کچھ آؤ یہیں ہم تو ہیں ہر صورت سے
دل عجب شہر تھا خیالوں کا
شیون میں شب کے ٹوٹی زنجیر میر صاحب
شعر کے پردے میں میں نے عم سنایا ہے بہت
تجھ سے ہزار ان نے بنا کر دیئے بگاڑ
اے مرغِ چمن صبح ہوئی زمزمہ سرکر
نہ درد مندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
تھی جملہ تن لطافت عالم میں جا کے ہم تو
ہے یارِ دوش جس کے لئے زندگی سودہ
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
یاں آپ ہی آپ آکر گم آپ میں ہوے ہو
جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
گھر سے اٹھ کر کونے میں بیٹھا، بیت پڑھے دوباتیں کیں
کہتے ہیں بہار آئی، گل پھول نکلتے ہیں
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقشِ قدم یاں
شہروں ملکوں میں جو یہ میرکہاتا ہے میاں
اب کی ماہِ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
قتل کیے پر غصہ کیا ہے، لاش میر اٹھوانے دو
گردش میں وے مست آنکھیں ہیں جیسے بھر پیمانے دو
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
تم بن چمن کے گل نہیں چڑھتے نظر کبھو
آج ہمارا جی بے کل ہے تم بھی غفلت مت کریو
گرچہ شانِ کفر ارفع ہے ولے اے راہباں
نہ باتیں کرو سرگردانی کے ساتھ
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
دیکھیے کیا ہو سانجھ تلک احوال ہمارا ابتر ہے
کیسے نازو تبخیر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے
کیا کیا ہوے ہیں اہلِ زباں ڈھیرخاکِ کے
ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
بہار آئی نکالو مت مجھے اب کے گلستاں سے
مت رنج کھینچ مل کر ہشیار مرد ماں سے
قصر و مکاں و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے
دل کو گل گہتے تھے، درد و غم سے مرجھایا گیا
کرتا ہوں اللہ اللہ، درویش ہوں سدا کا
ہم کوے مغاں میں تھے ماہِ رمضاں آیا
خوب کیا جو اہلِ کرم کے جود کا کچھ نہ خیال کیا
آنکھیں لگی رہتی ہیں اکثر چاک قفس سے اسیروں کی
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا
راز کیا، بیمار کیا، اس دل نے کیا آزار کیا
جوش رونے کا مجھے آیا ہے اب
دل نے کام کیے ہیں ضایع دلبر ہے دل خواہ بہت
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
ہم تو لبِ خوش رنگ کو اس کے مانا لعلِ احمر آج
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
ایک کو اندیشہ کار ایک کوہے فکرِ یار
جدائی تا جدائی فرق ہے ملتے بھی ہیں آکر
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل
حالِ فکرِ سخن میں کچھ نہ رہا
یارب اس محبوب کو پھر اک نظر دیکھیں گے ہم
جس کے تئیں پردا ہو کسی کی آنا جانا اس کا ہے
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں
دل کے گئے بیدل کہلاے اگے دیکھے کیا کیا ہوں
باغ میں جو ہم دیوانے سے جا نکلیں ہیں نالہ کناں
یوں ناکام رہیں گے کب تک ، جی میں ہے اک کام کریں
داغ فراق سے کیا پوچھو ہو آگ لگائی سینے میں
شعر ہمارے عالم کے ہر چار طرف کیا دوڑے ہیں
دل اس کے مو سے لگ کے پریشان ہوا نہ تو
جی کی لاگ بلا ہے کوئی دل جینے سے اٹھا بیٹھو
دستِ جنوں نے اب کے کپڑوں کی دھجیاں کیں
بے دل ہوئے بے دیں ہوے، بے وقرہم ات گت ہوے
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
عشق میں کھوئے جاؤ گے تو بات کی تہہ بھی پاؤ گے
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
کہہ صوفی چل مے خانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
آج ہمیں بے تابی سے ہی صبر کی دل سے رخصت تھی
لیا پوچھو ہو کیا کہیے میاں دل نے بھی کیا کام کیا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا
اب یاں سے ہم اٹھ جائیں گے خلقِ خدا ملکِ خدا
دل تڑپے ہے، جان کھپے ہے، حال جگر کا کیا ہوگا
عشق کیے پچھتاوے ہم تو دل نہ کسو سے لگا نا تھا
تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب
یارب کدھر گئے وے جو آدمی روش تھے
دل کے گئے بے کس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب
دل کی تہہ کی کہی نہیں جاتی، نازک ہیں اسرار بہت
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
کیا پوچھو ہو سانجھ تلک پہلو میں کیا کیا تڑپا ہے
وہ نو بادۂ گلشنِ خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
ابرِ سیہ قبلہ سے اٹھ کر آیا ہے مے خانے پر
نظر کیوں گئی رودمو کی طرف
مہر قیامت، چاہت آفت، فتنہ فساد بلا ہے عشق
کیا ہم میں رہا گردشِ افلاک
دل کی تڑپ نے ہلاک کیا ہے دھڑکے نے اس کے اڑائی خاک
صحرا کو جیسے کشادہ دامن ہم تم سنتے آتے ہیں
وہ نہیں ملتا ایک کسو سے مرتے ہیں اودھر جاجا لوگ
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
عشق ہمارے درپے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
ہر کوچے میں کھڑے رہ رہ کر ایدھر اودھر دیکھو ہو
پلکیں پھری ہیں ، کھنچی بھنویں ہیں، ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں
عشق کے دین اور مذہب میں مر جانا واجب آیا ہے
دل کی تہہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں
منہ کیے اودھر زرد ہوے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں
قالب میں جی نہیں ہے اس بن ہمارے گویا
کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجکو
صوفیا ں خم وا ہوے ہیں ہاے آنکھیں وا کرو
کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حدو حساب سے افزوں ہے
ہاے ستم، ناچار معیشت کرنی پڑی ہر خار کے ساتھ
گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں اہل نظر کی یکسر
رات کو تھا کعبے میں میں بھی شیخِ حرم سے لڑائی ہوئی
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
پتا پتا ، بوٹابوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جب جل گئے تب ان نے کینے کی ادا کی ہے
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
کیسا کیسا ہو کے جدا پہلو سے اس بن تڑپا ہے
عہد جنوں ہے موسم گل کا اور شگوفہ لایا ہے
کارِ عدالت شہر کا ہم کو اک دن دو دن ہو وے تو پھر
کیا کیا مکان شاہ نشیں تھے وزیر کے
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے، جان سے آخر سارے گئے
گرچہ نظر ہے پستِ پا پر لیکن قہر قیامت ہے
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزادی ہے
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم سے جدا ہوے ہیں
طرفہ خوش رو دمِ خوں ریز ادا کرتے ہیں
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
ہر چند جذبِ عشق سے تشریف یاں بھی لاے وہ
عشق میں ہم نے جاں کنی کی ہے
دل ہے میری بغل میں صد پارہ
اب نہ حسرت رہے گی مرنے تک
چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے
رباعیات
مثنوی در ہجو خانۂ خود
مسدس بہ طرزِ و اسوخت
مخمس در شہر کا ماحسب حالِ خود
مثنوی خواب و خیالِ میر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔