سر ورق
فہرست
بنام عباس تابش
تمھید
عباس تابش
حمدیہ
کھڑی ہیں رہ میں درودوں کی ڈالیاں لے کر
باغ جناح
پسِ دعا نہ رہیں کیو اداسیاں میری
میں اس کی آہٹیں چن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں
تیری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھنا بھی اکارت گیا
نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے
ابھی سے لائے ہو کیوں دل کی راہ پر اس کو
احمد ندیم قاسمی کے لئے ایک نظم
چشمِ نم دیدہ سہی خطۂ شاداب مرا
چراغ صبح جلا کوئے ناشناسی میں
چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظرِ خواب میں چپ
کس دستِ کماں دار کی تدبیر سے پہنچا
انسان تھا آخر تو مرا رب تو نہیں تھا
راتیں گزارنے کو تری رہگزر کے ساتھ
اسے میں نے دیکھا نہیں
یہ دن بھی تمام کررہا ہوں
نوچکے سارے پھول طلب کے آس کی شاخیں توڑ کے
اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں
فقط مال و زرِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے
خالد احمد کے لئے ایک نظم
اسی لئے تو یہ شامیں اجڑنے لگتی ہیں
سانس کے ہمراہ شعلے کی لپک آنے کو ہے
اب یہ لاشیں کسی محمل پہ نہ لادی جائیں
نکلو نہ ابھی پھول سی پوشاک پہن کر
درِ افق پہ رقم روشنی کا باب کریں
میں اس کی راہ میں جب مثلِ رہگزر بیٹھا
خود کلامی
ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
یہ واہمے بھی عجب بام و در بناتے ہیں
پروں میں شامل ڈھلتی ہے
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ
عجب سودائے وحشت ہے دلِ خود سر میں رہتاہے
یہ تو نہیں فرہاد سے یاری نہیں رکھتے
پاگل
یوں تو شیرازۂ جاں کرکے بہم اٹھتے ہیں
مرےبند میں لہو کا کٹاؤ ایسا تھا
دریا کی طرح جاری و ساری بھی نہیں ہم
ادھوری نظم
بچھڑکے ہم سے جوکھوئے گئے ہیں راہ کے بیچ
صبح دم بھی صبح کا منظر کہاں ہے سامنے
کچھ حجتِ خمار کا اتمام ہی سہی
رمز گر بھی گیا، رمز داں بھی گیا
وحشتوں میں چاک سا چکر کہاں
اب بھی نہ بولنے کے آثار تو نہیں ہیں
دل دکھوں کے حصار میں آیا
بدن کے چاک پر ظرفِ نموتیار کرتا ہوں
پکڑا ہے کوئی ہاتھ نہ دھرتی میں گڑے ہیں
یہ ہم جو رنج بصوتِ ہزار کھینچتے ہیں
تیئسویں سالگرہ پر ایک نظم
یہ ہم کون سی دنیا کی دھن آوارہ رکھتی ہے
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
چوبی رخنوں سے چھنتی رہی روشنی وہ دریچہ کھلا اس دفعہ بھی نہیں
یہی تو ایک خوش فہمی مجھے حیران رکھتی ہے
یہ کس خیال میں کیا پیڑ پر کرید گیا
نیند کا ایک عالمِ اسباب اور ہے
یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں
ابھی اس کی ضرورت تھی
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
یہ کرشمے بھی ہوئے حسن کی بوچھار سے
دشتِ حیرت میں سبیل تشنگی بن جایئے
یوں تو ہر شخص عبادت کے عمل سے نکلا
اندیشۂ وصال کی ایک نظم
یہ سب میسر و موجود کا گماں ہی نہ ہو
جھلمل سے کیا ربط نکالیں کشتی کی تقدیروں کا
کوئی اندیشہ تہِ محراب بھی میرا نہیں
نگاہ اولیں کا ہے تقاضا دیکھتے رہنا
مجھے رستہ نہیں ملتا
تہمت لگا کے کام کی خوئے خمارپر
گزرے ہوئے دنوں کا خیال آگیا تو بس
براہِ سیر تماشائے صد جنوں ہی سہی
بدن دریدہ غموں سے نڈھال رقص میں ہے
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا
ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے
چیز دونوں کو حسب ہنر چاہئے
مجھ تہی جاں سے تجھے انکار پہلے تو نہ تھا
چاند نے ابر میں چہرے کو چھپا رکھا ہے
گرفت خاک
ٹکرائیں گے پتھر سے گر انبار چلیں گے
آسمان
سخن سرائے سے ایک خط
جانے والے نے کہا جی کو برا مت کیجئے
سکوتِ دہر رگوں تک اتر گیا ہوتا
خواہش وصل سرِ دیدۂ نم رہ جائے
شام ہوتی ہے تو یاد اس کو بھی گھر آتاہے
یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتاہے
عشق ہی کار مسلسل ہو گیا
مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے
طلسمِ خواب سے میرا بند پتھر نہیں ہوتا
خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خود داری کے موسم میں
ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمہاری تھی
کبھی فصیل سے باہر کبھی فصیل کے بیچ
پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا
بیاں اپنی حقیقت کررہا ہوں
ہمیں تو خاک پہ حکم سفر دیا اس نے
کہیں چراغ کہیں چشمِ تر حوالہ ہے
یہ جو اس سے مجھے محبت ہے
اس کا خیال خواب کے در سے نکل گیا
دیوار ہے کسی کی دریچہ کسی کا ہے
پھر بھٹکتا پھر رہا ہوں ہجر موسم کے لئے
ساحلوں پر مثلِ گوہر پھینک دے
زمیں کے نیچے کوئی شے تھی آسماں کی طرح
تہمت اتار پھینی لبادہ بدل لیا
چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظرِ خواب میں چپ
دیوارِ پیش پا کا ہنر دے دیا گیا
میرے اندر خواہشیں پھرتی ہیں چوروں کی طرح
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے
جو کہہ چکے تھے تو پھرہمارا یہ حال ہونا تو چاہئے تھا
سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھاجائے
مٹی میں کوئی رنگ ملایا نہیں کرتے
آنکھ سے اشک نکلنے پہ پشیمان نہ ہو
شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
کون کہتا ہے محبت مرگئی
منحرف ہیں مرے ساتھی تو خدا ہی آئے
ایسا نہیں کہ پیاس کا صحرا نہیں ہوں میں
وہ آنے والا نہیں پھر بھی آنا چاہتاہے
جنہیں دشمن سمجھتے تھے وہی اپنے نکل آئے
یہ شہر روز ہی بستا ہے روز اجڑتا ہے
عجب سا ذائقہ ہوں میں
چاند چمکا جنگلوں پر آسماں کادر کھلا
پسِ غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
آسماں پہلے نہیں تھا بے ستوں
اک ٹہنی پر پھولے پھلے ہیں پاکستان اور میں
بے صدا ٹھہرے ہونٹ کھول کے ہم
کون کس کا ہے ہمسفر اے دوست
اس کی خواہش کروں تو یہ دھڑکا ملے
سکوتِ دہر رگوں تک اتر گیا ہوتا
وہ کون ہے جو پسِ چشمِ تر نہیں آتا
کھلا مہتاب بھی ٹوٹے ہوئے در کے حوالے سے
دشتِ جنون و کوہ ارادہ اٹھا لیا
دروازہ کھٹکنے کی صدا لے گئ گھر سے
اسی لئے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں
کون کہتاہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
اب پھول رفتنی نہیں خوشبو گزشتنی نہیں
وہ بھولتا ہے نہ دل میں اتارتا ہے مجھے
ڈھلتا سورج تو نہ ہاتھ آیا کہ لاتے اس کو
اس جہاں میں عجب نہیں کچھ بھی
ہاتھ تو اس نے بڑھایا مری جانب اپنا
دھندلی سمتوں میں اگر کونج کا پر مل جائے
میرے آنسو میرے اندر ہی گرے
وہ غزالوں کی طرح گھر سے تو نکلا تابش
بوئے موجود سے موہوم اشارے تک ہے
شام کا بھولا ہوا وقتِ سحر آجائے گا
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ رک گیا
یہ ہجر کا موسم بھی گزر کیوں نہیں جاتا
طلوعِ ہجر کی بستی میں چاند سا نکلے
گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا
جمالِ یار کی مشعل اٹھا کے دیکھتے ہیں
اس کو جا کر دیکھنا مصرف تو حیرانی کا ہے
کبھی نیندیں کبھی آنکھوںمیں پانی بھیج دیتا ہے
دباؤ جھیلنے والے دباؤ میں نہیں آتے
شامِ سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح
تو جو ہر بات پہ دیتا ہے پرندوں کی مثال
کہیں رستے میں پھینک آئے ہیں اپنی مشعلیں ہم لوگ
سنہرے خواب بنے، خاک سے نباہ کیا
چمکے گا شجر پر نہ مرے گھر میں رہے گا
واپسی
جی۔ سی میں نینا کے ساتھ پہلا دن
پرندوں اور درختوں کا ہمزاد
اداسی کی بے معنویت پر ایک نظم
محبت کا مرض تو اس نے لاحق کردیا ہم کو
برگد سے دشمنی کا موسم
محبت فقط لفظ ہے
کھوئی ہوئی نظم کی یاد میں
قمر بشیر کا نوحہ
شجر سے اترتی ہوئی ایک نظم
وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں
نارسائی کے ساحلوں پر مکاشفہ
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتاہے
آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جائیں
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتاتھا
عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی
اشک نکلے ہیں تعاقب کا بہانہ کرکے
لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطروں کو سائباں کیا
جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
جہانِ مرگِ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہوگیا ہے
شاخ پر پھول، فلک پر کوئی تارا بھی نہیں
اک پرندے نے مجھے اب یہ نصیحت کی ہے
میں ذرہ ہوں کہ نا ذرہ بہت ہوں
اگر یہاں کوئی چشمہ کبھو نکلتا ہے
اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ
ہم جو آس پاس اس کے یوں ہی پھرتے رہتے ہیں
پسِ غبار مدد مانگتے ہیں پانی سے
حسابِ بیش و کم کرنے کو کو ہوں تیار بسم اللہ
حرف و بیان و خواب و خبر خیریت سے ہیں
دل بستگئ شوق کے سامان بندے ہیں
چاند کو تالاب مجھ کو خواب واپس کردیا
عجیب طور کی ہے اب کے سرگردانی مری
ہوائے موسمِ گل سے لہو لہو تم تجھے
تیرے لئے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
ٹوٹ جانے میں کھلونوں کی طرح ہوتاہے
کسی برتن کی طرح توڑ دیا ہے اس نے
چلنا بیکار گیا وقت کی رفتار کے ساتھ
نہ تجھ سے ہے نہ گلہ آسمان سے ہوگا
کیسے برباد ہوا کیسے بتاؤں اس کو
دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں
ہم نے کہا نہیں تھا میاں پیار مت کرو
خمار خانۂ وحشت سے میں نہیں آیا
صبح کی پہلی کرن پہلی نظر سے پہلے
اب وہ صورت ہے نہ وہ عکس گری ہے مجھ میں
غرق شہروں کی کہانی اور ہے
شعر لکھنے کا فائدہ کیا ہے
سمجھ میں کوئی مثال آئے تو آنے دینا
سکوتِ نیم شبی سن کے ڈر گئے ہم بھی
اس دل کو تسلی ہوئی دلگیر سے لگ کر
گدائے حرف ہیں، شام و سحر تسبیح کرتے ہیں
کس کر باندھی گئی رگوں میں دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
خوشی سنبھالنے کا انتظام کر دے گا
لہو لہو ہیں مگر یہاں ہم یہ جاننے کو رکے ہوئے ہیں
مسافرت میں شبِ دغا تک پہنچ گئے ہیں
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
نمودِ خواب و خواہش ہورہی ہے
یہ جو نشہ سا طاری ہے طاری رہے رقص جاری رہے
قدم میں گھر سے نکالوں تو گھر بھی جاتا ہے
جس طرح رنج میں آنکھوں کی نمی کا ہونا
دریا کی روانی ہے روانی کے علاوہ
تھکن سے مے کشید نے کا اہتمام کر لیا
مشقِ گریہ پہ خفا کس لئے تو ہوتاہے
کھا کے سوکھی روٹیاں پانی کے ساتھ
جب مجنوں سا چاہنے والا ہوتاہے
فریبِ ہجر میں کیا کیا دکھائی دیتاہے
نیا پرندہ قفس سے باہر بنا رہا ہوں
زخم چھپانے کو ہم خلعت مانگتے ہیں
زمیں پہ نصف النہار کا وقت ہو گیا ہے
یہ ہم جو ہجر میں اس کا خیال باندھتے ہیں
کوئی خوابِ خبر آثار دیکھیں
کس نے ہونا ہے مری ذات میں جتنے تم ہو
ٹوٹی پڑی ہے موج بھی پتوار کی طرح
یہ اچانک جو سکوں سا آیا
اس عہدِ بے خمار میں بادل کہاں سے لائیں
اس قیامت میں گھنے اظہار کی توفیق دے
نہ اہل تخت نہ ان کے مخالفین کے ساتھ
یہ جو بے وقت صبح یابی ہے
یہ ان دنوں کا ذکر ہے اک بادشاہ تھا
اب کے پتہ چلے گا ہمارے غنیم کو
کیسا رنگ و روشنی کا قہر ہے
میں اور کھاؤں موسمِ تعزیر کی قسم
سرخ مٹی ہے کہ انجامِ سفر محفوظ ہے
الفاظ بادشاہ کے ، لہجہ فقیر کا
لفظ میں شکل سی ابھر آئی
جب کہا دل نے کہ باہر کی طرف
شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
میرا رنجِ مستقل بھی جیسے کم سا ہوگیا
پروں میں شامل ڈھلتی ہے
سبز گنبد کی جھلک دیدۂ تر سے آگے
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
تیرے گمنا م اگر نام کمانے لگ جائیں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اندر کو بہتی آنکھ سے کٹتا تو میں بھی ہوں
دمِ سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
دن نکلتا تو کہیں شور مچانے جاتا
ساری دنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
جمالِ یار کا کیا خوش بھی ہے اداس بھی ہے
تو ہمارے نام سے ویسے بھی جانا جائے ہے
کم سخن ہیں پسِ اظہار ملے ہیں تجھ سے
کر رہی تھی درختوں سے پتوں کو جس دم ہوا الوداع
ہمارے دکھ نہ کسی طور جب ٹھکانے لگے
بادباں کب کھولتا ہوں پارکب جاتا ہوں میں
ہم تیری دھن میں تیرے مقابل سے آئے ہیں
اتنا آساں نہیں مسند پہ پٹھایا گیا میں
مطلع خواب نہ یادوں کی دھنک ہے مجھ میں
سورج کا میرے حجرۂ غم میں گزر گہاں
چاند نے جھک کے یہ پوچھا ہوگا
آیا نہیں سخن میں وہ جانِ سخن تمام
کچھ تعلق نہ رہے دشت و دمن سے اپنے
جمالِ خوش دکھاتا ہے اثر آہستہ آہستہ
محفلِ شب سے نکل کر میں سحر میں رہ گیا
ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں
وہ جو جگنوؤں کے تھے قافلے مری شام شام بنا گئے
مری عمر گزشتہ کا خسارہ پوچھتے ہیں
کوئی رسہ گرے گا یا بدن اپنا اچھالوں گا
تیرا ہو کر کوئی کب تیرے سوا ہوتا ہے
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
یو ں ہی ممکن ہے یہ وقت آنکھ میں پانی ہو جائے
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
جوڑ لوں گا یہ جو دل ٹوٹا ہوا رکھتا ہوں میں
کہیں خوشبو کہیں جگنو، کہیں میں کہیں تو نکلتے ہیں
شکستگی مری تقدیر کرنا چاہتے ہیں
یہاں کے عہدہ و منصب قبول کرتے ہوئے
اب پرندوں کی یہاں نقل مکانی کم ہے
یو ں ہی پہچان کی ذلت سے نکل کر دیکھوں
دیکھئے سختی کشاں! ہجرت ابھی واجب نہیں
کیا کہوں اس نے تجھے کتنا حسیں پیدا کیا
جب رہائی کی یہی تدبیر باقی رہ گئی
شہرِ گریہ کے مکینوں کی طرح سوچتے ہیں
یوں خود سے الگ سایۂ دیوار میں رہتا
لوٹ جائیں یا ترا پیچھا کریں
یوں بھی عذابِ ہجر سے میں نے گزر کیا
مرمر کے جیے جانے کی مشکل نہیں سمجھا
یہ دل تو روز سرِ چشمِ تر چلا جائے
تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے
یاد بھی آئی سمندر کی ہوا بھی آئی
تم دل کو کبھی گھر کے دریچے میں نہ رکھنا
نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے
مسئلے عشق کے طے کرتا ہے شمشیر کے ساتھ
چاند کو ہم جو سرِ نخلِ گماں جانتے ہیں
چاند نکلے اور اس کی عزت افزائی نہ ہو
جب اپنی اپنی محرومی سے ڈر جاتے تھے ہم دونوں
وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے
چھونے میں لطف ہے نہ اسے دیکھنے میں ہے
خیال و خواب و خبر کے لئے سلام و دعا
مٹی کی محبت میں گرفتار پرندے
کب چاند سرِ فلک رہا ہے
خمارِ خواب نہ رقصِ وصال ہے بابا
دم میں جی اٹھنا مرا دم میں فنا ہو جانا
پاؤں پڑتا ہوا رشتہ نہیں دیکھا جاتا
اس شہر میں ٹھہرنے کا ڈھونڈیں بہانہ کیا
یاد کرکے اسے وقت گزارا جائے
گھر میں رہ کر بھی مرے گھر کا مقفل ہونا
کوفۂ شک نہ کسی دشت بلا کی جانب
غزل ذریعۂ اظہارِ بے دلا تجھ سے
رقصِ درویش
اقلیم ولایتیں اور سرخ خیمہ
یہ کناراہے بہت میرے سفینے کےلئے
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
یہ ہم جو تجھ سے تری بات کرنا چاہتے ہیں
شامل مرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو
مانا کہ جنگ ہونے کا امکان تو گیا
یار سے کوئی تعلق نہ غمِ یار کے ساتھ
اسی لئے تو اندھیرے بھی کم نہیں ہوتے
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لئے
یہ ہم جو تجھ سے تجھے بار بار مانگتے ہیں
غلط کہا کہ دہن کا رفو ضروری ہے
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتاہے
دھوپ ہوں پرچھائیں ہوں یا کوئی بادل ہوں
وہی میں اور وہی زخمِ زیاں ہے کہ جو تھا
بوئے گل بن کے سرِ دوشِ ہوا رہتے ہیں
تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں
تو اشک دل پہ گراتے جگر لہو کرتے
یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں
اہلِ منصب ہیں نہ ہم لوگ ہنر والے ہیں
عادی جو ترے طعنہ و دشنام کے ہوتے
عشق زادوں کے لہو کا یہ اثر لگتا ہے
کیوں نہ رکتا میں شامِ رخصت میں
اِک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا
مہکنے کی تمنا میں ہوا ہونے سے ڈرتے ہیں
اسی خاطر ترے غم کا کوئی ہم قد نہیں ہوتا
ہم جو پلک پلک سے لگا دیکھتے ہیں
محدود خود کو کیوں کرے تیرے جمال تک
یہ روشنی سی مرے دل کے روبرو کیا ہے
میں اپنے عشق کو خوش اہتمام کرتا ہوا
یونہی منزل بہ منزل سب کسی غیبی اشارے تک
اقبال مظفر کے لئے
کھل اٹھا دل صورتِ شاخِ وصال اس کے لئے
یوں ہی نہیں یہ آگ مرے گھر لگی ہوئی
غرور و کذب و ریا کل من علیھا فان
یوں بھی کشکول کیا تیرے گدا نے خالی
یہ دیکھ مرے نقشِ کف پا مرے آگے
ہم خستگاں کی اتنی حقیقت ہے اور بس
اِک جیسی زندگی کو کتنا بسر کریں گے
ایسے تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
اسی سبب سے یہاں احترام میرا ہے
عکس اپنا دیکھنا تو مسئلہ میرا بھی ہے
اب محبت نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
کنجِ غزل نہ قیس کا ویرانہ چاہیے
حجرۂ جاں ہے بے اماں میرے لئے دعا کرو
یافت کے شہر میں نایاب کے مارے ہوئے لوگ
یوں بچایا ہے مجھے مجھ سے خدا نے میرے
طلسمِ ظلمتِ شب کا ازالہ کیا کرتا
تو نے ویسے بھی مرے دل سے نکل جانا تھا
اور تو کچھ بھی نہیں گردِ سفر حاضر ہے
ہر قدم پر شکار ہے اپنا
زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبیعت لائی
اپنی حالت پہ اگر حالتِ دنیالکھیں
گمانِ بدگمانی کارگر جانے کے موسم میں
خود کو پاتا ہوں سرِ بابِ دعا مشکل کے وقت
یہ جو دل روز کوئی اور کہانی مانگے
تسلی دے کے مرا صبر آزمانا مت
کوئی حل ایسا کہ جس سے مسئلہ قائم رہے
انگلیاں اٹھتی تھیں دریوزہ گری پر کیا کیا
حالتِ رنج میں پتھر ہے نہ پتھر تک ہے
ہوا کے ہاتھ لگ کر میں بکھر تھوڑی گیا ہوں
کیا دیکھنا جہانِ دگر دیکھنے کے بعد
یہ اشکوں کی روانی کیا کروں میں
کسی کو آنکھ لے بیٹھی کسی کو تل پسند آیا
دو شعر
جلا رہے گا اک دیا بجھے دیوں کے درمیاں
ملے ہیں آپ تو کیا ہے اگر خدا نہ ملا
اب سمجھ آیا ہمیں دیر میں آنا دل کا
بور اٹھایا آنکھ نے راگ چھڑا ملہار کا
دیکھ قیامت قامتی پھرتی وہ دل تھامتی
تو نے تو مجھ کو کہیں کا نہ زمانے رکھا
سر ورق
فہرست
بنام عباس تابش
تمھید
عباس تابش
حمدیہ
کھڑی ہیں رہ میں درودوں کی ڈالیاں لے کر
باغ جناح
پسِ دعا نہ رہیں کیو اداسیاں میری
میں اس کی آہٹیں چن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں
تیری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھنا بھی اکارت گیا
نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے
ابھی سے لائے ہو کیوں دل کی راہ پر اس کو
احمد ندیم قاسمی کے لئے ایک نظم
چشمِ نم دیدہ سہی خطۂ شاداب مرا
چراغ صبح جلا کوئے ناشناسی میں
چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظرِ خواب میں چپ
کس دستِ کماں دار کی تدبیر سے پہنچا
انسان تھا آخر تو مرا رب تو نہیں تھا
راتیں گزارنے کو تری رہگزر کے ساتھ
اسے میں نے دیکھا نہیں
یہ دن بھی تمام کررہا ہوں
نوچکے سارے پھول طلب کے آس کی شاخیں توڑ کے
اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں
فقط مال و زرِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے
خالد احمد کے لئے ایک نظم
اسی لئے تو یہ شامیں اجڑنے لگتی ہیں
سانس کے ہمراہ شعلے کی لپک آنے کو ہے
اب یہ لاشیں کسی محمل پہ نہ لادی جائیں
نکلو نہ ابھی پھول سی پوشاک پہن کر
درِ افق پہ رقم روشنی کا باب کریں
میں اس کی راہ میں جب مثلِ رہگزر بیٹھا
خود کلامی
ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
یہ واہمے بھی عجب بام و در بناتے ہیں
پروں میں شامل ڈھلتی ہے
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ
عجب سودائے وحشت ہے دلِ خود سر میں رہتاہے
یہ تو نہیں فرہاد سے یاری نہیں رکھتے
پاگل
یوں تو شیرازۂ جاں کرکے بہم اٹھتے ہیں
مرےبند میں لہو کا کٹاؤ ایسا تھا
دریا کی طرح جاری و ساری بھی نہیں ہم
ادھوری نظم
بچھڑکے ہم سے جوکھوئے گئے ہیں راہ کے بیچ
صبح دم بھی صبح کا منظر کہاں ہے سامنے
کچھ حجتِ خمار کا اتمام ہی سہی
رمز گر بھی گیا، رمز داں بھی گیا
وحشتوں میں چاک سا چکر کہاں
اب بھی نہ بولنے کے آثار تو نہیں ہیں
دل دکھوں کے حصار میں آیا
بدن کے چاک پر ظرفِ نموتیار کرتا ہوں
پکڑا ہے کوئی ہاتھ نہ دھرتی میں گڑے ہیں
یہ ہم جو رنج بصوتِ ہزار کھینچتے ہیں
تیئسویں سالگرہ پر ایک نظم
یہ ہم کون سی دنیا کی دھن آوارہ رکھتی ہے
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
چوبی رخنوں سے چھنتی رہی روشنی وہ دریچہ کھلا اس دفعہ بھی نہیں
یہی تو ایک خوش فہمی مجھے حیران رکھتی ہے
یہ کس خیال میں کیا پیڑ پر کرید گیا
نیند کا ایک عالمِ اسباب اور ہے
یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں
ابھی اس کی ضرورت تھی
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
یہ کرشمے بھی ہوئے حسن کی بوچھار سے
دشتِ حیرت میں سبیل تشنگی بن جایئے
یوں تو ہر شخص عبادت کے عمل سے نکلا
اندیشۂ وصال کی ایک نظم
یہ سب میسر و موجود کا گماں ہی نہ ہو
جھلمل سے کیا ربط نکالیں کشتی کی تقدیروں کا
کوئی اندیشہ تہِ محراب بھی میرا نہیں
نگاہ اولیں کا ہے تقاضا دیکھتے رہنا
مجھے رستہ نہیں ملتا
تہمت لگا کے کام کی خوئے خمارپر
گزرے ہوئے دنوں کا خیال آگیا تو بس
براہِ سیر تماشائے صد جنوں ہی سہی
بدن دریدہ غموں سے نڈھال رقص میں ہے
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا
ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے
چیز دونوں کو حسب ہنر چاہئے
مجھ تہی جاں سے تجھے انکار پہلے تو نہ تھا
چاند نے ابر میں چہرے کو چھپا رکھا ہے
گرفت خاک
ٹکرائیں گے پتھر سے گر انبار چلیں گے
آسمان
سخن سرائے سے ایک خط
جانے والے نے کہا جی کو برا مت کیجئے
سکوتِ دہر رگوں تک اتر گیا ہوتا
خواہش وصل سرِ دیدۂ نم رہ جائے
شام ہوتی ہے تو یاد اس کو بھی گھر آتاہے
یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتاہے
عشق ہی کار مسلسل ہو گیا
مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے
طلسمِ خواب سے میرا بند پتھر نہیں ہوتا
خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خود داری کے موسم میں
ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمہاری تھی
کبھی فصیل سے باہر کبھی فصیل کے بیچ
پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا
بیاں اپنی حقیقت کررہا ہوں
ہمیں تو خاک پہ حکم سفر دیا اس نے
کہیں چراغ کہیں چشمِ تر حوالہ ہے
یہ جو اس سے مجھے محبت ہے
اس کا خیال خواب کے در سے نکل گیا
دیوار ہے کسی کی دریچہ کسی کا ہے
پھر بھٹکتا پھر رہا ہوں ہجر موسم کے لئے
ساحلوں پر مثلِ گوہر پھینک دے
زمیں کے نیچے کوئی شے تھی آسماں کی طرح
تہمت اتار پھینی لبادہ بدل لیا
چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظرِ خواب میں چپ
دیوارِ پیش پا کا ہنر دے دیا گیا
میرے اندر خواہشیں پھرتی ہیں چوروں کی طرح
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے
جو کہہ چکے تھے تو پھرہمارا یہ حال ہونا تو چاہئے تھا
سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھاجائے
مٹی میں کوئی رنگ ملایا نہیں کرتے
آنکھ سے اشک نکلنے پہ پشیمان نہ ہو
شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
کون کہتا ہے محبت مرگئی
منحرف ہیں مرے ساتھی تو خدا ہی آئے
ایسا نہیں کہ پیاس کا صحرا نہیں ہوں میں
وہ آنے والا نہیں پھر بھی آنا چاہتاہے
جنہیں دشمن سمجھتے تھے وہی اپنے نکل آئے
یہ شہر روز ہی بستا ہے روز اجڑتا ہے
عجب سا ذائقہ ہوں میں
چاند چمکا جنگلوں پر آسماں کادر کھلا
پسِ غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
آسماں پہلے نہیں تھا بے ستوں
اک ٹہنی پر پھولے پھلے ہیں پاکستان اور میں
بے صدا ٹھہرے ہونٹ کھول کے ہم
کون کس کا ہے ہمسفر اے دوست
اس کی خواہش کروں تو یہ دھڑکا ملے
سکوتِ دہر رگوں تک اتر گیا ہوتا
وہ کون ہے جو پسِ چشمِ تر نہیں آتا
کھلا مہتاب بھی ٹوٹے ہوئے در کے حوالے سے
دشتِ جنون و کوہ ارادہ اٹھا لیا
دروازہ کھٹکنے کی صدا لے گئ گھر سے
اسی لئے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں
کون کہتاہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
اب پھول رفتنی نہیں خوشبو گزشتنی نہیں
وہ بھولتا ہے نہ دل میں اتارتا ہے مجھے
ڈھلتا سورج تو نہ ہاتھ آیا کہ لاتے اس کو
اس جہاں میں عجب نہیں کچھ بھی
ہاتھ تو اس نے بڑھایا مری جانب اپنا
دھندلی سمتوں میں اگر کونج کا پر مل جائے
میرے آنسو میرے اندر ہی گرے
وہ غزالوں کی طرح گھر سے تو نکلا تابش
بوئے موجود سے موہوم اشارے تک ہے
شام کا بھولا ہوا وقتِ سحر آجائے گا
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ رک گیا
یہ ہجر کا موسم بھی گزر کیوں نہیں جاتا
طلوعِ ہجر کی بستی میں چاند سا نکلے
گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا
جمالِ یار کی مشعل اٹھا کے دیکھتے ہیں
اس کو جا کر دیکھنا مصرف تو حیرانی کا ہے
کبھی نیندیں کبھی آنکھوںمیں پانی بھیج دیتا ہے
دباؤ جھیلنے والے دباؤ میں نہیں آتے
شامِ سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح
تو جو ہر بات پہ دیتا ہے پرندوں کی مثال
کہیں رستے میں پھینک آئے ہیں اپنی مشعلیں ہم لوگ
سنہرے خواب بنے، خاک سے نباہ کیا
چمکے گا شجر پر نہ مرے گھر میں رہے گا
واپسی
جی۔ سی میں نینا کے ساتھ پہلا دن
پرندوں اور درختوں کا ہمزاد
اداسی کی بے معنویت پر ایک نظم
محبت کا مرض تو اس نے لاحق کردیا ہم کو
برگد سے دشمنی کا موسم
محبت فقط لفظ ہے
کھوئی ہوئی نظم کی یاد میں
قمر بشیر کا نوحہ
شجر سے اترتی ہوئی ایک نظم
وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں
نارسائی کے ساحلوں پر مکاشفہ
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتاہے
آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جائیں
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتاتھا
عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی
اشک نکلے ہیں تعاقب کا بہانہ کرکے
لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطروں کو سائباں کیا
جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
جہانِ مرگِ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہوگیا ہے
شاخ پر پھول، فلک پر کوئی تارا بھی نہیں
اک پرندے نے مجھے اب یہ نصیحت کی ہے
میں ذرہ ہوں کہ نا ذرہ بہت ہوں
اگر یہاں کوئی چشمہ کبھو نکلتا ہے
اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ
ہم جو آس پاس اس کے یوں ہی پھرتے رہتے ہیں
پسِ غبار مدد مانگتے ہیں پانی سے
حسابِ بیش و کم کرنے کو کو ہوں تیار بسم اللہ
حرف و بیان و خواب و خبر خیریت سے ہیں
دل بستگئ شوق کے سامان بندے ہیں
چاند کو تالاب مجھ کو خواب واپس کردیا
عجیب طور کی ہے اب کے سرگردانی مری
ہوائے موسمِ گل سے لہو لہو تم تجھے
تیرے لئے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
ٹوٹ جانے میں کھلونوں کی طرح ہوتاہے
کسی برتن کی طرح توڑ دیا ہے اس نے
چلنا بیکار گیا وقت کی رفتار کے ساتھ
نہ تجھ سے ہے نہ گلہ آسمان سے ہوگا
کیسے برباد ہوا کیسے بتاؤں اس کو
دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں
ہم نے کہا نہیں تھا میاں پیار مت کرو
خمار خانۂ وحشت سے میں نہیں آیا
صبح کی پہلی کرن پہلی نظر سے پہلے
اب وہ صورت ہے نہ وہ عکس گری ہے مجھ میں
غرق شہروں کی کہانی اور ہے
شعر لکھنے کا فائدہ کیا ہے
سمجھ میں کوئی مثال آئے تو آنے دینا
سکوتِ نیم شبی سن کے ڈر گئے ہم بھی
اس دل کو تسلی ہوئی دلگیر سے لگ کر
گدائے حرف ہیں، شام و سحر تسبیح کرتے ہیں
کس کر باندھی گئی رگوں میں دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
خوشی سنبھالنے کا انتظام کر دے گا
لہو لہو ہیں مگر یہاں ہم یہ جاننے کو رکے ہوئے ہیں
مسافرت میں شبِ دغا تک پہنچ گئے ہیں
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
نمودِ خواب و خواہش ہورہی ہے
یہ جو نشہ سا طاری ہے طاری رہے رقص جاری رہے
قدم میں گھر سے نکالوں تو گھر بھی جاتا ہے
جس طرح رنج میں آنکھوں کی نمی کا ہونا
دریا کی روانی ہے روانی کے علاوہ
تھکن سے مے کشید نے کا اہتمام کر لیا
مشقِ گریہ پہ خفا کس لئے تو ہوتاہے
کھا کے سوکھی روٹیاں پانی کے ساتھ
جب مجنوں سا چاہنے والا ہوتاہے
فریبِ ہجر میں کیا کیا دکھائی دیتاہے
نیا پرندہ قفس سے باہر بنا رہا ہوں
زخم چھپانے کو ہم خلعت مانگتے ہیں
زمیں پہ نصف النہار کا وقت ہو گیا ہے
یہ ہم جو ہجر میں اس کا خیال باندھتے ہیں
کوئی خوابِ خبر آثار دیکھیں
کس نے ہونا ہے مری ذات میں جتنے تم ہو
ٹوٹی پڑی ہے موج بھی پتوار کی طرح
یہ اچانک جو سکوں سا آیا
اس عہدِ بے خمار میں بادل کہاں سے لائیں
اس قیامت میں گھنے اظہار کی توفیق دے
نہ اہل تخت نہ ان کے مخالفین کے ساتھ
یہ جو بے وقت صبح یابی ہے
یہ ان دنوں کا ذکر ہے اک بادشاہ تھا
اب کے پتہ چلے گا ہمارے غنیم کو
کیسا رنگ و روشنی کا قہر ہے
میں اور کھاؤں موسمِ تعزیر کی قسم
سرخ مٹی ہے کہ انجامِ سفر محفوظ ہے
الفاظ بادشاہ کے ، لہجہ فقیر کا
لفظ میں شکل سی ابھر آئی
جب کہا دل نے کہ باہر کی طرف
شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
میرا رنجِ مستقل بھی جیسے کم سا ہوگیا
پروں میں شامل ڈھلتی ہے
سبز گنبد کی جھلک دیدۂ تر سے آگے
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
تیرے گمنا م اگر نام کمانے لگ جائیں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اندر کو بہتی آنکھ سے کٹتا تو میں بھی ہوں
دمِ سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
دن نکلتا تو کہیں شور مچانے جاتا
ساری دنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
جمالِ یار کا کیا خوش بھی ہے اداس بھی ہے
تو ہمارے نام سے ویسے بھی جانا جائے ہے
کم سخن ہیں پسِ اظہار ملے ہیں تجھ سے
کر رہی تھی درختوں سے پتوں کو جس دم ہوا الوداع
ہمارے دکھ نہ کسی طور جب ٹھکانے لگے
بادباں کب کھولتا ہوں پارکب جاتا ہوں میں
ہم تیری دھن میں تیرے مقابل سے آئے ہیں
اتنا آساں نہیں مسند پہ پٹھایا گیا میں
مطلع خواب نہ یادوں کی دھنک ہے مجھ میں
سورج کا میرے حجرۂ غم میں گزر گہاں
چاند نے جھک کے یہ پوچھا ہوگا
آیا نہیں سخن میں وہ جانِ سخن تمام
کچھ تعلق نہ رہے دشت و دمن سے اپنے
جمالِ خوش دکھاتا ہے اثر آہستہ آہستہ
محفلِ شب سے نکل کر میں سحر میں رہ گیا
ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں
وہ جو جگنوؤں کے تھے قافلے مری شام شام بنا گئے
مری عمر گزشتہ کا خسارہ پوچھتے ہیں
کوئی رسہ گرے گا یا بدن اپنا اچھالوں گا
تیرا ہو کر کوئی کب تیرے سوا ہوتا ہے
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
یو ں ہی ممکن ہے یہ وقت آنکھ میں پانی ہو جائے
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
جوڑ لوں گا یہ جو دل ٹوٹا ہوا رکھتا ہوں میں
کہیں خوشبو کہیں جگنو، کہیں میں کہیں تو نکلتے ہیں
شکستگی مری تقدیر کرنا چاہتے ہیں
یہاں کے عہدہ و منصب قبول کرتے ہوئے
اب پرندوں کی یہاں نقل مکانی کم ہے
یو ں ہی پہچان کی ذلت سے نکل کر دیکھوں
دیکھئے سختی کشاں! ہجرت ابھی واجب نہیں
کیا کہوں اس نے تجھے کتنا حسیں پیدا کیا
جب رہائی کی یہی تدبیر باقی رہ گئی
شہرِ گریہ کے مکینوں کی طرح سوچتے ہیں
یوں خود سے الگ سایۂ دیوار میں رہتا
لوٹ جائیں یا ترا پیچھا کریں
یوں بھی عذابِ ہجر سے میں نے گزر کیا
مرمر کے جیے جانے کی مشکل نہیں سمجھا
یہ دل تو روز سرِ چشمِ تر چلا جائے
تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے
یاد بھی آئی سمندر کی ہوا بھی آئی
تم دل کو کبھی گھر کے دریچے میں نہ رکھنا
نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے
مسئلے عشق کے طے کرتا ہے شمشیر کے ساتھ
چاند کو ہم جو سرِ نخلِ گماں جانتے ہیں
چاند نکلے اور اس کی عزت افزائی نہ ہو
جب اپنی اپنی محرومی سے ڈر جاتے تھے ہم دونوں
وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے
چھونے میں لطف ہے نہ اسے دیکھنے میں ہے
خیال و خواب و خبر کے لئے سلام و دعا
مٹی کی محبت میں گرفتار پرندے
کب چاند سرِ فلک رہا ہے
خمارِ خواب نہ رقصِ وصال ہے بابا
دم میں جی اٹھنا مرا دم میں فنا ہو جانا
پاؤں پڑتا ہوا رشتہ نہیں دیکھا جاتا
اس شہر میں ٹھہرنے کا ڈھونڈیں بہانہ کیا
یاد کرکے اسے وقت گزارا جائے
گھر میں رہ کر بھی مرے گھر کا مقفل ہونا
کوفۂ شک نہ کسی دشت بلا کی جانب
غزل ذریعۂ اظہارِ بے دلا تجھ سے
رقصِ درویش
اقلیم ولایتیں اور سرخ خیمہ
یہ کناراہے بہت میرے سفینے کےلئے
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
یہ ہم جو تجھ سے تری بات کرنا چاہتے ہیں
شامل مرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو
مانا کہ جنگ ہونے کا امکان تو گیا
یار سے کوئی تعلق نہ غمِ یار کے ساتھ
اسی لئے تو اندھیرے بھی کم نہیں ہوتے
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لئے
یہ ہم جو تجھ سے تجھے بار بار مانگتے ہیں
غلط کہا کہ دہن کا رفو ضروری ہے
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتاہے
دھوپ ہوں پرچھائیں ہوں یا کوئی بادل ہوں
وہی میں اور وہی زخمِ زیاں ہے کہ جو تھا
بوئے گل بن کے سرِ دوشِ ہوا رہتے ہیں
تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں
تو اشک دل پہ گراتے جگر لہو کرتے
یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں
اہلِ منصب ہیں نہ ہم لوگ ہنر والے ہیں
عادی جو ترے طعنہ و دشنام کے ہوتے
عشق زادوں کے لہو کا یہ اثر لگتا ہے
کیوں نہ رکتا میں شامِ رخصت میں
اِک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا
مہکنے کی تمنا میں ہوا ہونے سے ڈرتے ہیں
اسی خاطر ترے غم کا کوئی ہم قد نہیں ہوتا
ہم جو پلک پلک سے لگا دیکھتے ہیں
محدود خود کو کیوں کرے تیرے جمال تک
یہ روشنی سی مرے دل کے روبرو کیا ہے
میں اپنے عشق کو خوش اہتمام کرتا ہوا
یونہی منزل بہ منزل سب کسی غیبی اشارے تک
اقبال مظفر کے لئے
کھل اٹھا دل صورتِ شاخِ وصال اس کے لئے
یوں ہی نہیں یہ آگ مرے گھر لگی ہوئی
غرور و کذب و ریا کل من علیھا فان
یوں بھی کشکول کیا تیرے گدا نے خالی
یہ دیکھ مرے نقشِ کف پا مرے آگے
ہم خستگاں کی اتنی حقیقت ہے اور بس
اِک جیسی زندگی کو کتنا بسر کریں گے
ایسے تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
اسی سبب سے یہاں احترام میرا ہے
عکس اپنا دیکھنا تو مسئلہ میرا بھی ہے
اب محبت نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
کنجِ غزل نہ قیس کا ویرانہ چاہیے
حجرۂ جاں ہے بے اماں میرے لئے دعا کرو
یافت کے شہر میں نایاب کے مارے ہوئے لوگ
یوں بچایا ہے مجھے مجھ سے خدا نے میرے
طلسمِ ظلمتِ شب کا ازالہ کیا کرتا
تو نے ویسے بھی مرے دل سے نکل جانا تھا
اور تو کچھ بھی نہیں گردِ سفر حاضر ہے
ہر قدم پر شکار ہے اپنا
زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبیعت لائی
اپنی حالت پہ اگر حالتِ دنیالکھیں
گمانِ بدگمانی کارگر جانے کے موسم میں
خود کو پاتا ہوں سرِ بابِ دعا مشکل کے وقت
یہ جو دل روز کوئی اور کہانی مانگے
تسلی دے کے مرا صبر آزمانا مت
کوئی حل ایسا کہ جس سے مسئلہ قائم رہے
انگلیاں اٹھتی تھیں دریوزہ گری پر کیا کیا
حالتِ رنج میں پتھر ہے نہ پتھر تک ہے
ہوا کے ہاتھ لگ کر میں بکھر تھوڑی گیا ہوں
کیا دیکھنا جہانِ دگر دیکھنے کے بعد
یہ اشکوں کی روانی کیا کروں میں
کسی کو آنکھ لے بیٹھی کسی کو تل پسند آیا
دو شعر
جلا رہے گا اک دیا بجھے دیوں کے درمیاں
ملے ہیں آپ تو کیا ہے اگر خدا نہ ملا
اب سمجھ آیا ہمیں دیر میں آنا دل کا
بور اٹھایا آنکھ نے راگ چھڑا ملہار کا
دیکھ قیامت قامتی پھرتی وہ دل تھامتی
تو نے تو مجھ کو کہیں کا نہ زمانے رکھا
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔