سرورق
بزم عشرت میں نئے رنگ کا ساماں دیکھا
راحت و عیش کا ساماں ہو مبارک تم کو
یہ مسند شاہی تمہیں سرکار مبارک
فہرست غزلیات
ردیف الف
خرمن جاں کے لئے برق ہے جلوہ تیرا
میں جو گھر سے طرف کوہ و بیاباں نکلا
ساقی نے مست نرگس مستانہ کر دیا
فصل گل آئی ہوا حال پریشان اپنا
چشمۂ فیض یہ جاری رہے قاتل تیرا
پائمالی کے تو لائق دل ناشاد نہ تھا
کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
یہ ستم مجھ کو نہ بھولے گا ستمگر تیرا
ہو کے میں تشنہ جگر تا در قاتل آیا
آب خنجر سے جو سیراب ہوا دل میرا
مجھ سے روٹھا ہے تو روٹھا رہے قاتل میرا
عہد شباب چشم زدن میں گزر گیا
ترک شراب کا مجھے برسوں اثر رہا
دل بسمل جو تپاں سینۂ بسمل میں رہا
کون سا دل نہیں اے یار نشانہ تیرا
در خواجہ پہ مجھے لے کے مقدر آیا
در شان حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ
کیا کہوں جلوہ گہہ یار سے کیونکر نکلا
ہمارے قتل سے قاتل سے خوب نام کیا
اس ادا سے وہ فتنہ گر نکلا
ناشاد رہ گیا نہ کوئی شاد رہ گیا
حرف شکوہ نہ زباں سے دل بسمل نکلا
نذر کرتا ہوں ابھی کاٹ کے میں سر اپنا
نباہ دیکھئے کیونکر ہو آشنائی کا
یہ گل کھلا ہے نیا باغ آشنائی کا
دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا
رک گیا چل کے ہاتھ قاتل کا
اٹھ گئے سن کے وہ گلہ دل کا
دیر میں آیا تو کیا قاصد شتاب آیا تو کیا
موسم گل میں عجب رنگ ہے میخانے کا
راز کھلتا نہیں میخوار پہ میخانے کا
نگاہ لطف و عنایت سے فیضیاب کیا
ظالم مری وفا کا یہ اچھا اصلا دیا
قاتل نے ہنس کے اور بھی مجھ کو لٹا دیا
مائل جوروستم وہ تب نادان نہ رہا
جمال ہوش ربا کاش وہ دکھاتا جا
مثل پروا نہ فدا ہر ایک کا دل ہو گیا
بسملوں میں کوئی نکلے گا نہ ہمسر میرا
شوخی نے دلربا کو دل آزار کر دیا
مقابل ناوک قاتل کے جب تک دل نہ ٹھہریگا
وہ کاش خنجر ابرو سے قتل کر جاتا
کربلا میں جو علی کا مہ انور آیا
بڑھ کے آغوش میں لیتا ہے ابھی دل اپنا
وہ رنگ ہے بہار میں جام شراب کا
اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
روشن صفت آمۂ جو دل نہیں ہوتا
داغ دل بن کے غم سید ابرار رہا
نیم بسمل جو مجھے چھوڑ کے قاتل جانا
حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
ترا جلوہ مجھے بیخود بنا جاتا تو کیا ہوتا
ناوک ناز کیا ادھر آیا
دل کے جانے کا الم کیوں مجھے قاتل ہوتا
ہے ستم ناز سے آنا سر مدفن تیرا
ردیف باے موحدہ
نالۂ دل نے دیا خنجر قاتل کا جواب
ردیف بائے فارسی
جابجا پھرتے ہو کیوں شمس و قمر کی صورت
کمال حسن سے لاکھوں میں انتخاب ہیں آپ
ردیف تاے فوقانی
ردیف تاے ہندی
خندگ ناز سے قاتل نے وہ لگائی چوٹ
مہرباں ہوکے ہوے آپ خفا کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
گلشن میں آگیا ہے جو وہ گلعذار آج
ردیف جیم عربی
ردیف حائے حطی
میرے پہلو سے نہ قاتل تیر کھینچ
ردیف جیم فارسی
نازک مزاج ہو نہ کوئی یار کی طرح
روتے روتے ہو گئے ہیں دیدۂ خونبار سرخ
ردیف خاے معجمہ
ردیف دال مہملہ
تشنہ کامی سے جلن دل میں ہے لب پر فریاد
ردیف دال ہندی
بیجا ہے یار الفت اغیار پر گھمنڈ
ہے طہرۂ زلف یار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف رائے مہملہ
ذبح کرنے میں کمی اوستم ایجاد نکر
عشق کے راز کو افشا دل ناشاد نہ کر
کچھ نظر ان کو نہیں اپنے پریشانوں پر
دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہوکر
ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
قہر ڈھاتی ہے ادا تیری ستمگر ہو کر
ناوک یار جو گزرا طرف دل ہو کر
اے مرے دست طلب یار کے دامن کو نہ چھوڑ
ردیف راے ثقیلہ
آپ بن ٹھن کے جو ہوتے ہیں خراماں ہر روز
ردیف زاے معجمہ
ردیف سین مہملہ
اس طرف تیر دو پیکاں ہے مرے قاتل کے پاس
ردیف شین معجمہ
مری نظر کو ہے اک غیرت قمر کی تلاش
تیغ قاتل میں اک ادا ہے خاص
ردیف صاد مہملہ
لیچل اس کوچے میں اے شوق گلستاں کے عوض
ردیف ضاد معجمہ
اچھا نہیں ہے ابرو دلبر سے ارتباط
ردیف طائے مہملہ
وصل سے ہے اگر حیا مانع
ردیف ظائے معجمہ
عشق میں دل کا ہے خدا حافظ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین معجمہ
سیر چمن سے ہے جو مرا یار باغ باغ
وہ آج گھر سے چلے ہیں مرے مکان کی طرف
ردیف فا
اہل محفل ہیں مے ہو شربا کے مشتاق
ردیف قاف
ردیف کاف عربی
نیم جاں ہو کے تڑپتے رہیں بسمل کب تک
میں رہوں عشق میں سرگشتۂ وحیراں کب تک
وہ خوشنما ہے ترے روے لاجواب کا رنگ
ردیف کاف فارسی
تم چارۂ جگر ہو تمہیں ہو دوائے دل
ردیف لام
ردیف میم
ردیف نون
کون سا وصف ترے ابرؤ ومژگاں میں نہیں
حسن یہ ہے کہ دلربا ہو تم
نگاہ ناز سے عشاق بسمل ہوتے جاتے ہیں
یا خدا درد محبت میں اثر ہے کہ نہیں
ساقیا دیر نہ کر کشتی مے لانے میں
درد دل لاکھ کہو ان پہ اثر کچھ بھی نہیں
صبر کی تاب اب اے تیغ مرے دل میں نہیں
عجیب رنگ کی مستی ہے چشم دلبر میں
میں کسی اور سے کیوںشکوۂ بیداد کروں
زخم کھا کر جو کرے شکر وہ بسمل میں ہوں
وہ دلبری کی نظر سے ادھر کو دیکھتے ہیں
غمزۂ یار یہ کہتا ہے کہ خنجر میں ہوں
سچ ہے کہ یار سا کوئی جادو نظر نہیں
اک برق وش کو دیکھ کے ہوں اضطراب میں
جن کا شہرہ تھا کبھی مصر کے بازاروں میں
کردے یہ خبر کوئی بت شوخ ادا کو
ردیف واؤ
دیتے ہی بنی جان ہمیں اس کی ادا کو
واے قسمت یہ ہوا عشق میں حاصل مجھ کو
میری آنکھوں سے مرے یار کا جلوا دیکھو
جب سے اے تیغ ادا دیکھو ادا چھوڑ گئی تو مجھ کو
بے پئے چین اب آتا نہیں دم بھر مجھ کو
کرتا ہوں یاد شام سے ابروئے یار کو
کیوں اشک نہ پیارا ہو مرے دیدۂ تر کو
نالہ کرنے کی نہ تھی عشق میں عادت مجھ کو
جان دیتا ہوں بڑے شوق سے قاتل تجھ کو
چین لینے نہیں دیتا دل ناداں مجھ کو
صاف کہتی ہے فتنہ گرتجھ کو
نیا عروج مبارک ہو جان جاں تجھ کو
ردیف ہائے ہوز
عشق کرنا تھا نہ تجھ کو نگو یار کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
تلوار کھچکے پنجۂ قاتل میں رہ گئی
نکلی نہ آہ منہ سے مرے دل میں رہ گئی
شب وعدہ عذر حنا ہو رہا ہے
ہم آغوش وہ مہ لقا ہو رہا ہے
دل جا رہا ہے چھوٹ کے زلف سیاہ سے
ہنستے تو ہیں گراکے وہ بجلی نگاہ سے
عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
مانا کہ ہے خو ان میں شوخی و شرارت کی
زلف لیلیٰ نہیں تو پھر کیا ہے
وہ شمع بھی تربت پہ جلانے نہیں دیتے
کیا ہوا گر برق دم خنجر کف قاتل میں ہے
مژدۂ دید مجھے دیدۂ تر دیتا ہے
اک سنگدل حسیں کو دلبر بنائیں گے
اک چلبلے حسیں کو دلبر بنائیں گے
کچھ غم عشق نے چھوڑا نہیں بسمل کے لیے
آج قسمت در خواجہ پہ مجھے لائی ہے
درشان حضرت خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ علیہ
صبا نے مجھ کو سنگھائی ہے جب سےبو تیری
ہر اک محفل میں ذکر نرگس مستانہ ہوتا ہے
دل صد چاک ہے موزوں غم جاناں کے لیے
جھومتا آج مرا مست شباب آتا ہے
دل جلے عشق کے ڈرتے نہیں جل جانے سے
جی میں آیا تھا کروں کچھ میں شکایت تیری
اڑتے ہیں ہوش ابرو دلبر کے سامنے
نگاہ تاک میں او بے وفا ہے کس کس کی
چلتے پھرتے جہاں نظر آئے
ان کے سب تیر دل میں در آئے
تیری چتوں کے شہیدوں میں یہ ناشاد بھی ہے
چل کے خنجر جو تراتا بہ گلو آتا ہے
اک ذرا سن تو سر قبر گزرنے والے
دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
یوں تو ممکن نہیں دم بھر دل بسمل ٹھہرے
ساقی بھی ہے چمن بھی ہے ٹھنڈی ہوا بھی ہے
بڑھ کے پتھر سے حسینوں کا جگر ہوتا ہے
تڑپا کے دل مرا نگہ یا ررہ گئی
ساقیا کیوں نہ ہوس ہو مجھے میخانے کی
فرقت میں بھی شگفتہ دل داغدار ہے
بدن میں دم نہ رگوں میں رہا لہو باقی
غیر کیا ناز اٹھائیں گے بہت مشکل ہے
نہ اشکوں سے گلہ مجھ کو نہ شکوہ آہ سوزاں سے
گرے تھے چند قطرے کون کے جو نوک مژگاں سے
دل میں آتا ہے کہ وہ سوئے جگر جاتا ہے
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
علاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لیے
کچھ لطف اٹھایا نہ ستمگر کے ستم سے
ملتی نہیں کچھ اہل چمن کی خبر مجھے
ہونے دے کامیاب دم امتحان مجھے
موسم گل ہے نہ رکھ قید میں صیاد مجھے
دل ہے ناوک کے لیے سینہ ہے خنجر کے لیے
کیا کہوں میں کہ ترے عشق میں کیا ہوتا ہے
کچھ عجب لطف ترا تیر نظر رکھتا ہے
محفل یار میں اب شرکب اغیار بھی ہے
بسمل نگاہ ناز سے دل بھی جگر بھی ہے
چھیڑنا خنجر قاتل کا مزا دیتاہے
آنکھ لڑتے ہیں ہی ہوا عشق کا آزار مجھے
دل ہے وہی کہ جس میں تری آرزو رہے
خنجر ناز و ادا سے نہ بچا دل کوئی
بے پیے کہتے ہیں سب رند مے آشام مجھے
جوش رونے کا غم سید ابرار میں ہے
ابتدا میں ہے یہ جفا تیری
خوب پردہ یہ نکالا ہے ستمگر تونے
گرچہ بیداد سے خالی نہیں دلبر کوئی
تیغ قاتل نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ملائیے نہ مجھے خاک میں خدا کے لیے
توبہ کرنے سے بدلتی نہیں عادت اپنی
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کرکے
کرکے وابستۂ گیسوئے پریشاں تونے
ساقیا تو جو اسے ہاتھ لگا دیتا ہے
تم جو کہتے ہو کہ دل کی مجھے پروا کیا ہے
لیجئے پھر اسی ظالم پہ طبیعت آئی
اشکوں نے گرکے خاک پہ مٹی خراب کی
اس قدر ظلم مناسب نہیں صیاد تجھے
بل ہے ابرو پہ لب پہ گالی ہے
حسن کہتا ہے دلربا تو ہے
تیغ ادا ملی ہے جو بیداد گر تجھے
حسن میں آفت جہاں تو ہے
تم بھی سر گرم ستم ہو فلک پیر بھی ہے
چھپنے والے تجھے خبر بھی ہے
میں اپنے ہوش میں اے فتنہ گر نہیں نہ سہی
زلف برہم ہے پھری جاتی ہے مژگاں ہم سے
یہی ارمان ہے ستمگر نہیں ارمان کوئی
بت ناداں تجھے خبر کیا ہے
لے اڑی پھر ہوس زلف گرہ گیر مجھے
زخم دل و جگر کا شکوہ کروں تو کس سے
ہائے شبیر نہ پائیں لب دریا پانی
تری صورت پہ صدقے خوش جمالی ہوتی جاتی ہے
ان حسینوں کی ادا طرفہ ادا ہوتی ہے
اسکو سمجھائیے کیونکر غم فرقت کیا ہے
وہ سروقد ہے سمن بر ہے گلعذار بھی ہے
نگہ ناز تری کہتی ہے قاتل مجھ سے
کہے بغیر ہے سب کیفیت عیاں میری
ساقیا صحبت دیرینہ جو یاد آتی ہے
جو رعب حسن سے خاموش ہے زباں میری
وہ الجھیں کیوں نہ آہوں سے وہ بگڑیں کیوں نہ شیون سے
کسی رشک پیر کا روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
چر کے دیتا ہے وہ مل کر کبھی کھچکر ہم سے
رہتی ہے بیخودی میں تری جستجو مجھے
مجھے جس دم خیال نرگس مستانہ آتاہے
اثر اتنا تو الٰہی مری فریاد کرے
عجب ادا سے چمن میں بہار آتی ہے
صبا لیے خبر وصل یار آتی ہے
نہ یہ جنوں تھا نہ اے دل یہ اضطراب مجھے
کرے گا سرخ رو کس کو جو اے خنجر رواں تو ہے
ابھی سے آفت جان ہے ادا ادا تیری
درد دے واقف نہ تھے غم سے شناسائی نہ تھی
یاس کا عالم نہ تھا یا بیکسی چھائی نہ تھی
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائیگی
کھینچئے تیغ اگر آپ ہیں ہمت والے
قطعۂ تاریخ تخت نشینی نواب میرعثمان علی خان بہادر
سہرا بتقریب جشن کتخدائی اعلی حضرت سلطان دکن
قطعۂ تاریخ ولادت نواب میر کاظم علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر رضا علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر عابد علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر حشمت علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر تقی علی خان بہادر
شکریۂ عطائے شمشیر و انگشتری
تاریخ عطائے شمشیر
گھڑی توڑا بٹن عطا فرمانے کا شکریہ
قطعۂ تاریخ عطاے انگشتری
شکریۂ عطائے انبہ
سہرا مع تاریخ بتقریب بسم اللہ خوانی نواب میر شجاعت علی خان
تہنیت جشن نوروز
دامن جو چھو لیا ہے کسی گلعذار کا
رونق افروزی سرکار در حمایت باغ واقع اورنگ آباد
تاریخ جشن سالگرہ مبارک
قطعۂ تاریخ عثمان ساگر
قطعہ تاریخ شکار شیر
مبارکباد جشن سالگرہ مبارب
قطعۂ تہنیت گلپوشی شہزادگان موصوف زاد عمرہما واقبالہما
قطعۂ تہنیت جشن سالگرہ نواب میر حمایت علی خان
قطعۂ تاریخ رحلت شہزادی یاورالنسابیگم
قطعۂ تاریخ افتتاح خلوت مبارک
قطعۂ تاریخ جشن کتخدائی ہمشیران بندگان عالی متعالی
قطعۂ تاریخ تہنیت دربار یادگار جلوس مبارک
قطعات تاریخ طبع جان سخن
سرورق
بزم عشرت میں نئے رنگ کا ساماں دیکھا
راحت و عیش کا ساماں ہو مبارک تم کو
یہ مسند شاہی تمہیں سرکار مبارک
فہرست غزلیات
ردیف الف
خرمن جاں کے لئے برق ہے جلوہ تیرا
میں جو گھر سے طرف کوہ و بیاباں نکلا
ساقی نے مست نرگس مستانہ کر دیا
فصل گل آئی ہوا حال پریشان اپنا
چشمۂ فیض یہ جاری رہے قاتل تیرا
پائمالی کے تو لائق دل ناشاد نہ تھا
کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
یہ ستم مجھ کو نہ بھولے گا ستمگر تیرا
ہو کے میں تشنہ جگر تا در قاتل آیا
آب خنجر سے جو سیراب ہوا دل میرا
مجھ سے روٹھا ہے تو روٹھا رہے قاتل میرا
عہد شباب چشم زدن میں گزر گیا
ترک شراب کا مجھے برسوں اثر رہا
دل بسمل جو تپاں سینۂ بسمل میں رہا
کون سا دل نہیں اے یار نشانہ تیرا
در خواجہ پہ مجھے لے کے مقدر آیا
در شان حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ
کیا کہوں جلوہ گہہ یار سے کیونکر نکلا
ہمارے قتل سے قاتل سے خوب نام کیا
اس ادا سے وہ فتنہ گر نکلا
ناشاد رہ گیا نہ کوئی شاد رہ گیا
حرف شکوہ نہ زباں سے دل بسمل نکلا
نذر کرتا ہوں ابھی کاٹ کے میں سر اپنا
نباہ دیکھئے کیونکر ہو آشنائی کا
یہ گل کھلا ہے نیا باغ آشنائی کا
دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا
رک گیا چل کے ہاتھ قاتل کا
اٹھ گئے سن کے وہ گلہ دل کا
دیر میں آیا تو کیا قاصد شتاب آیا تو کیا
موسم گل میں عجب رنگ ہے میخانے کا
راز کھلتا نہیں میخوار پہ میخانے کا
نگاہ لطف و عنایت سے فیضیاب کیا
ظالم مری وفا کا یہ اچھا اصلا دیا
قاتل نے ہنس کے اور بھی مجھ کو لٹا دیا
مائل جوروستم وہ تب نادان نہ رہا
جمال ہوش ربا کاش وہ دکھاتا جا
مثل پروا نہ فدا ہر ایک کا دل ہو گیا
بسملوں میں کوئی نکلے گا نہ ہمسر میرا
شوخی نے دلربا کو دل آزار کر دیا
مقابل ناوک قاتل کے جب تک دل نہ ٹھہریگا
وہ کاش خنجر ابرو سے قتل کر جاتا
کربلا میں جو علی کا مہ انور آیا
بڑھ کے آغوش میں لیتا ہے ابھی دل اپنا
وہ رنگ ہے بہار میں جام شراب کا
اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
روشن صفت آمۂ جو دل نہیں ہوتا
داغ دل بن کے غم سید ابرار رہا
نیم بسمل جو مجھے چھوڑ کے قاتل جانا
حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
ترا جلوہ مجھے بیخود بنا جاتا تو کیا ہوتا
ناوک ناز کیا ادھر آیا
دل کے جانے کا الم کیوں مجھے قاتل ہوتا
ہے ستم ناز سے آنا سر مدفن تیرا
ردیف باے موحدہ
نالۂ دل نے دیا خنجر قاتل کا جواب
ردیف بائے فارسی
جابجا پھرتے ہو کیوں شمس و قمر کی صورت
کمال حسن سے لاکھوں میں انتخاب ہیں آپ
ردیف تاے فوقانی
ردیف تاے ہندی
خندگ ناز سے قاتل نے وہ لگائی چوٹ
مہرباں ہوکے ہوے آپ خفا کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
گلشن میں آگیا ہے جو وہ گلعذار آج
ردیف جیم عربی
ردیف حائے حطی
میرے پہلو سے نہ قاتل تیر کھینچ
ردیف جیم فارسی
نازک مزاج ہو نہ کوئی یار کی طرح
روتے روتے ہو گئے ہیں دیدۂ خونبار سرخ
ردیف خاے معجمہ
ردیف دال مہملہ
تشنہ کامی سے جلن دل میں ہے لب پر فریاد
ردیف دال ہندی
بیجا ہے یار الفت اغیار پر گھمنڈ
ہے طہرۂ زلف یار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف رائے مہملہ
ذبح کرنے میں کمی اوستم ایجاد نکر
عشق کے راز کو افشا دل ناشاد نہ کر
کچھ نظر ان کو نہیں اپنے پریشانوں پر
دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہوکر
ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
قہر ڈھاتی ہے ادا تیری ستمگر ہو کر
ناوک یار جو گزرا طرف دل ہو کر
اے مرے دست طلب یار کے دامن کو نہ چھوڑ
ردیف راے ثقیلہ
آپ بن ٹھن کے جو ہوتے ہیں خراماں ہر روز
ردیف زاے معجمہ
ردیف سین مہملہ
اس طرف تیر دو پیکاں ہے مرے قاتل کے پاس
ردیف شین معجمہ
مری نظر کو ہے اک غیرت قمر کی تلاش
تیغ قاتل میں اک ادا ہے خاص
ردیف صاد مہملہ
لیچل اس کوچے میں اے شوق گلستاں کے عوض
ردیف ضاد معجمہ
اچھا نہیں ہے ابرو دلبر سے ارتباط
ردیف طائے مہملہ
وصل سے ہے اگر حیا مانع
ردیف ظائے معجمہ
عشق میں دل کا ہے خدا حافظ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین معجمہ
سیر چمن سے ہے جو مرا یار باغ باغ
وہ آج گھر سے چلے ہیں مرے مکان کی طرف
ردیف فا
اہل محفل ہیں مے ہو شربا کے مشتاق
ردیف قاف
ردیف کاف عربی
نیم جاں ہو کے تڑپتے رہیں بسمل کب تک
میں رہوں عشق میں سرگشتۂ وحیراں کب تک
وہ خوشنما ہے ترے روے لاجواب کا رنگ
ردیف کاف فارسی
تم چارۂ جگر ہو تمہیں ہو دوائے دل
ردیف لام
ردیف میم
ردیف نون
کون سا وصف ترے ابرؤ ومژگاں میں نہیں
حسن یہ ہے کہ دلربا ہو تم
نگاہ ناز سے عشاق بسمل ہوتے جاتے ہیں
یا خدا درد محبت میں اثر ہے کہ نہیں
ساقیا دیر نہ کر کشتی مے لانے میں
درد دل لاکھ کہو ان پہ اثر کچھ بھی نہیں
صبر کی تاب اب اے تیغ مرے دل میں نہیں
عجیب رنگ کی مستی ہے چشم دلبر میں
میں کسی اور سے کیوںشکوۂ بیداد کروں
زخم کھا کر جو کرے شکر وہ بسمل میں ہوں
وہ دلبری کی نظر سے ادھر کو دیکھتے ہیں
غمزۂ یار یہ کہتا ہے کہ خنجر میں ہوں
سچ ہے کہ یار سا کوئی جادو نظر نہیں
اک برق وش کو دیکھ کے ہوں اضطراب میں
جن کا شہرہ تھا کبھی مصر کے بازاروں میں
کردے یہ خبر کوئی بت شوخ ادا کو
ردیف واؤ
دیتے ہی بنی جان ہمیں اس کی ادا کو
واے قسمت یہ ہوا عشق میں حاصل مجھ کو
میری آنکھوں سے مرے یار کا جلوا دیکھو
جب سے اے تیغ ادا دیکھو ادا چھوڑ گئی تو مجھ کو
بے پئے چین اب آتا نہیں دم بھر مجھ کو
کرتا ہوں یاد شام سے ابروئے یار کو
کیوں اشک نہ پیارا ہو مرے دیدۂ تر کو
نالہ کرنے کی نہ تھی عشق میں عادت مجھ کو
جان دیتا ہوں بڑے شوق سے قاتل تجھ کو
چین لینے نہیں دیتا دل ناداں مجھ کو
صاف کہتی ہے فتنہ گرتجھ کو
نیا عروج مبارک ہو جان جاں تجھ کو
ردیف ہائے ہوز
عشق کرنا تھا نہ تجھ کو نگو یار کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
تلوار کھچکے پنجۂ قاتل میں رہ گئی
نکلی نہ آہ منہ سے مرے دل میں رہ گئی
شب وعدہ عذر حنا ہو رہا ہے
ہم آغوش وہ مہ لقا ہو رہا ہے
دل جا رہا ہے چھوٹ کے زلف سیاہ سے
ہنستے تو ہیں گراکے وہ بجلی نگاہ سے
عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
مانا کہ ہے خو ان میں شوخی و شرارت کی
زلف لیلیٰ نہیں تو پھر کیا ہے
وہ شمع بھی تربت پہ جلانے نہیں دیتے
کیا ہوا گر برق دم خنجر کف قاتل میں ہے
مژدۂ دید مجھے دیدۂ تر دیتا ہے
اک سنگدل حسیں کو دلبر بنائیں گے
اک چلبلے حسیں کو دلبر بنائیں گے
کچھ غم عشق نے چھوڑا نہیں بسمل کے لیے
آج قسمت در خواجہ پہ مجھے لائی ہے
درشان حضرت خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ علیہ
صبا نے مجھ کو سنگھائی ہے جب سےبو تیری
ہر اک محفل میں ذکر نرگس مستانہ ہوتا ہے
دل صد چاک ہے موزوں غم جاناں کے لیے
جھومتا آج مرا مست شباب آتا ہے
دل جلے عشق کے ڈرتے نہیں جل جانے سے
جی میں آیا تھا کروں کچھ میں شکایت تیری
اڑتے ہیں ہوش ابرو دلبر کے سامنے
نگاہ تاک میں او بے وفا ہے کس کس کی
چلتے پھرتے جہاں نظر آئے
ان کے سب تیر دل میں در آئے
تیری چتوں کے شہیدوں میں یہ ناشاد بھی ہے
چل کے خنجر جو تراتا بہ گلو آتا ہے
اک ذرا سن تو سر قبر گزرنے والے
دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
یوں تو ممکن نہیں دم بھر دل بسمل ٹھہرے
ساقی بھی ہے چمن بھی ہے ٹھنڈی ہوا بھی ہے
بڑھ کے پتھر سے حسینوں کا جگر ہوتا ہے
تڑپا کے دل مرا نگہ یا ررہ گئی
ساقیا کیوں نہ ہوس ہو مجھے میخانے کی
فرقت میں بھی شگفتہ دل داغدار ہے
بدن میں دم نہ رگوں میں رہا لہو باقی
غیر کیا ناز اٹھائیں گے بہت مشکل ہے
نہ اشکوں سے گلہ مجھ کو نہ شکوہ آہ سوزاں سے
گرے تھے چند قطرے کون کے جو نوک مژگاں سے
دل میں آتا ہے کہ وہ سوئے جگر جاتا ہے
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
علاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لیے
کچھ لطف اٹھایا نہ ستمگر کے ستم سے
ملتی نہیں کچھ اہل چمن کی خبر مجھے
ہونے دے کامیاب دم امتحان مجھے
موسم گل ہے نہ رکھ قید میں صیاد مجھے
دل ہے ناوک کے لیے سینہ ہے خنجر کے لیے
کیا کہوں میں کہ ترے عشق میں کیا ہوتا ہے
کچھ عجب لطف ترا تیر نظر رکھتا ہے
محفل یار میں اب شرکب اغیار بھی ہے
بسمل نگاہ ناز سے دل بھی جگر بھی ہے
چھیڑنا خنجر قاتل کا مزا دیتاہے
آنکھ لڑتے ہیں ہی ہوا عشق کا آزار مجھے
دل ہے وہی کہ جس میں تری آرزو رہے
خنجر ناز و ادا سے نہ بچا دل کوئی
بے پیے کہتے ہیں سب رند مے آشام مجھے
جوش رونے کا غم سید ابرار میں ہے
ابتدا میں ہے یہ جفا تیری
خوب پردہ یہ نکالا ہے ستمگر تونے
گرچہ بیداد سے خالی نہیں دلبر کوئی
تیغ قاتل نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ملائیے نہ مجھے خاک میں خدا کے لیے
توبہ کرنے سے بدلتی نہیں عادت اپنی
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کرکے
کرکے وابستۂ گیسوئے پریشاں تونے
ساقیا تو جو اسے ہاتھ لگا دیتا ہے
تم جو کہتے ہو کہ دل کی مجھے پروا کیا ہے
لیجئے پھر اسی ظالم پہ طبیعت آئی
اشکوں نے گرکے خاک پہ مٹی خراب کی
اس قدر ظلم مناسب نہیں صیاد تجھے
بل ہے ابرو پہ لب پہ گالی ہے
حسن کہتا ہے دلربا تو ہے
تیغ ادا ملی ہے جو بیداد گر تجھے
حسن میں آفت جہاں تو ہے
تم بھی سر گرم ستم ہو فلک پیر بھی ہے
چھپنے والے تجھے خبر بھی ہے
میں اپنے ہوش میں اے فتنہ گر نہیں نہ سہی
زلف برہم ہے پھری جاتی ہے مژگاں ہم سے
یہی ارمان ہے ستمگر نہیں ارمان کوئی
بت ناداں تجھے خبر کیا ہے
لے اڑی پھر ہوس زلف گرہ گیر مجھے
زخم دل و جگر کا شکوہ کروں تو کس سے
ہائے شبیر نہ پائیں لب دریا پانی
تری صورت پہ صدقے خوش جمالی ہوتی جاتی ہے
ان حسینوں کی ادا طرفہ ادا ہوتی ہے
اسکو سمجھائیے کیونکر غم فرقت کیا ہے
وہ سروقد ہے سمن بر ہے گلعذار بھی ہے
نگہ ناز تری کہتی ہے قاتل مجھ سے
کہے بغیر ہے سب کیفیت عیاں میری
ساقیا صحبت دیرینہ جو یاد آتی ہے
جو رعب حسن سے خاموش ہے زباں میری
وہ الجھیں کیوں نہ آہوں سے وہ بگڑیں کیوں نہ شیون سے
کسی رشک پیر کا روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
چر کے دیتا ہے وہ مل کر کبھی کھچکر ہم سے
رہتی ہے بیخودی میں تری جستجو مجھے
مجھے جس دم خیال نرگس مستانہ آتاہے
اثر اتنا تو الٰہی مری فریاد کرے
عجب ادا سے چمن میں بہار آتی ہے
صبا لیے خبر وصل یار آتی ہے
نہ یہ جنوں تھا نہ اے دل یہ اضطراب مجھے
کرے گا سرخ رو کس کو جو اے خنجر رواں تو ہے
ابھی سے آفت جان ہے ادا ادا تیری
درد دے واقف نہ تھے غم سے شناسائی نہ تھی
یاس کا عالم نہ تھا یا بیکسی چھائی نہ تھی
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائیگی
کھینچئے تیغ اگر آپ ہیں ہمت والے
قطعۂ تاریخ تخت نشینی نواب میرعثمان علی خان بہادر
سہرا بتقریب جشن کتخدائی اعلی حضرت سلطان دکن
قطعۂ تاریخ ولادت نواب میر کاظم علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر رضا علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر عابد علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر حشمت علی خان بہادر
قطعہ تاریخ ولادت نواب میر تقی علی خان بہادر
شکریۂ عطائے شمشیر و انگشتری
تاریخ عطائے شمشیر
گھڑی توڑا بٹن عطا فرمانے کا شکریہ
قطعۂ تاریخ عطاے انگشتری
شکریۂ عطائے انبہ
سہرا مع تاریخ بتقریب بسم اللہ خوانی نواب میر شجاعت علی خان
تہنیت جشن نوروز
دامن جو چھو لیا ہے کسی گلعذار کا
رونق افروزی سرکار در حمایت باغ واقع اورنگ آباد
تاریخ جشن سالگرہ مبارک
قطعۂ تاریخ عثمان ساگر
قطعہ تاریخ شکار شیر
مبارکباد جشن سالگرہ مبارب
قطعۂ تہنیت گلپوشی شہزادگان موصوف زاد عمرہما واقبالہما
قطعۂ تہنیت جشن سالگرہ نواب میر حمایت علی خان
قطعۂ تاریخ رحلت شہزادی یاورالنسابیگم
قطعۂ تاریخ افتتاح خلوت مبارک
قطعۂ تاریخ جشن کتخدائی ہمشیران بندگان عالی متعالی
قطعۂ تاریخ تہنیت دربار یادگار جلوس مبارک
قطعات تاریخ طبع جان سخن
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।