سر ورق
فہرست
ہم جو کہنا چاہتے ہیں کیا کہیں
باتیں ہماریاں
کون یہ نغمہ سرامیر کے انداز میں ہے
کرتے رہو کلیم اشاروں میں گفتگو
فہرست (ابتدائی غزلیں)
فہرست (جدید غزلیں)
مرے دل پہ جو گزرتی تھی گزرگئی بلا سے
ابھی تو سب کیا ان کا ہمارے نام آتا ہے
خموشی آپ کی اچھی نہیں اے مہرباں سنئے
کل جو چپ تھے آج منہ آنے گلے
آئینے ہر قدم رہ گئے
ناز سے فرصت تجھے اے فتنہ گر ملتی نہیں
زباں خاموش دل میں جوش طوفاں لے کے آیا ہوں
چمن میں اب کہاں دور مئے گلفام باقی ہے
کہاں نصیب وہ کیفیت ِ دوام ابھی
یہ جو آئی ہے سوئے میکدہ یہ عجب ہوائے بہار ہے
اصولِ میکشی بدلا مزاجِ آرزو بدلا
شانۂ دستِ شوق ہے زلفِ جنوں سنوار کر
ہم بنے رسوا تو وہ سامانِ رسوائی بنے
ہم کو تو خیر پہونچنا تھا جہاں تک پہونچے
سنا ہے خاک بھی ہم ہو کے لاجواب ہوئے
محبت دل میں رکھ کر ضبط کی شرط کراں رکھ دی
مرغانِ قفس بیٹھے ہیں تولے ہوئے پر آج
بہار میں بھی حسرتوں کو پالتے ہی رہ گئے
ہر ظلم ناروا کو روا کرچکے ہیں ہم
کبھی ہم نے ہنستے ہنستے شبِ غم تمام کردی
جو زلف آراستہ ہے اب اسے برہم بھی دیکھا ہے
بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے
وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی
چھیڑو نہ ہم کو تنگ ہیں دردِ جگر سے ہم
وہ تشنہ کام ہی جائے جو تشنہ کام آئے
امید کیا تھی وہ کیا احتمال کر بیٹھے
میری صبحِ غم بلا سے کبھی شام تک نہ پہونچے
خوشی کیا چیز ہوتی ہے کسی دن غم سے پوچھیں گے
جو داستانِ وفا ناتمام لے کے گئے
محکوم حسن گردشِ ایام ہو گئی
جو حال ہے اس بزم کا ایسا نہ کہیں ہے
جدید غزلیں
ستم کتنا ہی رخ بدلے وفا کی خود نہ بدلیں گے
انہیں کے گیت زمانے میں گائے جائیں گے
غزل کا ہے نہ گائیں گے زباں کیوں بند کر لیں گے
یہی بشاش ہونا ہے یہی رنجوو ہوجانا
وہ محفل وہ چمن وہ پھول وہ شبنم نہیں پیارے
خوشی کی بزم بھی اندوہگیں لگے ہیں میاں
نہ ہوں کیوں شعر اپنے ہلکے پھلکے
زلفیں سنوارنے کا جہاں کام آگیا
توڑا پھوڑا ہے دل دیکھے
وقت نے ہم کو تھکایا تو ہر اک منزل میں
دلہن کی مانگ میں موتی سجا کر دائیاں نگلیں
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
فکر آئینہ دکھائے فن کرے شانے کی بات
اس کی فکر نہ کیجیو عاجز کون یہاں کیا بولے ہے
جو کچھ اور چاہو مری جان کہو
چھری کھینچو ہو خنجر تانتے ہو
دنیا ڈوب چلی تو ڈوبے دور مئے گلفام چلے
میں روؤں ہوں رونا مجھے بھائے ہے
ایسا ہو تو پھر کیسے کسی دل کی لگی جائے
انہیں زلفوں کا افسانہ کہیں گے
بہاروں میں نکلوایا گیا ہوں
چوٹ لگتی رہی اشک بہتے رہے
یہ غزل جو مطرب ِ خوشنوا تو سنا رہا ہے ستار پر
ستم ہیں آب و گل پر آب و گل کے
یہ یہاں والے ہیں صرف اور نہ وہاں والے ہیں
بچھڑ کر پھر جو میخانے گئے ہم
چلچلاتی دھوپ میں بھی دل جلے چلتے رہے
شدید درد ہے لیکن چھپاتے پھرتے ہیں
اب دیکھئے کون آگے نکلتا ہے اثر میں
گلوں سے راہ رکھیو رسم رکھیو رابطہ رکھیو
یاد بھی ہوں گے نہ ہم شیشے کو پیمانے کو
کروگے عشق تو ڈوبو گے پیارے
تیرے گیسو جب سے سنوارے گئے ہیں
غزل کہو کہ یہہ حال اب غزل کے قابل ہے
کبھی ان کی بزم میں آگئے تو غزل انہیں کو سنا گئے
گو بہت صاحب دستارو گریباں ہوں گے
ہر التجا پہ کہے ہے خدا سے جا کہئے
تجھے کلیم کوئی کیسے خوش کلام کہے
شاعری کا م ہے پیارے بڑی شکل والا
غزلیں بھی کہیں پر غم کتنی اس پر بھی علاجِ غم نہ ہوا
جنابِ حضرتِ والا یہ کیا کرنے کو کہتے ہیں
محبت جن کو دیوانے سے تھی اڑ کر چلے آئے
کچھ سبب ہے کہ ملنے سے معذور ہیں
جب فصلِ بہار اں آئی تھی گلشن میں انہیں ایام سے ہم
بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے
مسندیں چھوڑ کر بالا خانوں کے بیچ
گر اں ہیں تول میں قیمت میں ہلکے
کس کی چشم کرم آج کل ہوگئی
شعر و غزل میں ڈوبی ہوئی رات ہے میاں
وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں ماجرائے دل ہے کیا؟ کہئے
آئینے آئیں گے ٹوٹیں گے بکھرتے جائیں گے
درد کی باتیں دل کی زباں سے ہم نہ کہیں تو کون کہے
دو دلوں میں دو جدا گانہ ابھار آہی گیا
وہ درد والے جو ناقابل خیال گئے
جنہیں اہل شہرت گراں نہیں یاد کرتے دعاؤں میں
میٹھی میٹھی بات تمہاری محفل محفل جانے ہے
پیرہن تک کسی کا سلامت نہیں
رونے نہ دیجئے گا تو گایا نہ جائے گا
کلیم حال تو اپنا سناؤ کیسا ہے
زلفوں کو میسر تھا پہلے آئینہ نہ شانہ یاد کرو
سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے
غم دل ہی غم دوراں غم جانا نہ بنتا ہے
منظور ہو محفل کا گر رنگ بدل دینا
ان کی زلفوں میں جتنی شکن چاہئے
ہوئے تھے چاک کیا کیا جیب و داماں یاد آتے ہیں
کچھ دیر بھی دکھ درد بھلانے نہیں دیتا
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کچھ رونا گانا آئے گا
تمہاری طرح زلفوں میں شکن ڈالے نہیں ہیں ہم
نہیں کہنا اگر چہ ہے بہت مشکل نہیں کہتے
اہل غزل ہیں ہم کو یہی کام چاہئے
کاش اب بھی ذرا چین پاتے
جب تک مذاق غم ہو غم دل سے کھیلئے
کوئے قاتل ہے مگر جانے کی جی چاہے ہے
غزل میں سسکیاں دل کی سنا دینا ہی آتا ہے
تیری گھنی زلفوں کا سایہ بھی گھنیرا ہے
چھری جن کے ہاتھوں سے کھانا پڑے ہے
کچھ تو ہم مشرب ہے عاجز کچھ جدا گانہ بھی ہے
لالۂ خوں نہ زہرہ جمالوں کو چاہئے
زخم ہر صبح دو درد ہر شام دو
لہو جاری ہے اور جاری رہا ہے
ہمیں یہ دیکھ کے کہتے ہیں آج کل والے
کل کہتے رہے ہیں وہی کل کہتے رہیں گے
آنکھوں میں کہیں آنسو رہے سینے میں کسی کے دل نہ رہا
فصل گل کو سارا پیراہن دیا
دل جگر ہوں گے لہوجان کے لالے ہوں گے
وہ غزل سرائی سے تھک گیا اسے بزم میں نہ بلائیے
سبب سمجھا تو حیراں ہو گئے ہم
وقت کا ہے یہ تقاضہ تجھے چپ رہنا ہے
زخموں کو یوں بدن پہ لیا جامہ ہو گیا
کسوٹی دیکھتے ہیں جیسے کندن دیکھنے والے
درد کی گفتگو بے محل ہی سہی
بھری بزم میں گیت گانا بھی ہے
وہ اب بھی جدھر کرتے ہیں نظر میخانے ہی بنتے جاتے ہیں
مراد م رہے گا جب تک یہ ہما ہمی رہے گی
شانے کا بہت خون جگر جائے ہے پیارے
شاعر کے بغیر دنیا کا سا نچے میں اترنا مشکل ہے
کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
ہے نظر سب کی عرب کیسے عجم کیسے ہیں
ظالم وقت نے عاجز ہم کو اتنا پیسا کوٹاہے
گزرکرنا یہاں آساں نہیں ہے
دم شمشیر پر سر ہے تو کیا ہے
بہار و باغ کے کس راز کا محرم نہیں نکلا
چھلکا دیا تو بادۂ گلفام کیوں لیا
اے کاش کلیم آتا اک گیت سنا جاتا
یہ رنگ اشکوں کا جو لال لال ہے پیارے
کچھ اور ہم اے غنچہ دہن چاہتے نہیں
تو جب سے ساقیٔ خوش انتظام ہے پیارے
ڈگمگاتا ہے لڑکھڑاتا ہے
بڑے خلوص سے محفل میں جام آیا ہے
موسمِ گل ہمیں جب یاد آیا
مری لے سے لے وہ ملائیں گے کیا
نہ پوچھ کیوں میرے لب پر ہنسی نہیں پیارے
جوانی میں تھا کیا اس شوخ کا عالم نہ بھولیں گے
غم آگے ہے غم پیچھے غم دائیں ہے غم بائیں
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیم اس کو اور سجائے جا
جگہ دل میں خالی کدھر ہے میاں
جب تک ہم اہلِ درد پکارے نہ جائیں گے
میرے پیارے او مرے زلفِ پریشاں والے
زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ
پھر وہ غارت گر جان و جگر و دل آیا
پھر ارہے ہیں وہ فضا گر مائی جائے گی
ہم زخم جگر ان کو دکھانے میں لگے ہیں
غزل سے چاک دل کی بخیہ کاری کون جانے ہے؟
مری ہر غزل کے رباب سے یہ نکل رہی ہے صدائے دل
یہ تو نہیں کہ خونِ تمنا نہ کرسکے
کہاں ہے صحن کہاں بام دور نہیں جانا
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
اِس کے سوا اوروں کی سن کر خود کو رسوا مت کرنا
وہ جس پہ تیرا مسلسل عتاب ہے پیارے
نغمہ خواں بھی ہوں ترا شکوہ سر ابھی تیرا
سجایا ہے سلیقے سے لہو ہر دل کا کیا کہنا
ان کے سب غم دور ہوئے
سروں پہ قمقمے ہوں گے دلوں میں غم تو کیا ہوگا؟
غلط کہ قتل کا قاتل نے کام چھوڑ دیا
کہہ دو کلیم سے کہ اسے آنا چاہئے
وہ جن پہ وقت کا غصہ بھی ہے عتاب بھی ہے
محبت کا سورج ہیں ڈھلتے ہیں ہم
حال اپنا کبھی کھلنے نہ دیا یاروں پر
یکتا رہے میں اور ہزاروں میں رہے ہیں
شاہوں میں ملیں گے نہ جنابوں میں ملیں گے
دلوں تک درد کا پیغام پہونچانے نہیں آتا
تغیر کا وہ دن اب کیوں خدا جانے نہیں آتا
گر نہ عہدِ وفا کئے ہوتے
فکر جب صاحبِ ارادہ تھی
ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
وہ دوست تو نہ تھا ہاں آشنا تھا وہ بھی گیا
جب پر بھی جوانی آتی ہے اور تھوڑا جمال آجاتا ہے
گو وہ مرا غم جانے ہے
جب تک تو کلیم اپنی غزل گائے نہیں ہے
ہے انہیں دو ناموں سے ہر اک افسانے کا نام
غزل کس کی ہے؟ یہ انداز بے باکانہ کس کا ہے؟
وہ خفا ہو تو خفا ہو شکوۂ ہجراں چلے
کہنا چاہا تو شرم آئی ہے
جگر کے چاک دل کے خال ہو جانے کی باتیں
گونگے کو بنایا شیریں زباں پہ کار نمایاں خوب کیا
کلیم آنسوؤں کو چھپائیں گے کیا
جہاں بھی منعقد بزمِ غزل خوانی ہوئی ہوگی
عاجز یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تم ہو؟
عاجز ابھی یہ طرز یہ لہجہ ہے کہ تم ہو
عمر بھر پیار کیا جس کو وہ پیارا نہ ہوا
سر ورق
فہرست
ہم جو کہنا چاہتے ہیں کیا کہیں
باتیں ہماریاں
کون یہ نغمہ سرامیر کے انداز میں ہے
کرتے رہو کلیم اشاروں میں گفتگو
فہرست (ابتدائی غزلیں)
فہرست (جدید غزلیں)
مرے دل پہ جو گزرتی تھی گزرگئی بلا سے
ابھی تو سب کیا ان کا ہمارے نام آتا ہے
خموشی آپ کی اچھی نہیں اے مہرباں سنئے
کل جو چپ تھے آج منہ آنے گلے
آئینے ہر قدم رہ گئے
ناز سے فرصت تجھے اے فتنہ گر ملتی نہیں
زباں خاموش دل میں جوش طوفاں لے کے آیا ہوں
چمن میں اب کہاں دور مئے گلفام باقی ہے
کہاں نصیب وہ کیفیت ِ دوام ابھی
یہ جو آئی ہے سوئے میکدہ یہ عجب ہوائے بہار ہے
اصولِ میکشی بدلا مزاجِ آرزو بدلا
شانۂ دستِ شوق ہے زلفِ جنوں سنوار کر
ہم بنے رسوا تو وہ سامانِ رسوائی بنے
ہم کو تو خیر پہونچنا تھا جہاں تک پہونچے
سنا ہے خاک بھی ہم ہو کے لاجواب ہوئے
محبت دل میں رکھ کر ضبط کی شرط کراں رکھ دی
مرغانِ قفس بیٹھے ہیں تولے ہوئے پر آج
بہار میں بھی حسرتوں کو پالتے ہی رہ گئے
ہر ظلم ناروا کو روا کرچکے ہیں ہم
کبھی ہم نے ہنستے ہنستے شبِ غم تمام کردی
جو زلف آراستہ ہے اب اسے برہم بھی دیکھا ہے
بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے
وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی
چھیڑو نہ ہم کو تنگ ہیں دردِ جگر سے ہم
وہ تشنہ کام ہی جائے جو تشنہ کام آئے
امید کیا تھی وہ کیا احتمال کر بیٹھے
میری صبحِ غم بلا سے کبھی شام تک نہ پہونچے
خوشی کیا چیز ہوتی ہے کسی دن غم سے پوچھیں گے
جو داستانِ وفا ناتمام لے کے گئے
محکوم حسن گردشِ ایام ہو گئی
جو حال ہے اس بزم کا ایسا نہ کہیں ہے
جدید غزلیں
ستم کتنا ہی رخ بدلے وفا کی خود نہ بدلیں گے
انہیں کے گیت زمانے میں گائے جائیں گے
غزل کا ہے نہ گائیں گے زباں کیوں بند کر لیں گے
یہی بشاش ہونا ہے یہی رنجوو ہوجانا
وہ محفل وہ چمن وہ پھول وہ شبنم نہیں پیارے
خوشی کی بزم بھی اندوہگیں لگے ہیں میاں
نہ ہوں کیوں شعر اپنے ہلکے پھلکے
زلفیں سنوارنے کا جہاں کام آگیا
توڑا پھوڑا ہے دل دیکھے
وقت نے ہم کو تھکایا تو ہر اک منزل میں
دلہن کی مانگ میں موتی سجا کر دائیاں نگلیں
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
فکر آئینہ دکھائے فن کرے شانے کی بات
اس کی فکر نہ کیجیو عاجز کون یہاں کیا بولے ہے
جو کچھ اور چاہو مری جان کہو
چھری کھینچو ہو خنجر تانتے ہو
دنیا ڈوب چلی تو ڈوبے دور مئے گلفام چلے
میں روؤں ہوں رونا مجھے بھائے ہے
ایسا ہو تو پھر کیسے کسی دل کی لگی جائے
انہیں زلفوں کا افسانہ کہیں گے
بہاروں میں نکلوایا گیا ہوں
چوٹ لگتی رہی اشک بہتے رہے
یہ غزل جو مطرب ِ خوشنوا تو سنا رہا ہے ستار پر
ستم ہیں آب و گل پر آب و گل کے
یہ یہاں والے ہیں صرف اور نہ وہاں والے ہیں
بچھڑ کر پھر جو میخانے گئے ہم
چلچلاتی دھوپ میں بھی دل جلے چلتے رہے
شدید درد ہے لیکن چھپاتے پھرتے ہیں
اب دیکھئے کون آگے نکلتا ہے اثر میں
گلوں سے راہ رکھیو رسم رکھیو رابطہ رکھیو
یاد بھی ہوں گے نہ ہم شیشے کو پیمانے کو
کروگے عشق تو ڈوبو گے پیارے
تیرے گیسو جب سے سنوارے گئے ہیں
غزل کہو کہ یہہ حال اب غزل کے قابل ہے
کبھی ان کی بزم میں آگئے تو غزل انہیں کو سنا گئے
گو بہت صاحب دستارو گریباں ہوں گے
ہر التجا پہ کہے ہے خدا سے جا کہئے
تجھے کلیم کوئی کیسے خوش کلام کہے
شاعری کا م ہے پیارے بڑی شکل والا
غزلیں بھی کہیں پر غم کتنی اس پر بھی علاجِ غم نہ ہوا
جنابِ حضرتِ والا یہ کیا کرنے کو کہتے ہیں
محبت جن کو دیوانے سے تھی اڑ کر چلے آئے
کچھ سبب ہے کہ ملنے سے معذور ہیں
جب فصلِ بہار اں آئی تھی گلشن میں انہیں ایام سے ہم
بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے
مسندیں چھوڑ کر بالا خانوں کے بیچ
گر اں ہیں تول میں قیمت میں ہلکے
کس کی چشم کرم آج کل ہوگئی
شعر و غزل میں ڈوبی ہوئی رات ہے میاں
وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں ماجرائے دل ہے کیا؟ کہئے
آئینے آئیں گے ٹوٹیں گے بکھرتے جائیں گے
درد کی باتیں دل کی زباں سے ہم نہ کہیں تو کون کہے
دو دلوں میں دو جدا گانہ ابھار آہی گیا
وہ درد والے جو ناقابل خیال گئے
جنہیں اہل شہرت گراں نہیں یاد کرتے دعاؤں میں
میٹھی میٹھی بات تمہاری محفل محفل جانے ہے
پیرہن تک کسی کا سلامت نہیں
رونے نہ دیجئے گا تو گایا نہ جائے گا
کلیم حال تو اپنا سناؤ کیسا ہے
زلفوں کو میسر تھا پہلے آئینہ نہ شانہ یاد کرو
سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے
غم دل ہی غم دوراں غم جانا نہ بنتا ہے
منظور ہو محفل کا گر رنگ بدل دینا
ان کی زلفوں میں جتنی شکن چاہئے
ہوئے تھے چاک کیا کیا جیب و داماں یاد آتے ہیں
کچھ دیر بھی دکھ درد بھلانے نہیں دیتا
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کچھ رونا گانا آئے گا
تمہاری طرح زلفوں میں شکن ڈالے نہیں ہیں ہم
نہیں کہنا اگر چہ ہے بہت مشکل نہیں کہتے
اہل غزل ہیں ہم کو یہی کام چاہئے
کاش اب بھی ذرا چین پاتے
جب تک مذاق غم ہو غم دل سے کھیلئے
کوئے قاتل ہے مگر جانے کی جی چاہے ہے
غزل میں سسکیاں دل کی سنا دینا ہی آتا ہے
تیری گھنی زلفوں کا سایہ بھی گھنیرا ہے
چھری جن کے ہاتھوں سے کھانا پڑے ہے
کچھ تو ہم مشرب ہے عاجز کچھ جدا گانہ بھی ہے
لالۂ خوں نہ زہرہ جمالوں کو چاہئے
زخم ہر صبح دو درد ہر شام دو
لہو جاری ہے اور جاری رہا ہے
ہمیں یہ دیکھ کے کہتے ہیں آج کل والے
کل کہتے رہے ہیں وہی کل کہتے رہیں گے
آنکھوں میں کہیں آنسو رہے سینے میں کسی کے دل نہ رہا
فصل گل کو سارا پیراہن دیا
دل جگر ہوں گے لہوجان کے لالے ہوں گے
وہ غزل سرائی سے تھک گیا اسے بزم میں نہ بلائیے
سبب سمجھا تو حیراں ہو گئے ہم
وقت کا ہے یہ تقاضہ تجھے چپ رہنا ہے
زخموں کو یوں بدن پہ لیا جامہ ہو گیا
کسوٹی دیکھتے ہیں جیسے کندن دیکھنے والے
درد کی گفتگو بے محل ہی سہی
بھری بزم میں گیت گانا بھی ہے
وہ اب بھی جدھر کرتے ہیں نظر میخانے ہی بنتے جاتے ہیں
مراد م رہے گا جب تک یہ ہما ہمی رہے گی
شانے کا بہت خون جگر جائے ہے پیارے
شاعر کے بغیر دنیا کا سا نچے میں اترنا مشکل ہے
کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
ہے نظر سب کی عرب کیسے عجم کیسے ہیں
ظالم وقت نے عاجز ہم کو اتنا پیسا کوٹاہے
گزرکرنا یہاں آساں نہیں ہے
دم شمشیر پر سر ہے تو کیا ہے
بہار و باغ کے کس راز کا محرم نہیں نکلا
چھلکا دیا تو بادۂ گلفام کیوں لیا
اے کاش کلیم آتا اک گیت سنا جاتا
یہ رنگ اشکوں کا جو لال لال ہے پیارے
کچھ اور ہم اے غنچہ دہن چاہتے نہیں
تو جب سے ساقیٔ خوش انتظام ہے پیارے
ڈگمگاتا ہے لڑکھڑاتا ہے
بڑے خلوص سے محفل میں جام آیا ہے
موسمِ گل ہمیں جب یاد آیا
مری لے سے لے وہ ملائیں گے کیا
نہ پوچھ کیوں میرے لب پر ہنسی نہیں پیارے
جوانی میں تھا کیا اس شوخ کا عالم نہ بھولیں گے
غم آگے ہے غم پیچھے غم دائیں ہے غم بائیں
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیم اس کو اور سجائے جا
جگہ دل میں خالی کدھر ہے میاں
جب تک ہم اہلِ درد پکارے نہ جائیں گے
میرے پیارے او مرے زلفِ پریشاں والے
زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ
پھر وہ غارت گر جان و جگر و دل آیا
پھر ارہے ہیں وہ فضا گر مائی جائے گی
ہم زخم جگر ان کو دکھانے میں لگے ہیں
غزل سے چاک دل کی بخیہ کاری کون جانے ہے؟
مری ہر غزل کے رباب سے یہ نکل رہی ہے صدائے دل
یہ تو نہیں کہ خونِ تمنا نہ کرسکے
کہاں ہے صحن کہاں بام دور نہیں جانا
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
اِس کے سوا اوروں کی سن کر خود کو رسوا مت کرنا
وہ جس پہ تیرا مسلسل عتاب ہے پیارے
نغمہ خواں بھی ہوں ترا شکوہ سر ابھی تیرا
سجایا ہے سلیقے سے لہو ہر دل کا کیا کہنا
ان کے سب غم دور ہوئے
سروں پہ قمقمے ہوں گے دلوں میں غم تو کیا ہوگا؟
غلط کہ قتل کا قاتل نے کام چھوڑ دیا
کہہ دو کلیم سے کہ اسے آنا چاہئے
وہ جن پہ وقت کا غصہ بھی ہے عتاب بھی ہے
محبت کا سورج ہیں ڈھلتے ہیں ہم
حال اپنا کبھی کھلنے نہ دیا یاروں پر
یکتا رہے میں اور ہزاروں میں رہے ہیں
شاہوں میں ملیں گے نہ جنابوں میں ملیں گے
دلوں تک درد کا پیغام پہونچانے نہیں آتا
تغیر کا وہ دن اب کیوں خدا جانے نہیں آتا
گر نہ عہدِ وفا کئے ہوتے
فکر جب صاحبِ ارادہ تھی
ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
وہ دوست تو نہ تھا ہاں آشنا تھا وہ بھی گیا
جب پر بھی جوانی آتی ہے اور تھوڑا جمال آجاتا ہے
گو وہ مرا غم جانے ہے
جب تک تو کلیم اپنی غزل گائے نہیں ہے
ہے انہیں دو ناموں سے ہر اک افسانے کا نام
غزل کس کی ہے؟ یہ انداز بے باکانہ کس کا ہے؟
وہ خفا ہو تو خفا ہو شکوۂ ہجراں چلے
کہنا چاہا تو شرم آئی ہے
جگر کے چاک دل کے خال ہو جانے کی باتیں
گونگے کو بنایا شیریں زباں پہ کار نمایاں خوب کیا
کلیم آنسوؤں کو چھپائیں گے کیا
جہاں بھی منعقد بزمِ غزل خوانی ہوئی ہوگی
عاجز یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تم ہو؟
عاجز ابھی یہ طرز یہ لہجہ ہے کہ تم ہو
عمر بھر پیار کیا جس کو وہ پیارا نہ ہوا
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।