ترتیب
ہاتھ ہر یالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ وبونے بات کی
دھان کے کھیتوں پہ آئیں بدلیاں اڑتی ہوئی
بہتے رہنا ایک بہانہ ہوتا ہے
جیسے تیسے کٹ رہی ہے زندگی
یہ بلا کا شور پیہم اور ہے
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کچھ بھی کر سکتا ہوں میں لوٹ کے جانے کے سوا
تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہوں میں
بڑی مشکل میں تھی یہ جان نکلی
آسماں کیا مری زمیں بھی نہیں
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاتے ہیں
مسجد کی محراب سے دنیا دیکھی ہے
خدا معلوم میں تم سے خفا ہوں
گرد سے منظر اٹا ہے، کون ہے
سلگتی جھیل پر جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں
روح کے چیتھڑے کرنے والی
خود سے یوں جان چھڑاتا ہوں میں
نہ خشکیوں پہ نہ طغیانیوں میں کھلتا ہے
دنیا سے سن رکھا ہے مگر تجبرہ نہیں
غم کی اس درجہ فراوانی میں
سخن کے شہر مںی سکہ بدلنے والا ہے
دیر سے ہی ہوش تو آیا مجھے
ختم سارے مرحلے اب پیش و پس کے ہوگئے
تمام بے سرو سامان اڑتے پھرتے ہیں
زرد یادوں سے بھر دیا ہے مجھے
نام سے اس کے پکاروں خود کو
بن چکا جتنا بننا تھا
اب وہ بھیگا جسم بانہوں میں نہیں
ایک منظر بھی نگاہوں میں تر و تازہ نہیں
بھر جائیں مرے زخم اشارہ بھی نہیں ہے
آتی نہیں جب اپنی یاد
عجب کہ درد کے ماروں کو بھول جاتی ہے
کرم بھی اس نے بہت میرے جان وتن پہ کیا
ہاتھ بھی چھوٹا کسی کا مل گیا آرام بھی
سارے اڑتے ہوئے رنگوں کو مقفل کرلوں
جام تہی کو خالی کیا جائے کتنی بار
دعوتیں دیتے رہے آلام کو
اس نے مانا کہ اگر ہم نہ دکھائی دیتے
زمانہ کیوں نہ ہو غم خوار اس کا
کشتی میں ہے دریا سارا بھرنے کو
چاہے جگنو ہی سہی برسات میں
کر دیا کس نے تباہی کے قریب
یوں نہ بدلو اپنا چہرہ بار بار
دل کے اندر آ بھی یار
عین ممکن ہے کہ ابکے مری باری آئے
مت کھائیے فریب کہ سستی ہے روشنی
اتنی جلدی پھول مرجھاتا نہیں
خواہشوں کو کبھی سجدہ نہ کرو
تیرے جیسا تو نہیں ہوسکتا
یاد گار لمحوں کی تتلیاں جلا ڈالیں
رقص کرتا ہوں کبھی نغمہ سراہوں نیند میں
خوش ہوا میں اسے رلا کے بھی
اسے بیکار کرنا چاہتا ہوں
دن رات اگر درپئے آزار بنے تو
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کردے
کون اس کو چاہتا میری طرح
کرم یہ حیرت نادید سے زیادہ ہے
پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
کچھ تو ہونا چاہئے میری اداسی کا سبب
عقیدے طاق پہ رکھ واہمے بناتے ہیں
وحشتوں کے پر کتر سکتا ہوں میں
خواہش کہ مارا مارا پھرے اور گھر نہ جائے
ہماری دنیا جہاں تک تری نظر میں ہے
مانتا ہوں مہرباں ہے آفتاب اس پار کا
معاملہ یہ خودی کا نہ بے خودی کا ہے
چلا رہے تھے لوگ ہی آب آب بے سبب
نہ کام آسکی یاری نہ دشمنی میری
سو مرتبہ بنایا سنوارا گیا مجھے
چلتا ہے کس کا زور کھلے آسمان پر
پھر کوئی آزر اٹھے گا خاک سے
میں اک بھٹکی صدا ہو
قلندر اسے دیکھنے سے رہا
حواس کو بد حواس کر جا
الٹے سیدھے لفظ لکھوں اور سو جاؤں
طئے جب زہر کی قیمت ہونے لگتی ہے
کرتے ہیں ساری رات اسے یاد بے سبب
خائف تھے جس سے ہم وہ صدا رک گئی ہے اب
آپ اپنی موت مر جانے دیا
اکیلے چاند کا دکھ بانٹتا ہوں
گہری کالی راتوں میں تابندہ رکھا
اک آگ سی لہو میں بھڑکتی ہے دیر تک
بھٹک رہا ہے دماغ میرا
یہ بدن کا شور یہ رنگ تماشہ پھر کبھی
فاصلے کم نہیں ہونے کے ملاقات سے بھی
خود سے اور اپنے دل بیمار سے گھبرا گئے
صندلی آواز کا سایہ پڑا
حسن کا اک عجیب عالم ہے
اگر دیوانگی کو شاعری کا نام مل جائے
کہاں تک یہ فریب آرزو بھی
خوش نہیں میں شہر ماہ و سال میں
جتنے بھی جتن کرکے محبت سے بچا جائے
سخت مشکل میں پڑا ہے شہر تابانی ابھی
روز ہوتا ہے زیاں انسان کا
بج رہی ہے پاؤں میں زنجیر ایسی
جاں چلی جاتی ہے کروٹ سی بدلنے میں بھی
چڑیوں نے جب پنکھ سکھانا چھوڑ دیا
چار سو منظر میں بے چینی سی ہے
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
یہاں اب شور ہی کوئی نہ سر گوشی کسی کی
ترتیب
ہاتھ ہر یالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ وبونے بات کی
دھان کے کھیتوں پہ آئیں بدلیاں اڑتی ہوئی
بہتے رہنا ایک بہانہ ہوتا ہے
جیسے تیسے کٹ رہی ہے زندگی
یہ بلا کا شور پیہم اور ہے
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کچھ بھی کر سکتا ہوں میں لوٹ کے جانے کے سوا
تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہوں میں
بڑی مشکل میں تھی یہ جان نکلی
آسماں کیا مری زمیں بھی نہیں
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاتے ہیں
مسجد کی محراب سے دنیا دیکھی ہے
خدا معلوم میں تم سے خفا ہوں
گرد سے منظر اٹا ہے، کون ہے
سلگتی جھیل پر جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں
روح کے چیتھڑے کرنے والی
خود سے یوں جان چھڑاتا ہوں میں
نہ خشکیوں پہ نہ طغیانیوں میں کھلتا ہے
دنیا سے سن رکھا ہے مگر تجبرہ نہیں
غم کی اس درجہ فراوانی میں
سخن کے شہر مںی سکہ بدلنے والا ہے
دیر سے ہی ہوش تو آیا مجھے
ختم سارے مرحلے اب پیش و پس کے ہوگئے
تمام بے سرو سامان اڑتے پھرتے ہیں
زرد یادوں سے بھر دیا ہے مجھے
نام سے اس کے پکاروں خود کو
بن چکا جتنا بننا تھا
اب وہ بھیگا جسم بانہوں میں نہیں
ایک منظر بھی نگاہوں میں تر و تازہ نہیں
بھر جائیں مرے زخم اشارہ بھی نہیں ہے
آتی نہیں جب اپنی یاد
عجب کہ درد کے ماروں کو بھول جاتی ہے
کرم بھی اس نے بہت میرے جان وتن پہ کیا
ہاتھ بھی چھوٹا کسی کا مل گیا آرام بھی
سارے اڑتے ہوئے رنگوں کو مقفل کرلوں
جام تہی کو خالی کیا جائے کتنی بار
دعوتیں دیتے رہے آلام کو
اس نے مانا کہ اگر ہم نہ دکھائی دیتے
زمانہ کیوں نہ ہو غم خوار اس کا
کشتی میں ہے دریا سارا بھرنے کو
چاہے جگنو ہی سہی برسات میں
کر دیا کس نے تباہی کے قریب
یوں نہ بدلو اپنا چہرہ بار بار
دل کے اندر آ بھی یار
عین ممکن ہے کہ ابکے مری باری آئے
مت کھائیے فریب کہ سستی ہے روشنی
اتنی جلدی پھول مرجھاتا نہیں
خواہشوں کو کبھی سجدہ نہ کرو
تیرے جیسا تو نہیں ہوسکتا
یاد گار لمحوں کی تتلیاں جلا ڈالیں
رقص کرتا ہوں کبھی نغمہ سراہوں نیند میں
خوش ہوا میں اسے رلا کے بھی
اسے بیکار کرنا چاہتا ہوں
دن رات اگر درپئے آزار بنے تو
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کردے
کون اس کو چاہتا میری طرح
کرم یہ حیرت نادید سے زیادہ ہے
پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
کچھ تو ہونا چاہئے میری اداسی کا سبب
عقیدے طاق پہ رکھ واہمے بناتے ہیں
وحشتوں کے پر کتر سکتا ہوں میں
خواہش کہ مارا مارا پھرے اور گھر نہ جائے
ہماری دنیا جہاں تک تری نظر میں ہے
مانتا ہوں مہرباں ہے آفتاب اس پار کا
معاملہ یہ خودی کا نہ بے خودی کا ہے
چلا رہے تھے لوگ ہی آب آب بے سبب
نہ کام آسکی یاری نہ دشمنی میری
سو مرتبہ بنایا سنوارا گیا مجھے
چلتا ہے کس کا زور کھلے آسمان پر
پھر کوئی آزر اٹھے گا خاک سے
میں اک بھٹکی صدا ہو
قلندر اسے دیکھنے سے رہا
حواس کو بد حواس کر جا
الٹے سیدھے لفظ لکھوں اور سو جاؤں
طئے جب زہر کی قیمت ہونے لگتی ہے
کرتے ہیں ساری رات اسے یاد بے سبب
خائف تھے جس سے ہم وہ صدا رک گئی ہے اب
آپ اپنی موت مر جانے دیا
اکیلے چاند کا دکھ بانٹتا ہوں
گہری کالی راتوں میں تابندہ رکھا
اک آگ سی لہو میں بھڑکتی ہے دیر تک
بھٹک رہا ہے دماغ میرا
یہ بدن کا شور یہ رنگ تماشہ پھر کبھی
فاصلے کم نہیں ہونے کے ملاقات سے بھی
خود سے اور اپنے دل بیمار سے گھبرا گئے
صندلی آواز کا سایہ پڑا
حسن کا اک عجیب عالم ہے
اگر دیوانگی کو شاعری کا نام مل جائے
کہاں تک یہ فریب آرزو بھی
خوش نہیں میں شہر ماہ و سال میں
جتنے بھی جتن کرکے محبت سے بچا جائے
سخت مشکل میں پڑا ہے شہر تابانی ابھی
روز ہوتا ہے زیاں انسان کا
بج رہی ہے پاؤں میں زنجیر ایسی
جاں چلی جاتی ہے کروٹ سی بدلنے میں بھی
چڑیوں نے جب پنکھ سکھانا چھوڑ دیا
چار سو منظر میں بے چینی سی ہے
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
یہاں اب شور ہی کوئی نہ سر گوشی کسی کی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.