سرورق
یہ سب لطف و کرم ہے خالق مہر درخشاں کا
غزل ردیف الف
آنا ادھر وہ جھوم کے ابر بہار کا
جلوہ دیکھا جو رخ یار کی زیبائی کا
شمع پر دیکھ لیا حال جو پروانے کا
جوش وحشت میں یہ کیا مجنوں نے کچھ اچھا کیا
نقاب اپنے رخ روشن سے او ظالم اٹھا دینا
خانۂ دلمیں بجز تیرے کوئی دلبر نہ تھا
سوز غم بعد فنا سامان راحت ہو گیا
جلوہ فگن جو دل میں وہ جانا نہ ہو گیا
آتے ہی عہد جوانی کے یہ سامان ہو گیا
کون وہ دل ہے جو رخ سے ترے حیراں نہ ہوا
ظلمت قبر سے عاشق نہ ہراساں ہوگا
حامیٔ خلق خدا جو بہ دل و جاں ہوگا
وقت تاثیر دعا جاتا رہا
چشم سیاہ بار نے بیمار کر دیا
میرا آنا ہے مریضوں کا شفا ہو جانا
آکے ہستی میں جب انجام فنا یاد آیا
سو مقتل وہ شمشیر ستم جب کھینچ کر آیا
جب جوانی کا ولولہ آیا
ہجر غم کا بیان ہے گویا
آج ساقی روبرو میرے نہ لیکر آشراب
غزل (ب)
وصل میں کب ہے تمہاری شرمگیں آنکھوں میں جواب
غیر سے کرتے ہیں کنارے آپ
آرزو مجھ سے ہے دل ناشاد کیا سبب
غزل (پ)
غزل (ت)
دکھلائے کسیکو نہ مقدر شب فرقت
نہ ہو جاؤں کیونکر فدائے محبت
جستجو میں یار کی گر کر جو میں نے کھائی چوٹ
غزل (ٹ)
غزل (ث)
غزل (ج)
کر گیا کیا کام تیر یار آج
تو بسا دل میں ہے ڈھونڈھوں تجھے اے یار عبث
شب کو آیا وہ ماہ پارا آج
گلے لگ کے کھڑٰی اجل پیار آج
غزل (چ)
غزل (ح)
ناوک زنی نگاہ کی اے جان جاں سے ہیچ
جب سماعت ہی نہ ہو اکی تو ہے بیکار شرح
شرم سے وہ منہ دکھائیں کس طرح
غزل (خ)
دشت میں کی میں نے جس دم آہ آتشباز سرخ
میں نے جس دن سے نظارا کیا اس یار کا رخ
غزل (د)
بھول کر آنہیں سکتی کبھی گلزار کی یاد
جگر کو پیتا ہے ہجر کا درد
غزل (ڈ)
کبھی اچھا نہیں غرور گھمنڈ
غزل (ر)
غزل (ذ)
حق تو یہ ہے ہے تری ہر بات اے دلبر لذیذ
ہنسی اے برق تجلی جس شرار آہ سوزاں پر
دل لگاتا ہے وہ اچھے کام پر
آئے تھے بشاش سیر باغ رضواں دیکھ کر
تیر ترکش سے کھینچ آئے خود بخود دل دیکھ کر
ہو مقابل ترے رخ سے گل خنداں کیونکر
کیا سنائیں بیان سیتاپور
عاشقوں سے تجھ کو اے ظالم نہیں زیبا بگاڑ
غزل (ڑ)
صبر کرنا اے دل شیدا نہ چھوڑ
غزل (ز)
غیر کیا جانے ترے بسمل کا راز
اور کیا تھا عاشق بیدل کے پاس
غزل (س)
جا نہیں سکتا کبھی دل سے خیال چارہ ساز
نکتہ سنجی میں ہوشیار ہیں قیس
ہے وہی دنیا میں آدم زداد خوش
نہ جائیگی کبھی بیکار کوشش
غزل (ش)
نہیں عالم میں ہے کہیں اخلاص
غزل (ص)
در پہ لائی ہے ترے کب آشنائی کی غرض
غزل (ض)
باعث افکار ہے مال حریص
کیا سنائیں تمہیں بیان ریاض
زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
غزل (ط)
غم فرقت کا نہیں ہے مرا اظہار غلط
کب اٹھائیں گے وہ باغ خلد میں جانے سے حظ
غزل (ظ)
غزل (ع)
بے ترے اے رشک گل ویراں نظر آتا ہے باغ
شیفتہ ایک پہ ہوں دو سے طبیعت مانع
غزل (غ)
کیا شب تاریک میں خلقت کا ہے رہبر چراغ
غزل (ف)
غزل (ق)
مجھ کو وحشت لے چلی ہے کوئے جاناں کی طرف
کیونکر نہ مجھ کو منزل جاناں دکھائے عشق
لب تک آتا نہیں بیان فراق
غزل (ک)
جلینگے ہجر جاناں میں کہاں تک
دیکھتا ہوں میں چراغ وادیٗ ایمن کا رنگ
جب نہیں سنتے وہ حال زار تک
غزل (گ)
قسمت خاک در جاناں کہاں پاتا ہے سنگ
غزل (ل)
کیوں نہ ہو اسکو شہادت کا سہارا قاتل
ہو جائے کیوں نہ خوں غم ہجر بتاں سے دل
دلبری کی چال چل کر لے چلا دلدار دل
یاد آتا ہے رخ و گیسوئے جاناں ہر دم
غزل (م)
لطف وہ کوچے میں اسکے پاتے ہیں آنے سے ہم
غزل (ن)
حد ترے ظلم کی گو اے ستم ایجاد نہیں
اے رشک مہر کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں
جہاں میں تجھ سا کوئی صاحب جمال نہیں
کچھ نہیں پروا اگر صورت دکھا سکتے نہیں
جذب الفت سے یہ سامان نظر آتے ہیں
قفس میں بلبلوں کی جان پر بیداد کرتے ہیں
امید وصل سے فرقت میں دلکو شاد کرتے ہیں
یاد اس شوخ کی پھر زلف دوتا کرتے ہیں
تصدیق جان اپنی عاشق جانباز کرتے ہیں
کب بدحواس لطف محبت کو پاسکیں
غزل بقید یک قافیہ
جلوہ عیاں ہے ایک ہی ہر برگ دیار میں
سوزش بھی رہی جو دل داغدار میں
کیوں اضطرار اور نہ ہو اضطرار میں
تماشا ہم نے وہ دیکھا ہے کوئے شوخ پرفن میں
بنایا حق نے یکتائے زمانہ تجھ کو ہر فن میں
زباں سے سوز دل کا جب بیاں ہو
غزل (و)
یہ التجا ہے ا پنی کہ روز جزا نہ ہو
مجھے دنیا میں اے دلدار حاصل لطف جنت ہو
خدایا ہند پر تیری عنایت ہو عنایت ہو
ہے گھر دلدار کا جب روضۂ خلد بریں ہم کو
خزاں آتے ہی ہے منظور ترک آشیاں مجھ کو
کھلی اسکے آگے زباں رفتہ رفتہ
ہوا تیار جو دلبر مرے گھر آنے کو
غزل (ہ)
ظلم کیوں کرتا ہے اے صیاد تو بلبل کے ساتھ
اب وہ دل ہی نہیں اڑ جانے کی حسرت کیسی
غزل (ی)
دیکھی جو شکل خواب میں اس رشک ماہ کی
کہتے ہیں رند دیکھ کے شکل آفتاب کی
حشرزاتیری جورفتار نزاکت دیکھی
سو صحرا ہی مجھے لیگئی وحشت میری
غزل (ے)
یہ آرزو تھی کہ ہم ترک آرزو کرتے
جو پیش ساقی کوثر بھی گفتگو کرتے
خدایا ہند کا روشن چراغ آرزو کردے
مرے دل کی اب اے اشک ندامت شست و شو کردے
دل میں ہے مرے گو کہ وہ پنہاں ہے نظر سے
ہے دل کو سلسلہ الفت کا اس زلف معنبر سے
وصل کیا ہوتا میسر کوشش و تدبیر سے
ستمگر نے کیا جب وار ہم پر تیغ بر آں سے
غش جو پاتا ہے دنیا میں خط تقدیر سے
جو ہیں کشتہ تری تیغ ادا کے
بدلے ہماری آہ پہ تیور عتاب کے
جو ڈھکے پردے تھے وہ کھل گئے دیوانوں کے
زمیں پر بے ستوں ٹھہرائی سقف آسماں تو نے
جب خرام ناز سے وہ حشر زاہو جائیں گے
پیدا کئے وہ داغ دل داغدار نے
وہ ہر ہر قدم پر سنبھلت ہوئے
شاید آجائے نظر آتے ہوئے جاتے ہوئے
ہزار شکر مرے دل میں ہیں سمائے ہوئے
ایسی وقت ذبح لغزش دشت قاتل میں رہے
راہ تسلیم ورضا میں جو تری شاد رہے
رخ سے رنگ شباب جاتا ہے
تصور میں کسی بت کی کمر ہے
جو حال بیکساں پر چشم تر ہے
کس مہ جبیں نے رخ سے اٹھائی نقاب ہے
لب مجنوں پر گر آہ رسا آتی ہے
میرے ویرانے میں بھی جلوۂ جانا نہ آتا ہے
جہد میں نفع نہ کچھ فائدہ تدبیر میں ہے
آپ کہتے ہیں کہ دیوانہ ہے سودائی ہے
جائے اماں نہ آئی نظر ہم جدھر گئے
اے یار جب فقیر ترے در کے ہو گئے
ترے شوق نظارہ سے ہم اے جان جہاں آئے
غرور حسن کی لب پر نہ گفتگو آئے
وحدت کا اسکی لطف تماشا اٹھائے
عبث ہے دوری کا اسکے شکوہ بغل میں اپنے وہ دلربا ہے
روز وعدہ رنگ لانے کے لئے
بتا اے طالب دنیا یہاں تو نے کیا کیا ہے
مسدس
مشاعرہ میلہ خیرآباد 1914ء قصیدہ در مدح شہنشاہ جہاں دام اقبالہ
واہ کیا ایام ہیں کیا خوب ہے فصل بہار
مسدس
مشاعرہ میلہ خیرآباد 1915ء مضمون فرائض انسانی
اس خدائے پاک کا شکر وسپاس
مسدس۔ جلسہ فتحیابی سرکار برٹش بمقام سیتا پور 27/ نومبر 1918ء
مسدس ۔ اتحاد
جسم سے مجھ کو ملا در مراد
اے وطن کے غمگساروجاں نثار و فخروناز
مسدس۔ جلسہ سالانہ سیواسمت سیتا پور 18/اپریل 1920ء
بولی رانی اے شپہر تمکنت کے آفتاب
مسدس۔ ملکھان اور اسکی رانی کی گفتگو بوقت محاضرہ سرسا
غیرت رنگ زمرد سنبر تھا فرش زمیں
مسدس۔ سرون کی کہانی راجہ دسرت کی زبانی
مسدس۔ جلسہ تقسیم انعام سیٹھ جیدیال اسکو بسواں 25/مارچ 1922ء
کوکب اقبال بسواں ماہ تاباں کیوں ہوا
اے تلک تو صاحب اعجاز تھا
جب تک اے خالق رہے قایم زمین و آسماں
سری مہاراج تلک کے وفات کے جلسہ ماتم میں یہ نظم پڑھی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہرم سبہا سیتاپور کا جلسہ دعائیہ ہنگام جنگ جرمن 4/اگست 1915ء
نوحہ وفات آقائے سخن سید محمد عسکری صاحب وسیم خیرآبادی
دن کو شب کر گئی وفات وسیم
ہائے خالی ہوا ہاتف سے جہان ہاتف
نوحہ وفات سید احمد حسن صاحب ہاتف رئیس و وکیل سیتا پور
سایہ کس کا ہے جہاں میں غیرت ابر بہار
قصیدہ
ید قدرت نے کیا اچھا تجھے انساں بنایا ہے
قطعہ
تری تصویر سے رحمت برستی ہے گورونانک
غزل
ہمارے دل کے آئینہ میں ہے تصویر نانک کی
قطعہ جات حسب فرمایش جناب لالہ پنڈی داس صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراپا جلوۂ نور خدا کی ہے جھلک اس میں
بادۂ عشق سے سرشار گورونانک تھے
چند اشعار بنابر رسالہ مبارک یاد مرتبہ جناب قمر رئیس راولپنڈی
قمر نے جلوۂ خوبی زمانے میں کیا دکھایا ہے
دیوان کے طبع ہونے کی تاریخیں
سرورق
یہ سب لطف و کرم ہے خالق مہر درخشاں کا
غزل ردیف الف
آنا ادھر وہ جھوم کے ابر بہار کا
جلوہ دیکھا جو رخ یار کی زیبائی کا
شمع پر دیکھ لیا حال جو پروانے کا
جوش وحشت میں یہ کیا مجنوں نے کچھ اچھا کیا
نقاب اپنے رخ روشن سے او ظالم اٹھا دینا
خانۂ دلمیں بجز تیرے کوئی دلبر نہ تھا
سوز غم بعد فنا سامان راحت ہو گیا
جلوہ فگن جو دل میں وہ جانا نہ ہو گیا
آتے ہی عہد جوانی کے یہ سامان ہو گیا
کون وہ دل ہے جو رخ سے ترے حیراں نہ ہوا
ظلمت قبر سے عاشق نہ ہراساں ہوگا
حامیٔ خلق خدا جو بہ دل و جاں ہوگا
وقت تاثیر دعا جاتا رہا
چشم سیاہ بار نے بیمار کر دیا
میرا آنا ہے مریضوں کا شفا ہو جانا
آکے ہستی میں جب انجام فنا یاد آیا
سو مقتل وہ شمشیر ستم جب کھینچ کر آیا
جب جوانی کا ولولہ آیا
ہجر غم کا بیان ہے گویا
آج ساقی روبرو میرے نہ لیکر آشراب
غزل (ب)
وصل میں کب ہے تمہاری شرمگیں آنکھوں میں جواب
غیر سے کرتے ہیں کنارے آپ
آرزو مجھ سے ہے دل ناشاد کیا سبب
غزل (پ)
غزل (ت)
دکھلائے کسیکو نہ مقدر شب فرقت
نہ ہو جاؤں کیونکر فدائے محبت
جستجو میں یار کی گر کر جو میں نے کھائی چوٹ
غزل (ٹ)
غزل (ث)
غزل (ج)
کر گیا کیا کام تیر یار آج
تو بسا دل میں ہے ڈھونڈھوں تجھے اے یار عبث
شب کو آیا وہ ماہ پارا آج
گلے لگ کے کھڑٰی اجل پیار آج
غزل (چ)
غزل (ح)
ناوک زنی نگاہ کی اے جان جاں سے ہیچ
جب سماعت ہی نہ ہو اکی تو ہے بیکار شرح
شرم سے وہ منہ دکھائیں کس طرح
غزل (خ)
دشت میں کی میں نے جس دم آہ آتشباز سرخ
میں نے جس دن سے نظارا کیا اس یار کا رخ
غزل (د)
بھول کر آنہیں سکتی کبھی گلزار کی یاد
جگر کو پیتا ہے ہجر کا درد
غزل (ڈ)
کبھی اچھا نہیں غرور گھمنڈ
غزل (ر)
غزل (ذ)
حق تو یہ ہے ہے تری ہر بات اے دلبر لذیذ
ہنسی اے برق تجلی جس شرار آہ سوزاں پر
دل لگاتا ہے وہ اچھے کام پر
آئے تھے بشاش سیر باغ رضواں دیکھ کر
تیر ترکش سے کھینچ آئے خود بخود دل دیکھ کر
ہو مقابل ترے رخ سے گل خنداں کیونکر
کیا سنائیں بیان سیتاپور
عاشقوں سے تجھ کو اے ظالم نہیں زیبا بگاڑ
غزل (ڑ)
صبر کرنا اے دل شیدا نہ چھوڑ
غزل (ز)
غیر کیا جانے ترے بسمل کا راز
اور کیا تھا عاشق بیدل کے پاس
غزل (س)
جا نہیں سکتا کبھی دل سے خیال چارہ ساز
نکتہ سنجی میں ہوشیار ہیں قیس
ہے وہی دنیا میں آدم زداد خوش
نہ جائیگی کبھی بیکار کوشش
غزل (ش)
نہیں عالم میں ہے کہیں اخلاص
غزل (ص)
در پہ لائی ہے ترے کب آشنائی کی غرض
غزل (ض)
باعث افکار ہے مال حریص
کیا سنائیں تمہیں بیان ریاض
زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
غزل (ط)
غم فرقت کا نہیں ہے مرا اظہار غلط
کب اٹھائیں گے وہ باغ خلد میں جانے سے حظ
غزل (ظ)
غزل (ع)
بے ترے اے رشک گل ویراں نظر آتا ہے باغ
شیفتہ ایک پہ ہوں دو سے طبیعت مانع
غزل (غ)
کیا شب تاریک میں خلقت کا ہے رہبر چراغ
غزل (ف)
غزل (ق)
مجھ کو وحشت لے چلی ہے کوئے جاناں کی طرف
کیونکر نہ مجھ کو منزل جاناں دکھائے عشق
لب تک آتا نہیں بیان فراق
غزل (ک)
جلینگے ہجر جاناں میں کہاں تک
دیکھتا ہوں میں چراغ وادیٗ ایمن کا رنگ
جب نہیں سنتے وہ حال زار تک
غزل (گ)
قسمت خاک در جاناں کہاں پاتا ہے سنگ
غزل (ل)
کیوں نہ ہو اسکو شہادت کا سہارا قاتل
ہو جائے کیوں نہ خوں غم ہجر بتاں سے دل
دلبری کی چال چل کر لے چلا دلدار دل
یاد آتا ہے رخ و گیسوئے جاناں ہر دم
غزل (م)
لطف وہ کوچے میں اسکے پاتے ہیں آنے سے ہم
غزل (ن)
حد ترے ظلم کی گو اے ستم ایجاد نہیں
اے رشک مہر کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں
جہاں میں تجھ سا کوئی صاحب جمال نہیں
کچھ نہیں پروا اگر صورت دکھا سکتے نہیں
جذب الفت سے یہ سامان نظر آتے ہیں
قفس میں بلبلوں کی جان پر بیداد کرتے ہیں
امید وصل سے فرقت میں دلکو شاد کرتے ہیں
یاد اس شوخ کی پھر زلف دوتا کرتے ہیں
تصدیق جان اپنی عاشق جانباز کرتے ہیں
کب بدحواس لطف محبت کو پاسکیں
غزل بقید یک قافیہ
جلوہ عیاں ہے ایک ہی ہر برگ دیار میں
سوزش بھی رہی جو دل داغدار میں
کیوں اضطرار اور نہ ہو اضطرار میں
تماشا ہم نے وہ دیکھا ہے کوئے شوخ پرفن میں
بنایا حق نے یکتائے زمانہ تجھ کو ہر فن میں
زباں سے سوز دل کا جب بیاں ہو
غزل (و)
یہ التجا ہے ا پنی کہ روز جزا نہ ہو
مجھے دنیا میں اے دلدار حاصل لطف جنت ہو
خدایا ہند پر تیری عنایت ہو عنایت ہو
ہے گھر دلدار کا جب روضۂ خلد بریں ہم کو
خزاں آتے ہی ہے منظور ترک آشیاں مجھ کو
کھلی اسکے آگے زباں رفتہ رفتہ
ہوا تیار جو دلبر مرے گھر آنے کو
غزل (ہ)
ظلم کیوں کرتا ہے اے صیاد تو بلبل کے ساتھ
اب وہ دل ہی نہیں اڑ جانے کی حسرت کیسی
غزل (ی)
دیکھی جو شکل خواب میں اس رشک ماہ کی
کہتے ہیں رند دیکھ کے شکل آفتاب کی
حشرزاتیری جورفتار نزاکت دیکھی
سو صحرا ہی مجھے لیگئی وحشت میری
غزل (ے)
یہ آرزو تھی کہ ہم ترک آرزو کرتے
جو پیش ساقی کوثر بھی گفتگو کرتے
خدایا ہند کا روشن چراغ آرزو کردے
مرے دل کی اب اے اشک ندامت شست و شو کردے
دل میں ہے مرے گو کہ وہ پنہاں ہے نظر سے
ہے دل کو سلسلہ الفت کا اس زلف معنبر سے
وصل کیا ہوتا میسر کوشش و تدبیر سے
ستمگر نے کیا جب وار ہم پر تیغ بر آں سے
غش جو پاتا ہے دنیا میں خط تقدیر سے
جو ہیں کشتہ تری تیغ ادا کے
بدلے ہماری آہ پہ تیور عتاب کے
جو ڈھکے پردے تھے وہ کھل گئے دیوانوں کے
زمیں پر بے ستوں ٹھہرائی سقف آسماں تو نے
جب خرام ناز سے وہ حشر زاہو جائیں گے
پیدا کئے وہ داغ دل داغدار نے
وہ ہر ہر قدم پر سنبھلت ہوئے
شاید آجائے نظر آتے ہوئے جاتے ہوئے
ہزار شکر مرے دل میں ہیں سمائے ہوئے
ایسی وقت ذبح لغزش دشت قاتل میں رہے
راہ تسلیم ورضا میں جو تری شاد رہے
رخ سے رنگ شباب جاتا ہے
تصور میں کسی بت کی کمر ہے
جو حال بیکساں پر چشم تر ہے
کس مہ جبیں نے رخ سے اٹھائی نقاب ہے
لب مجنوں پر گر آہ رسا آتی ہے
میرے ویرانے میں بھی جلوۂ جانا نہ آتا ہے
جہد میں نفع نہ کچھ فائدہ تدبیر میں ہے
آپ کہتے ہیں کہ دیوانہ ہے سودائی ہے
جائے اماں نہ آئی نظر ہم جدھر گئے
اے یار جب فقیر ترے در کے ہو گئے
ترے شوق نظارہ سے ہم اے جان جہاں آئے
غرور حسن کی لب پر نہ گفتگو آئے
وحدت کا اسکی لطف تماشا اٹھائے
عبث ہے دوری کا اسکے شکوہ بغل میں اپنے وہ دلربا ہے
روز وعدہ رنگ لانے کے لئے
بتا اے طالب دنیا یہاں تو نے کیا کیا ہے
مسدس
مشاعرہ میلہ خیرآباد 1914ء قصیدہ در مدح شہنشاہ جہاں دام اقبالہ
واہ کیا ایام ہیں کیا خوب ہے فصل بہار
مسدس
مشاعرہ میلہ خیرآباد 1915ء مضمون فرائض انسانی
اس خدائے پاک کا شکر وسپاس
مسدس۔ جلسہ فتحیابی سرکار برٹش بمقام سیتا پور 27/ نومبر 1918ء
مسدس ۔ اتحاد
جسم سے مجھ کو ملا در مراد
اے وطن کے غمگساروجاں نثار و فخروناز
مسدس۔ جلسہ سالانہ سیواسمت سیتا پور 18/اپریل 1920ء
بولی رانی اے شپہر تمکنت کے آفتاب
مسدس۔ ملکھان اور اسکی رانی کی گفتگو بوقت محاضرہ سرسا
غیرت رنگ زمرد سنبر تھا فرش زمیں
مسدس۔ سرون کی کہانی راجہ دسرت کی زبانی
مسدس۔ جلسہ تقسیم انعام سیٹھ جیدیال اسکو بسواں 25/مارچ 1922ء
کوکب اقبال بسواں ماہ تاباں کیوں ہوا
اے تلک تو صاحب اعجاز تھا
جب تک اے خالق رہے قایم زمین و آسماں
سری مہاراج تلک کے وفات کے جلسہ ماتم میں یہ نظم پڑھی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہرم سبہا سیتاپور کا جلسہ دعائیہ ہنگام جنگ جرمن 4/اگست 1915ء
نوحہ وفات آقائے سخن سید محمد عسکری صاحب وسیم خیرآبادی
دن کو شب کر گئی وفات وسیم
ہائے خالی ہوا ہاتف سے جہان ہاتف
نوحہ وفات سید احمد حسن صاحب ہاتف رئیس و وکیل سیتا پور
سایہ کس کا ہے جہاں میں غیرت ابر بہار
قصیدہ
ید قدرت نے کیا اچھا تجھے انساں بنایا ہے
قطعہ
تری تصویر سے رحمت برستی ہے گورونانک
غزل
ہمارے دل کے آئینہ میں ہے تصویر نانک کی
قطعہ جات حسب فرمایش جناب لالہ پنڈی داس صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراپا جلوۂ نور خدا کی ہے جھلک اس میں
بادۂ عشق سے سرشار گورونانک تھے
چند اشعار بنابر رسالہ مبارک یاد مرتبہ جناب قمر رئیس راولپنڈی
قمر نے جلوۂ خوبی زمانے میں کیا دکھایا ہے
دیوان کے طبع ہونے کی تاریخیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔