تعارف
عاصی ہوں مگر خوف نہیں روز جزا کا
دیکھتے ہیں روز جلوہ خواب میں سرکارکا
غزل ردیف (الف)
مجھ کو ہوا ہے عشق رسالت مآب کا
نبی کے روضۂ اقدس کا میں زوار ہوجاتا
وہ شرخ اور دے مجھے ساغر شراب کا
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا
آیا ہی لطف سوزش زخم جگر میں کیا
مرے حسرت بھرے دل میں گذر ہو ان کے پیکاں کا
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
ستم تیر نگاہ دل ربا تھا
وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
نہ دل اپنا ہی محبت میں نہ دل بر اپنا
ساتھ فرقت میں دیا کیسا دل ناشاد کا
ناوک یار اگر دل میں ترازو ہوگا
رنج اٹھائے جان کھوئی دل گیا
کچھ بھی نہیں جہاں میں عشاق بے نوا کا
اس بزم میں کچھ نظر آیا نظر آیا
زبانی ان کو یہ پیغام اے باد صبا دینا
منت کش اعجاز مسیحا نہیں ہوتا
کون ہے کوئی نہیں عشق کے بیماروں کا
جس جگہ بیٹھ گیا ہے وہی مسکن میرا
لب خاموش وانہیں ہوتا
میں بندۂ عاجز ہوں اس قادر یکتا کا
پیش داور شکوۂ بیداد لد بررہ گیا
رخ پر نور پہ زلفوں کو پریشاں دیکھا
تقدیر میں وحشت ہے تدبیر سے کیا ہوگا
وہ شوخ اپنے ہاتھ سے مجھ کو پلا گیا
میری عرض آرزو پر اک نیا عالم ہوا
دل فرقت حبیب میں دیوانہ ہوگیا
مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
تیر نگاہ یار جگر سے نکل گیا
عہد طفلی جا چکا اب ہی شباب آیا ہوا
وہ صف عشق سن کے عدو پر فدا ہوا
ردیف(ب)
تلون جس میں یہ ہو
میں ہوں یکتا عشق میں تو حسن میں ہی لا جواب
ردیف(خ)
میری نظروں سے اگر دیکھے بہار کوئے دوست
پھولی پھلی بہار میں نخل کہن کی شاخ
ہم وہ عاشق عشق جس کا عشق بلبل کا جواب
ردیف(ت)
آئی ہے خواب گھر کے گھٹا آسمان پر
ردیف(ر)
دیتا ہے جان زلف گرہ گیر یار پر
جدھر میں آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں ہے عیاں دلبرا
ردیف(ز)
دیکھے شب خلوت کوئی دلدار کے ا نداز
ردیف (ل)
ردیف (ن)
جب مجھ سے پوچھتا ہے کوئی ماجرائے دل
سراپا آفت جاں آفت دل ہوتے جاتے ہیں
پھر ان کی جستجو ہے اور میں ہوں
کیا قیامت ہے کہ وہ جلوہ نظر آتا نہیں
نہ پوچھو ہم سے کیونکر زندگی کے دن گذرتے ہیں
کسی صورت سے بہلتا دل ناشاد نہیں
ستم گر کچھ نہیں تیرے تصور کے سوا دل میں
یوں وہ آغوش تصور سے نکل جاتے ہیں
غیر اس بزم میں ہر آن نظر آتے ہیں
دوستوں سے اپنے ایسی دشمنی اچھی نہیں
بڑی مدت سے مشتاق لقا اے یار بیٹھے ہیں
دم بھر کو بھی سکون نہیں اضطراب میں
احساس غم نہیں ہے پروائے غم نہیں
یا الٰہی مرے نالوں میں اثر ہی کہ نہیں
وہ جفا کرے تو وفا کروں وہ ستم کرے تو دعا کروں
کیا سنائیں جو گذرتی ہے سنا سکتے نہیں
وہ بھولے پن سے کہتے ہیں محبت کس کو کہتے ہیں
وہ یہ کہتے ہیں زمانے کی تمنا میں ہوں
بے رحم ہیں سفاک ہیں غارت گر دیں ہیں
ردیف و)
یارب کسی کو عشق کسی کا کبھی نہ ہو
نیند بھی ہجر میں آتی ہے بمشکل مجھ کو
تم کو دشمن سے اگر کوئی سروکار نہ ہو
بے ہوش ہوے دیکھ کے اس شوخ ادا کو
غیر ممکن مائل حسن بتاں کوئی نہ ہو
ایذا پسند تھی جو ترے بے قرار کو
مجھے کیا لطف جینے کا بھلا کیا زندگی میری
ردیف(ی)
ناز سے کہتے ہیں وہ رکھ کر برابر آئینہ
ردیف(ہ)
اس فتنہ گر کی چال عجب چال چل گئی
اشک باری سے بگڑ بیٹھا وہ دلبر اور بھی
نا امیدی کی بدولت میری حالت کیا ہوئی
تمنائے وصال یار کیوں کر دل سے نکلے گی
دے کے دل ان کو ہوئی ہے اب یہ مشکل اور بھی
اک بھیڑ حسرتوں کی دل پر محن میں تھی
مٹ گئے ہم تو انھیں یاد ہماری آئی
محشر میں کیا زبان کھلے داد خواہ کی
کچھ انتہا ہے طول شب انتظار کی
ادھر کی ہوا جب ادھر آگئی
اٹھا دو پھر نقاب روئے پرنور تھوڑی سی
طبیعت ہی مری مجھ پر محبت کی بلا لائی
لب تک آکر ہجر میں ان کی شکایت رہ گئی
ستم ان کے جفائیں آسماں کی
یہ کیا مجھ کو سنائی خیر تو ہے یہ کہی کیسی
رات دن آٹھ پہر مجھ پہ ستم ہوتا ہے
ردیف(ے)
ستارہا ہے یہاں تک خیال یار مجھے
بتوں میں جلوۂ روئے نگار دیکھ چکے
یہ لگاوٹ بھی ترا تیر نظر کرتا ہے
ہم ہو گئے جو عشق میں برباد ہوگئے
فرقت غیر سے یہ آپ کی حالت کیا ہے
وہ ظالم بے وفا ہے دشمن اہل تمنا ہے
یوں بولے قتل گاہ میں وہ دیکھ کر مجھے
جب نہ پردے سے کبھی وہ بت رعنا نکلے
دل میرا ان کی زلف شکن درشکن میں ہے
تو ہی یاد آتا ہے اے گلفام اٹھتے بیٹھتے
سوال وصل کرتے ہی چہری مجھ پر نکالی ہے
یہ آرزو تھی کہ اس طرح گفتگو کرتے
دو چار دن کی زندگی مستعار ہے
نالۂ دل دوز نکلے کام کے
کوئی کس دل سے ملتا ہے کوئی کس دل سے ملتا ہے
اک بت نا آشنا کا دھیان ہے
اے جنوں اس درجہ شوق چاک دامانی مجھے
یہ نا ممکن ہے دشمن ہوں بھلائی دیکھنے والے
شب خلوت یہ کھ کھ کر کوئی مجھ سے جہگڑتا ہے
وہ مدعی کے لئے مدعی خوشی کے لئے
ان کی نگہ ناز عجب شعبدہ گرہی
دل میں غم ہے درد پہلو میں ہے سودا سر میں ہے
وہ جواں ہوکر سراپا آفت جاں ہوگئے
تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے
نقاب رخ سے ہٹائیں ہٹا نہیں سکتے
ہم جستجوئے یار میں حیران ہوگئے
صبح شب خلوت انھیں جانے کی پڑی ہے
ٹیڑھے نہ اس قدر ہو کسی بے گناہ سے
جو بات منھ سے ترے بے وفا نکلتی ہے
کریں دل کی تمنائیں بیاں کیوں کر
کیا بتائیں دل بے تاب میں کیا رکھا ہے
غنچہ جاوید کا قدرتی منظر
سنا ہے آج باندھے گلا کوئی بانکا جواں سہرا
سہرابہ تقریب جلسہ شادی اظہر حسین میاں مار ہروی سلمہ
ایک دن رات کو جو نیند آئی
افکار ہجر
ممکن ہی نہیں ہے کوئی دل اپنا بچالے
جان بھی دل بھی جگر بھی ہے فدائے غوث پاک
پیداہوا ہے حضرت اخترؔ کے گھر پسر
دیا اللہ نے کیاس بھتیجا اے فضاؔ تم کو
مہ جبیں فرزند سائلؔ کو دیا
تم کو خدا نے دیا چاند سا بیٹا عزیزؔ
بہار آئی ہے اے دل اس طرح کچھ باغ دنیا میں
سیکڑوں میں ایک یہ دیوان ہے
کیوں طبعیت ہو نہ شاداں مل گئی دل کی مراد
واہ کیا دل کش ہے دیوان حسنؔ
کہاں میرے اعجازؔ کو چھوڑ کر
کیوں نہ ہو رنج کہ جب اٹھ جائے
قضا کی جناب رساکے پسر نے
اچھا نکالا فاضل نے پرچہ
ہے حمیدہ کی موت کا غم سب کو
مرنے کے نہ تھے دن ابھی اعجاز نبی کے
کیوں نہ احباب کریں اشک فشانی اعجازؔ
ماتم ہجرؔ
چودہ برس کے سن میں مرنا ابوالحسن کا
آگئی انور علی خاں کو قضا
قطعات تاریخ یاد گار ہجر
CONTRIBUTORفصیح اکمل
CONTRIBUTORفصیح اکمل
تعارف
عاصی ہوں مگر خوف نہیں روز جزا کا
دیکھتے ہیں روز جلوہ خواب میں سرکارکا
غزل ردیف (الف)
مجھ کو ہوا ہے عشق رسالت مآب کا
نبی کے روضۂ اقدس کا میں زوار ہوجاتا
وہ شرخ اور دے مجھے ساغر شراب کا
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا
آیا ہی لطف سوزش زخم جگر میں کیا
مرے حسرت بھرے دل میں گذر ہو ان کے پیکاں کا
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
ستم تیر نگاہ دل ربا تھا
وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
نہ دل اپنا ہی محبت میں نہ دل بر اپنا
ساتھ فرقت میں دیا کیسا دل ناشاد کا
ناوک یار اگر دل میں ترازو ہوگا
رنج اٹھائے جان کھوئی دل گیا
کچھ بھی نہیں جہاں میں عشاق بے نوا کا
اس بزم میں کچھ نظر آیا نظر آیا
زبانی ان کو یہ پیغام اے باد صبا دینا
منت کش اعجاز مسیحا نہیں ہوتا
کون ہے کوئی نہیں عشق کے بیماروں کا
جس جگہ بیٹھ گیا ہے وہی مسکن میرا
لب خاموش وانہیں ہوتا
میں بندۂ عاجز ہوں اس قادر یکتا کا
پیش داور شکوۂ بیداد لد بررہ گیا
رخ پر نور پہ زلفوں کو پریشاں دیکھا
تقدیر میں وحشت ہے تدبیر سے کیا ہوگا
وہ شوخ اپنے ہاتھ سے مجھ کو پلا گیا
میری عرض آرزو پر اک نیا عالم ہوا
دل فرقت حبیب میں دیوانہ ہوگیا
مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
تیر نگاہ یار جگر سے نکل گیا
عہد طفلی جا چکا اب ہی شباب آیا ہوا
وہ صف عشق سن کے عدو پر فدا ہوا
ردیف(ب)
تلون جس میں یہ ہو
میں ہوں یکتا عشق میں تو حسن میں ہی لا جواب
ردیف(خ)
میری نظروں سے اگر دیکھے بہار کوئے دوست
پھولی پھلی بہار میں نخل کہن کی شاخ
ہم وہ عاشق عشق جس کا عشق بلبل کا جواب
ردیف(ت)
آئی ہے خواب گھر کے گھٹا آسمان پر
ردیف(ر)
دیتا ہے جان زلف گرہ گیر یار پر
جدھر میں آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں ہے عیاں دلبرا
ردیف(ز)
دیکھے شب خلوت کوئی دلدار کے ا نداز
ردیف (ل)
ردیف (ن)
جب مجھ سے پوچھتا ہے کوئی ماجرائے دل
سراپا آفت جاں آفت دل ہوتے جاتے ہیں
پھر ان کی جستجو ہے اور میں ہوں
کیا قیامت ہے کہ وہ جلوہ نظر آتا نہیں
نہ پوچھو ہم سے کیونکر زندگی کے دن گذرتے ہیں
کسی صورت سے بہلتا دل ناشاد نہیں
ستم گر کچھ نہیں تیرے تصور کے سوا دل میں
یوں وہ آغوش تصور سے نکل جاتے ہیں
غیر اس بزم میں ہر آن نظر آتے ہیں
دوستوں سے اپنے ایسی دشمنی اچھی نہیں
بڑی مدت سے مشتاق لقا اے یار بیٹھے ہیں
دم بھر کو بھی سکون نہیں اضطراب میں
احساس غم نہیں ہے پروائے غم نہیں
یا الٰہی مرے نالوں میں اثر ہی کہ نہیں
وہ جفا کرے تو وفا کروں وہ ستم کرے تو دعا کروں
کیا سنائیں جو گذرتی ہے سنا سکتے نہیں
وہ بھولے پن سے کہتے ہیں محبت کس کو کہتے ہیں
وہ یہ کہتے ہیں زمانے کی تمنا میں ہوں
بے رحم ہیں سفاک ہیں غارت گر دیں ہیں
ردیف و)
یارب کسی کو عشق کسی کا کبھی نہ ہو
نیند بھی ہجر میں آتی ہے بمشکل مجھ کو
تم کو دشمن سے اگر کوئی سروکار نہ ہو
بے ہوش ہوے دیکھ کے اس شوخ ادا کو
غیر ممکن مائل حسن بتاں کوئی نہ ہو
ایذا پسند تھی جو ترے بے قرار کو
مجھے کیا لطف جینے کا بھلا کیا زندگی میری
ردیف(ی)
ناز سے کہتے ہیں وہ رکھ کر برابر آئینہ
ردیف(ہ)
اس فتنہ گر کی چال عجب چال چل گئی
اشک باری سے بگڑ بیٹھا وہ دلبر اور بھی
نا امیدی کی بدولت میری حالت کیا ہوئی
تمنائے وصال یار کیوں کر دل سے نکلے گی
دے کے دل ان کو ہوئی ہے اب یہ مشکل اور بھی
اک بھیڑ حسرتوں کی دل پر محن میں تھی
مٹ گئے ہم تو انھیں یاد ہماری آئی
محشر میں کیا زبان کھلے داد خواہ کی
کچھ انتہا ہے طول شب انتظار کی
ادھر کی ہوا جب ادھر آگئی
اٹھا دو پھر نقاب روئے پرنور تھوڑی سی
طبیعت ہی مری مجھ پر محبت کی بلا لائی
لب تک آکر ہجر میں ان کی شکایت رہ گئی
ستم ان کے جفائیں آسماں کی
یہ کیا مجھ کو سنائی خیر تو ہے یہ کہی کیسی
رات دن آٹھ پہر مجھ پہ ستم ہوتا ہے
ردیف(ے)
ستارہا ہے یہاں تک خیال یار مجھے
بتوں میں جلوۂ روئے نگار دیکھ چکے
یہ لگاوٹ بھی ترا تیر نظر کرتا ہے
ہم ہو گئے جو عشق میں برباد ہوگئے
فرقت غیر سے یہ آپ کی حالت کیا ہے
وہ ظالم بے وفا ہے دشمن اہل تمنا ہے
یوں بولے قتل گاہ میں وہ دیکھ کر مجھے
جب نہ پردے سے کبھی وہ بت رعنا نکلے
دل میرا ان کی زلف شکن درشکن میں ہے
تو ہی یاد آتا ہے اے گلفام اٹھتے بیٹھتے
سوال وصل کرتے ہی چہری مجھ پر نکالی ہے
یہ آرزو تھی کہ اس طرح گفتگو کرتے
دو چار دن کی زندگی مستعار ہے
نالۂ دل دوز نکلے کام کے
کوئی کس دل سے ملتا ہے کوئی کس دل سے ملتا ہے
اک بت نا آشنا کا دھیان ہے
اے جنوں اس درجہ شوق چاک دامانی مجھے
یہ نا ممکن ہے دشمن ہوں بھلائی دیکھنے والے
شب خلوت یہ کھ کھ کر کوئی مجھ سے جہگڑتا ہے
وہ مدعی کے لئے مدعی خوشی کے لئے
ان کی نگہ ناز عجب شعبدہ گرہی
دل میں غم ہے درد پہلو میں ہے سودا سر میں ہے
وہ جواں ہوکر سراپا آفت جاں ہوگئے
تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے
نقاب رخ سے ہٹائیں ہٹا نہیں سکتے
ہم جستجوئے یار میں حیران ہوگئے
صبح شب خلوت انھیں جانے کی پڑی ہے
ٹیڑھے نہ اس قدر ہو کسی بے گناہ سے
جو بات منھ سے ترے بے وفا نکلتی ہے
کریں دل کی تمنائیں بیاں کیوں کر
کیا بتائیں دل بے تاب میں کیا رکھا ہے
غنچہ جاوید کا قدرتی منظر
سنا ہے آج باندھے گلا کوئی بانکا جواں سہرا
سہرابہ تقریب جلسہ شادی اظہر حسین میاں مار ہروی سلمہ
ایک دن رات کو جو نیند آئی
افکار ہجر
ممکن ہی نہیں ہے کوئی دل اپنا بچالے
جان بھی دل بھی جگر بھی ہے فدائے غوث پاک
پیداہوا ہے حضرت اخترؔ کے گھر پسر
دیا اللہ نے کیاس بھتیجا اے فضاؔ تم کو
مہ جبیں فرزند سائلؔ کو دیا
تم کو خدا نے دیا چاند سا بیٹا عزیزؔ
بہار آئی ہے اے دل اس طرح کچھ باغ دنیا میں
سیکڑوں میں ایک یہ دیوان ہے
کیوں طبعیت ہو نہ شاداں مل گئی دل کی مراد
واہ کیا دل کش ہے دیوان حسنؔ
کہاں میرے اعجازؔ کو چھوڑ کر
کیوں نہ ہو رنج کہ جب اٹھ جائے
قضا کی جناب رساکے پسر نے
اچھا نکالا فاضل نے پرچہ
ہے حمیدہ کی موت کا غم سب کو
مرنے کے نہ تھے دن ابھی اعجاز نبی کے
کیوں نہ احباب کریں اشک فشانی اعجازؔ
ماتم ہجرؔ
چودہ برس کے سن میں مرنا ابوالحسن کا
آگئی انور علی خاں کو قضا
قطعات تاریخ یاد گار ہجر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔