سرورق
دیباچہ
فہرست کلام انشا
مقدمہ
کب زناخی مرے پاس آئی تھی کل رات غلط
غزلیات
صنما برب کریم یاں ترے ہیں ہر ایک یہ مبتلا
اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھالا
لاہوت پر نہ دیکھیں جو قد سیاں تماشا
کیوں شہر چھوڑ عابد غار جیل میں بیٹھا
اگر نہ مجھ سے تو آکر لپٹ گیا ہوتا
جگر کی آگ بجھے جلد جس میں وہ شے لا
تم جو کہتے ہو مجھے تو نے بہت رسوا کیا
اکڑ کے پنجوں کے بل یہ چلنا نہ کیوں کے کشتہ ہوں اس ادا کا
ہو یہ کھر کھوج مٹے چاہ نصیب اعدا
کیوں جی کیوں آپ کی خاطر میں بھلا کیا آیا
دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
بت کافر مسیحا دم فرنگی ملت اے ترسا
برقی چشمک زن ہے ساقی ابر ہے چھایا ہوا
جوں ہی کعبے سے فقیروں نے اٹھایا بستر
کچھ یہ مجھی کو یوں نہیں اس کی پھبن نے غش کیا
میں نے جو وجد میں یہاں جیب کو پھاڑ غش کیا
مجھے بیخود ی جو کچھ آگئی تو لپٹ کے یار نے غش کیا
واں جھوٹ موٹ تم نے بناوٹ سے غش کیا
مکھڑے پہ اس کے صرف نہ بلبل نے غش کیا
تنہا نہ اس کو دیکھ کے محفل نے غش کیا
گو اس کی جھانک تاک پہ جس تس نے غش کیا
ایسا ہی ایک رند سبوکش نے غش کیا
ساقی کی انکھڑیوں نے جسے بادہ کش کیا
جس دم کہ ترے محو تجلی کو غش آیا
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب نبیڑے جا
خواص اعجاز عیسوی کیوں نہ رکھے ساقی ایاغ اپنا
خیال کیجیے کیا آج کام میں نے کیا
دیکھنا جب مجھ کرشان یہ گالی دینا
پرتو سے چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا
جھمکا چمک کا ترے اس نمک کا
جھوٹا نکلا قرار تیرا
اس بندے کی چاہ دیکھیے گا
ہے ترا گال مال بو سے کا
زلف کو تھا خیال بو سے کا
فقیرانہ ہے دل مقیم اس کی رہ کا
دست جنوں سے اے واے ویلا
ہے ظلم اس کو یار کیا ہم نے کیا کیا
اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
رہر وان عشق نے جس دم علم آگے دھرا
اگر ہمارے کرے کوئی بند بند جدا
مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
ہے بندھا مینہ کے تار کا جھولا
دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
لیا گر عقل نے منہ میں دل بیتاب کا گٹکا
جس وقت ہم کو بنگ کا صافہ نظر پڑا
اے عشق جلوہ گر ہے خود تجھ میں ذات مولا
میں نے جو آنشے میں بلبل کا منہ چڑایا
کیا خدا سے عشق کی میں رونمائی مانگتا
جو ہاتھ اپنے سبزے کا گھوڑا لگا
عشق نے مجھ پر اٹھایا ایک تازہ اشقلا
پیدا ہو اجی عشق سے جب سنگ میں کیڑا
کیا جو کھیت آج چاندنی نے مراد اپنی یہ چاند نکلا
انہیں بھوک پیاس سے کام کیا وہ جو قید تن سے ہوئے رہا
چل نہ امریوں میں جھولیں لیں درختوں کی ہوا
ہوں کشتہ ان کے گجھے اشاروں کی چوٹ کا
غلام میں تو ہوں ان صاحبوں کی کھڑپچ کا
زاہد میرے مولا کے اسرار نہیں پاتا
ہوا جب اشک دل بافراغ کا بیٹا
دل ستم زدہ بیتابیوں نے پوٹ لیا
مجھے کیا ملائک عرش سے مجھے عشق ہے ترا اے خدا
اب تو اگلی سی طرح کا نہیں گہرا پردا
ردیف (ن)
ہوا پیدا یہ درد دل سے کوہ قاف کا جوڑا
جو بھیجا ابر کو دریا نے نادر پاٹ کا جوڑا
چمک کر رات کو گرجا یہ برق وعدہ کا جوڑا
نہ کیوں ہو جر مد آہ اہل عزم کا جوڑا
ہوئی جب لیلۃ القدر اس پری کی جعد کا جوڑا
ملا آپس میں اس دھج سے سحاب وبرق کا جوڑا
لیا چھین ابرو ومژگاں نے عام وخاص کا جوڑا
پہن مت مانگ کے ایسے کسی کم ظرف کا جورا
جواہر سے ملاتا کون یہاں اعراض کا جوڑا
نہ اے زاہد پہن بنوا کے موٹے سوت کا جوڑا
ہوا پھٹ جس گھڑی قیس بیاباں گرد کا جوڑا
صنم خانے میں جب بولا بت ناقوس کا جوڑا
نہیں مجھ پاس اے قمری ترے کھڑاگ کا جوڑا
تڑاقے کا یہ پہنا اس پری نے تاش کا جوڑا
کہیں بچھڑا ہوا دیکھا جو اک سرخاب کا جوڑا
ملے پارے سے جو ہڑتال کرکے راکھ کا جوڑا
چمن سے کیا بندھے تیرے رخ نم ناک کا جوڑا
جس شخص نے کہ اپنی نخوت کے بل کو توڑا
کیا کہوں احوال تیرے عاشق بیتاب کا
ابکے یہ سردی ہر ایک تارا جم گیا
مل گئے سینے سے وہ پھر ہے یہ کیسا اضطراب
ردیف (ب و پ)
زلزلہ لایا ہے جسم مضمحل کا اضطراب
جھٹ پٹ کے تم نے جو موندے کواڑ خوب
پھرایہ آنکھوں میں اس زلف عنبریں کا سانپ
بنا کے چھوڑوں جو افیون کا شراب میں سانپ
ہمیں اس صنم سے ہے الفت بہت
ردیف (ت)
نہیں چاہیے شرم اتنی بہت
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
کعبے سے کیا ہم نے جو آہنگ خرابات
مدت کے بعد آئے نظر خیر وعافیت؟
جمال وعظمت دادارخالق ملکوت
صد برگ گہ دکھائے ہے گہ ارغواں بسنت
تونے لگائی آکے یہ کیا آگ اے بسنت
کو صولت اسکندرو کو حشمت دارا ،اے صاحب فطرت
ہے نام خدا وا چھڑے کچھ زور تماشا یہ آپ کی رنگت
چرخ اسے کہہ مت یہ ہے نسج لعاب عنکبوت
کیوں میاں بلند رتبہ سر راہ کے درخت
لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ چٹ تو بول اٹھے جھٹ
اٹھ نہ اے دود جگر ابر بہاراں سے لپٹ
کھول آغوش ٹک اجساد اسیراں سے لپٹ
چٹ گیا ناقہ لیلیٰ جو مغیلاں سے لپٹ
لگی غلیل سے ابرو کی دل کے داغ کے چوٹ
سابہ سئ زکف گئی اس کے جو گھونگھٹ سے لپٹ
بیٹھے جہاں ہیں غیرت مجھ کو بلاتے ہو عبث
ردیف (ث)
جس کو کچھ دھن ہو کرے ہم سے حقیقت کی بحث
ردیف (ج)
ہاتھ آوے کس کے آپ سے عیار کا مزاج
جو بات تجھ سے چاہے ہے ا پنا مزاج آج
نہ فقیروں کے جان واہی خرچ
سبز خط میں ترے تل ہیں وہ طلسمات کے بیج
ردیف (چ)
امرد ہوئے ہیں تیرے خریدار چار پانچ
بن کے وہ برق نگہ ابروے خمدار کی آنچ
ہے شب وصل کھلے کاش نہ دروازۂ صبح
ردیف (ح)
کریم جلد کرم ہو مزاج صحیح
تجھ سے یوں یکبار توڑوں کس طرح
یوں تری خونخوار آنکھوں کا ہے قاتل رنگ سرخ
پھر کاش پھول بیٹھے ہر اک اس چمن کی شاخ
ہے یاں وہ نخل عشق میں دیوانہ پن کی شاخ
نہ لگی مجھ کو جب اس شوخ طرحدار کی گیند
ردیف (د)
حضرت شیخ ادھر کیجے کرم یا معبود
لگ جا تومرے سینے سے دروازے کو کربند
گر کوئی چاہے کسی کو یہ نہیں کچھ کام بد
نظر کر علی کو قر بن محمد
یاں سینہ ہے مدینہ اور دل نبی کی مسجد
بے مدد حق کے کریں کیا مردم دنیا مدد
لوٹیں ہیں مست یوں بسر خاک اینڈ اینڈ
ردیف (ڈ)
ردیف (ذ)
میاں چشم جادو پہ اتنا گھمنڈ
کیوں نہ گھبراؤں کہے جب مجھ کو تو مشفق ملاذ
چھیڑا نہ کرو میرے قلمدان کے کاغذ
لکھ دو آخونجی صاحب کوئی ایسا تعویذ
ردیف (ر)
ہیں روزحسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
مستی ہی تیر آنکھوں کی ہے جام سے لذیذ
کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
ہلکے پھلکے جو ملے دیر کے روڑے پتھر
کھاویں ہر چند کہ بارش کے تڑ یڑے پتھر
آدمی چیز ہے کیا ان نے نہ چھوڑے پتھر
راتوں کو نہ نکلا کرو دروازہ سے باہر
فوج لڑکوں کی جڑے کیوں نہ تڑاتڑ پتھر
مانگا جو میں نے بوسہ ان سے چمن کے اندر
ساقیا !یہ خوش آئی بوے خانۂ خمار
آئے نہ آپ رات جو اپنے قرار پر
لے چلا دامان صحرا کو گریباں پھاڑ کر
جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
ہے یہ اس مہ جبیں کی تصویر
دل کرے کیا تجھ کو لکھ کر خط پنہانی پہ مہر
اے صبح نہ جا سارے چمن نذر پکڑ کر
کیا ان سے ملوں عید کے دن نذر پکڑ کر
سینہ نہ جلا شعر وسخن نذر پکڑ کر
جو ٹک دھونی لگا بیٹھوں زمیں کی ناف کے اوپر
بولےوہ جب ہاتھ رکھا میں نے ان کی ران پر
دھرا جب نقد دل ہی کھول تیری ناف کے اوپر
نگہ جو پڑی تجھ سے رشک قمر پر
گیا یار آفت پڑے اس سحر پر
مجھے رونا آتا ہے شمع سحر پر
یہ جلترنگ نے پھیلادی آگ پانی پر
عجب سرچشمۂ مہتاب سے تھی آگ پانی پر
ردیف (ڑ)
لے انہوں نے جو یہ پھولوں کی چھڑی ڈالی توڑ
پیرمغاں کسی کو نہ تو تشنہ کام چھوڑ
اے آہ اپنی تو کہیں اب آن بان چھوڑ
میں نے کہا نہ بس مجھے اے نازنیں نہ چھیڑ
اے دل تو ذکر لیلی محمل نشیں نہ چھیڑ
اے دل سمجھ کے اس کی تو زلف رسا کو چھیڑ
خط ترا نورستہ دیکھ اے یار شوخ وشنگ سبز
ردیف (ز)
ردیف(س)
باغ امید میں یوں ہے چمن یاس کی باس
پھنس گئی عندلیب ہو بیکس
بس نہ دنیا کی کر اے صاحب ادراک ہوس
زلف وچشم یار ہیں دام گرہ گیر وقفس
پھر تو کہہ بھر کے دم سرد مرے ہونٹ نہ چوس
ردیف(ش)
ہو جائے اگر جہاں فراموش
بہت غنیمت کہ خودبدولت نے یاں جو کی ایک دم نوازش
بہار ہو کے مجسم بوضع بادلہ پوش
ردیف (ص)
کیوں نہ دل دوں اسے دنیا میں نہیں ایسا شخص
کیوں ساقیا نہ لال ہو اپنا یہ رنگ فرش
زہے نسائم فیضان مبدء فیاض
لے ہی چکا نہ دل کو تو اے بے وفا غرض
ردیف (ض)
ردیف(ط)
میں بہانے جو لگا لے کے مے ناب کی بط
کیا دخل تیرے غم میں رہے تن میں جاں غلط
کس طرح سے مجھ سے تم سے ہووے باہم اختلاط
مجھ سے فسردہ طبع کو کیا سیر باغ شرط
تجھ سے ہے ساقی ایک جام طمع
ردیف(ع)
کس کو سنا کر کہا آپ نے اوبے لحاظ
ردیف (ظ)
سمجھے ہیں قد سیاں جسے شاہ جہاں مطاع
بوقت صبح ہو یوں نشۂ شراب طلوع
اے آتش فراق ترابل بے سوز داغ
روشن ہے ملک دل ہمارے چراغ داغ
بخشا یہ حق نے اس لب گلفام کو فروغ
ہم جو ولی ہوں تو پڑے اپنی نگاہ صاف صاف
ردیف (ف)
عالم میں دوستی کےاور اس قدر تکلف
لکھ مرے قتل کے محضر پہ تو شنجرف کے حرف
ردیف(ق)
پہنچے فغاں جوش جو اپنی بہ گوش برق
مرزا صاحب الطاف نشاں سلمہ
ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
ناداں کہاں طرب کا سر انجام اور عشق
عشق سچ ہو تو نہ معشوق ہو کیونکر عاشق
کھولے اس چاند سے مکھڑے کا جو گھونگھٹ عاشق
ردیف (ک)
بن ترے دیکھے ہے سب دہر کو اوجڑ عاشق
گرہوں افلاک وعقول اور نظر بیسوں ایک
ہے یاد خرام اس کے میں مجھ کو ہوس کبک
ایک دن رات کی صحبت میں نہیں ہوتے شریک
بات کے ساتھ ہی موجود ہے ٹال ایک نہ ایک
ردیف(گ)
جھونک دی عشق نے جب اس دل بیتاب میں آگ
پہونچی جو تابہ گوش صداے شکست رنگ
ردیف (ل)
بسکہ تھا تیری شب ہجر میں بے نور پلنگ
سلطنت بیچتے ہیں دردکشاں خاک کے مول
حواس وہوش تھے اپنے بچنگ نکہت گل
آئینے میں فلک کے یہ عکس چراغ دل
مجھے حاصل ہو جو ٹک بھی فراغ دل
سیر بہار لالہ زار ان کو ادھر یہ داغ دل
تجھے میں کیا نہیں اے جنوں کہ نہ کھینچ پنبہ داغ دل
یاں دل میں اور ہاتھ میں ہیں لاکھ داغ وگل
فروغ مے سے نہ کیونکے ہووے ایاغ روشن مراد حاصل
کیا ہوا در پہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
پھیلی ڈلک سے ساعد نازک بدن کی بیل
جس زمیں پر ہوں ترے کشتۂ دیدار کے پھول
چتوں کہے دیتی ہے مفصل خبر چشم
ردیف(م)
سادگی کا تری یا جلوہ گری کا عالم
بس دیکھو لگاوٹ سے نہ تم ہو کے ادھر گرم
سج گرم نگہ گرم ہنسی گرم ادا گرم
ترک کر اپنے تنگ ونام کو ہم
چاہتا ہوں تجھے نبی کی قسم
مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم
وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زباں اور ہم
دل کی بھڑائچ نہیں ہے ترکتازی کا مقام
انہیں میں نے تو چھیڑا چھوا ہی نہیں مجھے اپنے رسول خدا کی قسم
بادل آئے بجلی چمکی مینہ کے دڑیڑے پڑتے ہیں
کچھ نگاہیں تری ایسے ہی ہنر سے لڑیاں
ہیں یہ مژگاں اس نمط دام ہوس کی مٹیاں
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
آپ سوروپ سے گوروپ بدل سکتے ہیں
یوں بگڑنے کو فرشتے سے بگڑ سکتے ہیں
کھینچ لے کاش وہ پری اپنے مجھے لحاف میں
یاوصل میں رکھیے مجھے یا اپنی ہوس میں
شرائے مینہ کے ہیں بادل گرج رہے ہیں
یہ کس کا ہے غبار خاطر مایوس شیشے میں
کیا ملا ہم کو تری یاری میں
اتار اس چاند کو اے رند عالی ظرف شیشے میں
کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں
نرگستاں کی بھی تک دیکھیوپھبن آئینے میں
جس سے کہ چپکے چپکے لاگیں لگائیاں ہوں
گر آپ روپ ہم سے باتوں میں ٹک کڑے ہوں
جاڑے میں کیا مزا ہو وہ تو سمٹ رہے ہوں
خلوت میں فائدہ کچھ اغیار سب بہم ہوں
دس عقل دس مقولے دس مدرکات تیسوں
چشم وادا غمزہ شوخی وناز پانچوں
پھبن اکڑ چھب نگاہ سج دھج طرز خرام آٹھوں
سرچشم صبر دل دیں تن مال جاں آٹھوں
تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں کی یہ دیکھو پوریں غلام تیسوں
کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں
کہتے ہو تم تو دم لے پرے ہٹ ابھی نہیں
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
حیف ایام جوانی کے چلے جاتے ہیں
جھمک ہے یہ کچھ اس اودے دوپٹے کی کناری میں
گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
یہ نگہ یہ منہ رنگت یہ مسی یہ لعل خنداں
بنگ کی جلوہ گری پر غش ہوں
اے دود جگر بن کے سرافیل کی گردن
عنقا ہے اجی طائر افسوس کی گردن
توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن
یہ آپ حسن پہ اپنے گھمنڈ کرتے ہیں
وہ جو شخص اپنی ہے تاڑ میں سوچھپا ہے دل ہی کی آڑمیں
کل وہ بولا مجھ سے ہنس کر چاہ ارے کچھ کھیل نہیں
نرگس نے پھر نہ دیکھا جو آنکھ اٹھا چمن میں
تھا نہاں لطف وکرم چیں جبیں کی تہ میں
آج وہ جلوہ فروز اپنے جو منظر میں نہیں
ہے ادا کون سی جو اس تری اف اف میں نہیں
جب ہوئی پریاں ہوا کھانے کو کھڑیاں باغ میں
دیکھ کر اک دو جنوں کی رنگ رلیاں باغ میں
کیوں نہ ہوں ہر گل کے جوڑے آ ج افشاں باغ میں
یاس وامید وشادی وغم نے دھوم اٹھائی سینے میں
تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
غم ودرد وتاسف ویاس والم سے دلا! مجھے آہ فراغ کہاں
بس ہو چکے آغشتہ بخوں دست وگریباں
زمیں پر رکھتے یہ تسبیح واے کچھ کڈھب ڈگ ہیں
ردیف(و)
جس پر کہ ترا سایۂ دامان قبا ہو
رکھتا ہوں دیکھ برسر جبراپنے یار کو
کہہ بیٹھیے صاف اس سے یہ دل جس سے نہ واہو
لہرا دیا صبا نے جو کل سبزہ زار کو
چھیڑنے کا تو مزاتب ہے کہو اور سنو
اپنی پھر کیوں ہماری پہلے ٹک سن لو رہو
جوشش قلزم احد دیکھو
کام فرمایئے کس طرح سے دانائی کو
مرتا ہوں اجی زباں سے بولو
ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو
دے ایک شب کو اپنی مجھے زر وشال تو
ہے یہ دھڑکا نہ کہیں دیدۂ حیراں تر ہو
جوہر گھڑی مجھے کہتا ہے تم تو واہی ہو
کوئی اس دام محبت میں گرفتار نہ ہو
بیکلی سے تری کچھ دل کو سروکار نہ ہو
حق تعالی کی طرف سے جسے امداد نہ ہو
لو فقیروں کی دعا ہر طرح آباد رہو
فائدہ دل سے تڑپ چھٹ جس سے کچھ حاصل نہ ہو
ردیف(ہ)
اس شعلہ تو کو ہووے جب آہنگ آئنہ
اے آہ قیس پردۂ محمل کے بند باندھ
اے دود آہ رات نہ نبڑے وہ بند باندھ
ڈالے جب آہ نے مری جھاڑ او رپہاڑ باندھ
نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
بولے تو اپنے سروخراماں کو تاڑ باندھ
تو مجھ سے لگا کہنے کہ چل ہٹ کے پرے بیٹھ
پرچھائیں اپنی چال کی ٹک منہ کو موڑ دیکھ
ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالان رم کے ساتھ
کیا کام ہم کو سجدۂ دیروحرم کے ساتھ
منہ دیکھو حور ہووے جو ایسی پھبن کے ساتھ
داغوں سے ہے یوں یہ دل بیتاب شگفتہ
برق کو چھیڑ قدم معدن یماب پہ رکھ
رکھتے تھے جو فقرا اپنے یقین پر تکیہ
اے عشق کیا مہیب ہے سر کار کی شبیہ
کیوں نہ پھرشاہ پہ غالب ہو گدا کا سایہ
دکھلا نہ مجھ کو یوسف یعقوب کی شبیہ
رودھو مٹا مرقع ناسوت کی شبیہ
لکھے وہ میرے اس دل بیتاب کی شبیہ
کھنچوا کے داغ سینۂ مایوس کی شبیہ
پڑھ آئنے میں عاشق مرتاض کی شبیہ
کسی سے اٹھ سکے کیا مجھ جلاوطن کا بوجھ
دوشالہ کیا ہم نے کس گل کا دستہ
ہیں آپ جیسے یوسف کنعان بعینہ
جگر میں ہوگئے کھا کر تری سنان نگاہ
لگا کر گلے رفع دل کی طپش کی
کی جو شرما کے اوٹ تکیے کی
ردیف (ی)
کل باد بہاری نے سو ٹکڑے گلابی کی
چوٹی وہ بلا قہر کہ جو مانگ کے جی لے
شب خانۂ رقیب میں تاصبح سو چکے
چند مدت کو فراق صنم ودیر تو ہے
سج یہ آفت تری یہ دھج یہ خوش اندامی ہے
غیر کے ایک اشارے پراٹھ گئے میرے پاس سے
کل بھی محفل سے تری ہم نہ ٹلے بیٹھ گئے
غیر کےمونڈھے پہ تم ہاتھ جو دھر بیٹھ گئے
برق شعلہ زن چمکی ابر بھی خروشاں ہے
طپش دل ہی سے ہم مل کے گلے بیٹھے ہیں
سبزہ کیا خاک شہیداں سے تری خاک اگے
کب چاہوں ہوں میں صرف ملاقات کی ٹھہرے
پے تعظیم اشک اس طرح آہ سرد اٹھتی ہے
کنایہ اور ڈھب کا اس بھری مجلس میں کم کیجے
آنے اٹک اٹک کےلگی سانس رات سے
فقیروں ساتھ یہ تعظیم لمبے خرچ کم کیجے
جہاں میں مثل تیمور اور بابر محتشم کیجے
آتی تھی ایک حور مجھے دیکھ ہٹ گئی
نگہ ہے اس پری کی سحر چتوں ایک آفت ہے
ہے اور کوئی ایسا جس میں یہ پھبن نکلے
بھبھوکا روپ سج دھج قہر آفت چلبلاہٹ ہے
نکلے ہے خوں ٹھہر ٹھہر دل کی ہر اک خراش سے
بستی تجھ بن اجاڑ سی ہے
شہر سے دل اچاٹ ہے انس نہیں اجاڑ سے
جنوں کے رہ نوردوں کا کوئی لگتا کہیں دل ہے
دیکھ کر مجھ کو کھنکارا اور دیا دشنام بھی
قسم نہ کھائیو ظالم تو مے کے پینے سے
دیکھ کر وہ لہلہے گرد اس دہن کے رونگٹے
مے پیے قشقہ دیے کعبے میں ناقوس لیے
کھب گئی آنکھوں میں کل جلوہ نمائی تیری
ہم نے ساقی کے کہیں ہونٹ جوٹک چوس لیے
دوچار سن کے تیرے سخن ہم کڑے کڑے
سودازدہ دل ہے تو یہ تدبیر کریں گے
آزردہ ہم سے تو ہی جواب اے میاں رہے
مجھ سے فرمانے لگے اب قدر جانی آپ کی
تڑپے ہے نبض کس قدر انگشت کے تلے
خم بغل بیچ نہاں ہاتھ میں ہے جام لیے
دیکھ انگیا میں ان کی گوٹ لگی
کل وہ نگہ اچٹتی ہوئی یوں جو پڑ گئی
رہتے ہیں بہ رنگ بو کوچے میں رگ گل کے
گالی سہی ادا سہی چیں جبیں سہی
ایک چھوڑا نہ زندہ جاں تو نے
بندگی اپنے تو جی سے ہم نے ٹھانی آپ کی
زلف پیچاں نے تری کھودی ہے رونق سانپ کی
دو گھڑی دن سے کہا میں نے کہ کیا ارشاد ہے
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
کیا چھیڑ ہے کہ پہلے دل صاف توڑ بیٹھے
دن ہجر کے اب اپنی تو طاقت نہیں بھرتی
تروتازہ دیکھ کے آپ کو یہ گلوں پہ اوس سی پڑ گئی
اگر یہ ڈھب نہیں ملتا کہ اس رخسار کے ملیے
ان کےدو مجھ سے کبوتر کے جو جوڑے اڑ گئے
غیر کی لی جو ران میں چٹکی
گلی سے تیری جو ٹک ہوکے آدمی نکلے
ساقیا آئے ہیں بادل یہ بڑے پانی کے
کب تک کرے دود آہ کا تاثیر کی بھرتی
کیوں دعا اپنی نہ ہو باب ظفر کی کنجی
واقف جو ہم نہیں ہیں اس بزم میں کسی سے
اف اس طپش سے بن مینہ تن کب تلک پسیجے
کیا قہر آگیا جو اوبے وفا کہا تو
مجنوں پہنچ شاب کہ آفت میں قوم ہے
لے نشہ میں تجھے جب یوں قدح بنگ اڑے
مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
کیوں نہ وہ پردہ نشیں پھر مجھے سمرن مارے
پری وہ جو ٹک ہو خفا رک گئی
جس پہ اک لونگ وہ پڑھ کر بت کا ہن مارے
کیوں نہ پھر اس کی لگاوٹ کی مجھے دھن مارے
دیکھ اس کی پڑی خاتم یا قوت میں انگلی
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پر یوش تیرے
پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
غنچۂ گل کی صبا گود بھری جاتی ہے
زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
یوں چلی مژگاں سے اشک خونفشاں کی میدنی
کاش ابر کے چادر مہتاب کی چوری
اٹھتی ہے اپنے دل سے کچھ ایسی ہی ہوک سی
اے چرخ نہ لکھ قیصر وخاقان پہ چٹھی
کسی پری کی ہنسی دل پر اپنے کچھ ٹھن جائے
کہا لیلیٰ نے کچھ شعلے سے جو اس کو نہاں لپٹے
یہ کس سے چاندنی میں ہم بزیر آسماں لپٹے
گلے سے تیرے کدھر کوئی اہل دل لپٹے
جنوں کے دیو سے کیا عوج مضمحل لپٹے
ضیا میں نور سما جائے ظل ظل لپٹے
ہے مستعد کہ وہ لب میگوں ٹپک پڑے
دامن اگر نچوڑیے جیحوں ٹپک پڑے
اشک مژگان ترکی پونجی ہے
صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
کب وہ آزاد بھلا مورد تحسین ہوئے
سانولے پن پر غضب ہے دھج بسنتی شال کی
ان انگلیوں میں قول کے چھلے نظر پڑے
بھلے آدمی کہیں باز آ ارے اس پری کے سہاگ سے
جو نسیم صبح لپٹ گئی کسی گل کے دامن پاک سے
یہ جو مجھ سے اور جنوں سے یاں بڑی جنگ ہوتی ہے دیر سے
نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
آج بجلی سے بنے ہفت طبق سونے کے
ہے جی میں قفل خانۂ خمار توڑیے
ہے یہ تو کیا کہ آپ کی دیوار توڑیے
یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیے
پہلے عصا کےو اسطے اک تاڑ توڑیے
پیسے کی چوٹ سے سر کم ظرف توڑیے
جتنی اڑیاں تھیں بڑی ان سے اڑی مینہ کی لگی
وہ پری ہی نہیں کچھ ہوکے کڑی مجھ سے لڑی
بوسہ جو دیتے نہیں مجھ کو تو جھڑ کی ہی سہی
زنہار ہمت اپنی سے ہر گز نہ ہاریے
اپنی کوئی میں مگر رات کو بھر لیتا ہے
اک پھریری جو تراخاک بستر لیتا ہے
گھیر شاخوں کو جو کل زخم تبر لیتا ہے
اے پری تیرے مزے ایک بشر لیتا ہے
ہیں جو مروج مہرووفا کے سب سررشتے بھول گئے
یاں تیرے وصل میں بھی دم سرد ہے سو ہے
دل میں بدولت آپ کے اک درد ہے سو ہے
یہ پیاس اپنی بجھے برف سے نہ شورے سے
ہے آنکھوں پہ ساقی کی مے ناب کی پھبتی
یارب ترا ہی ذکر یہاں جب نہ تب رہے
پگڑی تو نہیں ہے یہ فرانسیس کی ٹوپی
جی چاہتا ہے شیخ کی پگڑی اتاریے
تمہارے ہاتھ سے ساقی جو شیشہ ٹوٹ گئی
کیا چیز بھلا قصر فریدوں مرے آگے
نشے میں آکے جو کل مرشد مغاں سے لڑے
کر ڈالوں گا دیوار ابھی پھاند کے ٹکڑے
ہوئی نہ تھی سو اے دل پردرد ہو گئی
بھری وہ آتش عشق اس دل فگار میں ہے
گرمی کی جوشکوہ تھی سب گرد ہو گئی
عجیب لطف کچھ آپس کی چھیڑ چھاڑ میں ہے
مت ہاتھ اٹھا اپنے تو بسمل کے گلو سے
معلوم نہیں روٹھے ہیں کس آئینہ رو سے
چین آوے نہ کیوں ایسے پری زاد کی بو سے
ہو توبہ شکن آج دلا تو سر نو سے
یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
مل گئے پر حجاب باقی ہے
یاں زخمی نگاہ کے جینے پہ حرف ہے
رباعیات
قصائد
حمد میں
اے خدا وند مہ ومہروثریا وشفق
گرچہ افلاک کے سب پھونک دے اطباق آتش
منقبت میں
احاطہ آگ کا وہ لال لال گرما گرم
بلاؤ مروحہ آہ سرد کو ہر گام
ادھر کو داد رس مور ہوا گر وہ امام
مطاع دہر ہو حلال ہر معاملہ ہو
نوع بشر میں تھے نہاں آتش وبادوآب وخاک
ہیں یہ بسان طائر اس آتش وبادوآب وخاک
بادشاہ علی گہر کی مدح میں
جشن ونشاط وخوش دلی وعشرت ونعم
مستجمع المکارم ومستحن الشیم
شاہزادہ سلیمان شکوہ کی مدح میں
صبح دم میں نے جولی بستر گل پر کروٹ
عازم جنگ ہو جس لحظہ تو گلگوں کو ڈپٹ
نواب سعادت علی خاں کی مدح میں
کیوں نہ بخشے پھر شاہ ولایت پرچم
سامنے تیرے جو رستم بھی کبھی ٹھونکے خم
کیا چیز دیو مرد سخنداں کے سامنے
نواب سعادت علی خاں کی تعریب میں
دولہن جان کی تعریف میں
سحر بہار کی خوشبو میں آگئی یہ لپٹ
بگھیاں نور کی تیار کر اے بوے سمن
بادشاہ انگلستان جارج سوم کی تعریف میں
کلام غیر منقوطہ
اور کس کا آسرا ہو سرگردہ اس راہ کا
رہ ورسم حمد ادا کرو الم اور درد ہوا ہوا
ملارگا کہ سرکوہسار لال ہوا
دل کم حوصلہ کو گو کہ سدا درد رہا
دل اہل دلا کو سرور ہوا الم اور ہراس وہ دور ہوا
سو واہ ہو سو واہ دااوملحد اوگاوطلا
ہم کو آرام ہو دلا کس طرح
موسم گل کا لہلہا ساراآہ گروہ اہل صلاح
ہم دم سرکہسار ہوا لہلہا سارا اور موردہ کوکا
آمد آمد گل ہو اور وہ سادہ رو امرد
حور عروس مد عا صل علی محمد
ہو دل آرام کا اگر وسواس
ہمدم دام آہ راہ صراط
مدرکۂ طمع کھلا آہ ہوا وآہ حرص
موسم گل کا ہوا گہرا سہاگ
ولولہ کر موحدا حال ادھر ادھر سماع
ادھر آسر گر وہ امل سلوک
واہ واسر گردہ اہل کمال
آہ موسیٰ وہ طور کا عالم
طور سحر کا دولہا کا سا حور عروس کاگل سا موسم
لاؤ عروس مدعا کہہ دو سہا وماہ کو
سلسلہ گر کلام کا وا ہو
دلدار آمد الحمد اللہ
سرگردہ گدا حماک اللہ
رباعیات
مخمس
نثر
مرغ نامہ
حمد ہے فرض اس کی وقت سحر
مثنویات
کر ثناے رسول راہ نما
اب مجھے بھی یہ شوق ہے اس کا
زنبور
ان بھڑوں نے کیا یہ ا ب کے قہر
درزبان اہل برج
اک جو بھونرا بھڑو ں نے گھیر لیا
کھٹمل
کچھ یہ کھٹمل بڑھتے ہیں اب کے سال
مچھروں کو ہوا ہے اب کے یہ اوج
ہجو پشہ
مکھیاں اب کے یہ بڑھیں بے ڈول
ہجو مگس
کروں کیا جور گردوں کا شکایت
شکایت زمانہ
فیل
صدقے آنکھوں کے تیری ساقی
اس کام کا پڑ گیا جو سایا
آپ خدا نے جب کہا صل علی محمد
مفترقات
مخمسات
چھائی یہ گھٹا زور ہے اے ساقی بدمست
مخمس ترجیع بند در مدح شاہزادہ مرزا سلیمان شکوہ
بلطف صفدر ضر غام دیں جناب امیر
میں اپنا دل مضمحل بیچتا ہوں
وہ جو معمار کا اکڑ کے تنا
مخمس غزل میر سجاد ایہام گو
جناب مولوی حیدر علی بلند مقام
مخمس قصیدہ مولوی حیدر علی
مخمس بر قطعہ مرزا جان طپشؔ
کیوں کر مرزا جان طپشؔ سے قازیں نہ ساری بیر کریں
قطعات
بزنر نے کل پوست کندہ کہا
قطعہ تاریخ مسجد سالار بخش
مرد ہے نتھوں کی دولت خرچ کی مسجد کے بیچ
قطعۂ دعائیہ شاہزادہ سلیمان شکوہ در تہنیت نوروز
قطعۂ تہنیت سالگرہ جناب عالی
قطعۂ تہنیت جشن نواب ناظم الملک سعادت علی خاں بہادر
قطعۂ تہنیت صحت فرزند نواب سعادت علی خاں بہادر
افراد
پہیلیاں
دیوان ریختی
انتخاب
جب سے کہ سامنا ہے اس چاہ کی گلی کا
وصف بیاں کیا کروں رات کے مہمان کا
چوٹی یہ تری سانپ کی ہے لہر دوگانا
اللہ کرے سلامت جم جم رہے یہ بیڑا
آگ لینے کو جوآئیں تو کہیں لاگ لگا
اپنا جو جتاتا ہو ہمیں زور نگوڑا
لو شمع کی نکلتی ہے ان آنسوؤں کے ساتھ
رنگ ہے آنکھ کی پتلی میں اسی کا جھلکا
چھبتی ہے یہ تو نگوڑی مجھے بھاری انگیا
بیگما میں جو بری ہوں تو بھلا تجھ کو کیا؟
تم جو میرا اوڑھا دوپٹا ہے یہ دوگانا بات کڈھب
تو قیامت بے سری ہےحد برا تیرا گلا
لہر میں چوٹی کی تیری ڈر کے مارے کانپ کانپ
مردوں سے پرچ تو مت حسن ہے پری کم بخت
تجھے کچھ شرم بھی ہے بیٹھ پرے اوکم بخت
بس بلائیں نہ لے مری چٹ چٹ
سانسیں یہ ٹھنڈی ٹھنڈی کیا راتوں کو بھرتی ہو عبث
سارے بھوتوں سے پرے ہے یہ موا خو جا خبث
کوئی چاہت میں کسی شخص کی بدنام ہو نوج
بیگما چاہ کے دریا کے بڑے پاٹ کو سوچ
کیا کسی باغ میں ہے آج پڑی سوتی صبح
صدقے اپنے نہ ہو اس کے کوئی قربان ہو نوج
کھلھلاتا ہے مرے آگے جو ہو کر گستاخ
بلائیں میں نے جو لیں ان کی کل چٹاخ چٹاخ
اے دوگانا مجھ سے کشتی کھیلنے کا ہے گھمنڈ
چیلے اک جوگی کے دیکھے ہم نے ایسے لنڈ منڈ
اجی کس ڈول سے بن جائے ہے گھوڑا کاغذ
خانمی چاہ ہے وہ جھاڑ پہاڑ
کیا پڑی پھرتی ہے اس کی ہر طرف رف رف نظر
کوئی کم بخت ہمارا نہیں ایسا دل سوز
باجی کی باس میں جو رچی اک جنے کی باس
نہیں زیور کی کچھ پھبن پر غش
باجی تم چاہتی ہو بندی سے جیسا اخلاص
مت دیا کر نت نئے روز یو نہیں دم غلط
کام کسی پھول سے یہاں ہے نہ کلی سے غرض
شرط ہے رکھنا لحاظ اتنی بھی مت ہو بے لحاظ
نہیں یہاں کسی آشنا کی توقع
لے تو جھوٹی ہی کہائی نہ اری بے انصاف
نہیں جاتی کہیں مہمان مرے دل کا شوق
میں نے دیکھی ہے اس کے کان میں لونگ
بیگما چاہ بھی پہاڑ ہے ایک
چڑھ کے کوٹھے دھوپ میں تم تو اڑاتی ہو پتنگ
کیا چیز ہے جو دھیان میں اپنے نہیں اری
ارے بی ایک ہی عیار ہو تم
ہے ان دنوں میں ان کی جو آواز ڈوک میں
میں تو کچھ کھیلی نہیں ہوں ایسی کچی گولیاں
تھیں تو پردے والیاں مجھ کو پرے ہٹ بولتیں
ارے دل کچھ انہیں تیری خبر نہیں
نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبث کی جھک جھوری جھیلنے کو
بلا سے اگر آئی ہولی کہارو
نظر آویں ہیں اس میں پڑھنے کے گن
بات وہ لایئے کم بخت جو چت چاہی ہو
جی ہی کچھ رکھتی نہیں دھڑ میں نری پولی ہے تو
اری موتی ادھر آ تو
کوئی نہیں آس پاس خوف نہیں کچھ
نہ کہیو پھر نہ کی اللہ اللہ
میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ
یہ گھٹا رات کو چھائی کہ الٰہی توبہ
کلی دل کی بھلا کیوں چٹکیوں میں تومسل ڈالے
کل ایک گھر میں خوب سے چھوٹے بڑے لڑے
جو دل کی آرسی کو ہماری جلا کرے
جو ہم کو چاہے اس کا خدا نت بھلا کرے
ہزاروں دیویوں کو یہاں کی پریوں نے لتاڑا ہے
چلو سیر باغ کو بیگما ہوے ہیں درخت ہرے بھرے
یہ کیا تجھے ہے خواہی نہ خواہی
وہ تو کسی میں نہیں آپ میں جو بات ہے
بس مرا سر نہ کھا ارے!
کیوں پگھل پڑیے نہ ہے روپ پہ کچھ ان کا تو
یہ اتفاق ہے نہ بنے یا نبی رہے
دنیا ادھر کی گو ادھر ہو جائے
کہہ گئی مجھ سے دوگانا کی بہن جو چھٹکی
سیدھے لوگوں سے بھی رکھتی ہو کجی بی ستی
کوئی کچی ہے گنے ہر بات کا پیکا تجھے
سچ کہوں بات جو بری نہ لگے
چونپ کیا ہو جو کسی سے کوئی ہر روز ملے
رات بھر اپنا ترستا ہی رہا جی باجی
رباعیاں
قطعے
مستزاد
مستزاد خماسی
سرورق
دیباچہ
فہرست کلام انشا
مقدمہ
کب زناخی مرے پاس آئی تھی کل رات غلط
غزلیات
صنما برب کریم یاں ترے ہیں ہر ایک یہ مبتلا
اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھالا
لاہوت پر نہ دیکھیں جو قد سیاں تماشا
کیوں شہر چھوڑ عابد غار جیل میں بیٹھا
اگر نہ مجھ سے تو آکر لپٹ گیا ہوتا
جگر کی آگ بجھے جلد جس میں وہ شے لا
تم جو کہتے ہو مجھے تو نے بہت رسوا کیا
اکڑ کے پنجوں کے بل یہ چلنا نہ کیوں کے کشتہ ہوں اس ادا کا
ہو یہ کھر کھوج مٹے چاہ نصیب اعدا
کیوں جی کیوں آپ کی خاطر میں بھلا کیا آیا
دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
بت کافر مسیحا دم فرنگی ملت اے ترسا
برقی چشمک زن ہے ساقی ابر ہے چھایا ہوا
جوں ہی کعبے سے فقیروں نے اٹھایا بستر
کچھ یہ مجھی کو یوں نہیں اس کی پھبن نے غش کیا
میں نے جو وجد میں یہاں جیب کو پھاڑ غش کیا
مجھے بیخود ی جو کچھ آگئی تو لپٹ کے یار نے غش کیا
واں جھوٹ موٹ تم نے بناوٹ سے غش کیا
مکھڑے پہ اس کے صرف نہ بلبل نے غش کیا
تنہا نہ اس کو دیکھ کے محفل نے غش کیا
گو اس کی جھانک تاک پہ جس تس نے غش کیا
ایسا ہی ایک رند سبوکش نے غش کیا
ساقی کی انکھڑیوں نے جسے بادہ کش کیا
جس دم کہ ترے محو تجلی کو غش آیا
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب نبیڑے جا
خواص اعجاز عیسوی کیوں نہ رکھے ساقی ایاغ اپنا
خیال کیجیے کیا آج کام میں نے کیا
دیکھنا جب مجھ کرشان یہ گالی دینا
پرتو سے چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا
جھمکا چمک کا ترے اس نمک کا
جھوٹا نکلا قرار تیرا
اس بندے کی چاہ دیکھیے گا
ہے ترا گال مال بو سے کا
زلف کو تھا خیال بو سے کا
فقیرانہ ہے دل مقیم اس کی رہ کا
دست جنوں سے اے واے ویلا
ہے ظلم اس کو یار کیا ہم نے کیا کیا
اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
رہر وان عشق نے جس دم علم آگے دھرا
اگر ہمارے کرے کوئی بند بند جدا
مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
ہے بندھا مینہ کے تار کا جھولا
دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
لیا گر عقل نے منہ میں دل بیتاب کا گٹکا
جس وقت ہم کو بنگ کا صافہ نظر پڑا
اے عشق جلوہ گر ہے خود تجھ میں ذات مولا
میں نے جو آنشے میں بلبل کا منہ چڑایا
کیا خدا سے عشق کی میں رونمائی مانگتا
جو ہاتھ اپنے سبزے کا گھوڑا لگا
عشق نے مجھ پر اٹھایا ایک تازہ اشقلا
پیدا ہو اجی عشق سے جب سنگ میں کیڑا
کیا جو کھیت آج چاندنی نے مراد اپنی یہ چاند نکلا
انہیں بھوک پیاس سے کام کیا وہ جو قید تن سے ہوئے رہا
چل نہ امریوں میں جھولیں لیں درختوں کی ہوا
ہوں کشتہ ان کے گجھے اشاروں کی چوٹ کا
غلام میں تو ہوں ان صاحبوں کی کھڑپچ کا
زاہد میرے مولا کے اسرار نہیں پاتا
ہوا جب اشک دل بافراغ کا بیٹا
دل ستم زدہ بیتابیوں نے پوٹ لیا
مجھے کیا ملائک عرش سے مجھے عشق ہے ترا اے خدا
اب تو اگلی سی طرح کا نہیں گہرا پردا
ردیف (ن)
ہوا پیدا یہ درد دل سے کوہ قاف کا جوڑا
جو بھیجا ابر کو دریا نے نادر پاٹ کا جوڑا
چمک کر رات کو گرجا یہ برق وعدہ کا جوڑا
نہ کیوں ہو جر مد آہ اہل عزم کا جوڑا
ہوئی جب لیلۃ القدر اس پری کی جعد کا جوڑا
ملا آپس میں اس دھج سے سحاب وبرق کا جوڑا
لیا چھین ابرو ومژگاں نے عام وخاص کا جوڑا
پہن مت مانگ کے ایسے کسی کم ظرف کا جورا
جواہر سے ملاتا کون یہاں اعراض کا جوڑا
نہ اے زاہد پہن بنوا کے موٹے سوت کا جوڑا
ہوا پھٹ جس گھڑی قیس بیاباں گرد کا جوڑا
صنم خانے میں جب بولا بت ناقوس کا جوڑا
نہیں مجھ پاس اے قمری ترے کھڑاگ کا جوڑا
تڑاقے کا یہ پہنا اس پری نے تاش کا جوڑا
کہیں بچھڑا ہوا دیکھا جو اک سرخاب کا جوڑا
ملے پارے سے جو ہڑتال کرکے راکھ کا جوڑا
چمن سے کیا بندھے تیرے رخ نم ناک کا جوڑا
جس شخص نے کہ اپنی نخوت کے بل کو توڑا
کیا کہوں احوال تیرے عاشق بیتاب کا
ابکے یہ سردی ہر ایک تارا جم گیا
مل گئے سینے سے وہ پھر ہے یہ کیسا اضطراب
ردیف (ب و پ)
زلزلہ لایا ہے جسم مضمحل کا اضطراب
جھٹ پٹ کے تم نے جو موندے کواڑ خوب
پھرایہ آنکھوں میں اس زلف عنبریں کا سانپ
بنا کے چھوڑوں جو افیون کا شراب میں سانپ
ہمیں اس صنم سے ہے الفت بہت
ردیف (ت)
نہیں چاہیے شرم اتنی بہت
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
کعبے سے کیا ہم نے جو آہنگ خرابات
مدت کے بعد آئے نظر خیر وعافیت؟
جمال وعظمت دادارخالق ملکوت
صد برگ گہ دکھائے ہے گہ ارغواں بسنت
تونے لگائی آکے یہ کیا آگ اے بسنت
کو صولت اسکندرو کو حشمت دارا ،اے صاحب فطرت
ہے نام خدا وا چھڑے کچھ زور تماشا یہ آپ کی رنگت
چرخ اسے کہہ مت یہ ہے نسج لعاب عنکبوت
کیوں میاں بلند رتبہ سر راہ کے درخت
لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ چٹ تو بول اٹھے جھٹ
اٹھ نہ اے دود جگر ابر بہاراں سے لپٹ
کھول آغوش ٹک اجساد اسیراں سے لپٹ
چٹ گیا ناقہ لیلیٰ جو مغیلاں سے لپٹ
لگی غلیل سے ابرو کی دل کے داغ کے چوٹ
سابہ سئ زکف گئی اس کے جو گھونگھٹ سے لپٹ
بیٹھے جہاں ہیں غیرت مجھ کو بلاتے ہو عبث
ردیف (ث)
جس کو کچھ دھن ہو کرے ہم سے حقیقت کی بحث
ردیف (ج)
ہاتھ آوے کس کے آپ سے عیار کا مزاج
جو بات تجھ سے چاہے ہے ا پنا مزاج آج
نہ فقیروں کے جان واہی خرچ
سبز خط میں ترے تل ہیں وہ طلسمات کے بیج
ردیف (چ)
امرد ہوئے ہیں تیرے خریدار چار پانچ
بن کے وہ برق نگہ ابروے خمدار کی آنچ
ہے شب وصل کھلے کاش نہ دروازۂ صبح
ردیف (ح)
کریم جلد کرم ہو مزاج صحیح
تجھ سے یوں یکبار توڑوں کس طرح
یوں تری خونخوار آنکھوں کا ہے قاتل رنگ سرخ
پھر کاش پھول بیٹھے ہر اک اس چمن کی شاخ
ہے یاں وہ نخل عشق میں دیوانہ پن کی شاخ
نہ لگی مجھ کو جب اس شوخ طرحدار کی گیند
ردیف (د)
حضرت شیخ ادھر کیجے کرم یا معبود
لگ جا تومرے سینے سے دروازے کو کربند
گر کوئی چاہے کسی کو یہ نہیں کچھ کام بد
نظر کر علی کو قر بن محمد
یاں سینہ ہے مدینہ اور دل نبی کی مسجد
بے مدد حق کے کریں کیا مردم دنیا مدد
لوٹیں ہیں مست یوں بسر خاک اینڈ اینڈ
ردیف (ڈ)
ردیف (ذ)
میاں چشم جادو پہ اتنا گھمنڈ
کیوں نہ گھبراؤں کہے جب مجھ کو تو مشفق ملاذ
چھیڑا نہ کرو میرے قلمدان کے کاغذ
لکھ دو آخونجی صاحب کوئی ایسا تعویذ
ردیف (ر)
ہیں روزحسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
مستی ہی تیر آنکھوں کی ہے جام سے لذیذ
کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
ہلکے پھلکے جو ملے دیر کے روڑے پتھر
کھاویں ہر چند کہ بارش کے تڑ یڑے پتھر
آدمی چیز ہے کیا ان نے نہ چھوڑے پتھر
راتوں کو نہ نکلا کرو دروازہ سے باہر
فوج لڑکوں کی جڑے کیوں نہ تڑاتڑ پتھر
مانگا جو میں نے بوسہ ان سے چمن کے اندر
ساقیا !یہ خوش آئی بوے خانۂ خمار
آئے نہ آپ رات جو اپنے قرار پر
لے چلا دامان صحرا کو گریباں پھاڑ کر
جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
ہے یہ اس مہ جبیں کی تصویر
دل کرے کیا تجھ کو لکھ کر خط پنہانی پہ مہر
اے صبح نہ جا سارے چمن نذر پکڑ کر
کیا ان سے ملوں عید کے دن نذر پکڑ کر
سینہ نہ جلا شعر وسخن نذر پکڑ کر
جو ٹک دھونی لگا بیٹھوں زمیں کی ناف کے اوپر
بولےوہ جب ہاتھ رکھا میں نے ان کی ران پر
دھرا جب نقد دل ہی کھول تیری ناف کے اوپر
نگہ جو پڑی تجھ سے رشک قمر پر
گیا یار آفت پڑے اس سحر پر
مجھے رونا آتا ہے شمع سحر پر
یہ جلترنگ نے پھیلادی آگ پانی پر
عجب سرچشمۂ مہتاب سے تھی آگ پانی پر
ردیف (ڑ)
لے انہوں نے جو یہ پھولوں کی چھڑی ڈالی توڑ
پیرمغاں کسی کو نہ تو تشنہ کام چھوڑ
اے آہ اپنی تو کہیں اب آن بان چھوڑ
میں نے کہا نہ بس مجھے اے نازنیں نہ چھیڑ
اے دل تو ذکر لیلی محمل نشیں نہ چھیڑ
اے دل سمجھ کے اس کی تو زلف رسا کو چھیڑ
خط ترا نورستہ دیکھ اے یار شوخ وشنگ سبز
ردیف (ز)
ردیف(س)
باغ امید میں یوں ہے چمن یاس کی باس
پھنس گئی عندلیب ہو بیکس
بس نہ دنیا کی کر اے صاحب ادراک ہوس
زلف وچشم یار ہیں دام گرہ گیر وقفس
پھر تو کہہ بھر کے دم سرد مرے ہونٹ نہ چوس
ردیف(ش)
ہو جائے اگر جہاں فراموش
بہت غنیمت کہ خودبدولت نے یاں جو کی ایک دم نوازش
بہار ہو کے مجسم بوضع بادلہ پوش
ردیف (ص)
کیوں نہ دل دوں اسے دنیا میں نہیں ایسا شخص
کیوں ساقیا نہ لال ہو اپنا یہ رنگ فرش
زہے نسائم فیضان مبدء فیاض
لے ہی چکا نہ دل کو تو اے بے وفا غرض
ردیف (ض)
ردیف(ط)
میں بہانے جو لگا لے کے مے ناب کی بط
کیا دخل تیرے غم میں رہے تن میں جاں غلط
کس طرح سے مجھ سے تم سے ہووے باہم اختلاط
مجھ سے فسردہ طبع کو کیا سیر باغ شرط
تجھ سے ہے ساقی ایک جام طمع
ردیف(ع)
کس کو سنا کر کہا آپ نے اوبے لحاظ
ردیف (ظ)
سمجھے ہیں قد سیاں جسے شاہ جہاں مطاع
بوقت صبح ہو یوں نشۂ شراب طلوع
اے آتش فراق ترابل بے سوز داغ
روشن ہے ملک دل ہمارے چراغ داغ
بخشا یہ حق نے اس لب گلفام کو فروغ
ہم جو ولی ہوں تو پڑے اپنی نگاہ صاف صاف
ردیف (ف)
عالم میں دوستی کےاور اس قدر تکلف
لکھ مرے قتل کے محضر پہ تو شنجرف کے حرف
ردیف(ق)
پہنچے فغاں جوش جو اپنی بہ گوش برق
مرزا صاحب الطاف نشاں سلمہ
ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
ناداں کہاں طرب کا سر انجام اور عشق
عشق سچ ہو تو نہ معشوق ہو کیونکر عاشق
کھولے اس چاند سے مکھڑے کا جو گھونگھٹ عاشق
ردیف (ک)
بن ترے دیکھے ہے سب دہر کو اوجڑ عاشق
گرہوں افلاک وعقول اور نظر بیسوں ایک
ہے یاد خرام اس کے میں مجھ کو ہوس کبک
ایک دن رات کی صحبت میں نہیں ہوتے شریک
بات کے ساتھ ہی موجود ہے ٹال ایک نہ ایک
ردیف(گ)
جھونک دی عشق نے جب اس دل بیتاب میں آگ
پہونچی جو تابہ گوش صداے شکست رنگ
ردیف (ل)
بسکہ تھا تیری شب ہجر میں بے نور پلنگ
سلطنت بیچتے ہیں دردکشاں خاک کے مول
حواس وہوش تھے اپنے بچنگ نکہت گل
آئینے میں فلک کے یہ عکس چراغ دل
مجھے حاصل ہو جو ٹک بھی فراغ دل
سیر بہار لالہ زار ان کو ادھر یہ داغ دل
تجھے میں کیا نہیں اے جنوں کہ نہ کھینچ پنبہ داغ دل
یاں دل میں اور ہاتھ میں ہیں لاکھ داغ وگل
فروغ مے سے نہ کیونکے ہووے ایاغ روشن مراد حاصل
کیا ہوا در پہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
پھیلی ڈلک سے ساعد نازک بدن کی بیل
جس زمیں پر ہوں ترے کشتۂ دیدار کے پھول
چتوں کہے دیتی ہے مفصل خبر چشم
ردیف(م)
سادگی کا تری یا جلوہ گری کا عالم
بس دیکھو لگاوٹ سے نہ تم ہو کے ادھر گرم
سج گرم نگہ گرم ہنسی گرم ادا گرم
ترک کر اپنے تنگ ونام کو ہم
چاہتا ہوں تجھے نبی کی قسم
مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم
وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زباں اور ہم
دل کی بھڑائچ نہیں ہے ترکتازی کا مقام
انہیں میں نے تو چھیڑا چھوا ہی نہیں مجھے اپنے رسول خدا کی قسم
بادل آئے بجلی چمکی مینہ کے دڑیڑے پڑتے ہیں
کچھ نگاہیں تری ایسے ہی ہنر سے لڑیاں
ہیں یہ مژگاں اس نمط دام ہوس کی مٹیاں
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
آپ سوروپ سے گوروپ بدل سکتے ہیں
یوں بگڑنے کو فرشتے سے بگڑ سکتے ہیں
کھینچ لے کاش وہ پری اپنے مجھے لحاف میں
یاوصل میں رکھیے مجھے یا اپنی ہوس میں
شرائے مینہ کے ہیں بادل گرج رہے ہیں
یہ کس کا ہے غبار خاطر مایوس شیشے میں
کیا ملا ہم کو تری یاری میں
اتار اس چاند کو اے رند عالی ظرف شیشے میں
کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں
نرگستاں کی بھی تک دیکھیوپھبن آئینے میں
جس سے کہ چپکے چپکے لاگیں لگائیاں ہوں
گر آپ روپ ہم سے باتوں میں ٹک کڑے ہوں
جاڑے میں کیا مزا ہو وہ تو سمٹ رہے ہوں
خلوت میں فائدہ کچھ اغیار سب بہم ہوں
دس عقل دس مقولے دس مدرکات تیسوں
چشم وادا غمزہ شوخی وناز پانچوں
پھبن اکڑ چھب نگاہ سج دھج طرز خرام آٹھوں
سرچشم صبر دل دیں تن مال جاں آٹھوں
تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں کی یہ دیکھو پوریں غلام تیسوں
کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں
کہتے ہو تم تو دم لے پرے ہٹ ابھی نہیں
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
حیف ایام جوانی کے چلے جاتے ہیں
جھمک ہے یہ کچھ اس اودے دوپٹے کی کناری میں
گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
یہ نگہ یہ منہ رنگت یہ مسی یہ لعل خنداں
بنگ کی جلوہ گری پر غش ہوں
اے دود جگر بن کے سرافیل کی گردن
عنقا ہے اجی طائر افسوس کی گردن
توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن
یہ آپ حسن پہ اپنے گھمنڈ کرتے ہیں
وہ جو شخص اپنی ہے تاڑ میں سوچھپا ہے دل ہی کی آڑمیں
کل وہ بولا مجھ سے ہنس کر چاہ ارے کچھ کھیل نہیں
نرگس نے پھر نہ دیکھا جو آنکھ اٹھا چمن میں
تھا نہاں لطف وکرم چیں جبیں کی تہ میں
آج وہ جلوہ فروز اپنے جو منظر میں نہیں
ہے ادا کون سی جو اس تری اف اف میں نہیں
جب ہوئی پریاں ہوا کھانے کو کھڑیاں باغ میں
دیکھ کر اک دو جنوں کی رنگ رلیاں باغ میں
کیوں نہ ہوں ہر گل کے جوڑے آ ج افشاں باغ میں
یاس وامید وشادی وغم نے دھوم اٹھائی سینے میں
تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
غم ودرد وتاسف ویاس والم سے دلا! مجھے آہ فراغ کہاں
بس ہو چکے آغشتہ بخوں دست وگریباں
زمیں پر رکھتے یہ تسبیح واے کچھ کڈھب ڈگ ہیں
ردیف(و)
جس پر کہ ترا سایۂ دامان قبا ہو
رکھتا ہوں دیکھ برسر جبراپنے یار کو
کہہ بیٹھیے صاف اس سے یہ دل جس سے نہ واہو
لہرا دیا صبا نے جو کل سبزہ زار کو
چھیڑنے کا تو مزاتب ہے کہو اور سنو
اپنی پھر کیوں ہماری پہلے ٹک سن لو رہو
جوشش قلزم احد دیکھو
کام فرمایئے کس طرح سے دانائی کو
مرتا ہوں اجی زباں سے بولو
ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو
دے ایک شب کو اپنی مجھے زر وشال تو
ہے یہ دھڑکا نہ کہیں دیدۂ حیراں تر ہو
جوہر گھڑی مجھے کہتا ہے تم تو واہی ہو
کوئی اس دام محبت میں گرفتار نہ ہو
بیکلی سے تری کچھ دل کو سروکار نہ ہو
حق تعالی کی طرف سے جسے امداد نہ ہو
لو فقیروں کی دعا ہر طرح آباد رہو
فائدہ دل سے تڑپ چھٹ جس سے کچھ حاصل نہ ہو
ردیف(ہ)
اس شعلہ تو کو ہووے جب آہنگ آئنہ
اے آہ قیس پردۂ محمل کے بند باندھ
اے دود آہ رات نہ نبڑے وہ بند باندھ
ڈالے جب آہ نے مری جھاڑ او رپہاڑ باندھ
نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
بولے تو اپنے سروخراماں کو تاڑ باندھ
تو مجھ سے لگا کہنے کہ چل ہٹ کے پرے بیٹھ
پرچھائیں اپنی چال کی ٹک منہ کو موڑ دیکھ
ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالان رم کے ساتھ
کیا کام ہم کو سجدۂ دیروحرم کے ساتھ
منہ دیکھو حور ہووے جو ایسی پھبن کے ساتھ
داغوں سے ہے یوں یہ دل بیتاب شگفتہ
برق کو چھیڑ قدم معدن یماب پہ رکھ
رکھتے تھے جو فقرا اپنے یقین پر تکیہ
اے عشق کیا مہیب ہے سر کار کی شبیہ
کیوں نہ پھرشاہ پہ غالب ہو گدا کا سایہ
دکھلا نہ مجھ کو یوسف یعقوب کی شبیہ
رودھو مٹا مرقع ناسوت کی شبیہ
لکھے وہ میرے اس دل بیتاب کی شبیہ
کھنچوا کے داغ سینۂ مایوس کی شبیہ
پڑھ آئنے میں عاشق مرتاض کی شبیہ
کسی سے اٹھ سکے کیا مجھ جلاوطن کا بوجھ
دوشالہ کیا ہم نے کس گل کا دستہ
ہیں آپ جیسے یوسف کنعان بعینہ
جگر میں ہوگئے کھا کر تری سنان نگاہ
لگا کر گلے رفع دل کی طپش کی
کی جو شرما کے اوٹ تکیے کی
ردیف (ی)
کل باد بہاری نے سو ٹکڑے گلابی کی
چوٹی وہ بلا قہر کہ جو مانگ کے جی لے
شب خانۂ رقیب میں تاصبح سو چکے
چند مدت کو فراق صنم ودیر تو ہے
سج یہ آفت تری یہ دھج یہ خوش اندامی ہے
غیر کے ایک اشارے پراٹھ گئے میرے پاس سے
کل بھی محفل سے تری ہم نہ ٹلے بیٹھ گئے
غیر کےمونڈھے پہ تم ہاتھ جو دھر بیٹھ گئے
برق شعلہ زن چمکی ابر بھی خروشاں ہے
طپش دل ہی سے ہم مل کے گلے بیٹھے ہیں
سبزہ کیا خاک شہیداں سے تری خاک اگے
کب چاہوں ہوں میں صرف ملاقات کی ٹھہرے
پے تعظیم اشک اس طرح آہ سرد اٹھتی ہے
کنایہ اور ڈھب کا اس بھری مجلس میں کم کیجے
آنے اٹک اٹک کےلگی سانس رات سے
فقیروں ساتھ یہ تعظیم لمبے خرچ کم کیجے
جہاں میں مثل تیمور اور بابر محتشم کیجے
آتی تھی ایک حور مجھے دیکھ ہٹ گئی
نگہ ہے اس پری کی سحر چتوں ایک آفت ہے
ہے اور کوئی ایسا جس میں یہ پھبن نکلے
بھبھوکا روپ سج دھج قہر آفت چلبلاہٹ ہے
نکلے ہے خوں ٹھہر ٹھہر دل کی ہر اک خراش سے
بستی تجھ بن اجاڑ سی ہے
شہر سے دل اچاٹ ہے انس نہیں اجاڑ سے
جنوں کے رہ نوردوں کا کوئی لگتا کہیں دل ہے
دیکھ کر مجھ کو کھنکارا اور دیا دشنام بھی
قسم نہ کھائیو ظالم تو مے کے پینے سے
دیکھ کر وہ لہلہے گرد اس دہن کے رونگٹے
مے پیے قشقہ دیے کعبے میں ناقوس لیے
کھب گئی آنکھوں میں کل جلوہ نمائی تیری
ہم نے ساقی کے کہیں ہونٹ جوٹک چوس لیے
دوچار سن کے تیرے سخن ہم کڑے کڑے
سودازدہ دل ہے تو یہ تدبیر کریں گے
آزردہ ہم سے تو ہی جواب اے میاں رہے
مجھ سے فرمانے لگے اب قدر جانی آپ کی
تڑپے ہے نبض کس قدر انگشت کے تلے
خم بغل بیچ نہاں ہاتھ میں ہے جام لیے
دیکھ انگیا میں ان کی گوٹ لگی
کل وہ نگہ اچٹتی ہوئی یوں جو پڑ گئی
رہتے ہیں بہ رنگ بو کوچے میں رگ گل کے
گالی سہی ادا سہی چیں جبیں سہی
ایک چھوڑا نہ زندہ جاں تو نے
بندگی اپنے تو جی سے ہم نے ٹھانی آپ کی
زلف پیچاں نے تری کھودی ہے رونق سانپ کی
دو گھڑی دن سے کہا میں نے کہ کیا ارشاد ہے
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
کیا چھیڑ ہے کہ پہلے دل صاف توڑ بیٹھے
دن ہجر کے اب اپنی تو طاقت نہیں بھرتی
تروتازہ دیکھ کے آپ کو یہ گلوں پہ اوس سی پڑ گئی
اگر یہ ڈھب نہیں ملتا کہ اس رخسار کے ملیے
ان کےدو مجھ سے کبوتر کے جو جوڑے اڑ گئے
غیر کی لی جو ران میں چٹکی
گلی سے تیری جو ٹک ہوکے آدمی نکلے
ساقیا آئے ہیں بادل یہ بڑے پانی کے
کب تک کرے دود آہ کا تاثیر کی بھرتی
کیوں دعا اپنی نہ ہو باب ظفر کی کنجی
واقف جو ہم نہیں ہیں اس بزم میں کسی سے
اف اس طپش سے بن مینہ تن کب تلک پسیجے
کیا قہر آگیا جو اوبے وفا کہا تو
مجنوں پہنچ شاب کہ آفت میں قوم ہے
لے نشہ میں تجھے جب یوں قدح بنگ اڑے
مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
کیوں نہ وہ پردہ نشیں پھر مجھے سمرن مارے
پری وہ جو ٹک ہو خفا رک گئی
جس پہ اک لونگ وہ پڑھ کر بت کا ہن مارے
کیوں نہ پھر اس کی لگاوٹ کی مجھے دھن مارے
دیکھ اس کی پڑی خاتم یا قوت میں انگلی
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پر یوش تیرے
پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
غنچۂ گل کی صبا گود بھری جاتی ہے
زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
یوں چلی مژگاں سے اشک خونفشاں کی میدنی
کاش ابر کے چادر مہتاب کی چوری
اٹھتی ہے اپنے دل سے کچھ ایسی ہی ہوک سی
اے چرخ نہ لکھ قیصر وخاقان پہ چٹھی
کسی پری کی ہنسی دل پر اپنے کچھ ٹھن جائے
کہا لیلیٰ نے کچھ شعلے سے جو اس کو نہاں لپٹے
یہ کس سے چاندنی میں ہم بزیر آسماں لپٹے
گلے سے تیرے کدھر کوئی اہل دل لپٹے
جنوں کے دیو سے کیا عوج مضمحل لپٹے
ضیا میں نور سما جائے ظل ظل لپٹے
ہے مستعد کہ وہ لب میگوں ٹپک پڑے
دامن اگر نچوڑیے جیحوں ٹپک پڑے
اشک مژگان ترکی پونجی ہے
صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
کب وہ آزاد بھلا مورد تحسین ہوئے
سانولے پن پر غضب ہے دھج بسنتی شال کی
ان انگلیوں میں قول کے چھلے نظر پڑے
بھلے آدمی کہیں باز آ ارے اس پری کے سہاگ سے
جو نسیم صبح لپٹ گئی کسی گل کے دامن پاک سے
یہ جو مجھ سے اور جنوں سے یاں بڑی جنگ ہوتی ہے دیر سے
نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
آج بجلی سے بنے ہفت طبق سونے کے
ہے جی میں قفل خانۂ خمار توڑیے
ہے یہ تو کیا کہ آپ کی دیوار توڑیے
یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیے
پہلے عصا کےو اسطے اک تاڑ توڑیے
پیسے کی چوٹ سے سر کم ظرف توڑیے
جتنی اڑیاں تھیں بڑی ان سے اڑی مینہ کی لگی
وہ پری ہی نہیں کچھ ہوکے کڑی مجھ سے لڑی
بوسہ جو دیتے نہیں مجھ کو تو جھڑ کی ہی سہی
زنہار ہمت اپنی سے ہر گز نہ ہاریے
اپنی کوئی میں مگر رات کو بھر لیتا ہے
اک پھریری جو تراخاک بستر لیتا ہے
گھیر شاخوں کو جو کل زخم تبر لیتا ہے
اے پری تیرے مزے ایک بشر لیتا ہے
ہیں جو مروج مہرووفا کے سب سررشتے بھول گئے
یاں تیرے وصل میں بھی دم سرد ہے سو ہے
دل میں بدولت آپ کے اک درد ہے سو ہے
یہ پیاس اپنی بجھے برف سے نہ شورے سے
ہے آنکھوں پہ ساقی کی مے ناب کی پھبتی
یارب ترا ہی ذکر یہاں جب نہ تب رہے
پگڑی تو نہیں ہے یہ فرانسیس کی ٹوپی
جی چاہتا ہے شیخ کی پگڑی اتاریے
تمہارے ہاتھ سے ساقی جو شیشہ ٹوٹ گئی
کیا چیز بھلا قصر فریدوں مرے آگے
نشے میں آکے جو کل مرشد مغاں سے لڑے
کر ڈالوں گا دیوار ابھی پھاند کے ٹکڑے
ہوئی نہ تھی سو اے دل پردرد ہو گئی
بھری وہ آتش عشق اس دل فگار میں ہے
گرمی کی جوشکوہ تھی سب گرد ہو گئی
عجیب لطف کچھ آپس کی چھیڑ چھاڑ میں ہے
مت ہاتھ اٹھا اپنے تو بسمل کے گلو سے
معلوم نہیں روٹھے ہیں کس آئینہ رو سے
چین آوے نہ کیوں ایسے پری زاد کی بو سے
ہو توبہ شکن آج دلا تو سر نو سے
یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
مل گئے پر حجاب باقی ہے
یاں زخمی نگاہ کے جینے پہ حرف ہے
رباعیات
قصائد
حمد میں
اے خدا وند مہ ومہروثریا وشفق
گرچہ افلاک کے سب پھونک دے اطباق آتش
منقبت میں
احاطہ آگ کا وہ لال لال گرما گرم
بلاؤ مروحہ آہ سرد کو ہر گام
ادھر کو داد رس مور ہوا گر وہ امام
مطاع دہر ہو حلال ہر معاملہ ہو
نوع بشر میں تھے نہاں آتش وبادوآب وخاک
ہیں یہ بسان طائر اس آتش وبادوآب وخاک
بادشاہ علی گہر کی مدح میں
جشن ونشاط وخوش دلی وعشرت ونعم
مستجمع المکارم ومستحن الشیم
شاہزادہ سلیمان شکوہ کی مدح میں
صبح دم میں نے جولی بستر گل پر کروٹ
عازم جنگ ہو جس لحظہ تو گلگوں کو ڈپٹ
نواب سعادت علی خاں کی مدح میں
کیوں نہ بخشے پھر شاہ ولایت پرچم
سامنے تیرے جو رستم بھی کبھی ٹھونکے خم
کیا چیز دیو مرد سخنداں کے سامنے
نواب سعادت علی خاں کی تعریب میں
دولہن جان کی تعریف میں
سحر بہار کی خوشبو میں آگئی یہ لپٹ
بگھیاں نور کی تیار کر اے بوے سمن
بادشاہ انگلستان جارج سوم کی تعریف میں
کلام غیر منقوطہ
اور کس کا آسرا ہو سرگردہ اس راہ کا
رہ ورسم حمد ادا کرو الم اور درد ہوا ہوا
ملارگا کہ سرکوہسار لال ہوا
دل کم حوصلہ کو گو کہ سدا درد رہا
دل اہل دلا کو سرور ہوا الم اور ہراس وہ دور ہوا
سو واہ ہو سو واہ دااوملحد اوگاوطلا
ہم کو آرام ہو دلا کس طرح
موسم گل کا لہلہا ساراآہ گروہ اہل صلاح
ہم دم سرکہسار ہوا لہلہا سارا اور موردہ کوکا
آمد آمد گل ہو اور وہ سادہ رو امرد
حور عروس مد عا صل علی محمد
ہو دل آرام کا اگر وسواس
ہمدم دام آہ راہ صراط
مدرکۂ طمع کھلا آہ ہوا وآہ حرص
موسم گل کا ہوا گہرا سہاگ
ولولہ کر موحدا حال ادھر ادھر سماع
ادھر آسر گر وہ امل سلوک
واہ واسر گردہ اہل کمال
آہ موسیٰ وہ طور کا عالم
طور سحر کا دولہا کا سا حور عروس کاگل سا موسم
لاؤ عروس مدعا کہہ دو سہا وماہ کو
سلسلہ گر کلام کا وا ہو
دلدار آمد الحمد اللہ
سرگردہ گدا حماک اللہ
رباعیات
مخمس
نثر
مرغ نامہ
حمد ہے فرض اس کی وقت سحر
مثنویات
کر ثناے رسول راہ نما
اب مجھے بھی یہ شوق ہے اس کا
زنبور
ان بھڑوں نے کیا یہ ا ب کے قہر
درزبان اہل برج
اک جو بھونرا بھڑو ں نے گھیر لیا
کھٹمل
کچھ یہ کھٹمل بڑھتے ہیں اب کے سال
مچھروں کو ہوا ہے اب کے یہ اوج
ہجو پشہ
مکھیاں اب کے یہ بڑھیں بے ڈول
ہجو مگس
کروں کیا جور گردوں کا شکایت
شکایت زمانہ
فیل
صدقے آنکھوں کے تیری ساقی
اس کام کا پڑ گیا جو سایا
آپ خدا نے جب کہا صل علی محمد
مفترقات
مخمسات
چھائی یہ گھٹا زور ہے اے ساقی بدمست
مخمس ترجیع بند در مدح شاہزادہ مرزا سلیمان شکوہ
بلطف صفدر ضر غام دیں جناب امیر
میں اپنا دل مضمحل بیچتا ہوں
وہ جو معمار کا اکڑ کے تنا
مخمس غزل میر سجاد ایہام گو
جناب مولوی حیدر علی بلند مقام
مخمس قصیدہ مولوی حیدر علی
مخمس بر قطعہ مرزا جان طپشؔ
کیوں کر مرزا جان طپشؔ سے قازیں نہ ساری بیر کریں
قطعات
بزنر نے کل پوست کندہ کہا
قطعہ تاریخ مسجد سالار بخش
مرد ہے نتھوں کی دولت خرچ کی مسجد کے بیچ
قطعۂ دعائیہ شاہزادہ سلیمان شکوہ در تہنیت نوروز
قطعۂ تہنیت سالگرہ جناب عالی
قطعۂ تہنیت جشن نواب ناظم الملک سعادت علی خاں بہادر
قطعۂ تہنیت صحت فرزند نواب سعادت علی خاں بہادر
افراد
پہیلیاں
دیوان ریختی
انتخاب
جب سے کہ سامنا ہے اس چاہ کی گلی کا
وصف بیاں کیا کروں رات کے مہمان کا
چوٹی یہ تری سانپ کی ہے لہر دوگانا
اللہ کرے سلامت جم جم رہے یہ بیڑا
آگ لینے کو جوآئیں تو کہیں لاگ لگا
اپنا جو جتاتا ہو ہمیں زور نگوڑا
لو شمع کی نکلتی ہے ان آنسوؤں کے ساتھ
رنگ ہے آنکھ کی پتلی میں اسی کا جھلکا
چھبتی ہے یہ تو نگوڑی مجھے بھاری انگیا
بیگما میں جو بری ہوں تو بھلا تجھ کو کیا؟
تم جو میرا اوڑھا دوپٹا ہے یہ دوگانا بات کڈھب
تو قیامت بے سری ہےحد برا تیرا گلا
لہر میں چوٹی کی تیری ڈر کے مارے کانپ کانپ
مردوں سے پرچ تو مت حسن ہے پری کم بخت
تجھے کچھ شرم بھی ہے بیٹھ پرے اوکم بخت
بس بلائیں نہ لے مری چٹ چٹ
سانسیں یہ ٹھنڈی ٹھنڈی کیا راتوں کو بھرتی ہو عبث
سارے بھوتوں سے پرے ہے یہ موا خو جا خبث
کوئی چاہت میں کسی شخص کی بدنام ہو نوج
بیگما چاہ کے دریا کے بڑے پاٹ کو سوچ
کیا کسی باغ میں ہے آج پڑی سوتی صبح
صدقے اپنے نہ ہو اس کے کوئی قربان ہو نوج
کھلھلاتا ہے مرے آگے جو ہو کر گستاخ
بلائیں میں نے جو لیں ان کی کل چٹاخ چٹاخ
اے دوگانا مجھ سے کشتی کھیلنے کا ہے گھمنڈ
چیلے اک جوگی کے دیکھے ہم نے ایسے لنڈ منڈ
اجی کس ڈول سے بن جائے ہے گھوڑا کاغذ
خانمی چاہ ہے وہ جھاڑ پہاڑ
کیا پڑی پھرتی ہے اس کی ہر طرف رف رف نظر
کوئی کم بخت ہمارا نہیں ایسا دل سوز
باجی کی باس میں جو رچی اک جنے کی باس
نہیں زیور کی کچھ پھبن پر غش
باجی تم چاہتی ہو بندی سے جیسا اخلاص
مت دیا کر نت نئے روز یو نہیں دم غلط
کام کسی پھول سے یہاں ہے نہ کلی سے غرض
شرط ہے رکھنا لحاظ اتنی بھی مت ہو بے لحاظ
نہیں یہاں کسی آشنا کی توقع
لے تو جھوٹی ہی کہائی نہ اری بے انصاف
نہیں جاتی کہیں مہمان مرے دل کا شوق
میں نے دیکھی ہے اس کے کان میں لونگ
بیگما چاہ بھی پہاڑ ہے ایک
چڑھ کے کوٹھے دھوپ میں تم تو اڑاتی ہو پتنگ
کیا چیز ہے جو دھیان میں اپنے نہیں اری
ارے بی ایک ہی عیار ہو تم
ہے ان دنوں میں ان کی جو آواز ڈوک میں
میں تو کچھ کھیلی نہیں ہوں ایسی کچی گولیاں
تھیں تو پردے والیاں مجھ کو پرے ہٹ بولتیں
ارے دل کچھ انہیں تیری خبر نہیں
نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبث کی جھک جھوری جھیلنے کو
بلا سے اگر آئی ہولی کہارو
نظر آویں ہیں اس میں پڑھنے کے گن
بات وہ لایئے کم بخت جو چت چاہی ہو
جی ہی کچھ رکھتی نہیں دھڑ میں نری پولی ہے تو
اری موتی ادھر آ تو
کوئی نہیں آس پاس خوف نہیں کچھ
نہ کہیو پھر نہ کی اللہ اللہ
میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ
یہ گھٹا رات کو چھائی کہ الٰہی توبہ
کلی دل کی بھلا کیوں چٹکیوں میں تومسل ڈالے
کل ایک گھر میں خوب سے چھوٹے بڑے لڑے
جو دل کی آرسی کو ہماری جلا کرے
جو ہم کو چاہے اس کا خدا نت بھلا کرے
ہزاروں دیویوں کو یہاں کی پریوں نے لتاڑا ہے
چلو سیر باغ کو بیگما ہوے ہیں درخت ہرے بھرے
یہ کیا تجھے ہے خواہی نہ خواہی
وہ تو کسی میں نہیں آپ میں جو بات ہے
بس مرا سر نہ کھا ارے!
کیوں پگھل پڑیے نہ ہے روپ پہ کچھ ان کا تو
یہ اتفاق ہے نہ بنے یا نبی رہے
دنیا ادھر کی گو ادھر ہو جائے
کہہ گئی مجھ سے دوگانا کی بہن جو چھٹکی
سیدھے لوگوں سے بھی رکھتی ہو کجی بی ستی
کوئی کچی ہے گنے ہر بات کا پیکا تجھے
سچ کہوں بات جو بری نہ لگے
چونپ کیا ہو جو کسی سے کوئی ہر روز ملے
رات بھر اپنا ترستا ہی رہا جی باجی
رباعیاں
قطعے
مستزاد
مستزاد خماسی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.