سر ورق
اندرونِ صفحات
حرفِ اول
مقدمہ
یوں ہی رہا مرا شعل جبہ سائی کا
یہ کوئی رشک تھا میرا کہ میری آفتِ جاں تھا
ہر ایک شکوہ شکایت میں کامیاب ہوا
ادھر کو بھی نگاہِ مہر اے ساقی ذرا کرنا
میں شب تار میں یا روز درخشاں میں رہا
اتنا بڑھا کہ حیرتِ اغیار ہو گیا
تیر کا دل سے نکلتے ہی پر افشاں ہونا
اے دل بیتاب غیرت کو تری کیا ہوگیا
ان آنکھوں کا یہاں محوِ جمالِ یار ہو جانا
کب نظر آیا کسی کو کب وہ پنہاں ہو گیا
غیر تھا کون کبھی اس پہ نظر ہی نہ پڑی
کھلے گا راز ہستی ہم پہ معدوم جہاں ہوکر
مزے کچھ ایسے اٹھائے ہیں مبتلا ہو کر
جو نعمتوں سے لبالب ہے خوانِ بادہ فروش
کیا تو نے ملایا ہے مئے ہوش ربا میں
وہ کون ہے جو ترے در پہ بار یاب نہیں
گو ادا سنجِ ادب شوخیٔ گفتار نہیں
قرار اب تک کہیں دیکھا نہیں الفت کے ماروں میں
یہ امتیاز ہم سے ستم کش کو کم نہیں
خنجر ہے ترے ہاتھ میں حاضر ہے یہ سر بھی
اپنی سی تو محرومئی قسمت نہیں دیکھی
ٹھیرا ہوا ہوں اور سفر رہ گزر میں ہے
کیا خوش نصیب در پہ ترے ناتواں رہے
تجمل کی بس انتہا ہو گئی
موت کو کہتے ہیں امکانی مری
دم ہی نکل گیا شب ہجراں کے نام سے
غزلیات
آگاہ عشق میں نہیں سود و ضرر سے ہم
رخ روشن کو تیرے قدرت یزداں سمجھے
غزلیات مطبوعہ جوہر سخن
ادھر کو بھی نظر ساقی کہ فرصت ہے کوئی دم کی
نیچی نظروں میں نگہ آپ جدھر رکھتے ہیں
ابیات
مٹیں ولوے کاش میرے بیاں کے
میں ہوں اور اِک تسلسل شب ہائے تار ہے
یوم جوہر
کیوں نہ ہو اطہر مجھے حضرت جوہر کاغم
چھایا ہوا ہے چرخ پہ گرد وغبار کیوں
ہوا کیا کہ بزم ادب ہے اداس
ہو گئی جے پور میں دھندلی فضائے شاعری
حضرت جوہر گئے ملک عدم
حضرت جوہر اٹھے کیا ہو گیا قحط الرجال
مقدر نے کیا دو چار ایسے جاں گزا غم سے
میرے ماموں مولوی و فلسفی
بے رنگ آج کل چمن روز گار ہے
جوہر علم و ہنر رفت از جہاں
شد آن علامہ فاضل ز دنیا
اے فلک ظلم ناروا کب تک
آہ کیا کیا جوہر قابل جہاں سے چل بسے
آج جوہر بھی سدھار ے خلد کو
کیوں نہیں ہر شعر میں لذت ذرا
یوں تو ہم پر آسماں کے ظلم ہوتے ہی رہے
چل بسا دنیا سے ہائے پیکر خلقِ عظیم
بیٹھے بیٹھے ہو گیا یہ کیا مجھے پروردگار
ساقی الگ ہٹا ترے ساغر کا کیا کروں
پژمردہ آج گل ہیں گلشن پہ ہے اداسی
رنج فرقت دے گئے افسوس اشفاق رسول
یہ کیا سنتا ہوں یارب موت عالم موت عالم ہے
فلک یہ کیا کیا ایک اور تونے کوہ غم ڈھایا
کیایوں ہی ظلم و ستم ڈھاتا رہے گا اے فلک
کہہ رہی ہے گردش لیل و نہار
ہائے ہائے تاکجا کیجیے بیاں
ہائے ہائے جوہر فرخ خصال
مولوی محمد اشفاق رسول صاحب جوہر
حضرت جوہر مرحوم کے چند تلامذہ
AUTHORAshfaq Rasul Jauhar
YEAR1992
CONTRIBUTORHaider Ali
PUBLISHER Rajasthan Urdu Academy, Jaipur
AUTHORAshfaq Rasul Jauhar
YEAR1992
CONTRIBUTORHaider Ali
PUBLISHER Rajasthan Urdu Academy, Jaipur
سر ورق
اندرونِ صفحات
حرفِ اول
مقدمہ
یوں ہی رہا مرا شعل جبہ سائی کا
یہ کوئی رشک تھا میرا کہ میری آفتِ جاں تھا
ہر ایک شکوہ شکایت میں کامیاب ہوا
ادھر کو بھی نگاہِ مہر اے ساقی ذرا کرنا
میں شب تار میں یا روز درخشاں میں رہا
اتنا بڑھا کہ حیرتِ اغیار ہو گیا
تیر کا دل سے نکلتے ہی پر افشاں ہونا
اے دل بیتاب غیرت کو تری کیا ہوگیا
ان آنکھوں کا یہاں محوِ جمالِ یار ہو جانا
کب نظر آیا کسی کو کب وہ پنہاں ہو گیا
غیر تھا کون کبھی اس پہ نظر ہی نہ پڑی
کھلے گا راز ہستی ہم پہ معدوم جہاں ہوکر
مزے کچھ ایسے اٹھائے ہیں مبتلا ہو کر
جو نعمتوں سے لبالب ہے خوانِ بادہ فروش
کیا تو نے ملایا ہے مئے ہوش ربا میں
وہ کون ہے جو ترے در پہ بار یاب نہیں
گو ادا سنجِ ادب شوخیٔ گفتار نہیں
قرار اب تک کہیں دیکھا نہیں الفت کے ماروں میں
یہ امتیاز ہم سے ستم کش کو کم نہیں
خنجر ہے ترے ہاتھ میں حاضر ہے یہ سر بھی
اپنی سی تو محرومئی قسمت نہیں دیکھی
ٹھیرا ہوا ہوں اور سفر رہ گزر میں ہے
کیا خوش نصیب در پہ ترے ناتواں رہے
تجمل کی بس انتہا ہو گئی
موت کو کہتے ہیں امکانی مری
دم ہی نکل گیا شب ہجراں کے نام سے
غزلیات
آگاہ عشق میں نہیں سود و ضرر سے ہم
رخ روشن کو تیرے قدرت یزداں سمجھے
غزلیات مطبوعہ جوہر سخن
ادھر کو بھی نظر ساقی کہ فرصت ہے کوئی دم کی
نیچی نظروں میں نگہ آپ جدھر رکھتے ہیں
ابیات
مٹیں ولوے کاش میرے بیاں کے
میں ہوں اور اِک تسلسل شب ہائے تار ہے
یوم جوہر
کیوں نہ ہو اطہر مجھے حضرت جوہر کاغم
چھایا ہوا ہے چرخ پہ گرد وغبار کیوں
ہوا کیا کہ بزم ادب ہے اداس
ہو گئی جے پور میں دھندلی فضائے شاعری
حضرت جوہر گئے ملک عدم
حضرت جوہر اٹھے کیا ہو گیا قحط الرجال
مقدر نے کیا دو چار ایسے جاں گزا غم سے
میرے ماموں مولوی و فلسفی
بے رنگ آج کل چمن روز گار ہے
جوہر علم و ہنر رفت از جہاں
شد آن علامہ فاضل ز دنیا
اے فلک ظلم ناروا کب تک
آہ کیا کیا جوہر قابل جہاں سے چل بسے
آج جوہر بھی سدھار ے خلد کو
کیوں نہیں ہر شعر میں لذت ذرا
یوں تو ہم پر آسماں کے ظلم ہوتے ہی رہے
چل بسا دنیا سے ہائے پیکر خلقِ عظیم
بیٹھے بیٹھے ہو گیا یہ کیا مجھے پروردگار
ساقی الگ ہٹا ترے ساغر کا کیا کروں
پژمردہ آج گل ہیں گلشن پہ ہے اداسی
رنج فرقت دے گئے افسوس اشفاق رسول
یہ کیا سنتا ہوں یارب موت عالم موت عالم ہے
فلک یہ کیا کیا ایک اور تونے کوہ غم ڈھایا
کیایوں ہی ظلم و ستم ڈھاتا رہے گا اے فلک
کہہ رہی ہے گردش لیل و نہار
ہائے ہائے تاکجا کیجیے بیاں
ہائے ہائے جوہر فرخ خصال
مولوی محمد اشفاق رسول صاحب جوہر
حضرت جوہر مرحوم کے چند تلامذہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.