سر ورق
فہرست مضامین
عرضِ حال
دیباچہ
کلامِ مشتاق
انتخابِ کلام
میں بے وفا، کہ غیر! یہ چپکے سے کیا کہا؟
دکھائے مجھ کو اثر جب مری فغاں اپنا
روٹھو گے بے سبب تو منایا نہ جائے گا
ہے انتظار نزع میں تیرے جمال کا
اسی بات پر میں فدا ہو گیا
آئینہ بنا لو دل ارباب صفا کا
بزم سے کیوں نکال کر خوش ہو
میں کیوں شبِ ہجراں میں قیامت کو بلاؤں
دمِ نظارہ پردہ رکھ لیا ہے پردہ داری کا
ہر دم شگفتہ تر جو ہنسی میں دہن ہوا
ان کے ہمسایہ میں گر مجھ کو بسایا جاتا
اپنی گدڑی تابنائے قیس خارِ دشت سے
شکوہ کریں کے ہم نہ کبھی روزگار کا
تم ہو اپنی طرف لئے جاتے
آپس میں چھیڑ چھاڑ بھی ہونی محال ہے
مٹ جائے کیوں نہ تجھ پہ دل جستجو پسند
مانندِ آفتاب درخشاں ہے روئے دوست
ہوتی ہے عشق میں یہ اپنی آبرو ریزی
ہم ہیں ہندو، تم مسلمان، دونوں باہم ایک ہیں
یاں ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں پہلے ہی جاں سے ہم
سیکھتے ہیں سخن سرائی ہم
تم دکھا دو اگر جلال ہمیں
فکر ہے یہ شبِ وصال ہمیں
چمکتے ہیں سب کے بخت تیری جلوہ گاہ میں
شکوہ ہو جاتا ہے فی الفور مبدل بہ سپاس
مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں
جو ابتدا سے خوگر جور و ستم نہیں
کھویا ہے جھوٹے وعدوں سے اپنا ہی اعتبار
ذکر باہم یہ مرے زخمِ جگر کرتے ہیں
ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
پہلے ثابت کر لیا ہوتا مری تقصیر کو
اور کیا خستگی حال کی تشریح کروں
کیا تسلیم یہ ہم نے کہ تم رشکِ مسیحا ہو
گذارش یہ مری واضح رہے سرکار عالی کو
مدعا یہ کہ کہیں ہاتھ لگانے دے مجھے
میری ہستی بھی ہے قائم اس طرح دلبر کے ساتھ
بخشا خدا نے سرتری دیوار کے لئے
اپنے اہلِ جنس کی جس نے مدد گاری نہ کی
تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
اس ماہ وش کے ہاتھ میں جام شراب ہے
تیرے دل میں جو آئی امتحاں کی
آتے پہلے سے وہ لیکن دم بسمل آئے
ہو کس طرح فریب نظر ماسوا مجھے
فیض کا چشمہ تو ہر حالت میں جاری چاہئے
نگاہوں سے ادا نکلے، اداؤں سے حیا نکلے
پرنکالے ہیں وہ کہ اب ہم کو
چھپتی نہیں حجاب میں صورت عتاب کی
ہم ہجر میں کیو منت بہزاد کریں گے
ہمارے قافلہ میں چلتے چلتے ایک مرشد نے
بزم عشاق میں جس وقت کہ تو آتا ہے
واہ کیا خوب عیش منزل ہے
تیرا عاشق ہے تماشا بھی تماشائی بھی
ساری خلقت کا ایک سا دل ہے
فتوح امید
مسدس قرار داد
سہرا
غزلیاتِ فارسی
رباعی
سر ورق
فہرست مضامین
عرضِ حال
دیباچہ
کلامِ مشتاق
انتخابِ کلام
میں بے وفا، کہ غیر! یہ چپکے سے کیا کہا؟
دکھائے مجھ کو اثر جب مری فغاں اپنا
روٹھو گے بے سبب تو منایا نہ جائے گا
ہے انتظار نزع میں تیرے جمال کا
اسی بات پر میں فدا ہو گیا
آئینہ بنا لو دل ارباب صفا کا
بزم سے کیوں نکال کر خوش ہو
میں کیوں شبِ ہجراں میں قیامت کو بلاؤں
دمِ نظارہ پردہ رکھ لیا ہے پردہ داری کا
ہر دم شگفتہ تر جو ہنسی میں دہن ہوا
ان کے ہمسایہ میں گر مجھ کو بسایا جاتا
اپنی گدڑی تابنائے قیس خارِ دشت سے
شکوہ کریں کے ہم نہ کبھی روزگار کا
تم ہو اپنی طرف لئے جاتے
آپس میں چھیڑ چھاڑ بھی ہونی محال ہے
مٹ جائے کیوں نہ تجھ پہ دل جستجو پسند
مانندِ آفتاب درخشاں ہے روئے دوست
ہوتی ہے عشق میں یہ اپنی آبرو ریزی
ہم ہیں ہندو، تم مسلمان، دونوں باہم ایک ہیں
یاں ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں پہلے ہی جاں سے ہم
سیکھتے ہیں سخن سرائی ہم
تم دکھا دو اگر جلال ہمیں
فکر ہے یہ شبِ وصال ہمیں
چمکتے ہیں سب کے بخت تیری جلوہ گاہ میں
شکوہ ہو جاتا ہے فی الفور مبدل بہ سپاس
مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں
جو ابتدا سے خوگر جور و ستم نہیں
کھویا ہے جھوٹے وعدوں سے اپنا ہی اعتبار
ذکر باہم یہ مرے زخمِ جگر کرتے ہیں
ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
پہلے ثابت کر لیا ہوتا مری تقصیر کو
اور کیا خستگی حال کی تشریح کروں
کیا تسلیم یہ ہم نے کہ تم رشکِ مسیحا ہو
گذارش یہ مری واضح رہے سرکار عالی کو
مدعا یہ کہ کہیں ہاتھ لگانے دے مجھے
میری ہستی بھی ہے قائم اس طرح دلبر کے ساتھ
بخشا خدا نے سرتری دیوار کے لئے
اپنے اہلِ جنس کی جس نے مدد گاری نہ کی
تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
اس ماہ وش کے ہاتھ میں جام شراب ہے
تیرے دل میں جو آئی امتحاں کی
آتے پہلے سے وہ لیکن دم بسمل آئے
ہو کس طرح فریب نظر ماسوا مجھے
فیض کا چشمہ تو ہر حالت میں جاری چاہئے
نگاہوں سے ادا نکلے، اداؤں سے حیا نکلے
پرنکالے ہیں وہ کہ اب ہم کو
چھپتی نہیں حجاب میں صورت عتاب کی
ہم ہجر میں کیو منت بہزاد کریں گے
ہمارے قافلہ میں چلتے چلتے ایک مرشد نے
بزم عشاق میں جس وقت کہ تو آتا ہے
واہ کیا خوب عیش منزل ہے
تیرا عاشق ہے تماشا بھی تماشائی بھی
ساری خلقت کا ایک سا دل ہے
فتوح امید
مسدس قرار داد
سہرا
غزلیاتِ فارسی
رباعی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔