پیش لفظ
یہ ذوق ادب مست مئے ہوش ربا کا
تو جد ھر جائے گا فتنہ کوئی برپا ہوگا
کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
وہ پوچھتے ہیں شوق تجھے ہے وصال کا
ہنگام نزع گریہ یہاں بیسکی کا تھا
اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
یہ کافربت جنھیں دعوےٰ ہے دنیا میں خدائی کا
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہوگیا
مکاں دیکھے مکیں دیکھئے لا مکاں دیکھا
ان پر بھی یہ اثر مری دیوانگی کا تھا
کچھ آئینے نے اور ہی عالم دکھا دیا
ارمان ہے کہ پھول کھلے ان کے ہار کا
نازک ہیں نزاکت کا بیاں ہو نہیں سکتا
روگ تھا آزار تھا اچھا ہوا جاتا رہا
لطف دیتا ہے یہ ہر بار ترا کیا کہنا
مے چرانے میں ہمیں ہے ید طولےٰ کیسا
تمہارا مدعا پورا ستم سے ہو نہیں سکتا
ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
وہ حشر میں بھی سر بہ گریباں نہیں ہوتا
نہ کانٹا تھا نہ کوئی پھانس نشتر تھا نہ پیکاں تھا
کام کیا دل نے شکیبائی کا
دیوانہ میں نے حشر میں خود کو بنا لیا
مانگے دیا تھا آپ کو بیچا تو کچھ نہ تھا
انکار میں پہلو جورہے ہاں سے بھی اچھا
وہ ہوا جنت کی وہ ابر کرم چھایا ہوا
محشر کے لئے قول و قسم کیا نہیں ہوتا
جس پر گماں حشر میں ہے آفتاب کا
شرار برق گوتنکے بنے لیکن نشاں ہوگا
دنیا سے الگ ہم نے
میں سمجھا جب چھلکتا سامنے جام شراب آیا
کہاں سے لائے کوئی روز اب کباب شراب
رکھتے نہیں ہیں درد بھی دل میں دو اطلب
نشتر چبھونے آئے ہیں دل میں کہاں سے آپ
تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات
بام پر آئے کتنی شان سے آج
جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
مجھ سے بڑھ کر ہے دل مرا گستاخ
ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے تر سانے کے بعد
کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
نظر ہے حضرت واعظ کی خلدو کوثر پر
مرے بیاں پر آج ہے طرز بیاں کوناز
تو بھی صیاد نہیں مرغ گفتار کے پاس
نہیں مینا یہ اے شراب فروش
رات فرقت کی بنے زلف رسا کو کیا غرض
جلوے سے تیرے بزم میں روشن ہزار شمع
نیا دل ہے نئی الفت نیا داغ
دل لگانے کے ہیں ہزار طریق
بھر گیا آنکھ میں شراب کا رنگ
ترے گیسو سے ہے الجھا ہوا دل
ہزاروں داغ دل داغدار کے قابل
ان کے کوچہ میں اگر جاتے ہیں ہم
پایا جو تجھے تو کھوگئے ہم
ہمارے داغ یوں چمکے نہ تھے پچھلی بہاروں میں
نشہ سا ہے شراب باہر چند پی نہیں
جو ان سے کہو وہ یقین جانتے ہیں
جو کرنا ہے جفائیں وہ کئے جائیں
اپنے خرام ناز پہ اترائے جاتے ہیں
وہ آج ہم سے نئی چال چل کے جاتے ہیں
یہ مے تلخ ترے منہ سے لگی ہے کہ نہیں
بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں
پھوٹ سی پڑی رات کو مے خواروں میں
وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
داغ دل کا رنگ کب لاتا نہیں
ہمارے ساتھ سب اپنے پرائے جاتے ہیں
چھینٹے دیتی ہوئی رندوں کو گھٹائیں آئیں
شوخی سی تو شوخی بھی نہیں رنگ حنا میں
دل جلوں سے دل لگی اچھی نہیں
کیا قیامت ہے لحد پر مری وہ آتے ہیں
بن بن کے وہ آئینہ ذرا دیکھ رہی ہیں
شرر طور ہے جو موج ہے پیمانے میں
یہ سیدھے جواب زلفوں والے ہوئے ہیں
کیا جانے کیا ہے میری گلابی میں مے نہیں
وہ ستاتا ہے ستاتے جو نہیں تم مجھ کو
مسکراتے ہو جہاں دیکھتے ہو تم مجھ کو
سو بو تلیں چڑھاؤں تو نشہ ذرا نہ ہو
جواں کردے الٰہی صحبت پیر مغاں مجھ کو
سرد دامن ترے کوچے کا غبار آئے تو
جھومتی قبلے سے آئی تھی ستم ڈھانے کو
کفن سر کار کے حسن نو جوانی دیکھتے جاؤ
کام کی آہ دہی ہے جو ہوتا ثیر کے ساتھ
سلامت میکدہ یارب سلامت پیر میخانہ
مجھ کو لینا ہے ترے رنگ حنا کا بوسہ
اس حسن کا شیدا ہو ں اس حسن کا دیوانہ
درد ہو تو دوا کرے کوئی
میخانے پر نگاہ جو پیر مغاں کی ہے
دیکھے جو مری آنکھ کوئی آنکھ بھر آئے
چھلکائیں بھر کے لاؤ گلابی شراب کی
یہ سر بمہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
ضرور پاؤں میں اپنے وہ حنامل کے چلے
ہمارے دل میں ہے جو داغ ایسا کم نکلتا ہے
چونکے ہیں حشر میں ہم اہل حرم سے پہلے
کیوں جوانی آئی دو دن کے لئے
یاد گیسو میں کچھ الجھن جو سوا اور ہوئی
برسات کی رت لطف کی ہے رات مزے کی
تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
رات دن بزم میں دور مئے گلفام چلے
کیاہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی
دارفتہ آج کیسی طبیعت چمن میں تھی
پی لی ہم نے شراب پی لی
اوکوسنے والے اب دعا دے
کل مرقعے ہیں ترے چاگ گریبانوں کے
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گذر نے والے
کوئی جانے یہی ہیں ایک جلوادیکھنے والے
وحدث پکارتی ہے وہ کثرت سے دور ہے
جس دن سے حرام ہوگئی ہے
تا عمر مزے دور مے وجام کے اٹھے
ز مین میکدہ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
ڈھل چکی ہے اب جوانی جائے گی
تمہیں کیونکر بتا دوں کیا مرے دل پر گذرتی ہے
جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
آغاز جوانی کی ادا اور ہی کچھ ہے
عدم اب ہے نہ ہستی ہے عجب ہنگامہ برپا ہے
لائی ہے اڑا کے شکن زلف یار کی
مے رہے مینار ہے گردش میں پیمانہ رہے
شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حشر کی اتنی حقیقت ہوگی
شور تھا بوتل اٹھے مینا اٹھے ساغر اٹھے
اوچشم مست تیرے اشارے سے کیا ملا
مئے کہن میں جھلک سی ہے کچھ جوانی کی
ساقی! مجھے ایک جام دینا
ساقی نامہ
مینا میں ہے رنگ امیرؔ مینائی کا
رباعیات
سہرا
کتنے اختر لئے دامن میں ہے پرزر سہرا
سہرا
آسماں پہلے بچھا بزم میں سایا بن کر
نہیں آج کھلتا یہ کیسی سحر ہے
مسدس
مخمس
ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
جواہر پارے
جوانی جن میں کھوئی ہے وہ گلیاں یاد آتی ہیں
YEAR1960
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER स्टार पब्लिकेशन्स, दिल्ली
YEAR1960
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER स्टार पब्लिकेशन्स, दिल्ली
پیش لفظ
یہ ذوق ادب مست مئے ہوش ربا کا
تو جد ھر جائے گا فتنہ کوئی برپا ہوگا
کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
وہ پوچھتے ہیں شوق تجھے ہے وصال کا
ہنگام نزع گریہ یہاں بیسکی کا تھا
اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
یہ کافربت جنھیں دعوےٰ ہے دنیا میں خدائی کا
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہوگیا
مکاں دیکھے مکیں دیکھئے لا مکاں دیکھا
ان پر بھی یہ اثر مری دیوانگی کا تھا
کچھ آئینے نے اور ہی عالم دکھا دیا
ارمان ہے کہ پھول کھلے ان کے ہار کا
نازک ہیں نزاکت کا بیاں ہو نہیں سکتا
روگ تھا آزار تھا اچھا ہوا جاتا رہا
لطف دیتا ہے یہ ہر بار ترا کیا کہنا
مے چرانے میں ہمیں ہے ید طولےٰ کیسا
تمہارا مدعا پورا ستم سے ہو نہیں سکتا
ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
وہ حشر میں بھی سر بہ گریباں نہیں ہوتا
نہ کانٹا تھا نہ کوئی پھانس نشتر تھا نہ پیکاں تھا
کام کیا دل نے شکیبائی کا
دیوانہ میں نے حشر میں خود کو بنا لیا
مانگے دیا تھا آپ کو بیچا تو کچھ نہ تھا
انکار میں پہلو جورہے ہاں سے بھی اچھا
وہ ہوا جنت کی وہ ابر کرم چھایا ہوا
محشر کے لئے قول و قسم کیا نہیں ہوتا
جس پر گماں حشر میں ہے آفتاب کا
شرار برق گوتنکے بنے لیکن نشاں ہوگا
دنیا سے الگ ہم نے
میں سمجھا جب چھلکتا سامنے جام شراب آیا
کہاں سے لائے کوئی روز اب کباب شراب
رکھتے نہیں ہیں درد بھی دل میں دو اطلب
نشتر چبھونے آئے ہیں دل میں کہاں سے آپ
تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات
بام پر آئے کتنی شان سے آج
جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
مجھ سے بڑھ کر ہے دل مرا گستاخ
ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے تر سانے کے بعد
کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
نظر ہے حضرت واعظ کی خلدو کوثر پر
مرے بیاں پر آج ہے طرز بیاں کوناز
تو بھی صیاد نہیں مرغ گفتار کے پاس
نہیں مینا یہ اے شراب فروش
رات فرقت کی بنے زلف رسا کو کیا غرض
جلوے سے تیرے بزم میں روشن ہزار شمع
نیا دل ہے نئی الفت نیا داغ
دل لگانے کے ہیں ہزار طریق
بھر گیا آنکھ میں شراب کا رنگ
ترے گیسو سے ہے الجھا ہوا دل
ہزاروں داغ دل داغدار کے قابل
ان کے کوچہ میں اگر جاتے ہیں ہم
پایا جو تجھے تو کھوگئے ہم
ہمارے داغ یوں چمکے نہ تھے پچھلی بہاروں میں
نشہ سا ہے شراب باہر چند پی نہیں
جو ان سے کہو وہ یقین جانتے ہیں
جو کرنا ہے جفائیں وہ کئے جائیں
اپنے خرام ناز پہ اترائے جاتے ہیں
وہ آج ہم سے نئی چال چل کے جاتے ہیں
یہ مے تلخ ترے منہ سے لگی ہے کہ نہیں
بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں
پھوٹ سی پڑی رات کو مے خواروں میں
وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
داغ دل کا رنگ کب لاتا نہیں
ہمارے ساتھ سب اپنے پرائے جاتے ہیں
چھینٹے دیتی ہوئی رندوں کو گھٹائیں آئیں
شوخی سی تو شوخی بھی نہیں رنگ حنا میں
دل جلوں سے دل لگی اچھی نہیں
کیا قیامت ہے لحد پر مری وہ آتے ہیں
بن بن کے وہ آئینہ ذرا دیکھ رہی ہیں
شرر طور ہے جو موج ہے پیمانے میں
یہ سیدھے جواب زلفوں والے ہوئے ہیں
کیا جانے کیا ہے میری گلابی میں مے نہیں
وہ ستاتا ہے ستاتے جو نہیں تم مجھ کو
مسکراتے ہو جہاں دیکھتے ہو تم مجھ کو
سو بو تلیں چڑھاؤں تو نشہ ذرا نہ ہو
جواں کردے الٰہی صحبت پیر مغاں مجھ کو
سرد دامن ترے کوچے کا غبار آئے تو
جھومتی قبلے سے آئی تھی ستم ڈھانے کو
کفن سر کار کے حسن نو جوانی دیکھتے جاؤ
کام کی آہ دہی ہے جو ہوتا ثیر کے ساتھ
سلامت میکدہ یارب سلامت پیر میخانہ
مجھ کو لینا ہے ترے رنگ حنا کا بوسہ
اس حسن کا شیدا ہو ں اس حسن کا دیوانہ
درد ہو تو دوا کرے کوئی
میخانے پر نگاہ جو پیر مغاں کی ہے
دیکھے جو مری آنکھ کوئی آنکھ بھر آئے
چھلکائیں بھر کے لاؤ گلابی شراب کی
یہ سر بمہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
ضرور پاؤں میں اپنے وہ حنامل کے چلے
ہمارے دل میں ہے جو داغ ایسا کم نکلتا ہے
چونکے ہیں حشر میں ہم اہل حرم سے پہلے
کیوں جوانی آئی دو دن کے لئے
یاد گیسو میں کچھ الجھن جو سوا اور ہوئی
برسات کی رت لطف کی ہے رات مزے کی
تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
رات دن بزم میں دور مئے گلفام چلے
کیاہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی
دارفتہ آج کیسی طبیعت چمن میں تھی
پی لی ہم نے شراب پی لی
اوکوسنے والے اب دعا دے
کل مرقعے ہیں ترے چاگ گریبانوں کے
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گذر نے والے
کوئی جانے یہی ہیں ایک جلوادیکھنے والے
وحدث پکارتی ہے وہ کثرت سے دور ہے
جس دن سے حرام ہوگئی ہے
تا عمر مزے دور مے وجام کے اٹھے
ز مین میکدہ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
ڈھل چکی ہے اب جوانی جائے گی
تمہیں کیونکر بتا دوں کیا مرے دل پر گذرتی ہے
جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
آغاز جوانی کی ادا اور ہی کچھ ہے
عدم اب ہے نہ ہستی ہے عجب ہنگامہ برپا ہے
لائی ہے اڑا کے شکن زلف یار کی
مے رہے مینار ہے گردش میں پیمانہ رہے
شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حشر کی اتنی حقیقت ہوگی
شور تھا بوتل اٹھے مینا اٹھے ساغر اٹھے
اوچشم مست تیرے اشارے سے کیا ملا
مئے کہن میں جھلک سی ہے کچھ جوانی کی
ساقی! مجھے ایک جام دینا
ساقی نامہ
مینا میں ہے رنگ امیرؔ مینائی کا
رباعیات
سہرا
کتنے اختر لئے دامن میں ہے پرزر سہرا
سہرا
آسماں پہلے بچھا بزم میں سایا بن کر
نہیں آج کھلتا یہ کیسی سحر ہے
مسدس
مخمس
ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
جواہر پارے
جوانی جن میں کھوئی ہے وہ گلیاں یاد آتی ہیں
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।