پٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت
جعفرشیرازی
اظہار خیال
فاضل زیدی
مختصرہ تبصرہ
محمد میاں سحر
نواب شاہ کی مہکتی شاعرہ
عصمت ڈاہری
عصمت ڈاہری ایک تحریک
الیاس شاہد
بیگم عصمت ڈاہری کی شاعری کے بارے میں
کالق ہے کل جہاں کا اور سب کا توخدا ہے
اک نگاہ کرم مصطفیٰ چاہئے
ہے در مصطفیٰ پھر در مصطفیٰ
دربار نبی کے جلوؤں کی وہ بارش پیہم کیا کہئے
یاد حسین
ترا خیال ترا انتظار اب بھی ہے
جو بن سکو تو بنو زخم دل کا تم مرہم
دینے والے مجھے میں تجھ سے بھلا کیا مانگوں
تم جو میرے اپنے ہوتے
برہم کر کے میرے سکوں کو
تم تو کہتے ہو تمہیں دل سے بھلا ؤں کیسے
مدتیں گزر یں کھلی آنکھ سے دیکھا ہی نہیں
جامۂ انسانیت میں آدمی جب آئے گا
ہم فقیروں پہ رحم کھاتی ہے
کتنے کھلتے گلاب سے چہرے
میرے محبوب تجھے شان یہ دکھلاؤں تو
کیا کہا اب کہاں حق بات کے کہنے والے
تیری کس کس سے شناسائی تھی
روت کی گود میں جھن جھن تارے
اپنوں کو یہاں اپنا کہنے بھی نہیں دیتے
حالات کی گردش کا کیا حال سنائیں ہم
کلی اک گلستاں سے لائی گئی
یہ سب چہرے لگتے ہیں بالکل تمہیں سے
جاں دے کے بھی ہم مفت میں بدنام نہیں ہیں
دور پردیس سے پیغام گر آیا ہوتا
من کی سنگت کرن نہ بھائے
تو نے جتنے زخم دئے تھے
روز و شب صرف درمیان میں ہے
شب کو شبنم نے کردیا چھلنی
زندہ ہوں تو کچھ اور ابھی جینے دو
محتسب نے کبھی اک جام بھی بھرنے دیا
اپنے ذہنوں کی دولت لٹاتے رہے
سونا دل کا آنگن ہے
پھول چمن میں کھلتے جائیں
جو بلا آئی میں نے ٹالی ہے
آہ بلبل کی بے سبب تو نہیں
جھیل کر آئے ہیں زندانوں سے آفات بہت
چاندتاروں پہ پہنچتے ہیں کمندوں کے بغیر
کرم تو غیروں پہ عالی جناب کرتے ہو
پئے بغیر ہی مدہوش ہم ہیں اے ساقی
قصوں میں ذکر کیسے ہمارا ہی کر لیا
الفت کے راستوں میں نہ جب گل ملے ہمیں
محبت ہے لفظی کہانی کو سمجھو
کبھی دھوپ ہے اور کبھی چھاؤں دیکھو
یہ درد جہاں گر بسایا نہ ہوتا
گھنیرا ہے جنگل اندھیرا اندھیرا
مدتیں ہوگئیں بچھڑے کبھی آؤ تو سہی
اعتبار آپ کے وعدے کا کئے جاتے ہیں
ہمارے کو چے میں ڈیرا نہیں لگاتا ہے
کمی نہ ہوگی تری بزم میں جو میں نہ ہوئی
پھر وہی لطف و کرم فرمائیے
دل نہ چاہے رسم دنیا کی طرح
دل کی لگی سے اور نئے کام لیجئے
روٹھا ہوا سا ساقی بھی لگتا ہے آج کل
سوئے نہ شب کو صبح تلک جاگتے رہے
دیکھا جو چشم لطف سے کرنے لگے کرم
رات بھر ٹھیرے تھے آخر قافلے جاتے رہے
خون دل پیتے رہے اپنے ہی غم کھاتے رہے
ظرف تم پہ مرا آشکارا نہیں
ہم چلے آئے رسم جہاں توڑ کر
محفل میں تیری آنے کا اچھا صلا ملا
ہمہ م یہ کیا ہی خوب ہے انداز گفتگو
ہم تو زندانوں کو بھی اپنے سجائے رکھنے
رفتہ رفتہ یہ بہت بڑھنے لگادرد نہاں
آہوں میں کچھ اثر ہے
تنہا ہوں راستے میں
مجھ سے نفرت ہے تو پھر خواب میں آئے کیوں ہو
زخم دل زخم جگر سے ہے بھرم الفت کا
ان کو بھاتا ہی نہیں غم کا سمندر دیکھنا
میں ندادوں گی تم تم تڑپوگے آنے کے لئے
تم کو نفرت ہے تو تم شوق سے نفرت رکھو
اپنی صورت وہ دکھا ہی دیتے
اجڑا اجڑا سا ہے کا شانہ دل
مجھ کو آثار محبت بھی نظر آنے لگے
درپہ کھڑے ہوئے ہیں بلا یا تو کیجئے
گھڑیاں قیامتوں کی یہ گزریں جو صبح و شام
خالی گھر میں دیوانہ بے حال سا پھرتا رہتا ہے
ویرانوں کی جانب وحشت میں میں جاؤں بھی تو کیوں
یہ داغ دل مرا آخر مٹا دیں کس نے
بجھتے ہی شمع گم کہیں پردانہ ہو گیا
زاہد خدا کے واسطے اتنا نہ کر غرور
زخم اپنے گر تجھے دکھلائے دل
سنگدل سے آپ ہی ٹکرائے ہے
میں جو چاہوں تو سربسر آئے
آزمائش کے اک سمندر سے
میر ی آنکھوں کے خشک پیمانے
بات چھوٹی سی ہے مگر لوگو
زندگی میں دیکھو تم
لطف آنے لگا جفاؤں میں
ہم نشیں آتے ہے اور ہم زباں آتے رہے
تم کو چلنا کس قدر مشکل ہوا پھولوں کے بیچ
رات دن پیش نظر لیل و نہار زندگی
یہ گل و بلبل یہ حسن و عشق سوز و ساز رنگ
پھولوں کی مجھے چاہ ہے بیوپار نہیں ہے
جنگل ہے بیاباں یہ گلزار نہیں ہے
اچھا ہوا کہ دل کا مرے دان لے لیا
پو پھٹی وقت سحر سوتا ہے کیا
تیرے پیراہن کے ہر اک نقش پر
یہ کیسے مل گئیں نظریں میں آخر کھو گئی کیسے
درد پنہاں ہے اور دوا کیا ہے
بے مروت یہ دوست کیسے ہیں
ہر طرف انسانیت پر چھا گیا ہے آدمی
زندگی تو دور سے لگتی ہے حد درجہ حسیں
آدمی کو آدمی بن کر ہی رہنا چاہئے
گل کو بلبل باغباں کو پس شجر ہی چاہئے
راہ میں بیٹھے ہیں ہم پاس سے گزرانہ کرو
تم سمجھ جاؤ اگر یہ کہ محبت کیا ہے
غیر ممکن کہ پس سایہ دیوار مسلوں
کبھی نرگس کبھی بیلا تو کبھی لال گلاب
مجھکو کو ئل کی صداؤں میں تری بو آئی
کیا مری یادنے بھی اس کو کیا ہے بیتاب
گردس وقت یک نظر دیکھو
ہم بھی امید لے کے آئے ہیں
گردش میں یہ جہاں ہے
گرتی ہے برق جس پر
یاس کا دیپ بجھا ؤں کیسے
ان کے آنے کی خبر پہنچ ہی سہی
درد دل ہم نے کبھی بانٹا نہیں
جب گرم ہوائیں چلتی ہیں
پہلی کرن
میں تو گداہوں ان کے درکی
تو کلی نہیں تو پھول نہیں
ان کی طلب میں اہل ہوس
اپنے محبوب کو ارباب وفا
زبان اہل ہوس پہ اکثر
اپنی عات اپنی فطرت
محلوں میں نہیں جب کوئی مونس
ان کا تجسسی بستی بستی
ہے سائبان پتھر کا جو اک قبر یہ لوگو
انسان مثال شمع بھی جلتا رہے کبھی
اشک آنکھوں سے جو بہتے ہیں انھیں بہنے دو
رب سے رشتہ جوڑ لے پیارے
دل جو جلتا ہے تو جلنے دیجئے
مررہا ہوں میں تو مرنے دیجئے
بال کھولے زرد چہرہ صبح تک روتی رہی
بن گئے آپ ہی ہمارے عدد
کچھ چہروں پر گرد جمی ہے
کتنی راہیں خموش بھی ہوں گی
رشتے پیار کے اس ظالم نے جانے کیسے چھوڑ دئے
اپنی آنکھوں میں میری آنکھوں کی
میرے جذبوں کو کیا پامال اک بے درد نے
ہستی ہوتی پریت تو پھر انمول نہ ہوتی
جھوٹی بات کھلے گی تب نکلیں گے کس بل
عصمت ڈاہری کی شاعری کی ایک بڑی
احمد ضیاء
AUTHORعصمت ڈاہری
YEAR1986
CONTRIBUTORجامعہ ہمدردہلی
PUBLISHER قافلہ پبلیکیشنز، ٹونک راجستھان
AUTHORعصمت ڈاہری
YEAR1986
CONTRIBUTORجامعہ ہمدردہلی
PUBLISHER قافلہ پبلیکیشنز، ٹونک راجستھان
پٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت
جعفرشیرازی
اظہار خیال
فاضل زیدی
مختصرہ تبصرہ
محمد میاں سحر
نواب شاہ کی مہکتی شاعرہ
عصمت ڈاہری
عصمت ڈاہری ایک تحریک
الیاس شاہد
بیگم عصمت ڈاہری کی شاعری کے بارے میں
کالق ہے کل جہاں کا اور سب کا توخدا ہے
اک نگاہ کرم مصطفیٰ چاہئے
ہے در مصطفیٰ پھر در مصطفیٰ
دربار نبی کے جلوؤں کی وہ بارش پیہم کیا کہئے
یاد حسین
ترا خیال ترا انتظار اب بھی ہے
جو بن سکو تو بنو زخم دل کا تم مرہم
دینے والے مجھے میں تجھ سے بھلا کیا مانگوں
تم جو میرے اپنے ہوتے
برہم کر کے میرے سکوں کو
تم تو کہتے ہو تمہیں دل سے بھلا ؤں کیسے
مدتیں گزر یں کھلی آنکھ سے دیکھا ہی نہیں
جامۂ انسانیت میں آدمی جب آئے گا
ہم فقیروں پہ رحم کھاتی ہے
کتنے کھلتے گلاب سے چہرے
میرے محبوب تجھے شان یہ دکھلاؤں تو
کیا کہا اب کہاں حق بات کے کہنے والے
تیری کس کس سے شناسائی تھی
روت کی گود میں جھن جھن تارے
اپنوں کو یہاں اپنا کہنے بھی نہیں دیتے
حالات کی گردش کا کیا حال سنائیں ہم
کلی اک گلستاں سے لائی گئی
یہ سب چہرے لگتے ہیں بالکل تمہیں سے
جاں دے کے بھی ہم مفت میں بدنام نہیں ہیں
دور پردیس سے پیغام گر آیا ہوتا
من کی سنگت کرن نہ بھائے
تو نے جتنے زخم دئے تھے
روز و شب صرف درمیان میں ہے
شب کو شبنم نے کردیا چھلنی
زندہ ہوں تو کچھ اور ابھی جینے دو
محتسب نے کبھی اک جام بھی بھرنے دیا
اپنے ذہنوں کی دولت لٹاتے رہے
سونا دل کا آنگن ہے
پھول چمن میں کھلتے جائیں
جو بلا آئی میں نے ٹالی ہے
آہ بلبل کی بے سبب تو نہیں
جھیل کر آئے ہیں زندانوں سے آفات بہت
چاندتاروں پہ پہنچتے ہیں کمندوں کے بغیر
کرم تو غیروں پہ عالی جناب کرتے ہو
پئے بغیر ہی مدہوش ہم ہیں اے ساقی
قصوں میں ذکر کیسے ہمارا ہی کر لیا
الفت کے راستوں میں نہ جب گل ملے ہمیں
محبت ہے لفظی کہانی کو سمجھو
کبھی دھوپ ہے اور کبھی چھاؤں دیکھو
یہ درد جہاں گر بسایا نہ ہوتا
گھنیرا ہے جنگل اندھیرا اندھیرا
مدتیں ہوگئیں بچھڑے کبھی آؤ تو سہی
اعتبار آپ کے وعدے کا کئے جاتے ہیں
ہمارے کو چے میں ڈیرا نہیں لگاتا ہے
کمی نہ ہوگی تری بزم میں جو میں نہ ہوئی
پھر وہی لطف و کرم فرمائیے
دل نہ چاہے رسم دنیا کی طرح
دل کی لگی سے اور نئے کام لیجئے
روٹھا ہوا سا ساقی بھی لگتا ہے آج کل
سوئے نہ شب کو صبح تلک جاگتے رہے
دیکھا جو چشم لطف سے کرنے لگے کرم
رات بھر ٹھیرے تھے آخر قافلے جاتے رہے
خون دل پیتے رہے اپنے ہی غم کھاتے رہے
ظرف تم پہ مرا آشکارا نہیں
ہم چلے آئے رسم جہاں توڑ کر
محفل میں تیری آنے کا اچھا صلا ملا
ہمہ م یہ کیا ہی خوب ہے انداز گفتگو
ہم تو زندانوں کو بھی اپنے سجائے رکھنے
رفتہ رفتہ یہ بہت بڑھنے لگادرد نہاں
آہوں میں کچھ اثر ہے
تنہا ہوں راستے میں
مجھ سے نفرت ہے تو پھر خواب میں آئے کیوں ہو
زخم دل زخم جگر سے ہے بھرم الفت کا
ان کو بھاتا ہی نہیں غم کا سمندر دیکھنا
میں ندادوں گی تم تم تڑپوگے آنے کے لئے
تم کو نفرت ہے تو تم شوق سے نفرت رکھو
اپنی صورت وہ دکھا ہی دیتے
اجڑا اجڑا سا ہے کا شانہ دل
مجھ کو آثار محبت بھی نظر آنے لگے
درپہ کھڑے ہوئے ہیں بلا یا تو کیجئے
گھڑیاں قیامتوں کی یہ گزریں جو صبح و شام
خالی گھر میں دیوانہ بے حال سا پھرتا رہتا ہے
ویرانوں کی جانب وحشت میں میں جاؤں بھی تو کیوں
یہ داغ دل مرا آخر مٹا دیں کس نے
بجھتے ہی شمع گم کہیں پردانہ ہو گیا
زاہد خدا کے واسطے اتنا نہ کر غرور
زخم اپنے گر تجھے دکھلائے دل
سنگدل سے آپ ہی ٹکرائے ہے
میں جو چاہوں تو سربسر آئے
آزمائش کے اک سمندر سے
میر ی آنکھوں کے خشک پیمانے
بات چھوٹی سی ہے مگر لوگو
زندگی میں دیکھو تم
لطف آنے لگا جفاؤں میں
ہم نشیں آتے ہے اور ہم زباں آتے رہے
تم کو چلنا کس قدر مشکل ہوا پھولوں کے بیچ
رات دن پیش نظر لیل و نہار زندگی
یہ گل و بلبل یہ حسن و عشق سوز و ساز رنگ
پھولوں کی مجھے چاہ ہے بیوپار نہیں ہے
جنگل ہے بیاباں یہ گلزار نہیں ہے
اچھا ہوا کہ دل کا مرے دان لے لیا
پو پھٹی وقت سحر سوتا ہے کیا
تیرے پیراہن کے ہر اک نقش پر
یہ کیسے مل گئیں نظریں میں آخر کھو گئی کیسے
درد پنہاں ہے اور دوا کیا ہے
بے مروت یہ دوست کیسے ہیں
ہر طرف انسانیت پر چھا گیا ہے آدمی
زندگی تو دور سے لگتی ہے حد درجہ حسیں
آدمی کو آدمی بن کر ہی رہنا چاہئے
گل کو بلبل باغباں کو پس شجر ہی چاہئے
راہ میں بیٹھے ہیں ہم پاس سے گزرانہ کرو
تم سمجھ جاؤ اگر یہ کہ محبت کیا ہے
غیر ممکن کہ پس سایہ دیوار مسلوں
کبھی نرگس کبھی بیلا تو کبھی لال گلاب
مجھکو کو ئل کی صداؤں میں تری بو آئی
کیا مری یادنے بھی اس کو کیا ہے بیتاب
گردس وقت یک نظر دیکھو
ہم بھی امید لے کے آئے ہیں
گردش میں یہ جہاں ہے
گرتی ہے برق جس پر
یاس کا دیپ بجھا ؤں کیسے
ان کے آنے کی خبر پہنچ ہی سہی
درد دل ہم نے کبھی بانٹا نہیں
جب گرم ہوائیں چلتی ہیں
پہلی کرن
میں تو گداہوں ان کے درکی
تو کلی نہیں تو پھول نہیں
ان کی طلب میں اہل ہوس
اپنے محبوب کو ارباب وفا
زبان اہل ہوس پہ اکثر
اپنی عات اپنی فطرت
محلوں میں نہیں جب کوئی مونس
ان کا تجسسی بستی بستی
ہے سائبان پتھر کا جو اک قبر یہ لوگو
انسان مثال شمع بھی جلتا رہے کبھی
اشک آنکھوں سے جو بہتے ہیں انھیں بہنے دو
رب سے رشتہ جوڑ لے پیارے
دل جو جلتا ہے تو جلنے دیجئے
مررہا ہوں میں تو مرنے دیجئے
بال کھولے زرد چہرہ صبح تک روتی رہی
بن گئے آپ ہی ہمارے عدد
کچھ چہروں پر گرد جمی ہے
کتنی راہیں خموش بھی ہوں گی
رشتے پیار کے اس ظالم نے جانے کیسے چھوڑ دئے
اپنی آنکھوں میں میری آنکھوں کی
میرے جذبوں کو کیا پامال اک بے درد نے
ہستی ہوتی پریت تو پھر انمول نہ ہوتی
جھوٹی بات کھلے گی تب نکلیں گے کس بل
عصمت ڈاہری کی شاعری کی ایک بڑی
احمد ضیاء
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔