آئینہ
دھندلائے منظروں میں ستارا ہے تیرا نام
باران سنگ زینب کے لیے
خامشی اتنی رہی ہے مجھ میں
تمہارے بعد جو بکھرے تو کوبہ کو ہوئے ہم
ےہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
بے شکل منظروں میں
ابھی سے مجھ کو بتا دے اگر بچھڑنا ہے
روز کاغذ پہ دل بناتا ہوں
برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہوگئی
تیری نظروں کے شارے سے بدلتا ہے سماں
سبز جنگل میں پرندوں کے ٹھکانوں میں کہیں
گنگناتے راستوں کی دلکشی اپنی جگہ
تری جستجو میں ترے شہر میں
کیجے اب ملال کم سے کم
ہے وقت سحر اور دیے جلتے ہیں ابھی تک
مسلسل ہے میرا سفر رات میں
راہ گزر انجانی ہے
بھٹک رہی ہے یونہی راستے میں تیز ہوا
تیری آنکھوں کا اجالا ترے چہرے کا دیا
اک چاند آتے آتے افق تک پلٹ گیا
بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا
اس رہ گزار خواب سے وہ گل بدن گئے
ہم کس گماں میں آئے تھے عہد ثبات میں
اور ہی دنیا ہم نے ایک بسالی ہے
دکھ میں ڈوبا ہوا جہاں ہوں میں
شام کے سائے چلے آئے در و دیوار تک
عشق وحشت کو عجب رنگ لگا دیتا ہے
پھر ستارے نہ وہ گلاب ملے
دیکھیں گے اسے پردۂ افلاک سے آگے
رہنا ہے دیر تک مجھے دنیا کے سنگ بھی
رقص سیارگاں نہیں رکتا
میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزرگیا
دھونڈنے اس کو کہاں جاتا ہے
زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا
اے دوست پہلے اپنی گواہی پہ غور کر
جانے کیسی ہے کشش بہتے ہوئے پانی میں
خواب کے شہر میں اک شخص ستارے جیسا
مرے نہ ہونے کا قصّہ سنا گیا مجھ کو
دولت درہم و دینار نہیں چاہتے ہم
دنیا کسی خیال میں تبدیل ہوگئی
سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں
لمحہ لمحہ وقت ہمیں تقسیم کرے
آنکھوں میں زندگی کا نظارا تھا آخری
بر آمد میں کھڑا رہوں گا
دل ونگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا
بانہوں کے حلقے میں وہ پری زاد ہووے گی
چراغ شام غریباں نظر میں رہتا ہے
شناس خوار ہوئے اور بس ہوئے یونہی
کم کسی طور یہ وحشت نہیں ہونے والی
رقص سیّارگاں کو دیکھتا ہوں
اپنے ہونے پہ بھی شرمندہ رہے
دل میں تیرا خیال ہے تا حال
اب تو یوں ہے کہ زمانے سے بچائیں خود کو
ہے زمیں میری سمندر میرا
کہیں ہو جائے اب یہ راستہ تبدیل ممکن ہے
حصار ذات ہے آگے نکل رہا ہے کوئی
میان بحر وبر حیرت ہے میری
کوئی یاد تھی کہ غزل میرؔ کی
غم کی تصویر بنانے میں بہت دیر لگی
ازل سے آج تلک خود سے ہی نہاں ہوں میں
دھند میں ڈوبی سارے فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
نگار خانۂ ابر و ہوا پسند آیا
ہاتھوں میں پھول، آنکھوں میں سپنا لیے ہوئے
اک کہانی ہے سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آسکتا
نواح سامرہ اور نینوا کے بیچ کہیں
کربلا بھی فرأت ہم نے کی
قصّہ دل ہے نا تمام ابھی
اک منظر خوش رنگ دکھا جاتا ہے پانی
منتظر اس کے شام وعدہ رہے
درد کی لہر اٹھائے لیے جاتی ہے مجھے
اوّل اوّل تھے ہم محبت کے
لہو میں آگ، نظر میں دہکتی بے خوابی
ہر ایک سمت ہے تو اور نگار خانہ وہی
جانے کس لہر میں تھا کوزہ گر
رستے میں شام ہوگئی قصہ تمام ہوچکا
روشنی تھی کھلے دریچوں میں
لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا
دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا
ایسے دنیا میں کسی کا بھی گزارا ہوا ہے
اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم
آپ اس وقت ہیں جہاں بابا
جمالیات کا شاعر
زندگی کی کلیت کا شاعرانہ اظہار
زندگی نامہ
متفرق اشعار
آئینہ
دھندلائے منظروں میں ستارا ہے تیرا نام
باران سنگ زینب کے لیے
خامشی اتنی رہی ہے مجھ میں
تمہارے بعد جو بکھرے تو کوبہ کو ہوئے ہم
ےہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
بے شکل منظروں میں
ابھی سے مجھ کو بتا دے اگر بچھڑنا ہے
روز کاغذ پہ دل بناتا ہوں
برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہوگئی
تیری نظروں کے شارے سے بدلتا ہے سماں
سبز جنگل میں پرندوں کے ٹھکانوں میں کہیں
گنگناتے راستوں کی دلکشی اپنی جگہ
تری جستجو میں ترے شہر میں
کیجے اب ملال کم سے کم
ہے وقت سحر اور دیے جلتے ہیں ابھی تک
مسلسل ہے میرا سفر رات میں
راہ گزر انجانی ہے
بھٹک رہی ہے یونہی راستے میں تیز ہوا
تیری آنکھوں کا اجالا ترے چہرے کا دیا
اک چاند آتے آتے افق تک پلٹ گیا
بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا
اس رہ گزار خواب سے وہ گل بدن گئے
ہم کس گماں میں آئے تھے عہد ثبات میں
اور ہی دنیا ہم نے ایک بسالی ہے
دکھ میں ڈوبا ہوا جہاں ہوں میں
شام کے سائے چلے آئے در و دیوار تک
عشق وحشت کو عجب رنگ لگا دیتا ہے
پھر ستارے نہ وہ گلاب ملے
دیکھیں گے اسے پردۂ افلاک سے آگے
رہنا ہے دیر تک مجھے دنیا کے سنگ بھی
رقص سیارگاں نہیں رکتا
میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزرگیا
دھونڈنے اس کو کہاں جاتا ہے
زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا
اے دوست پہلے اپنی گواہی پہ غور کر
جانے کیسی ہے کشش بہتے ہوئے پانی میں
خواب کے شہر میں اک شخص ستارے جیسا
مرے نہ ہونے کا قصّہ سنا گیا مجھ کو
دولت درہم و دینار نہیں چاہتے ہم
دنیا کسی خیال میں تبدیل ہوگئی
سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں
لمحہ لمحہ وقت ہمیں تقسیم کرے
آنکھوں میں زندگی کا نظارا تھا آخری
بر آمد میں کھڑا رہوں گا
دل ونگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا
بانہوں کے حلقے میں وہ پری زاد ہووے گی
چراغ شام غریباں نظر میں رہتا ہے
شناس خوار ہوئے اور بس ہوئے یونہی
کم کسی طور یہ وحشت نہیں ہونے والی
رقص سیّارگاں کو دیکھتا ہوں
اپنے ہونے پہ بھی شرمندہ رہے
دل میں تیرا خیال ہے تا حال
اب تو یوں ہے کہ زمانے سے بچائیں خود کو
ہے زمیں میری سمندر میرا
کہیں ہو جائے اب یہ راستہ تبدیل ممکن ہے
حصار ذات ہے آگے نکل رہا ہے کوئی
میان بحر وبر حیرت ہے میری
کوئی یاد تھی کہ غزل میرؔ کی
غم کی تصویر بنانے میں بہت دیر لگی
ازل سے آج تلک خود سے ہی نہاں ہوں میں
دھند میں ڈوبی سارے فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
نگار خانۂ ابر و ہوا پسند آیا
ہاتھوں میں پھول، آنکھوں میں سپنا لیے ہوئے
اک کہانی ہے سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آسکتا
نواح سامرہ اور نینوا کے بیچ کہیں
کربلا بھی فرأت ہم نے کی
قصّہ دل ہے نا تمام ابھی
اک منظر خوش رنگ دکھا جاتا ہے پانی
منتظر اس کے شام وعدہ رہے
درد کی لہر اٹھائے لیے جاتی ہے مجھے
اوّل اوّل تھے ہم محبت کے
لہو میں آگ، نظر میں دہکتی بے خوابی
ہر ایک سمت ہے تو اور نگار خانہ وہی
جانے کس لہر میں تھا کوزہ گر
رستے میں شام ہوگئی قصہ تمام ہوچکا
روشنی تھی کھلے دریچوں میں
لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا
دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا
ایسے دنیا میں کسی کا بھی گزارا ہوا ہے
اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم
آپ اس وقت ہیں جہاں بابا
جمالیات کا شاعر
زندگی کی کلیت کا شاعرانہ اظہار
زندگی نامہ
متفرق اشعار
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.