ترتیب
پیش گفتار
اب ج د
بسم اللہ
ؐؐ
کون اس غم سے رہائی دے مجھے
تھے نگاہوں میں جن راستوں کے شجر، اور تھے
درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برون بیاں رہ گیا
جب بھی بادل بارش لائے سوچ جزیروں سے
منظر منظر دل آنکھوں نے کھولے در کتنے
اب کی بہاروں جو بن پر تھے شوق شجر کتنے
پھر سوچ کے ساحل پر لہروں نے یہ ٹھانی ہے
کسی موسم ہوا سے دوستی آغاز کرتے
سر صحرائے جاں بے چین ہے تصویر کوئی
اسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے
یہ دیوار انا اک دن گرا کر دیکھ لیں گے
دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے
نگاہ و دل میں کیسے واہمے دیوار صورت ہیں
افق پار سے کوئی دیتا صدائیں تو ہم کب ٹھہرتے
جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی
سپرد ہیں ہر کسی کو احوال اپنے اپنے
اڑادئے رنگ تتلیوں کے گمان شیشوں اتارنے میں
دل میں ایک یقیں بے انت گمانوں جیسا
جنگل بیچ لہو برسات سے پہلے پہلے
ایک نہ اک جینے کا سہارا ڈھونڈ نکالیں
منزل منزل ساتھ سدا کا تیرا میرا
کب اترے ہے آنکھوں میں انجام تماشہ
سوچ کنارے کیا کیا طائر ٹھہرے تھے
دل جو رہے محروم نرول سوالوں سے
جذبوں کے گلدان سجانا ٹھیک نہیں
اپنی ذات کے اندھیروں تک آپہنچے
پچھتائے ہیں سر کا بوجھ گرا کر بھی
سپنوں کے سب رنگ ڈھلیں تعبیروں میں
سوچوں کی آغوش میں پلتے رہتے ہیں
بستی میں کس عذاب کے ڈر جاگنے لگے
جاں پر قیامتیں سی گزرنے تو دیجئے
ہم کو کسی نے غار کے اندر الٹ دیا
کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں
کن فاصلوں کی دھند میں محصور ہو گیا
کھڑی ہیں درمیاں کتنی انائیں
وفا کے آسمانوں پر بسائیں
یہ کیا شعلے اٹھے ہیں ارض جاں سے
زندگی کی ہر گھڑی اک عرصۂ ہجرت مجھے
منظروں میں دیر تک جھلکے گا پس منظر مرا
کس قدر بہکا گئے کچھ واہمے مل کر مجھے
توڑ کر شاخ تعلق جو گیا
وہ بھی کیا منظر تھا میرے سامنے
آپ اپنے قدموں میں ٹوٹ ٹوٹ بکھرا میں
دریا میں تو روکی نہ کہیں راہ بھنور نے
دنیا نے جہاں بھی کوئی دیوار اٹھائی
ٹھہری کوئی دیوار کہاں راہ سفر میں
اپنے احساس کی دیوار گراؤں کیسے
حرف تقدیر کو کس راہ سے سمجھا جائے
وہ جو صدیوں مرے احساس کا محور ٹھہرا
میں لڑرہا تھا بڑے احتشام سے پہلے
ہوا جو سوچ کی اکھڑی تو پھر سنبھل نہ سکا
یہ اختلاف ہے کیا نقطۂ نژر سے ترے
دو حرف مہر نہ اس کی زبان پر آئے
جواز کیا ہے کہ اس شہر کی تباہی نہ ہو
بھری رتوں میں بھی پاگل بنا رہے ہیں مجھے
رکی نہ شوق صدا سوچ کی فصیلوں سے
پڑھے جو اس نے کبھی نقطۂ نظر سے مرے
پس الفاظ
فلیپ
ترتیب
پیش گفتار
اب ج د
بسم اللہ
ؐؐ
کون اس غم سے رہائی دے مجھے
تھے نگاہوں میں جن راستوں کے شجر، اور تھے
درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برون بیاں رہ گیا
جب بھی بادل بارش لائے سوچ جزیروں سے
منظر منظر دل آنکھوں نے کھولے در کتنے
اب کی بہاروں جو بن پر تھے شوق شجر کتنے
پھر سوچ کے ساحل پر لہروں نے یہ ٹھانی ہے
کسی موسم ہوا سے دوستی آغاز کرتے
سر صحرائے جاں بے چین ہے تصویر کوئی
اسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے
یہ دیوار انا اک دن گرا کر دیکھ لیں گے
دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے
نگاہ و دل میں کیسے واہمے دیوار صورت ہیں
افق پار سے کوئی دیتا صدائیں تو ہم کب ٹھہرتے
جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی
سپرد ہیں ہر کسی کو احوال اپنے اپنے
اڑادئے رنگ تتلیوں کے گمان شیشوں اتارنے میں
دل میں ایک یقیں بے انت گمانوں جیسا
جنگل بیچ لہو برسات سے پہلے پہلے
ایک نہ اک جینے کا سہارا ڈھونڈ نکالیں
منزل منزل ساتھ سدا کا تیرا میرا
کب اترے ہے آنکھوں میں انجام تماشہ
سوچ کنارے کیا کیا طائر ٹھہرے تھے
دل جو رہے محروم نرول سوالوں سے
جذبوں کے گلدان سجانا ٹھیک نہیں
اپنی ذات کے اندھیروں تک آپہنچے
پچھتائے ہیں سر کا بوجھ گرا کر بھی
سپنوں کے سب رنگ ڈھلیں تعبیروں میں
سوچوں کی آغوش میں پلتے رہتے ہیں
بستی میں کس عذاب کے ڈر جاگنے لگے
جاں پر قیامتیں سی گزرنے تو دیجئے
ہم کو کسی نے غار کے اندر الٹ دیا
کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں
کن فاصلوں کی دھند میں محصور ہو گیا
کھڑی ہیں درمیاں کتنی انائیں
وفا کے آسمانوں پر بسائیں
یہ کیا شعلے اٹھے ہیں ارض جاں سے
زندگی کی ہر گھڑی اک عرصۂ ہجرت مجھے
منظروں میں دیر تک جھلکے گا پس منظر مرا
کس قدر بہکا گئے کچھ واہمے مل کر مجھے
توڑ کر شاخ تعلق جو گیا
وہ بھی کیا منظر تھا میرے سامنے
آپ اپنے قدموں میں ٹوٹ ٹوٹ بکھرا میں
دریا میں تو روکی نہ کہیں راہ بھنور نے
دنیا نے جہاں بھی کوئی دیوار اٹھائی
ٹھہری کوئی دیوار کہاں راہ سفر میں
اپنے احساس کی دیوار گراؤں کیسے
حرف تقدیر کو کس راہ سے سمجھا جائے
وہ جو صدیوں مرے احساس کا محور ٹھہرا
میں لڑرہا تھا بڑے احتشام سے پہلے
ہوا جو سوچ کی اکھڑی تو پھر سنبھل نہ سکا
یہ اختلاف ہے کیا نقطۂ نژر سے ترے
دو حرف مہر نہ اس کی زبان پر آئے
جواز کیا ہے کہ اس شہر کی تباہی نہ ہو
بھری رتوں میں بھی پاگل بنا رہے ہیں مجھے
رکی نہ شوق صدا سوچ کی فصیلوں سے
پڑھے جو اس نے کبھی نقطۂ نظر سے مرے
پس الفاظ
فلیپ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔