انتساب
فہرست
اپنے بارے میں
نعت
ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے
درد کی لہر تھی گزر بھی گئی
خزینہ تمنا کے نام
اس کے بغیر جینے کی صورت نکال لی
خواب تعبیر میں بدلتا ہے
بدلہ
کیسا اس نے بدل لیا ہے اپنا چہرہ
وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا
ایک خیال ایک سوال
خوف
کچھ اس قدر ہوئے ہیں گرفتار حال میں
ایک احساس گھر بناتا ہے
آنکھوں نے سپنے نہیں دیکھے مدّت سے
محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی
میری خاطر اپنا آپ جلاتی ہے
تعلق اس سے اگرچہ مرا خراب رہا
چاہ تھی مہر تھی محبت تھی
کے بعد ایک خیال
شاید
نذر فیضؔ
نذر ناصرؔ
نذر جونؔ ایلیا
نذر ساقیؔ
لبوں سے آشنائی دے رہا ہے
جنوں خود رہنمائی کر رہا تھا
اظہار تشکر
ایک کم سن دوست سے
بے مہر تعلق تھا جدا ہونا تھا اک دن
ہنس کے بھی مل نہیں رہا ہے اب
بدل جائے گا اتنی جلد منظر کیا پتہ تھا
نام یشبؔ جس نے بھی، اچھا رکھا ہے
محرم
جانے کیا دل کو ہوگیا ہے اب
نذر ساقیؔ
سرخ رو ہیں بوجہ عادت غم
اس کا چہرہ تھا یا گلاب کا پھول
کل، آج اور کل
انجام
کوئی اچھی خبر آتی نہیں ہے
جو چہرے پر پریشانی نہیں ہے
محبت کی ضرورت پڑ گئی تھی
جب احساس تحفظ ہو نہ گھر سے
یہ زحمت بھی خود ہی اٹھانی پڑتی ہے
خلاصہ
اس کا انکار
مل کے بیٹھے ہوئے پرانے لوگ
چہرے حسین یوں تو ملے کتنے راہ میں
پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی
کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
پر تو حسن ہے جمال سا ہے
وحشت کرنے پر ویرانی ہو جانی ہے
بے چہرہ اک عورت
خواہشوں میں گھرا تو ہوتا ہے
پہلے کتنا خوش ہوتے ہیں ہم سب نقل مکانی سے
ہمیں سننا بھی آتا ہو
تجھ سے جدا ہوئے تو عجب بات ہوگئی
اسے جانے کسی نے کیا کہا ہے
اسٹیسٹس کو
اس نے تو قرض ہی چکایا ہے
عفریت
وہ جو ایک چہرہ دمک رہا ہے جمال سے
تم کہاں ہو؟
عجلت
ایسا کیوں نہیں ہے؟
فرق
پوٹلی
ابّا
راجہ گدھ
اندیشہ
بادشاہ ننگا ہے!
انمول
فیصلہ
AUTHORYashab Tamanna
YEAR2011
CONTRIBUTORYashab Tamanna
PUBLISHER Shirkat Press, Lahore
AUTHORYashab Tamanna
YEAR2011
CONTRIBUTORYashab Tamanna
PUBLISHER Shirkat Press, Lahore
انتساب
فہرست
اپنے بارے میں
نعت
ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے
درد کی لہر تھی گزر بھی گئی
خزینہ تمنا کے نام
اس کے بغیر جینے کی صورت نکال لی
خواب تعبیر میں بدلتا ہے
بدلہ
کیسا اس نے بدل لیا ہے اپنا چہرہ
وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا
ایک خیال ایک سوال
خوف
کچھ اس قدر ہوئے ہیں گرفتار حال میں
ایک احساس گھر بناتا ہے
آنکھوں نے سپنے نہیں دیکھے مدّت سے
محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی
میری خاطر اپنا آپ جلاتی ہے
تعلق اس سے اگرچہ مرا خراب رہا
چاہ تھی مہر تھی محبت تھی
کے بعد ایک خیال
شاید
نذر فیضؔ
نذر ناصرؔ
نذر جونؔ ایلیا
نذر ساقیؔ
لبوں سے آشنائی دے رہا ہے
جنوں خود رہنمائی کر رہا تھا
اظہار تشکر
ایک کم سن دوست سے
بے مہر تعلق تھا جدا ہونا تھا اک دن
ہنس کے بھی مل نہیں رہا ہے اب
بدل جائے گا اتنی جلد منظر کیا پتہ تھا
نام یشبؔ جس نے بھی، اچھا رکھا ہے
محرم
جانے کیا دل کو ہوگیا ہے اب
نذر ساقیؔ
سرخ رو ہیں بوجہ عادت غم
اس کا چہرہ تھا یا گلاب کا پھول
کل، آج اور کل
انجام
کوئی اچھی خبر آتی نہیں ہے
جو چہرے پر پریشانی نہیں ہے
محبت کی ضرورت پڑ گئی تھی
جب احساس تحفظ ہو نہ گھر سے
یہ زحمت بھی خود ہی اٹھانی پڑتی ہے
خلاصہ
اس کا انکار
مل کے بیٹھے ہوئے پرانے لوگ
چہرے حسین یوں تو ملے کتنے راہ میں
پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی
کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
پر تو حسن ہے جمال سا ہے
وحشت کرنے پر ویرانی ہو جانی ہے
بے چہرہ اک عورت
خواہشوں میں گھرا تو ہوتا ہے
پہلے کتنا خوش ہوتے ہیں ہم سب نقل مکانی سے
ہمیں سننا بھی آتا ہو
تجھ سے جدا ہوئے تو عجب بات ہوگئی
اسے جانے کسی نے کیا کہا ہے
اسٹیسٹس کو
اس نے تو قرض ہی چکایا ہے
عفریت
وہ جو ایک چہرہ دمک رہا ہے جمال سے
تم کہاں ہو؟
عجلت
ایسا کیوں نہیں ہے؟
فرق
پوٹلی
ابّا
راجہ گدھ
اندیشہ
بادشاہ ننگا ہے!
انمول
فیصلہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.