سر ورق
فہرست
میرا سوچا ہوا
میری جان صبا
دشتِ حیراں کا مسافر
اپنے مطلب کا شاعر
پیوستہ ہو کے خاک سے ابھری کرن تمام
بڑی مشکل سے چھپایا ہے ، کوئی دیکھ نہ لے
تجھ کو پانے کی یہ حسرت مجھے لے ڈوبے گی
بہم بھی مجھ سے نہیں ہے گریز پا بھی نہیں
رہتے تھے صبح سے جو مرے ساتھ شام تک
یہ سوچ سوچ کے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے
مرے قریب ہو یا ناگہاں چلی گئیں تم
چپ چپ ادا س اداس نظر آرہی ہو تم
آنکھ مری بھر آئی ہے
لہراتا ہے خواب سا آنچل اور میں لکھتا جاتا ہوں
بر طرف کرکے تکلف اک طرف ہوجایئے
اسی آسرے پر جیے جائیں گے
آئی ہے یاد اس کی، پیروں پہ اپنے چل کے
ہجر آشوب
یہ جو تازہ ستم ہوئے ہوئے ہیں
حال کہیں گے سب تم سے
کاش پہلی سی بات ہوجائے
سب کا دلدار ہے، دلدار بھی ایسا ویسا
دو شعر
ترا نیاز مند ہوں، نیاز کے بغیر بھی
کبھی چمپا، کبھی چنبیلی ہو
ٹھہریئے، رک جایئے، رک جائے، مت جائیے
جو تجھ سے لوگ وابستہ ہوئے آہستہ آہستہ
حیران جائیے نہ پریشان جائیے
دل میں آنا پسند کیجئے گا
روا نشے میں ہوئے، ناروا نشے میں ہوئے
اپنی خبر نہ تیری خبر میں نشے میں ہوں
ہمیشہ نشے میں رہو
تم قیامت نہیں تباہی ہو
مدھو بالا
اپنے دل سے پوچھو
سو جاؤ
رشتۂ خواب
دیکھنا! یہ کہیں تصویر تمہاری تو نہیں
قبائے عشق
شبنمی آنچ
بادل ہیں یہ ہاتھ نہیں
نذر میر
جس کے کوچے میں تھی بیدل کی دکاں
نذر قمر جلالوی
نذر فیض
نذر فراز
پسِ پردہ بھی تو ہیں زخم نمایاں جاناں
جالب یاد آتا ہے
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
میری آواز میں تو بولتا ہے
رقص کرتے تھے الجھتے ہوئے زنجیر سے ہاتھ
بچو کہ باطن و ظاہر تباہ کرتی ہے
محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
ہے داد طلب زخمِ مسیحائی تو چپ رہو
اس نے آوارہ مزاجی کو نیا موڑ دیا
چل لغزشِ وصال کے امکاں سمیت چل
پھول میں پھول، ستاروں میں ستارے ہوئے لوگ
وقت کے خواب سے آگے ہے سلامی میری
شفق شفق ترے آنچل میں بے وفائی کا رنگ
رات دن ایک ساتھ تھے ہم تم
دکھ سے آزاد نہ کر رنج کے زندانی کو
شکستگی نے مرا حوصلہ بحال کیا
تین شعر
نہ یہ سبزہ، نہ یہ صحرا ہے میرا
سرد مہری
بچت بازار
چٹکی بھر سناٹا
دیوالی
حسنِ خرابات
مگر وہ پاؤں کی ایک چپل
پھر وہی روح کی بتاب تمنا کا نزول
یقیں دست و گریباں تھا گمان سے
آنسو
وجود نامعلوم
دیار بے وجود وغیر آشنا
بھنور کے نیچے ہے ایک کھائی
کمزور سسکتا سا وجود
نیو ورلڈ آرڈر
خواب آتے ہیں مسیحائی کو
رنگ رنگ تصور کی مینا کاری
آدمی کی تنہائی اک نیا سویرا ہے
نئے سال کی پہلی شب تھی
میرا سوچا ہوا
دوئی کا نغمہ الست
سرغِ زندگی
میں جس کا منتظر ہوں
محبت آج تک چپ ہے
مگر ہو لازمانی تھی
امکاں کا قیدی
ڈوبتی نبضوں سے خائف ہوں
سراغ زندگی
ادھورا کام
ہونے کا یلغار
تھوڑی سی امید
کتابیں آئینہ خانہ
مدتوں بعد اس کو خط لکھا
میراث کسی اور ہی جاگری کی نکلی
نہیں ہوں گی ملاقاتیں نہ ہوں کی
منزلیں نہیں دیکھیں، راستہ نہیں دیکھا
بے نام راستوں پہ نہ جا، اب بھی لوٹ آ
پری چہروں کے چکر میں نہ پڑیئے
کیا بتلائیں عشق میں اس کے ، وقت کی جو اوقات ہوئی
دو شعر
اب کوئی آرزو کریں گے نہیں
نہیں ہے کیا کوئی اس دل میں، اے دل
رہنے دیجے ہمیں، سرکار نہیں چاہئے ہے
سکھ چین بہت ہے ہم کو یہاں، ہمیں اپنی گلی میں رہنے دے
ہے جس طرف نگاہِ، صدف اس طرف نہیں
تین شعر
خاطر تو ہوئی، دل کی مدارات ہوئی تو
مسلسل ایک ہی جانب سفر اچھا نہیں لگتا
دو شعر
خاموشی سے رہ لے سائیں
دو شعر
یاد رکھے گی مجھ کو کیا تو بھی
اور تنہائی چپ چاپ روتی رہی
ہم رشتۂ الفاظ و حروف
مرے وجود پہ ہے قرض
اماں چیختی رہ جاتیں
آخری خواب
الجھا وا
جو تھا کہاں ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
تین شعر
رہے گی کچھ دنوں یاری رہے گی
شکر ہے، ایک دن گزر گیا ہے
یہ آنسوؤں کی روانی! مزاج اچھے ہیں
مسجد ہے، قبلہ پیرِ مغاں خیریت تو ہے
اتنی ذلت بھی، اتنی رسوائی
تین شعر
عشق
نہیں کہ سینۂ اربابِ کینہ محرمِ راز
ہو خدا حامی وہ ناصر، شب بخیر
تسبیح و سجدہ گاہ بھی سجدہ بھی مست مست
مطلع ثانی
AUTHORजावेद सबा
YEAR2013
CONTRIBUTORजावेद सबा
PUBLISHER ख़ुर्रम प्रिंटिंग प्रेस
AUTHORजावेद सबा
YEAR2013
CONTRIBUTORजावेद सबा
PUBLISHER ख़ुर्रम प्रिंटिंग प्रेस
سر ورق
فہرست
میرا سوچا ہوا
میری جان صبا
دشتِ حیراں کا مسافر
اپنے مطلب کا شاعر
پیوستہ ہو کے خاک سے ابھری کرن تمام
بڑی مشکل سے چھپایا ہے ، کوئی دیکھ نہ لے
تجھ کو پانے کی یہ حسرت مجھے لے ڈوبے گی
بہم بھی مجھ سے نہیں ہے گریز پا بھی نہیں
رہتے تھے صبح سے جو مرے ساتھ شام تک
یہ سوچ سوچ کے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے
مرے قریب ہو یا ناگہاں چلی گئیں تم
چپ چپ ادا س اداس نظر آرہی ہو تم
آنکھ مری بھر آئی ہے
لہراتا ہے خواب سا آنچل اور میں لکھتا جاتا ہوں
بر طرف کرکے تکلف اک طرف ہوجایئے
اسی آسرے پر جیے جائیں گے
آئی ہے یاد اس کی، پیروں پہ اپنے چل کے
ہجر آشوب
یہ جو تازہ ستم ہوئے ہوئے ہیں
حال کہیں گے سب تم سے
کاش پہلی سی بات ہوجائے
سب کا دلدار ہے، دلدار بھی ایسا ویسا
دو شعر
ترا نیاز مند ہوں، نیاز کے بغیر بھی
کبھی چمپا، کبھی چنبیلی ہو
ٹھہریئے، رک جایئے، رک جائے، مت جائیے
جو تجھ سے لوگ وابستہ ہوئے آہستہ آہستہ
حیران جائیے نہ پریشان جائیے
دل میں آنا پسند کیجئے گا
روا نشے میں ہوئے، ناروا نشے میں ہوئے
اپنی خبر نہ تیری خبر میں نشے میں ہوں
ہمیشہ نشے میں رہو
تم قیامت نہیں تباہی ہو
مدھو بالا
اپنے دل سے پوچھو
سو جاؤ
رشتۂ خواب
دیکھنا! یہ کہیں تصویر تمہاری تو نہیں
قبائے عشق
شبنمی آنچ
بادل ہیں یہ ہاتھ نہیں
نذر میر
جس کے کوچے میں تھی بیدل کی دکاں
نذر قمر جلالوی
نذر فیض
نذر فراز
پسِ پردہ بھی تو ہیں زخم نمایاں جاناں
جالب یاد آتا ہے
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
میری آواز میں تو بولتا ہے
رقص کرتے تھے الجھتے ہوئے زنجیر سے ہاتھ
بچو کہ باطن و ظاہر تباہ کرتی ہے
محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
ہے داد طلب زخمِ مسیحائی تو چپ رہو
اس نے آوارہ مزاجی کو نیا موڑ دیا
چل لغزشِ وصال کے امکاں سمیت چل
پھول میں پھول، ستاروں میں ستارے ہوئے لوگ
وقت کے خواب سے آگے ہے سلامی میری
شفق شفق ترے آنچل میں بے وفائی کا رنگ
رات دن ایک ساتھ تھے ہم تم
دکھ سے آزاد نہ کر رنج کے زندانی کو
شکستگی نے مرا حوصلہ بحال کیا
تین شعر
نہ یہ سبزہ، نہ یہ صحرا ہے میرا
سرد مہری
بچت بازار
چٹکی بھر سناٹا
دیوالی
حسنِ خرابات
مگر وہ پاؤں کی ایک چپل
پھر وہی روح کی بتاب تمنا کا نزول
یقیں دست و گریباں تھا گمان سے
آنسو
وجود نامعلوم
دیار بے وجود وغیر آشنا
بھنور کے نیچے ہے ایک کھائی
کمزور سسکتا سا وجود
نیو ورلڈ آرڈر
خواب آتے ہیں مسیحائی کو
رنگ رنگ تصور کی مینا کاری
آدمی کی تنہائی اک نیا سویرا ہے
نئے سال کی پہلی شب تھی
میرا سوچا ہوا
دوئی کا نغمہ الست
سرغِ زندگی
میں جس کا منتظر ہوں
محبت آج تک چپ ہے
مگر ہو لازمانی تھی
امکاں کا قیدی
ڈوبتی نبضوں سے خائف ہوں
سراغ زندگی
ادھورا کام
ہونے کا یلغار
تھوڑی سی امید
کتابیں آئینہ خانہ
مدتوں بعد اس کو خط لکھا
میراث کسی اور ہی جاگری کی نکلی
نہیں ہوں گی ملاقاتیں نہ ہوں کی
منزلیں نہیں دیکھیں، راستہ نہیں دیکھا
بے نام راستوں پہ نہ جا، اب بھی لوٹ آ
پری چہروں کے چکر میں نہ پڑیئے
کیا بتلائیں عشق میں اس کے ، وقت کی جو اوقات ہوئی
دو شعر
اب کوئی آرزو کریں گے نہیں
نہیں ہے کیا کوئی اس دل میں، اے دل
رہنے دیجے ہمیں، سرکار نہیں چاہئے ہے
سکھ چین بہت ہے ہم کو یہاں، ہمیں اپنی گلی میں رہنے دے
ہے جس طرف نگاہِ، صدف اس طرف نہیں
تین شعر
خاطر تو ہوئی، دل کی مدارات ہوئی تو
مسلسل ایک ہی جانب سفر اچھا نہیں لگتا
دو شعر
خاموشی سے رہ لے سائیں
دو شعر
یاد رکھے گی مجھ کو کیا تو بھی
اور تنہائی چپ چاپ روتی رہی
ہم رشتۂ الفاظ و حروف
مرے وجود پہ ہے قرض
اماں چیختی رہ جاتیں
آخری خواب
الجھا وا
جو تھا کہاں ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
تین شعر
رہے گی کچھ دنوں یاری رہے گی
شکر ہے، ایک دن گزر گیا ہے
یہ آنسوؤں کی روانی! مزاج اچھے ہیں
مسجد ہے، قبلہ پیرِ مغاں خیریت تو ہے
اتنی ذلت بھی، اتنی رسوائی
تین شعر
عشق
نہیں کہ سینۂ اربابِ کینہ محرمِ راز
ہو خدا حامی وہ ناصر، شب بخیر
تسبیح و سجدہ گاہ بھی سجدہ بھی مست مست
مطلع ثانی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।