سر ورق
ہے شوق زیارت مجھے شاہ عربی کا
ہزار شکر ہے اوس بادشاہ عالم کا
نہ جنت کی اسے پروا نہ دوزخ کا اسے کھٹکا
کوئی ہمارے نبی سریکا ہوا ہے یارونہ ہے نہوگا
کیا ہے چہرا خوشا محمد کا
خسرو دو جہان ہوئے پیدا
صنم کا عشق دیوانہ بنایا
ہوے جب مطلع انور ہوے سارے جہان پیدا
لکھوں کیا مرتبہ کیا تھا مرے صدیق اکبر کا
صبا وہ روضہ انور مجھے ذرا دکھلا
اے صبا تو غوث کے روضہ پہ جا
ادا کس منہ سے ہو رتبہ معین الدین چشتی کا
پر تو غوث الورا سے ہے درخشاں آفتاب
خوشا ہے مجھ کو روز وشب معین الدین کاسودا
غوث اعظم کا نہوتا روی تابان ماہتاب
صدمۂ فرقت اٹھاؤں کب تلک میں بے نصیب
بہہ دعا از فضل شاہ کائنات
عاشق ہوں ایصبا مجھے دکھلا مقام غوث
نچاہیے مجھے دنیا کی شوکت و حشمت
کب تلک یاغو ث اعظم الغیاث
گلستان میں غل مچا ہے آج
تمہارے تک ہمیں بلواؤ صاحب معراج
باب معقد ہے وانماز صبح
صبا کوئ احمد میں جا تو صحیح
ہر دم یہ التجا ہے خدا یا علی الصبح
بہت فراق میں رلواے یاشہ بغداد
دکھلا دو مجھ کو کوئ وہ شاہ ہذا کا رخ
مفلسانہ آمدم یا شاہ جیلان المدد
الٰہی دکھلا دے جمال محمد
نہیں خواہاں ہوں جنت کا محبو کبریا شاہد
وہ کیا مصطفیٰ کے شہر کا پانی لذیذ
ویران دل ہوا ہے کدھر جاؤں یا حضور
کبھی تو دل کو مرے کردے اے خدا مسرور
پیشوائے اولیا ہیں حضرت پیران پیر
نہ ڈھونڈو ہر دوسرا میں کسی کو یارو عزیز
کیا عاشقوں کا روزہ ہے مستوں کی کیا نماز
دو جہاں مین کون ہے جز مصطفیٰ فریاد رس
سمت بغداد کو آنکھوں سے نہ دیکھا افسوس
وہ آستان بنی کو کہو بجا ہے عرش
جس کو ہو عشق بیریا کا جوش
نبوت کےلایق ہوے مصطفیٰ خاص
سر کل انبیا ہیں مالک حوض
جناب پیر کا روزہ ہے آستان فیض
مسافران توکل کا ہے خدا حافظ
صبا حضوری عالی میں تو لجا یہہ خط
یارب دکھا دے روضۂ انور بہر نمط
اے مبارک ماہ رمضان الوداع اے ہمارے دین و ایمان الوداع
دل پہ ہے عشق مصطفیٰ کا داغ
نامت خوشا مسرت جانست یا شفیع
در ہجر تو نالان شدہ خورشید تابان یکطرف
تمپہ یا مصطفیٰ درود شریف
اے دل وہ غوث پاک کے روضہ پہ جائیں چل
بیطرح کرتا ہے مضطر غوث اعظم کا فراق
لکھے جو وصف محمد مری ہے کیا ادراک
دل کی یہی ہے آرزو ہر آن یا رسول
عاشقوں کی راہ میں جاتے ہیں ہم
مرے غوث الورا حقا کہ محبوب خدا ہو تم
معدن جود و سخا حضرت غوث الاعظم
یا رسول حق بیا دلشا دکن
بھلا بروں کو نہ اپنا اگر بناتے ہیں
کوچہ میں تیرے بوے وفا کا پتا نہیں
مریض عشق را احمد و واکن
مومنو بندۂ خدا ہوں میں
نمایاں دو جہاں گشتہ براے تو محی الدین
نائب مصطفیٰ محی الدین
قبلہ کل اولیا حضرت محی الدین ہیں
ہیں گوہر بحر فیض اتم حضرت مخدوم علاء الدین
خواہاں یہ دل نہیں ہے کہ جنت حصول ہو
جناب پیر کے در کا جسے بوسہ میسر ہو
اے عاشقو مدینہ کو اب جائیں گے چلو
اللہ رے کیاخوب ہے مولاے مدینہ
فیض بخش جہاں رسول اللہ
یا اپنے ہی بر میں ہے واللہ
بجائے عرش اعلیٰ ہے رسول اللہ کا روضہ
عشق بازی اور ہے اور جان نثاری اور ہے
جس دن کو مدینہ میں نبی یاد کریں گے
احد میں اور احمد میں فقط اک میم پردہ ہے
غم فرقت سے ہے شاہانہ اب جور و جفا کیجئے
محمد پہ قربان دل و جان ہے
جلوہ فرما حضرت غوث الورا کی دھوم ہے
عاشق نور جل و علی حضرت شاہ خاموش ولی
مثلث
مخمس برقصیدۂ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ
مخمس بر قصیدہ قاضی
مسدس
مسدس دعائیہ
تمت
روایت در مراتب حسنین رضی اللہ تعالی عنہما
کرامت حضرت غوث الصمدا فی میران محی الدین۔۔۔
خامہ دیوان
سر ورق
ہے شوق زیارت مجھے شاہ عربی کا
ہزار شکر ہے اوس بادشاہ عالم کا
نہ جنت کی اسے پروا نہ دوزخ کا اسے کھٹکا
کوئی ہمارے نبی سریکا ہوا ہے یارونہ ہے نہوگا
کیا ہے چہرا خوشا محمد کا
خسرو دو جہان ہوئے پیدا
صنم کا عشق دیوانہ بنایا
ہوے جب مطلع انور ہوے سارے جہان پیدا
لکھوں کیا مرتبہ کیا تھا مرے صدیق اکبر کا
صبا وہ روضہ انور مجھے ذرا دکھلا
اے صبا تو غوث کے روضہ پہ جا
ادا کس منہ سے ہو رتبہ معین الدین چشتی کا
پر تو غوث الورا سے ہے درخشاں آفتاب
خوشا ہے مجھ کو روز وشب معین الدین کاسودا
غوث اعظم کا نہوتا روی تابان ماہتاب
صدمۂ فرقت اٹھاؤں کب تلک میں بے نصیب
بہہ دعا از فضل شاہ کائنات
عاشق ہوں ایصبا مجھے دکھلا مقام غوث
نچاہیے مجھے دنیا کی شوکت و حشمت
کب تلک یاغو ث اعظم الغیاث
گلستان میں غل مچا ہے آج
تمہارے تک ہمیں بلواؤ صاحب معراج
باب معقد ہے وانماز صبح
صبا کوئ احمد میں جا تو صحیح
ہر دم یہ التجا ہے خدا یا علی الصبح
بہت فراق میں رلواے یاشہ بغداد
دکھلا دو مجھ کو کوئ وہ شاہ ہذا کا رخ
مفلسانہ آمدم یا شاہ جیلان المدد
الٰہی دکھلا دے جمال محمد
نہیں خواہاں ہوں جنت کا محبو کبریا شاہد
وہ کیا مصطفیٰ کے شہر کا پانی لذیذ
ویران دل ہوا ہے کدھر جاؤں یا حضور
کبھی تو دل کو مرے کردے اے خدا مسرور
پیشوائے اولیا ہیں حضرت پیران پیر
نہ ڈھونڈو ہر دوسرا میں کسی کو یارو عزیز
کیا عاشقوں کا روزہ ہے مستوں کی کیا نماز
دو جہاں مین کون ہے جز مصطفیٰ فریاد رس
سمت بغداد کو آنکھوں سے نہ دیکھا افسوس
وہ آستان بنی کو کہو بجا ہے عرش
جس کو ہو عشق بیریا کا جوش
نبوت کےلایق ہوے مصطفیٰ خاص
سر کل انبیا ہیں مالک حوض
جناب پیر کا روزہ ہے آستان فیض
مسافران توکل کا ہے خدا حافظ
صبا حضوری عالی میں تو لجا یہہ خط
یارب دکھا دے روضۂ انور بہر نمط
اے مبارک ماہ رمضان الوداع اے ہمارے دین و ایمان الوداع
دل پہ ہے عشق مصطفیٰ کا داغ
نامت خوشا مسرت جانست یا شفیع
در ہجر تو نالان شدہ خورشید تابان یکطرف
تمپہ یا مصطفیٰ درود شریف
اے دل وہ غوث پاک کے روضہ پہ جائیں چل
بیطرح کرتا ہے مضطر غوث اعظم کا فراق
لکھے جو وصف محمد مری ہے کیا ادراک
دل کی یہی ہے آرزو ہر آن یا رسول
عاشقوں کی راہ میں جاتے ہیں ہم
مرے غوث الورا حقا کہ محبوب خدا ہو تم
معدن جود و سخا حضرت غوث الاعظم
یا رسول حق بیا دلشا دکن
بھلا بروں کو نہ اپنا اگر بناتے ہیں
کوچہ میں تیرے بوے وفا کا پتا نہیں
مریض عشق را احمد و واکن
مومنو بندۂ خدا ہوں میں
نمایاں دو جہاں گشتہ براے تو محی الدین
نائب مصطفیٰ محی الدین
قبلہ کل اولیا حضرت محی الدین ہیں
ہیں گوہر بحر فیض اتم حضرت مخدوم علاء الدین
خواہاں یہ دل نہیں ہے کہ جنت حصول ہو
جناب پیر کے در کا جسے بوسہ میسر ہو
اے عاشقو مدینہ کو اب جائیں گے چلو
اللہ رے کیاخوب ہے مولاے مدینہ
فیض بخش جہاں رسول اللہ
یا اپنے ہی بر میں ہے واللہ
بجائے عرش اعلیٰ ہے رسول اللہ کا روضہ
عشق بازی اور ہے اور جان نثاری اور ہے
جس دن کو مدینہ میں نبی یاد کریں گے
احد میں اور احمد میں فقط اک میم پردہ ہے
غم فرقت سے ہے شاہانہ اب جور و جفا کیجئے
محمد پہ قربان دل و جان ہے
جلوہ فرما حضرت غوث الورا کی دھوم ہے
عاشق نور جل و علی حضرت شاہ خاموش ولی
مثلث
مخمس برقصیدۂ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ
مخمس بر قصیدہ قاضی
مسدس
مسدس دعائیہ
تمت
روایت در مراتب حسنین رضی اللہ تعالی عنہما
کرامت حضرت غوث الصمدا فی میران محی الدین۔۔۔
خامہ دیوان
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔