سرورق
گزارش
چشم عاشق سے گریں لخت دل بیتاب و اشک
سترہ اور اٹھارہ سال عمر کی غزلیں
جانب زیجیر گیسو پھر کھنچا جاتا ہے دل
لکھتے ہیں کلک تصور سے ترے نام کو ہم
اجل سے وہ ڈرین جینے کو جو اچھا سمجھت ہیں
جو اپنی زندگانی کو حباب آسا سمجھتے ہیں
شوق نظارہ کبھی دل سے نکلتا ہی نہیں
انیس او ربیس سال عمر کی غزلیں
بے تکلف بوسہ زلف چیلپا لیجئے
شاعری رنگ طبیعت کا دکھا دیتی ہے
تصور سے غم فرقت کے اپنا جی دہلتا ہے
زیر گیسو روئے رشن جلوہ گر دیکھا کئے
پیدا وہ جفا کے جو نئے ڈھنگ کریں گے
منہ ترا دیکھ کے فق رنگ گلساں ہو جائے
ان دنوں یار کے کچھ ذہن نشیں اور بھی ہے
شبب جوش پہ ہے ولولے ہیں جوبن کے
اے خوب مرگ دل میں جو انساں کے تور ہے
ہر چند دل سے یار کے جاتا نہیں غبار
جذبہ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
کیا وہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
اکیس سال عمر کی غزلیں
سمجھے وہی اس کو جو وہ دیوانہ کسی کا
الفت جو کیجئے تو غرض آشنا سے کیا
کس قدر جوش مسرت میں ہے سر پر سہرا
مبارک مے کشو موسم پھر آیا بادہ خواری کا
بائیس سال عمر کی غزلیں
انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
گلے لگائیں کریں پیار تم کو عید کے دن
یہ مصرعہ چاہئے لکھنا بیاض چشم وحدت میں
مضمون سوز غم نہ ہو کیوں کر چراغ میں
خودی بھی مجھ سے جب واقف نہ تھی میں تب سے بسمل ہوں
جو لذت آشناے مورد الفت سے ہیں وہ دل ہوں
وفور شوق قاتل سے نثار ہمت دل ہوں
کہیں دل ہوں کہیں میں باعث بے تابی دل ہوں
لگی ہے آگ الفت کی ہمارے رشتۂ جاں میں
پئے تسلیم سر جھکتا تھا سب کا جن کے ایواں میں
ابھی تو موسم گل بھی نہ آیا تھا گلستاں میں
ملے ہر اک سے محبت مگر انہیں سے رہی
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
جلوۂ رفتار جاناں ہے نمونہ حشر کا
۲۳سال کی عمر کی غزل
پچیس سال کی عمر کی غزلیں
لاکھ جرأت کی کہ تنہائی میں لپٹا لیں انہیں
حسرت کو شہر عشق میں بھیجا خدا نے جب
کوئی پہنچا نہیں اے یار تیرے قدر عناتک
چھبیس سال کی عمر کی غزل
ستائیس سال کی عمرکی غزل
چیزے کہ بہ عشق اومی رقصد ومی سوزو
کیسی کیسی وہ لگاوٹ کی نظر کرتے ہیں
اٹھائیس سال کی عمر کی غزلیں
ناقصاں راسود بخشد پر تو اہل کمال
دلم فسردہ شدوعشق و آرزو باقی است
جاں نثاروں کے سوا کوئی نہ دیکھے روئے دوست
وہ رشک گل نہ ہوا ہم سے ہمکنار افسوس
غم ہجر تو چہ کردہ است بمن ہیچ مپرس
انتیس اور تیس سال کی عمر کی غزلیں
ہجرمیں دانتوں کے گریاں جو میں بیتاب ہوا
فکر رنگیں سے ہوئی مدحت دندان صنم
زمانہ ہو گیا بسمل تری سیدھی نگاہوں سے
کام آتا ہے جو وصف روئے دلبر میں چراغ
مشاعرہ 1874ء یا 1875ء
دور دوم ، اندازاً تیس سے چالیس سال عمر تک کی غزلیں
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
نہاں ہے مثل بوئے گل جو رنگ اس روئے زیبا کا
غم فراق کا صدمہ اٹھا نہیں سکتا
تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
وصل جاناں کی دل زار کو حسرت ہی رہی پر میسر نہ ہوا
یار نے کچھ خبر نہ لی دل نے جگر نے کیا کیا
ہجوم غم سے ان روزوں ہے دل زیر وزبر اپنا
گلستان مضامیں بسکہ ہے مد نظر اپنا
حباب آسا اٹھایا بحر ہستی میں جو سر اپنا
جو پیش چشم معنی جلوۂ حسن بشر آیا
نہ حاصل ہوا صبرو آرام دل کا
فروغ کم بضاعت رونق عالم نہیں ہوتا
اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا
روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
مصحف رخسار یوسف میں ہو جب تفسیر خواب
ہم جو سمجھے تھے نہ وہ حاصل ہوئی تعبیر خواب
بتوں کی مجھ کو یہ ترچھی نظر نہیں منظور
ہوا پھر قیدی زلف دوتا دل
آگیا وقت اجل اے شوق دنیا الوداع
عہد طفلی سے ہے مذہب میں گرفتاری دل
حاصل عمر سوا موت کے جب کچھ بھی نہیں
سنبھالیں دل کو کہ ہم حالت جگر دیکھیں
زیاد خشک حسن بتاں سے ہیں بے نصیب
سو جان سے محورخ جاناں ہیں تو ہم ہیں
رقیب تیرہ باطن کو جگہ دے رکھی ہے دل میں
حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
جفائیں جھیل کر تاثیر الفت کی دکھاتے ہیں
تمہیں سے ہوئی مجھ کو الفت کچھ ایسی
غم نہیں اس کا جو شہرت ہو گئی
حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
یہ درد دل بھی نہ تھا سوزش جگر بھی نہ تھی
نہ خود رہے نہ حکومت رہی مسلماں کی
میں اپنی آہ کئے جاؤں واں اثر نہ سہی
طلسم کا لبد میں ہے مقید روح انساں کی
پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
خفا ہو بے سبب مجھ سے کہو میری خطا کیا ہے
آج آرانش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
اثر دکھانے پہ یہ جذب دل جو آتا ہے
کیا پوچھتے ہو مجھ سے پہلو میں تیرے کیا ہے
وہ اٹھے تو بہت گھر سے اپنے مرے گھر میں مگر کبھی آ نہ سکے
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
دل کو غفلت نے کدورت میں چھپا رکھا ہے
کسی کی قسمت میں زہر غم ہے کسی کو حاصل مے طرف ہے
سنتا ہوں کہ تاثیر محبت میں بھی کچھ ہے
قید احساس سے تری اے فلک آزاد رہے
کہوں کس سے قصۂ درد وغم کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
یہ آج وجہ توقف ہے کیا اجل کے لئے
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
اپنی ہستی جو حجاب رخ جاناں نہ رہے
مصیبت عشق کی تنہا مجھی پر کیا گزرتی ہے
ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی مرے دل کی
کیا قہر ہے اجل مرے سر پر کھڑٰی رہے
ہوگا کیا رنجش جو تجھ سے اے پری ہو جائے گی
بے چین ہے دل سینہ میں مرا رہ رہ کے تری یاد آتی ہے
جو اس سروقد سے جدائی ہوئی ہے
دور سوم ، اندازاً چالیس سے پچاس سال عمر تک کی غزلیں
کہو کرے گا حفاظت مری خدا میرا
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
عنایت تخلیے میں بزم میں ناآشنا ہونا
غنچۂ دل کو نسیم عشق نے وا کر دیا
ارسطو سے نہ پوچھ اے ہمنشیں خاصیت الفت
ہجر میں خون جگر آخر کو پینا ہی پڑا
تصور اس کا جب بندھا تو پھر نظر میں کیا رہا
وفا میں ثابت قدم نکلنا فدائے عشق حبیب ہونا
جو مل گیا وہ کھانا داتا کا نام جپنا
جلوہ نظر آیا نہیں اے یار تمہارا
بتکدے میں مطمئن رہنا مرا دشوا تھا
یہ بت پنہاں نہیں ہوتے خدا ظاہر نہیں ہوتا
یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
فطرت میں سلسلہ ہے کمال وزوال کا
طرق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
ہستی حق کے معانی جو مرا دل سمجھا
مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
سینہ کا زخم آہ کی سختی سے چھل گیا
وہ مطرب اور وہ ساز وہ گانا بدل گیا
درد نے جا اس میں کی اک سوز پنہاں ہو گیا
خدا کے ہوتے بتوں کو پوجوں نہیں تھا مطلق گماں ایسا
کوئی ہے دہر میں خون جگر کہیں پیتا
مری تقریر کا اس مس پہ کچھ جادو نہیں چلتا
اگرچہ تسکین طبع ملت ہے حب قومی میں آہ کرنا
ہے غضب جلوہ دیرفانی کا
یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
خودی گم کر چکا ہوں اب خوشی وغم سے کیا مطلب
اے جان جہاں حورنہ اچھی نہ پری خوب
ماہ نو بھی نہیں چمکا ترے ابرو کی طرح
پھرتی ہے ارض آفتاب کے گرد
فسردگی ہوئی پیدا اس انتشار کے بعد
ملحداں راہمہ اوصاف وثنا ہاخواںند
دلالے چل ہمیں سوئے
موقوف کچھ نہیں ہے فقط مے پرست پر
بہت ہی کم پائے اپنے عارف کمال باری نے ہم میں آکر
مغوی تو ملیں گے تمہیں شیطان سے بہتر
بنوگے خسرو تسلیم دل شیریں زباں ہوکر
روش ہو راس آزادانہ ساتھ اس کے تواضع بھی
خیال عزت مجنوں نہ چھوڑاے دامن مجنوں
بہار آئی ہے اک آئینہ معنی نشاں ہوکر
جب مانتے ہو کہ خدا بھی ہے کوئی چیز
طبع کرتی ہے تے عشق کی تائید ہنوز
شیخ مائل ہوئے ہیں ساغر ومینا کی طرف
کیا جانئے سید تھے حق آگاہ کہاں تک
گو چکا چوند کا عالم ہے نئی روشنی میں
ہوئے ہیں مست مئے عاشق کے جام سے ہم
دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں
کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے
یہ فقط نہیں ہے کافی کہ مرا مزاج پوچھیں
دل زیست سے بیزار ہے معلمو نہیں کیوں
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
دور شراب لالہ فام کیوں نہ ہو لالہ زار میں
اس رخ پہ نظر کا شوق جو ہو آنکھوں کو تو اپنی اشک سے دھو
تخت کے قابض وہی دیہیم ان کے ہاتھ میں
دلیلیں فلسفہ کو نور باطن کر نہیں سکتیں
یہ تماشے ہیں یہیں زیر زمیں تو کچھ نہیں
پریشاں ہوش کو کرتے ہیں ٹکڑے دل کے کرتے ہیں
وزن اب ان کا معین نہیں ہو سکتا کچھ
فہم وادراک میں ہو عقل میں ہو جان میں ہو
گرم نظارہ ہر اک سمت سر راہ نہ ہو
شکر ہے راہ ترقی میں اگر بڑھتے ہو
سب ہو چکے ہیں اس بت کافر ادا کے ساتھ
عشق بتاں میں اکبر ناداں تیری یہ حالت توبہ توبہ
نگہت گل سے شیم زلف یاد آہی گئی
کچھ طرز ستم بھی ہے کچھ انداز وفا بھی
چمن کی یہ کیسی ہوا ہو گئی
مری روح تن سے جدا ہوگئی
عاشق جو آستانۂ مشکل کشا کی ہے
روز افزوں ہو محبت وہ ملاقات اچھی
میری ناکامیابی کی کوئی حد ہو نہیں سکتی
سکھ پائے طبیعت جس سے تری رکھ شغم اپنا دن رات وہی
بہر رفتا میں جب کرتا ہوں تدبیر نئی
ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
تسکین دل اس بزم میں واللہ نہ پائی
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
رفیق حرص ومکاری دلیری ہو نہیں سکتی
اپنا رنگ ان سے ملانا چاہئے
لب آشنائے دعا ہوں نہ ماسوا کے لئے
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
یہ بت جو دلکش ہیں آج اتنے یہ روح پر کل عذاب ہوں گے
معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے
عبث ہر طاقت و دولت پہ تجھ کو رشک و حسرت ہے
کون ایسا ہے جو یوں مجھ پہ عنایت رکھے
میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
سن چکے آپ کہ پیش آئے تھے حالات ایسے
ملک میں مجھ کو ذلیل وخوار رہنے دیجئے
ادھر ہماری تو یہ لگاوٹ حضور ایسے حضور ایسے
جو قانع ہے کسی دن اس کی قسمت لڑ ہی جاتی ہے
ہے قوم جسم سلطنت اس میں ہے مثل روح
اپنے برتاؤ سے گو وہ مجھے ناخوش رکھے
مثل بلبل زمزموں کا خود یہاں اک رنگ ہے
تمہاری بحثوں سے میرے شبہے خدا کی ہستی میں کم نہ ہوتے
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے
اس میں عکس آپ کا اتاریں گے
ضد ہے انھیں پوار مرا ارماں نہ کریں گے
بت ستمگر کی کچھ نہ پوچھو حسین بھی ہے ذہین بھی ہے
فتنہ اٹھے کوئی یا گھات میں دشمن بیٹھے
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
پراگندہ بہت ہے دل مرا دنیا کے دھندوں سے
عقل ہے ایماں ہے دل ہے جان ہے
طلب ہو صبر کی اور دل میں آرزو آئے
بے نالہ و فریاد و فغاں رہ نہیں سکتے
مسوں کے سامنے کیا مذہبی بہانہ چلے
میرےدل کو بت دل خواہ جو چاہے کرے
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
جو زاہدوں کی طرف سے تیری نگاہ فتاں پھری نہیں ہے
مرے اجداد بھی ڈرتے تھے اکبر میں بھی ڈرتا ہوں
سب میں وحشت ہے زمانہ کے بدل جانے سے
دم لبوں پر تھا دل زار کے گھبرانے سے
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
وقطعات و دیگر منظومات
کھولی ہے زبان خوش بیانی کے لئے
سر میں شوق کا سودا دیکھا
قطعات ، جلوۂ دربار دہلی
خدا جانے کہا کس نے یہ کس دن عقل مسلم سے
قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ
ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
یہ تسبیح وتکبیر و حمد و دعا
اک لعبت چیں کو لندن سے جو بیاہ کے لائے مفاعیلن
مسان خود فروش آخر فرستاوند ایں بلہا
پیرو مرشد نے کیا قوم میں بچپن پیدا
آئینہ لفظ خدا ہے بیسیوں مفہوم کا
بے رشک نئی روشنی سے بہتر ہے کہیں
سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
گرمیٔ بحث میں انو نے یہ اکبر سے کہا
اے گوہر مخزن ظرافت
نامہ بنا اودھ پنج ، 1877ء
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
اودھ پنچ کے نام
برق کلیسا
گفتمش تارک مذہب شوم و خوش باشم
ایک بوڑھا نحیف و خستہ وزار
انگلش ڈرس انور کا جو کل بزم میں دیکھا
میں نے اکبر سے کہا آئیے حجرے میں مرے
بہار آئی کھلے گل زیب صحن بوستاں ہوکر
یہ قطعہ 1899ء میں لکھا گیا
میں نے کہا بہت سی زبانیں ہوں جانتا
ہوئی جو مجھ سے یہ فرمائش بت طناز
اگرچہ پولٹیکل بحث میں ہوئے ہیں شریک
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
اک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
یہ قطعہ 27/ اگست 1891ء کو بمقام کانپور لکھا گیا
بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
وہ سودی سخن گوئے شیریں مقال
برق و بخارات کا زوراے حکیم
کہا کسی نے یہ سید سے آپ اے حضرت
بنائے ملت بگڑ رہی ہے لبوں پہ ہے جان مر رہے ہیں
پوچھا پروانہ سے کہ اے ناداں
کیا وجہ ہے قومی جو ترقی نہیں ہوتی
چو اشارہ کرو ناصح کہ بیاد بشنو ازمن
کیا شک ہے آفتاب کے شان و جلال میں
کر چکا کالج میں جب تکمیل فن
یہ طفل ناداں غریق غفلت ہوائے ذلت میں تن رہے ہیں
ہستی کے شجر میں جو یہ چاہو کہ چمک جاؤ
سنا کہ چند مسلماں جمع تھے یک جا
نہ وہ بک رہ گئے نہ سر سید
مسلمانوں میں اب تعلیم انگلش رک نہیں سکتی
اہل یورپ کے ساتھ ہوٹل میں
علم اسرا دل وحل معما داری
بنام ایڈیٹر رسالہ ید بیضا
جو دل کرتے ہیں حق کی پاسبانی
نیشنل اینتھم
خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
نہ نماز ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ ہے نہ حج ہے
بلبل ہیں آج ہم چمنستان کمپ کے
یہ شیخ اکبر سے اتنا کیوں خفا ہے
ترجمہ قول یکے ازاکابر یورپ
پاتی ہیں قومیں تجارت سے عروج
کرزن سبھا
سبھا میں دوستو کرزن کی آمد آمد ہے
ہوں ناز سے معمور حکومت سے بھری ہوں
آمد قبال پری
غزل اقبال پری کی زبانی
اقبال پری آئی جو انداز بدل کر
قوم انگلش کو یہ دربار مبارک ہووے
نصیحت اخلاقی
مبارک باد پنچ کی طرف سے
بیٹے کو لوگ کہتے ہیں آنکھوں کا نور ہے
نظم قومی حسب فرمائش نواب محسن الملک بہادر
مسلمانو بتاؤ تو تمہیں اپنی خبر کچھ ہے
ڈارون صاحب حقیقت سے نہایت دور تھے
چاہا جو میں نے ان سے طریق عمل پہ وعظ
میں دیکھتا ہوں صلح ومحبت ہے اٹھ گئی
تعجب سے کہنے لگے بابو صاحب
1878ء کے ایک گم شدہ مضمون کے چند اشعار
اک رنگ پہ پھر یاں کوئی شئے رہ نہیں جاتی
زمزمہ اوج فلک پر ہے یہی ہربرڈ کا
یہ قطعہ 1907ء میں حسب فرمائیش پنچ لکھا گیا
راجہ صاحب سے شیخ جی نے کہا
ممدوح خاص وعام ہیں لالہ نہال چند
موت چل دی میری مشت استخواں کو سونگھ کر
سید جلال الدین طہرانی ایڈیٹر حبل المتین
خلاف حق چو حریفاں زراہ میگروند
بعلالت 1905ء
1907ء آغاز تشریف آوری امیر حبیب اللہ خاں میں کہا گیا تھا
تلغرانے چو فرستادی زراہ لطف ومہر
دیکھی جو نمائش چکا کو
شروع سنہ میں آؤں گا واں تم اپنی ماں کو یہ لکھ چکے ہو
وفات سر سید مرحوم پر
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
اک دوست ہمارے ہیں تپ ان کو شدید آئی
دعوت نامہ بنام علامہ شبلی نعمانی
یہ کیا سبب ہے جو رہ رہ کے جی بھر آتا ہے
بحمد اللہ کہ حاصل آپ کو ہر ایک نعمت ہے
خوش پھر رہی ہے خلا خدا صبح عید ہے
لندن کو چھوڑ لڑکے اب ہند کی خبر لے
کانفرس احباب سے پر ہے
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
دھرم پور آج کیوں اس درجہ وقت حسرت و غم ہے
نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجئے
مرثیہ کنورعبدالعزیز
بنام منشی نثار حسین صاحب مہتمم پیام یار لکھنو
قصدیدہ مبارک باد جشن جو بلی ملکۂ وکٹویہ قیصرہ ہند
زمانے میں خوشی کا دور ہے عشرت کا ساماں ہے
خدا اے عشرتی تم کو ہمیشہ شادماں رکھے
آں نونہال خوبی ماہ دو ہفتۂ من
مولانائے کڑوی
پھرے اک مولوی صاحب جو دل دربار دہلی سے
ڈپٹی صاحب جو یہ ہیں زینت عبّاد جہاں
متفرقات
ترے پر تو سے اے جان جہاں ظلمت میں نور آیا
بائیس سال عمر کے متفرق اشعار
طے ہوئی بات نہ قیمت ابھی اس کی ٹھہری
متضاد گئے جو دو طرف سے دو تار
متعلق ٹرکی
معما
ممکن نہیں عبور مرا ان کے راز پر
افسوس ہے کہ مر گئے بک اب نہیں کوئی
شملہ بمقدار علم
جمعیت عاقلان قوم اچھی ہے
کانفرس
جو پائی ترک عبادات میں مثال بری
قطعہ
الایا ایہا الطفلک بجو راہت بہ ناولہا
حکیمانہ بزلہ سنجیاں
مخمس
بکری کو ساگ پات کا سودا نہیں رہا
مے کی طرف سے معذرت
قسمت وہ کہاں کہ اب وہ تقسیم نہیں
پر وہ اٹھا ہے ترقی کے یہ سامان تو ہیں
متفرق شعر ہیں قطعہ نہیں ہے
بابوجی کا وہ بت ہوا نرک
آئندہ اردو زبان کے نمونے
تین غزلیں
وہ حجاب ان کا آج تک نہ گیا
کچھ اور کلام
فخر یہ میں نے جو اشعار پڑے سعدی کے
لسان العصر
سرورق
گزارش
چشم عاشق سے گریں لخت دل بیتاب و اشک
سترہ اور اٹھارہ سال عمر کی غزلیں
جانب زیجیر گیسو پھر کھنچا جاتا ہے دل
لکھتے ہیں کلک تصور سے ترے نام کو ہم
اجل سے وہ ڈرین جینے کو جو اچھا سمجھت ہیں
جو اپنی زندگانی کو حباب آسا سمجھتے ہیں
شوق نظارہ کبھی دل سے نکلتا ہی نہیں
انیس او ربیس سال عمر کی غزلیں
بے تکلف بوسہ زلف چیلپا لیجئے
شاعری رنگ طبیعت کا دکھا دیتی ہے
تصور سے غم فرقت کے اپنا جی دہلتا ہے
زیر گیسو روئے رشن جلوہ گر دیکھا کئے
پیدا وہ جفا کے جو نئے ڈھنگ کریں گے
منہ ترا دیکھ کے فق رنگ گلساں ہو جائے
ان دنوں یار کے کچھ ذہن نشیں اور بھی ہے
شبب جوش پہ ہے ولولے ہیں جوبن کے
اے خوب مرگ دل میں جو انساں کے تور ہے
ہر چند دل سے یار کے جاتا نہیں غبار
جذبہ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
کیا وہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
اکیس سال عمر کی غزلیں
سمجھے وہی اس کو جو وہ دیوانہ کسی کا
الفت جو کیجئے تو غرض آشنا سے کیا
کس قدر جوش مسرت میں ہے سر پر سہرا
مبارک مے کشو موسم پھر آیا بادہ خواری کا
بائیس سال عمر کی غزلیں
انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
گلے لگائیں کریں پیار تم کو عید کے دن
یہ مصرعہ چاہئے لکھنا بیاض چشم وحدت میں
مضمون سوز غم نہ ہو کیوں کر چراغ میں
خودی بھی مجھ سے جب واقف نہ تھی میں تب سے بسمل ہوں
جو لذت آشناے مورد الفت سے ہیں وہ دل ہوں
وفور شوق قاتل سے نثار ہمت دل ہوں
کہیں دل ہوں کہیں میں باعث بے تابی دل ہوں
لگی ہے آگ الفت کی ہمارے رشتۂ جاں میں
پئے تسلیم سر جھکتا تھا سب کا جن کے ایواں میں
ابھی تو موسم گل بھی نہ آیا تھا گلستاں میں
ملے ہر اک سے محبت مگر انہیں سے رہی
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
جلوۂ رفتار جاناں ہے نمونہ حشر کا
۲۳سال کی عمر کی غزل
پچیس سال کی عمر کی غزلیں
لاکھ جرأت کی کہ تنہائی میں لپٹا لیں انہیں
حسرت کو شہر عشق میں بھیجا خدا نے جب
کوئی پہنچا نہیں اے یار تیرے قدر عناتک
چھبیس سال کی عمر کی غزل
ستائیس سال کی عمرکی غزل
چیزے کہ بہ عشق اومی رقصد ومی سوزو
کیسی کیسی وہ لگاوٹ کی نظر کرتے ہیں
اٹھائیس سال کی عمر کی غزلیں
ناقصاں راسود بخشد پر تو اہل کمال
دلم فسردہ شدوعشق و آرزو باقی است
جاں نثاروں کے سوا کوئی نہ دیکھے روئے دوست
وہ رشک گل نہ ہوا ہم سے ہمکنار افسوس
غم ہجر تو چہ کردہ است بمن ہیچ مپرس
انتیس اور تیس سال کی عمر کی غزلیں
ہجرمیں دانتوں کے گریاں جو میں بیتاب ہوا
فکر رنگیں سے ہوئی مدحت دندان صنم
زمانہ ہو گیا بسمل تری سیدھی نگاہوں سے
کام آتا ہے جو وصف روئے دلبر میں چراغ
مشاعرہ 1874ء یا 1875ء
دور دوم ، اندازاً تیس سے چالیس سال عمر تک کی غزلیں
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
نہاں ہے مثل بوئے گل جو رنگ اس روئے زیبا کا
غم فراق کا صدمہ اٹھا نہیں سکتا
تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
وصل جاناں کی دل زار کو حسرت ہی رہی پر میسر نہ ہوا
یار نے کچھ خبر نہ لی دل نے جگر نے کیا کیا
ہجوم غم سے ان روزوں ہے دل زیر وزبر اپنا
گلستان مضامیں بسکہ ہے مد نظر اپنا
حباب آسا اٹھایا بحر ہستی میں جو سر اپنا
جو پیش چشم معنی جلوۂ حسن بشر آیا
نہ حاصل ہوا صبرو آرام دل کا
فروغ کم بضاعت رونق عالم نہیں ہوتا
اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا
روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
مصحف رخسار یوسف میں ہو جب تفسیر خواب
ہم جو سمجھے تھے نہ وہ حاصل ہوئی تعبیر خواب
بتوں کی مجھ کو یہ ترچھی نظر نہیں منظور
ہوا پھر قیدی زلف دوتا دل
آگیا وقت اجل اے شوق دنیا الوداع
عہد طفلی سے ہے مذہب میں گرفتاری دل
حاصل عمر سوا موت کے جب کچھ بھی نہیں
سنبھالیں دل کو کہ ہم حالت جگر دیکھیں
زیاد خشک حسن بتاں سے ہیں بے نصیب
سو جان سے محورخ جاناں ہیں تو ہم ہیں
رقیب تیرہ باطن کو جگہ دے رکھی ہے دل میں
حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
جفائیں جھیل کر تاثیر الفت کی دکھاتے ہیں
تمہیں سے ہوئی مجھ کو الفت کچھ ایسی
غم نہیں اس کا جو شہرت ہو گئی
حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
یہ درد دل بھی نہ تھا سوزش جگر بھی نہ تھی
نہ خود رہے نہ حکومت رہی مسلماں کی
میں اپنی آہ کئے جاؤں واں اثر نہ سہی
طلسم کا لبد میں ہے مقید روح انساں کی
پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
خفا ہو بے سبب مجھ سے کہو میری خطا کیا ہے
آج آرانش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
اثر دکھانے پہ یہ جذب دل جو آتا ہے
کیا پوچھتے ہو مجھ سے پہلو میں تیرے کیا ہے
وہ اٹھے تو بہت گھر سے اپنے مرے گھر میں مگر کبھی آ نہ سکے
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
دل کو غفلت نے کدورت میں چھپا رکھا ہے
کسی کی قسمت میں زہر غم ہے کسی کو حاصل مے طرف ہے
سنتا ہوں کہ تاثیر محبت میں بھی کچھ ہے
قید احساس سے تری اے فلک آزاد رہے
کہوں کس سے قصۂ درد وغم کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
یہ آج وجہ توقف ہے کیا اجل کے لئے
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
اپنی ہستی جو حجاب رخ جاناں نہ رہے
مصیبت عشق کی تنہا مجھی پر کیا گزرتی ہے
ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی مرے دل کی
کیا قہر ہے اجل مرے سر پر کھڑٰی رہے
ہوگا کیا رنجش جو تجھ سے اے پری ہو جائے گی
بے چین ہے دل سینہ میں مرا رہ رہ کے تری یاد آتی ہے
جو اس سروقد سے جدائی ہوئی ہے
دور سوم ، اندازاً چالیس سے پچاس سال عمر تک کی غزلیں
کہو کرے گا حفاظت مری خدا میرا
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
عنایت تخلیے میں بزم میں ناآشنا ہونا
غنچۂ دل کو نسیم عشق نے وا کر دیا
ارسطو سے نہ پوچھ اے ہمنشیں خاصیت الفت
ہجر میں خون جگر آخر کو پینا ہی پڑا
تصور اس کا جب بندھا تو پھر نظر میں کیا رہا
وفا میں ثابت قدم نکلنا فدائے عشق حبیب ہونا
جو مل گیا وہ کھانا داتا کا نام جپنا
جلوہ نظر آیا نہیں اے یار تمہارا
بتکدے میں مطمئن رہنا مرا دشوا تھا
یہ بت پنہاں نہیں ہوتے خدا ظاہر نہیں ہوتا
یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
فطرت میں سلسلہ ہے کمال وزوال کا
طرق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
ہستی حق کے معانی جو مرا دل سمجھا
مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
سینہ کا زخم آہ کی سختی سے چھل گیا
وہ مطرب اور وہ ساز وہ گانا بدل گیا
درد نے جا اس میں کی اک سوز پنہاں ہو گیا
خدا کے ہوتے بتوں کو پوجوں نہیں تھا مطلق گماں ایسا
کوئی ہے دہر میں خون جگر کہیں پیتا
مری تقریر کا اس مس پہ کچھ جادو نہیں چلتا
اگرچہ تسکین طبع ملت ہے حب قومی میں آہ کرنا
ہے غضب جلوہ دیرفانی کا
یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
خودی گم کر چکا ہوں اب خوشی وغم سے کیا مطلب
اے جان جہاں حورنہ اچھی نہ پری خوب
ماہ نو بھی نہیں چمکا ترے ابرو کی طرح
پھرتی ہے ارض آفتاب کے گرد
فسردگی ہوئی پیدا اس انتشار کے بعد
ملحداں راہمہ اوصاف وثنا ہاخواںند
دلالے چل ہمیں سوئے
موقوف کچھ نہیں ہے فقط مے پرست پر
بہت ہی کم پائے اپنے عارف کمال باری نے ہم میں آکر
مغوی تو ملیں گے تمہیں شیطان سے بہتر
بنوگے خسرو تسلیم دل شیریں زباں ہوکر
روش ہو راس آزادانہ ساتھ اس کے تواضع بھی
خیال عزت مجنوں نہ چھوڑاے دامن مجنوں
بہار آئی ہے اک آئینہ معنی نشاں ہوکر
جب مانتے ہو کہ خدا بھی ہے کوئی چیز
طبع کرتی ہے تے عشق کی تائید ہنوز
شیخ مائل ہوئے ہیں ساغر ومینا کی طرف
کیا جانئے سید تھے حق آگاہ کہاں تک
گو چکا چوند کا عالم ہے نئی روشنی میں
ہوئے ہیں مست مئے عاشق کے جام سے ہم
دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں
کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے
یہ فقط نہیں ہے کافی کہ مرا مزاج پوچھیں
دل زیست سے بیزار ہے معلمو نہیں کیوں
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
دور شراب لالہ فام کیوں نہ ہو لالہ زار میں
اس رخ پہ نظر کا شوق جو ہو آنکھوں کو تو اپنی اشک سے دھو
تخت کے قابض وہی دیہیم ان کے ہاتھ میں
دلیلیں فلسفہ کو نور باطن کر نہیں سکتیں
یہ تماشے ہیں یہیں زیر زمیں تو کچھ نہیں
پریشاں ہوش کو کرتے ہیں ٹکڑے دل کے کرتے ہیں
وزن اب ان کا معین نہیں ہو سکتا کچھ
فہم وادراک میں ہو عقل میں ہو جان میں ہو
گرم نظارہ ہر اک سمت سر راہ نہ ہو
شکر ہے راہ ترقی میں اگر بڑھتے ہو
سب ہو چکے ہیں اس بت کافر ادا کے ساتھ
عشق بتاں میں اکبر ناداں تیری یہ حالت توبہ توبہ
نگہت گل سے شیم زلف یاد آہی گئی
کچھ طرز ستم بھی ہے کچھ انداز وفا بھی
چمن کی یہ کیسی ہوا ہو گئی
مری روح تن سے جدا ہوگئی
عاشق جو آستانۂ مشکل کشا کی ہے
روز افزوں ہو محبت وہ ملاقات اچھی
میری ناکامیابی کی کوئی حد ہو نہیں سکتی
سکھ پائے طبیعت جس سے تری رکھ شغم اپنا دن رات وہی
بہر رفتا میں جب کرتا ہوں تدبیر نئی
ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
تسکین دل اس بزم میں واللہ نہ پائی
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
رفیق حرص ومکاری دلیری ہو نہیں سکتی
اپنا رنگ ان سے ملانا چاہئے
لب آشنائے دعا ہوں نہ ماسوا کے لئے
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
یہ بت جو دلکش ہیں آج اتنے یہ روح پر کل عذاب ہوں گے
معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے
عبث ہر طاقت و دولت پہ تجھ کو رشک و حسرت ہے
کون ایسا ہے جو یوں مجھ پہ عنایت رکھے
میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
سن چکے آپ کہ پیش آئے تھے حالات ایسے
ملک میں مجھ کو ذلیل وخوار رہنے دیجئے
ادھر ہماری تو یہ لگاوٹ حضور ایسے حضور ایسے
جو قانع ہے کسی دن اس کی قسمت لڑ ہی جاتی ہے
ہے قوم جسم سلطنت اس میں ہے مثل روح
اپنے برتاؤ سے گو وہ مجھے ناخوش رکھے
مثل بلبل زمزموں کا خود یہاں اک رنگ ہے
تمہاری بحثوں سے میرے شبہے خدا کی ہستی میں کم نہ ہوتے
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے
اس میں عکس آپ کا اتاریں گے
ضد ہے انھیں پوار مرا ارماں نہ کریں گے
بت ستمگر کی کچھ نہ پوچھو حسین بھی ہے ذہین بھی ہے
فتنہ اٹھے کوئی یا گھات میں دشمن بیٹھے
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
پراگندہ بہت ہے دل مرا دنیا کے دھندوں سے
عقل ہے ایماں ہے دل ہے جان ہے
طلب ہو صبر کی اور دل میں آرزو آئے
بے نالہ و فریاد و فغاں رہ نہیں سکتے
مسوں کے سامنے کیا مذہبی بہانہ چلے
میرےدل کو بت دل خواہ جو چاہے کرے
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
جو زاہدوں کی طرف سے تیری نگاہ فتاں پھری نہیں ہے
مرے اجداد بھی ڈرتے تھے اکبر میں بھی ڈرتا ہوں
سب میں وحشت ہے زمانہ کے بدل جانے سے
دم لبوں پر تھا دل زار کے گھبرانے سے
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
وقطعات و دیگر منظومات
کھولی ہے زبان خوش بیانی کے لئے
سر میں شوق کا سودا دیکھا
قطعات ، جلوۂ دربار دہلی
خدا جانے کہا کس نے یہ کس دن عقل مسلم سے
قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ
ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
یہ تسبیح وتکبیر و حمد و دعا
اک لعبت چیں کو لندن سے جو بیاہ کے لائے مفاعیلن
مسان خود فروش آخر فرستاوند ایں بلہا
پیرو مرشد نے کیا قوم میں بچپن پیدا
آئینہ لفظ خدا ہے بیسیوں مفہوم کا
بے رشک نئی روشنی سے بہتر ہے کہیں
سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
گرمیٔ بحث میں انو نے یہ اکبر سے کہا
اے گوہر مخزن ظرافت
نامہ بنا اودھ پنج ، 1877ء
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
اودھ پنچ کے نام
برق کلیسا
گفتمش تارک مذہب شوم و خوش باشم
ایک بوڑھا نحیف و خستہ وزار
انگلش ڈرس انور کا جو کل بزم میں دیکھا
میں نے اکبر سے کہا آئیے حجرے میں مرے
بہار آئی کھلے گل زیب صحن بوستاں ہوکر
یہ قطعہ 1899ء میں لکھا گیا
میں نے کہا بہت سی زبانیں ہوں جانتا
ہوئی جو مجھ سے یہ فرمائش بت طناز
اگرچہ پولٹیکل بحث میں ہوئے ہیں شریک
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
اک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
یہ قطعہ 27/ اگست 1891ء کو بمقام کانپور لکھا گیا
بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
وہ سودی سخن گوئے شیریں مقال
برق و بخارات کا زوراے حکیم
کہا کسی نے یہ سید سے آپ اے حضرت
بنائے ملت بگڑ رہی ہے لبوں پہ ہے جان مر رہے ہیں
پوچھا پروانہ سے کہ اے ناداں
کیا وجہ ہے قومی جو ترقی نہیں ہوتی
چو اشارہ کرو ناصح کہ بیاد بشنو ازمن
کیا شک ہے آفتاب کے شان و جلال میں
کر چکا کالج میں جب تکمیل فن
یہ طفل ناداں غریق غفلت ہوائے ذلت میں تن رہے ہیں
ہستی کے شجر میں جو یہ چاہو کہ چمک جاؤ
سنا کہ چند مسلماں جمع تھے یک جا
نہ وہ بک رہ گئے نہ سر سید
مسلمانوں میں اب تعلیم انگلش رک نہیں سکتی
اہل یورپ کے ساتھ ہوٹل میں
علم اسرا دل وحل معما داری
بنام ایڈیٹر رسالہ ید بیضا
جو دل کرتے ہیں حق کی پاسبانی
نیشنل اینتھم
خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
نہ نماز ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ ہے نہ حج ہے
بلبل ہیں آج ہم چمنستان کمپ کے
یہ شیخ اکبر سے اتنا کیوں خفا ہے
ترجمہ قول یکے ازاکابر یورپ
پاتی ہیں قومیں تجارت سے عروج
کرزن سبھا
سبھا میں دوستو کرزن کی آمد آمد ہے
ہوں ناز سے معمور حکومت سے بھری ہوں
آمد قبال پری
غزل اقبال پری کی زبانی
اقبال پری آئی جو انداز بدل کر
قوم انگلش کو یہ دربار مبارک ہووے
نصیحت اخلاقی
مبارک باد پنچ کی طرف سے
بیٹے کو لوگ کہتے ہیں آنکھوں کا نور ہے
نظم قومی حسب فرمائش نواب محسن الملک بہادر
مسلمانو بتاؤ تو تمہیں اپنی خبر کچھ ہے
ڈارون صاحب حقیقت سے نہایت دور تھے
چاہا جو میں نے ان سے طریق عمل پہ وعظ
میں دیکھتا ہوں صلح ومحبت ہے اٹھ گئی
تعجب سے کہنے لگے بابو صاحب
1878ء کے ایک گم شدہ مضمون کے چند اشعار
اک رنگ پہ پھر یاں کوئی شئے رہ نہیں جاتی
زمزمہ اوج فلک پر ہے یہی ہربرڈ کا
یہ قطعہ 1907ء میں حسب فرمائیش پنچ لکھا گیا
راجہ صاحب سے شیخ جی نے کہا
ممدوح خاص وعام ہیں لالہ نہال چند
موت چل دی میری مشت استخواں کو سونگھ کر
سید جلال الدین طہرانی ایڈیٹر حبل المتین
خلاف حق چو حریفاں زراہ میگروند
بعلالت 1905ء
1907ء آغاز تشریف آوری امیر حبیب اللہ خاں میں کہا گیا تھا
تلغرانے چو فرستادی زراہ لطف ومہر
دیکھی جو نمائش چکا کو
شروع سنہ میں آؤں گا واں تم اپنی ماں کو یہ لکھ چکے ہو
وفات سر سید مرحوم پر
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
اک دوست ہمارے ہیں تپ ان کو شدید آئی
دعوت نامہ بنام علامہ شبلی نعمانی
یہ کیا سبب ہے جو رہ رہ کے جی بھر آتا ہے
بحمد اللہ کہ حاصل آپ کو ہر ایک نعمت ہے
خوش پھر رہی ہے خلا خدا صبح عید ہے
لندن کو چھوڑ لڑکے اب ہند کی خبر لے
کانفرس احباب سے پر ہے
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
دھرم پور آج کیوں اس درجہ وقت حسرت و غم ہے
نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجئے
مرثیہ کنورعبدالعزیز
بنام منشی نثار حسین صاحب مہتمم پیام یار لکھنو
قصدیدہ مبارک باد جشن جو بلی ملکۂ وکٹویہ قیصرہ ہند
زمانے میں خوشی کا دور ہے عشرت کا ساماں ہے
خدا اے عشرتی تم کو ہمیشہ شادماں رکھے
آں نونہال خوبی ماہ دو ہفتۂ من
مولانائے کڑوی
پھرے اک مولوی صاحب جو دل دربار دہلی سے
ڈپٹی صاحب جو یہ ہیں زینت عبّاد جہاں
متفرقات
ترے پر تو سے اے جان جہاں ظلمت میں نور آیا
بائیس سال عمر کے متفرق اشعار
طے ہوئی بات نہ قیمت ابھی اس کی ٹھہری
متضاد گئے جو دو طرف سے دو تار
متعلق ٹرکی
معما
ممکن نہیں عبور مرا ان کے راز پر
افسوس ہے کہ مر گئے بک اب نہیں کوئی
شملہ بمقدار علم
جمعیت عاقلان قوم اچھی ہے
کانفرس
جو پائی ترک عبادات میں مثال بری
قطعہ
الایا ایہا الطفلک بجو راہت بہ ناولہا
حکیمانہ بزلہ سنجیاں
مخمس
بکری کو ساگ پات کا سودا نہیں رہا
مے کی طرف سے معذرت
قسمت وہ کہاں کہ اب وہ تقسیم نہیں
پر وہ اٹھا ہے ترقی کے یہ سامان تو ہیں
متفرق شعر ہیں قطعہ نہیں ہے
بابوجی کا وہ بت ہوا نرک
آئندہ اردو زبان کے نمونے
تین غزلیں
وہ حجاب ان کا آج تک نہ گیا
کچھ اور کلام
فخر یہ میں نے جو اشعار پڑے سعدی کے
لسان العصر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔