سرورق
عرض حال
ذہن میں جو گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
کوئی طاقت نہیں اب آپ کی طاقت کے سوا
وقت طلوع دیکھا وقت غروب دیکھا
نہ یہ رنگ طبع ہوتا نہ یہ دل میں جوش ہوتا
نہ کہہ کہ شمع سے پروانہ دور ہی اچھا
دنیا کا دیدنی وہ تماشا نکل گیا
کام کوئی مجھے باقی نہیں مرنے کے سوا
پیغام آرہاے ہے دل بے قرار کا
ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ جبیں کا
چھا گئی زردی چمن پر جلوۂ گل ہو چکا
یہ جلوۂ حق سبحان اللہ یہ نور ہدایت کیا کہنا
عمل ان سے ہوا رخصت عقیدوں میں خلل آیا
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
راز کل جاتا ہمارے نالہ و فریاد کا
مجھ سے غم پنہاں کا بیاں ہو نہیں سکتا
جان ہی لینے کی حکمت میں ترقی دیکھی
یقیں خدا کا بت نکتہ چیں نے کیوں نہ کیا
جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چکے گا جو رو رہا ہے وہ رو چکے گا
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
یہ کیا صورت ہوئی پیدا یہ ان کا ادعا کیسا
ہر اک کو موت کا اک دن پیام آئے گا
یہ پروانہ ہے جس نے دیدہ بازی کا ہنرجانا
کھلے گل بہار آئی چمن کا سماں بدلا
شور بلبل جوش گل موج نسیم انوار صبح
فریاد ہے اس کی طپش سے زبان پر
بقیہ صیغے بھی ماضی بنیں گے حال کے بعد
تہذیب کے خلاف ہے جو لائے راہ پر
محفوظ ذہن رکھیں ہر دور ہم کہاں تک
مذہب کا ہو کیونکر علم وعمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
ہیں ہوا پر کفر کے گیسو پریشاں ان دنوں
جن کے جلوے نہ سما سکتے تھے ایوانوں میں
کچھ آج علاج دل بیمار تو کرلیں
منہ دیکھتے ہیں حضرت احباب پی رہے ہیں
دل کو خود چھیڑے جو وہ ترچھی نظر تو کیا کروں
اک نقش مٹ گیا ہے روتے نشان پر ہیں
دنیا بدل کئی ہے وہ ہیں ہمیں کہ اب تک
وفا بتوں میں نہیں ہے خدا کو پائیں کہاں
ہم کب شریک ہوتے ہیں دنیا کی جنگ میں
بلبل دل کے لئے ہر داغ گلشن ہے یہاں
فانی ہے حسن بت یہ میں کیا جانتا ہوں
وہ شرارت سے مرے گھر سر شام آتے ہیں
میں نے دیکھی ہیں غزالوں کی بہت چالاکیاں
کچھ غم نہیں اگر میں مایوس ہو گیا ہوں
ہے دلیلوں سے نہیں پیدا یقیں کیونکر کریں
ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
کسی کو یاں بقا نہیں کوئی سدا رہا نہیں
بوسۂ زلف سیہ فام ملے گا کہ نہیں
جس خرابی کا نہیں باقی رہا غم کیا کریں
ادھر اترا چہرہ کوہ کن کا کوہ پر چڑھ کر
دہر میں سوختۂ گرمی بازار نہ ہو
قلزم کی تہ ٹٹولو یا ایرشپ میں جھولو
عاشق چشم سیہ مست تو زنہار نہ ہو
اے بتو بہر خدادرپئے آزار نہ ہو
ہو اگر ہمت عالی دل آگاہ کے ساتھ
دیکھئے ربط نسیم سحر و غنچۂ و گل
میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
یہ ابر زلف بہ برق نظر معاذاللہ
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میراحال دیکھ
یہ عمر یہ حسن اور نازو ادا اس پر یہ سنگار اللہ اللہ
کیا رہے دور فلک میں کوئی تمکین کے ساتھ
ہنر سے بھی فوائد ہم کو حاصل ہو نہیں سکتے
اسی مٹی کو دیکھ اکبرؔ اگر ذوق تعقل ہے
حلقے نہیں میں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہوا ہوں شاہ جنوں کی خوش انتظامی سے
نکل جائے دم غم سے جب آہ نکلے
دل زلف کے کوچے میں شاداں نہ رہا پھر کے
دشمن راحت جوانی میں طبیعت ہو گئی
نہ روح مذہب نہ قلب عاف نہ شاعرانہ زبان باقی
ہنگامہ کیوں برپا تھوڑی سی جوپی لی ہے
دیکھیں پروانے کو دعووں پہ ابھرنے والے
جلوۂ گل نے چمن میں مجھے بے چین کیا
مرید دھر ہوئے وضع مغربی کر لی
ذوق عرفاں جو نہ ہو بادہ پرستی اچھی
شکوۂ بیداد سے مجھ کو تو ڈرنا چاہئے
رہی نہ قلب میں قوت زمانہ سازی کی
چھڑا ہے راگ بھونرے کا ہوا کی ہے نئ دھن بھی
جوش میں لائے صبا جس کو وہ خون اچھا ہے
دور گردوں میں کسی نے میری غم خواری نہ کی
ایک صورت سرمدی ہے جس کا اتنا جوش ہے
نور باطن کی تجلی حرص دنیا میں کہاں
دشمن بھی ہیں افسوس ہیں یارب یہ ہے حالت مری
گرے جاتے ہیں ہم خود اپنی نظروں سے ستم یہ ہے
لن ترانی سے عیاں انوا پنہاں ہو گئے
بھلا دو میرے منہ سے بات اگر کوئی بری نکلی
بتوں سے میل خدا پر نظر یہ خوب کہی
حرف مطلب کی رسائی کیوں زباں تک ہو سکے
خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
ہوس پرستوں کو کیوں یہ کد ہے ان انقلابوں کی کیا سند ہے
فکر فردا میں عبث روز اک نئی تمہید ہے
نہ پالسی وہ رہی اور نہ آنجناب رہے
جانتی تھیں کہ ہنر شرط قاتل کے لئے
عدد فلک بھی رہا گردش زمیں بھی رہی
مرے عشق کے سوز میں ہو نہ کمی اجل آئے تو ایسی جفا نہ کرے
ترے سحر نظر سے ہوا یہ جنوں مرے دل کی تو اس میں خطا ہی نہ تھی
اللہ رے کامیابی اس چشم پر فسوں کی
شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
تجھے ان سے ہے سردوستی تری آرزو بھی عجیب ہے
پیش آجائے جو مسجد تو نمازی بھی سہی
آرزو دنیا میں کب نکلی اولوالابصار کی
ہستی کو اپنی سمجھیں بنیاد اپنی دیکھیں
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
نہ وہ بت کدے کہیں رہ گئے نہ وہ دلبری کو صنم رہے
کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
بہر عمل کوئی راہ اب اے خدا نہیں ہے
مہوشوں کی مہربانی ہو چکی
رشی ماشا سے نمبر پائیں کیوں خیرالامم پہلے
خیال دوڑا نگاہ اٹھی قلم نے لکھا زبان بولی
نہیں ہے خضر کی حاجت جو شوق دل محرک ہے
خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
آپ سے بے حد محبت ہے مجھے
یہ دنیا رنج وراحت کا غلط اندازہ کرتی ہے
کامیابی خارج ازملت سے ناکامی بھلی
فساد اٹھتا ہے فتنہ آپ کی محفل سے اٹھتا ہے
عجب فتنہ خرام نازک قاتل سے اٹھتا ہے
حکیمانہ بذلہ سنجیاں
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
مغرب کی لعبتوں نے اسٹیج کو سنوارا
ذرہ ذرہ سے لگاوٹ کی ضرورت ہے یہاں
پھرتے ہیں تذکرۂ کالج و اسکول کے ساتھ
گھر سے جب پڑھ لکھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں
نئی اور پرانی روشنی کی مکالمت ، نئی روشنی کی تعلی
بے ضرورت نظر آتا ہے تعلی کا یہ فیر
پرانی روشنی کا جواب
زباں اکبرؔ کی اس طرز سخن پر ناز کرتی ہے
افسردگی پر اس کے لگا دل جو تڑپنے
مسمریزم کے عمل میں دہر اب مشغول ہے
ملک پر تاثیر چشم ووٹ طاری ہوگئی
شیعہ و سنی میں جنگ اک دھوم دھامی ہو گئی
شوق ہے پن کا نہ طاقت پاپ کی
کیا تعجب ہے دیا ووٹ جو لالہ کے لئے
بحر آزادی میں یہ کیسا تموج ہو گیا
کچھ اور بزلہ سنجیاں
مرا کینہ نتیجہ ہے جفائے چرخ گرداں کا
ہو آج خارج جو میرا سوال
مبارک ہو فلک کو مائل جوروستم رہنا
متفرقات
میں نے کہا کہ اب تو مسجد سے ہے مجھے کد
تضمین بر غزل حافظ
واقف سرخفی حافظ اسرار بماند
کوئی کہتا ہے رکھو صاحب سے میل
ہوائے جمع بہردعا وسلام
ڈیپوٹیشن کی سرسبزی جو دیکھی اس نے شملے میں
صلح رہی اب نہ گوارا ہمیں
یہ تو مشکل ہے کہ آپ اسپیچ دیں ہم چپ رہیں
دلادے ہم کو بھی صاحب سے لائلٹی کا پروانہ
الحاد کی بنیاد ہے جس چیز نے ڈالی
مجھ گدا کو کر دیارخصت جو دے کر عطر پان
کیوں کر کہوں طریق عمل ان کا نیک ہے
حسب فرمایش اڈیٹر نظام المشایخ
نغمۂ قومی کا مطرب آج کل ہے ہرسٹی
عزم کر تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لندن سے دہلی آئے ہیں دم یوم کے لئے
وہ دلی احباب وہ مسجد کے ساتھی اب کہاں
ضمیمۂ متفرقات
اسے اکبرؔ ہمارے دل کا تڑپانا نہیں آتا
بلینک ورس یعنی بلا قافیہ
اجسام کے فنون کا کرتے ہیں خود عمل
عبث بالکل ہے حال دل کسی سے آج کل کہنا
ساز قومی پر جو ظاہر ان کا ایما ہوگیا
ضمیمۂ غزل
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
جو اب شیخ میں یہ تو کبھی نہیں کہا جاتا
کیسے وعدے تھے یہ اس کے سرراہ جناب
سامنا اک نگہ ناز کا ہے جان کی خیر
کس طرح پردے میں رہے اے شیخ عورت اک طرف
معنی کا حس نہیں تو ترے دل میں کچھ نہیں
لطف چاہو اک بت نوخیز کو راضی کرو
دل ترا ہو کہ نہ ہو ہوش رباراز کے ساتھ
طفل دل کو الفت زلف بتاں اک کھیل ہے
دلوں کو لذت معنی کا اب حس ہی نہیں باقی
ڈاکٹر مینارڈ ہیں اپنے ہنر میں لاجواب
متعلق امور خاص
آفت جاں ہے تجلی آتش رخسار کی
مسلم ہے جب سب کو الا قلیلا
الایا ایہا الساقی بدہ دوئے بمحفلہا
قطعات و مثنویات
بے سبب زیں لائبریری ہامرا اکراہ نیست
جواڈورڈ نے چھوڑا شاہی کا چارج
برائے رسالہ زمانہ
چل بسے وہ جنہیں مقدور تھا خود داری کا
فرض عورت پر نہیں ہے چار دیواری کی قید
دربار 1911ء
دیکھ آئے ہم بھی دو دن رہ کے دہلی کی بہار
میں نے مرشد سے کیا جاکر یہ اک دن التماس
دربار دہلی اک طرف لوکل مجالس اک طرف
دو تیتریاں ہوا میں اڑتی دیکھیں
شاہ کابل آں سراج ملت وروش خرد
جوش قومی کا اظہار ہے ہر شام و پگاہ
بہت ہی عمدہ ہے اے ہم نشین برٹش راج
شکوہ جلوۂ قیصر عیاں ہے
جن بزرگوں کی طلب سابق ودیرینہ ہے
دکھائے گی نیا اب رنگ ٹرکی
جنگ ٹرکی اور اٹلی کے متعلق رائیں
بدلی وہ ہوا وہ سنبل و گل رخصت
یلد یز سد راہ مخالف کنوں نماند
حالت ایں چیست کہ من پیش نظری بینم
کیا بحت ہے ایران سے یا ترک و عرب سے
ہم کو سنبھالتی ہے ملت جولا بنائے
حصہ سوم
جب یہ دیکھا کہ جہاں میں کوئی میرا نہ رہا
یہ عمر کب تک وفا کرے گا زمانہ کب تک جفا کرے گا
کروں کیا غم کہ دنیا سے ملا کیا
حال دل میں سنا نہیں سکتا
ہستی بے ثبات نے جان بشر کو کیا دیا
ہے دو روزہ قیام سرائے فنا نہ بہت کی خوشی ہے نہ کم کا گلا
راز ہستی کو کوئی آج تلک پا نہ سکا
نظر کو ذوق معرفت کا کرے تو شوق اضطراب پیدا
سعادت ہے تری دھن میں خودی سے بیخبر ہونا
اکبر نہ تھما بت خانے میں زحمت بھی ہوئی اور زر بھی گیا
جلوہ عیاں ہےقدرت پروردگار کا
زباں سے بے تعلق دل کو بزم یار میں دیکھا
کیا عجب ہو گئے مجھ سے مرے دمساز جدا
منتشر ذروں کو یکجائی کا جوش آیا تو کیا
کرتے پھرتے ہو یہی تحقیق کس نے کیا کہا
خدا کی ہستی کو یاد رکھنا اور اپنی ہستی کو بھول جانا
ایک ساعت کی یہاں کہہ نہیں سکتا کوئی
رکھ مرگ کو محبوب تامل نہیں اچھا
دل زخمی سے خوں اے ہم نشیں کچھ کم نہیں نکلا
مزا آسودگی نفس کا کتنا ہی اچھا ہو
امتیاز حسرت ورنج والم جاتا رہا
کہاں ہیں ہم میں اب ایسے سالک کہ راہ ڈھونڈھی قدم اٹھایا
تھا زور کبھی خود بینی کا کرتے ہی تھے کیا ہم ہم کے سوا
جہاں میں حال مرا اس قدر زبوں ہوا
گھٹتا جاتا ہے مری نظروں سے مقدور مرا
خوشی تو ایسی کوئی نہ دیکھی کہ اس کی مستی زیادہ رہتی
یہ بت مجھے نہیں دیتے امان شکر خدا
خلقت کے لئے وضع قانون ہی اچھا
بساط حس ہے کم انساں ہوا ہے ناتواں پیدا
اے فلک دل کی ترقی کا جو ساماں ہوتا
ہنس کے دنیا میں مرا کوئی کوئی روکے مرا
مرتبہ دنیا میں اس سے بھی سوا ہو آپ کا
لگاوٹوں سے یہ دل لبھانا فریب دے کر تباہ کرنا
شکل تسکیں مرے دل کو مرے اللہ دکھا
کل مدح مری وہ کرتے تھے اور بزم میں میں شرمندہ تھا
مذہبی جنگ ہے اب دنیا کے لئے
اگرچہ تلخ ملا جام عمر فانی کا
حسن دیکھو بتان کاشی کا
کیا جرم ہے یہ حال تو جانے خدائے موت
زباں ہے ناتوانی سے اگر بند
زبان بند ہے اس عہد پر نگاہ کے بعد
تو وضع پر اپنی قائم رہ قدرت کی مگر تحقیر نہ کر
مجھ کو جائز نہیں یہ عرض کہ بیداد نہ کر
فکر منزل ہو گئی ان کا گزرنا دیکھ کر
یہ سوز داغ دل یہ شد رنج و الم کب تک
دست بستہ پاشکستہ دل فسردہ لب پہ مہر
مجھ سے رکتی ہے تو میں شیدائے دنیا کیوں رہوں
میں جس کے خامۂ قدرت کا نقش حرت افزا ہوں
اپنی مرضی کے موافق دہر کو کیونکر کروں
یہ اختلاف صورت فطرت کی مستیاں ہیں
ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابی نظر ہیں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
یہ جتنے ذرے جہاں فانی کے اتنی شکلوں میں جلوہ گر ہیں
اب میں سرگرمی سے کوئی سعی کرتا ہی نہیں
قوت سیر جو حاصل ہو تو دیوار نہ بن
ہے ہم سے چرخ بر سرکیں غور کیا کریں
وہ تھے آئین ملت لاکھوں ہی کو ایک کرتے تھے
خدا کے نام کا ہے احترام عالم میں
وہ چاہتے ہیں اس کو دم دے کے ہیں بلاؤں
سنی سنائی کہانیاں ہیں زبان کی خوش بیانیاں ہیں
ہرگز نہ چلیں بے دینی سے اور شرک کی ضد پر تن جائیں
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
جلوۂ ساقی ومے جان لئے لیتے ہیں
فلک کی گردش سے آج ہم کیا خراب و خستہ بڑے بڑے ہیں
فوج خدا نہیں تو دعا ہی کے ساتھ ہیں
درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو
حال دل کس سے کہوں پوچھنے والا بھی تو ہو
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
پانوں پھیلاؤ نہ اتنا بے خطر اے خود سرو
ہسٹری کی کیا ضرورت دین کی تعلیم کو
کیا جلوے ہیں اس کے پیش نظر سبحان اللہ سبحان اللہ
اکبرؔ اس فطرت خاموش کو بے حس نہ سمجھ
زور بازو نہیں تو کیا اسپیچ
کیا ہے جس نے اس عالم کو پیدا اس کو کیا کہئے
عبث اس زندگی پر غافلوں کا فخر کرنا ہے
خدا کا نام روشن ہے خدا کا نام پیارا ہے
نظر وہ ہے جو دل پر نقش حسن مدعا کھینچے
خزاں آتی ہی ہے اور خاک میں ملنا ہی پڑتا ہے
بس یہی کا سب کو کرنا ہے
علم ابتدا کا ہے نہ خبر انتہا کی ہے
ہو مجھ پہ بتوں کی چشم کرم دل کو یہ مطلب اصلا نہ رہی
نگاہ ظاہر طریق عرفاں میں سوئے انکار کیوں لپکے
یہی خصائل طبیعت رہی تو قسمت یہی رہے گی
کیا خبر تھی کہ گناہوں سے ہے عزت میری
اس عہد میں شاعر کے لئے قوت نہیں ہے
ہماری خاطر ہو جمع کیونکر کہ یاس رہ رہ کے ٹوٹتی ہے
تہذیب دم بخود ہے طمع کی گھسیٹ سے
سینے میں دل آگاہ جو ہو کچھ غم نہ کرو ناشاد سہی
گو سب کو ہے تسلیم کہ معبود وہی ہے
کیا پوچھتے ہو طوق غلامی کو کدھر ہے
جب دین نہ ہو اصلاح بشر دنیا میں پھر آخر کون کرے
عشق کہتا ہے بیان حال کی پروانہ کر
امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
عشق ہی میں اس کے حسن پاک کا اظہار ہے
رشتۂ توحید سے لپٹا نہیں تار نظر
جب آنکھ کو کھلنے میں ہو جھپک جب منہ میں زباں جنبش سے ڈرے
کس قدر دلکش نگاہ ساقیٔ مخمور ہے
جنون عشق سے انسان کی طینت سنورتی ہے
اب کیا میں طلب دنیا کی کروں کیوں زحمت اٹھاؤں اس کے لئے
شامت آئی ہے یہ مسلم ہے
خود گوار نہیں فریاد کا یہ جوش مجھے
سخن میں یوں تو بہت موقعٔ تکلف ہے
جلوہ گر ہے حسن بت وقت اضطراب دل کا ہے
بزم ہستی ہے طلسم بے مثال زندگی
بجائے مرحبا و آفریں فریاد اتھی دل سے
جینے میں یہ غفلت فطرت نے کیوں طبع بشر میں داخل کی
کہاں ثبات کا اس کو خیال ہوتا ہے
صبر رہ جاتا ہے اور عشق کی چل جاتی ہے
طبیعت تیری انجنیر کے آگے کیوں بدلتی ہے
میرا مسلک کچھ جدا ہے شیخ کے اسلام سے
صدیوں فلاسوفی کی چناں اور چنیں رہی
ہے منع ملاقات مری ہم نفسوں سے
وہی الم وہی سوز جگر فغاں بھی وہی
اگرچہ قدرت ہے بولنے کی مگر فسردہ دل حزیں ہے
نظر نثار نقوش ظاہر یہ ہوش دنیا کا پاسباں ہے
زبان و لفظ کا جلوہ فقط مد بیاں تک ہے
کرگا قدر جو دنیا میں اپنے آنے کی
کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے
وعظ الحاد کہو واہ نہیں ہے نہ سہی
جس کے سینے میں دل آگاہ ہے
جلائے جب شعلہ تحیر تو ذہن ڈھونڈھے پناہ کس کی
ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لئے
نہ تعلق ہے کسی سے نہ شناسائی ہے
اب میری زندگی میں نہیں نور انبساط
فغان و آہ کی لذت جو دل ہلے تو ملے
ہند میں تو مذہبی حالت ہے اب ناگفتہ بہ
اس انجمن میں آکر راحت نصیب کس کو
جہاں تک اپنے لئے ہوں وہ میں کی مستی ہے
ادھر فریاد بلبل ہے کہ یہ سب رنگ فانی ہیں
مشتاق نہیں زندگی کے
دامن گل پھیل کر اس باغ سے کیا لے گئے
غفلتوں کا خوب دیکھا ہے تماشا دہر میں
بہار بے بقا پر ناز کیسا اور خوشی کیسی
دنیا کا ذرا یہ رنگ تو دیکھ ایک ایک کو کھائے جاتا ہے
ابتداءً عالم ہستی میں میں بیہوش تھا
قطعات
جس سے میری زندگی تھی مرگیا کیوں مر سکا
فریاد مجنونانہ ، مرگ ہاشم پر
اک زمانہ تھا کہ مجھ کو اپنے دل پر ناز تھا
مرگ ہاشم 1913ء
میں نے کہا یہ اپنے خیال خضر سے آج
طبع کا شغل ہو جو پولیٹکل
ملانے دیں گے مذاہب کبھی نہ ایسے سر
حاکم دل بن گئی ہیں یہ تھیئٹر والیاں
ہم کو نئی ورش کے حلقے جکڑ رہے ہیں
اللہ کو جگہ دے تو اپنے دل میں اکبر
آدم چھٹے ہشت سے گیہوں کے واسطے
زمیں سےفیض نامحدود کا کیونکر تحمل ہو
اپنی محبت کو اپنا آنر سمجھو
اے شوق وضع مغربی درما فگندی ابتری
عاشقی ان کی نہیں ہے عقل سے بالکل جدا
مثںویات
خوب اک ناصح مشفق نے یہ ارشاد کیا
اگرچہ ہے ذوق تمکنت کا لحاظ رکھتا ہوں سلطنت کا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو ابھارا
کیوں نہ اپنے دل کو ہو ان سے ملاپ
اونٹ نے برگڈ میں کل گردن اٹھائی تھی ذرا
رباعیات
کیا فرض ہے یہ کہ ہم ڈھٹائی سے رہیں
دور کوہ لب ساحل سے جو گزری اک موج
ووٹ بازی
درخت جڑ پہ ہے قائم تو استوار بھی ہے
جب اک بھائی تھے اس منصب پہ ممتاز
سمجھا رہے تھے مجھ کو بکٹ کی وہ گردشیں
منشی کہ کلرک یا زمیندار
یہیں کے پیدا یہیں کے رنگت یہیں کی بولی یہیں کا کھانا
نیچو کو ہوئی خواہش زن کی اور نفس نے چاہا رشک پری
مذہب ہے امر قومی سمجھو نہ فعل ذاتی
حافظ شیراز کا کیا پوچھنا تھے خوش بیاں
اتحاد مذہبی اہل جہاں میں ہے محال
دسمبر میں وہ دوڑے بے تحاشا
یہ عزم تراسعی سے دمساز ہو کیوں کر
ادھر برگڈ کا ملا ہے ادھر مندر کا صوفی ہے
فرزند مہاراجہ کشن پرشاد وزیر اعظم حیدر آباد دکن کی موت پر
رحلت فرزند سے ہیں راجہ صاحب درد مند
تھا دل حسرت بھرا ارمان میں
علامہ شبلی نعمانی
مشتاق ترا اکبر رنجور بہت ہے
ہیں حضرت ساحر آج اک حصن کمال
سر علی محمد صاحب راجہ محمود آباد
سید فضل الحسن حسر موہانی
فخر ملت تھے مہدی مرحوم
حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں
مہدی صاحب کی رحلت پر
والدہ ڈاکٹر محمد اقبال کی رحلت پر
چوک کی مسجد الہ آباد میں ممتاز ہے
آغوش سے سدھارا مجھ سے یہ کہنے والا
مرثیہ ہاشم مرحوم
آگرہ کا ایک مقدمہ
حال مسز کلاک و مسٹر فلم کھلا
الف دین صاحب وکیل کیمبلپور کی کتاب
الف دین نے خوب لکھی کتاب
مرے عزیز ہیں شیعہ میں کس طرح یہ کہوں
خواجہ حسن نظامی
حسن نظامی کو میں نے دیکھا شریف خصلت فقیر طینت
فغاں کہ سوخت زغم جان افتخار حسین
نور باطن بڑھ گیا اعجوبۂ اسرار سے
پیشین گوئی
ماجد کو آپ سمجھیں بیگانۂ طریقت
فضل ہو اللہ کا ہوں جمع سالے سالیاں
ذکر رسول پاک ہے فخر زبان انس وجن
ترجیع بند
نگرانیٔ مراحل کبھی ایسی تو نہ تھی
تعلیم نسواں
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
نعت
مدیح سرور کونین میں خامہ اٹھاتا ہوں
معانی ان کے روشن تھے اندھیرے میں اجالے میں
الا یاایھاالساقی مکن تصنیف ناول ہا
متفرقات
اس چیز کا کہا کہنا اکبرؔ تھا جس نے دلوں کو نیک کیا
گئے برہمن کے پاس لے کر جو اپنے جھگڑے کو شیعہ سنی
در بحر زندگی ولم آہے کشید رفت
ضمیمہ
ابھی وہ روشنی میں شمع کی کاغذ پہ پھرتا تھا
اس وقت مولویت صوفی سے بھڑ گئی ہے
سرورق
عرض حال
ذہن میں جو گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
کوئی طاقت نہیں اب آپ کی طاقت کے سوا
وقت طلوع دیکھا وقت غروب دیکھا
نہ یہ رنگ طبع ہوتا نہ یہ دل میں جوش ہوتا
نہ کہہ کہ شمع سے پروانہ دور ہی اچھا
دنیا کا دیدنی وہ تماشا نکل گیا
کام کوئی مجھے باقی نہیں مرنے کے سوا
پیغام آرہاے ہے دل بے قرار کا
ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ جبیں کا
چھا گئی زردی چمن پر جلوۂ گل ہو چکا
یہ جلوۂ حق سبحان اللہ یہ نور ہدایت کیا کہنا
عمل ان سے ہوا رخصت عقیدوں میں خلل آیا
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
راز کل جاتا ہمارے نالہ و فریاد کا
مجھ سے غم پنہاں کا بیاں ہو نہیں سکتا
جان ہی لینے کی حکمت میں ترقی دیکھی
یقیں خدا کا بت نکتہ چیں نے کیوں نہ کیا
جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چکے گا جو رو رہا ہے وہ رو چکے گا
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
یہ کیا صورت ہوئی پیدا یہ ان کا ادعا کیسا
ہر اک کو موت کا اک دن پیام آئے گا
یہ پروانہ ہے جس نے دیدہ بازی کا ہنرجانا
کھلے گل بہار آئی چمن کا سماں بدلا
شور بلبل جوش گل موج نسیم انوار صبح
فریاد ہے اس کی طپش سے زبان پر
بقیہ صیغے بھی ماضی بنیں گے حال کے بعد
تہذیب کے خلاف ہے جو لائے راہ پر
محفوظ ذہن رکھیں ہر دور ہم کہاں تک
مذہب کا ہو کیونکر علم وعمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
ہیں ہوا پر کفر کے گیسو پریشاں ان دنوں
جن کے جلوے نہ سما سکتے تھے ایوانوں میں
کچھ آج علاج دل بیمار تو کرلیں
منہ دیکھتے ہیں حضرت احباب پی رہے ہیں
دل کو خود چھیڑے جو وہ ترچھی نظر تو کیا کروں
اک نقش مٹ گیا ہے روتے نشان پر ہیں
دنیا بدل کئی ہے وہ ہیں ہمیں کہ اب تک
وفا بتوں میں نہیں ہے خدا کو پائیں کہاں
ہم کب شریک ہوتے ہیں دنیا کی جنگ میں
بلبل دل کے لئے ہر داغ گلشن ہے یہاں
فانی ہے حسن بت یہ میں کیا جانتا ہوں
وہ شرارت سے مرے گھر سر شام آتے ہیں
میں نے دیکھی ہیں غزالوں کی بہت چالاکیاں
کچھ غم نہیں اگر میں مایوس ہو گیا ہوں
ہے دلیلوں سے نہیں پیدا یقیں کیونکر کریں
ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
کسی کو یاں بقا نہیں کوئی سدا رہا نہیں
بوسۂ زلف سیہ فام ملے گا کہ نہیں
جس خرابی کا نہیں باقی رہا غم کیا کریں
ادھر اترا چہرہ کوہ کن کا کوہ پر چڑھ کر
دہر میں سوختۂ گرمی بازار نہ ہو
قلزم کی تہ ٹٹولو یا ایرشپ میں جھولو
عاشق چشم سیہ مست تو زنہار نہ ہو
اے بتو بہر خدادرپئے آزار نہ ہو
ہو اگر ہمت عالی دل آگاہ کے ساتھ
دیکھئے ربط نسیم سحر و غنچۂ و گل
میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
یہ ابر زلف بہ برق نظر معاذاللہ
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میراحال دیکھ
یہ عمر یہ حسن اور نازو ادا اس پر یہ سنگار اللہ اللہ
کیا رہے دور فلک میں کوئی تمکین کے ساتھ
ہنر سے بھی فوائد ہم کو حاصل ہو نہیں سکتے
اسی مٹی کو دیکھ اکبرؔ اگر ذوق تعقل ہے
حلقے نہیں میں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہوا ہوں شاہ جنوں کی خوش انتظامی سے
نکل جائے دم غم سے جب آہ نکلے
دل زلف کے کوچے میں شاداں نہ رہا پھر کے
دشمن راحت جوانی میں طبیعت ہو گئی
نہ روح مذہب نہ قلب عاف نہ شاعرانہ زبان باقی
ہنگامہ کیوں برپا تھوڑی سی جوپی لی ہے
دیکھیں پروانے کو دعووں پہ ابھرنے والے
جلوۂ گل نے چمن میں مجھے بے چین کیا
مرید دھر ہوئے وضع مغربی کر لی
ذوق عرفاں جو نہ ہو بادہ پرستی اچھی
شکوۂ بیداد سے مجھ کو تو ڈرنا چاہئے
رہی نہ قلب میں قوت زمانہ سازی کی
چھڑا ہے راگ بھونرے کا ہوا کی ہے نئ دھن بھی
جوش میں لائے صبا جس کو وہ خون اچھا ہے
دور گردوں میں کسی نے میری غم خواری نہ کی
ایک صورت سرمدی ہے جس کا اتنا جوش ہے
نور باطن کی تجلی حرص دنیا میں کہاں
دشمن بھی ہیں افسوس ہیں یارب یہ ہے حالت مری
گرے جاتے ہیں ہم خود اپنی نظروں سے ستم یہ ہے
لن ترانی سے عیاں انوا پنہاں ہو گئے
بھلا دو میرے منہ سے بات اگر کوئی بری نکلی
بتوں سے میل خدا پر نظر یہ خوب کہی
حرف مطلب کی رسائی کیوں زباں تک ہو سکے
خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
ہوس پرستوں کو کیوں یہ کد ہے ان انقلابوں کی کیا سند ہے
فکر فردا میں عبث روز اک نئی تمہید ہے
نہ پالسی وہ رہی اور نہ آنجناب رہے
جانتی تھیں کہ ہنر شرط قاتل کے لئے
عدد فلک بھی رہا گردش زمیں بھی رہی
مرے عشق کے سوز میں ہو نہ کمی اجل آئے تو ایسی جفا نہ کرے
ترے سحر نظر سے ہوا یہ جنوں مرے دل کی تو اس میں خطا ہی نہ تھی
اللہ رے کامیابی اس چشم پر فسوں کی
شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
تجھے ان سے ہے سردوستی تری آرزو بھی عجیب ہے
پیش آجائے جو مسجد تو نمازی بھی سہی
آرزو دنیا میں کب نکلی اولوالابصار کی
ہستی کو اپنی سمجھیں بنیاد اپنی دیکھیں
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
نہ وہ بت کدے کہیں رہ گئے نہ وہ دلبری کو صنم رہے
کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
بہر عمل کوئی راہ اب اے خدا نہیں ہے
مہوشوں کی مہربانی ہو چکی
رشی ماشا سے نمبر پائیں کیوں خیرالامم پہلے
خیال دوڑا نگاہ اٹھی قلم نے لکھا زبان بولی
نہیں ہے خضر کی حاجت جو شوق دل محرک ہے
خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
آپ سے بے حد محبت ہے مجھے
یہ دنیا رنج وراحت کا غلط اندازہ کرتی ہے
کامیابی خارج ازملت سے ناکامی بھلی
فساد اٹھتا ہے فتنہ آپ کی محفل سے اٹھتا ہے
عجب فتنہ خرام نازک قاتل سے اٹھتا ہے
حکیمانہ بذلہ سنجیاں
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
مغرب کی لعبتوں نے اسٹیج کو سنوارا
ذرہ ذرہ سے لگاوٹ کی ضرورت ہے یہاں
پھرتے ہیں تذکرۂ کالج و اسکول کے ساتھ
گھر سے جب پڑھ لکھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں
نئی اور پرانی روشنی کی مکالمت ، نئی روشنی کی تعلی
بے ضرورت نظر آتا ہے تعلی کا یہ فیر
پرانی روشنی کا جواب
زباں اکبرؔ کی اس طرز سخن پر ناز کرتی ہے
افسردگی پر اس کے لگا دل جو تڑپنے
مسمریزم کے عمل میں دہر اب مشغول ہے
ملک پر تاثیر چشم ووٹ طاری ہوگئی
شیعہ و سنی میں جنگ اک دھوم دھامی ہو گئی
شوق ہے پن کا نہ طاقت پاپ کی
کیا تعجب ہے دیا ووٹ جو لالہ کے لئے
بحر آزادی میں یہ کیسا تموج ہو گیا
کچھ اور بزلہ سنجیاں
مرا کینہ نتیجہ ہے جفائے چرخ گرداں کا
ہو آج خارج جو میرا سوال
مبارک ہو فلک کو مائل جوروستم رہنا
متفرقات
میں نے کہا کہ اب تو مسجد سے ہے مجھے کد
تضمین بر غزل حافظ
واقف سرخفی حافظ اسرار بماند
کوئی کہتا ہے رکھو صاحب سے میل
ہوائے جمع بہردعا وسلام
ڈیپوٹیشن کی سرسبزی جو دیکھی اس نے شملے میں
صلح رہی اب نہ گوارا ہمیں
یہ تو مشکل ہے کہ آپ اسپیچ دیں ہم چپ رہیں
دلادے ہم کو بھی صاحب سے لائلٹی کا پروانہ
الحاد کی بنیاد ہے جس چیز نے ڈالی
مجھ گدا کو کر دیارخصت جو دے کر عطر پان
کیوں کر کہوں طریق عمل ان کا نیک ہے
حسب فرمایش اڈیٹر نظام المشایخ
نغمۂ قومی کا مطرب آج کل ہے ہرسٹی
عزم کر تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لندن سے دہلی آئے ہیں دم یوم کے لئے
وہ دلی احباب وہ مسجد کے ساتھی اب کہاں
ضمیمۂ متفرقات
اسے اکبرؔ ہمارے دل کا تڑپانا نہیں آتا
بلینک ورس یعنی بلا قافیہ
اجسام کے فنون کا کرتے ہیں خود عمل
عبث بالکل ہے حال دل کسی سے آج کل کہنا
ساز قومی پر جو ظاہر ان کا ایما ہوگیا
ضمیمۂ غزل
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
جو اب شیخ میں یہ تو کبھی نہیں کہا جاتا
کیسے وعدے تھے یہ اس کے سرراہ جناب
سامنا اک نگہ ناز کا ہے جان کی خیر
کس طرح پردے میں رہے اے شیخ عورت اک طرف
معنی کا حس نہیں تو ترے دل میں کچھ نہیں
لطف چاہو اک بت نوخیز کو راضی کرو
دل ترا ہو کہ نہ ہو ہوش رباراز کے ساتھ
طفل دل کو الفت زلف بتاں اک کھیل ہے
دلوں کو لذت معنی کا اب حس ہی نہیں باقی
ڈاکٹر مینارڈ ہیں اپنے ہنر میں لاجواب
متعلق امور خاص
آفت جاں ہے تجلی آتش رخسار کی
مسلم ہے جب سب کو الا قلیلا
الایا ایہا الساقی بدہ دوئے بمحفلہا
قطعات و مثنویات
بے سبب زیں لائبریری ہامرا اکراہ نیست
جواڈورڈ نے چھوڑا شاہی کا چارج
برائے رسالہ زمانہ
چل بسے وہ جنہیں مقدور تھا خود داری کا
فرض عورت پر نہیں ہے چار دیواری کی قید
دربار 1911ء
دیکھ آئے ہم بھی دو دن رہ کے دہلی کی بہار
میں نے مرشد سے کیا جاکر یہ اک دن التماس
دربار دہلی اک طرف لوکل مجالس اک طرف
دو تیتریاں ہوا میں اڑتی دیکھیں
شاہ کابل آں سراج ملت وروش خرد
جوش قومی کا اظہار ہے ہر شام و پگاہ
بہت ہی عمدہ ہے اے ہم نشین برٹش راج
شکوہ جلوۂ قیصر عیاں ہے
جن بزرگوں کی طلب سابق ودیرینہ ہے
دکھائے گی نیا اب رنگ ٹرکی
جنگ ٹرکی اور اٹلی کے متعلق رائیں
بدلی وہ ہوا وہ سنبل و گل رخصت
یلد یز سد راہ مخالف کنوں نماند
حالت ایں چیست کہ من پیش نظری بینم
کیا بحت ہے ایران سے یا ترک و عرب سے
ہم کو سنبھالتی ہے ملت جولا بنائے
حصہ سوم
جب یہ دیکھا کہ جہاں میں کوئی میرا نہ رہا
یہ عمر کب تک وفا کرے گا زمانہ کب تک جفا کرے گا
کروں کیا غم کہ دنیا سے ملا کیا
حال دل میں سنا نہیں سکتا
ہستی بے ثبات نے جان بشر کو کیا دیا
ہے دو روزہ قیام سرائے فنا نہ بہت کی خوشی ہے نہ کم کا گلا
راز ہستی کو کوئی آج تلک پا نہ سکا
نظر کو ذوق معرفت کا کرے تو شوق اضطراب پیدا
سعادت ہے تری دھن میں خودی سے بیخبر ہونا
اکبر نہ تھما بت خانے میں زحمت بھی ہوئی اور زر بھی گیا
جلوہ عیاں ہےقدرت پروردگار کا
زباں سے بے تعلق دل کو بزم یار میں دیکھا
کیا عجب ہو گئے مجھ سے مرے دمساز جدا
منتشر ذروں کو یکجائی کا جوش آیا تو کیا
کرتے پھرتے ہو یہی تحقیق کس نے کیا کہا
خدا کی ہستی کو یاد رکھنا اور اپنی ہستی کو بھول جانا
ایک ساعت کی یہاں کہہ نہیں سکتا کوئی
رکھ مرگ کو محبوب تامل نہیں اچھا
دل زخمی سے خوں اے ہم نشیں کچھ کم نہیں نکلا
مزا آسودگی نفس کا کتنا ہی اچھا ہو
امتیاز حسرت ورنج والم جاتا رہا
کہاں ہیں ہم میں اب ایسے سالک کہ راہ ڈھونڈھی قدم اٹھایا
تھا زور کبھی خود بینی کا کرتے ہی تھے کیا ہم ہم کے سوا
جہاں میں حال مرا اس قدر زبوں ہوا
گھٹتا جاتا ہے مری نظروں سے مقدور مرا
خوشی تو ایسی کوئی نہ دیکھی کہ اس کی مستی زیادہ رہتی
یہ بت مجھے نہیں دیتے امان شکر خدا
خلقت کے لئے وضع قانون ہی اچھا
بساط حس ہے کم انساں ہوا ہے ناتواں پیدا
اے فلک دل کی ترقی کا جو ساماں ہوتا
ہنس کے دنیا میں مرا کوئی کوئی روکے مرا
مرتبہ دنیا میں اس سے بھی سوا ہو آپ کا
لگاوٹوں سے یہ دل لبھانا فریب دے کر تباہ کرنا
شکل تسکیں مرے دل کو مرے اللہ دکھا
کل مدح مری وہ کرتے تھے اور بزم میں میں شرمندہ تھا
مذہبی جنگ ہے اب دنیا کے لئے
اگرچہ تلخ ملا جام عمر فانی کا
حسن دیکھو بتان کاشی کا
کیا جرم ہے یہ حال تو جانے خدائے موت
زباں ہے ناتوانی سے اگر بند
زبان بند ہے اس عہد پر نگاہ کے بعد
تو وضع پر اپنی قائم رہ قدرت کی مگر تحقیر نہ کر
مجھ کو جائز نہیں یہ عرض کہ بیداد نہ کر
فکر منزل ہو گئی ان کا گزرنا دیکھ کر
یہ سوز داغ دل یہ شد رنج و الم کب تک
دست بستہ پاشکستہ دل فسردہ لب پہ مہر
مجھ سے رکتی ہے تو میں شیدائے دنیا کیوں رہوں
میں جس کے خامۂ قدرت کا نقش حرت افزا ہوں
اپنی مرضی کے موافق دہر کو کیونکر کروں
یہ اختلاف صورت فطرت کی مستیاں ہیں
ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابی نظر ہیں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
یہ جتنے ذرے جہاں فانی کے اتنی شکلوں میں جلوہ گر ہیں
اب میں سرگرمی سے کوئی سعی کرتا ہی نہیں
قوت سیر جو حاصل ہو تو دیوار نہ بن
ہے ہم سے چرخ بر سرکیں غور کیا کریں
وہ تھے آئین ملت لاکھوں ہی کو ایک کرتے تھے
خدا کے نام کا ہے احترام عالم میں
وہ چاہتے ہیں اس کو دم دے کے ہیں بلاؤں
سنی سنائی کہانیاں ہیں زبان کی خوش بیانیاں ہیں
ہرگز نہ چلیں بے دینی سے اور شرک کی ضد پر تن جائیں
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
جلوۂ ساقی ومے جان لئے لیتے ہیں
فلک کی گردش سے آج ہم کیا خراب و خستہ بڑے بڑے ہیں
فوج خدا نہیں تو دعا ہی کے ساتھ ہیں
درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو
حال دل کس سے کہوں پوچھنے والا بھی تو ہو
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
پانوں پھیلاؤ نہ اتنا بے خطر اے خود سرو
ہسٹری کی کیا ضرورت دین کی تعلیم کو
کیا جلوے ہیں اس کے پیش نظر سبحان اللہ سبحان اللہ
اکبرؔ اس فطرت خاموش کو بے حس نہ سمجھ
زور بازو نہیں تو کیا اسپیچ
کیا ہے جس نے اس عالم کو پیدا اس کو کیا کہئے
عبث اس زندگی پر غافلوں کا فخر کرنا ہے
خدا کا نام روشن ہے خدا کا نام پیارا ہے
نظر وہ ہے جو دل پر نقش حسن مدعا کھینچے
خزاں آتی ہی ہے اور خاک میں ملنا ہی پڑتا ہے
بس یہی کا سب کو کرنا ہے
علم ابتدا کا ہے نہ خبر انتہا کی ہے
ہو مجھ پہ بتوں کی چشم کرم دل کو یہ مطلب اصلا نہ رہی
نگاہ ظاہر طریق عرفاں میں سوئے انکار کیوں لپکے
یہی خصائل طبیعت رہی تو قسمت یہی رہے گی
کیا خبر تھی کہ گناہوں سے ہے عزت میری
اس عہد میں شاعر کے لئے قوت نہیں ہے
ہماری خاطر ہو جمع کیونکر کہ یاس رہ رہ کے ٹوٹتی ہے
تہذیب دم بخود ہے طمع کی گھسیٹ سے
سینے میں دل آگاہ جو ہو کچھ غم نہ کرو ناشاد سہی
گو سب کو ہے تسلیم کہ معبود وہی ہے
کیا پوچھتے ہو طوق غلامی کو کدھر ہے
جب دین نہ ہو اصلاح بشر دنیا میں پھر آخر کون کرے
عشق کہتا ہے بیان حال کی پروانہ کر
امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
عشق ہی میں اس کے حسن پاک کا اظہار ہے
رشتۂ توحید سے لپٹا نہیں تار نظر
جب آنکھ کو کھلنے میں ہو جھپک جب منہ میں زباں جنبش سے ڈرے
کس قدر دلکش نگاہ ساقیٔ مخمور ہے
جنون عشق سے انسان کی طینت سنورتی ہے
اب کیا میں طلب دنیا کی کروں کیوں زحمت اٹھاؤں اس کے لئے
شامت آئی ہے یہ مسلم ہے
خود گوار نہیں فریاد کا یہ جوش مجھے
سخن میں یوں تو بہت موقعٔ تکلف ہے
جلوہ گر ہے حسن بت وقت اضطراب دل کا ہے
بزم ہستی ہے طلسم بے مثال زندگی
بجائے مرحبا و آفریں فریاد اتھی دل سے
جینے میں یہ غفلت فطرت نے کیوں طبع بشر میں داخل کی
کہاں ثبات کا اس کو خیال ہوتا ہے
صبر رہ جاتا ہے اور عشق کی چل جاتی ہے
طبیعت تیری انجنیر کے آگے کیوں بدلتی ہے
میرا مسلک کچھ جدا ہے شیخ کے اسلام سے
صدیوں فلاسوفی کی چناں اور چنیں رہی
ہے منع ملاقات مری ہم نفسوں سے
وہی الم وہی سوز جگر فغاں بھی وہی
اگرچہ قدرت ہے بولنے کی مگر فسردہ دل حزیں ہے
نظر نثار نقوش ظاہر یہ ہوش دنیا کا پاسباں ہے
زبان و لفظ کا جلوہ فقط مد بیاں تک ہے
کرگا قدر جو دنیا میں اپنے آنے کی
کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے
وعظ الحاد کہو واہ نہیں ہے نہ سہی
جس کے سینے میں دل آگاہ ہے
جلائے جب شعلہ تحیر تو ذہن ڈھونڈھے پناہ کس کی
ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لئے
نہ تعلق ہے کسی سے نہ شناسائی ہے
اب میری زندگی میں نہیں نور انبساط
فغان و آہ کی لذت جو دل ہلے تو ملے
ہند میں تو مذہبی حالت ہے اب ناگفتہ بہ
اس انجمن میں آکر راحت نصیب کس کو
جہاں تک اپنے لئے ہوں وہ میں کی مستی ہے
ادھر فریاد بلبل ہے کہ یہ سب رنگ فانی ہیں
مشتاق نہیں زندگی کے
دامن گل پھیل کر اس باغ سے کیا لے گئے
غفلتوں کا خوب دیکھا ہے تماشا دہر میں
بہار بے بقا پر ناز کیسا اور خوشی کیسی
دنیا کا ذرا یہ رنگ تو دیکھ ایک ایک کو کھائے جاتا ہے
ابتداءً عالم ہستی میں میں بیہوش تھا
قطعات
جس سے میری زندگی تھی مرگیا کیوں مر سکا
فریاد مجنونانہ ، مرگ ہاشم پر
اک زمانہ تھا کہ مجھ کو اپنے دل پر ناز تھا
مرگ ہاشم 1913ء
میں نے کہا یہ اپنے خیال خضر سے آج
طبع کا شغل ہو جو پولیٹکل
ملانے دیں گے مذاہب کبھی نہ ایسے سر
حاکم دل بن گئی ہیں یہ تھیئٹر والیاں
ہم کو نئی ورش کے حلقے جکڑ رہے ہیں
اللہ کو جگہ دے تو اپنے دل میں اکبر
آدم چھٹے ہشت سے گیہوں کے واسطے
زمیں سےفیض نامحدود کا کیونکر تحمل ہو
اپنی محبت کو اپنا آنر سمجھو
اے شوق وضع مغربی درما فگندی ابتری
عاشقی ان کی نہیں ہے عقل سے بالکل جدا
مثںویات
خوب اک ناصح مشفق نے یہ ارشاد کیا
اگرچہ ہے ذوق تمکنت کا لحاظ رکھتا ہوں سلطنت کا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو ابھارا
کیوں نہ اپنے دل کو ہو ان سے ملاپ
اونٹ نے برگڈ میں کل گردن اٹھائی تھی ذرا
رباعیات
کیا فرض ہے یہ کہ ہم ڈھٹائی سے رہیں
دور کوہ لب ساحل سے جو گزری اک موج
ووٹ بازی
درخت جڑ پہ ہے قائم تو استوار بھی ہے
جب اک بھائی تھے اس منصب پہ ممتاز
سمجھا رہے تھے مجھ کو بکٹ کی وہ گردشیں
منشی کہ کلرک یا زمیندار
یہیں کے پیدا یہیں کے رنگت یہیں کی بولی یہیں کا کھانا
نیچو کو ہوئی خواہش زن کی اور نفس نے چاہا رشک پری
مذہب ہے امر قومی سمجھو نہ فعل ذاتی
حافظ شیراز کا کیا پوچھنا تھے خوش بیاں
اتحاد مذہبی اہل جہاں میں ہے محال
دسمبر میں وہ دوڑے بے تحاشا
یہ عزم تراسعی سے دمساز ہو کیوں کر
ادھر برگڈ کا ملا ہے ادھر مندر کا صوفی ہے
فرزند مہاراجہ کشن پرشاد وزیر اعظم حیدر آباد دکن کی موت پر
رحلت فرزند سے ہیں راجہ صاحب درد مند
تھا دل حسرت بھرا ارمان میں
علامہ شبلی نعمانی
مشتاق ترا اکبر رنجور بہت ہے
ہیں حضرت ساحر آج اک حصن کمال
سر علی محمد صاحب راجہ محمود آباد
سید فضل الحسن حسر موہانی
فخر ملت تھے مہدی مرحوم
حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں
مہدی صاحب کی رحلت پر
والدہ ڈاکٹر محمد اقبال کی رحلت پر
چوک کی مسجد الہ آباد میں ممتاز ہے
آغوش سے سدھارا مجھ سے یہ کہنے والا
مرثیہ ہاشم مرحوم
آگرہ کا ایک مقدمہ
حال مسز کلاک و مسٹر فلم کھلا
الف دین صاحب وکیل کیمبلپور کی کتاب
الف دین نے خوب لکھی کتاب
مرے عزیز ہیں شیعہ میں کس طرح یہ کہوں
خواجہ حسن نظامی
حسن نظامی کو میں نے دیکھا شریف خصلت فقیر طینت
فغاں کہ سوخت زغم جان افتخار حسین
نور باطن بڑھ گیا اعجوبۂ اسرار سے
پیشین گوئی
ماجد کو آپ سمجھیں بیگانۂ طریقت
فضل ہو اللہ کا ہوں جمع سالے سالیاں
ذکر رسول پاک ہے فخر زبان انس وجن
ترجیع بند
نگرانیٔ مراحل کبھی ایسی تو نہ تھی
تعلیم نسواں
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
نعت
مدیح سرور کونین میں خامہ اٹھاتا ہوں
معانی ان کے روشن تھے اندھیرے میں اجالے میں
الا یاایھاالساقی مکن تصنیف ناول ہا
متفرقات
اس چیز کا کہا کہنا اکبرؔ تھا جس نے دلوں کو نیک کیا
گئے برہمن کے پاس لے کر جو اپنے جھگڑے کو شیعہ سنی
در بحر زندگی ولم آہے کشید رفت
ضمیمہ
ابھی وہ روشنی میں شمع کی کاغذ پہ پھرتا تھا
اس وقت مولویت صوفی سے بھڑ گئی ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.