سر ورق
تعارف
جب نازِ عشق و حسن کے قابل نہیں رہا
اپنا جہاں میں رہنا ہے یادگار رہنا
نہ بھولے گا خیال و رنگِ رخ کا نامہ بر ہونا
دنیائے محبت میں اندھیرا نظر آیا
بستے بستے وہ اجڑنا مرے کاشانے کا
مری آنکھوں میں نو میدی سے عالم تار ہو جانا
امتحانِ عشق یارب کس قدر دشوار تھا
تو نے اے ذوقِ بلا دل کو مرے دل کردیا
وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگا
ابھی چمن، بھی گل بس یہی سماں دیکھا
نگاہ مڑ کے دم احتضار کرتا جا
بے پردہ ایک دم رخِ جاناں نہیں رہا
یہ تو خبر نہیں کہ انہیں رحم آگیا
مجھ سے کی بات کیا اس نے مدار کیسا
ہنگامہ خیز دعویٰ منصور ہوگیا
ہر جلوہ جانِ حسن سے اک مست ناز کا
نظیر جس کی مل سکے وہ اپنا ماجرا نہ تھا
یوں بھی دیکھنا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
میں نقشِ دمن ہوتا کہ نقشِ ماسوا ہوتا
سر کے بالوں پر سپیدی کا اثر بڑھتا گیا
کب سے تھا دیدۂ خونبار کا دریا ٹھہرا
نہ دنیا آرزو میری نہ محشر مدعا میرا
آنکھوں پر آہ یاس کا پردہ سا پڑگیا
نہ تھا ناکام رہتے وقت سے پہلے گماں میرا
اور کچھ دیر اک سرمژگاں تر رہ گیا
ازل میں ہونہویہ جلوہ گاہ روے جاناں تھا
گناہ ایسا ہی تھا یوں چھورنا پہلوئے جاناں کا
کہے یہ کون مکاں اپنا لامکاں اپنا
حرم یں دیر میں زیبا تجھے دعوی خدائی کا
مجھ کو کبھی ضعف نے بٹھایا
عالم کو اس نے نقشِ کف ِ پا بنا دیا
غبار کوچہ جاناں کاہل چکا تھا کفن
چھائی مایوسی زمانے میں اندھیرا ہوگیا
کہتے ہیں تیری لاش پہ آیا نہ جاے گا
وہ حشر میں بھی پردے کے اندر نہیں رہا
کہاں سر پیٹنے کا وقت اب بیداد قاتل پر
کیا ساز طرب سے ہم کریں ساز
نہ ہوتی سدرہ قسمت قفس کی تیلیاں ہوکر
ہے یاد تغافل در انداز
جوش وحشت میں نظر پہونچی نہ اپنے دل کے پاس
نہوگا خاک ابھی صیاد ظالم کا مکاں کب تک
اف آشنائے گل تھا ہر آشنائے بلبل
روتے ہیں ہل ہل کے ہر بیداد اہل دل سے ہم
دہر و تجلیات رب ایک ہیں چشم راز میں
نشیمن پھونک کر فارغ رہا ہے باغباں برسوں
پابند حکم گریۂ بے اختیار ہوں
مٹنا نہیں قبول تو دنیا میں آئے کیوں
طوفان گر یہی ہے تو پھر آشیاں کہاں
اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
اسے کیا جھکے رہے سب کے سر جو حضور عشوہ وناز میں
اجل نے کر دیا خاموش تو کیا بے زباں ہوں میں
ہر چند مجھ کو ضعف سے تاب و تواں نہیں
کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں
کیا نہیں یاں جب کچھ اجڑے اجڑے میخانے بھی ہیں
چھائی ہیں مستیاں چمن روزگار میں
ہم رنگ خیال بن گئے ہیں
امتحان و صبر کی حد کیوں پڑے تاخیر میں
اے رشک پردہ سوز شکایت کی جانہیں
دمِ آخر نفس سینے سے کب کھینچ کر نکلتے ہیں
ہر تغیر پہ عقل کہتی ہے
یہ تو مانا بجلیاں جلووں میں پنہاں ہو گئیں
وفورِ ناتوانی دیدنی ہے ہجر جاناں میں
دل مجبور سے مجبور رہا کرتے ہیں
کب اڑ کے تنکے یہ بادِ خزاں سے آتے ہیں
خلیل آتشِ نمرود کو وہ کیا سمجھے ہیں
چمن میں دست جنوں کو جنوں نے چھیڑا ہے
ایک جلوہ ناز پر مٹا ہوں
کبھی شعلے نکلتے ہیں کبھی آنسو نکلتے ہیں
بیجا ملال کہہ کے ندامت ہے یار کو
پروانہ سوز شمع سے یوں باخبر نہو
ایسی قسمت وہ سنیں یوں مرے افسانے کو
ہوں وہ گناہ گار اگر دستِ دعا دراز ہو
اللہ اللہ کہاں قرب نے کھینچا مجھ کو
اے ضبط سوزِ دل کی زباں راز داں نہو
آنکھیں کہاں کی اور دل کیسا ان باتوں کو جانے دو
تو نے ازل میں دل پہ یہ کیسی نگاہ کی
بنتی ہے دن میں دنیا اکثر نگار خانہ
ایک اک لحظہ میں اک ایک قیامت دیکھی
ہے کفیل ماسوا آشفتہ سامانی مری
آخر عتاب کیوں کوئی حد بھی غرور کی
اف انتہائے شوق میں اب کیا کرے کوئی
عمر اہل تمنا نے کس آفت میں بسر کی
اگر سب سے مرے دل کی طرح پرسش نہیں ہوتی
محشر میں اک نگاہ تری کام کرگئی
ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی
ہے قیامت ہی اگر یاں پہ نہ آئے کوئی
کیا ہے رنگِ شوق سے جس پر بہار آئی نہ تھی
بس اسی آنکھ نے اللہ کی قدرت دیکھی
نہ کرشمہ کوئی حائل ہے نہ جلوہ کوئی
یہ تو میں کیونکر کہوں احساس کی قوت نہ تھی
اک ادا تھی تری شہرت مری رسوائی کی
غضب کے وار ہیں تیغ نگاہِ بسمل کے
اہل دل اہل نظر شام و سحر رویا کئے
شوق ارم بھی تیری طرح دل نشیں رہے
جہاں اب سانس چلنے کی صدا آتی ہے شکل سے
یہاں تو غش پہ غش آتے ہیں جب وہ نام آتا ہے
اف خیال ضبط غم سے سامنا شکل کا ہے
غم حرماں سے تاریکی زمیں سے آسماں تک ہے
فراق آئینہ وار و صال ہوتا ہے
عمل کے ساتھ پیشانی کی جب تحریر دیکھیں گے
یہ کہتے حشر میں ساقی سے بادہ خوار آئے
تیغ اک آئینہ حیرت کفِ قاتل میں ہے
بے نیازی یہ ہے تو کیا کہیئے کیا ہو جایئے
دنیا میں سب سے چھپ کے اندھیرا نہ کیجئے
جو ترکِ جور پر مائل نہیں ہے
کیا یہی نقش تحیر تھے زمانے کے لئے
بھٹک بھٹک گئے سب اپنی اپنی راہوں سے
کوئی ذرہ کم نہیں اس کا سلا سل سے مجھے
واقف ہی ہوا میں کیوں دنیا کی حقیقت سے
سوئے باب اثر دعا جائے
شوقِ وصال میں ہے ذوقِ فنا مجھے
واقف ہیں زبان ناز سے ہم
جو امتحان کا حصر اس پہ فتنہ جو کرتے
کبھی ہے فکر میں جکڑا ہوا کبھی آزاد
ہے جو یہ بیخودئ لذت تقصیر مجھے
قسمت نے لاپھنسایا پھندے میں بیکسی کے
تیرے مولد کی زیارت کریں دنیا والے
دل نقابِ یار ہے دل جلوہ گاہِ یار ہے
اب جو وحشی نہ ترے داخل زنداں ہوں گے
آنکھوں میں شوق دل میں تمنا لئے ہوے
جنت ترے کوچہ کا اگر نام نہیں ہے
خدائی مل گئی ہم کو نہ الجھے آسماں ہم سے
وہ دکھ سہے کہ اٹھاتا نہ کل جہاں کےلئے
یوں پرسش اعمال کو افسانہ بنا دے
مزے پر اب وفا کی داستان ہے
دل سے اٹھے جو شعلے اٹھا دھواں جگر سے
اپنی قدرت دیکھے مجھ عاصی پہ احسان کیجئے
اشک سے جو ہے سلوکِ چشم گریاں دیکھئے
سجدوں میں گر نہ عشق نیاز آفریں رہے
نہیں ہے درد کی شدت سے انتشار مجھے
مجھے وہ دام میں اپنا پھڑکنا یاد آتا ہے
بے نیازی کا نہ دعویٰ کہیں باطل ہو جائے
وہ دن آیا کہ صوتِ دل نوائے راز بن جائے
ڈرتے ہیں جفا سے نہ بلا سے نہ قضا سے
آسماں سے شکوۂ قسمت یہ کیا دستور ہے
یا ہجر کی شب کیا وصل کا دن اس میں بھی کوئی وشواری ہے
کچھ کج ہوئے تو ابروئے خمدار ہو گئے
صدمے زمانے بھر کے جب ان پر گذر گئے
اللہ اللہ یہ کرشم خاک دامنگیر کے
کسی کے حکم کے یوں منتظر مسافر تھے
نگہ، ناز جو وہ ابروے متانہ بنے
قہر کی جب نہ چلی ہاتھ ادا کے اٹھے
ہنگامہ ناز بن نہیں پڑتی حیا کئے
کچھ حد بھی ہے اس ناز کی لللہ بتا دے
حالت پہ میری چھوڑ دے اے چارہ گر مجھے
ارم میں ہے مگر گل کی پریشانی نہیں جاتی
متفرقات اردو دورِ اول
متفرقات اردو دورِ ثانی
ہے یہ قدرت کو خبر کون ہوں میں کیا ہوں میں
قصائد
جس کا ہر ذرہ ہے کونین وہ صحرا ہوں میں
امتحاں میں شکن ابروپہ نہ لانے والے
ازل میں چھلکے مدح ساقی کوثر کے پیمانے
ابھی مجھ کو خبر دی ہے خیال عرش پیمانے
تجھے اے قائم آل نبی بیخود نہ پہچانے
زمیں کو شلعہ زن دیکھیں فلک کو شعلہ زار دیکھیں
جو یوں اللہ واصل سپ تجھے اہل ضیاء دیکھیں
دیکھا اسے نہ دل نے ارم پر نگاہ کی
چورنگ کوئے یار ہو فروغ روئے یار میں
پھر جو ش میں ہے بادہ خمخانۂ قدرت کا
جوہر ترے جہں پہ کھلے ابتلا کے بعد
باد مراد سے چمن شوق ہے نہال
خوش ہو اے دہرا کہ ہے آج ترے سر سہرا
قطعہ
اے شہنشاہ جہاں مظہر اوصاف الہ
خموشیاں ہیں عروسِ حجاب کے بدلے
قطعۂ تاریخ وفات حسرت آیات ذاکیہ بیگم
بیتاب رہے شوق تماشا کوئی دن اور
بے درد یاں کبھی نہ گئیں آسماں کی
قند پارسی
چراغ ہم نہ شبے درسرائے من سوزد
ہر ذرہ کہ بینی صد میکدہ بجام است
چشم را کاوش مژگان تو دیدن نہ دہم
از ارکشیدن ہاد عشق دل آزاری
بنا شد از تگاہم جنبش نبض رگ رازم
حیرت حسن ازل تا سحر حشرنرفت
مزا بنیند محو جلوہایت جائے تصویرت
ہر گام سجدہ زیر تمنا جبین ماست
جو شمع ہر آنکہ برمن آمد
تاگلستان ترا رنگ وبہار آخر شد
اشعار فارسی متفرق دورِ اول
دور ثانی
سپیدہ دم کہ بیارا استندبزم حضور
قصیدہ
ہر شعلہ درد نے کہ یہ کشمیر در آید
رباعیات
قطعہ دعائیہ
قطعہ مدحیہ
قطعات
قطعہ دعائیہ
قطعات در مدح امام حسین علیہ السلام
در تقریب عروسی گفتہ شد
باب تعزیت
قصیدہ
در ہوا ابر چو اورنگِ سلیمان آمد
مدح مہا راجکمار
سفر و سیر لندن
سفر وزیارت کربلائے معلیٰ
زیارت نجف اشرف
بر خوردن بہ براد
غزل
فخریہ
عرضِ حال
مدح عام
صدارت شیعہ کانفرنس
غلط نامہ دیوان علامہ بیخود مرحوم
سر ورق
تعارف
جب نازِ عشق و حسن کے قابل نہیں رہا
اپنا جہاں میں رہنا ہے یادگار رہنا
نہ بھولے گا خیال و رنگِ رخ کا نامہ بر ہونا
دنیائے محبت میں اندھیرا نظر آیا
بستے بستے وہ اجڑنا مرے کاشانے کا
مری آنکھوں میں نو میدی سے عالم تار ہو جانا
امتحانِ عشق یارب کس قدر دشوار تھا
تو نے اے ذوقِ بلا دل کو مرے دل کردیا
وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگا
ابھی چمن، بھی گل بس یہی سماں دیکھا
نگاہ مڑ کے دم احتضار کرتا جا
بے پردہ ایک دم رخِ جاناں نہیں رہا
یہ تو خبر نہیں کہ انہیں رحم آگیا
مجھ سے کی بات کیا اس نے مدار کیسا
ہنگامہ خیز دعویٰ منصور ہوگیا
ہر جلوہ جانِ حسن سے اک مست ناز کا
نظیر جس کی مل سکے وہ اپنا ماجرا نہ تھا
یوں بھی دیکھنا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
میں نقشِ دمن ہوتا کہ نقشِ ماسوا ہوتا
سر کے بالوں پر سپیدی کا اثر بڑھتا گیا
کب سے تھا دیدۂ خونبار کا دریا ٹھہرا
نہ دنیا آرزو میری نہ محشر مدعا میرا
آنکھوں پر آہ یاس کا پردہ سا پڑگیا
نہ تھا ناکام رہتے وقت سے پہلے گماں میرا
اور کچھ دیر اک سرمژگاں تر رہ گیا
ازل میں ہونہویہ جلوہ گاہ روے جاناں تھا
گناہ ایسا ہی تھا یوں چھورنا پہلوئے جاناں کا
کہے یہ کون مکاں اپنا لامکاں اپنا
حرم یں دیر میں زیبا تجھے دعوی خدائی کا
مجھ کو کبھی ضعف نے بٹھایا
عالم کو اس نے نقشِ کف ِ پا بنا دیا
غبار کوچہ جاناں کاہل چکا تھا کفن
چھائی مایوسی زمانے میں اندھیرا ہوگیا
کہتے ہیں تیری لاش پہ آیا نہ جاے گا
وہ حشر میں بھی پردے کے اندر نہیں رہا
کہاں سر پیٹنے کا وقت اب بیداد قاتل پر
کیا ساز طرب سے ہم کریں ساز
نہ ہوتی سدرہ قسمت قفس کی تیلیاں ہوکر
ہے یاد تغافل در انداز
جوش وحشت میں نظر پہونچی نہ اپنے دل کے پاس
نہوگا خاک ابھی صیاد ظالم کا مکاں کب تک
اف آشنائے گل تھا ہر آشنائے بلبل
روتے ہیں ہل ہل کے ہر بیداد اہل دل سے ہم
دہر و تجلیات رب ایک ہیں چشم راز میں
نشیمن پھونک کر فارغ رہا ہے باغباں برسوں
پابند حکم گریۂ بے اختیار ہوں
مٹنا نہیں قبول تو دنیا میں آئے کیوں
طوفان گر یہی ہے تو پھر آشیاں کہاں
اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
اسے کیا جھکے رہے سب کے سر جو حضور عشوہ وناز میں
اجل نے کر دیا خاموش تو کیا بے زباں ہوں میں
ہر چند مجھ کو ضعف سے تاب و تواں نہیں
کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں
کیا نہیں یاں جب کچھ اجڑے اجڑے میخانے بھی ہیں
چھائی ہیں مستیاں چمن روزگار میں
ہم رنگ خیال بن گئے ہیں
امتحان و صبر کی حد کیوں پڑے تاخیر میں
اے رشک پردہ سوز شکایت کی جانہیں
دمِ آخر نفس سینے سے کب کھینچ کر نکلتے ہیں
ہر تغیر پہ عقل کہتی ہے
یہ تو مانا بجلیاں جلووں میں پنہاں ہو گئیں
وفورِ ناتوانی دیدنی ہے ہجر جاناں میں
دل مجبور سے مجبور رہا کرتے ہیں
کب اڑ کے تنکے یہ بادِ خزاں سے آتے ہیں
خلیل آتشِ نمرود کو وہ کیا سمجھے ہیں
چمن میں دست جنوں کو جنوں نے چھیڑا ہے
ایک جلوہ ناز پر مٹا ہوں
کبھی شعلے نکلتے ہیں کبھی آنسو نکلتے ہیں
بیجا ملال کہہ کے ندامت ہے یار کو
پروانہ سوز شمع سے یوں باخبر نہو
ایسی قسمت وہ سنیں یوں مرے افسانے کو
ہوں وہ گناہ گار اگر دستِ دعا دراز ہو
اللہ اللہ کہاں قرب نے کھینچا مجھ کو
اے ضبط سوزِ دل کی زباں راز داں نہو
آنکھیں کہاں کی اور دل کیسا ان باتوں کو جانے دو
تو نے ازل میں دل پہ یہ کیسی نگاہ کی
بنتی ہے دن میں دنیا اکثر نگار خانہ
ایک اک لحظہ میں اک ایک قیامت دیکھی
ہے کفیل ماسوا آشفتہ سامانی مری
آخر عتاب کیوں کوئی حد بھی غرور کی
اف انتہائے شوق میں اب کیا کرے کوئی
عمر اہل تمنا نے کس آفت میں بسر کی
اگر سب سے مرے دل کی طرح پرسش نہیں ہوتی
محشر میں اک نگاہ تری کام کرگئی
ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی
ہے قیامت ہی اگر یاں پہ نہ آئے کوئی
کیا ہے رنگِ شوق سے جس پر بہار آئی نہ تھی
بس اسی آنکھ نے اللہ کی قدرت دیکھی
نہ کرشمہ کوئی حائل ہے نہ جلوہ کوئی
یہ تو میں کیونکر کہوں احساس کی قوت نہ تھی
اک ادا تھی تری شہرت مری رسوائی کی
غضب کے وار ہیں تیغ نگاہِ بسمل کے
اہل دل اہل نظر شام و سحر رویا کئے
شوق ارم بھی تیری طرح دل نشیں رہے
جہاں اب سانس چلنے کی صدا آتی ہے شکل سے
یہاں تو غش پہ غش آتے ہیں جب وہ نام آتا ہے
اف خیال ضبط غم سے سامنا شکل کا ہے
غم حرماں سے تاریکی زمیں سے آسماں تک ہے
فراق آئینہ وار و صال ہوتا ہے
عمل کے ساتھ پیشانی کی جب تحریر دیکھیں گے
یہ کہتے حشر میں ساقی سے بادہ خوار آئے
تیغ اک آئینہ حیرت کفِ قاتل میں ہے
بے نیازی یہ ہے تو کیا کہیئے کیا ہو جایئے
دنیا میں سب سے چھپ کے اندھیرا نہ کیجئے
جو ترکِ جور پر مائل نہیں ہے
کیا یہی نقش تحیر تھے زمانے کے لئے
بھٹک بھٹک گئے سب اپنی اپنی راہوں سے
کوئی ذرہ کم نہیں اس کا سلا سل سے مجھے
واقف ہی ہوا میں کیوں دنیا کی حقیقت سے
سوئے باب اثر دعا جائے
شوقِ وصال میں ہے ذوقِ فنا مجھے
واقف ہیں زبان ناز سے ہم
جو امتحان کا حصر اس پہ فتنہ جو کرتے
کبھی ہے فکر میں جکڑا ہوا کبھی آزاد
ہے جو یہ بیخودئ لذت تقصیر مجھے
قسمت نے لاپھنسایا پھندے میں بیکسی کے
تیرے مولد کی زیارت کریں دنیا والے
دل نقابِ یار ہے دل جلوہ گاہِ یار ہے
اب جو وحشی نہ ترے داخل زنداں ہوں گے
آنکھوں میں شوق دل میں تمنا لئے ہوے
جنت ترے کوچہ کا اگر نام نہیں ہے
خدائی مل گئی ہم کو نہ الجھے آسماں ہم سے
وہ دکھ سہے کہ اٹھاتا نہ کل جہاں کےلئے
یوں پرسش اعمال کو افسانہ بنا دے
مزے پر اب وفا کی داستان ہے
دل سے اٹھے جو شعلے اٹھا دھواں جگر سے
اپنی قدرت دیکھے مجھ عاصی پہ احسان کیجئے
اشک سے جو ہے سلوکِ چشم گریاں دیکھئے
سجدوں میں گر نہ عشق نیاز آفریں رہے
نہیں ہے درد کی شدت سے انتشار مجھے
مجھے وہ دام میں اپنا پھڑکنا یاد آتا ہے
بے نیازی کا نہ دعویٰ کہیں باطل ہو جائے
وہ دن آیا کہ صوتِ دل نوائے راز بن جائے
ڈرتے ہیں جفا سے نہ بلا سے نہ قضا سے
آسماں سے شکوۂ قسمت یہ کیا دستور ہے
یا ہجر کی شب کیا وصل کا دن اس میں بھی کوئی وشواری ہے
کچھ کج ہوئے تو ابروئے خمدار ہو گئے
صدمے زمانے بھر کے جب ان پر گذر گئے
اللہ اللہ یہ کرشم خاک دامنگیر کے
کسی کے حکم کے یوں منتظر مسافر تھے
نگہ، ناز جو وہ ابروے متانہ بنے
قہر کی جب نہ چلی ہاتھ ادا کے اٹھے
ہنگامہ ناز بن نہیں پڑتی حیا کئے
کچھ حد بھی ہے اس ناز کی لللہ بتا دے
حالت پہ میری چھوڑ دے اے چارہ گر مجھے
ارم میں ہے مگر گل کی پریشانی نہیں جاتی
متفرقات اردو دورِ اول
متفرقات اردو دورِ ثانی
ہے یہ قدرت کو خبر کون ہوں میں کیا ہوں میں
قصائد
جس کا ہر ذرہ ہے کونین وہ صحرا ہوں میں
امتحاں میں شکن ابروپہ نہ لانے والے
ازل میں چھلکے مدح ساقی کوثر کے پیمانے
ابھی مجھ کو خبر دی ہے خیال عرش پیمانے
تجھے اے قائم آل نبی بیخود نہ پہچانے
زمیں کو شلعہ زن دیکھیں فلک کو شعلہ زار دیکھیں
جو یوں اللہ واصل سپ تجھے اہل ضیاء دیکھیں
دیکھا اسے نہ دل نے ارم پر نگاہ کی
چورنگ کوئے یار ہو فروغ روئے یار میں
پھر جو ش میں ہے بادہ خمخانۂ قدرت کا
جوہر ترے جہں پہ کھلے ابتلا کے بعد
باد مراد سے چمن شوق ہے نہال
خوش ہو اے دہرا کہ ہے آج ترے سر سہرا
قطعہ
اے شہنشاہ جہاں مظہر اوصاف الہ
خموشیاں ہیں عروسِ حجاب کے بدلے
قطعۂ تاریخ وفات حسرت آیات ذاکیہ بیگم
بیتاب رہے شوق تماشا کوئی دن اور
بے درد یاں کبھی نہ گئیں آسماں کی
قند پارسی
چراغ ہم نہ شبے درسرائے من سوزد
ہر ذرہ کہ بینی صد میکدہ بجام است
چشم را کاوش مژگان تو دیدن نہ دہم
از ارکشیدن ہاد عشق دل آزاری
بنا شد از تگاہم جنبش نبض رگ رازم
حیرت حسن ازل تا سحر حشرنرفت
مزا بنیند محو جلوہایت جائے تصویرت
ہر گام سجدہ زیر تمنا جبین ماست
جو شمع ہر آنکہ برمن آمد
تاگلستان ترا رنگ وبہار آخر شد
اشعار فارسی متفرق دورِ اول
دور ثانی
سپیدہ دم کہ بیارا استندبزم حضور
قصیدہ
ہر شعلہ درد نے کہ یہ کشمیر در آید
رباعیات
قطعہ دعائیہ
قطعہ مدحیہ
قطعات
قطعہ دعائیہ
قطعات در مدح امام حسین علیہ السلام
در تقریب عروسی گفتہ شد
باب تعزیت
قصیدہ
در ہوا ابر چو اورنگِ سلیمان آمد
مدح مہا راجکمار
سفر و سیر لندن
سفر وزیارت کربلائے معلیٰ
زیارت نجف اشرف
بر خوردن بہ براد
غزل
فخریہ
عرضِ حال
مدح عام
صدارت شیعہ کانفرنس
غلط نامہ دیوان علامہ بیخود مرحوم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔