سر ورق
فہرست مضامین
فہرست مآخذ
پیش نامہ
مقدمہ
احوال و آثار
قطعہ
احسان کی ولادت
استاد شاہ
احسان کا علم و فضل
قطعہ
سفر لکھنؤ
بہادر شاہ ظہر کا عہد
احسان کی شاعری
غزل مسلسل
رعایت لفظی
اپنے عہد کی عکاسی
قطعہ
سیف الرحمان خان
عنایت الرحمن خاں
احسان کے دوسرے بیٹے
احباب و تلامذہ
تلامذہ
ذاتی وجاہت
احسان کی وفات
نسخوں کی تفصیل
نسخوں کی سنین کتابت
احسان کے پوتے احسان الرحمن خاں
دیوان جناب مستطاب حافظ عبد الرحمن خاں صاحب
فرد
قصیدہ در نعت سرورِ کائنات
غزل
خفا جو مجھ سے بظاہر وہ گل غذار رہا
سنگِ بے قدری سے دِل کو مرے یکسر توڑا
پیری میں ہم سے کشت بیاباں کا ہو چکا
سینہ تو وقف نشترِ مژگاں کا ہو چکا
یک دستِ فتنہ برپا ہم نے جہاں میں دیکھا
ہم پہ یہ ظلم نہ اے شیشہ گراں کیجے گا
فردہ داغِ جگر دلِ ربا نہیں رہتا
تمہارے قد سے ہیں قائم قیامتیں کیا کیا
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
لب بلب لب سے ترے جب لب یہ پیمانہ ہوا
ہم ہیں، کوچہ ہے یار جانی کا
کچھ طور نہیں بچنے کا زنہار ہمارا
ہم خواب تجھے خواب میں بھی یار نہ پایا
روتی ہیں مری دیدۂ گریان تماشا
جی ہی آخر کو یہ لے جائے گا جانا دِل کا
چین ساجی کہ ہوا اے مرے دشمن دل کے
رکیوں ہی گر یہ کناں اے مرے دل بر آئی خدا
عقدہ کھلا نہ و ای یہ ہم پر حباب کا
بوقت بوسہ اب کاش یہ دل کا مراں ہوتا
تو آج آئینہ رو مجھ پاس آجا
میں ان تغافلوں سی سن ای یار جی چکا
چہرہ پر آپ کی بی وجہ نہیں داد ہوا
فقط مجھی ہی نہ دوراں نی گوشہ گیر کیا
ہیں تجھ بغیر جامِ ہلاہل کوپی گیا
اگر ہو اتفاق آپس میں تنگی سے گزر جائے
مجھ پر نہ پیکِ یار ہی کچھ خشمگیں ہوا
گلی سے تری جو کہ اے جانِ نکلا
یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا
میاں کیا ہو اگر ابروئی خمدار کو دیکھا
کان کے درد سے ہلکان ہے ایوان میں کیا
تلاشِ یار میں اے دل کسی دیار میں جا
لبریز غم و یاس و فغاں دِل نظر آیا
جیتی ہی جی فقط تو مجھ تک کیجو نہ آیا
دِل دیا تب کہ بہت زلف رسانی چاہا
ہم کو نہ مدرسہ ہی میں تجھ بن ملال تھا
بیتابی سی جوں موجہ سیلاب نہ ٹھہرا
دشمن دلِ دیدۂ گریاں ہی دوسرا
قطعہ
کشمیر میں بالا
مرتے دم نام ترا لب کے جو آجائے قریب
زیبق کا ہے کشندہ مرے دل کا اضطراب
طبلوں پہ دیکھ اس کے انامل کا اضطراب
ساقیا تیرا رہی سب سرو ساماں درست
خطبہ میں تیرے نام کو سنکر شر دوراں
سہانا سنا تھا یہہ میں نے کہ طبع اقدس شاہ
شاہ جیلان کے غلاموں میں ہیں ہم اے احسان
میں یہاں بیٹھا تو تم وہاں اٹھ گئی ای یار کیا باعث
نہ ماری جون کی طرح کیوں دلِ نزار کو آج
میں تو کہتا نہیں قشقہ بت عیار نہ کھینچ
کیا یہی ہی ہر آن تیری آن سی آنی کی طرح
بیتابِ و بے قرار ہوں کس طرح سی نہ میں
تیغ قاتل کی میری سر کو ہی خدمت شاید
جو چاہے کل مجھے ہیکل کی تو دیکھا تعویذ
فائدہ تم جو مجھی نزع میں یار آئی نظر
ساقیا دی شراب ناب ضرور
مجھکو مت ٹھکراؤ بس چلئے سنبھل کر دیکھ کر
بلبل کو ہم ستا دیں یہ لیں عذابِ کیوں کر
کوٹھی پہ چڑھا کیجئے مری جان سمجھ کر
مانگو ہو ابھی دل مجھی نادان سمجھ کر
قیس مت جانبد وغل زنجیر و زنداں چھوڑ کر
سوئے مجدود گیا سیر گلستان چھوڑ کر
نخوت و شیخی کی اے شیخ تو اطوار کو چھوڑ کر
تیر پہلو میں نہیں اے رفقای پرواز
دل تو حاضر ہے اگر کیجئ پھر ناز سی رمز
کسی کی تو یاد میں اب بھول گیا ناز سی رمز
چپکی سی بولا سر اپنا لاکی میری سر کی پاس
قطعہ ہفتِ شعر
پھر آیا جام بکفِ گلعذارای واعظ
بزم میں مانع تھی شب کو وصل رشک گل ہی شمع
مقیم بزم رقیباں ہو گلعذار دریغ
نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
نکلا نہ اس کی لب سے میرا کام اب تلک
گو اس کی ہیں سودا میں پریشان و خفا ہم
ہے خیال ان تری آنکھوں کا دل آرام مدام
گرچہ دھمکاتی ہیں آکر مجھی اغیار مدام
میں ہی اس دشت میں رویا نہ غم یار سے مل
گر ہی دنیا کی طلب زاہد مکار ہی مل
چوخ کی ہاتھ گو رہتی ہیں مجبور سی ہم
یک شب ہجر میں یہاں تک ہو رنجور سی ہم
باہم ہیں اس خرابہ میں قبر و کفن سی ہم
کیا رہی عاشق کہ جب لپٹی کفن میں استخواں
غلط شہر ہ ہی یعنی بامتیاز ہو تم
میں جو می پینی پر آؤں تو سبو پی جاؤں
مجھ کو مت چھیڑو کہ میں سرتابیاں سر ہوں
ہے کمر تیری بھی ای غیخہ وہاں کہتی ہیں
گرچہ کان ملاحت پہنی اک بالی نہیں
کہئی کیا کیوں طفل اشک اپنی گلی کی ہار میں
اس تپ ہی انقلاب کی خاطر پریشاں نہیں
ان ابرو دل کی دِل پہ تصویر کھینچی ہیں
اور انتظار تیرا ماپیر کھینچی ہیں
خفا مت ہو مجکو ٹھکانی بہت ہیں
عشق ہی جسکو نہیں ہے اسی ایماں نہیں
تو بے نقاب ہی ای مہ یہ ہیں شراب کے دن
نہیں ڈرتی کسی سے وضع بےباکانہ رکھتی ہیں
خدا ہی مالک جاں ہی یہاں وہاں تم کون
دل بہر کے نہ ایک دم کراہوں
ہم آجاتی ہیں چپی کو وہ جب آرام کرتی ہیں
وہ قد دکھا کے نخوت عر عر کو توڑ دوں
میں کس طرح سی خاطر دلبر کو توڑ دوں
لاکھ دل دیتی جو ہوتے ہم دلاور اور ہیں
آج کچھ بارہ دری میں ااپ ششد راور ہیں
اگرچہ میں فغاں سے یند ایک عالم کی کہوتا ہوں
میں جو عزت طلب اوس بزم میں آجاتا ہوں
یاد احسان شاہ عالم اشک سی
میری دردِ دل سے آنسو آئ چشم یار میں
ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
ہیں اس یوسف کے غم میں نعرہ زن کیوں اپنی محفل میں
کیفیت جب ہو کہ ساقی ہو شرابِ ناب ہو
لپٹا ہے روگ کفر یا یارب زمین کو
دو بھی بوسے مجھے اک ماہ میں اے ماہ نہ دو
گر نہ ہو اتنی زباں شمع کو تعذیر نہ ہو
ہوکی شاگرد لکھا خط میں ہی بھائی مجھ کو
سر بسر چاک ہوا سینہ یہی میرا اب تو
جیوں میں کیوں کہ خفا مجھ سے آہ جب تم ہو
بس اب ذکر جانے کا یہاں مت نکالو
گردم ہی نکل جای تو اس دکھ سی بھلا ہو
نمک داغ جگر پر خوشنماہی کس قدرد دیکھو
غزل
درد دل میں ہوں سن اے یار ستم گار کہ تو
اس سیاہ بخت کے تم حال کو کیا جانتے ہو
قطعہ
فرد
دیکھ یہ آہ شرر بار شرارت سے نہ دیکھ
مومی سر کو نہ سوار شب یلدار پہوچی
طرز طراری وہ اس طرہ طرار میں ہے
ہیرے کی کنی کھا کی غم ہیر سی چھوٹی
لبوں کا بوسہ دیا کب جو خط دکھا نہ سکی
دشنام اور دی تو مجھی انحراف سی
مرا تو صبر آہ شرر فشاں پر ہی
سن رکھ او خاک میں عاشق کی ملانیوالی
سنتا نہیں اک بات وہ مغرور کسو کی
ہم فقیروں کا نہ بی سِر سِر کھلا ہر بار ہے
آتی ہے بس سنائ جانے کی
اس شعلہ روکی ایک تو رفتار گرم ہے
گو مج کو نہایت گلہ ابرو سی ہی تیری
آنکھوں میں مروت تری یار کہاں ہے
نہ بازو باندھنی سی غش یہ جاویگا نہ دارو سی
بس خاک قدم دیجئ تکرار بہت کی
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
ہم تمہاری ہوں نہوں تم ہاں مگر اگر دو چار کی
چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مرجای کوئی
جان اپنی چلی جائ ہی جای سی کسو کی
غیر کی دلپہ ای یار تو کیا باندھی ہے
دلربا تجھ سا جو دل یعنی میں عیاری کری
تری کوچی میں جو ہم نالوں کی خوگر جائیں گی
مرا بھی نخل دعا مج کو بار دکھلا دی
غزل
غیر دیکھے ہے جھلک تیری کیا اے پردہ نشیں
قطعہ
قطعہ
ولہ
غزل
قطعہ
ولہ برئے حضور والا
غزل
ناک میں آیا ہے دم کفار
عشق کی دولت سے جب غش سا مجھے آجائےہے
تم سا کوئی ستم ہے تیرا پناہ تیری
چشم مت اس کی یاد آنے لگی
کیا ٹھکانا تیرے وعدہ کا بت بے پیر ہے
کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
قطعہ
ولہ
رباعی
قطعہ
فرد
مقطعات عریض بخدمت حضور اقدس و شاہزاد گان مقدس
قطعہ فارسی
قطعہ ہذا فی البدیہہ برائے بہادر شار باد شاہ غازی
قطعہ عریضہ ہذا بخدمت اکیر خاصیت مرزا صاحب عالم محمد عالی بخت بہادر
قطعہ تاریخ مصنفہ در جواب قطعہ مصنفہ ۔۔۔۔
قطعہ درایا میکہ الہی بخش خان معروف ۔۔۔۔
در تاریخ انتقال مولوی محمد مرتضی ریاضی داں ۔۔۔
قطعہ ہذا بہ ہجو محمد بیگ کیخدمت لاوارثی داشت
قطعہ ہذا بہ ہجو قرض خواہاں
قطعہ ہذا برائے نواب ظفر الدولہ اصغر علیخان بہادر
قطعہ ہذا اور ہجو شخص پنجاب بہ فرمایش دولتے فرمودہ
قطعہ ہذا بہ صادق علی خان خسر نواب اعتماد الدولہ میر فضل علیخان در لکھنؤ برائے ملاقات
قصیدہ در جشن حضرت شاہ عالم پادشاہ غازی
مسدس در صحتِ پاد شاہ جم جاہ شاہ عالم پاد شاہ غازی گفتہ
مسدس در منقبت حضرت محمد ﷺ
مخمس در منقبت حضرت محی الدین جیلانی عفر اللہ تعالی
مخمس در منقبت گوید
رباعیات
مخمس بر غزل حضور موفور السرور ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی
ایضا مخمس بہ حضور والا
مخمس فارسی برغزل ریختہ الہی بخش معروف
مسدس بر مطلع فارسی ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ غازی
خاتمہ دیوان ہذا تصنیف مولوی امام علی مقتول سلمہ
AUTHORअब्दुल रहमान एहसान देहलवी
YEAR1968
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER रफ़ीआ सुल्ताना
AUTHORअब्दुल रहमान एहसान देहलवी
YEAR1968
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER रफ़ीआ सुल्ताना
سر ورق
فہرست مضامین
فہرست مآخذ
پیش نامہ
مقدمہ
احوال و آثار
قطعہ
احسان کی ولادت
استاد شاہ
احسان کا علم و فضل
قطعہ
سفر لکھنؤ
بہادر شاہ ظہر کا عہد
احسان کی شاعری
غزل مسلسل
رعایت لفظی
اپنے عہد کی عکاسی
قطعہ
سیف الرحمان خان
عنایت الرحمن خاں
احسان کے دوسرے بیٹے
احباب و تلامذہ
تلامذہ
ذاتی وجاہت
احسان کی وفات
نسخوں کی تفصیل
نسخوں کی سنین کتابت
احسان کے پوتے احسان الرحمن خاں
دیوان جناب مستطاب حافظ عبد الرحمن خاں صاحب
فرد
قصیدہ در نعت سرورِ کائنات
غزل
خفا جو مجھ سے بظاہر وہ گل غذار رہا
سنگِ بے قدری سے دِل کو مرے یکسر توڑا
پیری میں ہم سے کشت بیاباں کا ہو چکا
سینہ تو وقف نشترِ مژگاں کا ہو چکا
یک دستِ فتنہ برپا ہم نے جہاں میں دیکھا
ہم پہ یہ ظلم نہ اے شیشہ گراں کیجے گا
فردہ داغِ جگر دلِ ربا نہیں رہتا
تمہارے قد سے ہیں قائم قیامتیں کیا کیا
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
لب بلب لب سے ترے جب لب یہ پیمانہ ہوا
ہم ہیں، کوچہ ہے یار جانی کا
کچھ طور نہیں بچنے کا زنہار ہمارا
ہم خواب تجھے خواب میں بھی یار نہ پایا
روتی ہیں مری دیدۂ گریان تماشا
جی ہی آخر کو یہ لے جائے گا جانا دِل کا
چین ساجی کہ ہوا اے مرے دشمن دل کے
رکیوں ہی گر یہ کناں اے مرے دل بر آئی خدا
عقدہ کھلا نہ و ای یہ ہم پر حباب کا
بوقت بوسہ اب کاش یہ دل کا مراں ہوتا
تو آج آئینہ رو مجھ پاس آجا
میں ان تغافلوں سی سن ای یار جی چکا
چہرہ پر آپ کی بی وجہ نہیں داد ہوا
فقط مجھی ہی نہ دوراں نی گوشہ گیر کیا
ہیں تجھ بغیر جامِ ہلاہل کوپی گیا
اگر ہو اتفاق آپس میں تنگی سے گزر جائے
مجھ پر نہ پیکِ یار ہی کچھ خشمگیں ہوا
گلی سے تری جو کہ اے جانِ نکلا
یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا
میاں کیا ہو اگر ابروئی خمدار کو دیکھا
کان کے درد سے ہلکان ہے ایوان میں کیا
تلاشِ یار میں اے دل کسی دیار میں جا
لبریز غم و یاس و فغاں دِل نظر آیا
جیتی ہی جی فقط تو مجھ تک کیجو نہ آیا
دِل دیا تب کہ بہت زلف رسانی چاہا
ہم کو نہ مدرسہ ہی میں تجھ بن ملال تھا
بیتابی سی جوں موجہ سیلاب نہ ٹھہرا
دشمن دلِ دیدۂ گریاں ہی دوسرا
قطعہ
کشمیر میں بالا
مرتے دم نام ترا لب کے جو آجائے قریب
زیبق کا ہے کشندہ مرے دل کا اضطراب
طبلوں پہ دیکھ اس کے انامل کا اضطراب
ساقیا تیرا رہی سب سرو ساماں درست
خطبہ میں تیرے نام کو سنکر شر دوراں
سہانا سنا تھا یہہ میں نے کہ طبع اقدس شاہ
شاہ جیلان کے غلاموں میں ہیں ہم اے احسان
میں یہاں بیٹھا تو تم وہاں اٹھ گئی ای یار کیا باعث
نہ ماری جون کی طرح کیوں دلِ نزار کو آج
میں تو کہتا نہیں قشقہ بت عیار نہ کھینچ
کیا یہی ہی ہر آن تیری آن سی آنی کی طرح
بیتابِ و بے قرار ہوں کس طرح سی نہ میں
تیغ قاتل کی میری سر کو ہی خدمت شاید
جو چاہے کل مجھے ہیکل کی تو دیکھا تعویذ
فائدہ تم جو مجھی نزع میں یار آئی نظر
ساقیا دی شراب ناب ضرور
مجھکو مت ٹھکراؤ بس چلئے سنبھل کر دیکھ کر
بلبل کو ہم ستا دیں یہ لیں عذابِ کیوں کر
کوٹھی پہ چڑھا کیجئے مری جان سمجھ کر
مانگو ہو ابھی دل مجھی نادان سمجھ کر
قیس مت جانبد وغل زنجیر و زنداں چھوڑ کر
سوئے مجدود گیا سیر گلستان چھوڑ کر
نخوت و شیخی کی اے شیخ تو اطوار کو چھوڑ کر
تیر پہلو میں نہیں اے رفقای پرواز
دل تو حاضر ہے اگر کیجئ پھر ناز سی رمز
کسی کی تو یاد میں اب بھول گیا ناز سی رمز
چپکی سی بولا سر اپنا لاکی میری سر کی پاس
قطعہ ہفتِ شعر
پھر آیا جام بکفِ گلعذارای واعظ
بزم میں مانع تھی شب کو وصل رشک گل ہی شمع
مقیم بزم رقیباں ہو گلعذار دریغ
نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
نکلا نہ اس کی لب سے میرا کام اب تلک
گو اس کی ہیں سودا میں پریشان و خفا ہم
ہے خیال ان تری آنکھوں کا دل آرام مدام
گرچہ دھمکاتی ہیں آکر مجھی اغیار مدام
میں ہی اس دشت میں رویا نہ غم یار سے مل
گر ہی دنیا کی طلب زاہد مکار ہی مل
چوخ کی ہاتھ گو رہتی ہیں مجبور سی ہم
یک شب ہجر میں یہاں تک ہو رنجور سی ہم
باہم ہیں اس خرابہ میں قبر و کفن سی ہم
کیا رہی عاشق کہ جب لپٹی کفن میں استخواں
غلط شہر ہ ہی یعنی بامتیاز ہو تم
میں جو می پینی پر آؤں تو سبو پی جاؤں
مجھ کو مت چھیڑو کہ میں سرتابیاں سر ہوں
ہے کمر تیری بھی ای غیخہ وہاں کہتی ہیں
گرچہ کان ملاحت پہنی اک بالی نہیں
کہئی کیا کیوں طفل اشک اپنی گلی کی ہار میں
اس تپ ہی انقلاب کی خاطر پریشاں نہیں
ان ابرو دل کی دِل پہ تصویر کھینچی ہیں
اور انتظار تیرا ماپیر کھینچی ہیں
خفا مت ہو مجکو ٹھکانی بہت ہیں
عشق ہی جسکو نہیں ہے اسی ایماں نہیں
تو بے نقاب ہی ای مہ یہ ہیں شراب کے دن
نہیں ڈرتی کسی سے وضع بےباکانہ رکھتی ہیں
خدا ہی مالک جاں ہی یہاں وہاں تم کون
دل بہر کے نہ ایک دم کراہوں
ہم آجاتی ہیں چپی کو وہ جب آرام کرتی ہیں
وہ قد دکھا کے نخوت عر عر کو توڑ دوں
میں کس طرح سی خاطر دلبر کو توڑ دوں
لاکھ دل دیتی جو ہوتے ہم دلاور اور ہیں
آج کچھ بارہ دری میں ااپ ششد راور ہیں
اگرچہ میں فغاں سے یند ایک عالم کی کہوتا ہوں
میں جو عزت طلب اوس بزم میں آجاتا ہوں
یاد احسان شاہ عالم اشک سی
میری دردِ دل سے آنسو آئ چشم یار میں
ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
ہیں اس یوسف کے غم میں نعرہ زن کیوں اپنی محفل میں
کیفیت جب ہو کہ ساقی ہو شرابِ ناب ہو
لپٹا ہے روگ کفر یا یارب زمین کو
دو بھی بوسے مجھے اک ماہ میں اے ماہ نہ دو
گر نہ ہو اتنی زباں شمع کو تعذیر نہ ہو
ہوکی شاگرد لکھا خط میں ہی بھائی مجھ کو
سر بسر چاک ہوا سینہ یہی میرا اب تو
جیوں میں کیوں کہ خفا مجھ سے آہ جب تم ہو
بس اب ذکر جانے کا یہاں مت نکالو
گردم ہی نکل جای تو اس دکھ سی بھلا ہو
نمک داغ جگر پر خوشنماہی کس قدرد دیکھو
غزل
درد دل میں ہوں سن اے یار ستم گار کہ تو
اس سیاہ بخت کے تم حال کو کیا جانتے ہو
قطعہ
فرد
دیکھ یہ آہ شرر بار شرارت سے نہ دیکھ
مومی سر کو نہ سوار شب یلدار پہوچی
طرز طراری وہ اس طرہ طرار میں ہے
ہیرے کی کنی کھا کی غم ہیر سی چھوٹی
لبوں کا بوسہ دیا کب جو خط دکھا نہ سکی
دشنام اور دی تو مجھی انحراف سی
مرا تو صبر آہ شرر فشاں پر ہی
سن رکھ او خاک میں عاشق کی ملانیوالی
سنتا نہیں اک بات وہ مغرور کسو کی
ہم فقیروں کا نہ بی سِر سِر کھلا ہر بار ہے
آتی ہے بس سنائ جانے کی
اس شعلہ روکی ایک تو رفتار گرم ہے
گو مج کو نہایت گلہ ابرو سی ہی تیری
آنکھوں میں مروت تری یار کہاں ہے
نہ بازو باندھنی سی غش یہ جاویگا نہ دارو سی
بس خاک قدم دیجئ تکرار بہت کی
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
ہم تمہاری ہوں نہوں تم ہاں مگر اگر دو چار کی
چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مرجای کوئی
جان اپنی چلی جائ ہی جای سی کسو کی
غیر کی دلپہ ای یار تو کیا باندھی ہے
دلربا تجھ سا جو دل یعنی میں عیاری کری
تری کوچی میں جو ہم نالوں کی خوگر جائیں گی
مرا بھی نخل دعا مج کو بار دکھلا دی
غزل
غیر دیکھے ہے جھلک تیری کیا اے پردہ نشیں
قطعہ
قطعہ
ولہ
غزل
قطعہ
ولہ برئے حضور والا
غزل
ناک میں آیا ہے دم کفار
عشق کی دولت سے جب غش سا مجھے آجائےہے
تم سا کوئی ستم ہے تیرا پناہ تیری
چشم مت اس کی یاد آنے لگی
کیا ٹھکانا تیرے وعدہ کا بت بے پیر ہے
کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
قطعہ
ولہ
رباعی
قطعہ
فرد
مقطعات عریض بخدمت حضور اقدس و شاہزاد گان مقدس
قطعہ فارسی
قطعہ ہذا فی البدیہہ برائے بہادر شار باد شاہ غازی
قطعہ عریضہ ہذا بخدمت اکیر خاصیت مرزا صاحب عالم محمد عالی بخت بہادر
قطعہ تاریخ مصنفہ در جواب قطعہ مصنفہ ۔۔۔۔
قطعہ درایا میکہ الہی بخش خان معروف ۔۔۔۔
در تاریخ انتقال مولوی محمد مرتضی ریاضی داں ۔۔۔
قطعہ ہذا بہ ہجو محمد بیگ کیخدمت لاوارثی داشت
قطعہ ہذا بہ ہجو قرض خواہاں
قطعہ ہذا برائے نواب ظفر الدولہ اصغر علیخان بہادر
قطعہ ہذا اور ہجو شخص پنجاب بہ فرمایش دولتے فرمودہ
قطعہ ہذا بہ صادق علی خان خسر نواب اعتماد الدولہ میر فضل علیخان در لکھنؤ برائے ملاقات
قصیدہ در جشن حضرت شاہ عالم پادشاہ غازی
مسدس در صحتِ پاد شاہ جم جاہ شاہ عالم پاد شاہ غازی گفتہ
مسدس در منقبت حضرت محمد ﷺ
مخمس در منقبت حضرت محی الدین جیلانی عفر اللہ تعالی
مخمس در منقبت گوید
رباعیات
مخمس بر غزل حضور موفور السرور ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی
ایضا مخمس بہ حضور والا
مخمس فارسی برغزل ریختہ الہی بخش معروف
مسدس بر مطلع فارسی ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ غازی
خاتمہ دیوان ہذا تصنیف مولوی امام علی مقتول سلمہ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।