سرورق
مقدمہ
خوشی سے رنج کا بدلہ یہاں نہیں ملتا
یاں ہوش سے بیزار ہو ابھی نہیں جاتا
سر ہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا
حجاب اگر من وتوکا نہ درمیاں ہوتا
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
کیوں جفا گیش کبھی تو بھی جفا کوش نہ تھا
جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
جن خاک کے ذروں پروہ سایہ محمل تھا
تیرا نگاہ شوق کوئی رازداں نہ تھا
زیست کا حاصل بنا دیا دل جو گویا کچھ نہ تھا
یوں نظم جہاں درہم وبرہم نہ ہوا تھا
زندگی کا کوئی پہلو ہی نہ تھا جو غم نہ تھا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
عشق رسوا بھی کسی کا ناز معشوقانہ تھا
ستم گردش آیام اٹھا
محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہوجا
بیگانۂ اختیار ہو جا
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کرجا
تو اور در جاناں مگر اپنی سی تو کر جا
خود برق ہو اور طور تجلیٰ سے گزر جا
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
ادائے ہر نگہ التفات نے مارا
اللہ رے فسوں گر تری آنکھوں کا اشارا
ساقی اسی میں ڈال دے سب زندگی کے خم
ناوک ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
مل گیا زنداں برا ہونالۂ شبگیر کا
ٹوٹا طلسم ہستی فانی کے راز کا
یہ نیاز عاشق ہے اور وہ ہے نازان کا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
گل میں وہ اب نہیں ہے جو عالم تھا خارکا
نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
شکوہ سمجھو نہ کم نگاہی کا
دل کو مٹا کر روح کو تن سے حکم نہ دے آزادی کا
تیری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
جذب محبت بھی کیا شے ہے ان کا چاہا ہو نہ سکا
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنوں نکلا
جسے ترک حسرت کا ارمان ہوگا
دائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
دل کیا غم دنیا کیا اس درد محبت نے
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
عقل سے کام بھی لے عشق پہ ایمان بھی لا
حاصل علم لبشر جہل کا عرفاں ہونا
ہے شان عبودیت مصروف دعا ہونا
نہیں منظور تپ ہجر کا رسوا ہونا
پھر ذوق تماشا کو مرہون اثر فرما
کمال ہوش ہے یوں بے نیاز ہوش ہو جانا
فضائے شوق کا وہ شعلہ زار نور ہوجانا
کہتا ہے غم یار میں ہو جان تمنا
کچھ کم تو ہو رنج فراوان تمنا
مدّت سے ہے دل خانہ ویران تمنا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا
آشنا رسم جنوں سے نہیں سودا اپنا
بے خودی پہ تھا فانی کچھ نہ اختیار اپنا
کیوں نہ سب پہ ہو جاتا حال دل عیا اپنا
مشغلہ چاہیے کوئی غم وراحت کے سوا
کیسا بلا تھی ادائے پرسش یار
غم کے بھڑکے شعلوں سے جب جل کے کلیجہ خاک ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموز امتحاں نہ ہوا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
دم حریف زوال غم نہ ہوا
نہ حشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
حال دل کس امید پر کہیے
لے اعتبار وعدۂ فرداد نہیں رہا
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
زمان رخصت طفلی ہے لوشباب آیا
سنگ در دیکھ کے سریاد آیا
دم کیا تن بسمل سے آسنان نکل آیا
وعدے کے یہ تیور ہیں کہدوں کہ یقین آیا
جذب دل جب بروئے کار آیا
ہمیں کھوئے گئے تجھ می ںنہ جب تیرا پتا پایا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل نہ کیا دیا
اے اجل اے جان فانی تو نے یہ کیا کردیا
ہر دل کو تیرے غم نے مسلماں بنا دیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
جستجوئے نشاط مبہم کیا
داہے کی یہ مشق پیہم کیا
غم فانی وعیش برہم کیا
نذر درد دل غم دنیا کیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہو گیا
جلوہ گاہ ناز جاناں جب مرا دل ہوگیا
جیب و داماں کی حقیقت کا جو عرفاں ہوگیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
اور تسلٰی سے سوا ہوگیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑگیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
دل کی کا یا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
پھر دل بے تاب ہے آرام جان اضطراب
یہ عکس زلف سے ساغر شراب میں سانپ
پھر فریب سادگی ہے رہمنائے کوئے دوست
جنس دل ہو مشتری دل بہت
ہو کاش وفا وعدۂ فردائے قیامت
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیّاد
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
خدا کی رحمتیں نازل ہوں عشق فتنہ ساماں پر
کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
آخر کوئی امید اثر بھی دعا کے بعد
رلایا عمر بھر خون جگر اک اک مصیبت پر
نہ چاہا حسن کی فطرت نے کوئی داغ دامن پر
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر تھی جلوۂ یار پر
مور دکفر بنا مظہر ایماں ہوکر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہوکر
حیراں ہوں رنگ عالم تصویر دیکھ کر
ہر تبسم کو چمن میں گر یہ ساماں دیکھ کر
کر نہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کیے بغیر
جی ڈھونڈتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
دورلے جا اٹھا کے سر حد ناز
دل چرا کر نگاہ خاموش
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
میں ہوں اک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
لب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکان داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں کیوں ہو نہ جائے عشق
منزل عشق ہے، نمود وجود
گزرگیا انتظار حد سے یہ وعدۂ نا تمام کب تک
اے دل یہ تیری حوصلہ مندی کب تک
سیکھیے دل کے چھینے کے ڈھنگ
ٹھکرا کے اڑادے پھر ہر ذرّہ خاک دل
مایۂ ناز راز ہیں ہم لوگ
مجھے عزیز ہے فرمان موت میں تعجیل
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
خاک بہ سر تجھ سے صبا اور ہم
دادیٔ شوق میں دار فتۂ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر ہم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
راز ناکائی وفا کی قسم
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
آئینہ جلوۂ معشوق ازل کا میں ہوں
چراغ کشتۂ آرام گاہ بے نشانی ہوں
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں!
آکے تماشا گاہ جہاں میں داد تماشا کیا چاہوں
ہر سانس کے ساتھ جارہا ہوں
تسکین عجیب چاہتا ہوں
مانا کہ تری راہ کا نشاں ہوں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
کم ہے ہر ذرہ خورشید اثر کا دامن
مری آنکھوں سے بہنا چاہیے دل کا لہو برسوں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
فرقت میں تاراشک ہے ہر تار آستیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
میری آشفتہ حالیاں نہ گئیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
آپ سے شرح آرزو تو کریں
کیا اب سے موت کو بھی ہم زندگی بنا لیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
کیوں دل کو صرف کشمکش جستجو کریں
کیسی بہار اب وہ خزاں کے بھی دن گئے
وعدوں پہ ہیں کیوں ناحق امید کی تاکید یں
اتنا تو پوچھ لیجیے جانے سے پیشتر
جوتاب دل نوازیٔ درماں نہ لاسکے
امید کرم کی ہے ادا میری خطا میں
پہلوئے زوال ہوں معنی کمال میں
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے باب راز میں
جب کی ہے فکر تجزیۂ ہر مثال میں
رہ رو ہوں خضر کا رہ عرفان وخبر میں
آورنہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
بتایا راستہ عشق مجازی نے حقیقی کا
خراب لذت دیدار یار ہم بھی ہیں
مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
یہ دھن ہے تری یادھیان ہے تیرا جانے اسے کیا کہتے ہیں
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں آتےہوئے شرماتے ہیں
لب پر ہیں اب وہ نالے جو کھوئے ہوئے سے ہیں
تیور ستم ایجاد کے غمّاز نہیں ہیں
مجھ کو شکایت ستم ناروا نہیں
وحشت دل اب وہ اگلا سا ستانا چھوڑدے
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
شکر بیداد سے فارغ لب فریاد نہیں
نہیں کہ دل کی روش میں کچھ انقلاب نہیں
وہ ہی وہ ہیں مگر ظہور نہیں
عقل کہتے ہیں جسے مقبول اہل دل نہیں
ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
لطف وکرم کے پتلے ہو اب قہر وستم کا نام نہیں
دل وقف تپش ہے ہائے مگر وجہ تپش دل کوئی نہیں
جز وہم یقیں وعین یقیں اس منزل آب وگل میں نہیں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سر گرانیاں ہیں
اندر مزپارسائے بے ریا کہنے کو ہیں
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں جانے کیا کہنے کو ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
ایک وہی مختار ہیں ہم تو کہنے کو مجبور نہیں
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
اے بیخودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
غم کو ثبات بھی آخر کب تک اور یہ حیات بھی آخر کب تک
اثر پابند بیتابی نہیں تو ضبط ہی کیوں ہو
گویا نہیں تغافل و تمکیں میں کوئی فرق
ہو کے اس کوچہ سے اے باد صبا کے جھونکو
امید انعام خاص رکھو کرشمۂ لطف عام دیکھو
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اے زمین لکھنؤ اے آسمان لکھنؤ
اب آنکھ کھلتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
خدا اثر سے بچائے اس آشیانے کو
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
دل فانیؔ کی تباہی کو نہ پوچھ
خود ہوش سے پیدا کر ہر لغزش مستانہ
دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
فانی کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
اپنی جنت مجھے دکھلانہ سکا تو واعظ
سزا تجویز کی تونے جو مرگ ناگہاں میری
مجبوریٔ عریاں کو یہ خلعت مختاری
ڈرونہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی
چھانٹا ازل می ںایک تڑپتا ہوا جگر
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاداس غم کی
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذر دلبر کی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
ادائیں آگئیں کوئے بتاں کی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
قسم نہ کھاؤ تغافل سے باز آنے کی
دیر میں یا حرم میں گزرے گی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
اٹھ چلے ہم تو ان کی محفل تک
ہر بلائے شام فرقت دیکھ لی
یہ ہستی دوروزہ گویا کہ نہیں فانی
آپ کی آرزو کیے ہی بنی!
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
شباب ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
حاصل بے خبری لازمۂ ہوش ہوئی
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
مضمحل سعیٔ چارہ گر نہ ہوئی
ہر چند کہ ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
تاکید ہے کہ دیدۂ دل دا کرے کوئی
بعد فانیؔ نہ رہا مصرف زنداں کوئی
ظلم اور بھی اے فلک رہا ہے کوئی
مرکر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی لگی نہیں تو خیراب کوئی دل لگی سہی
تھم تھم کے آرہی ہیں دم نزع ہچکیاں
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عرصۂ دور ہے خاک دل حزیں سہی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
مہر کی جو نگاہ تھی خنجر بے پناہ تھی
موت بھی فرقت میں ٹل کر رہ گئی
رہ جائے یا بلا سے یہ جان
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قربان ہو جائے
جس سمت نگاہ یک نظر ہو جائے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر معال رہ نہ جائے
راز تھے میرےزخم ہائے جگر
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
تہ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
قصۂ زیست مختصر کرتے
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کچھ بس ہی نہ یہ الزام نہ لیتے
نظر کے سامنے دل میں سما کے آئے تھے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
نہیں کہ وحشت دل چارہ اگر نہیں ہے مجھے
اسیر غم وہ رخ بے حجاب کرکے مجھے
عہد خرد میں عششق کی رسوائیاں نہ پوچھ
گل خزاں کے راز کا محرم نظر آیا مجھے
جس قدر چاہیے جلوؤں کی فراوانی دے
غم مجسم نظر آیا تو ہم انساں سمجھے
ادھر نہ دیکھ مجھے بیقرار رہنے دے
دل معرفت شوق سے بیگانہ بنا دے
مجبوریٔ مشکور کی تصویر دکھا دے
یاد آجاتے ہیں جب وہ گلی صحبت کے مزے
فرصت ہی نہیں کوئی گھڑی رنج سے غم سے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
کسی کو کیا مزے سودو زیاں سے
مشتاق خبردار ہیں دل سے جگر سے
اک سر گزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
دوری ہی پھراچھی تھی مزدیکیٔ منزل سے
چونک پڑتے ہیں ذکر فانی سے!
آہ سے یا آہ کی تاثیر سے
داد خود نمائی لے وحدت تمنا سے
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شب گیر کے
سمائیں آنکھ میں کیا شعبدے قیامت کے
غم مٹا دیا غم کا لذت آشنا کرکے
ابھری ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
کچھ ہوش گنوانے کے چرچے کچھ ہوش میں بھر آجانے کے
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
یوں چلے گر جانب دل بر چلے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
دم نزع آدیکھ انجام فرقت
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے!
گریۂ جوش ندامت بس اب تٹھمنے کا تو نام نہ لے
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
وعدہ پھر اب کے بار کر کے چلے
تو بہ نہ کرو ستم سے پہلے
کترے ہیں یہ گل تیری ایک جنبش دامن نے
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
لبیک کہا کس کو حیات ابدی نے
ادا سے آر میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لیے ہوئے
جاتا ہے صبر بے سروساماشں کیے ہوئے
اٹھ اے نگاہ شوق اٹھ متاع جاں لیے ہوئے
کس قدر جذبہ الٰہی خْنجر قاتل میں ہے
فلک دشمن ہے نالے بے اثر ہیں یار بے پروا
آیا ہوں حشر میں دل شیدا لیے ہوئے
کسی کی یاد مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
رنجش بے جا تمہاری اور ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
تم نے جانا ہی نہیں درد جگر کیا چیز ہے
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
دل جو عالم میں فرورہتا ہے
متاع جلوہ تحیر ہے مجھ کو سکتا ہے
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
رگ رگ میں اب انداز بسمل نظر آتا ہے
جلوہ بے چشم آشنا کیا ہے
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
دل کو نہ کیوں کہوں جوازل سے خراب ہے
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
ستم ایجاد رہو گے ستم ایجاد رہے
رابۂ جسم وجاں دیکھیے کب تک رہے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
اے موت تجھ پہ عمر ابدکا مدار ہے
گردشیں جام وسبو کرتے رہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
جلوہ ترا طلسم حجابات نور ہے
تو ہی سفر میں پاس ہے تو ہی حضر میں پاس ہے
ذرہ ذرہ تربت فآنی کا شیون جوش ہے
گردش ایام فانی شرح دور شام ہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
عیش جہاں باعث نشاط نہیں ہے
وفا بیگانۂ رسم بیاں ہے
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
ساقی یہ ابھی حاصل میخانہ نہیں ہے
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
درد کی دنیا بدل جانے کو ہے
شکوہ کیا کیجے نگاہ یار خود غم دیدہ ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
وقت اتنا کب بقدر فرصت یک سجدہ ہے
محشر می ںعذر قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
طبیعت رفتہ رفتہ غم کی خوگر ہوتی جاتی ہے
مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
عمر بھر بیداد حسن امتحاں دیکھا کیے
امید التفات کو رسوانہ کیجئے
کارواں گزرا کیا ہم رہ گزر دیکھا کیے
دشمن جاں تھے تو جان مدعا کیوں ہوگئے
پھر پار ہائے دل پہ چھڑک دیجے نمک
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
زندگی کی ہر خلش ہے یاد جاناں کے لیے
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہیے
ذوق وحشت توبہ نوزنداں بہ زنداں چاہیے
مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانۂ غم کہیے
عید جوانی اور پھر دل میں ان کی محبت کیا کہیے
امھ پھر کی یہ بے چینی یہ بیتالی کیا کہیے
غزلیات فارسی
ساقی خمے ازبادہ دوشینہ چہ جام است
خاک پائے بند گان در گہ عستقیم ما
زحسن وعشق چو گویند داستان من است
افشاندن جاں جز کفور تو روانیست
نورز صبح وصال بخت سیاہم ربود
باز خاطر شادم تلخیٔ غم ازمن پرس
فتنۂ عشق بدلہا سرزد
بے خبر از تو جو اغیاء نے ساختہ ام
بردئے رشک شرح عذر بے نوشتہ ایم
حیف است در فراق تو مسرور زیشتن
دل رابہ نیم جنبش مژگاں فرد ختیم
یارب صلۂ رنج فرادانم کو
دلے دارم بہ خوں غلطیدۂ از جور بے نامے
اشکوں سے جو منہ کو دھو رہے ہیں
تضمین
مزارفائی مرحوم آج کیا دیکھا
مخمس
سنتے ہیں گلشن میں پھر فصل بہار آنے کو ہے
قصائد
تھی دعا اپنی بھی مدت سے کہ اب کے اے خدا
کیوں نہ اس کالج کو فخر اپنے مقدر پر رہے
قصیدہ
شاہ عثمان آصف سابع امیر المومنین
اے فلک تو ہی کامیاب سہی
شاہ ذی جاہ شہر یار دکن
نظمین
حمد داوار ہر دو عالم کو
اے خدائے جلیل بندہ نواز
علم
اے علم تیرے ذات سے دنیا کا بھلا ہے
دار فنا
ہوتے آئے ہیں اس دنیا میں
اردوئے معلیٰ
ایک دن فانی سے اردوئے معلیٰ نے کہا
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں جانے کیا کہنے کو ہیں
رند مز پائے سائے بے ریا کہنے کو ہیں
تماشائے بہار
آج احباب کا اصرار تماشائے بہار
عرض حال
یاد ایّا عیش برنائی
غمّازی
ایک غماز سے کسی نے کہا
نامۂ منظوم
مشق ومہر باں جناب امام
میرے اشعار بداخلاقی غمّازی پر
اے مہاراجہ بہادر سرکشن پرشاد شادؔ
سرکشن پرداد بہادر شادؔ
سہرا
جو شمع علم مغرب سیدنے کی تھی روشن
سرگزشت غم تنہائی ناند یڑ نہ پوچھ
قطعات
سچ اگر پوچھو تو دنیا اک تماشا گاہ ہے
فانی کے اب اوقات نہ پوچھو کہ وہ اس سال
نظام الاوقات
تاریخ وفا نواب رضا نواز جنگ مرحوم
تعزیت مہاراجہ سرکشن پرشاد دشاد(انجہانی)
اے مہارج بہادر اے یمین السلطنت
رباعیات
متفرق اشعار
سرورق
مقدمہ
خوشی سے رنج کا بدلہ یہاں نہیں ملتا
یاں ہوش سے بیزار ہو ابھی نہیں جاتا
سر ہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا
حجاب اگر من وتوکا نہ درمیاں ہوتا
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
کیوں جفا گیش کبھی تو بھی جفا کوش نہ تھا
جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
جن خاک کے ذروں پروہ سایہ محمل تھا
تیرا نگاہ شوق کوئی رازداں نہ تھا
زیست کا حاصل بنا دیا دل جو گویا کچھ نہ تھا
یوں نظم جہاں درہم وبرہم نہ ہوا تھا
زندگی کا کوئی پہلو ہی نہ تھا جو غم نہ تھا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
عشق رسوا بھی کسی کا ناز معشوقانہ تھا
ستم گردش آیام اٹھا
محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہوجا
بیگانۂ اختیار ہو جا
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کرجا
تو اور در جاناں مگر اپنی سی تو کر جا
خود برق ہو اور طور تجلیٰ سے گزر جا
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
ادائے ہر نگہ التفات نے مارا
اللہ رے فسوں گر تری آنکھوں کا اشارا
ساقی اسی میں ڈال دے سب زندگی کے خم
ناوک ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
مل گیا زنداں برا ہونالۂ شبگیر کا
ٹوٹا طلسم ہستی فانی کے راز کا
یہ نیاز عاشق ہے اور وہ ہے نازان کا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
گل میں وہ اب نہیں ہے جو عالم تھا خارکا
نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
شکوہ سمجھو نہ کم نگاہی کا
دل کو مٹا کر روح کو تن سے حکم نہ دے آزادی کا
تیری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
جذب محبت بھی کیا شے ہے ان کا چاہا ہو نہ سکا
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنوں نکلا
جسے ترک حسرت کا ارمان ہوگا
دائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
دل کیا غم دنیا کیا اس درد محبت نے
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
عقل سے کام بھی لے عشق پہ ایمان بھی لا
حاصل علم لبشر جہل کا عرفاں ہونا
ہے شان عبودیت مصروف دعا ہونا
نہیں منظور تپ ہجر کا رسوا ہونا
پھر ذوق تماشا کو مرہون اثر فرما
کمال ہوش ہے یوں بے نیاز ہوش ہو جانا
فضائے شوق کا وہ شعلہ زار نور ہوجانا
کہتا ہے غم یار میں ہو جان تمنا
کچھ کم تو ہو رنج فراوان تمنا
مدّت سے ہے دل خانہ ویران تمنا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا
آشنا رسم جنوں سے نہیں سودا اپنا
بے خودی پہ تھا فانی کچھ نہ اختیار اپنا
کیوں نہ سب پہ ہو جاتا حال دل عیا اپنا
مشغلہ چاہیے کوئی غم وراحت کے سوا
کیسا بلا تھی ادائے پرسش یار
غم کے بھڑکے شعلوں سے جب جل کے کلیجہ خاک ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموز امتحاں نہ ہوا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
دم حریف زوال غم نہ ہوا
نہ حشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
حال دل کس امید پر کہیے
لے اعتبار وعدۂ فرداد نہیں رہا
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
زمان رخصت طفلی ہے لوشباب آیا
سنگ در دیکھ کے سریاد آیا
دم کیا تن بسمل سے آسنان نکل آیا
وعدے کے یہ تیور ہیں کہدوں کہ یقین آیا
جذب دل جب بروئے کار آیا
ہمیں کھوئے گئے تجھ می ںنہ جب تیرا پتا پایا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل نہ کیا دیا
اے اجل اے جان فانی تو نے یہ کیا کردیا
ہر دل کو تیرے غم نے مسلماں بنا دیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
جستجوئے نشاط مبہم کیا
داہے کی یہ مشق پیہم کیا
غم فانی وعیش برہم کیا
نذر درد دل غم دنیا کیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہو گیا
جلوہ گاہ ناز جاناں جب مرا دل ہوگیا
جیب و داماں کی حقیقت کا جو عرفاں ہوگیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
اور تسلٰی سے سوا ہوگیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑگیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
دل کی کا یا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
پھر دل بے تاب ہے آرام جان اضطراب
یہ عکس زلف سے ساغر شراب میں سانپ
پھر فریب سادگی ہے رہمنائے کوئے دوست
جنس دل ہو مشتری دل بہت
ہو کاش وفا وعدۂ فردائے قیامت
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیّاد
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
خدا کی رحمتیں نازل ہوں عشق فتنہ ساماں پر
کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
آخر کوئی امید اثر بھی دعا کے بعد
رلایا عمر بھر خون جگر اک اک مصیبت پر
نہ چاہا حسن کی فطرت نے کوئی داغ دامن پر
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر تھی جلوۂ یار پر
مور دکفر بنا مظہر ایماں ہوکر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہوکر
حیراں ہوں رنگ عالم تصویر دیکھ کر
ہر تبسم کو چمن میں گر یہ ساماں دیکھ کر
کر نہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کیے بغیر
جی ڈھونڈتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
دورلے جا اٹھا کے سر حد ناز
دل چرا کر نگاہ خاموش
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
میں ہوں اک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
لب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکان داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں کیوں ہو نہ جائے عشق
منزل عشق ہے، نمود وجود
گزرگیا انتظار حد سے یہ وعدۂ نا تمام کب تک
اے دل یہ تیری حوصلہ مندی کب تک
سیکھیے دل کے چھینے کے ڈھنگ
ٹھکرا کے اڑادے پھر ہر ذرّہ خاک دل
مایۂ ناز راز ہیں ہم لوگ
مجھے عزیز ہے فرمان موت میں تعجیل
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
خاک بہ سر تجھ سے صبا اور ہم
دادیٔ شوق میں دار فتۂ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر ہم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
راز ناکائی وفا کی قسم
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
آئینہ جلوۂ معشوق ازل کا میں ہوں
چراغ کشتۂ آرام گاہ بے نشانی ہوں
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں!
آکے تماشا گاہ جہاں میں داد تماشا کیا چاہوں
ہر سانس کے ساتھ جارہا ہوں
تسکین عجیب چاہتا ہوں
مانا کہ تری راہ کا نشاں ہوں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
کم ہے ہر ذرہ خورشید اثر کا دامن
مری آنکھوں سے بہنا چاہیے دل کا لہو برسوں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
فرقت میں تاراشک ہے ہر تار آستیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
میری آشفتہ حالیاں نہ گئیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
آپ سے شرح آرزو تو کریں
کیا اب سے موت کو بھی ہم زندگی بنا لیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
کیوں دل کو صرف کشمکش جستجو کریں
کیسی بہار اب وہ خزاں کے بھی دن گئے
وعدوں پہ ہیں کیوں ناحق امید کی تاکید یں
اتنا تو پوچھ لیجیے جانے سے پیشتر
جوتاب دل نوازیٔ درماں نہ لاسکے
امید کرم کی ہے ادا میری خطا میں
پہلوئے زوال ہوں معنی کمال میں
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے باب راز میں
جب کی ہے فکر تجزیۂ ہر مثال میں
رہ رو ہوں خضر کا رہ عرفان وخبر میں
آورنہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
بتایا راستہ عشق مجازی نے حقیقی کا
خراب لذت دیدار یار ہم بھی ہیں
مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
یہ دھن ہے تری یادھیان ہے تیرا جانے اسے کیا کہتے ہیں
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں آتےہوئے شرماتے ہیں
لب پر ہیں اب وہ نالے جو کھوئے ہوئے سے ہیں
تیور ستم ایجاد کے غمّاز نہیں ہیں
مجھ کو شکایت ستم ناروا نہیں
وحشت دل اب وہ اگلا سا ستانا چھوڑدے
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
شکر بیداد سے فارغ لب فریاد نہیں
نہیں کہ دل کی روش میں کچھ انقلاب نہیں
وہ ہی وہ ہیں مگر ظہور نہیں
عقل کہتے ہیں جسے مقبول اہل دل نہیں
ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
لطف وکرم کے پتلے ہو اب قہر وستم کا نام نہیں
دل وقف تپش ہے ہائے مگر وجہ تپش دل کوئی نہیں
جز وہم یقیں وعین یقیں اس منزل آب وگل میں نہیں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سر گرانیاں ہیں
اندر مزپارسائے بے ریا کہنے کو ہیں
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں جانے کیا کہنے کو ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
ایک وہی مختار ہیں ہم تو کہنے کو مجبور نہیں
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
اے بیخودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
غم کو ثبات بھی آخر کب تک اور یہ حیات بھی آخر کب تک
اثر پابند بیتابی نہیں تو ضبط ہی کیوں ہو
گویا نہیں تغافل و تمکیں میں کوئی فرق
ہو کے اس کوچہ سے اے باد صبا کے جھونکو
امید انعام خاص رکھو کرشمۂ لطف عام دیکھو
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اے زمین لکھنؤ اے آسمان لکھنؤ
اب آنکھ کھلتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
خدا اثر سے بچائے اس آشیانے کو
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
دل فانیؔ کی تباہی کو نہ پوچھ
خود ہوش سے پیدا کر ہر لغزش مستانہ
دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
فانی کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
اپنی جنت مجھے دکھلانہ سکا تو واعظ
سزا تجویز کی تونے جو مرگ ناگہاں میری
مجبوریٔ عریاں کو یہ خلعت مختاری
ڈرونہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی
چھانٹا ازل می ںایک تڑپتا ہوا جگر
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاداس غم کی
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذر دلبر کی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
ادائیں آگئیں کوئے بتاں کی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
قسم نہ کھاؤ تغافل سے باز آنے کی
دیر میں یا حرم میں گزرے گی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
اٹھ چلے ہم تو ان کی محفل تک
ہر بلائے شام فرقت دیکھ لی
یہ ہستی دوروزہ گویا کہ نہیں فانی
آپ کی آرزو کیے ہی بنی!
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
شباب ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
حاصل بے خبری لازمۂ ہوش ہوئی
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
مضمحل سعیٔ چارہ گر نہ ہوئی
ہر چند کہ ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
تاکید ہے کہ دیدۂ دل دا کرے کوئی
بعد فانیؔ نہ رہا مصرف زنداں کوئی
ظلم اور بھی اے فلک رہا ہے کوئی
مرکر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی لگی نہیں تو خیراب کوئی دل لگی سہی
تھم تھم کے آرہی ہیں دم نزع ہچکیاں
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عرصۂ دور ہے خاک دل حزیں سہی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
مہر کی جو نگاہ تھی خنجر بے پناہ تھی
موت بھی فرقت میں ٹل کر رہ گئی
رہ جائے یا بلا سے یہ جان
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قربان ہو جائے
جس سمت نگاہ یک نظر ہو جائے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر معال رہ نہ جائے
راز تھے میرےزخم ہائے جگر
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
تہ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
قصۂ زیست مختصر کرتے
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کچھ بس ہی نہ یہ الزام نہ لیتے
نظر کے سامنے دل میں سما کے آئے تھے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
نہیں کہ وحشت دل چارہ اگر نہیں ہے مجھے
اسیر غم وہ رخ بے حجاب کرکے مجھے
عہد خرد میں عششق کی رسوائیاں نہ پوچھ
گل خزاں کے راز کا محرم نظر آیا مجھے
جس قدر چاہیے جلوؤں کی فراوانی دے
غم مجسم نظر آیا تو ہم انساں سمجھے
ادھر نہ دیکھ مجھے بیقرار رہنے دے
دل معرفت شوق سے بیگانہ بنا دے
مجبوریٔ مشکور کی تصویر دکھا دے
یاد آجاتے ہیں جب وہ گلی صحبت کے مزے
فرصت ہی نہیں کوئی گھڑی رنج سے غم سے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
کسی کو کیا مزے سودو زیاں سے
مشتاق خبردار ہیں دل سے جگر سے
اک سر گزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
دوری ہی پھراچھی تھی مزدیکیٔ منزل سے
چونک پڑتے ہیں ذکر فانی سے!
آہ سے یا آہ کی تاثیر سے
داد خود نمائی لے وحدت تمنا سے
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شب گیر کے
سمائیں آنکھ میں کیا شعبدے قیامت کے
غم مٹا دیا غم کا لذت آشنا کرکے
ابھری ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
کچھ ہوش گنوانے کے چرچے کچھ ہوش میں بھر آجانے کے
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
یوں چلے گر جانب دل بر چلے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
دم نزع آدیکھ انجام فرقت
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے!
گریۂ جوش ندامت بس اب تٹھمنے کا تو نام نہ لے
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
وعدہ پھر اب کے بار کر کے چلے
تو بہ نہ کرو ستم سے پہلے
کترے ہیں یہ گل تیری ایک جنبش دامن نے
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
لبیک کہا کس کو حیات ابدی نے
ادا سے آر میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لیے ہوئے
جاتا ہے صبر بے سروساماشں کیے ہوئے
اٹھ اے نگاہ شوق اٹھ متاع جاں لیے ہوئے
کس قدر جذبہ الٰہی خْنجر قاتل میں ہے
فلک دشمن ہے نالے بے اثر ہیں یار بے پروا
آیا ہوں حشر میں دل شیدا لیے ہوئے
کسی کی یاد مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
رنجش بے جا تمہاری اور ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
تم نے جانا ہی نہیں درد جگر کیا چیز ہے
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
دل جو عالم میں فرورہتا ہے
متاع جلوہ تحیر ہے مجھ کو سکتا ہے
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
رگ رگ میں اب انداز بسمل نظر آتا ہے
جلوہ بے چشم آشنا کیا ہے
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
دل کو نہ کیوں کہوں جوازل سے خراب ہے
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
ستم ایجاد رہو گے ستم ایجاد رہے
رابۂ جسم وجاں دیکھیے کب تک رہے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
اے موت تجھ پہ عمر ابدکا مدار ہے
گردشیں جام وسبو کرتے رہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
جلوہ ترا طلسم حجابات نور ہے
تو ہی سفر میں پاس ہے تو ہی حضر میں پاس ہے
ذرہ ذرہ تربت فآنی کا شیون جوش ہے
گردش ایام فانی شرح دور شام ہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
عیش جہاں باعث نشاط نہیں ہے
وفا بیگانۂ رسم بیاں ہے
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
ساقی یہ ابھی حاصل میخانہ نہیں ہے
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
درد کی دنیا بدل جانے کو ہے
شکوہ کیا کیجے نگاہ یار خود غم دیدہ ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
وقت اتنا کب بقدر فرصت یک سجدہ ہے
محشر می ںعذر قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
طبیعت رفتہ رفتہ غم کی خوگر ہوتی جاتی ہے
مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
عمر بھر بیداد حسن امتحاں دیکھا کیے
امید التفات کو رسوانہ کیجئے
کارواں گزرا کیا ہم رہ گزر دیکھا کیے
دشمن جاں تھے تو جان مدعا کیوں ہوگئے
پھر پار ہائے دل پہ چھڑک دیجے نمک
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
زندگی کی ہر خلش ہے یاد جاناں کے لیے
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہیے
ذوق وحشت توبہ نوزنداں بہ زنداں چاہیے
مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانۂ غم کہیے
عید جوانی اور پھر دل میں ان کی محبت کیا کہیے
امھ پھر کی یہ بے چینی یہ بیتالی کیا کہیے
غزلیات فارسی
ساقی خمے ازبادہ دوشینہ چہ جام است
خاک پائے بند گان در گہ عستقیم ما
زحسن وعشق چو گویند داستان من است
افشاندن جاں جز کفور تو روانیست
نورز صبح وصال بخت سیاہم ربود
باز خاطر شادم تلخیٔ غم ازمن پرس
فتنۂ عشق بدلہا سرزد
بے خبر از تو جو اغیاء نے ساختہ ام
بردئے رشک شرح عذر بے نوشتہ ایم
حیف است در فراق تو مسرور زیشتن
دل رابہ نیم جنبش مژگاں فرد ختیم
یارب صلۂ رنج فرادانم کو
دلے دارم بہ خوں غلطیدۂ از جور بے نامے
اشکوں سے جو منہ کو دھو رہے ہیں
تضمین
مزارفائی مرحوم آج کیا دیکھا
مخمس
سنتے ہیں گلشن میں پھر فصل بہار آنے کو ہے
قصائد
تھی دعا اپنی بھی مدت سے کہ اب کے اے خدا
کیوں نہ اس کالج کو فخر اپنے مقدر پر رہے
قصیدہ
شاہ عثمان آصف سابع امیر المومنین
اے فلک تو ہی کامیاب سہی
شاہ ذی جاہ شہر یار دکن
نظمین
حمد داوار ہر دو عالم کو
اے خدائے جلیل بندہ نواز
علم
اے علم تیرے ذات سے دنیا کا بھلا ہے
دار فنا
ہوتے آئے ہیں اس دنیا میں
اردوئے معلیٰ
ایک دن فانی سے اردوئے معلیٰ نے کہا
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں جانے کیا کہنے کو ہیں
رند مز پائے سائے بے ریا کہنے کو ہیں
تماشائے بہار
آج احباب کا اصرار تماشائے بہار
عرض حال
یاد ایّا عیش برنائی
غمّازی
ایک غماز سے کسی نے کہا
نامۂ منظوم
مشق ومہر باں جناب امام
میرے اشعار بداخلاقی غمّازی پر
اے مہاراجہ بہادر سرکشن پرشاد شادؔ
سرکشن پرداد بہادر شادؔ
سہرا
جو شمع علم مغرب سیدنے کی تھی روشن
سرگزشت غم تنہائی ناند یڑ نہ پوچھ
قطعات
سچ اگر پوچھو تو دنیا اک تماشا گاہ ہے
فانی کے اب اوقات نہ پوچھو کہ وہ اس سال
نظام الاوقات
تاریخ وفا نواب رضا نواز جنگ مرحوم
تعزیت مہاراجہ سرکشن پرشاد دشاد(انجہانی)
اے مہارج بہادر اے یمین السلطنت
رباعیات
متفرق اشعار
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔