سر ورق
پیش لفظ
فہرست
دیباچہ
مقدمہ
شجرہ
کتابیات
سرہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا
غزلیات
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
ہل گیا زنداں برا ہو نالۂ شبگیر کا
ناوک ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
ٹوٹا طلسم ہستئ فانی کے راز کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
کچھ کم تو ہوا رنج فرا وانِ تمنا
مدت سے ہے دل خانۂ ویرانِ تمنا
کہتا ہے غمِ یار میں ہوں جان تمنا
نہیں منظور تپِ ہجر کا رسوا ہونا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموزِ امتحاں نہ ہوا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل نہ کیا دیا
حال دل کس امید پر کہیے
اے اجل اے جانِ فانی تو نے یہ کیا کردیا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار دیا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ۃے اضطراب کیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہوگیا
زمانِ رخصتِ طفلی ہے لو شباب آیا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
نذرِ دردِ دل غمِ دنیا کیا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
جلوۂ عشق حقیقت تھی محسنِ مجاز بہار نہ تھا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
کمال ہوش ہے یوں بے نیازی ہوش ہو جانا
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
جلوہ گاہِ نازِ جاناں جب مرا دل ہوگیا
محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہو جا
حجاب اگر من و تو کا نہ درمیاں ہوتا
اور تسلی سے سوا ہو گیا
تیرا نگاہِ شوق کوئی رازداں نہ تھا
زندگی کا کوئی پہلو ہی نہ تھا جو غم نہ تھا
ہر دل کو تیرے غم نے مسلماں بنا دیا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
خود برق ہو اور طو تجلا سے گزر جا
تو اور درجاناں مگر اپنی سی تو کرجا
کیوں جفا کیش کبھی تو بھی جفا کوش نہ تھا
داہمے کی یہ مشق پیہم کیا
فضائے شوق کا وہ شعلہ زارِ نور ہوجانا
لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا
جسے ترک حسرت کا ارمان ہوگا
جستجو ئے نشاطِ مبہم کیا
غمِ فانی و عیش برہم کیا
جن خاک کے ذروں پر وہ سایہ محمل تھا
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
یہ نیاز عاشق ہے اور وہ ہے ناز ان کا
غم کے بھڑکے شعلوں سے جب حال کے کلیجہ خاک ہوا
ہمیں کھوئے گئے تجھ میں نہ جب تیرا پتا پایا
ادائے ہر نگہ التفات نے مارا
زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
مشغلہ چاہئے کوئی غم و راحت کے سوا
بیگانۂ اختیار ہو جا
آشنا رسم جنوں سے نہیں سودا اپنا
دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
دم حریفِ زوال غم نہ ہوا
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کرجا
جیب و داماں کی حقیقت کا جو عرفاں ہو گیا
گل میں وہ اب نہیں ہے جو عالم تھا خار کا
ستم گردش ایام اٹھا
یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
دم کیا تن بسمل سے آسان نکل آیا
دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا
سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
اللہ رے فسوں گر تری آنکھوں کا اشارہ
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
وعدے کے یہ تیور ہیں کہدوں کہ یقیں آیا
بیخودی یہ تھا فانی کچھ نہ اختیار اپنا
عقل سے کام بھی لے عشق پہ ایماں بھی لایا
عشق رسوا ابھی کسی کا نارِ معشوقانہ تھا
پھر ذوقِ تماشا کو مرہونِ اثر فرما
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
نام بد نام ہے ناحق شب تنہائی کا
جذبِ محبت بھی کیا شے ہے ان کا چاہا ہو نہ سکا
دل کو مٹٓ کر روح کو تن سے حکم نہ دے آزادی کا
شکوہ سمجھو نہ کم نگاہی کا
جذب دل جب بروئے کار آیا
کیوں نہ سب پہ ہو جاتا جال دل عیاں اپنا
دل کیا غمِ دنیا کیا اس درد محبت نے
یہاں اب ایک دل بھی درد کے قابل نہیں ملتا
جلوۂ رخ آفتاب ِ حشر سے کچھ کم نہیں
پھر دل بے تاب ہے آرام جان اضطراب
ردیف (ب)
عشق ہے پر تو حسن محبوب
ردیف (پ)
یہ عکس زلف سے ہے ساغرشراب میں سانپ
ردیف ( ت)
پھر فریبِ سادگی ہے، رہنمائے کوئے دوست
جنس دل ہو، مشتریٔ دل بہت
ہو کاش وفا وعدعدۂ فردائے قیامت
ردیف (ٹ)
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
ردیف (د)
فغاں کے پردے میں سن میری داستان صیاد
کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
آخر کوئی امید اثر بھی دعا کے بعد
نہ رہی گلشن الفت میں صبا میرے بعد
ردیف (ر)
دلایا عمر بھر خون جگر، اک مصیبت پر
مورد کفر بنا، مظہر ایماں ہو کر
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
حیراں ہوں رنگ عالمِ تصویر دیکھ کر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کیے بغیر
ہر تبسم کو چمن میں گریہ ساماں دیکھ کر
خد کی رحمتیں نازل ہوں عشق فتنہ ساماں پر
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
نہ چاہا حسن کی فطرت نے کوئی داغ دامن پر
ہجر میں مسکرائے جا، دل میں اسے تلاش کر
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر آتی تھی جلوۂ یار پر
کوچۂ جاناں میں جا نکلے جو غلماں بھول کر
دور لے جا ہٹا کے سرحدِ ناز
ردیف(ز)
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
ردیف (ش)
دل چرا کر نگاہ ہے خاموش
میں ہوں اک مر کر ہنگامۂ ہوش درمِ ہوش
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
ردیف (ص)
ردیف (غ)
اب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکاں داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں، کیوں ہو نہ جائے عشق
ردیف (ق)
ردیف (ک)
گزر گیا انتظار حد سے، یہ وعدۂ ناتمام کب تک
منزل عشق ہے نمود وجود
اے دل یہ تری حوصلہ مندی کب تک
ردیف (گ)
مایۂ ناز راز ہیں ہم لوگ
سیکھیے دل کے چھینے کے ڈھنگ
ٹھکرا کے اڑا دے پھر ہر ذرہ خاکِ دل
مجھے عزیز ہے فرمانِ موت میں تعجیل
ردیف (ل)
ردیف (م)
خاک بستر تجھ سے صبا اور ہم
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
وادیٔ شوق میں وارفتہ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
مجھ یہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
رازِ ناکائی وفا کی قسم
آئینہ جلوۂ معشوقِ ازل کا میں ہوں
اتنا تو پوچھ لیجئے جانے سے پیشتر
ردیف (ن)
مجھ کو شکایت ستم ناروا نہیں
جانتا ہوں کہ مرادل مرے پہلو میں نہیں
بتایا راستہ عشق مجازی نے حقیقی کا
وحشتِ دل اب وہ اگلا سا ستانا چھوڑ دے
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
خراب لذتِ دیدار یار ہم بھی ہیں
چراغ کشتۂ آرام گاہِ بے نشانی ہوں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
فرقت میں تار اشک ہے ہر تار آستیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
آور نہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے بابِ راز میں
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
جو تاب دل نوازیٔ درماں نہ لاسکے
یہ دھن ہے تری یا دھیان ہے تیرا جانے اسے کیا کہتے ہیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر وستم کا نام نہیں
دل واقف تپش ہے ہائے مگر وجہ تپش دل کوئی نہیں
پہلوئے زوال ہوں معنے کمال میں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
شکر فریاد سے فارغ لبِ فریاد نہیں
میری آشفتہ حالیاں نہ گئیں
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
نم ہے ہر ذرہ خورشید اثر کا دامن
جزو ہم یقین و عین یقین اس منزل آب و گلِ میں نہیں
نہیں کہ دل کی روش میں کچھ انقلاب نہیں
امید کرم کی ہے ادا میری خطا میں
وہ ہی وہ ہیں مگر ظہور نہیں
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
رہبر ہو خضر کا جو رہِ ذوق و خبر میں
عقل کہتے ہیں جسے مقبول اہل دل نہیں
ان کی کسی ادا یہ جفا کا گماں نہیں
تسکین عجب چاہتا ہوں
نالے وہ اب ہیں لب پہ جو کھوئے ہوئے سے ہیں
جب کی ہے فکر تجزیۂ ہر مثال میں
تیور ستم ایجاد کے غماز نہیں ہیں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوا کہا ں کہاں
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
ایک وہی مختار ہیں ہم تو کہنے کو مجبور نہیں
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
وعدوں پہ ہیں کیوں ناحق امید کی تاکیدیں
کیسی بہار اب وہ خزاں کے بھی دن گئے
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
کیوں دل کو صرف کشمکش جستجو کریں
آکے تماشاگاہِ جہاں میں داد تماشا کیا چاہوں
ہر سانس کے ساتھ جارہا ہوں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سرگرانیاں ہیں
مانا تیری راہ کا نشاں ہوں
کیا اب سے موت کو بھی ہم زندگی بنا لیں
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں، جانے کیا کہنے کو ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
جدھر آنکھ اٹھا کر دلا دیکھتے ہیں
رند رمز پار سائے بے ریا کہنے کو ہیں
ردیف (و)
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مآلِ سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
ہو کہ اس کوچہ سے اے باد صبا کے چھونکو
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اثر پابند ہے بے تابی نہیں تو ضبط بھی کیوں ہو
اے زمینِ لکھنؤ اے آسمانِ لکھنؤ
امیدِ انعامِ خاص رکھو کرشمۂ لطف عام دیکھو
خدا اثر سے بچائے اس آستانے کو
گویا نہیں تغافل و تمکیں میں کوئی فرق
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
ردیف ( ہ)
خود ہوش سے پیدا کر ہر لغزش مستانہ
دلِ فانی کی تباہی کو نہ پوچھ
دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
ردیف (ی)
چھانٹا ازل میں ایک تڑپتا ہو اجگر
اس قدر جذبہ الہی خنجر قاتل میں ہے
فلک دشمن ہے، نالے بے اثر ہیں، یار بے پروا
یوں چلے گر جانبِ دل بر چلے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
اسیر غم وہ رخ بے حجاب کرکے مجھے
رنجش بے جا تمہاری اور ہے
سزا تجویز کی تونے جو مرگ ناگہانی میری
کسی کو کیا مرے سودوزیاں سے
کسی کی یادِ مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
پھر پارہ ہائے دل پہ چھڑک دیجئے نمک
ڈرو نہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاد اس غم کی
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحبت کے مزے
نہیں کہ وحشتِ دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
تم نے جانا ہی نہیں درد جگر کیا چیز ہے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
ابھرتی ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
یہ ہستیٔ دو روزہ گویا کہ نہیں فانی
فرصت ہی نہیں کوئی گھڑی رنج سے غم سے
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
سمائیں آنکھ میں کیا شبدے قیامت کے
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذر دلبر کی
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
فصل گل خیر تو ہے دشت میں دیوانوں کی
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
عیش جہاں باعثِ نشاط نہیں ہے
رابطۂ جسم و جاں دیکھے کب تک رہے
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نے
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ ہے
نصیب ہو بھی کو کیا لطف وصل یار میں ہے
غم مجسم نظرآیا تو ہم انساں سمجھے
دشمن جاں تھے تو جانِ مدعا کیوں ہو گئے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
محشر میں عذر قتل بھی ہے خون بہا بھی ہے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
غم مٹادیا غم کا لذت آشنا کرکے
شکوہ کیا کیجئے نگاہِ یار خود غم دیدہ ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
جاتا ہے صبر بے سرو ساماں کیے ہوئے
مشتاق خبر دار ہیں دل سے جگر سے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر مآل رہ نہ جائے
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
متاع جلوہ تحیر ہے مجھ کو سکتا ہے
مرک مریضِ غم کی وہ حالت نہیں رہی
کارواں گزرا کیا ہم رہ گزر دیکھا کیے
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یاسستی
ذرہ ذرہ تربت فانی کا شیون جوش ہے
ہر چند کر ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
دل کی لگی نہیں تو خیر اب کوئی دل لگی سہی
فانی کفِ قاتل میں شمشیر نظر آئی
شبابِ ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
اب انہیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
جس قدر چاہئے جلووں کو فراوانی دے
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قربان ہوجائے
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک باررہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
اس نورِ مجسم کے افسانے کو کیا کہیے
رگ رگ میں اب انداز بسمل نظر آتا ہے
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
کترے ہیں یہ گل تیری اک جنبش دامن نے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لئے ہوئے
عمر بھر بیداد حسن امتحاں دیکھا کیے
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
گریۂ جوش ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
اک سرگزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
مژدۂ عیش یہ تمہید پریشانی ہے
جلوہ ترا طلسم حجا باتِ نور ہے
عہد خرد میں عشق کی رسوائیاں نہ پوچھ
اک برق سرِ طور ہے لہرائی ہوئی سی
ہے ہجر میں اور گردش ایام نہیں ہے
وہ بے خودی کے پیالے پلا دے تو نے
دادِ خود نمائی لے وحدت تمنا سے
ذوق وحشت نوبہ نو زنداں بہ زنداں چاہئے
حاصل بے خبری لازمۂ ہوش ہوئی
وقت اتنا کب بقدر فرصت یک سجدہ ہے
مجبوری عریاں کو یہ خلعت مختاری
اٹھ اے نگاہ شوق اٹھ متاع جاں لیے ہوئے
گردش ایام فانی شرح دورشام ہے
کیا جانیے کہاں تک تمہید زندگی ہے
اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
مضمل سعی چارہ گر نہ ہوئی
پالیا ذوق طلب نے ماورائے دل مجھے
طبیعت رفتہ رفتہ غم کی خوگر ہوتی جاتی ہے
مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
دل معرفت شوق سے بیگانہ بنا دے
مجبور یٔ مشکور کی تصویر دکھا دے
ادھر نہ دیکھ مجھے بے قرار رہنے دے
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
بعد فانی نہ رہا مصرف زنداں کوئی
زندگی کی ہرخلش ہے، یاد جاناں کے لئے
آہ سے یا آہ کی تاثیر سے
جلوہ بے چشم آشنا کیا ہے
دیر میں یا حرم میں گزرے گی
توہی سفر میں ساتھ ہے توہی حضر میں پاس ہے
ستم ایجاد رہو گے ستم ایجاد رہے
مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
تیرے غم میں تباہ ہوتی ہے
لبیک کہا کس کو حیات ابدی نے
دل جو عالم میں فرد رہتا ہے
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
گل خزاں کے راز کا محرم نظرآیا مجھے
تھم تھم کے آرہی ہیں دم نزع ہچکیاں
جس سمت نگاہ یک نگر جائے
ادائیں آ گئیں کوئے بتاں کی
دوری ہی پھر اچھی تھی نزدیکی منزل سے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے
گلچیں کے لئے اور نہ گلشن کے لئے ہے
ہر بلائے شام فرقت دیکھ لی
دم نزع آ دیکھ انجام فرقت
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
وفا بیگانۂ رسم بیاں ہے
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
قہر کی جو نگاہ تھی خنجر بے پناہ تھی
راز تھے میرے زخم ہائے جگر
چونک پڑتے ہیں ذکر فانی سے
سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
عرصۂ حشر دور ہے خاک دل حزیں سہی
درد کو دنیا بدل جانے کو ہے
بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
نہ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
موت بھی فرقت میں ٹل کر رہ گئی
آیا ہوں حشر میں دل شیدا لیے ہوئے
آپ کی آرزو کیے ہی بنی
اٹھ چلے ہم تو ان کی محفل تک
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانۂ غم کہیئے
اٹھ پہر کی یہ بے چینی یہ بے تابی کیا کہیئے
قصہ زیست مختصر کرتے
کچھ ہوش گنوانے کے چرچے کچھ ہوش میں پھر آجانے کے
عہد جوانی اور پھر دل میں ان کی محبت کیا کہئے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتاہے
نظر کے سامنے دل میں سما کے آئے تھے
وعدہ پھر اب کے بار کرکے چلے
توبہ نہ کرو ستم سے پہلے
قسم نہ کھاؤ تغافل سے باز آنے کی
گردشیں جام و سبو کرتے رہے
ظلم اور بھی اے فلک رہا ہے کوئی
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
ساقی یہ ابھی حاصل مے خانہ نہیں ہے
دل کو نہ کیوں کہوں جو ازل سے خراب ہے
راز ہر جلوہ نہاں سازِ انا ساز میں ہے
فردیات
تضمینات
تضمین بر غزل جناب منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنؤ
مخمس برعایت نام محبی و مشفقی
در حمد حق سبحانہ تعالیٰ
بے نقط
قصیدہ بطرز ترکیب بند
رباعیات
قطعات
منظومات (علم)
دنیا اور دنیا کے دوست
دارِ فنا
نظم بہ تقریب جلسہ سالانہ
متفرقات غزل
عرض حال
مذمت غمازی
در مدح
قطعہ دیگر
بتقریب جشن سالگرہ
بتقریب سالگرہ سر سید احمد خان بہادر
بہ تہنیت یافتین خطاب راجہ بہادر
نامہ ہائے منظوم
بنام حافظ امام الدین امام اکبر آبادی
سہرا
قطعہ
قطعہ
قطعہ تاریخ وفات
قطعہ تعزیت
بروفات امیر مینائی
کتبہ قبر فانی
قطعہ تاریخ دیوان فانی
باغ نشاط کشمیر
تماشائے بہار
سرگذشت نانڈیر
قطعہ نظام الاوقات خود
یاد
ضمیمہ اول غزلیات فارسی
ضمیمہ دوم تراکیب فانی
سر ورق
پیش لفظ
فہرست
دیباچہ
مقدمہ
شجرہ
کتابیات
سرہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا
غزلیات
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
ہل گیا زنداں برا ہو نالۂ شبگیر کا
ناوک ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
ٹوٹا طلسم ہستئ فانی کے راز کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
کچھ کم تو ہوا رنج فرا وانِ تمنا
مدت سے ہے دل خانۂ ویرانِ تمنا
کہتا ہے غمِ یار میں ہوں جان تمنا
نہیں منظور تپِ ہجر کا رسوا ہونا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموزِ امتحاں نہ ہوا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل نہ کیا دیا
حال دل کس امید پر کہیے
اے اجل اے جانِ فانی تو نے یہ کیا کردیا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار دیا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ۃے اضطراب کیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہوگیا
زمانِ رخصتِ طفلی ہے لو شباب آیا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
نذرِ دردِ دل غمِ دنیا کیا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
جلوۂ عشق حقیقت تھی محسنِ مجاز بہار نہ تھا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
کمال ہوش ہے یوں بے نیازی ہوش ہو جانا
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
جلوہ گاہِ نازِ جاناں جب مرا دل ہوگیا
محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہو جا
حجاب اگر من و تو کا نہ درمیاں ہوتا
اور تسلی سے سوا ہو گیا
تیرا نگاہِ شوق کوئی رازداں نہ تھا
زندگی کا کوئی پہلو ہی نہ تھا جو غم نہ تھا
ہر دل کو تیرے غم نے مسلماں بنا دیا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
خود برق ہو اور طو تجلا سے گزر جا
تو اور درجاناں مگر اپنی سی تو کرجا
کیوں جفا کیش کبھی تو بھی جفا کوش نہ تھا
داہمے کی یہ مشق پیہم کیا
فضائے شوق کا وہ شعلہ زارِ نور ہوجانا
لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا
جسے ترک حسرت کا ارمان ہوگا
جستجو ئے نشاطِ مبہم کیا
غمِ فانی و عیش برہم کیا
جن خاک کے ذروں پر وہ سایہ محمل تھا
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
یہ نیاز عاشق ہے اور وہ ہے ناز ان کا
غم کے بھڑکے شعلوں سے جب حال کے کلیجہ خاک ہوا
ہمیں کھوئے گئے تجھ میں نہ جب تیرا پتا پایا
ادائے ہر نگہ التفات نے مارا
زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
مشغلہ چاہئے کوئی غم و راحت کے سوا
بیگانۂ اختیار ہو جا
آشنا رسم جنوں سے نہیں سودا اپنا
دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
دم حریفِ زوال غم نہ ہوا
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کرجا
جیب و داماں کی حقیقت کا جو عرفاں ہو گیا
گل میں وہ اب نہیں ہے جو عالم تھا خار کا
ستم گردش ایام اٹھا
یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
دم کیا تن بسمل سے آسان نکل آیا
دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا
سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
اللہ رے فسوں گر تری آنکھوں کا اشارہ
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
وعدے کے یہ تیور ہیں کہدوں کہ یقیں آیا
بیخودی یہ تھا فانی کچھ نہ اختیار اپنا
عقل سے کام بھی لے عشق پہ ایماں بھی لایا
عشق رسوا ابھی کسی کا نارِ معشوقانہ تھا
پھر ذوقِ تماشا کو مرہونِ اثر فرما
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
نام بد نام ہے ناحق شب تنہائی کا
جذبِ محبت بھی کیا شے ہے ان کا چاہا ہو نہ سکا
دل کو مٹٓ کر روح کو تن سے حکم نہ دے آزادی کا
شکوہ سمجھو نہ کم نگاہی کا
جذب دل جب بروئے کار آیا
کیوں نہ سب پہ ہو جاتا جال دل عیاں اپنا
دل کیا غمِ دنیا کیا اس درد محبت نے
یہاں اب ایک دل بھی درد کے قابل نہیں ملتا
جلوۂ رخ آفتاب ِ حشر سے کچھ کم نہیں
پھر دل بے تاب ہے آرام جان اضطراب
ردیف (ب)
عشق ہے پر تو حسن محبوب
ردیف (پ)
یہ عکس زلف سے ہے ساغرشراب میں سانپ
ردیف ( ت)
پھر فریبِ سادگی ہے، رہنمائے کوئے دوست
جنس دل ہو، مشتریٔ دل بہت
ہو کاش وفا وعدعدۂ فردائے قیامت
ردیف (ٹ)
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
ردیف (د)
فغاں کے پردے میں سن میری داستان صیاد
کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
آخر کوئی امید اثر بھی دعا کے بعد
نہ رہی گلشن الفت میں صبا میرے بعد
ردیف (ر)
دلایا عمر بھر خون جگر، اک مصیبت پر
مورد کفر بنا، مظہر ایماں ہو کر
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
حیراں ہوں رنگ عالمِ تصویر دیکھ کر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کیے بغیر
ہر تبسم کو چمن میں گریہ ساماں دیکھ کر
خد کی رحمتیں نازل ہوں عشق فتنہ ساماں پر
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
نہ چاہا حسن کی فطرت نے کوئی داغ دامن پر
ہجر میں مسکرائے جا، دل میں اسے تلاش کر
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر آتی تھی جلوۂ یار پر
کوچۂ جاناں میں جا نکلے جو غلماں بھول کر
دور لے جا ہٹا کے سرحدِ ناز
ردیف(ز)
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
ردیف (ش)
دل چرا کر نگاہ ہے خاموش
میں ہوں اک مر کر ہنگامۂ ہوش درمِ ہوش
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
ردیف (ص)
ردیف (غ)
اب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکاں داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں، کیوں ہو نہ جائے عشق
ردیف (ق)
ردیف (ک)
گزر گیا انتظار حد سے، یہ وعدۂ ناتمام کب تک
منزل عشق ہے نمود وجود
اے دل یہ تری حوصلہ مندی کب تک
ردیف (گ)
مایۂ ناز راز ہیں ہم لوگ
سیکھیے دل کے چھینے کے ڈھنگ
ٹھکرا کے اڑا دے پھر ہر ذرہ خاکِ دل
مجھے عزیز ہے فرمانِ موت میں تعجیل
ردیف (ل)
ردیف (م)
خاک بستر تجھ سے صبا اور ہم
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
وادیٔ شوق میں وارفتہ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
مجھ یہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
رازِ ناکائی وفا کی قسم
آئینہ جلوۂ معشوقِ ازل کا میں ہوں
اتنا تو پوچھ لیجئے جانے سے پیشتر
ردیف (ن)
مجھ کو شکایت ستم ناروا نہیں
جانتا ہوں کہ مرادل مرے پہلو میں نہیں
بتایا راستہ عشق مجازی نے حقیقی کا
وحشتِ دل اب وہ اگلا سا ستانا چھوڑ دے
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
خراب لذتِ دیدار یار ہم بھی ہیں
چراغ کشتۂ آرام گاہِ بے نشانی ہوں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
فرقت میں تار اشک ہے ہر تار آستیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
آور نہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے بابِ راز میں
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
جو تاب دل نوازیٔ درماں نہ لاسکے
یہ دھن ہے تری یا دھیان ہے تیرا جانے اسے کیا کہتے ہیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر وستم کا نام نہیں
دل واقف تپش ہے ہائے مگر وجہ تپش دل کوئی نہیں
پہلوئے زوال ہوں معنے کمال میں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
شکر فریاد سے فارغ لبِ فریاد نہیں
میری آشفتہ حالیاں نہ گئیں
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
نم ہے ہر ذرہ خورشید اثر کا دامن
جزو ہم یقین و عین یقین اس منزل آب و گلِ میں نہیں
نہیں کہ دل کی روش میں کچھ انقلاب نہیں
امید کرم کی ہے ادا میری خطا میں
وہ ہی وہ ہیں مگر ظہور نہیں
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
رہبر ہو خضر کا جو رہِ ذوق و خبر میں
عقل کہتے ہیں جسے مقبول اہل دل نہیں
ان کی کسی ادا یہ جفا کا گماں نہیں
تسکین عجب چاہتا ہوں
نالے وہ اب ہیں لب پہ جو کھوئے ہوئے سے ہیں
جب کی ہے فکر تجزیۂ ہر مثال میں
تیور ستم ایجاد کے غماز نہیں ہیں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوا کہا ں کہاں
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
ایک وہی مختار ہیں ہم تو کہنے کو مجبور نہیں
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
وعدوں پہ ہیں کیوں ناحق امید کی تاکیدیں
کیسی بہار اب وہ خزاں کے بھی دن گئے
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
کیوں دل کو صرف کشمکش جستجو کریں
آکے تماشاگاہِ جہاں میں داد تماشا کیا چاہوں
ہر سانس کے ساتھ جارہا ہوں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سرگرانیاں ہیں
مانا تیری راہ کا نشاں ہوں
کیا اب سے موت کو بھی ہم زندگی بنا لیں
بے طرح ہم چپ ہوئے ہیں، جانے کیا کہنے کو ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
جدھر آنکھ اٹھا کر دلا دیکھتے ہیں
رند رمز پار سائے بے ریا کہنے کو ہیں
ردیف (و)
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مآلِ سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
ہو کہ اس کوچہ سے اے باد صبا کے چھونکو
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اثر پابند ہے بے تابی نہیں تو ضبط بھی کیوں ہو
اے زمینِ لکھنؤ اے آسمانِ لکھنؤ
امیدِ انعامِ خاص رکھو کرشمۂ لطف عام دیکھو
خدا اثر سے بچائے اس آستانے کو
گویا نہیں تغافل و تمکیں میں کوئی فرق
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
ردیف ( ہ)
خود ہوش سے پیدا کر ہر لغزش مستانہ
دلِ فانی کی تباہی کو نہ پوچھ
دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
ردیف (ی)
چھانٹا ازل میں ایک تڑپتا ہو اجگر
اس قدر جذبہ الہی خنجر قاتل میں ہے
فلک دشمن ہے، نالے بے اثر ہیں، یار بے پروا
یوں چلے گر جانبِ دل بر چلے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
اسیر غم وہ رخ بے حجاب کرکے مجھے
رنجش بے جا تمہاری اور ہے
سزا تجویز کی تونے جو مرگ ناگہانی میری
کسی کو کیا مرے سودوزیاں سے
کسی کی یادِ مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
پھر پارہ ہائے دل پہ چھڑک دیجئے نمک
ڈرو نہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاد اس غم کی
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحبت کے مزے
نہیں کہ وحشتِ دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
تم نے جانا ہی نہیں درد جگر کیا چیز ہے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
ابھرتی ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
یہ ہستیٔ دو روزہ گویا کہ نہیں فانی
فرصت ہی نہیں کوئی گھڑی رنج سے غم سے
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
سمائیں آنکھ میں کیا شبدے قیامت کے
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذر دلبر کی
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
فصل گل خیر تو ہے دشت میں دیوانوں کی
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
عیش جہاں باعثِ نشاط نہیں ہے
رابطۂ جسم و جاں دیکھے کب تک رہے
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نے
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ ہے
نصیب ہو بھی کو کیا لطف وصل یار میں ہے
غم مجسم نظرآیا تو ہم انساں سمجھے
دشمن جاں تھے تو جانِ مدعا کیوں ہو گئے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
محشر میں عذر قتل بھی ہے خون بہا بھی ہے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
غم مٹادیا غم کا لذت آشنا کرکے
شکوہ کیا کیجئے نگاہِ یار خود غم دیدہ ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
جاتا ہے صبر بے سرو ساماں کیے ہوئے
مشتاق خبر دار ہیں دل سے جگر سے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر مآل رہ نہ جائے
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
متاع جلوہ تحیر ہے مجھ کو سکتا ہے
مرک مریضِ غم کی وہ حالت نہیں رہی
کارواں گزرا کیا ہم رہ گزر دیکھا کیے
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یاسستی
ذرہ ذرہ تربت فانی کا شیون جوش ہے
ہر چند کر ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
دل کی لگی نہیں تو خیر اب کوئی دل لگی سہی
فانی کفِ قاتل میں شمشیر نظر آئی
شبابِ ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
اب انہیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
جس قدر چاہئے جلووں کو فراوانی دے
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قربان ہوجائے
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک باررہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
اس نورِ مجسم کے افسانے کو کیا کہیے
رگ رگ میں اب انداز بسمل نظر آتا ہے
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
کترے ہیں یہ گل تیری اک جنبش دامن نے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لئے ہوئے
عمر بھر بیداد حسن امتحاں دیکھا کیے
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
گریۂ جوش ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
اک سرگزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
مژدۂ عیش یہ تمہید پریشانی ہے
جلوہ ترا طلسم حجا باتِ نور ہے
عہد خرد میں عشق کی رسوائیاں نہ پوچھ
اک برق سرِ طور ہے لہرائی ہوئی سی
ہے ہجر میں اور گردش ایام نہیں ہے
وہ بے خودی کے پیالے پلا دے تو نے
دادِ خود نمائی لے وحدت تمنا سے
ذوق وحشت نوبہ نو زنداں بہ زنداں چاہئے
حاصل بے خبری لازمۂ ہوش ہوئی
وقت اتنا کب بقدر فرصت یک سجدہ ہے
مجبوری عریاں کو یہ خلعت مختاری
اٹھ اے نگاہ شوق اٹھ متاع جاں لیے ہوئے
گردش ایام فانی شرح دورشام ہے
کیا جانیے کہاں تک تمہید زندگی ہے
اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
مضمل سعی چارہ گر نہ ہوئی
پالیا ذوق طلب نے ماورائے دل مجھے
طبیعت رفتہ رفتہ غم کی خوگر ہوتی جاتی ہے
مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
دل معرفت شوق سے بیگانہ بنا دے
مجبور یٔ مشکور کی تصویر دکھا دے
ادھر نہ دیکھ مجھے بے قرار رہنے دے
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
بعد فانی نہ رہا مصرف زنداں کوئی
زندگی کی ہرخلش ہے، یاد جاناں کے لئے
آہ سے یا آہ کی تاثیر سے
جلوہ بے چشم آشنا کیا ہے
دیر میں یا حرم میں گزرے گی
توہی سفر میں ساتھ ہے توہی حضر میں پاس ہے
ستم ایجاد رہو گے ستم ایجاد رہے
مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
تیرے غم میں تباہ ہوتی ہے
لبیک کہا کس کو حیات ابدی نے
دل جو عالم میں فرد رہتا ہے
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
گل خزاں کے راز کا محرم نظرآیا مجھے
تھم تھم کے آرہی ہیں دم نزع ہچکیاں
جس سمت نگاہ یک نگر جائے
ادائیں آ گئیں کوئے بتاں کی
دوری ہی پھر اچھی تھی نزدیکی منزل سے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے
گلچیں کے لئے اور نہ گلشن کے لئے ہے
ہر بلائے شام فرقت دیکھ لی
دم نزع آ دیکھ انجام فرقت
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
وفا بیگانۂ رسم بیاں ہے
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
قہر کی جو نگاہ تھی خنجر بے پناہ تھی
راز تھے میرے زخم ہائے جگر
چونک پڑتے ہیں ذکر فانی سے
سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
عرصۂ حشر دور ہے خاک دل حزیں سہی
درد کو دنیا بدل جانے کو ہے
بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
نہ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
موت بھی فرقت میں ٹل کر رہ گئی
آیا ہوں حشر میں دل شیدا لیے ہوئے
آپ کی آرزو کیے ہی بنی
اٹھ چلے ہم تو ان کی محفل تک
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانۂ غم کہیئے
اٹھ پہر کی یہ بے چینی یہ بے تابی کیا کہیئے
قصہ زیست مختصر کرتے
کچھ ہوش گنوانے کے چرچے کچھ ہوش میں پھر آجانے کے
عہد جوانی اور پھر دل میں ان کی محبت کیا کہئے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتاہے
نظر کے سامنے دل میں سما کے آئے تھے
وعدہ پھر اب کے بار کرکے چلے
توبہ نہ کرو ستم سے پہلے
قسم نہ کھاؤ تغافل سے باز آنے کی
گردشیں جام و سبو کرتے رہے
ظلم اور بھی اے فلک رہا ہے کوئی
نظر آج ان سے رہ گئی مل کے
ساقی یہ ابھی حاصل مے خانہ نہیں ہے
دل کو نہ کیوں کہوں جو ازل سے خراب ہے
راز ہر جلوہ نہاں سازِ انا ساز میں ہے
فردیات
تضمینات
تضمین بر غزل جناب منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنؤ
مخمس برعایت نام محبی و مشفقی
در حمد حق سبحانہ تعالیٰ
بے نقط
قصیدہ بطرز ترکیب بند
رباعیات
قطعات
منظومات (علم)
دنیا اور دنیا کے دوست
دارِ فنا
نظم بہ تقریب جلسہ سالانہ
متفرقات غزل
عرض حال
مذمت غمازی
در مدح
قطعہ دیگر
بتقریب جشن سالگرہ
بتقریب سالگرہ سر سید احمد خان بہادر
بہ تہنیت یافتین خطاب راجہ بہادر
نامہ ہائے منظوم
بنام حافظ امام الدین امام اکبر آبادی
سہرا
قطعہ
قطعہ
قطعہ تاریخ وفات
قطعہ تعزیت
بروفات امیر مینائی
کتبہ قبر فانی
قطعہ تاریخ دیوان فانی
باغ نشاط کشمیر
تماشائے بہار
سرگذشت نانڈیر
قطعہ نظام الاوقات خود
یاد
ضمیمہ اول غزلیات فارسی
ضمیمہ دوم تراکیب فانی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।