سر ورق
فہرست
تفصیل کلیات
اشارے
مقدمہ
کلیات فانی
یاں، ہوش سے، بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
خوشی سے، رنج کا بدلہ، یہاں نہیں ملتا
حجاب اگر من و تو کانہ درمیاں ہوتا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
بجلیاں ٹوٹ پڑی، جب وہ مقابل سے اٹھا
بیگانۂ اختیار ہو جا
ناکام ہے، تو کیا ہے، کچھ کام پھر بھی کر جا
یہ کس قیامت کی، بیکسی ہے، نہ میں ہی اپنا، نہ یار میرا
اداءِ ہرنگر التفات نے مارا
ساقی اسی میں ڈال دے سب میکدے کے خم
اللہ رے فسوں گر، تری آنکھوں کا اشارا
جذب محبت بھی کیا شے ہے، ان کا چاہا ہو نہ سکا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
بے اجل کام نہ اپان کسی عنواں نکلا
وائے نادانی، یہ حسرت تھی کہ ہوتا دکھلا
دل کیا، غمِ دنیا کیا، اس درہ محبت نے
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
عقل سے کام بھی لئے عشق پہ ایمان بھی لا
ہے شان عبودیت، مصروف دعا ہونا
پھر ذوقِ تماشا کو، مرہونِ اثر فرما
کمالِ ہوش ہے، یوں بے نیازِ ہوش ہو جانا
کہتا ہے غمِ یار میں ہوں جانِ تمنا
میں ندامت جان کر، خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
آشنا رسمِ جنوں سے نہیں، سودا اپنا
مشغلہ چاہئے کوئی غم و راحت کے سوا
غم کے بھڑکتے شعلوں سے، جب جل کے کلیجہ خاک ہوا
وحشتِ عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
حال دل کس امید پر کہئے
زمانِ رخصتِ طفلی ہے لو شباب آیا
ہمیں کھوئے گئے تجھ میں نہ جب تیرا پتا پایا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
مجھ کو مرے نصیب نے روزِازل، نہ کیا دیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہو گیا
پھر دلِ بیتاب ہے، آرام جانِ اضطراط
یہ عکس زلف سے، ساغر شراب میں سانپ
جنسِ دل ہو، مشتری دل بہت
آنکھ اٹھائی ہی تھی، کہ کھائی چوٹ
فغاں کے پردے میں س میری داستاں صیاد
آخر کوئی امیدِ اثر بھی دعا کے بعد
کیا کہئے، کہ بیداد ہے، تیری بیداد
رلایا عمر بھر خونِ جگر، اک اک مصیبت پر
موردِ کفر بنا، مظہر ایماں ، ہوکر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کئے بغیر
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
دور لے جا اٹھا کے سرحد ناز
برہم ہے میری ذات سے، سارا نظام عیش
دل چرا کر، نگاہِ ہے خاموش
لب منزل فغاں ہے، نہ پہلو مکان داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں کیوں ہو نہ جائے عشق
گزر گیا، انتظار حد سے، یہ وعدۂ ناتمام کب تک
سیکھئے دل کے چھینے کے ڈھنگ
مجھے عزیز ہے فرمانِ موت میں تعجیل
ٹھکرا کے اڑاوے پھر ہر ذرہ خاکِ دل
خاک بہ سر تجھ سے صبا اور ہم
زندگی کا ہے امتخاں انجام
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
رازِ ناکائی وفا کی قسم
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
آئینہ جلوہ معشوقِ ازل کا میں ہوں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
کم ہے ہر ذرۂ خورشید اثر کا دامن
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
فرقت میں اتار اشک ہے ہر تار آستیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
زخم نصیب تھا جگر، زخم جگر سے کیا کہیں
وعدوں پہ ہیں، کیسوں ناحق امید کی تاکیدیں
اتنا تو پوچھ لیجئے، جانے سے پیشتر
جب کی ہے فکر تجزیہ ہر مثال میں
رہ رو ہوں، خضر کا رہ عرفان و خبر میں
بتایا راستہ، عشق مجازی نے حقیقی کا
جس دلربا سے ہم نے آنکھیں لرائیاں ہیں
مرکر، ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
دل کی ہر لرزشِ مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
لب پر ہیں، اب وہ نالے، جو کھوئے ہوئے سے ہیں
مجھ کو شکایت ِ ستم ناروا نہیں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سر گرانیاں ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
اے بیخودی ٹھہر، کہ بہت دن گزر گئے
امید انعامِ خاص رکھو کرشمۂ لطفِ عام دیکھو
ہو کے اس کوچہ سے اے بادِ صبا کے جھونکو
اے زمین لکھنؤ، اے آسمانِ لکھنؤ
اب آنکھ کھلتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
توجانِ مدعاءِ دل، اور دل جگہ جگہ
خود ہوش سے پیدا کر، ہر لغزشِ مستانہ
دلِ فانی کی تباہی کو نہ پوچھ
دل کی طرف حجابِ تکلف اٹھا کے دیکھ
عشق نے دل میں جگہ کی توقضا بھی آئی
گردش وہی یہاں بھی، سپہر کہن میں تھی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے، کہ ہو فریاد بھی
اپنی جیت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
مجبوریٔ عریاں کو، یہ خلعت مختاری
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
اک برق سرِ طور ہے، لہرائی ہوئی سی
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاد اس غم کی ہوئی سی
چھانٹا ازل میں، ایک تڑپتا ہوا جگر
دیر میں یاحرم میں ،گزرے گی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بناڈالی
ہر بلاء شامِ فرقت دیکھ لی
یہ ہستیٔ دو روزہ، گویا کہ، نہیں فانی
آپ کی آرزو کئے ہی بنی!
مانا حجابِ دید، مری بیخودی ہوئی
تاکید ہے، کہ دیدۂ دل، واکرے کوئی
مرک، مریضِ غم کی وہ حالت نہیں رہی
تھم تھم کے آرہی ہیں، دمِ نزع ہچکیاں
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
راز تھے میرے زخم ہائے جگر
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
تہِ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کچھ بس ہی نہ تھا، ورنہ یہ الزام نہ لیتے
نظر کے سامنے، دل میں سما کے آئے تھے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیونکر اٹھے
اسیرِ غم و رخِ بے حجاب کرکے مجھے
غم مجسم نظر آیا، تو ہم انساں سمجھے
جس قدر چاہئے جلووں کو فراوانی دے
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحبت کے مزے
فرصت ہی نہیں، کوئی گھڑی، رنج سے غم سے
اک سرگزشتِ غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
دوری ہی پھر اچھی تھی، نزدیکی منزل سے
کیا ہوا باندھی ہے، صدقے نالۂ شبگیر کے
یوں چلے گر جانبِ دلبر چلے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
دمِ نزع، آ، دیکھ انجامِ فرقت
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے
گریہ جوشِ ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
توبہ نہ کرو ستم سے پہلے
وعدہ پھر اب کے بار کرکے چلے
جنسِ دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
چمکا دیا ہے رنگِ چمن، لالہ زار نے
لبیک کہا کس کو، حیاتِ ابدی نے
ادا سے آڑمیں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
فلک دشمن ہے نالے بے اثر ہیں یار بے پروا
ربطٔ جسم وجاں دیکھئے کب تک رہے
اے موت تجھ پہ عمرِ ابد کا مدار ہے
امید ِالتفات کو رسوا نہ کیجئے
عمر بھر بیدادِ حسنِ امتحاں دیکھا کئے
دشمن جاں تھے، تو جانِ مدعا کیوں ہو گئے
پھر پار ہائے دل پہ، چھڑک دیجئے نمک
زندگی کی ہر خلش ہے، یادِ جاناں کے لئے
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہیئے
ذوقِ وحشت، توبہ نو زنداں بہ، زنداں چاہئے
غزلیاتِ فارسی
تضمین برغزل حضرتِ امیر مینائی مرحوم
مخمس
سنتے ہیں گلشن میں پھر فصل بہار آنے کو ہے
قصائد
شاہِ عثماں، آصف سابع امیر المومنیں
دیگر
نظمیں
علم
دارِ فنا
اردوئے معلیٰ
غزل
تماشائے بہار
عرض حال
غمازی
نامہ منظوم
دیگر
دیگر
سہرا
قطعات
دیگر
نظام الاوقات
رباعیات
متفرق اشعار
سر ورق
فہرست
تفصیل کلیات
اشارے
مقدمہ
کلیات فانی
یاں، ہوش سے، بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
خوشی سے، رنج کا بدلہ، یہاں نہیں ملتا
حجاب اگر من و تو کانہ درمیاں ہوتا
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
بجلیاں ٹوٹ پڑی، جب وہ مقابل سے اٹھا
بیگانۂ اختیار ہو جا
ناکام ہے، تو کیا ہے، کچھ کام پھر بھی کر جا
یہ کس قیامت کی، بیکسی ہے، نہ میں ہی اپنا، نہ یار میرا
اداءِ ہرنگر التفات نے مارا
ساقی اسی میں ڈال دے سب میکدے کے خم
اللہ رے فسوں گر، تری آنکھوں کا اشارا
جذب محبت بھی کیا شے ہے، ان کا چاہا ہو نہ سکا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
بے اجل کام نہ اپان کسی عنواں نکلا
وائے نادانی، یہ حسرت تھی کہ ہوتا دکھلا
دل کیا، غمِ دنیا کیا، اس درہ محبت نے
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
عقل سے کام بھی لئے عشق پہ ایمان بھی لا
ہے شان عبودیت، مصروف دعا ہونا
پھر ذوقِ تماشا کو، مرہونِ اثر فرما
کمالِ ہوش ہے، یوں بے نیازِ ہوش ہو جانا
کہتا ہے غمِ یار میں ہوں جانِ تمنا
میں ندامت جان کر، خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
آشنا رسمِ جنوں سے نہیں، سودا اپنا
مشغلہ چاہئے کوئی غم و راحت کے سوا
غم کے بھڑکتے شعلوں سے، جب جل کے کلیجہ خاک ہوا
وحشتِ عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
حال دل کس امید پر کہئے
زمانِ رخصتِ طفلی ہے لو شباب آیا
ہمیں کھوئے گئے تجھ میں نہ جب تیرا پتا پایا
بہتے بہتے سارے آنسو بہہ گئے
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
مجھ کو مرے نصیب نے روزِازل، نہ کیا دیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہو گیا
پھر دلِ بیتاب ہے، آرام جانِ اضطراط
یہ عکس زلف سے، ساغر شراب میں سانپ
جنسِ دل ہو، مشتری دل بہت
آنکھ اٹھائی ہی تھی، کہ کھائی چوٹ
فغاں کے پردے میں س میری داستاں صیاد
آخر کوئی امیدِ اثر بھی دعا کے بعد
کیا کہئے، کہ بیداد ہے، تیری بیداد
رلایا عمر بھر خونِ جگر، اک اک مصیبت پر
موردِ کفر بنا، مظہر ایماں ، ہوکر
گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کئے بغیر
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
دور لے جا اٹھا کے سرحد ناز
برہم ہے میری ذات سے، سارا نظام عیش
دل چرا کر، نگاہِ ہے خاموش
لب منزل فغاں ہے، نہ پہلو مکان داغ
اہل نظر کی آنکھوں میں کیوں ہو نہ جائے عشق
گزر گیا، انتظار حد سے، یہ وعدۂ ناتمام کب تک
سیکھئے دل کے چھینے کے ڈھنگ
مجھے عزیز ہے فرمانِ موت میں تعجیل
ٹھکرا کے اڑاوے پھر ہر ذرہ خاکِ دل
خاک بہ سر تجھ سے صبا اور ہم
زندگی کا ہے امتخاں انجام
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
رازِ ناکائی وفا کی قسم
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
آئینہ جلوہ معشوقِ ازل کا میں ہوں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
کم ہے ہر ذرۂ خورشید اثر کا دامن
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
چھائی ہوئی ہیں دل پر اسرار کی گھٹائیں
فرقت میں اتار اشک ہے ہر تار آستیں
ان کے آگے جب یہ آنکھیں ڈبڈبا کر رہ گئیں
لاؤ کچھ تکملۂ شوق کا ساماں کر لیں
آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
زخم نصیب تھا جگر، زخم جگر سے کیا کہیں
وعدوں پہ ہیں، کیسوں ناحق امید کی تاکیدیں
اتنا تو پوچھ لیجئے، جانے سے پیشتر
جب کی ہے فکر تجزیہ ہر مثال میں
رہ رو ہوں، خضر کا رہ عرفان و خبر میں
بتایا راستہ، عشق مجازی نے حقیقی کا
جس دلربا سے ہم نے آنکھیں لرائیاں ہیں
مرکر، ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
دل کی ہر لرزشِ مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
لب پر ہیں، اب وہ نالے، جو کھوئے ہوئے سے ہیں
مجھ کو شکایت ِ ستم ناروا نہیں
دنیا سے کچھ نہ پوچھو کیوں سر گرانیاں ہیں
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
اے بیخودی ٹھہر، کہ بہت دن گزر گئے
امید انعامِ خاص رکھو کرشمۂ لطفِ عام دیکھو
ہو کے اس کوچہ سے اے بادِ صبا کے جھونکو
اے زمین لکھنؤ، اے آسمانِ لکھنؤ
اب آنکھ کھلتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
توجانِ مدعاءِ دل، اور دل جگہ جگہ
خود ہوش سے پیدا کر، ہر لغزشِ مستانہ
دلِ فانی کی تباہی کو نہ پوچھ
دل کی طرف حجابِ تکلف اٹھا کے دیکھ
عشق نے دل میں جگہ کی توقضا بھی آئی
گردش وہی یہاں بھی، سپہر کہن میں تھی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے، کہ ہو فریاد بھی
اپنی جیت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
مجبوریٔ عریاں کو، یہ خلعت مختاری
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
اک برق سرِ طور ہے، لہرائی ہوئی سی
لحد میں چین سے رہنے نہ دے گی یاد اس غم کی ہوئی سی
چھانٹا ازل میں، ایک تڑپتا ہوا جگر
دیر میں یاحرم میں ،گزرے گی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بناڈالی
ہر بلاء شامِ فرقت دیکھ لی
یہ ہستیٔ دو روزہ، گویا کہ، نہیں فانی
آپ کی آرزو کئے ہی بنی!
مانا حجابِ دید، مری بیخودی ہوئی
تاکید ہے، کہ دیدۂ دل، واکرے کوئی
مرک، مریضِ غم کی وہ حالت نہیں رہی
تھم تھم کے آرہی ہیں، دمِ نزع ہچکیاں
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
راز تھے میرے زخم ہائے جگر
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
تہِ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
کچھ بس ہی نہ تھا، ورنہ یہ الزام نہ لیتے
نظر کے سامنے، دل میں سما کے آئے تھے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیونکر اٹھے
اسیرِ غم و رخِ بے حجاب کرکے مجھے
غم مجسم نظر آیا، تو ہم انساں سمجھے
جس قدر چاہئے جلووں کو فراوانی دے
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحبت کے مزے
فرصت ہی نہیں، کوئی گھڑی، رنج سے غم سے
اک سرگزشتِ غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
دوری ہی پھر اچھی تھی، نزدیکی منزل سے
کیا ہوا باندھی ہے، صدقے نالۂ شبگیر کے
یوں چلے گر جانبِ دلبر چلے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
دمِ نزع، آ، دیکھ انجامِ فرقت
وہ میری لاش پہ تہمت سی کچھ اٹھا کے چلے
کیا چاہتے ہو منہ سے اللہ بھی نہ نکلے
گریہ جوشِ ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
توبہ نہ کرو ستم سے پہلے
وعدہ پھر اب کے بار کرکے چلے
جنسِ دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
چمکا دیا ہے رنگِ چمن، لالہ زار نے
لبیک کہا کس کو، حیاتِ ابدی نے
ادا سے آڑمیں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
فلک دشمن ہے نالے بے اثر ہیں یار بے پروا
ربطٔ جسم وجاں دیکھئے کب تک رہے
اے موت تجھ پہ عمرِ ابد کا مدار ہے
امید ِالتفات کو رسوا نہ کیجئے
عمر بھر بیدادِ حسنِ امتحاں دیکھا کئے
دشمن جاں تھے، تو جانِ مدعا کیوں ہو گئے
پھر پار ہائے دل پہ، چھڑک دیجئے نمک
زندگی کی ہر خلش ہے، یادِ جاناں کے لئے
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہیئے
ذوقِ وحشت، توبہ نو زنداں بہ، زنداں چاہئے
غزلیاتِ فارسی
تضمین برغزل حضرتِ امیر مینائی مرحوم
مخمس
سنتے ہیں گلشن میں پھر فصل بہار آنے کو ہے
قصائد
شاہِ عثماں، آصف سابع امیر المومنیں
دیگر
نظمیں
علم
دارِ فنا
اردوئے معلیٰ
غزل
تماشائے بہار
عرض حال
غمازی
نامہ منظوم
دیگر
دیگر
سہرا
قطعات
دیگر
نظام الاوقات
رباعیات
متفرق اشعار
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.