فہرست
مقدمہ
خود نوشت
انتساب
بوئے پیرہن
وقت تو ہے سرابوں کی اک رہ گزر کوئی جائے کہاں لے کے پیاسا بدن
داد فن بھی نہ ملی، عرض ہنر سے بھی گیا
جانب منزل چلا تھا، رہ گزر میں کھو گیا
کسے ہے فکر زیاں منچلوں کی بستی میں
موڑ موڑ پھرتے ہیں زندگی کے سوداگر، جسم و روح کے تاجر
کبھی اتر نہ سکا یہ خمار ایسا تھا
مطمئن ہر شخص اپنے مسئلوں میں تھا بہت
ہر تغافل اس کا شوخ اتنا پذیرائی لگے
معتبر ہوتا وہی سب کچھ جو کم بھی بولتے
لفظ جسم رکھتے ہیں ان کو اپنے جذبوں کے لمس سے جواں رکھو
نہ پوچھ، مجھ کو خود اپنے سے پیار جیسا تھا
گہر سرشت ہے اور گرد گرد ہے وہ شخص
شعور ذات و شعور جمال میں گم سا
بہ نام آگہی کل کائنات اپنی تھی
میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا
شب حیات کو آئینہ کر گیا ہے کوئی
کیف کا احساس، خوابوں کی چبھن سے بھی گیا
زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
میں تو ہوں پھول ہی ایسا نہ گہر ہی ایسا
جو نامراد جیا، باکمال اتنا تھا
بجھاتے ہو، چراغ جام لوگو!
ہیں مری فکر پہ تہمت یہ پرانے الفاظ
بجھے چراغ سمجھ کر ہمیں جلا جائے
جو میں نہ تھا تو کہیں دھوپ تھی نہ سایا تھا
یہ الگ بات، خفا دن میں رہا ہے مجھ سے
پھول سمجھا تھا جنہیں میں نے وہ پتھر اترے
روز ازل سے حرف صداقت اساس تھا
پلکوں پہ آنسوؤں کی جراحت ہی لے چلیں
دل نشیں زلف کا آہنگ لگے
اسی سے گردش حالات کو گلا ہے بہت
یوسف سے رسم و راہ زلیخا کبھی نہ تھی
ہم تشنہ لب یہ حوصلہ کیوں کر نکالتے
کبھی تو صاحب فن اپنا ماجرا بھی کہے
وہ موج گل ہوں، برنگ غبار صحرا ہوں
بہ نام حرمت فن یہ عذاب پالے کون
آج کا دور ہے گرتی دیوار
غبار قافلۂ ہست و بود میں ہی تھا
بجا کہ لوگ بغل میں کتاب رکھتے ہیں
دیار و دجلۂ و صحرا کھنگالنے والے
مقام فکرو بصیرت سے آشنا ہی نہیں
نشہ سا گھل کے تازہ ہواؤں میں رہ گیا
جھلملاتے سرابوں میں ڈھونڈھوگے کیا، جاگتے سوتے خوابوں میں کیا پاؤ گے
غزل کا پھول بنے فکر کا سبو کہلائے
اسرار وقت مجھ پہ زمانہ ہوا کھلے
ہر لمحہ اپنے کرب سے انجان سا لگے
کیا خبر تھی، وقت اتنا سخت ہم پر آئے گا
چھانو کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا
درد کی آنچ لطافت ٹھہری
غبار محمل دشت تپیدہ میں بھی تھا
سامان انبساط سفر کون لے گیا
لوگ پتھر کے پجاری ہیں یہ ہیرے چن لو
تمام موج وتلاطم ہوں پھر بھی تشنہ ہوں
بجلی کی جست، ابر و ہوا کی اڑان ہوں
مفلس سہی، مسرور تو خوابوں کی طرح ہیں
مری متاع قلم، دولت ہنر لے جا
کسی کی اک نگہ التفات بھی رکھ دو
یوں آتش ہوس کو دلوں میں ہوا نہ دے
قلم بھی لوح بھی، حرف وکتاب بھی لے جاؤ
ذکر میرا ہے تو کچھ طنز کے پہلو بھی سہی
اڑتی خوشبو، بھاگتا لمحا، وہ گیسو اور وہ چہرا
لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر
اس سے ملو تو شہر تماشا دکھائی دے
اس طرح دل کے درد کا ساغر اچھال دے
اپنی خوشی سے کیا تری دنیا میں قید ہوں
غلطی ہائے مضامیں کا اعادہ کر لو
منصور کب ہوں، دار رسن سے اتار دے
یہ موت دے وہ موت کو بھی رہ گزر نہ دے
تعزیر آگہی کا سزا وار میں ہی تھا
شعلہ آہنگ وصبا گفتار اتنے تو نہ تھے
کس کے پیار کی خوشبو پیرہن میں رکھتے ہیں
اب شہر میں کہاں رہے وہ باوقار لوگ
ہر قدم منزل سے بیگانہ، سفر نا آشنا
دونوں راہیں تم پہ کھلی ہیں میرے نگر کے چارہ گرد
بے کراں ہیں سمندروں کی طرح
حکم جب راتوں کا سورج پر چلے
یوں ظاہراً تو لمحوں سے محو نبرد ہوں
دور کچھ شہر سے، بستی سی بسائی جائے
جنوں کو گرم رو و یکّہ تاز رکھتے نہیں
دانش ور کہلاتے ہیں اب فکر و نظر سے عاری لوگ
بازیچۂ ہوس میں ہیں سب اپنے داؤ پر
اٹھی نہ تہمت شعر و نوا سلیقے سے
وہاں نہ ٹھہر جہاں قیمت ہنر نہ لگے
جرأت اظہار سے رو کے گی کیا
رفیقو! عمر جنوں کو نہ شرمسار کرو
لطف سوز غم سے ہم داغ داغ ہیں یارو!
پہنچ کے اب نہ رکو وقت کے حجابوں تک
جب غزل کی خوشبو سے میرے لب مہکتے ہیں
جنوں کے شیوۂ دیرینہ کا اعادہ کرو
دلوں میں داغ الم لامحالہ رکھتے ہیں
چاندنی چھٹکی نہ سایا بکھرا
ادا کو پرکھو، کرشموں کا تجزیہ تو کرو
وہ شعلہ، کہ تھا خرمن جاں ہار گئے ہیں
شیوۂ جہل کو بہتر جانا
پھر بھی تہذیب غم سے ہوں نا آشنا میں خود گاپنا ہی خون چکیدہ سہی
رخوں میں صبح کرو، گیسوؤں میں شام کرو
باد صبا کے چنچل جھونکو! تم کو چمن میں رہنا تھا
فروغ دانش نو یہ فسوں بھی تیرا ہے
خاک بر سررہے یا مہر کلاہوں میں رہے
اجالے ڈھونڈ ھنے نکلے ہو تم بجھا کے چراغ
رنگ کمھلا گئے، خوشبوئیں اڑگئیں، قہقہے سرد آہوں میں گم ہوگئے
چاک غم و یاس ہوگیا ہوں
آستینوں کا یہ احسان ہے خنجر سے سوا
لطف اتنا بھی نہ کر، نبض تمنا ڈوب جائے
نور چہروں پہ، ضمیروں میں اندھیرا ہے یہاں
دے سکے مجھ کو نہ اب تک کوئی پیغام بہا
یہ دنیا ہے یا پھولوں کی سیج پہ بکھرے کانٹے ہیں
فروغ بادہ نہ رنگینی سبو سے ہوا
زخمی چہرے، گھائل تیور، بستی بستی پھرتے ہیں
عشق میں پرسش حالات کی پابند نہیں
خود اپنے ہی شعلوں سے تپاں بیٹھے ہیں
سرسے پا تک ہوں حرف حق کی طرح
کاش اسی کے ساتھ کٹے یہ دن نغمے کا، رات غزل کی
یہ زندگی ہے فرصت آرائش خیال
دن سنہرے رخ ارغواں کی طرح، شب جواں گیسوئے مشکبو کی طرح
ہم تو خیر ہیں جیون بیری، خوار ہوئے، معتوب ہوئے
تصویر گل بنے نہ حنا کی طرح رہے
تیری یاد کی خوشبو آئی، دل کا آنگن مہکا
مہ وشوں، لالہ رخوں، سیم تنوں کے پیچھے
نوا کی آنچ تراشے گی خود کوئی سورج
انقلابات کی خاموش تماشائی ہیں
میں نے پلکوں پہ سجایا نہیں آنسو کی طرح
نہ کیف شوق وتمنا نہ سوز فکر وعمل
خود اپنے فتنۂ حسن نظر سے ڈرتے ہیں
پانو کے کانٹے روح کے نشتر، جیون جیون بکھرے ہیں
چلے ہولے کے کہاں یہ متاع سیم تنی
بھلا کے تلخی غم، سر خوشی میں ڈوب گئے
دیکھ کر اپنی بانکی چھب کو خود شرمائی رات
غم دوراں سے غم یار تک آئے بھی نہیں
کیا تجھ سے مجھے ربط ہے اے فصل قبا چاک
چمن میں پھول کھلے، انجمن میں شمع جلے
میرے شانوں پر یہ تمھارے کالے کالے بال
انتساب
دی جو توفیق ہنر حسن پذیرائی بھی دے
مرے ادھورے وجود کا، عکس ہیں، یہ پیکر نئے پرانے
میں اور تیرے درد کا شعلا اور شفق
رائگاں سارا سفر، سارے سفر کا ذائقہ
لفظ محدود، انھیں وسعتیں دے گا کتنا
اچھا ہے، باگاہ تمنا میں پھینک دو
سب کو، خوابوں کے نہ ایوان میں رکھ
عکس بھی، ٹوٹ کے بکھرے آخر
میں تو پاگل تھا، مگر مجھ۔ سے سوا تھا وہ بھی
قدم قدم پہ، مرے عہد کا سفر ہے نیا
تجھی کو کس لیے صرف انتخاب میں رکھوں
فضول کس لیے، لفظوں کے جال پھیلاؤں
اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا
کوزۂ وقت میں، جوں لقزم خوں تھا میں بھی
کیا ہے وقت نے مجھ سے، معاملہ کیسا؟
چلو کہ خود نگری کا وہ سلسلہ ٹوٹا
آئنے سچے، نہ چہرے جھوٹے
بہت جمود تھا بے حوصلوں میں، کیا کرتا
یہ دمکتا ہوا آہنگ، نکھرتی آواز
ہزاروں کشمکش وپیچ وتاب سے چھوٹا
رہ گزر میں، نہ غباروں کی ردا میں گم تھی
چٹان میں تھا ہواؤں سے ڈر گیا کیسے
نہیں یہ بس میں، کہ اپنا بدن اڑاھاؤں اسے
سب غرور سطوت دیوار و در مٹ جائے گا
چھپی ہوئی کوئی حکمت، ضرور ہے مجھ میں
مرے جذبے جیسا شگفتہ ہے، مری فکر جیسا ادق ہے وہ
سحر طلوع ہوئی، انتظار ختم ہوا
اس کو، چراغ آخری شب کا سلام لکھ!
حیراں ہے وہ یہ دولتیں کیوں کر سمیٹیے
بہار میں نہیں پھر بھی خزاں کی زد میں ہوں
میرے سینے سے گزر جا تو بھی
کمزور بلبلہ نہ تھا، اٹھا سمٹ گیا
نفس کو نطق، نگہ کو زبان کر آئے
آشوب روز گار کے تیشے سے کٹ گیا
فن کو اک تفریح کہہ کر، خوش ہیں ہم سے لوگ بھی
بے کراں موج کو، ساحل پہ اچھالے کتنا
سیم وگہر، نہ تاج و کمر چاہیے ہمیں
نوائے غم ہے، متاع سخن ابھی مجھ کو
خال وخط دھند میں ڈوبے ڈوبے لگیں، آئنہ آئنہ عکس ادھورا لگے
لکھ حرف زندگی، قلم خوں چکاں نہ روک
ہنر کے نام پہ تخلیق غم کی دھوپ میں جل
یوں تو وہ بھی اوپر سے ، زر نگار ہے کیسا، باوقار ہے کتنا
یہ سب قبول، جلاؤ ہمیں، بجھاؤ ہمیں
کوئی ہجموم میں تجھ کو نہ راستا دے گا
خود کو ہر لمحہ، نہ جلتی آگ کے پہلو میں رکھ
آہ کوباد صبا، درد کو خوشبو لکھنا
بن کر وہ درد، جب دل وجاں میں اتر گیا
بستی سمجھ کے، دشت ہنر میں اتر گیا
نہیں کہتا، مرے زخموں کا صلا دے مجھ کو
آنکھوں میں لے کے خواب عدم جاگتے رہیں
صحرا سے دور، دھوپ میں چلنا پڑا ہے اب
ایک بس میرے سوا، جرم ہے ہلکا سب کا
کون بڑھتا، اس میں تھی، نظروں کی رسوائی بہت
ہر آدمی، لہو کا شناور ملا ہمیں
قید لفظوں کی، اٹھا دی جائے
سفر کا حال، کسی ہم سفر سے کیا پوچھیں
نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندہ ھو
لفظ ومعنی کی طرف، یوں تو سفر ہے سب کا
نہ ایسے جرم پہڈ خود کو کبھی معاف کروں
بساط دانش وحرف وہنر، کہاں کھولیں
کسی سے، آپ کو دعویٰ جو ہمسری کا ہے
روح کے گھاؤ کو، اشعار سے بھرنا چاہوں
راستا میرا الگ، اور سفر ہے تنہا
گھر تلک، ہم اسے باتوں میں لگالے آئے
آگ میں پھول کھلائے رکھو
تھی دشت دشت وہ ساعت، جو رہ کے گھر میں کئی
حرف والفاظ ومعانی کے حجابوں میں نہ تھی
پھول تو کیا توڑتا، خوشبو چرا کر لے گیا
تخلیق کے شعور کا پیکر دکھائی دوں
کہوں نہ کچھ، تو ہلاک فغاں نظر آؤں
فقط ہمیں کو نہ سسمجھو کہ بے خبر ہیں ابھی
اداس دیکھ کے، وجہ ملال پوچھے گا
سوز جاں ہے یہ مرے جسم کے اندر کیسا
ہر اک قیاس، حقیقت سے دور تر نکلا
رتوں کے سوگ میں، تصویر درد ہو جاؤں
شوخ وشنگ انا میرا، جو مری بصیرت کا حسن بھی ہے خامی بھی
میراث فکر و دولت فن، بانٹتے چلیں
زندگی کے جنوں خیز ایام میں، فرصتوں کے میسر ہیں لمحات کم
خلاف طبع رفیقاں، بیان کیا کرتا
شہرتوں کی منڈی میں، لوگ خود ہی بکتے ہیں، اور دکاں لگاتے ہیں
کل شب، وہ ہم نشیں جو مرا ہم پیالہ تھا
اک عہد ساز طرز سخن چاہیے ہمیں
جبیں پہ گرد ہے، چہرہ خراش میں ڈوبا
کچھ تازہ موسموں کے بھی منظر لیے پھروں
لے کر متاع علم، وخبر، راستے میں ہیں
جینے کے اہتمام میں، مرنا پڑا اسے
خیر، وہ ہے جیسا بھی، ہے تو آشنا پھر بھی
ایسا نہیں، کہ طرز کہن دھیان میں نہ تھی
شعور ذات کی پہنائیوں میں گم اب کے
مرے لہو کی طراوت، کوئی چرائے کیا
ہم نے دیکھا نہ تھا موسم کوئی ایسا سر سبز
کیا خبر، نظر ان کی جا کے ٹھہر جاتی ہے، کس بلیغ نکتے پر
بہ سوئے سنگ خرد، تم اچھالتے مجھ کو
لے گیا قوت تحریر، قلم چھوڑ گیا
قتل میرا، لمحۂ خنجر بہ کف! آساں نہ تھا
خدا کسی کو، نہ یہ کرب نارسائی دے
پس دیوار حرف
انتساب
سلجھتا کب، مری سعی دگر سے اور الجھا
رنج شوریدہ سری، راہ گزر اور سفر
پایۂ خشت وخزف، اور گہر سے اونچا
منتظر تھے، اسی اک لمحے کے، پیکر سارے
بدنام ہوئی مفت ہوا، لے گئے آہو
رنگ وخوشبو کے اس آشوب میں، مرنے سے بچا
یہ کیسی گرد تھی، منظر بہ منظر تھی
خوشبو آوارہ کی صورت، گل تر سے جدا
دیکھ! کیسی بے مکانی ہے مرے چاروں طرف
ہر طرف، دھول میں اٹے چہرے
جدا سا نقطہ ہے کچھ، دائرہ الگ سا ہے
میرے لیے وہ بھی کھلے چہرے کی طرح تھی
اس وصف کے باعث ، کہ ہنرور ہے بہت وہ
مرا یہ دکھ، کہ ہوا اعتبار ذات شکستہ
قباے ناز ولباس انا میں جتنے تھے
ذات کے اندھے سفر میں، گم ہیں سب
کہاں تک اب، ترے بادل کی آس دیکھوں میں
بہت دنوں بعد، منہ سے دانش کی بات نکلی
ہے کہاں جاے اماں، اب تو ہیں ہم اور سفر
آنا ہی تھا اک دن، بس کی خود نگری کو میری طرف
الجھ کر، ہوں انھیں دیوار و در میں پاشکستہ
دیکھ مجھ کو، رکھ کر آینا، پس دیوار حرف
تیز چل، اے موسم آئندہ کی تازہ ہوا
ہے وہ نکتہ سنج کتنا، کچھ تو اندازہ لگاؤں
تو ہے معنی، پردۂ الفاظ سے باہر تو آ
تو سہی اک لفظ آشوب معانی سے نکل آ
ہے بحث کا جو مرکزی نقطا، نکال دے
کون تھا، خون اگلتا رہا عمر بھر، کون تھا؟
مدتوں کے بعد، پھر کنج حرا روشن ہوا
نظر سے اس کی، مرے دل کا رابطہ تھا نیا
خلوص دے کے، سزاوار نفرتوں کا ہوا
ڈھلی جو دھوپ تو شعلے اگل رہی ہے چھانو
جہاں ادب میں ہوا، تجربہ بہت الجھا
چہرہ رکھتے ہیں ہم، پھر بھی خوش ہیں بہت، توڑ کر آئنے
اب وہ چوکھٹ، نہ دعا کی دہلیز
اسیر مسئلۂ فرد و ذات، سب کے سب
گرد پہ بیٹھی، اور بھی گرد
یہ کیا بتائیں، کہ، کس رہ گزر کی گرد ہوئے؟
سلگنا اندر اندر، مصرع تر سوچتے رہنا
طرز احساس نیا، اور اچھوتا اسلوب
وقت نے مجھ کو زیاں، حرف وہنر کا لکھنا
آدمی، اور مقدر کی لکیر
رہ کے دریا میں بھی، پیاسا، اور میں
یہ نقش، کب ترے ذہن وحواس میں ابھرا
نشاں کچھ تو مرا، گھلتی شفق پر چھوڑ جانا
بھولا بسرا سا کوئی لمحہ، بنا دے گا مجھے
رہائش اس کی، ہمسائے میں، گھر کے سامنے تھی
پتہ نہیں، کہ ہے کیا اس نصاب کے اندر
کھلا نہ مجھ سے، طبیعت کا تھا بہت گہرا
میراث قلم میں، مرا حصا ہے بہت کچھ
اؑٓنکھوں کے خواب، دل کی جوانی بھی لے گیا
سینے میں اپنے تیغ ہنر کو غلاف کر
بھلائے بیٹھا ہوں شکوے، گلے، پرانے سب
چاندی جیسی برف کے پیکر میں، ڈھل کر آؤں گا
بحر میں خاک اڑی، دشت میں پانی پھیلا
میں، اور تری گردش افلاک کی زد پر
غلط کچھ بھی نہیں، ہے ٹھیک سب کچھ
کیسی یہ کشش، ذات کے رشتے کی طرف تھی
ربط معنی سے بڑھا، لفظوں سے رشتا کٹ گیا
کس سے پوچھوں، کیوں ہیں یہ ترسیل کے پیکر بے چہرہ
رکھنا سنبھال کر، ہوں بڑے فائدے کی چیز
آفریں، باکمال چہروں پر
ہے ہمارے عہد کی میراث دانش کا زیاں سب
آسماں، لمبی مسافت، اور اک گھائل پرندہ
اس نے سمجھا تھا، مجھے بھی کوئی پتا سوکھا
اپنی یادوں کے خستہ دریچوں میں شمعیں جلانے کو تھا
گماں ہر ایک پر اجڑے ہوئے کھنڈر کا تھا
کیا تیز روتھی، اچھے سے اچھے بکھر گئے
دور جانا ہے، کہ لمبا ہے سفر، تیز نہ چل
خوگر جو میں پرانے اسالیب کا نہ تھا
نقد کیا کرتے وہ مجھ پر، یہ مناسب ہی نہ تھا
میں ، ترے خامۂ معنی کی ہو جنبش، پہلی
خار در پہلو و آشوب بہ کف ہوں خود ہی
زمیں سے رشتہ نہ توڑ، آسماں سے نیچے آ!
اس قدر خستہ، ہنر کی دیوار
صحراے فکر و دشت ہنر مجھ کو دے گئے
میں تو ویسے، حوگر رنج گراں جانی بہت تھا
یہ نہ سمجھو، بے ضرر ہیں، نرم، چمکیلے حروف
ہونٹ کی دہلیز پر بکھرے ہوئے جملے ادھورے
خود کو بھی، کہاں نظر پڑا ہوں
گنجائش حصول شرف، چھوڑ جاؤں گا
سکوں ہے فرصت فکر و خیال میں، کتنا
چہروں پہ سب کے، گردہنر چھوڑ جاؤں گا
اب ہے جو ہر نفس پہ، وہ بکھراؤ کب نہ تھا
بس آیا ہاتھ، حرف رائگاں بھر
سنبھالے پلکوں پہ قندیل جاں، اکیلا ہوں
چند سانسیں ہیں، مرا رخت سفر ہی کتنا
کریں، تو کیسے کریں عرض حال ہیں چپ چاپ
کیںا تجھے میرا پتہ، ایسے سرابوں میں ملے
آنسو کی طرح، دیدۂ تر سے نہیں گرتا
بارش سنگ رکی، شیشہ گری میں بھی کہاں
اک حرف اعتراف بھی، نکلا زباں سے کب
اس نے کیا لکھا، ہمیں اس سے علاقہ کچھ نہ تھا
سلسلہ جوڑنے والو! جدو اب سے، میرا
جیے بہت، مگر آخر فنا ہوئے یارب!
فلسفی لہجہ، سلگتی آواز
دھلی سحر کی طرح، آن بان سے نکلوں
گرد معنی کی، اب اپنی ہی قبا پر ڈالوں
زندگی ہر چند ہے اک سانحا، زندہ رہو!
سبزۂ معنی بیگانہ
انتساب
میں کس سے پوچھوں، نشان اس کا
سواد حرف ہوں، پیرایۂ معانی دے
وہ ماوراے علم وہنر کی طرح لگے
ایک موہوم ہیولا کا سفر ہے جاری
بلیغ رمز، حسیں استعارہ ہے میرا
منظر سیاہ پوش نہ پیکر جلا ہوا
ہمیشہ پارہ پارہ جیب ہست و بود رکھنا
مرے قلم کا لہو، تیرا رنگ لب بھی غلط
الفاظ کو پیچیدہ مطالب میں نہ رکھا
وہی سمن، وہی لالے، وہی گلاب پرانے
دباؤ مجھ پہ، ہواؤں کا، سخت ہونے لگا
اب تیری سمت، خود سے وہ کٹ کر، نہ آئے گا
رائگاں سب کچھ ہوا، کیسی بصیرت، کیا ہنر؟
بہ جز لاحاصلی کیا اور بام و درپہ رکھا ہے؟
ہوں میں زاد بیا باں، جاؤں گھر سے لوٹ آؤں
دیکھ! کس کس زاویے سے، امتحاں میرا ہوا
میں ایک فرع ہوں، اصل الاصول مت کہنا
اچھا ہوا، میں وقت کے محور سے، کٹ گیا
ہاتھ سے چھوٹا، اور آینا ٹوٹ گیا
مکاں سے تا مکاں، ہر دم، سفر میں رہنے کا
چہرہ سالم، نہ نظر ہی قائم
اسے پڑھنا ہے مشکل، جو کچھ آئینے پہ لکھا ہے
یاد ماضی آگ تھی، کیا کہیے، کیا کیا جل گیا؟
فریب ٹھہریں، نہ روشن بصیرتیں اپنی
ہاتھ پھیلاؤ، تو سورج بھی سیاہی دے گا
خواب ٹوٹے، تو ہے اس میں کتنا زیاں؟ پھر ذرا سوچنا
ہر مسافر ہے تھکن سے چور، خالی
موج در موج، سمندر غائب
بہت بے ربط ہے یہ جزئ، چہرا چھوڑ دینا
خود اپنے ہی وجود سے، محو نبرد سا
اہل دانش کی روش، کچھ اور تھی
حرف، ابلاغ گزیدہ میرا
تھا کہاں لکھنا اسے، لیکن کہاں پر لکھ دیا
عجب یقین و قیاس میرا
تیرے حق میں ہے، یہ تعویذ شفا، محفوظ رکھ
وہاں، ہر اہل نظر، بدحواس کیسا ہے
رہے گی سادہ یہ دیوار، آئنے نہ لگا
شفق پھیلی ہوئی سی، آسماں سمٹا ہوا سا
ہنر کے اور کچھ امکاں ہنر میں رکھ آؤں
یہ دل آشوبی کا موسم، بدحواسی کی ہوا
دی تو آواز بہت، ذہن کی شوخی نے اسے
سیدھی سادی بات، شیشے سے یہ شیشہ گر کا رشتہ
یہ بار اٹھا نہ سکیں گی، بصیرتیں سب کی
لہو ہی کتنا ہے؟ جو چشم تر سے نکلے گا
بہت ہے مجھ کو، یہی حرف مختصر کا اضافہ
جہاں پتھر ہیں سب، آئینہ ایسا لے کے کیوں آئے؟
عافیت تھوڑی بہت، خنجر کھلا رکھنے میں تھی
سربرہنہ آگہی، احساس کا چہرا کھلا
اسے خبر نہیں، ہر رنگ ہے جدا میرا
جو ہم تھے بچے، تو دنیا حسین کتنی تھی؟
نہ دشت جاں کا، نہ صحراے رائگانی کا
لہو کی شاخ پہ، ہنستا گلاب رکھ آؤں
بے خط وخال سا، اک چہرہ اٹھا لائے تھے
خزاں، خود اپنا کرے احتساب کس کے لیے؟
پیچھے پڑا ہے، وقت کا آزار کس لیے؟
ہوا نہ راکھ بدن، دل کا داغ سرد ہوا
نفع تو اس میں کہاں، خسرو زیاں سے جوڑوں
بر محل تشبیہ، موزوں استعارہ ڈھونڈنا
جو فاصلے تھے، انھیں منزلوں پہ ڈال دیا
کر لیا ہم نے بھرے گھر کا اثاثہ تقسیم
سر بسر، تصویر آشوب ہنر کردے مجھے
لب جو کھولے، معرض اظہار میں رہ جائے گا
عجیب موڑ تھا وہ، جو سفر کے بعد آیا
یوں بھی، آشوب مسلسل کا سفر ہے جاری
الگ ہے نام، نہ یکسر جدا لقب میرا
غلط بھی کیا، جو اسے دھیان میں نہیں رکھا
چہرے دھواں دھواں سے ہیں، منظر تپیدہ سا
بسکہ، اوراق صحیفوں کے ہیں سارے، پتھر
زمیں تو خیر زمیں، آسماں کس کے لیے؟
ہیں رقص میں، یہ لفظوں کے طاؤس کس لیے؟
وہ تعلق، اور وہ رشتے پرانے
سمتیں مشکوک، رہ گزر تاریک
بخت ارباب نظر ہے، روشن
ہنر براے ہنر ہے سب کچھ
مورج مصروف تھی، خود اپنا سفر کرنے میں
سدا سے ہوں، عجب الجھی ہوئی کہانی میں
فضول کیوں میں، قیام کا بوجھ، ھگر پہ ڈالوں؟
دل تہی، نظر خالی
ویراں نہ یونہیں، قریۂ جاں، چھوڑ جاؤں گا
جو ، زمیں سے تھا عبارت، وہ مکاں غائب ہوا
سارے منظر، اپنے پس منظر میں ہیں
اب، کوئی تہمت، نہ لفظوں کی سیاہی پر لگا
فائدہ کچھ نہ ہوا، علم وہنر سے اپنے
یہ اور بات، حصار قبول و رد میں ہوں
یہ کون مجھ میں سما کر، پکارتا ہے مجھے؟
میں گھر میں ہوں، تو کھنڈر سے، پکارتا ہے مجھے
دکھے کے بگولے، درد کی آندھ، میں بھی کیسا گرد ہوا
قرض جسم و جاں، ہمارے نام باقی ہے ابھی
جو، اس سے اب، یہ رفاقت کا سلسلہ توڑوں
غزل کے پردے میں، بے پردہ خواہشیں لکھنا
غموں سے دل جو ہوا یوں نڈھال، تازہ ہوا
یہ اور بات، کہ اپنا بھلا، نہ چاہوں میں
لکڑی کی تلوار سجائے، لشکر لشکر، میں
آج کس کام آئے گی؟ اتنی ذرا سی آگہی
مجھ سے، کب رنگ نیا شعر و ادب میں، نہ کھلا؟
راز سربستہ جو تھا حرف دگر کا، نہ کھلا
سمتیں انجانی، سفر تنہا، ذرا آہستہ چل
اک کمان اترتی سی
جو نکتہ چیں تھا میرا، لکھا رہا ہے منقبت میری
خود اپنے فکر و نظر کی چٹان، راہ میں ہے
نفس کے آمد وشد کا حساب پورا کر!
پلٹ کے، پھر کسی در کی طرف نہیں دیکھا
عکس سے آینہ، اور عکس آئنے سے، مختلف
صدائیں بھی تو، خط وخال رکھتی ہیں اپنے
زمین سے جو بچا، آسماں نے توڑ دیا
نہیں اچھا، کھلی آنکھوں کو، بے ناموس لکھنا!
سراب جسم کو، صحراے جاں میں رکھ دینا
دور اس دہلیز سے ، گہوارۂ جادو میں رکھنا
سربسر، رمز عجب ہے، سب کچھ
جو آبرو ہے گہر کی، گہر سے لے جائے
سوال سخت تھا، دریا کے پار اتر جانا
ایک لقمے، پر، جھپٹ پڑتے ہیں چیلوں کی طرح
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی نشانی ہی لگے
حیراں حیراں تکتا ہے، آینہ سب کا چہرا
کبھی دھنک، کبھی شاخ نبات سا، پھیلا
کچھ بھی ہو، فکر سراغ کیف وکم، مت چھوڑنا
مجھے منظور، کاغذ پر نہیں، پتھر پہ لکھ دینا
افق سے تابہ افق، روکش سحر ہیں لفظ
یونہیں، اندھیرے اجالے سے، واسطہ رکھنا
ناپونہ قد کو، رنگ نہ دیکھو لباس کا
بھاگتے، رکتے، سمٹتے، پھیلتے، کٹ جائیں گے
جن حالوں میں جینا، انھیں حالات پہ لکھنا
تری ہوس، مری بے چارگی، سلامت ہے
دور تک پھیلا ہوا، کرفیو کا جنگل سامنے تھا
دکھ بہت ہیں، پھر بھی، کیوں تیور ہو میلا، خوش رہو!
لفظ ہوں، تونے مجھے بخشے معانی اے خدا
دور تک، بے منظری کی دھند تھی، چہرے پہ سب کے
اشاریہ
فہرست
مقدمہ
خود نوشت
انتساب
بوئے پیرہن
وقت تو ہے سرابوں کی اک رہ گزر کوئی جائے کہاں لے کے پیاسا بدن
داد فن بھی نہ ملی، عرض ہنر سے بھی گیا
جانب منزل چلا تھا، رہ گزر میں کھو گیا
کسے ہے فکر زیاں منچلوں کی بستی میں
موڑ موڑ پھرتے ہیں زندگی کے سوداگر، جسم و روح کے تاجر
کبھی اتر نہ سکا یہ خمار ایسا تھا
مطمئن ہر شخص اپنے مسئلوں میں تھا بہت
ہر تغافل اس کا شوخ اتنا پذیرائی لگے
معتبر ہوتا وہی سب کچھ جو کم بھی بولتے
لفظ جسم رکھتے ہیں ان کو اپنے جذبوں کے لمس سے جواں رکھو
نہ پوچھ، مجھ کو خود اپنے سے پیار جیسا تھا
گہر سرشت ہے اور گرد گرد ہے وہ شخص
شعور ذات و شعور جمال میں گم سا
بہ نام آگہی کل کائنات اپنی تھی
میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا
شب حیات کو آئینہ کر گیا ہے کوئی
کیف کا احساس، خوابوں کی چبھن سے بھی گیا
زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
میں تو ہوں پھول ہی ایسا نہ گہر ہی ایسا
جو نامراد جیا، باکمال اتنا تھا
بجھاتے ہو، چراغ جام لوگو!
ہیں مری فکر پہ تہمت یہ پرانے الفاظ
بجھے چراغ سمجھ کر ہمیں جلا جائے
جو میں نہ تھا تو کہیں دھوپ تھی نہ سایا تھا
یہ الگ بات، خفا دن میں رہا ہے مجھ سے
پھول سمجھا تھا جنہیں میں نے وہ پتھر اترے
روز ازل سے حرف صداقت اساس تھا
پلکوں پہ آنسوؤں کی جراحت ہی لے چلیں
دل نشیں زلف کا آہنگ لگے
اسی سے گردش حالات کو گلا ہے بہت
یوسف سے رسم و راہ زلیخا کبھی نہ تھی
ہم تشنہ لب یہ حوصلہ کیوں کر نکالتے
کبھی تو صاحب فن اپنا ماجرا بھی کہے
وہ موج گل ہوں، برنگ غبار صحرا ہوں
بہ نام حرمت فن یہ عذاب پالے کون
آج کا دور ہے گرتی دیوار
غبار قافلۂ ہست و بود میں ہی تھا
بجا کہ لوگ بغل میں کتاب رکھتے ہیں
دیار و دجلۂ و صحرا کھنگالنے والے
مقام فکرو بصیرت سے آشنا ہی نہیں
نشہ سا گھل کے تازہ ہواؤں میں رہ گیا
جھلملاتے سرابوں میں ڈھونڈھوگے کیا، جاگتے سوتے خوابوں میں کیا پاؤ گے
غزل کا پھول بنے فکر کا سبو کہلائے
اسرار وقت مجھ پہ زمانہ ہوا کھلے
ہر لمحہ اپنے کرب سے انجان سا لگے
کیا خبر تھی، وقت اتنا سخت ہم پر آئے گا
چھانو کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا
درد کی آنچ لطافت ٹھہری
غبار محمل دشت تپیدہ میں بھی تھا
سامان انبساط سفر کون لے گیا
لوگ پتھر کے پجاری ہیں یہ ہیرے چن لو
تمام موج وتلاطم ہوں پھر بھی تشنہ ہوں
بجلی کی جست، ابر و ہوا کی اڑان ہوں
مفلس سہی، مسرور تو خوابوں کی طرح ہیں
مری متاع قلم، دولت ہنر لے جا
کسی کی اک نگہ التفات بھی رکھ دو
یوں آتش ہوس کو دلوں میں ہوا نہ دے
قلم بھی لوح بھی، حرف وکتاب بھی لے جاؤ
ذکر میرا ہے تو کچھ طنز کے پہلو بھی سہی
اڑتی خوشبو، بھاگتا لمحا، وہ گیسو اور وہ چہرا
لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر
اس سے ملو تو شہر تماشا دکھائی دے
اس طرح دل کے درد کا ساغر اچھال دے
اپنی خوشی سے کیا تری دنیا میں قید ہوں
غلطی ہائے مضامیں کا اعادہ کر لو
منصور کب ہوں، دار رسن سے اتار دے
یہ موت دے وہ موت کو بھی رہ گزر نہ دے
تعزیر آگہی کا سزا وار میں ہی تھا
شعلہ آہنگ وصبا گفتار اتنے تو نہ تھے
کس کے پیار کی خوشبو پیرہن میں رکھتے ہیں
اب شہر میں کہاں رہے وہ باوقار لوگ
ہر قدم منزل سے بیگانہ، سفر نا آشنا
دونوں راہیں تم پہ کھلی ہیں میرے نگر کے چارہ گرد
بے کراں ہیں سمندروں کی طرح
حکم جب راتوں کا سورج پر چلے
یوں ظاہراً تو لمحوں سے محو نبرد ہوں
دور کچھ شہر سے، بستی سی بسائی جائے
جنوں کو گرم رو و یکّہ تاز رکھتے نہیں
دانش ور کہلاتے ہیں اب فکر و نظر سے عاری لوگ
بازیچۂ ہوس میں ہیں سب اپنے داؤ پر
اٹھی نہ تہمت شعر و نوا سلیقے سے
وہاں نہ ٹھہر جہاں قیمت ہنر نہ لگے
جرأت اظہار سے رو کے گی کیا
رفیقو! عمر جنوں کو نہ شرمسار کرو
لطف سوز غم سے ہم داغ داغ ہیں یارو!
پہنچ کے اب نہ رکو وقت کے حجابوں تک
جب غزل کی خوشبو سے میرے لب مہکتے ہیں
جنوں کے شیوۂ دیرینہ کا اعادہ کرو
دلوں میں داغ الم لامحالہ رکھتے ہیں
چاندنی چھٹکی نہ سایا بکھرا
ادا کو پرکھو، کرشموں کا تجزیہ تو کرو
وہ شعلہ، کہ تھا خرمن جاں ہار گئے ہیں
شیوۂ جہل کو بہتر جانا
پھر بھی تہذیب غم سے ہوں نا آشنا میں خود گاپنا ہی خون چکیدہ سہی
رخوں میں صبح کرو، گیسوؤں میں شام کرو
باد صبا کے چنچل جھونکو! تم کو چمن میں رہنا تھا
فروغ دانش نو یہ فسوں بھی تیرا ہے
خاک بر سررہے یا مہر کلاہوں میں رہے
اجالے ڈھونڈ ھنے نکلے ہو تم بجھا کے چراغ
رنگ کمھلا گئے، خوشبوئیں اڑگئیں، قہقہے سرد آہوں میں گم ہوگئے
چاک غم و یاس ہوگیا ہوں
آستینوں کا یہ احسان ہے خنجر سے سوا
لطف اتنا بھی نہ کر، نبض تمنا ڈوب جائے
نور چہروں پہ، ضمیروں میں اندھیرا ہے یہاں
دے سکے مجھ کو نہ اب تک کوئی پیغام بہا
یہ دنیا ہے یا پھولوں کی سیج پہ بکھرے کانٹے ہیں
فروغ بادہ نہ رنگینی سبو سے ہوا
زخمی چہرے، گھائل تیور، بستی بستی پھرتے ہیں
عشق میں پرسش حالات کی پابند نہیں
خود اپنے ہی شعلوں سے تپاں بیٹھے ہیں
سرسے پا تک ہوں حرف حق کی طرح
کاش اسی کے ساتھ کٹے یہ دن نغمے کا، رات غزل کی
یہ زندگی ہے فرصت آرائش خیال
دن سنہرے رخ ارغواں کی طرح، شب جواں گیسوئے مشکبو کی طرح
ہم تو خیر ہیں جیون بیری، خوار ہوئے، معتوب ہوئے
تصویر گل بنے نہ حنا کی طرح رہے
تیری یاد کی خوشبو آئی، دل کا آنگن مہکا
مہ وشوں، لالہ رخوں، سیم تنوں کے پیچھے
نوا کی آنچ تراشے گی خود کوئی سورج
انقلابات کی خاموش تماشائی ہیں
میں نے پلکوں پہ سجایا نہیں آنسو کی طرح
نہ کیف شوق وتمنا نہ سوز فکر وعمل
خود اپنے فتنۂ حسن نظر سے ڈرتے ہیں
پانو کے کانٹے روح کے نشتر، جیون جیون بکھرے ہیں
چلے ہولے کے کہاں یہ متاع سیم تنی
بھلا کے تلخی غم، سر خوشی میں ڈوب گئے
دیکھ کر اپنی بانکی چھب کو خود شرمائی رات
غم دوراں سے غم یار تک آئے بھی نہیں
کیا تجھ سے مجھے ربط ہے اے فصل قبا چاک
چمن میں پھول کھلے، انجمن میں شمع جلے
میرے شانوں پر یہ تمھارے کالے کالے بال
انتساب
دی جو توفیق ہنر حسن پذیرائی بھی دے
مرے ادھورے وجود کا، عکس ہیں، یہ پیکر نئے پرانے
میں اور تیرے درد کا شعلا اور شفق
رائگاں سارا سفر، سارے سفر کا ذائقہ
لفظ محدود، انھیں وسعتیں دے گا کتنا
اچھا ہے، باگاہ تمنا میں پھینک دو
سب کو، خوابوں کے نہ ایوان میں رکھ
عکس بھی، ٹوٹ کے بکھرے آخر
میں تو پاگل تھا، مگر مجھ۔ سے سوا تھا وہ بھی
قدم قدم پہ، مرے عہد کا سفر ہے نیا
تجھی کو کس لیے صرف انتخاب میں رکھوں
فضول کس لیے، لفظوں کے جال پھیلاؤں
اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا
کوزۂ وقت میں، جوں لقزم خوں تھا میں بھی
کیا ہے وقت نے مجھ سے، معاملہ کیسا؟
چلو کہ خود نگری کا وہ سلسلہ ٹوٹا
آئنے سچے، نہ چہرے جھوٹے
بہت جمود تھا بے حوصلوں میں، کیا کرتا
یہ دمکتا ہوا آہنگ، نکھرتی آواز
ہزاروں کشمکش وپیچ وتاب سے چھوٹا
رہ گزر میں، نہ غباروں کی ردا میں گم تھی
چٹان میں تھا ہواؤں سے ڈر گیا کیسے
نہیں یہ بس میں، کہ اپنا بدن اڑاھاؤں اسے
سب غرور سطوت دیوار و در مٹ جائے گا
چھپی ہوئی کوئی حکمت، ضرور ہے مجھ میں
مرے جذبے جیسا شگفتہ ہے، مری فکر جیسا ادق ہے وہ
سحر طلوع ہوئی، انتظار ختم ہوا
اس کو، چراغ آخری شب کا سلام لکھ!
حیراں ہے وہ یہ دولتیں کیوں کر سمیٹیے
بہار میں نہیں پھر بھی خزاں کی زد میں ہوں
میرے سینے سے گزر جا تو بھی
کمزور بلبلہ نہ تھا، اٹھا سمٹ گیا
نفس کو نطق، نگہ کو زبان کر آئے
آشوب روز گار کے تیشے سے کٹ گیا
فن کو اک تفریح کہہ کر، خوش ہیں ہم سے لوگ بھی
بے کراں موج کو، ساحل پہ اچھالے کتنا
سیم وگہر، نہ تاج و کمر چاہیے ہمیں
نوائے غم ہے، متاع سخن ابھی مجھ کو
خال وخط دھند میں ڈوبے ڈوبے لگیں، آئنہ آئنہ عکس ادھورا لگے
لکھ حرف زندگی، قلم خوں چکاں نہ روک
ہنر کے نام پہ تخلیق غم کی دھوپ میں جل
یوں تو وہ بھی اوپر سے ، زر نگار ہے کیسا، باوقار ہے کتنا
یہ سب قبول، جلاؤ ہمیں، بجھاؤ ہمیں
کوئی ہجموم میں تجھ کو نہ راستا دے گا
خود کو ہر لمحہ، نہ جلتی آگ کے پہلو میں رکھ
آہ کوباد صبا، درد کو خوشبو لکھنا
بن کر وہ درد، جب دل وجاں میں اتر گیا
بستی سمجھ کے، دشت ہنر میں اتر گیا
نہیں کہتا، مرے زخموں کا صلا دے مجھ کو
آنکھوں میں لے کے خواب عدم جاگتے رہیں
صحرا سے دور، دھوپ میں چلنا پڑا ہے اب
ایک بس میرے سوا، جرم ہے ہلکا سب کا
کون بڑھتا، اس میں تھی، نظروں کی رسوائی بہت
ہر آدمی، لہو کا شناور ملا ہمیں
قید لفظوں کی، اٹھا دی جائے
سفر کا حال، کسی ہم سفر سے کیا پوچھیں
نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندہ ھو
لفظ ومعنی کی طرف، یوں تو سفر ہے سب کا
نہ ایسے جرم پہڈ خود کو کبھی معاف کروں
بساط دانش وحرف وہنر، کہاں کھولیں
کسی سے، آپ کو دعویٰ جو ہمسری کا ہے
روح کے گھاؤ کو، اشعار سے بھرنا چاہوں
راستا میرا الگ، اور سفر ہے تنہا
گھر تلک، ہم اسے باتوں میں لگالے آئے
آگ میں پھول کھلائے رکھو
تھی دشت دشت وہ ساعت، جو رہ کے گھر میں کئی
حرف والفاظ ومعانی کے حجابوں میں نہ تھی
پھول تو کیا توڑتا، خوشبو چرا کر لے گیا
تخلیق کے شعور کا پیکر دکھائی دوں
کہوں نہ کچھ، تو ہلاک فغاں نظر آؤں
فقط ہمیں کو نہ سسمجھو کہ بے خبر ہیں ابھی
اداس دیکھ کے، وجہ ملال پوچھے گا
سوز جاں ہے یہ مرے جسم کے اندر کیسا
ہر اک قیاس، حقیقت سے دور تر نکلا
رتوں کے سوگ میں، تصویر درد ہو جاؤں
شوخ وشنگ انا میرا، جو مری بصیرت کا حسن بھی ہے خامی بھی
میراث فکر و دولت فن، بانٹتے چلیں
زندگی کے جنوں خیز ایام میں، فرصتوں کے میسر ہیں لمحات کم
خلاف طبع رفیقاں، بیان کیا کرتا
شہرتوں کی منڈی میں، لوگ خود ہی بکتے ہیں، اور دکاں لگاتے ہیں
کل شب، وہ ہم نشیں جو مرا ہم پیالہ تھا
اک عہد ساز طرز سخن چاہیے ہمیں
جبیں پہ گرد ہے، چہرہ خراش میں ڈوبا
کچھ تازہ موسموں کے بھی منظر لیے پھروں
لے کر متاع علم، وخبر، راستے میں ہیں
جینے کے اہتمام میں، مرنا پڑا اسے
خیر، وہ ہے جیسا بھی، ہے تو آشنا پھر بھی
ایسا نہیں، کہ طرز کہن دھیان میں نہ تھی
شعور ذات کی پہنائیوں میں گم اب کے
مرے لہو کی طراوت، کوئی چرائے کیا
ہم نے دیکھا نہ تھا موسم کوئی ایسا سر سبز
کیا خبر، نظر ان کی جا کے ٹھہر جاتی ہے، کس بلیغ نکتے پر
بہ سوئے سنگ خرد، تم اچھالتے مجھ کو
لے گیا قوت تحریر، قلم چھوڑ گیا
قتل میرا، لمحۂ خنجر بہ کف! آساں نہ تھا
خدا کسی کو، نہ یہ کرب نارسائی دے
پس دیوار حرف
انتساب
سلجھتا کب، مری سعی دگر سے اور الجھا
رنج شوریدہ سری، راہ گزر اور سفر
پایۂ خشت وخزف، اور گہر سے اونچا
منتظر تھے، اسی اک لمحے کے، پیکر سارے
بدنام ہوئی مفت ہوا، لے گئے آہو
رنگ وخوشبو کے اس آشوب میں، مرنے سے بچا
یہ کیسی گرد تھی، منظر بہ منظر تھی
خوشبو آوارہ کی صورت، گل تر سے جدا
دیکھ! کیسی بے مکانی ہے مرے چاروں طرف
ہر طرف، دھول میں اٹے چہرے
جدا سا نقطہ ہے کچھ، دائرہ الگ سا ہے
میرے لیے وہ بھی کھلے چہرے کی طرح تھی
اس وصف کے باعث ، کہ ہنرور ہے بہت وہ
مرا یہ دکھ، کہ ہوا اعتبار ذات شکستہ
قباے ناز ولباس انا میں جتنے تھے
ذات کے اندھے سفر میں، گم ہیں سب
کہاں تک اب، ترے بادل کی آس دیکھوں میں
بہت دنوں بعد، منہ سے دانش کی بات نکلی
ہے کہاں جاے اماں، اب تو ہیں ہم اور سفر
آنا ہی تھا اک دن، بس کی خود نگری کو میری طرف
الجھ کر، ہوں انھیں دیوار و در میں پاشکستہ
دیکھ مجھ کو، رکھ کر آینا، پس دیوار حرف
تیز چل، اے موسم آئندہ کی تازہ ہوا
ہے وہ نکتہ سنج کتنا، کچھ تو اندازہ لگاؤں
تو ہے معنی، پردۂ الفاظ سے باہر تو آ
تو سہی اک لفظ آشوب معانی سے نکل آ
ہے بحث کا جو مرکزی نقطا، نکال دے
کون تھا، خون اگلتا رہا عمر بھر، کون تھا؟
مدتوں کے بعد، پھر کنج حرا روشن ہوا
نظر سے اس کی، مرے دل کا رابطہ تھا نیا
خلوص دے کے، سزاوار نفرتوں کا ہوا
ڈھلی جو دھوپ تو شعلے اگل رہی ہے چھانو
جہاں ادب میں ہوا، تجربہ بہت الجھا
چہرہ رکھتے ہیں ہم، پھر بھی خوش ہیں بہت، توڑ کر آئنے
اب وہ چوکھٹ، نہ دعا کی دہلیز
اسیر مسئلۂ فرد و ذات، سب کے سب
گرد پہ بیٹھی، اور بھی گرد
یہ کیا بتائیں، کہ، کس رہ گزر کی گرد ہوئے؟
سلگنا اندر اندر، مصرع تر سوچتے رہنا
طرز احساس نیا، اور اچھوتا اسلوب
وقت نے مجھ کو زیاں، حرف وہنر کا لکھنا
آدمی، اور مقدر کی لکیر
رہ کے دریا میں بھی، پیاسا، اور میں
یہ نقش، کب ترے ذہن وحواس میں ابھرا
نشاں کچھ تو مرا، گھلتی شفق پر چھوڑ جانا
بھولا بسرا سا کوئی لمحہ، بنا دے گا مجھے
رہائش اس کی، ہمسائے میں، گھر کے سامنے تھی
پتہ نہیں، کہ ہے کیا اس نصاب کے اندر
کھلا نہ مجھ سے، طبیعت کا تھا بہت گہرا
میراث قلم میں، مرا حصا ہے بہت کچھ
اؑٓنکھوں کے خواب، دل کی جوانی بھی لے گیا
سینے میں اپنے تیغ ہنر کو غلاف کر
بھلائے بیٹھا ہوں شکوے، گلے، پرانے سب
چاندی جیسی برف کے پیکر میں، ڈھل کر آؤں گا
بحر میں خاک اڑی، دشت میں پانی پھیلا
میں، اور تری گردش افلاک کی زد پر
غلط کچھ بھی نہیں، ہے ٹھیک سب کچھ
کیسی یہ کشش، ذات کے رشتے کی طرف تھی
ربط معنی سے بڑھا، لفظوں سے رشتا کٹ گیا
کس سے پوچھوں، کیوں ہیں یہ ترسیل کے پیکر بے چہرہ
رکھنا سنبھال کر، ہوں بڑے فائدے کی چیز
آفریں، باکمال چہروں پر
ہے ہمارے عہد کی میراث دانش کا زیاں سب
آسماں، لمبی مسافت، اور اک گھائل پرندہ
اس نے سمجھا تھا، مجھے بھی کوئی پتا سوکھا
اپنی یادوں کے خستہ دریچوں میں شمعیں جلانے کو تھا
گماں ہر ایک پر اجڑے ہوئے کھنڈر کا تھا
کیا تیز روتھی، اچھے سے اچھے بکھر گئے
دور جانا ہے، کہ لمبا ہے سفر، تیز نہ چل
خوگر جو میں پرانے اسالیب کا نہ تھا
نقد کیا کرتے وہ مجھ پر، یہ مناسب ہی نہ تھا
میں ، ترے خامۂ معنی کی ہو جنبش، پہلی
خار در پہلو و آشوب بہ کف ہوں خود ہی
زمیں سے رشتہ نہ توڑ، آسماں سے نیچے آ!
اس قدر خستہ، ہنر کی دیوار
صحراے فکر و دشت ہنر مجھ کو دے گئے
میں تو ویسے، حوگر رنج گراں جانی بہت تھا
یہ نہ سمجھو، بے ضرر ہیں، نرم، چمکیلے حروف
ہونٹ کی دہلیز پر بکھرے ہوئے جملے ادھورے
خود کو بھی، کہاں نظر پڑا ہوں
گنجائش حصول شرف، چھوڑ جاؤں گا
سکوں ہے فرصت فکر و خیال میں، کتنا
چہروں پہ سب کے، گردہنر چھوڑ جاؤں گا
اب ہے جو ہر نفس پہ، وہ بکھراؤ کب نہ تھا
بس آیا ہاتھ، حرف رائگاں بھر
سنبھالے پلکوں پہ قندیل جاں، اکیلا ہوں
چند سانسیں ہیں، مرا رخت سفر ہی کتنا
کریں، تو کیسے کریں عرض حال ہیں چپ چاپ
کیںا تجھے میرا پتہ، ایسے سرابوں میں ملے
آنسو کی طرح، دیدۂ تر سے نہیں گرتا
بارش سنگ رکی، شیشہ گری میں بھی کہاں
اک حرف اعتراف بھی، نکلا زباں سے کب
اس نے کیا لکھا، ہمیں اس سے علاقہ کچھ نہ تھا
سلسلہ جوڑنے والو! جدو اب سے، میرا
جیے بہت، مگر آخر فنا ہوئے یارب!
فلسفی لہجہ، سلگتی آواز
دھلی سحر کی طرح، آن بان سے نکلوں
گرد معنی کی، اب اپنی ہی قبا پر ڈالوں
زندگی ہر چند ہے اک سانحا، زندہ رہو!
سبزۂ معنی بیگانہ
انتساب
میں کس سے پوچھوں، نشان اس کا
سواد حرف ہوں، پیرایۂ معانی دے
وہ ماوراے علم وہنر کی طرح لگے
ایک موہوم ہیولا کا سفر ہے جاری
بلیغ رمز، حسیں استعارہ ہے میرا
منظر سیاہ پوش نہ پیکر جلا ہوا
ہمیشہ پارہ پارہ جیب ہست و بود رکھنا
مرے قلم کا لہو، تیرا رنگ لب بھی غلط
الفاظ کو پیچیدہ مطالب میں نہ رکھا
وہی سمن، وہی لالے، وہی گلاب پرانے
دباؤ مجھ پہ، ہواؤں کا، سخت ہونے لگا
اب تیری سمت، خود سے وہ کٹ کر، نہ آئے گا
رائگاں سب کچھ ہوا، کیسی بصیرت، کیا ہنر؟
بہ جز لاحاصلی کیا اور بام و درپہ رکھا ہے؟
ہوں میں زاد بیا باں، جاؤں گھر سے لوٹ آؤں
دیکھ! کس کس زاویے سے، امتحاں میرا ہوا
میں ایک فرع ہوں، اصل الاصول مت کہنا
اچھا ہوا، میں وقت کے محور سے، کٹ گیا
ہاتھ سے چھوٹا، اور آینا ٹوٹ گیا
مکاں سے تا مکاں، ہر دم، سفر میں رہنے کا
چہرہ سالم، نہ نظر ہی قائم
اسے پڑھنا ہے مشکل، جو کچھ آئینے پہ لکھا ہے
یاد ماضی آگ تھی، کیا کہیے، کیا کیا جل گیا؟
فریب ٹھہریں، نہ روشن بصیرتیں اپنی
ہاتھ پھیلاؤ، تو سورج بھی سیاہی دے گا
خواب ٹوٹے، تو ہے اس میں کتنا زیاں؟ پھر ذرا سوچنا
ہر مسافر ہے تھکن سے چور، خالی
موج در موج، سمندر غائب
بہت بے ربط ہے یہ جزئ، چہرا چھوڑ دینا
خود اپنے ہی وجود سے، محو نبرد سا
اہل دانش کی روش، کچھ اور تھی
حرف، ابلاغ گزیدہ میرا
تھا کہاں لکھنا اسے، لیکن کہاں پر لکھ دیا
عجب یقین و قیاس میرا
تیرے حق میں ہے، یہ تعویذ شفا، محفوظ رکھ
وہاں، ہر اہل نظر، بدحواس کیسا ہے
رہے گی سادہ یہ دیوار، آئنے نہ لگا
شفق پھیلی ہوئی سی، آسماں سمٹا ہوا سا
ہنر کے اور کچھ امکاں ہنر میں رکھ آؤں
یہ دل آشوبی کا موسم، بدحواسی کی ہوا
دی تو آواز بہت، ذہن کی شوخی نے اسے
سیدھی سادی بات، شیشے سے یہ شیشہ گر کا رشتہ
یہ بار اٹھا نہ سکیں گی، بصیرتیں سب کی
لہو ہی کتنا ہے؟ جو چشم تر سے نکلے گا
بہت ہے مجھ کو، یہی حرف مختصر کا اضافہ
جہاں پتھر ہیں سب، آئینہ ایسا لے کے کیوں آئے؟
عافیت تھوڑی بہت، خنجر کھلا رکھنے میں تھی
سربرہنہ آگہی، احساس کا چہرا کھلا
اسے خبر نہیں، ہر رنگ ہے جدا میرا
جو ہم تھے بچے، تو دنیا حسین کتنی تھی؟
نہ دشت جاں کا، نہ صحراے رائگانی کا
لہو کی شاخ پہ، ہنستا گلاب رکھ آؤں
بے خط وخال سا، اک چہرہ اٹھا لائے تھے
خزاں، خود اپنا کرے احتساب کس کے لیے؟
پیچھے پڑا ہے، وقت کا آزار کس لیے؟
ہوا نہ راکھ بدن، دل کا داغ سرد ہوا
نفع تو اس میں کہاں، خسرو زیاں سے جوڑوں
بر محل تشبیہ، موزوں استعارہ ڈھونڈنا
جو فاصلے تھے، انھیں منزلوں پہ ڈال دیا
کر لیا ہم نے بھرے گھر کا اثاثہ تقسیم
سر بسر، تصویر آشوب ہنر کردے مجھے
لب جو کھولے، معرض اظہار میں رہ جائے گا
عجیب موڑ تھا وہ، جو سفر کے بعد آیا
یوں بھی، آشوب مسلسل کا سفر ہے جاری
الگ ہے نام، نہ یکسر جدا لقب میرا
غلط بھی کیا، جو اسے دھیان میں نہیں رکھا
چہرے دھواں دھواں سے ہیں، منظر تپیدہ سا
بسکہ، اوراق صحیفوں کے ہیں سارے، پتھر
زمیں تو خیر زمیں، آسماں کس کے لیے؟
ہیں رقص میں، یہ لفظوں کے طاؤس کس لیے؟
وہ تعلق، اور وہ رشتے پرانے
سمتیں مشکوک، رہ گزر تاریک
بخت ارباب نظر ہے، روشن
ہنر براے ہنر ہے سب کچھ
مورج مصروف تھی، خود اپنا سفر کرنے میں
سدا سے ہوں، عجب الجھی ہوئی کہانی میں
فضول کیوں میں، قیام کا بوجھ، ھگر پہ ڈالوں؟
دل تہی، نظر خالی
ویراں نہ یونہیں، قریۂ جاں، چھوڑ جاؤں گا
جو ، زمیں سے تھا عبارت، وہ مکاں غائب ہوا
سارے منظر، اپنے پس منظر میں ہیں
اب، کوئی تہمت، نہ لفظوں کی سیاہی پر لگا
فائدہ کچھ نہ ہوا، علم وہنر سے اپنے
یہ اور بات، حصار قبول و رد میں ہوں
یہ کون مجھ میں سما کر، پکارتا ہے مجھے؟
میں گھر میں ہوں، تو کھنڈر سے، پکارتا ہے مجھے
دکھے کے بگولے، درد کی آندھ، میں بھی کیسا گرد ہوا
قرض جسم و جاں، ہمارے نام باقی ہے ابھی
جو، اس سے اب، یہ رفاقت کا سلسلہ توڑوں
غزل کے پردے میں، بے پردہ خواہشیں لکھنا
غموں سے دل جو ہوا یوں نڈھال، تازہ ہوا
یہ اور بات، کہ اپنا بھلا، نہ چاہوں میں
لکڑی کی تلوار سجائے، لشکر لشکر، میں
آج کس کام آئے گی؟ اتنی ذرا سی آگہی
مجھ سے، کب رنگ نیا شعر و ادب میں، نہ کھلا؟
راز سربستہ جو تھا حرف دگر کا، نہ کھلا
سمتیں انجانی، سفر تنہا، ذرا آہستہ چل
اک کمان اترتی سی
جو نکتہ چیں تھا میرا، لکھا رہا ہے منقبت میری
خود اپنے فکر و نظر کی چٹان، راہ میں ہے
نفس کے آمد وشد کا حساب پورا کر!
پلٹ کے، پھر کسی در کی طرف نہیں دیکھا
عکس سے آینہ، اور عکس آئنے سے، مختلف
صدائیں بھی تو، خط وخال رکھتی ہیں اپنے
زمین سے جو بچا، آسماں نے توڑ دیا
نہیں اچھا، کھلی آنکھوں کو، بے ناموس لکھنا!
سراب جسم کو، صحراے جاں میں رکھ دینا
دور اس دہلیز سے ، گہوارۂ جادو میں رکھنا
سربسر، رمز عجب ہے، سب کچھ
جو آبرو ہے گہر کی، گہر سے لے جائے
سوال سخت تھا، دریا کے پار اتر جانا
ایک لقمے، پر، جھپٹ پڑتے ہیں چیلوں کی طرح
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی نشانی ہی لگے
حیراں حیراں تکتا ہے، آینہ سب کا چہرا
کبھی دھنک، کبھی شاخ نبات سا، پھیلا
کچھ بھی ہو، فکر سراغ کیف وکم، مت چھوڑنا
مجھے منظور، کاغذ پر نہیں، پتھر پہ لکھ دینا
افق سے تابہ افق، روکش سحر ہیں لفظ
یونہیں، اندھیرے اجالے سے، واسطہ رکھنا
ناپونہ قد کو، رنگ نہ دیکھو لباس کا
بھاگتے، رکتے، سمٹتے، پھیلتے، کٹ جائیں گے
جن حالوں میں جینا، انھیں حالات پہ لکھنا
تری ہوس، مری بے چارگی، سلامت ہے
دور تک پھیلا ہوا، کرفیو کا جنگل سامنے تھا
دکھ بہت ہیں، پھر بھی، کیوں تیور ہو میلا، خوش رہو!
لفظ ہوں، تونے مجھے بخشے معانی اے خدا
دور تک، بے منظری کی دھند تھی، چہرے پہ سب کے
اشاریہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔