فہرست
دیباچہ
اے ہمالہ
گل رنگیں
عہد طفلی
مرزا غالب
اکبر کوہسار
ایک مکڑا اور مکڑی
ایک پہاڑ اور گلہری
ایک گائے اور بکری
بچّے کی دعا
ہمدردی
ماں کا خواب
پرندے کی فریاد
خفتگان خاک سے استفسار
شمع و پروانہ
عقل ودل
صدائے درد
آفتاب
شمع
ایک آرزو
آفتاب صبح
درد عشق
گل پژمردہ
سید کی لوح تربت
ماہ نو
انسان اور بزم قدرت
پیام صبح
عشق اور موت
زہد اور رندی
شاعر
دل
موج دریا
رخصت اے بزم جہاں!
طفل شیرخوار
تصویر درد
نالۂ فراق
چاند
بلال
سرگزشت آدم
ترانہ ہندی
جگنو
صبح کا ستارہ
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت
نیا شوالا
داغ
ابر
ایک پرندہ اور جگنو
بچہ اور شمع
کنار راوی
التجائے مسافر
غزلیات
گلزار ہست بود نہ بیگانہ وار دیکھ
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
عجب واعظ کی دیں واری ہے یارب!
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کیا لیے
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیرے غافل ہوں میں
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
حصہ دوم
محبت
حقیقت حسن
پیام
سوامی رام تیرتھ
طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام
حسن وعشق
اختر صبح
کو گود میں بلّی دیکھ کر
کلی
چاند اور تارے
وصال
سّلیمیٰ
عاشق ہرجائی
عشق کی آشفتگی نے کردیا صحرا جسے
کوشش نا تمام
نوائے غم
عشرت امروز
انسان
جلوۂ حسن
ایک شام
تنہائی
پیام عشق
فراق
عبد القادر کے نام
صقلیہ
غزلیات
الٰہی عقل خجستہ پے کو ذراسی دیوانگی سکھادے
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
زمانہ دیکھیے گا جب مرے دل سے محشر ا ٹھے گا گفتگو کا
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
مثال پر تومے طوف جام کرتے ہیں
یوں تو اے بزم جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے
2617
حصّہ سوم
بلاد اسلامیہ
ستارہ
گورستان شاہی
دوستارے
نمود صبح
تضمین بر شعرا انیسی شاملو
فلسفۂ غم
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
ترنانۂ ملّی
وطنیّت
ایک حاجی مدنے کے راستے میں
قطعہ
شکوہ
چاند
رات اور شاعر
بزم انجم
سیر فلک
نصیحت
رام
انسان
موٹر
خطاب بہ جوانان اسلام
غرّۂ شوّال یا ہلال عید
شمع اور شاعر
مسلم
حضور رسالت مآب میں
شفا خانۂ حجاز
جواب شکوہ
ساقی
تعلیم اور اس کے نتائج
قرب سلطاں
شاعر
نوید صبح
دعا
عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں
فاطر بنت عبد اللہ
شبنم اور ستارے
محاصرۂ ادرنہ
غلام قادر رہیلہ
ایک مکالمہ
میں اور تو
تضمین بر شعرابو طالب کلیم
شبلی وحالی
ارتقا
صدیق
تہذیب حاضر
والدہ مرحومہ کی یاد میں
شعاع آفتاب
عرفی
ایک خط کے جواب میں
نانک
کفر واسلام
بلالؓ
مسلمان اور تعلیم جدید
پھولوں کی شہزادی
تضمین بر شعر صائبؔ
فردوس میں ایک مکالمہ
مذہب
جنگ یرموک کا ایک واقعہ
مذہب
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
شب معراج
پھول
شیکسپئیر
میں اور تو
دریوزیۂ خلافت
اسیری
ہمایوں
خضرراہ
جواب خضر
طلوع اسلام
غزلیات
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
یہ سروقمری وبلبل فریب گوش ہے
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
پھر باد بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو
کبھی اے حقیقت منتظر! نظر آلباس مجاز میں
تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائر ان چمن تو کیا
ظریفانہ
گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یو گرم سخن
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
یہ آیۂ نوجیل سے نازل ہوئی مجھ پر
محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے
اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام
اٹھا کر پھینک دوباہر گلی میں
تکرار تھی مزارع ومالک میں ایک روز
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
بال جبریل
فہرست
غزلیات
حصّہ اوّل
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
دگر کوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
لاپھر اک بار وہی بادہ و جام اسے ساقی
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے درودسوز آرزو مندی
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
ضمیر لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھتا تھا میں
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
یارب! یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن
حصہ دوم
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے میخانے
غلامی کیا ہے ذوق حسن زیبائی سے محرومی
یہ کون غزل خواں ہے پر سوز ونشاط انگیز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
عالم آب وخاک وباد! سرعیاں ہے تو کہ میں
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
امین راز ہے مروان حر کی درویشی
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
دل سوزسے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
یہ حوریان فرنگی دل ونظر کا حجاب
دل بیدار فاروقی دل بیدار کرّاری
خودی کی شوخی وتندی میں کبرو ناز نہیں
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
میر سپاہ نا سزا لشکر یاں شکستہ صف
یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس وخاشاک
کمال ترک نہیں آب وگل سے مہجوری
عقل کو آستاں سے دور نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئیکنارہ نہیں
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
تری نگاہ فروماہ ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
نگاہ فقہ میں شان سکندری کیا ہے
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
تو اے اسیر مکان لا مکاں سے دور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!
ہر چیز ہے محو خود نمائی
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خودآگاہی
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
مجھے آہ فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
فطرت کو خرد کے روبرو کر
یہ پیران کلیسا وحرم اے وائے مجبوری!
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
دھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
حادثہ وہ بھی ابھی پردہ افلاک میں ہے
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
نہ تخت و تاج میں نے لشکروسپاہ میں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
مری نواسے ہوئے زندہ عارف وعامی
فہرست
دیباچہ
اے ہمالہ
گل رنگیں
عہد طفلی
مرزا غالب
اکبر کوہسار
ایک مکڑا اور مکڑی
ایک پہاڑ اور گلہری
ایک گائے اور بکری
بچّے کی دعا
ہمدردی
ماں کا خواب
پرندے کی فریاد
خفتگان خاک سے استفسار
شمع و پروانہ
عقل ودل
صدائے درد
آفتاب
شمع
ایک آرزو
آفتاب صبح
درد عشق
گل پژمردہ
سید کی لوح تربت
ماہ نو
انسان اور بزم قدرت
پیام صبح
عشق اور موت
زہد اور رندی
شاعر
دل
موج دریا
رخصت اے بزم جہاں!
طفل شیرخوار
تصویر درد
نالۂ فراق
چاند
بلال
سرگزشت آدم
ترانہ ہندی
جگنو
صبح کا ستارہ
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت
نیا شوالا
داغ
ابر
ایک پرندہ اور جگنو
بچہ اور شمع
کنار راوی
التجائے مسافر
غزلیات
گلزار ہست بود نہ بیگانہ وار دیکھ
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
عجب واعظ کی دیں واری ہے یارب!
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کیا لیے
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیرے غافل ہوں میں
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
حصہ دوم
محبت
حقیقت حسن
پیام
سوامی رام تیرتھ
طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام
حسن وعشق
اختر صبح
کو گود میں بلّی دیکھ کر
کلی
چاند اور تارے
وصال
سّلیمیٰ
عاشق ہرجائی
عشق کی آشفتگی نے کردیا صحرا جسے
کوشش نا تمام
نوائے غم
عشرت امروز
انسان
جلوۂ حسن
ایک شام
تنہائی
پیام عشق
فراق
عبد القادر کے نام
صقلیہ
غزلیات
الٰہی عقل خجستہ پے کو ذراسی دیوانگی سکھادے
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
زمانہ دیکھیے گا جب مرے دل سے محشر ا ٹھے گا گفتگو کا
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
مثال پر تومے طوف جام کرتے ہیں
یوں تو اے بزم جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے
2617
حصّہ سوم
بلاد اسلامیہ
ستارہ
گورستان شاہی
دوستارے
نمود صبح
تضمین بر شعرا انیسی شاملو
فلسفۂ غم
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
ترنانۂ ملّی
وطنیّت
ایک حاجی مدنے کے راستے میں
قطعہ
شکوہ
چاند
رات اور شاعر
بزم انجم
سیر فلک
نصیحت
رام
انسان
موٹر
خطاب بہ جوانان اسلام
غرّۂ شوّال یا ہلال عید
شمع اور شاعر
مسلم
حضور رسالت مآب میں
شفا خانۂ حجاز
جواب شکوہ
ساقی
تعلیم اور اس کے نتائج
قرب سلطاں
شاعر
نوید صبح
دعا
عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں
فاطر بنت عبد اللہ
شبنم اور ستارے
محاصرۂ ادرنہ
غلام قادر رہیلہ
ایک مکالمہ
میں اور تو
تضمین بر شعرابو طالب کلیم
شبلی وحالی
ارتقا
صدیق
تہذیب حاضر
والدہ مرحومہ کی یاد میں
شعاع آفتاب
عرفی
ایک خط کے جواب میں
نانک
کفر واسلام
بلالؓ
مسلمان اور تعلیم جدید
پھولوں کی شہزادی
تضمین بر شعر صائبؔ
فردوس میں ایک مکالمہ
مذہب
جنگ یرموک کا ایک واقعہ
مذہب
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
شب معراج
پھول
شیکسپئیر
میں اور تو
دریوزیۂ خلافت
اسیری
ہمایوں
خضرراہ
جواب خضر
طلوع اسلام
غزلیات
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
یہ سروقمری وبلبل فریب گوش ہے
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
پھر باد بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو
کبھی اے حقیقت منتظر! نظر آلباس مجاز میں
تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائر ان چمن تو کیا
ظریفانہ
گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یو گرم سخن
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
یہ آیۂ نوجیل سے نازل ہوئی مجھ پر
محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے
اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام
اٹھا کر پھینک دوباہر گلی میں
تکرار تھی مزارع ومالک میں ایک روز
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
بال جبریل
فہرست
غزلیات
حصّہ اوّل
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
دگر کوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
لاپھر اک بار وہی بادہ و جام اسے ساقی
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے درودسوز آرزو مندی
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
ضمیر لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھتا تھا میں
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
یارب! یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن
حصہ دوم
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے میخانے
غلامی کیا ہے ذوق حسن زیبائی سے محرومی
یہ کون غزل خواں ہے پر سوز ونشاط انگیز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
عالم آب وخاک وباد! سرعیاں ہے تو کہ میں
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
امین راز ہے مروان حر کی درویشی
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
دل سوزسے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
یہ حوریان فرنگی دل ونظر کا حجاب
دل بیدار فاروقی دل بیدار کرّاری
خودی کی شوخی وتندی میں کبرو ناز نہیں
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
میر سپاہ نا سزا لشکر یاں شکستہ صف
یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس وخاشاک
کمال ترک نہیں آب وگل سے مہجوری
عقل کو آستاں سے دور نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئیکنارہ نہیں
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
تری نگاہ فروماہ ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
نگاہ فقہ میں شان سکندری کیا ہے
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
تو اے اسیر مکان لا مکاں سے دور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!
ہر چیز ہے محو خود نمائی
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خودآگاہی
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
مجھے آہ فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
فطرت کو خرد کے روبرو کر
یہ پیران کلیسا وحرم اے وائے مجبوری!
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
دھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
حادثہ وہ بھی ابھی پردہ افلاک میں ہے
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
نہ تخت و تاج میں نے لشکروسپاہ میں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
مری نواسے ہوئے زندہ عارف وعامی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔