سر ورق
جگر صاحب
جگر مرادآبادی
شعلہ طور
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اکدن انتہا ہوگا
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
ایک رنگیں نقاب نے مارا
عشق کی یہ نمودِ پیہم کیا
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل نے سینے میں تڑپ کر انہیں جب یاد کیا
کس نظر سے آج وہ دیکھا کیا
اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
عرضِ نیاز غم کو لب آشنا نہ کرنا
میرا جو حال ہو سو ہو، برق نظر گررائے جا
کیا کر گیا اک جلوۂ مستانہ کسی کا
جواب بھی نہ تکلیف فرمایئے گا
نظر ملا کے مرے پاس آکے ، لوٹ لیا
شباب حسن کا حسنِ شباب دیکھ لیا
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
ہر دم دعائیں دینا، ہر لحظہ آہیں بھرنا
اس چشم مست نے مجھے مخمور کردیا
شمشیر حسن و عشق کا بسمل بنا دیا
اب کہاں زمانے میں دوسرا جواب انکا
ہاں نگاہِ شوق! وہ اٹھی نقاب
تم اس دل وحشی کی وفاؤں پہ جانا
میرا جنون شوق، وہ عرض وفا کے بعد
کبھی شاخ و سبزہ دبرگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
ہجوم تجلی سے معمور ہو کر
نوید بخششِ عصیاں سے شرمشارنہ کر
عشق میں لاجواب ہیں ہم لوگ
حسن معنی کی قسم، جلوۂ صورت کی قسم
تو بھی اونا آشنائے درہ دل
اب ان کا کیا بھروسہ وہ آئیں یا نہ آئیں
کدھر ہے تیرا خیال، اے دل، یہ وہم کیا کیا سمارہے ہیں
ہماری ہستی، تمام آفت، تمام زحمت، تمام کلفت
کرم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
نیاز عاشقی کو ناز کے قابل سمجھتے ہیں
دل حریف حال و بے حالی نہیں
لفظ و معنیٰ میں نہیں جلوہ و صورت میں نہیں
غم عاشقی کا صلہ چاہتا ہوں
محبت کی محبت تک ہی جو دنیا سمجھتے ہیں
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
مر کے بھی کب تک نگاہ شوق کو رسوا کریں
جب اپنا اپنا غم احباب سے احباب کہتے ہیں
اللہ اللہ عشق کی رعنائیاں
نگاہوں کا مرکز بنا جارہا ہوں
عشق کی بڑھنے تو دو بربادیاں
عہد رنگین کی یاد گارہوں میں
جو نہ کعبے میں ہے محدود نہ تنجانے میں
شاعر فطرت ہوں میں جب فکر فرماتا ہوں میں
الہی ایک دعا ہے اگر قبول نہ ہو
میری نظروں میں ہے اک جانِ وفا کا نقشہ
ایک رند ہے اور امتِ سلطان مدینہ
اف یہ تیغ آزمائیاں توبہ
دل میں ایک رشک حور رہتا ہے
سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے
اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام وقیام ہے
نظر فروز رہے، سامعہ نواز رہے
اب مرے سامنے ٹھہرے تو گلستاں کوئی
ملا کے آنکھ نہ محروم ناز رہنے دے
مجھے ہلاک فریب مجاز رہنے دے
حال بھی ماورائے حال بھی ہے
کیا سیر کیجئے دنیائے رنگ و بو کی
یہ مے کشی ہے تو پھر شان میکشی کیا
شایستۂ غرور تمنا نہ کیجئے
جنونِ عشق کا اتنا تو حق ادا کرتے ہیں
عشق کی حد سے نکلتے، پھر یہ منظر دیکھتے
کیا برابر کا محبت میں اثر ہوتا ہے
دل ترے عشق میں ناشاد بھی ہے شاد بھی ہے
یوں بھی مجھے توحاصل آرام جاں نہیں ہے
وہ کون ہے ایسا، کہ تری شکل دکھا دے
اے حسن یار! شرم ، یہ کیا انقلاب ہے
کیوں دو رہٹ کے جائیں ہم دل کی زرمیں سے
سنتا ہوں کہ ہر حال میں وہ دل کے قرین ہے
تڑپ کر انہیں تڑپا رہا ہے
دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے
خار کو گل اور گل کو خار جو چاہے کر
ہر اک سے بیگانہ بن رہے ہیں کسی کی جانب نظر نہیں ہے
نظر سے حسن دو عالم گرا دیا تونے
دل کو اشکوں سے جو خالی کوئی کر دیتا ہے
وہ کافر آشنا، ناآشنا، یوں بھی ہے اور یوں بھی
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
ترے جمال حقیقت کی تاب ہے نہ ہوئی
یاد جاناں بھی عجب روح فزا آتی ہے
کون یہ جانِ تمنا عشق کی منزل میں ہے
محبت آپ اپنی ترجمان ہے
آے زباں پہ راز محبت محال ہے
کچھ اس ادا سے آج ہو پہلو نشیں رہے
دیکھ لے تو بھی کہ اب خیر نہیں جانوں کی
ایک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
عشق ہے نصف الحقیقیت کیوں پریشان کیجئے
خاطر عشق الم کوش ہوئی جاتی ہے
دل میں تم ہو نزع کا ہنگام ہے
پھر وہ ہم سے خفا ہے کیا کہئے
کچھ جو پشیمان جفا ہو گئے
سب پہ تو مہربان ہے پیارے
درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
ادا جو آئے وہ بے عیب بے قصور آئے
دیدۂ یار بھی پرنم ہے خدا خیر کرے
عاشقی امتیاز کیا جانے
دل گیا رونق حیات گئی
عشق ہی تنہا نہیں شوریدہ سر میرے لئے
پارہائے جگر
نگاہِ شوق جگر وقف چار سو گیا ہے
اس کی نگہ ناز کے قابل نہ سمجھنا
جذبات جگر
محال تھا کہ میں آزادِ دو جہاں ہوتا
محیط عشق میں جو کچھ بھی تھا اک عالم دل تھا
یاد ایام، کہ جلووں کا ترے ہوش نہ تھا
حسن کے احترام نے مارا
جنوں میں بھی کیسا کم یہ ساماں ہوگا
جدھر سے حسن کا ایک گوشۂ نقاب اٹھا
ہزاروں قربتوں پریوں مرا مہجور ہوجانا
ادب شناسِ محبت دلِ خراب ہوا
خالی، زادئے پریشاں نہیں دیکھا
رحمت نے مجھ کو مائل عصیاں بنا دیا
نہ دیکھا، رخِ نقابِ محبت
وارفتگیٔ شوق میں حد سے نہ گزر جا
ترے جلودنمیں گم ہو کر، خود سے بے خبر ہوکر
اللہ اللہ اثر انگیزی جذب غم کیف
مجھ سے سنو، مآل غم انتہائے عشق
نالہ پابند نفس اے دل ناشاد نہیں
عشق کا پیغام مستی، شوق کی روداد ہوں
لیکے نکلا ہے مرا جوش لطافت مجھ کو
بے نقاب آج تو یوں جلوۂ جانا ہو جائے
اندازہ ساقی تھا کس درجہ حکیمانہ
خود اپنے عکس کو اپنے مقابل دیکھنے والے
اک حسن کا دریا ہے ایک نور کا طوفان ہے
فطرت نے محبت کی اس طرح بنا ڈالی
عشق میں مقصود اصلی کو مقدم کیجئے
ہم سے رندوں کا زمانے سے جدا میخانہ ہے
احساس عاشقی نے بے گانہ کردیا ہے
ہر گھڑی پیش نظر اک تازہ طوفان چاہئے
یہ جدب شہادت کا حاصل نظر آتا ہے
فکر منزل ہے، نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
عشق نے توڑی سر پہ قیامت، روز قیامت کیا کہیے
اک نے بے نام جو اس دل کے پیمانے میں ہے
ذرہ ذرہ دیدہ و دل ہے گوشہ گوشہ بستی ہے
نالۂ بے قرار کون کرے
لازم ہے کچھ تو خاطر دلدار کیلئے
پار ہائے جگر
تخیلات جگر
دل کیا ہے نقشِ حسنِ حقیقت طراز کا
فاش اہل بزم پر کل، راز پنہاں کردیا
زمین و آسماں ہونا مکان و لامکاں ہونا
جادو ، قلم کا تب تقدیر میں کیا تھا
یہ فصل گل، سماں یہ شب ماہتاب کا
آہ یہ عالم کثرت تری رعنائی کا
نظر میں ہیچ ہے، گلشن تمام دنیا کا
سینے سے دل اچھلتے ہی رفعت نشاں ہوا
وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
یہ مزا تھا خلد میں بھی نہ مجھے قرار ہوتا
عشق جب مصروف اصلاحات روح دیں میں تھا
دہر کی نیرنگیوں کا خوب عرفاں ہوگیا
تری نگاہ ناز بایں شان اضطراب
ہو چکا تکملہ ٔ صورت ومعنائے بہار
دل مرا توڑ کر کہا، اس نے زبان راز میں
ندرت پسند کتنے عشاق خوش نظر ہیں
سمجھائے کون، بلبل غفلت شعار کو
نگراں کوئی بجز دیدۂ مسحور نہ ہو
ابھی کچھ روز ہی گزرے نہ تھے تخلیق انساں کو
قدرت کی آن والے! رحمت کی شان والے
ہنسی پھر اڑنے لگی، عشق کے فسانے کی
ہر پردۂ ہستی میں جب تو مشکل ہے
چشم نظر پرست ہیں جس کا جہاں نام ہے
جدھر کو جھوم کے مست شراب دیکھیں گے
کیونکر نہ روش تجھ سے ہوں کون ومکاں عاشقی
سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے جو ساز میں ہے
تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
زندوہ ہوں کی غزل بھی مری رندانہ ہے
آدمی نشہ غفلت میں بھلا دیتا ہے
کیا بلا عشاق تماشہ ساز ہے
سنا ہے حشر میں ایک حسن عالم گیر دیکھیں گے
مسرور ہوں، کیفِ درد جگری سے
در فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
کس قدر جامع ہے ترا عالم تصویر بھی
یہ دور مستعار خزاں و بہار کے
ساقی ہے شراب ہے، سبو ہے
خاص ایک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
جگر پارے
کثرت میں بھی وحدت کا تماشہ نظر آیا
نغمات جگر
تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نگاہ میں
پیوست دل میں جب تیرا تیر نظر ہوا
گھڑی بھر میں نا آشنا ہو گیا
حشر کے دن وہ گہنگار نہ بخشا جائے گا
ہم اسیران جنوں سے کوئی پوچھے آکر
جان ہے بیقراری جسم ہے پائمال سا
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
شریک نالہ میرا بھی جو انداز فغاں ہوتا
آنکھوں میں اس طرح سے ترا شوق دید تھا
اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
مجھ کو وہ لذت علی ملی، احساس مشکل ہو گیا
جب تو کچھ ظرف ہے اے دل ترے پیمانے کا
فروغ حسن رخ نکو نے کیا یہ انقلاب پیدا
قدم کیا اٹھتے قیس کے بیچارہ حیران تھا
کہاں ممکن تھا اس چشم عنایت کا ادھر ہونا
یہی ہے سب سے بڑھ کر محرم اسرار ہو جاتا
صیاد مجھ سے دور ہے خوش باغباں ہے اب
صبر کے ساتھ مرا دل بھی لئے جائیں آپ
لب پہ نالہ ہے مرے اور نہ فریاد ہے آج
نظر بھی ساتھ رہی ہے قدم قدم یہ مری
وہ چمن میرا چمن ہے وہ قفس میرا قفس
وہ مست مانند رند آنکھیں، وہ سرخ مثل گلاب عارض
فرصت کہاں کہ چھیڑ کریں آسماں سے ہم
سرور کم نہ کبھی ہوگا، اب قیامت تک
عرش سے ہو کے جو مایوس دعائیں آئی
سراپا آرزو ہوں درد ہوں، داغ تمناہوں
لب پہ نالہ نہیں، شکوہ نہیں، فریاد نہیں
کیا آگیا خیال دل بے قرار میں
ڈوب کر دل میں وہ نظریں تیر و مکاں ہو گئیں
اچھا ہے پاس اگر کوئی غمخوار بھی نہیں
دل کی تسکیں کےلئے دو پھول دامن میں نہیں
جواب ان کا کہاں سارے جہاں میں
یہ نہ پوچھو دہر میں کب سے میں اسی طرح خانہ خراب ہوں
کس نے پھر نہ سنا درد کے افسانے کو
واقفِ غم الفت سے نہ دل ہو نہ جگر ہو
نہ چھیڑ ان کے تصویر میں اے بہار مجھے
ہم اور ان کے سامنے غرض نیاز عشق
کیا خبر تھی خالش ناز نہ جینے دے گی
مگر چشم آرزو کی حالت یہی رہے گی
کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
آہ میری یہ فغاں اب نہ سنی جائے گی
چیخی ہے کس انداز سے کس کرب و بلا سے
یہ نہیں تیری آرزو نہ کرے
برابر کی خلش، خونبانہ افشانی مقابل کی
عاشقی یاس کی محکوم ہوئی جاتی ہے
نظر ملتے ہی دل کو وقف تسلیم و رضا کر دے
شب وصل کیا مختصر ہو گئی
کیا لطف پوچھتے ہو پر شوق زندگی کے
چلے گا کام تمہارا نہ اب گواہوں سے
فلک کے جور زمانے کے غم اٹھائے ہوئے
دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
ہاں چلے دور میں ساقی مئے گلفام چلے
کیا قیامت تھا یحییٰ کا شکوہ بیداد بھی
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
مشغلہ ہجر میں کچھ تو دل ناشاد رہے
کیا پوچھتے ہو حالت بیمار محبت کی
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
آنکھوں میں نور جسم میں بن کر وہ جاں رہے
جوانی آتے ہی ان پر قیامت کی بہار آئی
علاج کاوش غم خاک چارہ جو کرتے
ازل کے دن جنہیں لے کر چلے تھے محفل سے
بس اک نظر کا دھوکا ہے ، بس اک آنکھوں کا پردہ ہے
دل بہلنے کی شب غم یہی صورت ہو گی
پارہ ہائے جگر
شکست توبہ
غمِ انتظار
تصویر و تصور
نرگس مستانہ
یادِ ایام
مجذوب کی صدا
نغمہ اسلام
ہلال عید
بر خویش نگا ہے کن
تخمیس بر غزل اردو
تخمیس برغزل فارسی
سرور حقیقت
مثنوی عرفان خودی
واسوخت در غزل
میرے لئے
بادۂ شیراز
آوارہ ہر نگاہِ زجرم نگاہ کیست
بوکے دل از غبار می آید
دررہ عشق شادماں بگزر
کعبہ در پائے یارو یدم دوش
آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں دردل
دل عطا کن تادردنش دردہا پیدا کنم
نذر عقیدت
مطرب بزن ہر ووے ساقی بیارا بادہ
بنشیں بخیال او، وزرد ہک آہے کن
دیدیم بہ میخانہ پیرے زجواں اولیٰ
سراپا
خطاب بہ مسلم
دردِ جگر
جگر پارے
آتش گل
یادش بخیر، جب وہ تصور میں آگیا
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
کوئی جیتا، کوئی مرتا ہی رہا
گدار عشق نہیں کم، جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون، روح کو آرام آگیا
شعر و نغمۂ رنگ و نکہت، جام وصہبا ہوگیا
روبروئے دوستِ ہنگام سلام آہی گیا
یک لخت خوشی کا جب انجام نظر آیا
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
تیرا تصور شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دلِ بیداد محبت
غم ہے کیا زینہ صفات و ذات
دنیا کے ستم یاد، نہ اپنی ہی وفا یاد
حسیں دل، تبسم نگاہ پیدا کر
شاہد و ساقی بہار سے دور
نغمہ ترا نفس نفس، جلوہ ترا نظر نظر
محبت میں جگر گذرے ہیں ایسی بھی مقام اکثر
وہ احساسِ شوق جواں اول اول
حسن کافر شباب کا عالم
اللہ رے اس گلشنِ ایجاد کا عالم
جنوں کم ، جستجو کم تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے، نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرے جن کو ہم خاکِ رہ منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرضِ غم در خور اعتنا نہیں
مقاماتِ ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
بے کیف ہے دل اور جئے جا رہا ہوں میں
جو مسرتوں میں خلش نہیں، جو اذیتوں میں مزا نہیں
اس رخ یہ اژدہام نظر دیکھتا ہوں میں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لالہ وگل، کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
اب لفظ بیاں سب ختم ہوئے، اب دیدہ و دل کا کام نہیں
بے ربط حسن و عشق یہ کیف و اثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
سبھی اندازِ حسن پیارے ہیں
یہ صحن درویش یہ لالہ و گل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے، مکمل خوشی نہیں
کوئی یہ کہدے گلشن گلشن
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی پک جائی ہو
جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں
داغِ دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کار گر نہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں کو پیر میخانہ
سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
یہ فلک یہ ماہِ و انجم، یہ زمیں یہ زمانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
کسی صورت نمودِ سوز پنہائی نہیں جاتی
کیا کشش جسن بے پناہ میں ہے
تکلف سے، تصنع سے، بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے ، دل میں سما کے چلے گئے
وہ جو روٹھیں، یو منانا چاہیئے
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یوں پرششِ ملال وہ فرما کے رہ گئے
سودا جو اب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
آئے ہیں پھر وہ عزمِ دل و جاں کئے ہوئے
پھر دل ہے قصدِ کوچہ جاناں کئے ہوئے
واعظ نے اور نہ زاہد ِ شب زندہ وار نے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بہ قدرِ ظرفِ نظر دیکھتے رہے
یہ مصرح کاش نقشِ ہر درد دیوار ہو جائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تابِ مستی نہ ہوشِ ہستی کہ شکرِ نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کون سی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمالِ حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن و صورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
رگ میں ایک برق خراماں لئے ہوئے
کس کا خیال ہے دل مضطر لئے ہوئے
راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
شرما گئے، لجا گئے، دامن چھڑا گئے
ہر وہ حلقہ جو تری کاکلِ شب گیر میں ہے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے، ویرانہ بھی ہے
ہر تجلی نہیں نظر آئی
جان کر من جملہ خاصیانِ مے خانہ مجھے
آپڑا کچھ وقت ایسا گردش ایام سے
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
صحن کعب نہ سہی، کوئے صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
آدمی آدمی سے ملتا ہے
افشاں
منظومات: تجدید ملاقات
یاد
سراپا
قحط بنگال
آج کل
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
گزرجا
نوائے وقت
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
زمانے کا آقا، غلام زمانہ
اعلان جمہوریت
ساقی سے خطاب
قند فارسی
قطعہ تاریخ وفات اور تاریخی مادے
کہاں سے بڑھ کے پہنچے ہیں کہاں تک علم وفن ساقی
نظر آتے ہیں ہم سب آدمی سے
اے وہ کہ تیری ذات گرامی یہ ہمہ رنگ
لب ترستے ہیں التجا کے لئے
لگا ہوںکا مرکز بنا جارہا ہوں
غزل
سر ورق
جگر صاحب
جگر مرادآبادی
شعلہ طور
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اکدن انتہا ہوگا
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
ایک رنگیں نقاب نے مارا
عشق کی یہ نمودِ پیہم کیا
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل نے سینے میں تڑپ کر انہیں جب یاد کیا
کس نظر سے آج وہ دیکھا کیا
اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
عرضِ نیاز غم کو لب آشنا نہ کرنا
میرا جو حال ہو سو ہو، برق نظر گررائے جا
کیا کر گیا اک جلوۂ مستانہ کسی کا
جواب بھی نہ تکلیف فرمایئے گا
نظر ملا کے مرے پاس آکے ، لوٹ لیا
شباب حسن کا حسنِ شباب دیکھ لیا
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
ہر دم دعائیں دینا، ہر لحظہ آہیں بھرنا
اس چشم مست نے مجھے مخمور کردیا
شمشیر حسن و عشق کا بسمل بنا دیا
اب کہاں زمانے میں دوسرا جواب انکا
ہاں نگاہِ شوق! وہ اٹھی نقاب
تم اس دل وحشی کی وفاؤں پہ جانا
میرا جنون شوق، وہ عرض وفا کے بعد
کبھی شاخ و سبزہ دبرگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
ہجوم تجلی سے معمور ہو کر
نوید بخششِ عصیاں سے شرمشارنہ کر
عشق میں لاجواب ہیں ہم لوگ
حسن معنی کی قسم، جلوۂ صورت کی قسم
تو بھی اونا آشنائے درہ دل
اب ان کا کیا بھروسہ وہ آئیں یا نہ آئیں
کدھر ہے تیرا خیال، اے دل، یہ وہم کیا کیا سمارہے ہیں
ہماری ہستی، تمام آفت، تمام زحمت، تمام کلفت
کرم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
نیاز عاشقی کو ناز کے قابل سمجھتے ہیں
دل حریف حال و بے حالی نہیں
لفظ و معنیٰ میں نہیں جلوہ و صورت میں نہیں
غم عاشقی کا صلہ چاہتا ہوں
محبت کی محبت تک ہی جو دنیا سمجھتے ہیں
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
مر کے بھی کب تک نگاہ شوق کو رسوا کریں
جب اپنا اپنا غم احباب سے احباب کہتے ہیں
اللہ اللہ عشق کی رعنائیاں
نگاہوں کا مرکز بنا جارہا ہوں
عشق کی بڑھنے تو دو بربادیاں
عہد رنگین کی یاد گارہوں میں
جو نہ کعبے میں ہے محدود نہ تنجانے میں
شاعر فطرت ہوں میں جب فکر فرماتا ہوں میں
الہی ایک دعا ہے اگر قبول نہ ہو
میری نظروں میں ہے اک جانِ وفا کا نقشہ
ایک رند ہے اور امتِ سلطان مدینہ
اف یہ تیغ آزمائیاں توبہ
دل میں ایک رشک حور رہتا ہے
سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے
اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام وقیام ہے
نظر فروز رہے، سامعہ نواز رہے
اب مرے سامنے ٹھہرے تو گلستاں کوئی
ملا کے آنکھ نہ محروم ناز رہنے دے
مجھے ہلاک فریب مجاز رہنے دے
حال بھی ماورائے حال بھی ہے
کیا سیر کیجئے دنیائے رنگ و بو کی
یہ مے کشی ہے تو پھر شان میکشی کیا
شایستۂ غرور تمنا نہ کیجئے
جنونِ عشق کا اتنا تو حق ادا کرتے ہیں
عشق کی حد سے نکلتے، پھر یہ منظر دیکھتے
کیا برابر کا محبت میں اثر ہوتا ہے
دل ترے عشق میں ناشاد بھی ہے شاد بھی ہے
یوں بھی مجھے توحاصل آرام جاں نہیں ہے
وہ کون ہے ایسا، کہ تری شکل دکھا دے
اے حسن یار! شرم ، یہ کیا انقلاب ہے
کیوں دو رہٹ کے جائیں ہم دل کی زرمیں سے
سنتا ہوں کہ ہر حال میں وہ دل کے قرین ہے
تڑپ کر انہیں تڑپا رہا ہے
دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے
خار کو گل اور گل کو خار جو چاہے کر
ہر اک سے بیگانہ بن رہے ہیں کسی کی جانب نظر نہیں ہے
نظر سے حسن دو عالم گرا دیا تونے
دل کو اشکوں سے جو خالی کوئی کر دیتا ہے
وہ کافر آشنا، ناآشنا، یوں بھی ہے اور یوں بھی
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
ترے جمال حقیقت کی تاب ہے نہ ہوئی
یاد جاناں بھی عجب روح فزا آتی ہے
کون یہ جانِ تمنا عشق کی منزل میں ہے
محبت آپ اپنی ترجمان ہے
آے زباں پہ راز محبت محال ہے
کچھ اس ادا سے آج ہو پہلو نشیں رہے
دیکھ لے تو بھی کہ اب خیر نہیں جانوں کی
ایک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
عشق ہے نصف الحقیقیت کیوں پریشان کیجئے
خاطر عشق الم کوش ہوئی جاتی ہے
دل میں تم ہو نزع کا ہنگام ہے
پھر وہ ہم سے خفا ہے کیا کہئے
کچھ جو پشیمان جفا ہو گئے
سب پہ تو مہربان ہے پیارے
درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
ادا جو آئے وہ بے عیب بے قصور آئے
دیدۂ یار بھی پرنم ہے خدا خیر کرے
عاشقی امتیاز کیا جانے
دل گیا رونق حیات گئی
عشق ہی تنہا نہیں شوریدہ سر میرے لئے
پارہائے جگر
نگاہِ شوق جگر وقف چار سو گیا ہے
اس کی نگہ ناز کے قابل نہ سمجھنا
جذبات جگر
محال تھا کہ میں آزادِ دو جہاں ہوتا
محیط عشق میں جو کچھ بھی تھا اک عالم دل تھا
یاد ایام، کہ جلووں کا ترے ہوش نہ تھا
حسن کے احترام نے مارا
جنوں میں بھی کیسا کم یہ ساماں ہوگا
جدھر سے حسن کا ایک گوشۂ نقاب اٹھا
ہزاروں قربتوں پریوں مرا مہجور ہوجانا
ادب شناسِ محبت دلِ خراب ہوا
خالی، زادئے پریشاں نہیں دیکھا
رحمت نے مجھ کو مائل عصیاں بنا دیا
نہ دیکھا، رخِ نقابِ محبت
وارفتگیٔ شوق میں حد سے نہ گزر جا
ترے جلودنمیں گم ہو کر، خود سے بے خبر ہوکر
اللہ اللہ اثر انگیزی جذب غم کیف
مجھ سے سنو، مآل غم انتہائے عشق
نالہ پابند نفس اے دل ناشاد نہیں
عشق کا پیغام مستی، شوق کی روداد ہوں
لیکے نکلا ہے مرا جوش لطافت مجھ کو
بے نقاب آج تو یوں جلوۂ جانا ہو جائے
اندازہ ساقی تھا کس درجہ حکیمانہ
خود اپنے عکس کو اپنے مقابل دیکھنے والے
اک حسن کا دریا ہے ایک نور کا طوفان ہے
فطرت نے محبت کی اس طرح بنا ڈالی
عشق میں مقصود اصلی کو مقدم کیجئے
ہم سے رندوں کا زمانے سے جدا میخانہ ہے
احساس عاشقی نے بے گانہ کردیا ہے
ہر گھڑی پیش نظر اک تازہ طوفان چاہئے
یہ جدب شہادت کا حاصل نظر آتا ہے
فکر منزل ہے، نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
عشق نے توڑی سر پہ قیامت، روز قیامت کیا کہیے
اک نے بے نام جو اس دل کے پیمانے میں ہے
ذرہ ذرہ دیدہ و دل ہے گوشہ گوشہ بستی ہے
نالۂ بے قرار کون کرے
لازم ہے کچھ تو خاطر دلدار کیلئے
پار ہائے جگر
تخیلات جگر
دل کیا ہے نقشِ حسنِ حقیقت طراز کا
فاش اہل بزم پر کل، راز پنہاں کردیا
زمین و آسماں ہونا مکان و لامکاں ہونا
جادو ، قلم کا تب تقدیر میں کیا تھا
یہ فصل گل، سماں یہ شب ماہتاب کا
آہ یہ عالم کثرت تری رعنائی کا
نظر میں ہیچ ہے، گلشن تمام دنیا کا
سینے سے دل اچھلتے ہی رفعت نشاں ہوا
وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
یہ مزا تھا خلد میں بھی نہ مجھے قرار ہوتا
عشق جب مصروف اصلاحات روح دیں میں تھا
دہر کی نیرنگیوں کا خوب عرفاں ہوگیا
تری نگاہ ناز بایں شان اضطراب
ہو چکا تکملہ ٔ صورت ومعنائے بہار
دل مرا توڑ کر کہا، اس نے زبان راز میں
ندرت پسند کتنے عشاق خوش نظر ہیں
سمجھائے کون، بلبل غفلت شعار کو
نگراں کوئی بجز دیدۂ مسحور نہ ہو
ابھی کچھ روز ہی گزرے نہ تھے تخلیق انساں کو
قدرت کی آن والے! رحمت کی شان والے
ہنسی پھر اڑنے لگی، عشق کے فسانے کی
ہر پردۂ ہستی میں جب تو مشکل ہے
چشم نظر پرست ہیں جس کا جہاں نام ہے
جدھر کو جھوم کے مست شراب دیکھیں گے
کیونکر نہ روش تجھ سے ہوں کون ومکاں عاشقی
سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے جو ساز میں ہے
تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
زندوہ ہوں کی غزل بھی مری رندانہ ہے
آدمی نشہ غفلت میں بھلا دیتا ہے
کیا بلا عشاق تماشہ ساز ہے
سنا ہے حشر میں ایک حسن عالم گیر دیکھیں گے
مسرور ہوں، کیفِ درد جگری سے
در فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
کس قدر جامع ہے ترا عالم تصویر بھی
یہ دور مستعار خزاں و بہار کے
ساقی ہے شراب ہے، سبو ہے
خاص ایک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
جگر پارے
کثرت میں بھی وحدت کا تماشہ نظر آیا
نغمات جگر
تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نگاہ میں
پیوست دل میں جب تیرا تیر نظر ہوا
گھڑی بھر میں نا آشنا ہو گیا
حشر کے دن وہ گہنگار نہ بخشا جائے گا
ہم اسیران جنوں سے کوئی پوچھے آکر
جان ہے بیقراری جسم ہے پائمال سا
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
شریک نالہ میرا بھی جو انداز فغاں ہوتا
آنکھوں میں اس طرح سے ترا شوق دید تھا
اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
مجھ کو وہ لذت علی ملی، احساس مشکل ہو گیا
جب تو کچھ ظرف ہے اے دل ترے پیمانے کا
فروغ حسن رخ نکو نے کیا یہ انقلاب پیدا
قدم کیا اٹھتے قیس کے بیچارہ حیران تھا
کہاں ممکن تھا اس چشم عنایت کا ادھر ہونا
یہی ہے سب سے بڑھ کر محرم اسرار ہو جاتا
صیاد مجھ سے دور ہے خوش باغباں ہے اب
صبر کے ساتھ مرا دل بھی لئے جائیں آپ
لب پہ نالہ ہے مرے اور نہ فریاد ہے آج
نظر بھی ساتھ رہی ہے قدم قدم یہ مری
وہ چمن میرا چمن ہے وہ قفس میرا قفس
وہ مست مانند رند آنکھیں، وہ سرخ مثل گلاب عارض
فرصت کہاں کہ چھیڑ کریں آسماں سے ہم
سرور کم نہ کبھی ہوگا، اب قیامت تک
عرش سے ہو کے جو مایوس دعائیں آئی
سراپا آرزو ہوں درد ہوں، داغ تمناہوں
لب پہ نالہ نہیں، شکوہ نہیں، فریاد نہیں
کیا آگیا خیال دل بے قرار میں
ڈوب کر دل میں وہ نظریں تیر و مکاں ہو گئیں
اچھا ہے پاس اگر کوئی غمخوار بھی نہیں
دل کی تسکیں کےلئے دو پھول دامن میں نہیں
جواب ان کا کہاں سارے جہاں میں
یہ نہ پوچھو دہر میں کب سے میں اسی طرح خانہ خراب ہوں
کس نے پھر نہ سنا درد کے افسانے کو
واقفِ غم الفت سے نہ دل ہو نہ جگر ہو
نہ چھیڑ ان کے تصویر میں اے بہار مجھے
ہم اور ان کے سامنے غرض نیاز عشق
کیا خبر تھی خالش ناز نہ جینے دے گی
مگر چشم آرزو کی حالت یہی رہے گی
کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
آہ میری یہ فغاں اب نہ سنی جائے گی
چیخی ہے کس انداز سے کس کرب و بلا سے
یہ نہیں تیری آرزو نہ کرے
برابر کی خلش، خونبانہ افشانی مقابل کی
عاشقی یاس کی محکوم ہوئی جاتی ہے
نظر ملتے ہی دل کو وقف تسلیم و رضا کر دے
شب وصل کیا مختصر ہو گئی
کیا لطف پوچھتے ہو پر شوق زندگی کے
چلے گا کام تمہارا نہ اب گواہوں سے
فلک کے جور زمانے کے غم اٹھائے ہوئے
دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
ہاں چلے دور میں ساقی مئے گلفام چلے
کیا قیامت تھا یحییٰ کا شکوہ بیداد بھی
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
مشغلہ ہجر میں کچھ تو دل ناشاد رہے
کیا پوچھتے ہو حالت بیمار محبت کی
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
آنکھوں میں نور جسم میں بن کر وہ جاں رہے
جوانی آتے ہی ان پر قیامت کی بہار آئی
علاج کاوش غم خاک چارہ جو کرتے
ازل کے دن جنہیں لے کر چلے تھے محفل سے
بس اک نظر کا دھوکا ہے ، بس اک آنکھوں کا پردہ ہے
دل بہلنے کی شب غم یہی صورت ہو گی
پارہ ہائے جگر
شکست توبہ
غمِ انتظار
تصویر و تصور
نرگس مستانہ
یادِ ایام
مجذوب کی صدا
نغمہ اسلام
ہلال عید
بر خویش نگا ہے کن
تخمیس بر غزل اردو
تخمیس برغزل فارسی
سرور حقیقت
مثنوی عرفان خودی
واسوخت در غزل
میرے لئے
بادۂ شیراز
آوارہ ہر نگاہِ زجرم نگاہ کیست
بوکے دل از غبار می آید
دررہ عشق شادماں بگزر
کعبہ در پائے یارو یدم دوش
آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں دردل
دل عطا کن تادردنش دردہا پیدا کنم
نذر عقیدت
مطرب بزن ہر ووے ساقی بیارا بادہ
بنشیں بخیال او، وزرد ہک آہے کن
دیدیم بہ میخانہ پیرے زجواں اولیٰ
سراپا
خطاب بہ مسلم
دردِ جگر
جگر پارے
آتش گل
یادش بخیر، جب وہ تصور میں آگیا
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
کوئی جیتا، کوئی مرتا ہی رہا
گدار عشق نہیں کم، جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون، روح کو آرام آگیا
شعر و نغمۂ رنگ و نکہت، جام وصہبا ہوگیا
روبروئے دوستِ ہنگام سلام آہی گیا
یک لخت خوشی کا جب انجام نظر آیا
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
تیرا تصور شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دلِ بیداد محبت
غم ہے کیا زینہ صفات و ذات
دنیا کے ستم یاد، نہ اپنی ہی وفا یاد
حسیں دل، تبسم نگاہ پیدا کر
شاہد و ساقی بہار سے دور
نغمہ ترا نفس نفس، جلوہ ترا نظر نظر
محبت میں جگر گذرے ہیں ایسی بھی مقام اکثر
وہ احساسِ شوق جواں اول اول
حسن کافر شباب کا عالم
اللہ رے اس گلشنِ ایجاد کا عالم
جنوں کم ، جستجو کم تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے، نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرے جن کو ہم خاکِ رہ منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرضِ غم در خور اعتنا نہیں
مقاماتِ ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
بے کیف ہے دل اور جئے جا رہا ہوں میں
جو مسرتوں میں خلش نہیں، جو اذیتوں میں مزا نہیں
اس رخ یہ اژدہام نظر دیکھتا ہوں میں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لالہ وگل، کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
اب لفظ بیاں سب ختم ہوئے، اب دیدہ و دل کا کام نہیں
بے ربط حسن و عشق یہ کیف و اثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
سبھی اندازِ حسن پیارے ہیں
یہ صحن درویش یہ لالہ و گل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے، مکمل خوشی نہیں
کوئی یہ کہدے گلشن گلشن
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی پک جائی ہو
جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں
داغِ دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کار گر نہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں کو پیر میخانہ
سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
یہ فلک یہ ماہِ و انجم، یہ زمیں یہ زمانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
کسی صورت نمودِ سوز پنہائی نہیں جاتی
کیا کشش جسن بے پناہ میں ہے
تکلف سے، تصنع سے، بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے ، دل میں سما کے چلے گئے
وہ جو روٹھیں، یو منانا چاہیئے
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یوں پرششِ ملال وہ فرما کے رہ گئے
سودا جو اب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
آئے ہیں پھر وہ عزمِ دل و جاں کئے ہوئے
پھر دل ہے قصدِ کوچہ جاناں کئے ہوئے
واعظ نے اور نہ زاہد ِ شب زندہ وار نے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بہ قدرِ ظرفِ نظر دیکھتے رہے
یہ مصرح کاش نقشِ ہر درد دیوار ہو جائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تابِ مستی نہ ہوشِ ہستی کہ شکرِ نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کون سی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمالِ حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن و صورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
رگ میں ایک برق خراماں لئے ہوئے
کس کا خیال ہے دل مضطر لئے ہوئے
راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
شرما گئے، لجا گئے، دامن چھڑا گئے
ہر وہ حلقہ جو تری کاکلِ شب گیر میں ہے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے، ویرانہ بھی ہے
ہر تجلی نہیں نظر آئی
جان کر من جملہ خاصیانِ مے خانہ مجھے
آپڑا کچھ وقت ایسا گردش ایام سے
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
صحن کعب نہ سہی، کوئے صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
آدمی آدمی سے ملتا ہے
افشاں
منظومات: تجدید ملاقات
یاد
سراپا
قحط بنگال
آج کل
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
گزرجا
نوائے وقت
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
زمانے کا آقا، غلام زمانہ
اعلان جمہوریت
ساقی سے خطاب
قند فارسی
قطعہ تاریخ وفات اور تاریخی مادے
کہاں سے بڑھ کے پہنچے ہیں کہاں تک علم وفن ساقی
نظر آتے ہیں ہم سب آدمی سے
اے وہ کہ تیری ذات گرامی یہ ہمہ رنگ
لب ترستے ہیں التجا کے لئے
لگا ہوںکا مرکز بنا جارہا ہوں
غزل
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔