سرورق
حباب آسامیں دم بہر تاہوں تیری آشنائی کا
بت کا تری بندہ ہر ایک کواے صنم پایا
آئنہ سینۂ صاحب نظر ان ہی کہ جو تھا
غبار راہ ہو کر چشم مردم میں محل پایا
اے فلک کچھ تواثر حسن عمل میں ہوتا
بار کو میں نے مجھےیارنے سونے نہ دیا
کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا
شہر کو نالوں نے مجھ مجنوں کی صحرا کردیا
توڑ کر تارنگہ کا سلسلہ جاتا رہا
کوئی عشق میں مجھ سےافزوں نہ نکلا
تیری کاکل میں پہنا ہے جواںوپیر کا
بلبل گلوں سےیہ کہکے تجھ کوبگڑ گیا
یہ انفعال گنہ سےمیں آب آب ہوا
فرش ہی اے یار خاک دوست دشمن زیر پا
درد سیر میں جو ہوا وہاں توبدن یہاں بوٹا
جب کہ رسوا ہوئ ان کا ہی سچ بات میں کیا
خیال آیا جو عشق زلف میں دلکی تباہی کا
زلف زیبا ہی فریب رخ جاناں ہونا
کشتہ اک عالم ہی چشم لعبت خود کا دم کا
چشم یاراں میں مرے بعد نہ خوں ناب اترا
لب لعلین نےبدخشاں ویلن کہلایا
لطیف جان سی ہر ایک عضو تن نظیر آیا
وہ نازنین یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
خوشی ہوتی ہیں ناداں پہنکر کمخواب کا جوڑا
منتظر تھا وہ تو جستجو میں آوارہ تھا
آئنہ رخ کا دکھا مردم کو آنکھ اور پر اٹھا
آشیانہ ہوگیا اپنا قفس فولاد کا
وحشت دل نے کیا ہی وہ بیاباں پیدا
فریب حسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
نہ چھوٹے گا چھڑا کر اسکو اے قاتل نہ بن لڑکا
کہتی ہیں عطر جسکو یہ مردم گلاب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
اس ترک کی ثنا میں جو صرف رقم ہوا
عیسی سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
کوچہ یار میں کس روز میں نالاں گیا
پیری نے قدراست کو اپنی نکون کیا
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
کیجئے برق تجلی کو اشارہ اپنا
کمر یارسے کھچکر ہوئی تلوار جدا
خدا سردی تو سودادی ترے زلف پریشاں کا
کوش زد جسکی تمہاری چشم کا افسانہ تھا
رخ وزلف پر جان کہو یا کیا
عشق کہتی ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
کشتہ ہے گرم جوشی ہر جائی یار کا
کرینگے افترا شاعر قباے یار پر کیا کیا
معاف ہووے گا جو کچھ کہ ہے قصور ہمارا
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
مرگئی پر نہ اتر جب شفا کا دیکھا
ہاتھ سے تیری ہی لکھی ہے جو اے قاتل قضا
ہیشاری رنج دیتی ہے قید فرنگ کا
مس کیا عجب طلا اگر اکسیر سے ہوا
وصل کی شب رنگ کودن نوع دیگر ہوگیا
آگیا مجھ کو پسینہ جب کوئی ملزم ہوا
باغ عالم میں نہیں کون ثنا خواں تیرا
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
شوق اگر کوچۂ محبوب کا رہبر ہوتا
چھین سکتا ہے کوئی جائے خیال بار خواب
زعم میں اپنی نہ یا فہم جو استاد ہیں سب
روز شب ہنگامہ برپا ہے میاں کوے دوست
تار تار پیرہن میں بھر گئی اے بوے دوست
آوے بہار جاے خزاں ہو چمن درست
کونسی جاہے جہاں تیری نہیں اے مست یار
کل کو قبا پہن کر تو اے کجکلاہ کاٹ
دل میں گھر کرکے منہ آنکھوں سے چھپاتی ہو عبث
شفق صبح نہ دیکھی نہ سنی نو بت صبح
قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میرے بعد
تا چند کروں سینہ میں میں آہ وفغاں بند
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
جلد ہو بہر سفر اے مہ کنعان تیار
خط سے کب جاتی ہیں عاشق کویہ جانا ں چھوڑ کر
دیکھی جو صبح زلف سیہ فام دوش پر
اول سے حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
حکم رانی پر ہوا میل سلیمان بہار
تیرے سوا کسی سے علاقہ نہیں مجھے
ساتھ ہے بعد فنا حسرت فتراک ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہونچے ہو دریا کے پاس
کرتی ہیں عبث یار سراغ پر طاؤس
چاردن جوش جوانی کی غنیمت جانیے
آفت جان ہے ترا اے سروگل اندام رقص
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
خاک ہو جاتی ہے جلکر ہمرہ پروانہ شمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
سن رکھی شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف
لاتی ہے ہرنگہ میں نیا چشم یار رنگ
عمر دو روزہ ہی میں ہزاروں نکھاے گل
وہم ہے یار کا آغوش میں آنا شب وصل
ملک الموت سے کچھ کم نہیں خونخوارکی شکل
غیرت مہرو رشک ماہ ہوتم
آخر کار چلی تیر کی رفتار قدم
میری صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلوم
قید ہستی سے ہنوز آزادگی حاصل کہاں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے انذلون
پردے یہ غفلتوں کے اگر دل سے دور ہوں
واشد دلکی لئے جاتےہیں ناداں باغ میں
وہ بزم ہے یہ کہ لاخیر کا مقام نہیں
خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں
اسکی رسوائی بھلا مد نظر کیونکر کریں
بلا اپنےلئے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
یار قابو پر چڑھا میری اندھیری رات میں
تجھ سا کوئی زمانہ میں معجز بیاں نہیں
خاک میں مل کے بھی ہوئگا نہ غبار دامن
خدا بخشے صنم یہ کہہ کے مجھ کو یاد کرتے ہیں
دریا سے کیا نہا کے پھر ا ہے وہ بحر حسن
لالۂ پیداغ تجھ سا کوئی گلشن میں نہیں
پانی پانی نہ ہو خجلت سے تو انصاف نہیں
تیرا نیاز مند جو رہاے نازنیں نہیں
گیسووں کا ترےسودا شعرا رکھتے ہیں
اس شش جہت میں خوب ترے جستجو کریں
تم فلک سے بھروں وہ شراب شیشی میں
رخ انور دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
فکر میں مضمون عالی کا جو دل آمادہ ہو
نالۂ جاں سوز نے پھونکا دل بیتاب کو
بید مجنوں دور سے خم ہو گیا تسلیم کو
شفا مریض محبت کو زینیاز نہ ہو
چاند کہنا ہے غلط یار کے رخسار وں کو
کیجئے ثابت دہان روے رشک ماہ کو
ہزار دیدۂ بد بیں تو اک نگاہ ہے پاک
صاف ہو ہر چند بد باطن عزیز دل نہ ہو
کھائیگا خنجر جلاد کا چرکا پہلو
لپٹ کر یار سے چوما نہایت روے رنگیں کو
جو روجفاے یار سے رنج ومحن نہ ہو
حسرت شادی نہیں جاں غم آلود کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیر انجام ہو
بے قراری میں میرے یارب اثر پیداہو
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
ہوس نعمت کے بعد مرگ بھی رہتی ہے انساں کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
اس قدر دل کو نہ کر اے بت سفاک سیاہ
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
اونچا ہو لاکہ تاڑ سے بھی سروچار ہاتھ
گیسوے مسکیں رخ محبوب تک آنے لگی
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضمون غم ہے
کوچۂ دلبرمیں میں بلبل چمن میں مست ہے
عشق اس کا جان کھوتا ہے برناوپیر کی
کونسےدل میں محبت نہیں جاتی تیری
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانے
صدمہ ہے دوش پر سروگردن کی بوجھ سے
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
کام ہمت سے جوانمرد اگر لیتا ہے
ایڑیوں تک ترے چوٹی کی رسائی ہوتی
کوے جاناں چمن سے بہترہے
ہے یہ امید قوی زلف رساے یار سے
کوچۂ یار میں چلیے تو غزل خواں چلیے
عشق بازی میں ہمیں فرہاد ومجنوں سے ہے فوق
کیف مے نے سرخ وہ رخ کردیا عتاب سے
وہم سا اک اے بت مغرور پیراہن میں ہے
چمن کا رنگ تجھ بن اپنے آنکھوں میں بدل ہے
فصل گل ہے خوں حیض زیرخت کا جوش ہے
خون تیغ زنونکی دم شمشیر سے ٹپکے
چلی ہےایسی زمانے میں کچھ ہوا الٹی
کوچۂ یار کی نظارہ میں اغیار الجھی
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
موت مانگوں تو رہے آرزوے خواب مجھے
کیا کیا نہ رنگ تیرے طلبگار لاچکے
دیدۂ مشتاق کو منظور تو عالم میں ہے
مردم دیدہ رہے سایۂ مرگانگی تلے
ابلیس حسد سے رہے تدبیر میں میرے
میری قسمت میں لکھی موت تو تلوار کی تھی
عاشق روے کتابی اگر انسان ہوے
دیوانہ اک پری کی ہے رکھتی ہوا مجھے
تری ابروے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
مرغ دلکو ہدف نادک مژگان کرتے
سینہ پر سنگ ملامت جو گراں جاں روکے
گذرا مجاز سے تو حقیقت کھلی مجھے
وہی جنوں کی خونخواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
طفلی میں بھی شادی شوحش رہے ہم سے
توامیر اے بت سرکش تو یہ عاجز ہے فقیر
نفس شقی بھی روح کے ہمراہ تن میں ہے
ظاہر ہوا ہمیں یہ تمہارے حجاب سے
اتار اتار تاساقی جو شیشہ طاقے میں
گنگ ایماے لب یار سے گویا ہوے
پاتاہوں مہرومہ کو تھے عدل وداد سے
آتش نالہ بلبل سے ہواں ہوتاہے
بالاے بام خانہ وہ عالی جناب ہے
شہرہ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
بہار باغ ایماے شراب ارغوانی ہے
عاشق جانباز کے گردن پہ احسان کیجئے
یہ کماندارے ہے دم تک عاشق دلکیر کے
لیکے تیشہ کھینچنا رنج ومحن کیا چاہیے
صورت سے اسکے بہتر صورت نہیں ہے کوئی
دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھے
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلماں آئے
ماسوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا باقی
کچھ نظر آیا نہ پھرجب تو نظر آیا مجھے
جاںبخش لب کا یار کے رتبہ بلند ہے
خوش خطوںپر جو طبیعت مرے آئے ہوتے
نافہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے
چہکارتے ہیں مرغ خوش الحان نئے نئے
عاشق شیدا علی مرتضیٰ کا ہوگیا
وہ رنگ سرخ ہی کیف شراب سے ہوتا
کام رہنے کا نہیں بنداپنا
حسن سے دنیا میں دل کو عشق پیدا ہوگیا
صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ میں
عشق مژگاں کا مزہ بھی کوئی دم بھر ملتا
خدائی برق تجلی تجھے جمال دیا
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ داں سنتا
لباس سرخ پہنکر جو وہ جواں نکلا
ساقی شراب سے رہے قصر فلک بھرا
دیوانہ ہے دل یار تری جلوہ گری کا
مشتاق اسقدر ہوں خدا کے حضور کا
قوی دماغ رہے بلبل خوش الحان کا
صحراے مغیلاں کا مگر مرحلہ آیا
باراں کیطرح لطف وکرم عام کئے جا
مے نوش بھر رہے ہیں دم ابر بھارکا
آشا نہ نہ قفس میں نہ چمن یاد آیا
ہر حال میں ہے اپنے مرا یا دلفریب
رخسار دلفریب ہو نظارہ کے لئے
روشنی اس رخ کی کر جاتی ہے کارآفتاب
قامت سے دکھایار تماشاے قیامت
وصل کی شب نہیں عاشق سے سزاوار لپیٹ
اٹھائے عشق پیچاں کی طرح سے
رہ الفت میں نقد عمر کر خرچ
لگادے پھر وہی اے گنج زرشاخ
فروغ مہر کا پیدا کرے ہمارا چاند
پری پسند طبیعت نہ ہے نہ حورپسند
مول اک نگاہ ہے جو ہو دل یار کی پسند
بیت ہیں دو ابروے زیبا ے یار
پر گئی آنکھ جو اس چاند سے رخسار وں پر
ایک سے ایک ہے تماشا رنگ
کانوں میں ترے دیکھ کے سونے کی کرن پھول
درگاہ میں کریم کی ہے التجا قبول
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
باہر نہ پانیچی سے ہوں اس گلبدن کے پاؤں
بازی عشق جزاندوہ وغم ورنج نہیں
عید نوروز ہے عشرت کا سر انجام کریں
بہار لالۂ وگل سے لگی ہے آگ گلشن میں
اے حسینوں کیا ہو میرے قتل کےتدبیر میں
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
خوب آگاہ ہے نظارے کے دستور سے آنکھ
سرمہ سے مرے یار کی کی جادو سے بھری آنکھ
غم نہیں ثابت قدم کو گو جہاں گردش میں ہے
درد زباں جناب محمد کا نام ہے
باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہئے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آئی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
عتاب لب کا اپنے مزہ کچھ نہ پوچھئے
دو دن کی زندگی میں رہے ہم مرے ہوئے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے
جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھایئے
چلا وہ راہ جو سالک کے پیش پاآئے
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماو خدا کے واسطے
عدم کی کوچ کے لازم ہے فکر ہستی میں
گل کھلے پرزے اڑا پوشاک کے
مضمون حسن وعشق نہیں کس غزل میں ہے
موسی وفرعون میں کچھ فرق غافل چاہئے
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہواہے
سرمہ لگا کے یارنے ترچھی نگاہ کی
اندیشۂ صیاد نہ یہاں بیم خزاں ہے
ایضاً
کب مستبر یلنی صاحب خدائی انکو وہ رتبہ بخشا
سرورق
حباب آسامیں دم بہر تاہوں تیری آشنائی کا
بت کا تری بندہ ہر ایک کواے صنم پایا
آئنہ سینۂ صاحب نظر ان ہی کہ جو تھا
غبار راہ ہو کر چشم مردم میں محل پایا
اے فلک کچھ تواثر حسن عمل میں ہوتا
بار کو میں نے مجھےیارنے سونے نہ دیا
کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا
شہر کو نالوں نے مجھ مجنوں کی صحرا کردیا
توڑ کر تارنگہ کا سلسلہ جاتا رہا
کوئی عشق میں مجھ سےافزوں نہ نکلا
تیری کاکل میں پہنا ہے جواںوپیر کا
بلبل گلوں سےیہ کہکے تجھ کوبگڑ گیا
یہ انفعال گنہ سےمیں آب آب ہوا
فرش ہی اے یار خاک دوست دشمن زیر پا
درد سیر میں جو ہوا وہاں توبدن یہاں بوٹا
جب کہ رسوا ہوئ ان کا ہی سچ بات میں کیا
خیال آیا جو عشق زلف میں دلکی تباہی کا
زلف زیبا ہی فریب رخ جاناں ہونا
کشتہ اک عالم ہی چشم لعبت خود کا دم کا
چشم یاراں میں مرے بعد نہ خوں ناب اترا
لب لعلین نےبدخشاں ویلن کہلایا
لطیف جان سی ہر ایک عضو تن نظیر آیا
وہ نازنین یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
خوشی ہوتی ہیں ناداں پہنکر کمخواب کا جوڑا
منتظر تھا وہ تو جستجو میں آوارہ تھا
آئنہ رخ کا دکھا مردم کو آنکھ اور پر اٹھا
آشیانہ ہوگیا اپنا قفس فولاد کا
وحشت دل نے کیا ہی وہ بیاباں پیدا
فریب حسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
نہ چھوٹے گا چھڑا کر اسکو اے قاتل نہ بن لڑکا
کہتی ہیں عطر جسکو یہ مردم گلاب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
اس ترک کی ثنا میں جو صرف رقم ہوا
عیسی سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
کوچہ یار میں کس روز میں نالاں گیا
پیری نے قدراست کو اپنی نکون کیا
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
کیجئے برق تجلی کو اشارہ اپنا
کمر یارسے کھچکر ہوئی تلوار جدا
خدا سردی تو سودادی ترے زلف پریشاں کا
کوش زد جسکی تمہاری چشم کا افسانہ تھا
رخ وزلف پر جان کہو یا کیا
عشق کہتی ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
کشتہ ہے گرم جوشی ہر جائی یار کا
کرینگے افترا شاعر قباے یار پر کیا کیا
معاف ہووے گا جو کچھ کہ ہے قصور ہمارا
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
مرگئی پر نہ اتر جب شفا کا دیکھا
ہاتھ سے تیری ہی لکھی ہے جو اے قاتل قضا
ہیشاری رنج دیتی ہے قید فرنگ کا
مس کیا عجب طلا اگر اکسیر سے ہوا
وصل کی شب رنگ کودن نوع دیگر ہوگیا
آگیا مجھ کو پسینہ جب کوئی ملزم ہوا
باغ عالم میں نہیں کون ثنا خواں تیرا
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
شوق اگر کوچۂ محبوب کا رہبر ہوتا
چھین سکتا ہے کوئی جائے خیال بار خواب
زعم میں اپنی نہ یا فہم جو استاد ہیں سب
روز شب ہنگامہ برپا ہے میاں کوے دوست
تار تار پیرہن میں بھر گئی اے بوے دوست
آوے بہار جاے خزاں ہو چمن درست
کونسی جاہے جہاں تیری نہیں اے مست یار
کل کو قبا پہن کر تو اے کجکلاہ کاٹ
دل میں گھر کرکے منہ آنکھوں سے چھپاتی ہو عبث
شفق صبح نہ دیکھی نہ سنی نو بت صبح
قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میرے بعد
تا چند کروں سینہ میں میں آہ وفغاں بند
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
جلد ہو بہر سفر اے مہ کنعان تیار
خط سے کب جاتی ہیں عاشق کویہ جانا ں چھوڑ کر
دیکھی جو صبح زلف سیہ فام دوش پر
اول سے حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
حکم رانی پر ہوا میل سلیمان بہار
تیرے سوا کسی سے علاقہ نہیں مجھے
ساتھ ہے بعد فنا حسرت فتراک ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہونچے ہو دریا کے پاس
کرتی ہیں عبث یار سراغ پر طاؤس
چاردن جوش جوانی کی غنیمت جانیے
آفت جان ہے ترا اے سروگل اندام رقص
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
خاک ہو جاتی ہے جلکر ہمرہ پروانہ شمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
سن رکھی شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف
لاتی ہے ہرنگہ میں نیا چشم یار رنگ
عمر دو روزہ ہی میں ہزاروں نکھاے گل
وہم ہے یار کا آغوش میں آنا شب وصل
ملک الموت سے کچھ کم نہیں خونخوارکی شکل
غیرت مہرو رشک ماہ ہوتم
آخر کار چلی تیر کی رفتار قدم
میری صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلوم
قید ہستی سے ہنوز آزادگی حاصل کہاں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے انذلون
پردے یہ غفلتوں کے اگر دل سے دور ہوں
واشد دلکی لئے جاتےہیں ناداں باغ میں
وہ بزم ہے یہ کہ لاخیر کا مقام نہیں
خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں
اسکی رسوائی بھلا مد نظر کیونکر کریں
بلا اپنےلئے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
یار قابو پر چڑھا میری اندھیری رات میں
تجھ سا کوئی زمانہ میں معجز بیاں نہیں
خاک میں مل کے بھی ہوئگا نہ غبار دامن
خدا بخشے صنم یہ کہہ کے مجھ کو یاد کرتے ہیں
دریا سے کیا نہا کے پھر ا ہے وہ بحر حسن
لالۂ پیداغ تجھ سا کوئی گلشن میں نہیں
پانی پانی نہ ہو خجلت سے تو انصاف نہیں
تیرا نیاز مند جو رہاے نازنیں نہیں
گیسووں کا ترےسودا شعرا رکھتے ہیں
اس شش جہت میں خوب ترے جستجو کریں
تم فلک سے بھروں وہ شراب شیشی میں
رخ انور دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
فکر میں مضمون عالی کا جو دل آمادہ ہو
نالۂ جاں سوز نے پھونکا دل بیتاب کو
بید مجنوں دور سے خم ہو گیا تسلیم کو
شفا مریض محبت کو زینیاز نہ ہو
چاند کہنا ہے غلط یار کے رخسار وں کو
کیجئے ثابت دہان روے رشک ماہ کو
ہزار دیدۂ بد بیں تو اک نگاہ ہے پاک
صاف ہو ہر چند بد باطن عزیز دل نہ ہو
کھائیگا خنجر جلاد کا چرکا پہلو
لپٹ کر یار سے چوما نہایت روے رنگیں کو
جو روجفاے یار سے رنج ومحن نہ ہو
حسرت شادی نہیں جاں غم آلود کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیر انجام ہو
بے قراری میں میرے یارب اثر پیداہو
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
ہوس نعمت کے بعد مرگ بھی رہتی ہے انساں کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
اس قدر دل کو نہ کر اے بت سفاک سیاہ
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
اونچا ہو لاکہ تاڑ سے بھی سروچار ہاتھ
گیسوے مسکیں رخ محبوب تک آنے لگی
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضمون غم ہے
کوچۂ دلبرمیں میں بلبل چمن میں مست ہے
عشق اس کا جان کھوتا ہے برناوپیر کی
کونسےدل میں محبت نہیں جاتی تیری
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانے
صدمہ ہے دوش پر سروگردن کی بوجھ سے
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
کام ہمت سے جوانمرد اگر لیتا ہے
ایڑیوں تک ترے چوٹی کی رسائی ہوتی
کوے جاناں چمن سے بہترہے
ہے یہ امید قوی زلف رساے یار سے
کوچۂ یار میں چلیے تو غزل خواں چلیے
عشق بازی میں ہمیں فرہاد ومجنوں سے ہے فوق
کیف مے نے سرخ وہ رخ کردیا عتاب سے
وہم سا اک اے بت مغرور پیراہن میں ہے
چمن کا رنگ تجھ بن اپنے آنکھوں میں بدل ہے
فصل گل ہے خوں حیض زیرخت کا جوش ہے
خون تیغ زنونکی دم شمشیر سے ٹپکے
چلی ہےایسی زمانے میں کچھ ہوا الٹی
کوچۂ یار کی نظارہ میں اغیار الجھی
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
موت مانگوں تو رہے آرزوے خواب مجھے
کیا کیا نہ رنگ تیرے طلبگار لاچکے
دیدۂ مشتاق کو منظور تو عالم میں ہے
مردم دیدہ رہے سایۂ مرگانگی تلے
ابلیس حسد سے رہے تدبیر میں میرے
میری قسمت میں لکھی موت تو تلوار کی تھی
عاشق روے کتابی اگر انسان ہوے
دیوانہ اک پری کی ہے رکھتی ہوا مجھے
تری ابروے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
مرغ دلکو ہدف نادک مژگان کرتے
سینہ پر سنگ ملامت جو گراں جاں روکے
گذرا مجاز سے تو حقیقت کھلی مجھے
وہی جنوں کی خونخواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
طفلی میں بھی شادی شوحش رہے ہم سے
توامیر اے بت سرکش تو یہ عاجز ہے فقیر
نفس شقی بھی روح کے ہمراہ تن میں ہے
ظاہر ہوا ہمیں یہ تمہارے حجاب سے
اتار اتار تاساقی جو شیشہ طاقے میں
گنگ ایماے لب یار سے گویا ہوے
پاتاہوں مہرومہ کو تھے عدل وداد سے
آتش نالہ بلبل سے ہواں ہوتاہے
بالاے بام خانہ وہ عالی جناب ہے
شہرہ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
بہار باغ ایماے شراب ارغوانی ہے
عاشق جانباز کے گردن پہ احسان کیجئے
یہ کماندارے ہے دم تک عاشق دلکیر کے
لیکے تیشہ کھینچنا رنج ومحن کیا چاہیے
صورت سے اسکے بہتر صورت نہیں ہے کوئی
دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھے
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلماں آئے
ماسوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا باقی
کچھ نظر آیا نہ پھرجب تو نظر آیا مجھے
جاںبخش لب کا یار کے رتبہ بلند ہے
خوش خطوںپر جو طبیعت مرے آئے ہوتے
نافہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے
چہکارتے ہیں مرغ خوش الحان نئے نئے
عاشق شیدا علی مرتضیٰ کا ہوگیا
وہ رنگ سرخ ہی کیف شراب سے ہوتا
کام رہنے کا نہیں بنداپنا
حسن سے دنیا میں دل کو عشق پیدا ہوگیا
صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ میں
عشق مژگاں کا مزہ بھی کوئی دم بھر ملتا
خدائی برق تجلی تجھے جمال دیا
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ داں سنتا
لباس سرخ پہنکر جو وہ جواں نکلا
ساقی شراب سے رہے قصر فلک بھرا
دیوانہ ہے دل یار تری جلوہ گری کا
مشتاق اسقدر ہوں خدا کے حضور کا
قوی دماغ رہے بلبل خوش الحان کا
صحراے مغیلاں کا مگر مرحلہ آیا
باراں کیطرح لطف وکرم عام کئے جا
مے نوش بھر رہے ہیں دم ابر بھارکا
آشا نہ نہ قفس میں نہ چمن یاد آیا
ہر حال میں ہے اپنے مرا یا دلفریب
رخسار دلفریب ہو نظارہ کے لئے
روشنی اس رخ کی کر جاتی ہے کارآفتاب
قامت سے دکھایار تماشاے قیامت
وصل کی شب نہیں عاشق سے سزاوار لپیٹ
اٹھائے عشق پیچاں کی طرح سے
رہ الفت میں نقد عمر کر خرچ
لگادے پھر وہی اے گنج زرشاخ
فروغ مہر کا پیدا کرے ہمارا چاند
پری پسند طبیعت نہ ہے نہ حورپسند
مول اک نگاہ ہے جو ہو دل یار کی پسند
بیت ہیں دو ابروے زیبا ے یار
پر گئی آنکھ جو اس چاند سے رخسار وں پر
ایک سے ایک ہے تماشا رنگ
کانوں میں ترے دیکھ کے سونے کی کرن پھول
درگاہ میں کریم کی ہے التجا قبول
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
باہر نہ پانیچی سے ہوں اس گلبدن کے پاؤں
بازی عشق جزاندوہ وغم ورنج نہیں
عید نوروز ہے عشرت کا سر انجام کریں
بہار لالۂ وگل سے لگی ہے آگ گلشن میں
اے حسینوں کیا ہو میرے قتل کےتدبیر میں
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
خوب آگاہ ہے نظارے کے دستور سے آنکھ
سرمہ سے مرے یار کی کی جادو سے بھری آنکھ
غم نہیں ثابت قدم کو گو جہاں گردش میں ہے
درد زباں جناب محمد کا نام ہے
باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہئے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آئی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
عتاب لب کا اپنے مزہ کچھ نہ پوچھئے
دو دن کی زندگی میں رہے ہم مرے ہوئے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے
جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھایئے
چلا وہ راہ جو سالک کے پیش پاآئے
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماو خدا کے واسطے
عدم کی کوچ کے لازم ہے فکر ہستی میں
گل کھلے پرزے اڑا پوشاک کے
مضمون حسن وعشق نہیں کس غزل میں ہے
موسی وفرعون میں کچھ فرق غافل چاہئے
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہواہے
سرمہ لگا کے یارنے ترچھی نگاہ کی
اندیشۂ صیاد نہ یہاں بیم خزاں ہے
ایضاً
کب مستبر یلنی صاحب خدائی انکو وہ رتبہ بخشا
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.