سرورق
عرض ناشر
تعارف مائل
خدا کے نام سے لکھتا ہوں مطلع اپنے دیواں کا
ردیف الف
اے ستم گر نہیں دیکھا جاتا
تمکین یار ہے جو ہم آغوش نقش پا
تم کہے ہو کیا ضبط فغاں ہو نہیں سکتا
دل بد ظن کو کر لیں صاف ہم سے ہو نہیں سکتا
کچھ اس کو تو میں لطف و ستم کر کہہ نہیں سکتا
کہا جو میں نے کہ کیوں بے وفا نہیں ملتا
میں ہی ہوتا نہ یہ میرا دل مضطر ہوتا
کچھ تو میرے دل بیتاب کا درماں ہوتا
کچھ نہ ہوتا تو نواسنج فغاں کیوں ہوتا
سن لے گا کبھی تیری بھی فریاد کیے جا
وہ جوش نہ وہ ولولۂ دل ہے ہمارا
سب کو تسلیم خدائی کا ہے دعوی تیرا
دل بتوں سے اچٹ گیا میرا
یہ دیکھ شوق شہادت کا جوش تو میرا
نہ کہیں دم ہی لیا اور نہ کہیں دل ٹھہرا
نظر پڑا ہے کوئی بے حجاب اپنا سا
فلک پیر ہے کیا عرش معلی کیسا
محتسب تجھ کو کیا تو کیا کیا مستانہ سا
چلا آتا ہے گھبرایا ہوا کوئی یہاں کیسا
آیا نہ آج تک ڈھب اظہار مدعا کا
ذرہ جو کام دینے لگا آفتاب کا
یقیں اب بھی تجھے کافر نہیں میری محبت کا
اللہ رے مرتبہ در باغ بہشت کا
ساکنان عرش سے پوچھو اثر فریاد کا
اللہ رے شوق ساقی مہ رو کی دید کا
پروردگار وہ ہے شقی و سعید کا
کیوں کر چھپے گا خون تمہارے شہید کا
سر اڑایا اس نے میرا یا مرے اغیار کا
میں ہوں عاش ابروئے خمدار کا
کشتہ ہوں میں تجلی رخسار یار کا
وہ جلوہ ہے کہ دھوکا کہ کیوں نہ ہو اللہ کے گھر کا
غم نہیں آفتاب محشر کا
دشمن ہے خواب راحت اہل قبور کا
ہر دل میں نہاں نالۂ مستانہ ہے اس کا
اللہ رے انتظام تری بزم ناز کا
جب کوئی یگانہ ہے نہ بے گانہ اس کا
گو دل میں شوق بھی ہے تو کس کے وصال کا
جلوہ ہے سنگ سنگ میں شان جلال کا
سمجھ رہا ہے مرقع ہوں ان کی محفل کا
قہر ہے اضطراب بسمل کا
یہ مختصر سا بیاں ہے شہادت دل کا
بن گیا آبلہ بڑھ کر جو گریباں دل کا
حال کہتے ہیں کسی سے کہیں انساں دل کا
بس اک نظر کے لیے تھا مقابلہ دل کا
تم خوب اڑاتے رہو خاکا مرے دل کا
یہ کاخ بے ستوں نہیں شیریں کے نام کا
اثر دیکھیں ہم آج اپنی فغاں کا
ملا جب سے مضمون اس کے دہن کا
کھلا راز ان پر نہ تیرے دہن کا
بوسہ تو ہم کو ملتا کب ہے ترے دہن کا
ذکر سن سن کے اجل سے تری تلواروں کا
پاس آداب ہو کیا اس سے ترے کانوں کا
نالہ کھینچتا ہے سخت جانوں کا
داغ پر داغ پڑا ساتھ کے دیوانوں کا
شور کیا طور تجلی کے ہے افسانوں کا
جب سے سنا ہے غلغلہ عفوالہ کا
ملا موقع نہ ان سے گفتگو کا
عاشق پہ ہے الزام عبث پردہ دری کا
قرآن ہے یا مضمون رخسار کسی کا
جب تک کہ نہ دیکھے گل رخسار کسی کا
رہوں گا حشر تک ممنون اپنی سخت جانی کا
ترے ہی در پہ ملا لطف جبہ سائی کا
یہ عقیدہ ہے اک زمانے کا
زلف و رخ کا جلوہ جو پیش نظر ہونے لگا
جو دیکھ جاؤ دل بیقرار کیا ہوگا
تری محفل میں یہ حاصل ہمیں اے فتنہ گر ہوگا
کہوں کیونکر کہ وصل اس کا نصیب دشمناں ہوگا
حلقہ حلقہ میں دل عاشق اٹکتا جائے گا
جب تک خودی کو دل سے مٹایا نہ جائے گا
ماجرائے قتل میرا خود بیاں ہو جائے گا
طالب خنجر جو کوئی سخت جاں ہو جائے گا
ہم کو فلک ستا کے کچھ اپنا ہی کھوئے گا
ہے وہ ہی مرے دل کو کل دینے والا
جاتے ہی صنم خانے میں ایماں کو سنبھالا
کیا ہوا گر میں جہاں سے داغ پنہاں لے چلا
گھر ہی سے نہ روز عید نکلا
کوئی بھی نہ غمگسار نکلا
آفتاب ایک چراغ تہ داماں نکلا
فلک کہتا ہے فتنوں سے کہ اب ہشیار ہو جانا
خدا ہی جانے کہ کیا ہو آخر یہ حال اپنا یہ قال اپنا
کہیں شکر ستم کرنا کہیں شکر وفا کرنا
گل ہے اپنا نہ باغ ہے اپنا
طریق عشق میں ہے کفر افشا راز کا کرنا
نگہ نگہ سے ٹپک رہا ہے کسی کا ہر گز کہا نہ کرنا
جتنے بتان دہر ہیں سب ہیں زر آشنا
مرے گھر میں اک شب بھی مہماں نہ ہونا
عشق میں قہر ہوا چاک گریباں ہونا
منظور ہے اگر دل ناشاد دیکھنا
ہاں کیا نہیں تسلی اغیار دیکھنا
دل کی طرح مضطرب کیوں ہے جگر دیکھنا
تم میرے سامنے کبھی خنجر نہ دیکھنا
ٹھہرا جو بزم یار میں تقصیر دیکھنا
کہوں کیونکر کہ تم اے شعلہ و سیماب کہہ دینا
مری خاطر سے یارو منت اغیار کر لینا
ادھر بھی کبھی اک نظر دیکھ لینا
اٹھیں سجدہ کرتے جدھر دیکھ لینا
یاد بتاں میں دل ہے اگر بت بنا ہوا
ادھر کو جو آنا تمہارا ہوا
رو دھو کے کچھ غبار نکالا تو کیا ہوا
کیوں شرمگیں ہے نرگس فتاں کو کیا ہوا
ہے جگر وہ ہی جو کباب ہوا
شب وصال میں منت کش شراب ہوا
کچھ خاک میں ہماری یہ پیدا اثر ہوا
حیرت سے سر بسر وہ مکاں لامکاں ہوا
لوگ مرتے ہی رہے وہ تو کسی کا نہ ہوا
آسماں کے بھی ستم کا متحمل نہ ہوا
کسی کو نہ اپنے سوا جانتا تھا
مائل ان سے جو دل لگانا تھا
میں ہی بھولا جو دل لگانا تھا
ان کو بننا نہ کچھ سنورنا تھا
ان کا جوش شباب ہونا تھا
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا
کس درجہ ناز رحمت پروردگار تھا
جو دل کو لے گیا کوئی ناقہ سوار تھا
جب تک کہ شیخ صحبت رنداں سے دور تھا
کبھی کیا ہی خوب وہ حال تھا کہ نہ دل میں کچھ بھی خیال تھا
دیا دل کو وہ داغ عشق جو زیبائش دل تھا
کیا وقت تھا وہ بھی کہ نہ اندوہ نہ غم تھا
زمانہ وہ بھی دنیا میں کبھی زلف پریشاں تھا
کل شب کو شب ہجر سے کیا ناک میں دم تھا
چمن میں کل وہ کیفیت کا دور بزم رنداں تھا
پردہ جو رخ یار کا الٹا تو عیاں تھا
وہ درد وہ اثر جو صدائے ورا میں تھا
جوش سا جوش مرے دیدۂ پرآب میں تھا
گلہ ہو کیا کہ وہ ظاہر میں سوگوار نہ تھا
وہ کون تھا جو میرے لیے آسماں نہ تھا
بزم میں شب کو جو وہ کافر مغرور نہ تھا
جب ہجر تھا تو بسمل جورو جفا رہا
دل ہی میں کچھ نہیں مرے پیکاں ہزارہا
راحت سے دل میں کیا رہیں ارماں ہزارہا
سن سن کے شب کو نالۂ مستاں ہزارہا
بوسۂ چشم کا میں ان سے طلبگار رہا
دل یوں ہی محو ابروے خمدار گر رہا
پہلو میں مدتوں کوئی رشک قمر رہا
ٹکڑے ٹکڑے کو سنبھالے غم ہجراں میں رہا
میں آرزوئے مرگ کے قابل نہیں رہا
اک تلاطم سادم گریہ دل و جاں میں رہا
زندگی بھر ہی نہ میں کوچۂ جاناں میں رہا
ترے آنے کی میں نے سنی جو خبر مجھے ہجرکا صدمہ ذرا نہ رہا
دل کو خبال زلف پریشاں نہیں رہا
مجھے سر جو ملا تو وہ ایسا ملا تہ تیغ جو روز و شبانہ رہا
دل کو خیال گیسوئے خمدار ہی رہا
تیرا جلوہ تو جابجا دیکھا
پابہ زنجیر رہا قیس نہ زنداں دیکھا
اس کو کبھی ہوتے ہوئے قاتل نہیں دیکھا
وقت پر کھینچ کے جب آہ رسا کو دیکھا
جب سے اس بے حجاب کو دیھکا
اس نے دعوی جو کیا اس سے نہ ٹلتے دیکھا
کسی کا تم پر نہ کیوں ہو دھوکا جہاں میں ایسا تمہیں کو دیکھا
اس طرح غیر کا ارمان نکلتے دیکھا
پوچھو نہ صنم خانے میں کیا کیا نظر آیا
کرشموں نے محبت کے مجھے گمراہ ٹھہرایا
شکر اس نے کیا لب پہ مگر نام نہ آیا
آرائشوں کے قابل کب یہ جہاں بنایا
حقیقت میں بڑے دیوانہ و عاقل کو سمجھایا
اس کا ہی ہم کو عاشق مضطر بنا دیا
غیر یہ سمجھا کریں بیرون محفل کر دیا
درد منزل کر دیا اور داغ منزل کردیا
کوثر کی طرح مے کو یہیں عام کر دیا
یوں سر شوریدہ نے اظہار ایماں کردیا
جان مضطر ساتھ کر دی شورو افغاں کردیا
کس متاع بے بہا کو دست گرداں کردیا
تمہیں ہاتھ سے ہم نے کیا کھودیا
توبہ کا اعتبار بھی مائل نے کھو دیا
اس نے محفل میں بھی اعزاز بڑھانے نہ دیا
اسے جینے ہی ترے نازوادا نے نہ دیا
پھر آگئی اک بت پہ طبیعت کو ہوا کیا
کیا کہیں ہم دل نے ہم سے کیا کیا
باتیں ہیں واعظوں کی عذاب وثواب کیا
ہو شوق شہادت جو عنان گیر عجب کیا
مجھ سے کہتے ہیں رنگ لاؤں کیا
شومی بخت ہے خوبی تقدیر ہے کیا
بے خودی میں وہ سبو ٹوٹ گیا
یہ کون تھا جو دور سے جلوہ دکھا گیا
شعلہ بھڑک کے دل سے جو میرے نکل گیا
چلتے پھرتے وہ ادھر ہو کر گیا
کھینچا جو دل سے نالہ پتھر پگھل گیا
قابو سے دل کے صبرو تحمل نکل گیا
کہتے ہیں لوگ شمع پہ پروانہ جل گیا
دل کیا نگاہ مست سے میخانہ بن گیا
برا ہو ترا آہ غم کھل گیا
داغ گو ایک سے اک سوا ہو گیا
کیا کہوں کس طرح مدعا ہو گیا
جب نظر میں ایک ہی کعبہ کلیسا ہو گیا
یہ تو کہہ سکتا نہیں میں قیس مجھ سا ہو گیا
حسن اس کا جب جہاں میں جلوہ آرا ہو گیا
یہ دو دن کی الفت میں کیا ہو گیا
خنجر کو جب سنا کہ خریدار ہو گیا
گردوں پہ ماہ عید نمودار ہو گیا
جو آگیا زباں پہ سخن ناز ہو گیا
میں نے مقتل میں یہ سمجھا تھا کہ مقطع ہو گیا
کفر آخر رہنمائے ہر مسلماں ہو گیا
فنا اک نگہ میں ہی دم ہو گیا
نقش دل پر مصحف رخسار جاناں ہو گیا
زینت روئے بتاں گیسوئے پیچاں ہو گیا
کیوں سحر کے ساتھ گل بھی چاک داماں ہوگیا
کیا جانے آکے کیا دل بسمل میں رہ گیا
کوثر پہ جاتے جاتے نچہ تازہ ہو گیا
مر مٹے خاک ہوئے دونوں جہاں سے گزرے
جو ایک دم بھی کوچۂ جاناں میں رہ گیا
اس کی صورت میں ترا جلوہ نظرآہی گیا
ہمت جر کرکے سرنے ترے درکو چھو لیا
ردہف ب
بڑھتا ہے رنج کرتی ہے الٹا اثر شراب
دل سے جب تک کہ نہ ہو گی طلب جام شراب
کہتے ہیں عرض وصل پہ دوں تجھ کو کیا جواب
دیتا نہیں کسی کو بھی تو دل شکن جواب
کچھ ہو نہ علاقہ تو کہیں اس کو خدا کب
کچھ قیس و کوہن ہی نہیں ہیں الم نصیب
بڑھتے جاتے ہیں مرے وہم و گماں آپ سے آپ
ردیف پ
نامہرباں تھا غیر پہ یا مہرباں تھے آپ
یہ درد وہ ہے کہ اس سے شفا کو کیا نسبت
یہ تاب حسن سے عالم ہے جیسے آب میں سانپ
ردیف ت
کھولے سے بھی کھلتے نہیں اسرار محبت
گر جنوں میں ہے یہی دیدۂ تر کی صورت
قامت سے ترے کیوں نہ گھٹے شان قیامت
کس منہ سے کروں میں تن عریاں کی شکایت
ردیف ٹ
ناز کرتا ہے ساقی مے پلا کر ایک گھونٹ
گل ہی سے اس کی ہوتی نہیں دلکشی عبث
ردیف ث
ان سے تو ہے شکایت جوروجفا عبث
ردیف ج
برسا رہی ہے خوں مژہ اشک بار آج
ٹھہرتی محتسب سے دو بدو آج
سنا ہے ہے وہ ہم بزم عدو آج
وہی لخت دل زیب مژگاں ہے آج
جس کو کہ کہہ گئے ملک الموت لا علاج
ردیف چ
جانتا ہوں تجھے خدا سچ مچ
ردیف ح
برہم ہے رخ پہ طرۂ طرار کس طرح
دیتا رہا ہر ایک کو جو دل اسی طرح
کچھ بات کا ہے طور نہ تقریر کی طرح
ردیف خ
کیا ہے درباں جو ہوا آپ کا ہم تک گستاخ
ردیف د
کون اٹھائے گا ترے لطف جفا میرے بعد
خلوت ہو کہ جلوت نہ کہیں ہو وہ بشر بند
قربان تجھ پہ کیوں نہ ہو جان جہان عید
کہا ہے کس نے کہ ہوتی ہے جنگ سرخ و سفید
ردیف ڈ
ان کو نگاہ ناز کے ہے تیر پر گھمنڈ
اپنے سوا کسی کا بھی عیب و ہنر نہ ڈھونڈ
نہ حنائی ہے نہ آبی کاغذ
ردیف ذ
ایک نالہ کا نہیں تو آسماں کوئے یار
ردیف ر
مجھ کو جو چاہے کہے جا پاسبان کوئے یار
بیٹھے ہیں تو کیا غم سگ جاناں کی برابر
ہوں اشک ندامت مرے طوفاں کی برابر
اس کا رہے ہمیشہ زمانہ بہار پر
کیوں کر ہنسی نہ آئے غرور حباب پر
قامت کا ترے سایہ جو پڑ جائے ملک پر
فلک کو ناز ہے کیا ایک ماہ کامل پر
بگڑے ہو ایک بوسہ کے جھوٹے سوال پر
آتی ہے کیا ہنسی مجھے اپنے خیال پر
نظر پر کیوں نظر ڈالی ترے رخسار کے تل پر
وہی جانے نہ جانے کون ہے دعوائے باطل پر
ترے گیسو ہیں یوں بکھرے ہوئے رخسار تاباں پر
مقدر ہو اگر رہبر تو دم لوں آب حیواں پر
رکھا ساغر نہ جب تک شیخ نے توبہ کے داماں پر
وعدے سے تیرے کیوں نہ ہے میری جان پر
دل کش جو اس کا نام نہ آتا زبان پر
دل ہوا شیفتہ جب سے ترے رخساروں پر
سب کا معاملہ تو ہے قسمت کے ہاتھ پر
مسیحا کو اشارہ ہے دم گفتار دیکھا کر
ٹلتے ہیں کوئی کوچۂ جانا نہ چھوڑ کر
کیوں در رحمت پہ جاؤں منہ پہ چادر ڈال کر
میکدے سے شیخ نکلے منہ پہ چادر ڈال کر
دوزخ میں ڈال دل سے دوئی کو نکال کر
بے لطف زندگی کو نہ اپنی وبال کر
مقتل میں وہ تو آئیں خنجر بدل بدل کر
کمال حسن پہ اور درد آشنا ہو کر
جلا کر خاک کر دیگا مجھے سوز نہاں ہو کر
گئے تھے قتل گہ میں ہم نہایت سخت جاں ہوکر
کیوں بتوں سے ہے پھرا شیخ مسلماں ہو کر
ہم چھیڑتے ہیں ربط قدیمانہ سمجھ کر
کرتے ہیں کبھی بت تو دیوانہ سمجھ کر
کیا فقط بزم عدد میں ان کو بیٹھا دیکھ کر
لیتا چلوں نہ بزم میں تلوار دیکھ کر
پوچھا جو حال کچھ اسے ہشیار دیکھ کر
آیا بھی برق طور کو سو بار دیکھ کر
ہر موج مے کو مطلع انوار دیکھ کر
جو روئے جان کو تجھے اک بار دیکھ کر
آتی ہے دل کی یاد مجھے تیر دیکھ کر
تم ہو حیراں اس میں اپنا روئے تاباں دیکھ کر
وہ لگائیں تیر زہر آلودہ پیکاں دیکھ کر
کہ رہا ہوں دل میں اپنے نور ایماں دیکھ کر
بے تاب ہو گئے تری صورت کو دیکھ کر
ان حسینوں کی محبت میں گرفتار نہ کر
رکھے تو گلا ہاں تہ شمشیر کوئی اور
اک شور مچ رہا ہے جو ارض و سما سے دور
کیونکر نہ ان بتوں کی رہوں میں ہوا سے دور
بلبل کی خاک بھی ہے نسیم چمن سے دور
بیٹھیں ہم انجمن میں بتا فتنہ زا کدھر
سب اٹھ گئے ہیں پردۂ حامل کہے بغیر
ردیف ڑ
اچھی نہیں ہے آہ دل خستہ جاں نہ چھیڑ
ردیف ز
گر یہ بھی با اثر ہے اچھی چیز
عید کے روز گھر ہے اچھی چیز
نہ ادا ہے نہ تیری آن عزیز
ردیف ش
ردیف س
ترے ناز پر حور و غلماں کو نازش
اس طرح بادہ خوار ہیں ساغر کے آس پاس
چلیگی اور چلیگی دکان بادہ فروش
پڑے ہوئے جو ہیں زیر دکان بادہ فروش
کہیں نہ لوگ مجھے راز دان بادہ فروش
ترا کمال ہے لطف زبان بادہ فروش
بہار آئی وہ ہو گلستاں کی آرائش
نظر پڑی جو تمہارے مکاں کی آرائش
نہ تو ان کا ہے بتوں سے نہ خدا سے اخلاص
ردیف ص
ہے تجھ سے خشک مغز پہ زاہد نماز فرض
ردیف ض
یہ کس کے گھر میں ہے دور ایاغ عیش و نشاط
ردیف ط
کر جائے کام بزم میں سوز جگر غلط
کیا تھا جو پیر مغاں کا لحاظ
ردیف ظ
آگیا اب وقت رحلت الوداع
ردیف ع
ہو تو کیونکر انجمن میں عزت و توقیر شمع
ردیف غ
دیتا کسی کے آنے کی ہے کچھ خبر چراغ
ردیف ف
دیکھا نہ ایک بار دل زار کی طرف
عشق میں جب دل ہوا زلف پریشاں کی طرف
نہیں کوئی بھی کوہ کن کی طرف
ردیف ق
لے رہے ہیں دے کے وہ دونوں جہاں درد فراق
اب بات تیرے ہاتھ ہے اے کار ساز عشق
سینے میں لے چلا ہوں ہزاروں ہی داغ عشق
اس کا تو بعد مرگ بھی ہم کو رہا قلق
کیا بات ہے کہ جس کی فریاد ہو خدا تک
ردیف ک
پہنچا بشر وہاں کہ نہ تھا کچھ حجاب تک
کوئی مانگے نہیں دعا کب تک
بچائیں گے جبیں عاشقاں سے آستاں کب تک
سنتا رہے باتیں پس دیوار کہاں تک
بن بن کے بگڑ جائے گی تدبیر کہاں تک
غضب کی ہے واعظ کی قسمت مبارک
یہ الجھاؤ جتنے ہیں ہیں کفرو دیں تک
کچھ بڑی بات نہیں اہل صفا کے نزدیک
ردیف گ
عالم ہے اس کے نازوادا کا الگ الگ
جیسے ہیں آسماں پہ اختر الگ الگ
جب کھلتے تیرے ناز کے جوہر الگ الگ
پیر مغاں نے دیکھ کے شیوہ وخو الگ الگ
شامل ہیں کب جو ہوں حق و باطل الگ الگ
ردیف ل
بن گیا اور کسی گل کا گل تر بلبل
باقی نہیں ہے ایک بھی بیمار درد دل
خیال زلف کی کچھ ابتدا نہیں معلوم
ردیف م
فکر وصال درد فراق انتظار غم
کیا جائے کہ دے بیٹھے کسے دل نہیں معلوم
کیا کہیں کس کے ہیں خیال میں ہم
کیون نہ بڑھتے رہیں کمال میں ہم
یوں رات کاٹتے نہیں آہ و فغاں میں ہم
رہبر منزل فنا ہیں ہم
گر جائیں یا کسی کی نظر میں سمائیں ہم
جی میں ہے کچھ اثر دکھائیں ہم
رکھیں گے ربط گر دل درد آشنا سے ہم
رکھے ہوئے ہیں سرور رحمت پہ جب سے ہم
اٹھ کے پچھتائے ہیں کیا محفل سے ہم
بڑھ کے ہیں مضطر دل بسمل سے ہم
نکلے یہ محو انجمن دلستاں سے ہم
افسردہ دل کچھ ایسے ہیں رنج و محن سے ہم
بندے ہیں مے کے اور بت نا آشنا کے ہم
اپنی نظر میں آپ ہی ایسے سمائے ہم
اعتبار عشق پر یہ امتحاں پر امتحاں
ردیف ن
اے دل زار کیا کروں آہ وہ یاراب کہاں
نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں
ہر ذرہ میں ہے جلوہ بتاؤں کہاں کہاں
نہیں ہیں یہ لہو میں تر گریباں آستیں دامن
جی میں ہے تیرے عہد کو اے شیخ توڑ دوں
رخنہ اگر طریقۂ وحشت میں ڈال دوں
میں نے کیا جو صبر کہا وہ جفا کروں
تو ہی بتا مری تقدیر کیا کروں
وہ نہیں جس سے کہ آبادی تھی گھر کو کیا کروں
شمع میں ہے کس کا شعلہ او رپروانے میں کون
بسمل ہوں میں تو تجھ سے ستمگر سے وادیوں
وہ کہتے ہیں کہ ایسے بیوفا کو بھول جاتا ہوں
جو ہے کہنا وہ کہہ گزرتا ہوں
دل میں اس کو جو یاد کرتا ہوں
انجام کار اس کو فرزانہ دیکھتا ہوں
آپ اپنی ادا پہ شیدا ہوں
تم سے خورشید روکو تکتا ہوں
کوئے جاناں کا رہنے والا ہوں
حسن و جمال یار کا مضمون نگار ہوں
روز ازل سے میں تو ندامت شعار ہوں
مائل میں تجھ سے کیا کہوں وہ یہ کہے میں یوں کہوں
خلوت میں انجمن میں کیا جانے میں کہاں ہوں
دل تو پڑا ہے باغ میں اور میں قفس میں ہوں
جو دل میں رکھوں تو یہ ہی رکھوں کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
یہ رنگ لائی ہے طبع موزوں کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
دل پر آرزو ہے اور میں ہوں
عد وہی باوفا ہے میں نہیں ہوں
اس شوق میں ہوں مست کہ گردن بریدہ ہوں
ہر درد وسوز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
ایسی کیا تھیں عتاب کی باتیں
تمہیں جان ہو تو ہم ہیں نیم جاں کیوں
شوخی چشم یار کی باتیں
جتنی ہیں اجتمال کی باتیں
وہی تھیں جو تھیں زندگانی کی باتیں
کہت ہیں مجھے دیکھ کے وہ روز جزا میں
یہ خم نہیں لکھا ہے تری زلف دوتا میں
کیونکر نہ گنیں شیخ کو ہم اہل صفا میں
مل جائے یہ آکر تیری خاک کف پا میں
ہے شان غریبی کا اثر اور ہوا میں
ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
دونوں ہی کو ہے عشق نے ڈالا عذاب میں
ذرہ اگر چہ مل نہ سکا آفتاب میں
وہ آئے خواب میں تو ہوں اس پیچ و تاب میں
کیا ملا گرچہ ملا ذوق نظر مدت میں
جائے اور جا کر رہے جو لانگہ صیاد میں
کیا کروں گا جاکے ہجر یار میں
یاد اس کی تو نہ ڈال رسوم و قسود میں
انداز یہ نہیں ہے کسی گل عذار میں
سمائی یہ کیسی دماغ بشر میں
غضب کی وہاں شوخیاں ہیں نظر میں
خدا کو کر لیا ہے محووصف زلف دلبر میں
لیلی سے آپ بڑھ کے سہی حسن و ناز میں
گویا کھڑے ہیں بار گہ بے نیاز میں
بے اختیار گر یہ جو آیا نماز میں
کیوں کر خوشی سے جان نہ آئے لاش میں
چھوڑا نہیں ہے کچھ بھی ہمارے ہلاک میں
ظالم رہا ہی کیا ہے ترے خستہ حال میں
ہم لطف و قہر اٹھاتے رہے ایک حال میں
یہ ناز یہ ادائیں یہ انداز چال میں
نظر آتا ہے خدائی کا تماشا دل میں
کوئی سمجھے بھی تو کیوں کر انھیں اچھا دل میں
جانتا ہون جو وہ آجائے دل آرا دل میں
مجھے سمجھے ہیں کچھ اپنے گماں میں
یوں تجلی ترے رخ کی مرے جاں دل میں
خیال میکدہ بھولوں تو کیونکر باغ رضواں میں
زباں رکھتا ہو گویا جو دہن میں
بہار آتی ہے یہ کہتی چمن میں
قافیہ بند
پیا ہے شیخ تو نے آب حیواں بادہ خواروں میں
جو چیدہ لوگ ہیں دنیا میں اس کے رازداروں میں
یہ کہہ کر کھینچتے ہیں تیغ ابرو دل فگاروں میں
بازاروں میں کوچوں میں محلوں میں گھروں میں
کبھی وہ مجھ کو کبھی ان کو چاہتا ہوں میں
اس کے قامت کو دیکھتا ہوں میں
مقابل سے نہ تو مجھ کو بٹھا اے یار پہلو میں
بہار عشق نے میرے لگایا باغ پہلو میں
یہ تازہ زخم ہے زخم جگر کے پہلو میں
جب آگیا ہے جوش محبت کی راہ میں
یہ عیب ہے بڑا دل مضطرب کی آہ میں
کیا آئے شیخ رحمت حق کی نگاہ میں
حسن و جمال کی ہے حقیقت نگاہ میں
تارک لذت دنیائے دنی ہیں تو ہمیں
مجنوں سے کہہ رہا ہے یہ فرہاد کوہ میں
چلے گئے وہ ادائیں دکھاکے پردے میں
دل ہے اک بیوفا کے پھندے میں
جب سے رکھا ہے قدم ہم نے وفاداری میں
یہ سرخ سرخ نہیں ہے شراب شیشے میں
خدا پر بھروسا ہے وہ بیکسی میں
جان باقی ابھی کچھ ترے دیوانے میں
ایک ہی رند ہوں زمانے میں
تیری تقدیر کا واعظ کسی میخانے میں
کہاں ملاق میں وہ اور کہاں لڑائی میں
ہر بات کے چرچے سر بازار بہت ہیں
مانا جو تری رکھتے ہیں پہچان بہت ہیں
تیری ںظر پھری ہے مقدر سے کیا کہیں
رنگ لائے نہ مرا دیدۂ خونبار کہیں
یاں بجا آپ کہیں محفل اغیار کہیں
اب تو ناصح مجھ سے ترک عشق ہو سکتا نہیں
اک باغ باغ خلد ہے ایسا برا نہیں
میکشی کا مجھ پہ ہر گز بھی گماں ہوتا نہیں
یہ کیا ہے پیر مغاں کا اگر عتاب نہیں
کسی نظر کو اسے دیکھنے کی تاب نہیں
یہ طعن کیوں ہے کہ دل سا جگر کباب نہیں
کسی آنکھ میں بھی مروت نہیں
نہیں مجھ میں تو وفا اے بت مغرور نہیں
کیا ہمارے دل سوزاں میں وہ ناسور نہیں
ایک خنجر کی زبانی ہے یہ مشہور نہیں
مستی میں اس کی ترچھی نظر ہے بھی اور نہیں
وہ جنوں کی مرے تصویر نہیں
شیخ مستانہ جو تقریر نہیں
جس کی تائید میں تقدیر نہیں
جان ان سے مجھے عزیز نہیں
کہتا ہوں ہاتھ رکھ کے یہ مصحف پہ کم نہیں
کیا لکھیے دل خراش مضامیں اہم نہیں
دشمن کی جھڑکیاں کبھی سہنے کے ہم نہیں
دامن پہ ہم نہیں ہیں کہ خاک قدم نہیں
مٹنے کی چیز شورش ویروحرم نہیں
جس نے گرادیا نہ فلک وہ فغاں نہیں
پہلو میں مرے آج دل بدگماں نہیں
آدمیت کی جو پوچھو کسی انساں میں نہیں
بعد مردن بھی تو رسوائی مقدر میں نہیں
کوہ کن کوہ میں اور قیس بیاباں میں نہیں
کہوں کس منہ سے کہ الفت ترے پیکاں میں نہیں
تل برابر بھی سیاہی رخ جاناں میں نہیں
جو ادا ہے اس کی خالی دلربائی سے نہیں
ترے ناز اٹھانے کے قابل ہمیں ہیں
یہ تو مانا مجھ کو نسبت کچھ خدائی نہیں
امید زندگی کی کبھی ہے کبھی نہیں
اچھا جو قتل تمہیں اقرار بھی نہیں
ظالم یہ کیا ستم ہے کہ بیداد بھی نہیں
ذکر ہوتا واں مرا اچھا برا کچھ بھی نہیں
اگلی سی اب وہ طرز ملاقات ہی نہیں
گر جدائی میں ملے باغ جناں کچھ بھی نہیں
دل میں آتے ہیں تو وہ نور نظر آتے ہیں
کس قدر حسن پہ مغرور نظر آتے ہیں
اس قدر مجھ سے وہ اب دور نظر آتے ہیں
دیکھتے ہیں مجھے جس بزم میں ٹل جاتے ہیں
بن کے وہ جان اڑے جاتے ہیں
وہی اک کیا مجھے گل روہنسی میں سب اڑاتے ہہں
یہ مہ و مہر جو گردش میں رہا کرتے ہیں
خفا ہو کر بگڑتے ہیں بگڑ کر منہ بناتے ہیں
ہم جن سے محبت کرتے ہیں
یہ نازو حسن شیریں عشق سے فریاد کرتے ہیں
یہ حسن وعشق بھی کیسا ستم ایجاد کرتے ہیں
حسرتیں کب نظر میں پھرتی ہیں
وہ دم نزع مرے داغ جگر جلتے ہیں
قتیل ابرو مژگاں جدھر ہوکر نکلتے ہیں
کسی کے قہر میں جو مہر کے پہلو نکلتے ہیں
لوگ جو انتخاب ہوتے ہیں
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں حسیں کب یار ہوتے ہیں
غیر پر حد سے زیادہ جو کرم ہوتے ہیں
ادائے ناز تیری عارف کامل سمجھتے ہیں
قلب جو بے قصور ہیں
دل نہیں داغدار رکھتے ہیں
ہمیشہ برق کو ہم شرمسار رکھتے ہیں
وہ تو عاشق کا بس اک تار نظر رکھتے ہیں
نہ تو دل رکھتے ہیں عاشق نہ جگر رکھتے ہیں
وہ کیفیت ہے آنکھوں میں گلابی لوگ کہتے ہیں
رہا وہ کافر آنکھوں میں تماشا اس کو کہتے ہیں
سمجھ کر نہ تجھ کو صنم دیکھتے ہیں
ستم کا لطف یہ روز شمار دیکھتے ہیں
آنکھ لڑتے ہیں نگاہوں سے گرا دیتے ہیں
روہ سیدھی ترے ملنے کی بتا دیتے ہیں
نذر اہل کرم جو لیتے ہیں
ڈرتے ہیں آسماں سے نہ قائل قضا کے ہیں
اتنے نشان سجدہ نہ پوچھو کہاں کے ہیں
اک عمر سے زمیں کے نہ ہم آسماں کے ہیں
جلوے جو رنگ رنگ کے دونوں جہاں کے ہیں
تھے گل کے ہمنشیں وہی خار آشیاں کے ہیں
قہر و عتاب مجھ پہ جو پیر مغاں کے ہیں
فنا اک روز کیا گہرو مسلماں ہونے والے ہیں
بہار آئی ہے صحرا بھی گلستاں ہونے والے ہیں
وہ اس انداز سے باندھے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
دیکھنا شان بنے بیٹھے ہیں
وہ ہی کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
میکدے میں جو آئے بیٹھے ہیں
اے محتسب آئی جو بلا دیکھ رہے ہیں
آنکھوں ہی میں کیا رنگ وفا دیکھ رہے ہیں
ہم عرش معلیٰ سے ادھر دیکھ رہے ہیں
پانی وہ نہیں تابہ کم دیکھ رہے ہیں
اجمیر دیکھ کر مری باچھیں سی کھل گئیں
تصویر سے زہّاد کے ایمان بگڑ جائیں
ہے وہ دلبر چلو گستر آج تو
ردیف و
مانا کہ جا کے مل گئی آہ آسماں میں تو
دیدۂ تر کے بھی ارمان نکل جانے دو
دل میں جوش نالۂ بے اختیار آنے تو دو
فدائے نشقش پا ہوتا ہے گر محشر تو ہونے دو
ساتھ اشکوں کے رواں لخت جگر ہونے دو
سرا ہیں کیوں نہ شوق اس کا سن کر میری وحشت کا
سینے میں لے چلا ہوں دل بیقرار کو
کیوں نہ جھکائیں آگے ہم اپنے سر ساز کو
کیا کہیں ہم کہ کیا کیا دل کو
واعظ سنے تو کیا وہ تری قال وقیل کو
ساقی جو دست ناز سے چھلکائے جام کو
یونہی رویا کرو گے حضرت ناصح دل وجاں کو
غضب دل کش بنایا ہے تری زلف پریشاں کو
سنا کرتے ہیں پہروں دل لگا کر میرے شیون کو
کیوں اثر سے جان لوں محروم اپنی آہ کو
توبہ کہ ہے تلاش جو ابر سیاہ کو
کیا سکھائے گا کوئی طرز محبت مجھ کو
شوق سیر حرم ودیر ہے کیا کیا مجھ کو
آپ فرمائیں نہ کچھ بھی سر محفل مجھ کو
موت یہ ہے وہ سمجھ جائیں نہ غافل مجھ کو
دیتے نہیں تسکین دم فریاد کسی کو
مفتی میکدہ فرماتے ہیں مائل مجھ کو
تمہیں اس فکر سے کیونکر نجات اے اہل دنیا ہو
دوزخ میں جلے کیا جو تپ غم سے جلا ہو
نگاہ مست ساقی کوب اتنا ناز زیبا ہو
تم مجھ کو ملو غیر کو دوزخ کی سزا ہو
یہ سمجھ کے آپ نے کیا کہا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
واعظ تو اور بادہ کشوں میں شمار ہو
واعظ غریق رحمت پروردگارہو
ہماری اس ستم گر تک رسائی ہو تو کیوں کر ہو
نہ ہو جو تاب ہی دل میں تو آہ کیونکر ہو
نصیب غیر تری جلوہ گاہ کیونکر ہو
مزہ آجائے الفت کا اگر وہ بد گماں پھر ہو
ہمیں تو ساقی گلگوں قبا مبارک ہو
کیوں آپ مجھ سے کہتے ہیں ٹھہرو کھڑے ہو
یہ جشن کامرانی اہل محفل کو مبارک ہو
بہار میرے دل داغدار میں دیکھو
اثر غضب کے ہیں عاشق کی آہ میں دیکھو
یہی حیرت تو مجھ کو ہے کہوں کیا تم کو کیا تم ہو
سراسر جس میں گیسو کا بیاں ہو
کہیے تو دوں پتہ وہ تمہیں یاد اگر نہ ہو
سامنے ہو تو لیے اس کے نظر ہو کہ نہ ہو
پرواز رنگ رخ سے محبت عیاں نہ ہو
مجھ کو شکایت ستم آسماں نہ ہو
جو لطف عیش ماہ کی تنویر میں نہ ہو
وہ دل ہی کیا جو بادۂ الفت بھری نہ ہو
وہ اور مضطرب مرے غم کے بیاں سے ہو
کیا ہے مائل جو روئے دیتے ہو
کہتے ہیں جو کہیے دل بیتاب میں آؤ
میں نے جو کہا ان سے کہ آغوش میں آؤ
ردیف ہ
ایک اک کو قتل کرتے ہیں ہر ہر ادا کے ساتھ
اچھا ہے میل جول کا رکھنا تو سب کے ساتھ
گزری خوشی کے ساتھ کہ رنج و تعب کے ساتھ
کیا کہیں چھوٹ گیا تیر نظر تیر کے ساتھ
واللہ دشمنی ہے بڑی آبرو کے ساتھ
وہ صف میں عاصیوں کی رہا آبرو کے ساتھ
ہم سب کی آرزو ہے تری آرزو کے ساتھ
دیکھا جہاں جہاں کو تری جستجو کے ساتھ
بات یہ ہاتھ لگے ہے مجھے دیوانے سے
جہاں میں وہ کرے گا انقلاب آہستہ آہستہ
نہ کیوں جائے مرا صبر و قرار آہستہ آہستہ
بھلا ہم بھولتے کس کس کو رکھتے یاد کیا کیا کچھ
مرید خاص لکھیں جب جناب پیر میخانہ
تیشہ کا لطف عاشق شیریں کے سر سے پوچھ
الہیٰ پھر گئی کیوں یک بیک تقدیر میخانہ
جب تری تصویر ہو تصویر پشت آئنہ
ہیں شرم سے چپ ورنہ کبھی کیا نہ کریں وہ
مجھ سے کہنا وفا نہیں آتی
ردیف ی (یائے معرف)
بتوں کی جو کچھ دن خدائی نہ ہوتی
سب دل کی لگی تو نے محشر میں عیاں کردی
لوگ سمجھے مے پرستی چھوڑ دی
مجنوں ہے کہاں کہتا محمل کی وفاداری
وہ کہتے ہیں مجھ سے کہانی تمہاری
کافری کرتی ہے در بانی مری
واقف رمز خدادانی مری
اس کی باتوں سے ٹپکتی ہے تعلی کیسی
مل گئی بوئے گل میں بو میری
جب منہ سے وہ لگاتے ہیں بوتل شراب کی
نا امیدی زندگانی ہو چکی
کیا اڑائیں خواب شیریں حشر میں فرہاد کی
اب یہ حالت ہے قفس میں بلبل ناشاد کی
لیتی ہر اک ادا میں ہے جانیں ہزار کی
جان یہ لے کر رہے گی عاشق دل گیر کی
لے خبر آکے جلد تو دل کی
پرسش ہے جیسی محفل رنداں میں جام کی
دل میں جو موج آگئی لبریز جام کی
میں بے خبر نہیں ہوں حقیقت سے جام کی
بس اتنی بات پر اس نے بڑھا دی شان آدم کی
صدا گنج شہیداں سے چلی آتی ہے ماتم کی
فلک کا دل ہلا دیتی ہیں آہیں دل فگاروں کی
رہی کچھ بھی خبر دل کی نہ جاں کی
آئے بھی تو کیا آئے اسے یاد کسی کی
کچھ کام تو کرتی نہیں تدبیر کسی کی
ہماری روح ہے اور سیر فلک جاودانی کی
دل بیمار غم کی انتہا ہے ناتوانی کی
ان بتوں نے کہاں رسائی کی
کہیں نوبت پہ نوبت بج رہی ہے شادمانی کی
حقیقت پوچھیے ہم سے بتوں کی خود نمائی کی
کس کی ہے تجھ کو بلبل شوریدہ سر لگی
واں جفا سے جو خجالت ہوگی
بلائیں آئیں کہ ناصح کسے خبر ہوگی
کیا شب وصل کی سحر ہوگی
خبر وفات عاشق تو ضرور آئی ہوگی
تو بہ جو ہم خیال ٹھہرے گی
انھیں دشمنوں کو بلائے بنے گی
دردوغم سے نہیں ہوتا دل نالاں خالی
وہ بھٹکتا ہی راہ حقیقت نہ ملی
اس کے سایہ میں نہ بیٹھو جسے عظمت نہ ملی
وقت آخر گئے وہ ان کی صورت دیکھ لی
اک نفس کی سب کی ہستی دیکھ لی
اول تو عاشقی میں مری جان پر بنی
در دشمن پہ سر دیتے ہی بنی
آیا نہیں ہے یار کو لطف جفا ابھی
ممنون تری تیغ کا سینہ بھی ہے سر بھی
لڑ جاتی ہیں کسی سے نگاہیں کبھی کبھی
قاصد کی شہادت کا نہ ہوتا ہمیں غم بھی
نئی بات دل سے نکلتی رہی
دن سہی اور آفتاب سہی
توڑیں نہ آپ آئینہ اچھا نہیں سہی
ہم کو کسی کی کچھ بھی خبر ہی نہیں سہی
پہلو میں میرے یار کی تصویر ہی سہی
دل کیا کسی شے میں بھی کدورت نہیں دیکھی
کیونکر یہ کہوں ایسی مصیبت نہیں دیکھی
فصل گل آنے تو دو ولولۂ دل ہے وہی
اسی دم میں تو سمجھا تھا کہ یہ کافر بلا لائی
جوں ہی کشتی شراب کی آئی
حسن تو جس کو ملا اس کو ادا بھی آئی
بن کر وصال یار کی صورت بگڑ گئی
سو سو طرح سے بات بنائی بگڑ گئی
بڑی بات کیا نقش پا ہو گئی
مری زندگی بامزا ہو گئی
برستے اسے رات بھر ہو گئی
جس دن اس در تک رسائی ہو گئی
غیر سے کیا ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی
نہ جائے دل نظر آئے حسین جب کوئی
صبر کر بیٹھے اگر بلبل بالاں کوئی
کیا ہوا وعدہ خلافی سے پشیماں کوئی
پھر تو دل میں نہ رہے کفر کا ارماں کوئی
بن گیا داغ جو شمع شب ہجراں کوئی
ہم بھی دیکھیں گے نہ ہو بزم میں حیراں کوئی
جلوہ گر جب سے ہوا ہے رخ تاباں کوئی
کیا ہو آجائے تکلف کا جو مہماں کوئی
جان تجھ پر فدا کرے کوئی
ہمراہ میری آہ کے باد سحر ہوئی
کیا پوچھتا ہے دل کی ستم گر لگی ہوئی
ردیف ے (یائے مجہول)
کہوں گا تو کیا مدعا چلتے چلتے
جادو تری آنکھوں کو اگر یاد نہ ہوتے
بنا درد درماں سوا ہوتے ہوتے
اشک رکتے ہیں کہیں سوز جگر کے ہوتے
مجھ سے کہتے ہیں قدم رنجہ اگر یاں کیجے
کیا کام ہے وہ جس میں نظر ہم نہیں رکھتے
دے اور جزائے خیر اسے پروردگار دے
چھوڑ دے مائل خیال کفروایماں چھوڑ دے
یہ جلانا نالۂ آتش فشاں تو چھوڑ دے
اور سب کچھ کرے خدا نہ کرے
جو بولے جھوٹ آج وہ دوزخ میں کل پڑے
آجائے مجھ کو موت تو چھوٹے عذاب سے
صبا کہنا جو گزرے تو ہمارے سروقامت سے
دیا ہے داغ الفت کا جو تونے اپنی رحمت سے
اللہ دے وہ شے ہمیں صہبا کہیں جسے
خوب واقف ہوں تری بنیاد سے
دم نکلتا ہے مری فریاد سے
دیتے ہیں حکم ابروئے خمدار سے
جلووں کے لطف اٹھاتے ہیں ہم روزگار سے
لگاؤ تیغ کو کیونر نہ ہو مرے سر سے
لکھا ہے اس کو خط خون جگر سے
کرنا تھا ان کو کام تو عاشق کا دور سے
تارے دکھائی دینے لگے کیا چراغ سے
جا نکلے میکدے میں جو ہم اتفاق سے
یاد کرتے ہو بار بار کسے
پیر مغاں نے بادۂ گلگوں کے جام سے
نہ فرصت ہے ان کو مرے امتحاں سے
وہ جلوہ ہے تیرے قدم کے نشاں سے
محبت ہے کسی جان جہاں سے
رکے کیونکر نگاہ حسرت دیدار دامن سے
سہارا کچھ تو دے مجنوں ذرا تو دل کے ہاتھوں سے
تری ہاں میں اثر بڑھ کر نہیں سے
کسی کی زیست سے مطلب نہ جان جانے سے
جو دیکھنے کو وہ آئے کسی بہانے سے
کہنے کو ہیں یہ آہ وفغاں تیرے واسطے
سیکھی ہے ہم نے طرز بیاں تیرے واسطے
جلد اٹھو بزم دشمن سے خدا کے واسطے
میں کیا کہوں کہ ہے یہ مزا کس کے واسطے
بھولا ہوا ہوں لطف نگاہ عتاب کے
ہو گئے قہر فتنے قامت کے
دونوں طرف ہیں ایک ہی رنگ انقلاب کے
کیا کیجے اس چمن میں گلے روزگار کے
تھے جو انداز تیغ قاتل کے
دل اور جگر ہے نگہ یار کے آگے
تمہارے کشتۂ تیغ ادا ہوں گے تو ہم ہوں گے
ہمیں کو بیگناہوں میں تہ شمشیر دیکھیں گے
ہم اہل سوز کو کہتے ہوئے تکبیر دیکھیں گے
باتیں یہ جس سے ہنس کے ستم گر بنائیں گے
بھلا کب تھے موسیٰ سنبھل جانے والے
سوز دروں سے کیا فلک فتنہ گر جلے
کچھ بے خبر جلے ہیں تو کچھ باخبر جلے
یہ سہی دل کو حسینوں سے بچا کر نکلے
ہمت اگر ہو قطرے کی دریا سے جاملے
کیا کیا نہ کھائے زخم ہر اک دلفگار سے
دست و پا مارے ہیں کیسے عشق کے پنخیر نے
جب جنوں میں کو تہی کی آہ کی تاثیر نے
تیر دل سے جدا کیا تو نے
دیتا ہے حکم قاتل تو مغرور سامنے
غم ہی میں گھلا دیا تو نے
قہر سا قہر کیا دشمن ایماں تو نے
یہ تو مانا کیے احسان پہ احساں تو نے
تجھے حجاب بھی چشم پر آب آتا ہے
حرم کی راہ میں اے شیخ کیا میخانہ آتا ہے
کہا یہ کیا کہ قابو سے نکل جانا بھی آتا ہے
کس ادا سے وہ ہائے جاتا ہے
وہ جلوے ہیں کہ دل محو تماشا ہوہی جاتا ہے
اس کے کوچہ سے جو گزرتا ہے
کھینچتا ہوں جو کبھی آہ تو گھر جلتا ہے
یوں مرے دل میں داغ جلتا ہے
وہ جس رستے سے ہو کر فتنۂ عالم نکلتا ہے
مثل سچ ہے کہ ناقابل ہی ناقابل سے ملتا ہے
مثل سچ ہے خدا بھی مرشد کامل سے ملتا ہے
نہ کہو سینۂ انساں میں جگر ہوتا ہے
تصور جب کسی کا جلوہ ریز نور ہوتا ہے
ذرے ذرے سے ترا جلوہ عیاں ہوتاہے
بندہ جب عذر خواہ ہوتا ہے
اسے جب تک سرور بادۂ گلنار رہتا ہے
وہ بن کر فصل گل کا طرۂ طرار رہتا ہے
کسی کے لب پہ اس کی شان کا اظہار رہتا ہے
دل میں آنکھوں میں یار رہتا ہے
ایک ہنگامہ سا ہنگامہ وہاں رہتا ہے
کیا کہوں یہ دل پر داغ چمن کس کا ہے
کدھر خیال الٰہی اس آسماں کا ہے
تو تو وہ صاحب انداز و ادا ہونا ہے
مے کے دو گھونٹ سے واعظ مجھے کیا ہونا ہے
شراب خانے میں ہر اک فقیر اچھا ہے
برا ہو رہا ہے بھلا ہو رہا ہے
منصور کہاں راز نہاں کھول رہا ہے
کس سے خلوت ہے الٰہی یہ تماشا کیا ہے
جلوۂ طور ہے کیا اور ید بیضا کیا ہے
یار جانی نہیں تو پھر کیا ہے
دوزخ کا کس کو خوف ہے کیوں شعلہ تاب ہے
جب کہا ہوں آپ اب تو جلوہ افگن رات ہے
جس سے ہوتی تھی گفتگو ہم تھے
وہ دن بھی اور وہ راتیں بھی رہیں گی یاد کہتے تھے
برہمن چھوڑ کر بت کو خدا کو یاد کر بیٹھے
آج ہم حال شب ہجر سنا کر اٹھے
وہ جو غم کی شراب دے بیٹھے
مجھے جام شراب دے بیٹھے
جلوے نے کس کے محو تماشا کیا مجھے
مہرباں ہو کے کیا آپ نے جب یاد مجھے
ملا ہے ہائے وہ قسمت سے رازدار مجھے
وہ گئے جب سے یہ گھر کے درودیوار مجھے
کہا ہم نے خوشامد سے کہ ہم تم کو خدا سمجھے
قامت سے تیرے سروچمن جو بلند ہے
اس کو ہے دل پسند اسے کعبہ پسند ہے
میں نے یہ کب کہا کہ مجھے شوق دید ہے
بیتاب و بیقرار ہر اک خاکسار ہے
کیونکر کہوں کہ دفن ترا خاکسار ہے
دم گر یہ جو قابو ہو تو مر جانا یہ بہتر ہے
زلف کو واں پیچ وتاب دیکھیے کب تک رہے
جان جہاں رہے کبھی ہم جان جاں رہے
اس کا کرم جو باغ پہ اے باغباں رہے
جب تک چھپے رہے تو نہاں ہی نہاں رہے
میں نے کہا جو ان سے کہ شب کو کہاں رہے
ایک عالم تو پس مرگ بھلا غم میں رہے
اور ہے بخت سکندر اور ہے
کیونکر کہوں کہ مے کدہ رحمت سے دور ہے
ساقی نہ بزم یار نہ ساغ کا دور ہے
کھلی کھلی نہ کسی سے بھی رسم وراہ رہے
کیوں کہوں پاسباں کو تو نہ رہے
غرض ہے سجدے سے وہ مہرباں رہے نہ رہے
عاشق مسکیں کے دل میں کب خیال غیر ہے
مہندی تو اس کے پاؤں میں شب بھر لگی رہی
ممکن نہیں زمانے کی حالت یہی رہے
جب تک جہان میں درمیخانہ باز ہے
وہ گل نہ رنگ و بو میں ہزاروں میں ایک ہے
بزم اغیار میں کہتے ہیں مجھے کیا دیکھے
اپنے بیان ہی سے مجھے انفعال ہے
یہی جو درد محبت سے حالت دل ہے
ساقی جو حوروش ہے تو پرنور جام ہے
یہ ہے صف مژگاں کہ کوئی فوج ستم ہے
دل سوئے صنم خانہ ہے منہ سوئے حرم ہے
اگر مجھ سے وہ کافر بدگماں ہے
گو فدا ہر بت پہ اپنی جان ہے
جہاں مائل کا مسکن ہے وہ بازار دل وجاں ہے
سمجھتے تھے یہ مجنوں کو کہ اک دیوانہ انساں ہے
نہ ہر دل جلوہ گاہ روئے پرانوار جاناں ہے
یہ تو دم مسیح نہ آب بقا میں ہے
نکل کے جان مری تن سے انتظار میں ہے
کیسا یہ لطف گردش شمس وقمر میں ہے
وہ جلوہ حسن یار کا دیوارودر میں ہے
یاد ہی آتا نہیں یہ جوش وحشت دل میں ہے
کوئی کیا جانے یہاں کس کی محبت دل میں ہے
ہر چند خبر سب ہے پھر بے خبری کیوں ہے
ہر پست و ہر بلند کا تو ہی معین ہے
کہوں کیا کہ کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے
نہ ہو وہ ستم کی جو غایت نہیں ہے
جو بات ترے رخ میں ہے وہ گل میں نہیں ہے
ساقی یہ میری بات بناوٹ کی نہیں ہے
گر تو نہیں خیال ترا دلنشیں تو ہے
دل کو خیال زلف گرہ گیر بھی تو ہے
تیری نگاہ مہر میں تاثیر بھی تو ہے
دل پر ہمارے پردۂ غفلت یہی تو ہے
پھر جہاں میں اک ہوائے انقلاب آنے کو ہے
مژدہ شوق دیدوہ مست شراب آنے کو ہے
کچھ ہے اگر تو اپنی طرف سے بناہ ہے
غیر پر بے طرح نظر کچھ ہے
دشمن اک برق کیا زمانہ ہے
جان سی کچھ بدن میں آتی ہے
جب نگاہ بت بے پیر بگڑ جاتی ہے
ان کے رخسار سے کیا زلف سرک جاتی ہے
بھلا کیوں کر نہ مرجائیں لڑائی ہوتی جاتی ہے
تیری صورت مجھے تسکین دیا کرتی ہے
ذکر عہد شباب کرتی ہے
زلیخا خاک اڑاتی ایسی بے توقیر پھرتی ہے
بادہ خواروں کی عجب ڈھب سے بسر ہوتی ہے
مرے دل سے کوئی پوچھے کہ کیا تاثیر ہوتی ہے
ہمارا ذکر آتے ہی عجب تاثیر ہوتی ہے
وہ جو پامال ناز ہوتی ہے
صبح امید شام ہوتی ہے
نکلتی دل سے آہ آتشیں معلوم ہوتی ہے
ہر اک منزل مجھے عین الیقیں معلوم ہوتی ہے
کہا میں نے کہ سچ کہنا مری فریاد کیسی ہے
نہ پوچھ کیوں پس مرگ اضطراب باقی ہے
نہ آشنا کوئی اپنا نہ یار باقی ہے
نہیں ہے داغ دل پر اک ستم گر کی نشانی ہے
کبھی کبھی کوئی گھبرا کے آگیا بھی ہے
یہ شب غم کی جو کہانی ہے
تو ہے اور آئینہ اور ذوق خود آرائی ہے
حبیب پاک رحمں کی عجب صورت بنائی ہے
جو شب کو چلتے پھرتے وہ سراپا نور ہو جائے
جسے نہ رحم کسی بیقرار پر آئے
دعائے خیر میں میری اگر تاثیر ہو جائے
جو مقبول صنم خانہ مری تصویر ہو جائے
ہرادا زلف کی غارت گر ایماں ہو جائے
کہیں وہ بات کہ دشمن بھی ہم زباں ہو جائے
پھر تو عشاق کا دل عالم ایماں ہو جائے
بلا سے غیر جو ہو جائے نکتہ چیں ہو جائے
وہ نقاب اٹھائے جو آگئے مرے اجڑے گھر کو بنا گئے
کیونکر کہوں وہ لوگ گناہوں سے بچ گئے
جاجا کے تیر آہ ہمارے جو گڑ گئے
کچھ جوش پر جو دیدۂ خونبار ہوگئے
عالم تماشا کشتۂ رفتار ہو گئے
ایسے ملے وہ تجھ سے کہ اک جان ہو گئے
ٹکڑے جو ان کے گرتے ہی ساغر کے ہوگئے
شایان نذر ساقی کوثر کے ہو گئے
ہم تو شب فراق میں یوں جیتے رہ گئے
جھوٹی شراب اپنی جو اغیار دے گئے
کاری جو زخم ناوک دلدار دے گئے
اتنا نہ بیقرار رہا یار کے لیے
چرچہ ہے ان کا کیوں کہ وہ آکر چلے گئے
تکلیف اے فلک نہ کر آزار کے لیے
ہے دار تیرے واسطے تو دار کیلئے
ہر دم نیا عذاب ہے ہشیار کیلئے
کہاں سے لاؤں دل اپنا سا باغباں کیلئے
ادائے خاص ہے وہ مجھ سے خستہ جاں کے لیے
جان دے کر بھی تو ہم مورد الزام ہوئے
پردہ ہے اس لیے وہ پری روکیے ہوئے
ایک میرے ہی دوست کیا نہ ہوئے
ہم پلائیں تم پیو پیمانہ ایسا چاہیے
رات آدھی ڈھل چکی ہے اب تو سونا چاہیے
پائے ہمت اب تجھے بیدل نہ ہونا چاہیے
کچھ علاج اضطراب دل نہ ہونا چاہیے
کس واسطے ہے دیدۂ تر کچھ نہ پوچھیے
YEAR1976
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Rajasthan Sahitya Academy, Udaipur
YEAR1976
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Rajasthan Sahitya Academy, Udaipur
سرورق
عرض ناشر
تعارف مائل
خدا کے نام سے لکھتا ہوں مطلع اپنے دیواں کا
ردیف الف
اے ستم گر نہیں دیکھا جاتا
تمکین یار ہے جو ہم آغوش نقش پا
تم کہے ہو کیا ضبط فغاں ہو نہیں سکتا
دل بد ظن کو کر لیں صاف ہم سے ہو نہیں سکتا
کچھ اس کو تو میں لطف و ستم کر کہہ نہیں سکتا
کہا جو میں نے کہ کیوں بے وفا نہیں ملتا
میں ہی ہوتا نہ یہ میرا دل مضطر ہوتا
کچھ تو میرے دل بیتاب کا درماں ہوتا
کچھ نہ ہوتا تو نواسنج فغاں کیوں ہوتا
سن لے گا کبھی تیری بھی فریاد کیے جا
وہ جوش نہ وہ ولولۂ دل ہے ہمارا
سب کو تسلیم خدائی کا ہے دعوی تیرا
دل بتوں سے اچٹ گیا میرا
یہ دیکھ شوق شہادت کا جوش تو میرا
نہ کہیں دم ہی لیا اور نہ کہیں دل ٹھہرا
نظر پڑا ہے کوئی بے حجاب اپنا سا
فلک پیر ہے کیا عرش معلی کیسا
محتسب تجھ کو کیا تو کیا کیا مستانہ سا
چلا آتا ہے گھبرایا ہوا کوئی یہاں کیسا
آیا نہ آج تک ڈھب اظہار مدعا کا
ذرہ جو کام دینے لگا آفتاب کا
یقیں اب بھی تجھے کافر نہیں میری محبت کا
اللہ رے مرتبہ در باغ بہشت کا
ساکنان عرش سے پوچھو اثر فریاد کا
اللہ رے شوق ساقی مہ رو کی دید کا
پروردگار وہ ہے شقی و سعید کا
کیوں کر چھپے گا خون تمہارے شہید کا
سر اڑایا اس نے میرا یا مرے اغیار کا
میں ہوں عاش ابروئے خمدار کا
کشتہ ہوں میں تجلی رخسار یار کا
وہ جلوہ ہے کہ دھوکا کہ کیوں نہ ہو اللہ کے گھر کا
غم نہیں آفتاب محشر کا
دشمن ہے خواب راحت اہل قبور کا
ہر دل میں نہاں نالۂ مستانہ ہے اس کا
اللہ رے انتظام تری بزم ناز کا
جب کوئی یگانہ ہے نہ بے گانہ اس کا
گو دل میں شوق بھی ہے تو کس کے وصال کا
جلوہ ہے سنگ سنگ میں شان جلال کا
سمجھ رہا ہے مرقع ہوں ان کی محفل کا
قہر ہے اضطراب بسمل کا
یہ مختصر سا بیاں ہے شہادت دل کا
بن گیا آبلہ بڑھ کر جو گریباں دل کا
حال کہتے ہیں کسی سے کہیں انساں دل کا
بس اک نظر کے لیے تھا مقابلہ دل کا
تم خوب اڑاتے رہو خاکا مرے دل کا
یہ کاخ بے ستوں نہیں شیریں کے نام کا
اثر دیکھیں ہم آج اپنی فغاں کا
ملا جب سے مضمون اس کے دہن کا
کھلا راز ان پر نہ تیرے دہن کا
بوسہ تو ہم کو ملتا کب ہے ترے دہن کا
ذکر سن سن کے اجل سے تری تلواروں کا
پاس آداب ہو کیا اس سے ترے کانوں کا
نالہ کھینچتا ہے سخت جانوں کا
داغ پر داغ پڑا ساتھ کے دیوانوں کا
شور کیا طور تجلی کے ہے افسانوں کا
جب سے سنا ہے غلغلہ عفوالہ کا
ملا موقع نہ ان سے گفتگو کا
عاشق پہ ہے الزام عبث پردہ دری کا
قرآن ہے یا مضمون رخسار کسی کا
جب تک کہ نہ دیکھے گل رخسار کسی کا
رہوں گا حشر تک ممنون اپنی سخت جانی کا
ترے ہی در پہ ملا لطف جبہ سائی کا
یہ عقیدہ ہے اک زمانے کا
زلف و رخ کا جلوہ جو پیش نظر ہونے لگا
جو دیکھ جاؤ دل بیقرار کیا ہوگا
تری محفل میں یہ حاصل ہمیں اے فتنہ گر ہوگا
کہوں کیونکر کہ وصل اس کا نصیب دشمناں ہوگا
حلقہ حلقہ میں دل عاشق اٹکتا جائے گا
جب تک خودی کو دل سے مٹایا نہ جائے گا
ماجرائے قتل میرا خود بیاں ہو جائے گا
طالب خنجر جو کوئی سخت جاں ہو جائے گا
ہم کو فلک ستا کے کچھ اپنا ہی کھوئے گا
ہے وہ ہی مرے دل کو کل دینے والا
جاتے ہی صنم خانے میں ایماں کو سنبھالا
کیا ہوا گر میں جہاں سے داغ پنہاں لے چلا
گھر ہی سے نہ روز عید نکلا
کوئی بھی نہ غمگسار نکلا
آفتاب ایک چراغ تہ داماں نکلا
فلک کہتا ہے فتنوں سے کہ اب ہشیار ہو جانا
خدا ہی جانے کہ کیا ہو آخر یہ حال اپنا یہ قال اپنا
کہیں شکر ستم کرنا کہیں شکر وفا کرنا
گل ہے اپنا نہ باغ ہے اپنا
طریق عشق میں ہے کفر افشا راز کا کرنا
نگہ نگہ سے ٹپک رہا ہے کسی کا ہر گز کہا نہ کرنا
جتنے بتان دہر ہیں سب ہیں زر آشنا
مرے گھر میں اک شب بھی مہماں نہ ہونا
عشق میں قہر ہوا چاک گریباں ہونا
منظور ہے اگر دل ناشاد دیکھنا
ہاں کیا نہیں تسلی اغیار دیکھنا
دل کی طرح مضطرب کیوں ہے جگر دیکھنا
تم میرے سامنے کبھی خنجر نہ دیکھنا
ٹھہرا جو بزم یار میں تقصیر دیکھنا
کہوں کیونکر کہ تم اے شعلہ و سیماب کہہ دینا
مری خاطر سے یارو منت اغیار کر لینا
ادھر بھی کبھی اک نظر دیکھ لینا
اٹھیں سجدہ کرتے جدھر دیکھ لینا
یاد بتاں میں دل ہے اگر بت بنا ہوا
ادھر کو جو آنا تمہارا ہوا
رو دھو کے کچھ غبار نکالا تو کیا ہوا
کیوں شرمگیں ہے نرگس فتاں کو کیا ہوا
ہے جگر وہ ہی جو کباب ہوا
شب وصال میں منت کش شراب ہوا
کچھ خاک میں ہماری یہ پیدا اثر ہوا
حیرت سے سر بسر وہ مکاں لامکاں ہوا
لوگ مرتے ہی رہے وہ تو کسی کا نہ ہوا
آسماں کے بھی ستم کا متحمل نہ ہوا
کسی کو نہ اپنے سوا جانتا تھا
مائل ان سے جو دل لگانا تھا
میں ہی بھولا جو دل لگانا تھا
ان کو بننا نہ کچھ سنورنا تھا
ان کا جوش شباب ہونا تھا
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا
کس درجہ ناز رحمت پروردگار تھا
جو دل کو لے گیا کوئی ناقہ سوار تھا
جب تک کہ شیخ صحبت رنداں سے دور تھا
کبھی کیا ہی خوب وہ حال تھا کہ نہ دل میں کچھ بھی خیال تھا
دیا دل کو وہ داغ عشق جو زیبائش دل تھا
کیا وقت تھا وہ بھی کہ نہ اندوہ نہ غم تھا
زمانہ وہ بھی دنیا میں کبھی زلف پریشاں تھا
کل شب کو شب ہجر سے کیا ناک میں دم تھا
چمن میں کل وہ کیفیت کا دور بزم رنداں تھا
پردہ جو رخ یار کا الٹا تو عیاں تھا
وہ درد وہ اثر جو صدائے ورا میں تھا
جوش سا جوش مرے دیدۂ پرآب میں تھا
گلہ ہو کیا کہ وہ ظاہر میں سوگوار نہ تھا
وہ کون تھا جو میرے لیے آسماں نہ تھا
بزم میں شب کو جو وہ کافر مغرور نہ تھا
جب ہجر تھا تو بسمل جورو جفا رہا
دل ہی میں کچھ نہیں مرے پیکاں ہزارہا
راحت سے دل میں کیا رہیں ارماں ہزارہا
سن سن کے شب کو نالۂ مستاں ہزارہا
بوسۂ چشم کا میں ان سے طلبگار رہا
دل یوں ہی محو ابروے خمدار گر رہا
پہلو میں مدتوں کوئی رشک قمر رہا
ٹکڑے ٹکڑے کو سنبھالے غم ہجراں میں رہا
میں آرزوئے مرگ کے قابل نہیں رہا
اک تلاطم سادم گریہ دل و جاں میں رہا
زندگی بھر ہی نہ میں کوچۂ جاناں میں رہا
ترے آنے کی میں نے سنی جو خبر مجھے ہجرکا صدمہ ذرا نہ رہا
دل کو خبال زلف پریشاں نہیں رہا
مجھے سر جو ملا تو وہ ایسا ملا تہ تیغ جو روز و شبانہ رہا
دل کو خیال گیسوئے خمدار ہی رہا
تیرا جلوہ تو جابجا دیکھا
پابہ زنجیر رہا قیس نہ زنداں دیکھا
اس کو کبھی ہوتے ہوئے قاتل نہیں دیکھا
وقت پر کھینچ کے جب آہ رسا کو دیکھا
جب سے اس بے حجاب کو دیھکا
اس نے دعوی جو کیا اس سے نہ ٹلتے دیکھا
کسی کا تم پر نہ کیوں ہو دھوکا جہاں میں ایسا تمہیں کو دیکھا
اس طرح غیر کا ارمان نکلتے دیکھا
پوچھو نہ صنم خانے میں کیا کیا نظر آیا
کرشموں نے محبت کے مجھے گمراہ ٹھہرایا
شکر اس نے کیا لب پہ مگر نام نہ آیا
آرائشوں کے قابل کب یہ جہاں بنایا
حقیقت میں بڑے دیوانہ و عاقل کو سمجھایا
اس کا ہی ہم کو عاشق مضطر بنا دیا
غیر یہ سمجھا کریں بیرون محفل کر دیا
درد منزل کر دیا اور داغ منزل کردیا
کوثر کی طرح مے کو یہیں عام کر دیا
یوں سر شوریدہ نے اظہار ایماں کردیا
جان مضطر ساتھ کر دی شورو افغاں کردیا
کس متاع بے بہا کو دست گرداں کردیا
تمہیں ہاتھ سے ہم نے کیا کھودیا
توبہ کا اعتبار بھی مائل نے کھو دیا
اس نے محفل میں بھی اعزاز بڑھانے نہ دیا
اسے جینے ہی ترے نازوادا نے نہ دیا
پھر آگئی اک بت پہ طبیعت کو ہوا کیا
کیا کہیں ہم دل نے ہم سے کیا کیا
باتیں ہیں واعظوں کی عذاب وثواب کیا
ہو شوق شہادت جو عنان گیر عجب کیا
مجھ سے کہتے ہیں رنگ لاؤں کیا
شومی بخت ہے خوبی تقدیر ہے کیا
بے خودی میں وہ سبو ٹوٹ گیا
یہ کون تھا جو دور سے جلوہ دکھا گیا
شعلہ بھڑک کے دل سے جو میرے نکل گیا
چلتے پھرتے وہ ادھر ہو کر گیا
کھینچا جو دل سے نالہ پتھر پگھل گیا
قابو سے دل کے صبرو تحمل نکل گیا
کہتے ہیں لوگ شمع پہ پروانہ جل گیا
دل کیا نگاہ مست سے میخانہ بن گیا
برا ہو ترا آہ غم کھل گیا
داغ گو ایک سے اک سوا ہو گیا
کیا کہوں کس طرح مدعا ہو گیا
جب نظر میں ایک ہی کعبہ کلیسا ہو گیا
یہ تو کہہ سکتا نہیں میں قیس مجھ سا ہو گیا
حسن اس کا جب جہاں میں جلوہ آرا ہو گیا
یہ دو دن کی الفت میں کیا ہو گیا
خنجر کو جب سنا کہ خریدار ہو گیا
گردوں پہ ماہ عید نمودار ہو گیا
جو آگیا زباں پہ سخن ناز ہو گیا
میں نے مقتل میں یہ سمجھا تھا کہ مقطع ہو گیا
کفر آخر رہنمائے ہر مسلماں ہو گیا
فنا اک نگہ میں ہی دم ہو گیا
نقش دل پر مصحف رخسار جاناں ہو گیا
زینت روئے بتاں گیسوئے پیچاں ہو گیا
کیوں سحر کے ساتھ گل بھی چاک داماں ہوگیا
کیا جانے آکے کیا دل بسمل میں رہ گیا
کوثر پہ جاتے جاتے نچہ تازہ ہو گیا
مر مٹے خاک ہوئے دونوں جہاں سے گزرے
جو ایک دم بھی کوچۂ جاناں میں رہ گیا
اس کی صورت میں ترا جلوہ نظرآہی گیا
ہمت جر کرکے سرنے ترے درکو چھو لیا
ردہف ب
بڑھتا ہے رنج کرتی ہے الٹا اثر شراب
دل سے جب تک کہ نہ ہو گی طلب جام شراب
کہتے ہیں عرض وصل پہ دوں تجھ کو کیا جواب
دیتا نہیں کسی کو بھی تو دل شکن جواب
کچھ ہو نہ علاقہ تو کہیں اس کو خدا کب
کچھ قیس و کوہن ہی نہیں ہیں الم نصیب
بڑھتے جاتے ہیں مرے وہم و گماں آپ سے آپ
ردیف پ
نامہرباں تھا غیر پہ یا مہرباں تھے آپ
یہ درد وہ ہے کہ اس سے شفا کو کیا نسبت
یہ تاب حسن سے عالم ہے جیسے آب میں سانپ
ردیف ت
کھولے سے بھی کھلتے نہیں اسرار محبت
گر جنوں میں ہے یہی دیدۂ تر کی صورت
قامت سے ترے کیوں نہ گھٹے شان قیامت
کس منہ سے کروں میں تن عریاں کی شکایت
ردیف ٹ
ناز کرتا ہے ساقی مے پلا کر ایک گھونٹ
گل ہی سے اس کی ہوتی نہیں دلکشی عبث
ردیف ث
ان سے تو ہے شکایت جوروجفا عبث
ردیف ج
برسا رہی ہے خوں مژہ اشک بار آج
ٹھہرتی محتسب سے دو بدو آج
سنا ہے ہے وہ ہم بزم عدو آج
وہی لخت دل زیب مژگاں ہے آج
جس کو کہ کہہ گئے ملک الموت لا علاج
ردیف چ
جانتا ہوں تجھے خدا سچ مچ
ردیف ح
برہم ہے رخ پہ طرۂ طرار کس طرح
دیتا رہا ہر ایک کو جو دل اسی طرح
کچھ بات کا ہے طور نہ تقریر کی طرح
ردیف خ
کیا ہے درباں جو ہوا آپ کا ہم تک گستاخ
ردیف د
کون اٹھائے گا ترے لطف جفا میرے بعد
خلوت ہو کہ جلوت نہ کہیں ہو وہ بشر بند
قربان تجھ پہ کیوں نہ ہو جان جہان عید
کہا ہے کس نے کہ ہوتی ہے جنگ سرخ و سفید
ردیف ڈ
ان کو نگاہ ناز کے ہے تیر پر گھمنڈ
اپنے سوا کسی کا بھی عیب و ہنر نہ ڈھونڈ
نہ حنائی ہے نہ آبی کاغذ
ردیف ذ
ایک نالہ کا نہیں تو آسماں کوئے یار
ردیف ر
مجھ کو جو چاہے کہے جا پاسبان کوئے یار
بیٹھے ہیں تو کیا غم سگ جاناں کی برابر
ہوں اشک ندامت مرے طوفاں کی برابر
اس کا رہے ہمیشہ زمانہ بہار پر
کیوں کر ہنسی نہ آئے غرور حباب پر
قامت کا ترے سایہ جو پڑ جائے ملک پر
فلک کو ناز ہے کیا ایک ماہ کامل پر
بگڑے ہو ایک بوسہ کے جھوٹے سوال پر
آتی ہے کیا ہنسی مجھے اپنے خیال پر
نظر پر کیوں نظر ڈالی ترے رخسار کے تل پر
وہی جانے نہ جانے کون ہے دعوائے باطل پر
ترے گیسو ہیں یوں بکھرے ہوئے رخسار تاباں پر
مقدر ہو اگر رہبر تو دم لوں آب حیواں پر
رکھا ساغر نہ جب تک شیخ نے توبہ کے داماں پر
وعدے سے تیرے کیوں نہ ہے میری جان پر
دل کش جو اس کا نام نہ آتا زبان پر
دل ہوا شیفتہ جب سے ترے رخساروں پر
سب کا معاملہ تو ہے قسمت کے ہاتھ پر
مسیحا کو اشارہ ہے دم گفتار دیکھا کر
ٹلتے ہیں کوئی کوچۂ جانا نہ چھوڑ کر
کیوں در رحمت پہ جاؤں منہ پہ چادر ڈال کر
میکدے سے شیخ نکلے منہ پہ چادر ڈال کر
دوزخ میں ڈال دل سے دوئی کو نکال کر
بے لطف زندگی کو نہ اپنی وبال کر
مقتل میں وہ تو آئیں خنجر بدل بدل کر
کمال حسن پہ اور درد آشنا ہو کر
جلا کر خاک کر دیگا مجھے سوز نہاں ہو کر
گئے تھے قتل گہ میں ہم نہایت سخت جاں ہوکر
کیوں بتوں سے ہے پھرا شیخ مسلماں ہو کر
ہم چھیڑتے ہیں ربط قدیمانہ سمجھ کر
کرتے ہیں کبھی بت تو دیوانہ سمجھ کر
کیا فقط بزم عدد میں ان کو بیٹھا دیکھ کر
لیتا چلوں نہ بزم میں تلوار دیکھ کر
پوچھا جو حال کچھ اسے ہشیار دیکھ کر
آیا بھی برق طور کو سو بار دیکھ کر
ہر موج مے کو مطلع انوار دیکھ کر
جو روئے جان کو تجھے اک بار دیکھ کر
آتی ہے دل کی یاد مجھے تیر دیکھ کر
تم ہو حیراں اس میں اپنا روئے تاباں دیکھ کر
وہ لگائیں تیر زہر آلودہ پیکاں دیکھ کر
کہ رہا ہوں دل میں اپنے نور ایماں دیکھ کر
بے تاب ہو گئے تری صورت کو دیکھ کر
ان حسینوں کی محبت میں گرفتار نہ کر
رکھے تو گلا ہاں تہ شمشیر کوئی اور
اک شور مچ رہا ہے جو ارض و سما سے دور
کیونکر نہ ان بتوں کی رہوں میں ہوا سے دور
بلبل کی خاک بھی ہے نسیم چمن سے دور
بیٹھیں ہم انجمن میں بتا فتنہ زا کدھر
سب اٹھ گئے ہیں پردۂ حامل کہے بغیر
ردیف ڑ
اچھی نہیں ہے آہ دل خستہ جاں نہ چھیڑ
ردیف ز
گر یہ بھی با اثر ہے اچھی چیز
عید کے روز گھر ہے اچھی چیز
نہ ادا ہے نہ تیری آن عزیز
ردیف ش
ردیف س
ترے ناز پر حور و غلماں کو نازش
اس طرح بادہ خوار ہیں ساغر کے آس پاس
چلیگی اور چلیگی دکان بادہ فروش
پڑے ہوئے جو ہیں زیر دکان بادہ فروش
کہیں نہ لوگ مجھے راز دان بادہ فروش
ترا کمال ہے لطف زبان بادہ فروش
بہار آئی وہ ہو گلستاں کی آرائش
نظر پڑی جو تمہارے مکاں کی آرائش
نہ تو ان کا ہے بتوں سے نہ خدا سے اخلاص
ردیف ص
ہے تجھ سے خشک مغز پہ زاہد نماز فرض
ردیف ض
یہ کس کے گھر میں ہے دور ایاغ عیش و نشاط
ردیف ط
کر جائے کام بزم میں سوز جگر غلط
کیا تھا جو پیر مغاں کا لحاظ
ردیف ظ
آگیا اب وقت رحلت الوداع
ردیف ع
ہو تو کیونکر انجمن میں عزت و توقیر شمع
ردیف غ
دیتا کسی کے آنے کی ہے کچھ خبر چراغ
ردیف ف
دیکھا نہ ایک بار دل زار کی طرف
عشق میں جب دل ہوا زلف پریشاں کی طرف
نہیں کوئی بھی کوہ کن کی طرف
ردیف ق
لے رہے ہیں دے کے وہ دونوں جہاں درد فراق
اب بات تیرے ہاتھ ہے اے کار ساز عشق
سینے میں لے چلا ہوں ہزاروں ہی داغ عشق
اس کا تو بعد مرگ بھی ہم کو رہا قلق
کیا بات ہے کہ جس کی فریاد ہو خدا تک
ردیف ک
پہنچا بشر وہاں کہ نہ تھا کچھ حجاب تک
کوئی مانگے نہیں دعا کب تک
بچائیں گے جبیں عاشقاں سے آستاں کب تک
سنتا رہے باتیں پس دیوار کہاں تک
بن بن کے بگڑ جائے گی تدبیر کہاں تک
غضب کی ہے واعظ کی قسمت مبارک
یہ الجھاؤ جتنے ہیں ہیں کفرو دیں تک
کچھ بڑی بات نہیں اہل صفا کے نزدیک
ردیف گ
عالم ہے اس کے نازوادا کا الگ الگ
جیسے ہیں آسماں پہ اختر الگ الگ
جب کھلتے تیرے ناز کے جوہر الگ الگ
پیر مغاں نے دیکھ کے شیوہ وخو الگ الگ
شامل ہیں کب جو ہوں حق و باطل الگ الگ
ردیف ل
بن گیا اور کسی گل کا گل تر بلبل
باقی نہیں ہے ایک بھی بیمار درد دل
خیال زلف کی کچھ ابتدا نہیں معلوم
ردیف م
فکر وصال درد فراق انتظار غم
کیا جائے کہ دے بیٹھے کسے دل نہیں معلوم
کیا کہیں کس کے ہیں خیال میں ہم
کیون نہ بڑھتے رہیں کمال میں ہم
یوں رات کاٹتے نہیں آہ و فغاں میں ہم
رہبر منزل فنا ہیں ہم
گر جائیں یا کسی کی نظر میں سمائیں ہم
جی میں ہے کچھ اثر دکھائیں ہم
رکھیں گے ربط گر دل درد آشنا سے ہم
رکھے ہوئے ہیں سرور رحمت پہ جب سے ہم
اٹھ کے پچھتائے ہیں کیا محفل سے ہم
بڑھ کے ہیں مضطر دل بسمل سے ہم
نکلے یہ محو انجمن دلستاں سے ہم
افسردہ دل کچھ ایسے ہیں رنج و محن سے ہم
بندے ہیں مے کے اور بت نا آشنا کے ہم
اپنی نظر میں آپ ہی ایسے سمائے ہم
اعتبار عشق پر یہ امتحاں پر امتحاں
ردیف ن
اے دل زار کیا کروں آہ وہ یاراب کہاں
نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں
ہر ذرہ میں ہے جلوہ بتاؤں کہاں کہاں
نہیں ہیں یہ لہو میں تر گریباں آستیں دامن
جی میں ہے تیرے عہد کو اے شیخ توڑ دوں
رخنہ اگر طریقۂ وحشت میں ڈال دوں
میں نے کیا جو صبر کہا وہ جفا کروں
تو ہی بتا مری تقدیر کیا کروں
وہ نہیں جس سے کہ آبادی تھی گھر کو کیا کروں
شمع میں ہے کس کا شعلہ او رپروانے میں کون
بسمل ہوں میں تو تجھ سے ستمگر سے وادیوں
وہ کہتے ہیں کہ ایسے بیوفا کو بھول جاتا ہوں
جو ہے کہنا وہ کہہ گزرتا ہوں
دل میں اس کو جو یاد کرتا ہوں
انجام کار اس کو فرزانہ دیکھتا ہوں
آپ اپنی ادا پہ شیدا ہوں
تم سے خورشید روکو تکتا ہوں
کوئے جاناں کا رہنے والا ہوں
حسن و جمال یار کا مضمون نگار ہوں
روز ازل سے میں تو ندامت شعار ہوں
مائل میں تجھ سے کیا کہوں وہ یہ کہے میں یوں کہوں
خلوت میں انجمن میں کیا جانے میں کہاں ہوں
دل تو پڑا ہے باغ میں اور میں قفس میں ہوں
جو دل میں رکھوں تو یہ ہی رکھوں کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
یہ رنگ لائی ہے طبع موزوں کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
دل پر آرزو ہے اور میں ہوں
عد وہی باوفا ہے میں نہیں ہوں
اس شوق میں ہوں مست کہ گردن بریدہ ہوں
ہر درد وسوز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
ایسی کیا تھیں عتاب کی باتیں
تمہیں جان ہو تو ہم ہیں نیم جاں کیوں
شوخی چشم یار کی باتیں
جتنی ہیں اجتمال کی باتیں
وہی تھیں جو تھیں زندگانی کی باتیں
کہت ہیں مجھے دیکھ کے وہ روز جزا میں
یہ خم نہیں لکھا ہے تری زلف دوتا میں
کیونکر نہ گنیں شیخ کو ہم اہل صفا میں
مل جائے یہ آکر تیری خاک کف پا میں
ہے شان غریبی کا اثر اور ہوا میں
ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
دونوں ہی کو ہے عشق نے ڈالا عذاب میں
ذرہ اگر چہ مل نہ سکا آفتاب میں
وہ آئے خواب میں تو ہوں اس پیچ و تاب میں
کیا ملا گرچہ ملا ذوق نظر مدت میں
جائے اور جا کر رہے جو لانگہ صیاد میں
کیا کروں گا جاکے ہجر یار میں
یاد اس کی تو نہ ڈال رسوم و قسود میں
انداز یہ نہیں ہے کسی گل عذار میں
سمائی یہ کیسی دماغ بشر میں
غضب کی وہاں شوخیاں ہیں نظر میں
خدا کو کر لیا ہے محووصف زلف دلبر میں
لیلی سے آپ بڑھ کے سہی حسن و ناز میں
گویا کھڑے ہیں بار گہ بے نیاز میں
بے اختیار گر یہ جو آیا نماز میں
کیوں کر خوشی سے جان نہ آئے لاش میں
چھوڑا نہیں ہے کچھ بھی ہمارے ہلاک میں
ظالم رہا ہی کیا ہے ترے خستہ حال میں
ہم لطف و قہر اٹھاتے رہے ایک حال میں
یہ ناز یہ ادائیں یہ انداز چال میں
نظر آتا ہے خدائی کا تماشا دل میں
کوئی سمجھے بھی تو کیوں کر انھیں اچھا دل میں
جانتا ہون جو وہ آجائے دل آرا دل میں
مجھے سمجھے ہیں کچھ اپنے گماں میں
یوں تجلی ترے رخ کی مرے جاں دل میں
خیال میکدہ بھولوں تو کیونکر باغ رضواں میں
زباں رکھتا ہو گویا جو دہن میں
بہار آتی ہے یہ کہتی چمن میں
قافیہ بند
پیا ہے شیخ تو نے آب حیواں بادہ خواروں میں
جو چیدہ لوگ ہیں دنیا میں اس کے رازداروں میں
یہ کہہ کر کھینچتے ہیں تیغ ابرو دل فگاروں میں
بازاروں میں کوچوں میں محلوں میں گھروں میں
کبھی وہ مجھ کو کبھی ان کو چاہتا ہوں میں
اس کے قامت کو دیکھتا ہوں میں
مقابل سے نہ تو مجھ کو بٹھا اے یار پہلو میں
بہار عشق نے میرے لگایا باغ پہلو میں
یہ تازہ زخم ہے زخم جگر کے پہلو میں
جب آگیا ہے جوش محبت کی راہ میں
یہ عیب ہے بڑا دل مضطرب کی آہ میں
کیا آئے شیخ رحمت حق کی نگاہ میں
حسن و جمال کی ہے حقیقت نگاہ میں
تارک لذت دنیائے دنی ہیں تو ہمیں
مجنوں سے کہہ رہا ہے یہ فرہاد کوہ میں
چلے گئے وہ ادائیں دکھاکے پردے میں
دل ہے اک بیوفا کے پھندے میں
جب سے رکھا ہے قدم ہم نے وفاداری میں
یہ سرخ سرخ نہیں ہے شراب شیشے میں
خدا پر بھروسا ہے وہ بیکسی میں
جان باقی ابھی کچھ ترے دیوانے میں
ایک ہی رند ہوں زمانے میں
تیری تقدیر کا واعظ کسی میخانے میں
کہاں ملاق میں وہ اور کہاں لڑائی میں
ہر بات کے چرچے سر بازار بہت ہیں
مانا جو تری رکھتے ہیں پہچان بہت ہیں
تیری ںظر پھری ہے مقدر سے کیا کہیں
رنگ لائے نہ مرا دیدۂ خونبار کہیں
یاں بجا آپ کہیں محفل اغیار کہیں
اب تو ناصح مجھ سے ترک عشق ہو سکتا نہیں
اک باغ باغ خلد ہے ایسا برا نہیں
میکشی کا مجھ پہ ہر گز بھی گماں ہوتا نہیں
یہ کیا ہے پیر مغاں کا اگر عتاب نہیں
کسی نظر کو اسے دیکھنے کی تاب نہیں
یہ طعن کیوں ہے کہ دل سا جگر کباب نہیں
کسی آنکھ میں بھی مروت نہیں
نہیں مجھ میں تو وفا اے بت مغرور نہیں
کیا ہمارے دل سوزاں میں وہ ناسور نہیں
ایک خنجر کی زبانی ہے یہ مشہور نہیں
مستی میں اس کی ترچھی نظر ہے بھی اور نہیں
وہ جنوں کی مرے تصویر نہیں
شیخ مستانہ جو تقریر نہیں
جس کی تائید میں تقدیر نہیں
جان ان سے مجھے عزیز نہیں
کہتا ہوں ہاتھ رکھ کے یہ مصحف پہ کم نہیں
کیا لکھیے دل خراش مضامیں اہم نہیں
دشمن کی جھڑکیاں کبھی سہنے کے ہم نہیں
دامن پہ ہم نہیں ہیں کہ خاک قدم نہیں
مٹنے کی چیز شورش ویروحرم نہیں
جس نے گرادیا نہ فلک وہ فغاں نہیں
پہلو میں مرے آج دل بدگماں نہیں
آدمیت کی جو پوچھو کسی انساں میں نہیں
بعد مردن بھی تو رسوائی مقدر میں نہیں
کوہ کن کوہ میں اور قیس بیاباں میں نہیں
کہوں کس منہ سے کہ الفت ترے پیکاں میں نہیں
تل برابر بھی سیاہی رخ جاناں میں نہیں
جو ادا ہے اس کی خالی دلربائی سے نہیں
ترے ناز اٹھانے کے قابل ہمیں ہیں
یہ تو مانا مجھ کو نسبت کچھ خدائی نہیں
امید زندگی کی کبھی ہے کبھی نہیں
اچھا جو قتل تمہیں اقرار بھی نہیں
ظالم یہ کیا ستم ہے کہ بیداد بھی نہیں
ذکر ہوتا واں مرا اچھا برا کچھ بھی نہیں
اگلی سی اب وہ طرز ملاقات ہی نہیں
گر جدائی میں ملے باغ جناں کچھ بھی نہیں
دل میں آتے ہیں تو وہ نور نظر آتے ہیں
کس قدر حسن پہ مغرور نظر آتے ہیں
اس قدر مجھ سے وہ اب دور نظر آتے ہیں
دیکھتے ہیں مجھے جس بزم میں ٹل جاتے ہیں
بن کے وہ جان اڑے جاتے ہیں
وہی اک کیا مجھے گل روہنسی میں سب اڑاتے ہہں
یہ مہ و مہر جو گردش میں رہا کرتے ہیں
خفا ہو کر بگڑتے ہیں بگڑ کر منہ بناتے ہیں
ہم جن سے محبت کرتے ہیں
یہ نازو حسن شیریں عشق سے فریاد کرتے ہیں
یہ حسن وعشق بھی کیسا ستم ایجاد کرتے ہیں
حسرتیں کب نظر میں پھرتی ہیں
وہ دم نزع مرے داغ جگر جلتے ہیں
قتیل ابرو مژگاں جدھر ہوکر نکلتے ہیں
کسی کے قہر میں جو مہر کے پہلو نکلتے ہیں
لوگ جو انتخاب ہوتے ہیں
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں حسیں کب یار ہوتے ہیں
غیر پر حد سے زیادہ جو کرم ہوتے ہیں
ادائے ناز تیری عارف کامل سمجھتے ہیں
قلب جو بے قصور ہیں
دل نہیں داغدار رکھتے ہیں
ہمیشہ برق کو ہم شرمسار رکھتے ہیں
وہ تو عاشق کا بس اک تار نظر رکھتے ہیں
نہ تو دل رکھتے ہیں عاشق نہ جگر رکھتے ہیں
وہ کیفیت ہے آنکھوں میں گلابی لوگ کہتے ہیں
رہا وہ کافر آنکھوں میں تماشا اس کو کہتے ہیں
سمجھ کر نہ تجھ کو صنم دیکھتے ہیں
ستم کا لطف یہ روز شمار دیکھتے ہیں
آنکھ لڑتے ہیں نگاہوں سے گرا دیتے ہیں
روہ سیدھی ترے ملنے کی بتا دیتے ہیں
نذر اہل کرم جو لیتے ہیں
ڈرتے ہیں آسماں سے نہ قائل قضا کے ہیں
اتنے نشان سجدہ نہ پوچھو کہاں کے ہیں
اک عمر سے زمیں کے نہ ہم آسماں کے ہیں
جلوے جو رنگ رنگ کے دونوں جہاں کے ہیں
تھے گل کے ہمنشیں وہی خار آشیاں کے ہیں
قہر و عتاب مجھ پہ جو پیر مغاں کے ہیں
فنا اک روز کیا گہرو مسلماں ہونے والے ہیں
بہار آئی ہے صحرا بھی گلستاں ہونے والے ہیں
وہ اس انداز سے باندھے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
دیکھنا شان بنے بیٹھے ہیں
وہ ہی کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
میکدے میں جو آئے بیٹھے ہیں
اے محتسب آئی جو بلا دیکھ رہے ہیں
آنکھوں ہی میں کیا رنگ وفا دیکھ رہے ہیں
ہم عرش معلیٰ سے ادھر دیکھ رہے ہیں
پانی وہ نہیں تابہ کم دیکھ رہے ہیں
اجمیر دیکھ کر مری باچھیں سی کھل گئیں
تصویر سے زہّاد کے ایمان بگڑ جائیں
ہے وہ دلبر چلو گستر آج تو
ردیف و
مانا کہ جا کے مل گئی آہ آسماں میں تو
دیدۂ تر کے بھی ارمان نکل جانے دو
دل میں جوش نالۂ بے اختیار آنے تو دو
فدائے نشقش پا ہوتا ہے گر محشر تو ہونے دو
ساتھ اشکوں کے رواں لخت جگر ہونے دو
سرا ہیں کیوں نہ شوق اس کا سن کر میری وحشت کا
سینے میں لے چلا ہوں دل بیقرار کو
کیوں نہ جھکائیں آگے ہم اپنے سر ساز کو
کیا کہیں ہم کہ کیا کیا دل کو
واعظ سنے تو کیا وہ تری قال وقیل کو
ساقی جو دست ناز سے چھلکائے جام کو
یونہی رویا کرو گے حضرت ناصح دل وجاں کو
غضب دل کش بنایا ہے تری زلف پریشاں کو
سنا کرتے ہیں پہروں دل لگا کر میرے شیون کو
کیوں اثر سے جان لوں محروم اپنی آہ کو
توبہ کہ ہے تلاش جو ابر سیاہ کو
کیا سکھائے گا کوئی طرز محبت مجھ کو
شوق سیر حرم ودیر ہے کیا کیا مجھ کو
آپ فرمائیں نہ کچھ بھی سر محفل مجھ کو
موت یہ ہے وہ سمجھ جائیں نہ غافل مجھ کو
دیتے نہیں تسکین دم فریاد کسی کو
مفتی میکدہ فرماتے ہیں مائل مجھ کو
تمہیں اس فکر سے کیونکر نجات اے اہل دنیا ہو
دوزخ میں جلے کیا جو تپ غم سے جلا ہو
نگاہ مست ساقی کوب اتنا ناز زیبا ہو
تم مجھ کو ملو غیر کو دوزخ کی سزا ہو
یہ سمجھ کے آپ نے کیا کہا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
واعظ تو اور بادہ کشوں میں شمار ہو
واعظ غریق رحمت پروردگارہو
ہماری اس ستم گر تک رسائی ہو تو کیوں کر ہو
نہ ہو جو تاب ہی دل میں تو آہ کیونکر ہو
نصیب غیر تری جلوہ گاہ کیونکر ہو
مزہ آجائے الفت کا اگر وہ بد گماں پھر ہو
ہمیں تو ساقی گلگوں قبا مبارک ہو
کیوں آپ مجھ سے کہتے ہیں ٹھہرو کھڑے ہو
یہ جشن کامرانی اہل محفل کو مبارک ہو
بہار میرے دل داغدار میں دیکھو
اثر غضب کے ہیں عاشق کی آہ میں دیکھو
یہی حیرت تو مجھ کو ہے کہوں کیا تم کو کیا تم ہو
سراسر جس میں گیسو کا بیاں ہو
کہیے تو دوں پتہ وہ تمہیں یاد اگر نہ ہو
سامنے ہو تو لیے اس کے نظر ہو کہ نہ ہو
پرواز رنگ رخ سے محبت عیاں نہ ہو
مجھ کو شکایت ستم آسماں نہ ہو
جو لطف عیش ماہ کی تنویر میں نہ ہو
وہ دل ہی کیا جو بادۂ الفت بھری نہ ہو
وہ اور مضطرب مرے غم کے بیاں سے ہو
کیا ہے مائل جو روئے دیتے ہو
کہتے ہیں جو کہیے دل بیتاب میں آؤ
میں نے جو کہا ان سے کہ آغوش میں آؤ
ردیف ہ
ایک اک کو قتل کرتے ہیں ہر ہر ادا کے ساتھ
اچھا ہے میل جول کا رکھنا تو سب کے ساتھ
گزری خوشی کے ساتھ کہ رنج و تعب کے ساتھ
کیا کہیں چھوٹ گیا تیر نظر تیر کے ساتھ
واللہ دشمنی ہے بڑی آبرو کے ساتھ
وہ صف میں عاصیوں کی رہا آبرو کے ساتھ
ہم سب کی آرزو ہے تری آرزو کے ساتھ
دیکھا جہاں جہاں کو تری جستجو کے ساتھ
بات یہ ہاتھ لگے ہے مجھے دیوانے سے
جہاں میں وہ کرے گا انقلاب آہستہ آہستہ
نہ کیوں جائے مرا صبر و قرار آہستہ آہستہ
بھلا ہم بھولتے کس کس کو رکھتے یاد کیا کیا کچھ
مرید خاص لکھیں جب جناب پیر میخانہ
تیشہ کا لطف عاشق شیریں کے سر سے پوچھ
الہیٰ پھر گئی کیوں یک بیک تقدیر میخانہ
جب تری تصویر ہو تصویر پشت آئنہ
ہیں شرم سے چپ ورنہ کبھی کیا نہ کریں وہ
مجھ سے کہنا وفا نہیں آتی
ردیف ی (یائے معرف)
بتوں کی جو کچھ دن خدائی نہ ہوتی
سب دل کی لگی تو نے محشر میں عیاں کردی
لوگ سمجھے مے پرستی چھوڑ دی
مجنوں ہے کہاں کہتا محمل کی وفاداری
وہ کہتے ہیں مجھ سے کہانی تمہاری
کافری کرتی ہے در بانی مری
واقف رمز خدادانی مری
اس کی باتوں سے ٹپکتی ہے تعلی کیسی
مل گئی بوئے گل میں بو میری
جب منہ سے وہ لگاتے ہیں بوتل شراب کی
نا امیدی زندگانی ہو چکی
کیا اڑائیں خواب شیریں حشر میں فرہاد کی
اب یہ حالت ہے قفس میں بلبل ناشاد کی
لیتی ہر اک ادا میں ہے جانیں ہزار کی
جان یہ لے کر رہے گی عاشق دل گیر کی
لے خبر آکے جلد تو دل کی
پرسش ہے جیسی محفل رنداں میں جام کی
دل میں جو موج آگئی لبریز جام کی
میں بے خبر نہیں ہوں حقیقت سے جام کی
بس اتنی بات پر اس نے بڑھا دی شان آدم کی
صدا گنج شہیداں سے چلی آتی ہے ماتم کی
فلک کا دل ہلا دیتی ہیں آہیں دل فگاروں کی
رہی کچھ بھی خبر دل کی نہ جاں کی
آئے بھی تو کیا آئے اسے یاد کسی کی
کچھ کام تو کرتی نہیں تدبیر کسی کی
ہماری روح ہے اور سیر فلک جاودانی کی
دل بیمار غم کی انتہا ہے ناتوانی کی
ان بتوں نے کہاں رسائی کی
کہیں نوبت پہ نوبت بج رہی ہے شادمانی کی
حقیقت پوچھیے ہم سے بتوں کی خود نمائی کی
کس کی ہے تجھ کو بلبل شوریدہ سر لگی
واں جفا سے جو خجالت ہوگی
بلائیں آئیں کہ ناصح کسے خبر ہوگی
کیا شب وصل کی سحر ہوگی
خبر وفات عاشق تو ضرور آئی ہوگی
تو بہ جو ہم خیال ٹھہرے گی
انھیں دشمنوں کو بلائے بنے گی
دردوغم سے نہیں ہوتا دل نالاں خالی
وہ بھٹکتا ہی راہ حقیقت نہ ملی
اس کے سایہ میں نہ بیٹھو جسے عظمت نہ ملی
وقت آخر گئے وہ ان کی صورت دیکھ لی
اک نفس کی سب کی ہستی دیکھ لی
اول تو عاشقی میں مری جان پر بنی
در دشمن پہ سر دیتے ہی بنی
آیا نہیں ہے یار کو لطف جفا ابھی
ممنون تری تیغ کا سینہ بھی ہے سر بھی
لڑ جاتی ہیں کسی سے نگاہیں کبھی کبھی
قاصد کی شہادت کا نہ ہوتا ہمیں غم بھی
نئی بات دل سے نکلتی رہی
دن سہی اور آفتاب سہی
توڑیں نہ آپ آئینہ اچھا نہیں سہی
ہم کو کسی کی کچھ بھی خبر ہی نہیں سہی
پہلو میں میرے یار کی تصویر ہی سہی
دل کیا کسی شے میں بھی کدورت نہیں دیکھی
کیونکر یہ کہوں ایسی مصیبت نہیں دیکھی
فصل گل آنے تو دو ولولۂ دل ہے وہی
اسی دم میں تو سمجھا تھا کہ یہ کافر بلا لائی
جوں ہی کشتی شراب کی آئی
حسن تو جس کو ملا اس کو ادا بھی آئی
بن کر وصال یار کی صورت بگڑ گئی
سو سو طرح سے بات بنائی بگڑ گئی
بڑی بات کیا نقش پا ہو گئی
مری زندگی بامزا ہو گئی
برستے اسے رات بھر ہو گئی
جس دن اس در تک رسائی ہو گئی
غیر سے کیا ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی
نہ جائے دل نظر آئے حسین جب کوئی
صبر کر بیٹھے اگر بلبل بالاں کوئی
کیا ہوا وعدہ خلافی سے پشیماں کوئی
پھر تو دل میں نہ رہے کفر کا ارماں کوئی
بن گیا داغ جو شمع شب ہجراں کوئی
ہم بھی دیکھیں گے نہ ہو بزم میں حیراں کوئی
جلوہ گر جب سے ہوا ہے رخ تاباں کوئی
کیا ہو آجائے تکلف کا جو مہماں کوئی
جان تجھ پر فدا کرے کوئی
ہمراہ میری آہ کے باد سحر ہوئی
کیا پوچھتا ہے دل کی ستم گر لگی ہوئی
ردیف ے (یائے مجہول)
کہوں گا تو کیا مدعا چلتے چلتے
جادو تری آنکھوں کو اگر یاد نہ ہوتے
بنا درد درماں سوا ہوتے ہوتے
اشک رکتے ہیں کہیں سوز جگر کے ہوتے
مجھ سے کہتے ہیں قدم رنجہ اگر یاں کیجے
کیا کام ہے وہ جس میں نظر ہم نہیں رکھتے
دے اور جزائے خیر اسے پروردگار دے
چھوڑ دے مائل خیال کفروایماں چھوڑ دے
یہ جلانا نالۂ آتش فشاں تو چھوڑ دے
اور سب کچھ کرے خدا نہ کرے
جو بولے جھوٹ آج وہ دوزخ میں کل پڑے
آجائے مجھ کو موت تو چھوٹے عذاب سے
صبا کہنا جو گزرے تو ہمارے سروقامت سے
دیا ہے داغ الفت کا جو تونے اپنی رحمت سے
اللہ دے وہ شے ہمیں صہبا کہیں جسے
خوب واقف ہوں تری بنیاد سے
دم نکلتا ہے مری فریاد سے
دیتے ہیں حکم ابروئے خمدار سے
جلووں کے لطف اٹھاتے ہیں ہم روزگار سے
لگاؤ تیغ کو کیونر نہ ہو مرے سر سے
لکھا ہے اس کو خط خون جگر سے
کرنا تھا ان کو کام تو عاشق کا دور سے
تارے دکھائی دینے لگے کیا چراغ سے
جا نکلے میکدے میں جو ہم اتفاق سے
یاد کرتے ہو بار بار کسے
پیر مغاں نے بادۂ گلگوں کے جام سے
نہ فرصت ہے ان کو مرے امتحاں سے
وہ جلوہ ہے تیرے قدم کے نشاں سے
محبت ہے کسی جان جہاں سے
رکے کیونکر نگاہ حسرت دیدار دامن سے
سہارا کچھ تو دے مجنوں ذرا تو دل کے ہاتھوں سے
تری ہاں میں اثر بڑھ کر نہیں سے
کسی کی زیست سے مطلب نہ جان جانے سے
جو دیکھنے کو وہ آئے کسی بہانے سے
کہنے کو ہیں یہ آہ وفغاں تیرے واسطے
سیکھی ہے ہم نے طرز بیاں تیرے واسطے
جلد اٹھو بزم دشمن سے خدا کے واسطے
میں کیا کہوں کہ ہے یہ مزا کس کے واسطے
بھولا ہوا ہوں لطف نگاہ عتاب کے
ہو گئے قہر فتنے قامت کے
دونوں طرف ہیں ایک ہی رنگ انقلاب کے
کیا کیجے اس چمن میں گلے روزگار کے
تھے جو انداز تیغ قاتل کے
دل اور جگر ہے نگہ یار کے آگے
تمہارے کشتۂ تیغ ادا ہوں گے تو ہم ہوں گے
ہمیں کو بیگناہوں میں تہ شمشیر دیکھیں گے
ہم اہل سوز کو کہتے ہوئے تکبیر دیکھیں گے
باتیں یہ جس سے ہنس کے ستم گر بنائیں گے
بھلا کب تھے موسیٰ سنبھل جانے والے
سوز دروں سے کیا فلک فتنہ گر جلے
کچھ بے خبر جلے ہیں تو کچھ باخبر جلے
یہ سہی دل کو حسینوں سے بچا کر نکلے
ہمت اگر ہو قطرے کی دریا سے جاملے
کیا کیا نہ کھائے زخم ہر اک دلفگار سے
دست و پا مارے ہیں کیسے عشق کے پنخیر نے
جب جنوں میں کو تہی کی آہ کی تاثیر نے
تیر دل سے جدا کیا تو نے
دیتا ہے حکم قاتل تو مغرور سامنے
غم ہی میں گھلا دیا تو نے
قہر سا قہر کیا دشمن ایماں تو نے
یہ تو مانا کیے احسان پہ احساں تو نے
تجھے حجاب بھی چشم پر آب آتا ہے
حرم کی راہ میں اے شیخ کیا میخانہ آتا ہے
کہا یہ کیا کہ قابو سے نکل جانا بھی آتا ہے
کس ادا سے وہ ہائے جاتا ہے
وہ جلوے ہیں کہ دل محو تماشا ہوہی جاتا ہے
اس کے کوچہ سے جو گزرتا ہے
کھینچتا ہوں جو کبھی آہ تو گھر جلتا ہے
یوں مرے دل میں داغ جلتا ہے
وہ جس رستے سے ہو کر فتنۂ عالم نکلتا ہے
مثل سچ ہے کہ ناقابل ہی ناقابل سے ملتا ہے
مثل سچ ہے خدا بھی مرشد کامل سے ملتا ہے
نہ کہو سینۂ انساں میں جگر ہوتا ہے
تصور جب کسی کا جلوہ ریز نور ہوتا ہے
ذرے ذرے سے ترا جلوہ عیاں ہوتاہے
بندہ جب عذر خواہ ہوتا ہے
اسے جب تک سرور بادۂ گلنار رہتا ہے
وہ بن کر فصل گل کا طرۂ طرار رہتا ہے
کسی کے لب پہ اس کی شان کا اظہار رہتا ہے
دل میں آنکھوں میں یار رہتا ہے
ایک ہنگامہ سا ہنگامہ وہاں رہتا ہے
کیا کہوں یہ دل پر داغ چمن کس کا ہے
کدھر خیال الٰہی اس آسماں کا ہے
تو تو وہ صاحب انداز و ادا ہونا ہے
مے کے دو گھونٹ سے واعظ مجھے کیا ہونا ہے
شراب خانے میں ہر اک فقیر اچھا ہے
برا ہو رہا ہے بھلا ہو رہا ہے
منصور کہاں راز نہاں کھول رہا ہے
کس سے خلوت ہے الٰہی یہ تماشا کیا ہے
جلوۂ طور ہے کیا اور ید بیضا کیا ہے
یار جانی نہیں تو پھر کیا ہے
دوزخ کا کس کو خوف ہے کیوں شعلہ تاب ہے
جب کہا ہوں آپ اب تو جلوہ افگن رات ہے
جس سے ہوتی تھی گفتگو ہم تھے
وہ دن بھی اور وہ راتیں بھی رہیں گی یاد کہتے تھے
برہمن چھوڑ کر بت کو خدا کو یاد کر بیٹھے
آج ہم حال شب ہجر سنا کر اٹھے
وہ جو غم کی شراب دے بیٹھے
مجھے جام شراب دے بیٹھے
جلوے نے کس کے محو تماشا کیا مجھے
مہرباں ہو کے کیا آپ نے جب یاد مجھے
ملا ہے ہائے وہ قسمت سے رازدار مجھے
وہ گئے جب سے یہ گھر کے درودیوار مجھے
کہا ہم نے خوشامد سے کہ ہم تم کو خدا سمجھے
قامت سے تیرے سروچمن جو بلند ہے
اس کو ہے دل پسند اسے کعبہ پسند ہے
میں نے یہ کب کہا کہ مجھے شوق دید ہے
بیتاب و بیقرار ہر اک خاکسار ہے
کیونکر کہوں کہ دفن ترا خاکسار ہے
دم گر یہ جو قابو ہو تو مر جانا یہ بہتر ہے
زلف کو واں پیچ وتاب دیکھیے کب تک رہے
جان جہاں رہے کبھی ہم جان جاں رہے
اس کا کرم جو باغ پہ اے باغباں رہے
جب تک چھپے رہے تو نہاں ہی نہاں رہے
میں نے کہا جو ان سے کہ شب کو کہاں رہے
ایک عالم تو پس مرگ بھلا غم میں رہے
اور ہے بخت سکندر اور ہے
کیونکر کہوں کہ مے کدہ رحمت سے دور ہے
ساقی نہ بزم یار نہ ساغ کا دور ہے
کھلی کھلی نہ کسی سے بھی رسم وراہ رہے
کیوں کہوں پاسباں کو تو نہ رہے
غرض ہے سجدے سے وہ مہرباں رہے نہ رہے
عاشق مسکیں کے دل میں کب خیال غیر ہے
مہندی تو اس کے پاؤں میں شب بھر لگی رہی
ممکن نہیں زمانے کی حالت یہی رہے
جب تک جہان میں درمیخانہ باز ہے
وہ گل نہ رنگ و بو میں ہزاروں میں ایک ہے
بزم اغیار میں کہتے ہیں مجھے کیا دیکھے
اپنے بیان ہی سے مجھے انفعال ہے
یہی جو درد محبت سے حالت دل ہے
ساقی جو حوروش ہے تو پرنور جام ہے
یہ ہے صف مژگاں کہ کوئی فوج ستم ہے
دل سوئے صنم خانہ ہے منہ سوئے حرم ہے
اگر مجھ سے وہ کافر بدگماں ہے
گو فدا ہر بت پہ اپنی جان ہے
جہاں مائل کا مسکن ہے وہ بازار دل وجاں ہے
سمجھتے تھے یہ مجنوں کو کہ اک دیوانہ انساں ہے
نہ ہر دل جلوہ گاہ روئے پرانوار جاناں ہے
یہ تو دم مسیح نہ آب بقا میں ہے
نکل کے جان مری تن سے انتظار میں ہے
کیسا یہ لطف گردش شمس وقمر میں ہے
وہ جلوہ حسن یار کا دیوارودر میں ہے
یاد ہی آتا نہیں یہ جوش وحشت دل میں ہے
کوئی کیا جانے یہاں کس کی محبت دل میں ہے
ہر چند خبر سب ہے پھر بے خبری کیوں ہے
ہر پست و ہر بلند کا تو ہی معین ہے
کہوں کیا کہ کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے
نہ ہو وہ ستم کی جو غایت نہیں ہے
جو بات ترے رخ میں ہے وہ گل میں نہیں ہے
ساقی یہ میری بات بناوٹ کی نہیں ہے
گر تو نہیں خیال ترا دلنشیں تو ہے
دل کو خیال زلف گرہ گیر بھی تو ہے
تیری نگاہ مہر میں تاثیر بھی تو ہے
دل پر ہمارے پردۂ غفلت یہی تو ہے
پھر جہاں میں اک ہوائے انقلاب آنے کو ہے
مژدہ شوق دیدوہ مست شراب آنے کو ہے
کچھ ہے اگر تو اپنی طرف سے بناہ ہے
غیر پر بے طرح نظر کچھ ہے
دشمن اک برق کیا زمانہ ہے
جان سی کچھ بدن میں آتی ہے
جب نگاہ بت بے پیر بگڑ جاتی ہے
ان کے رخسار سے کیا زلف سرک جاتی ہے
بھلا کیوں کر نہ مرجائیں لڑائی ہوتی جاتی ہے
تیری صورت مجھے تسکین دیا کرتی ہے
ذکر عہد شباب کرتی ہے
زلیخا خاک اڑاتی ایسی بے توقیر پھرتی ہے
بادہ خواروں کی عجب ڈھب سے بسر ہوتی ہے
مرے دل سے کوئی پوچھے کہ کیا تاثیر ہوتی ہے
ہمارا ذکر آتے ہی عجب تاثیر ہوتی ہے
وہ جو پامال ناز ہوتی ہے
صبح امید شام ہوتی ہے
نکلتی دل سے آہ آتشیں معلوم ہوتی ہے
ہر اک منزل مجھے عین الیقیں معلوم ہوتی ہے
کہا میں نے کہ سچ کہنا مری فریاد کیسی ہے
نہ پوچھ کیوں پس مرگ اضطراب باقی ہے
نہ آشنا کوئی اپنا نہ یار باقی ہے
نہیں ہے داغ دل پر اک ستم گر کی نشانی ہے
کبھی کبھی کوئی گھبرا کے آگیا بھی ہے
یہ شب غم کی جو کہانی ہے
تو ہے اور آئینہ اور ذوق خود آرائی ہے
حبیب پاک رحمں کی عجب صورت بنائی ہے
جو شب کو چلتے پھرتے وہ سراپا نور ہو جائے
جسے نہ رحم کسی بیقرار پر آئے
دعائے خیر میں میری اگر تاثیر ہو جائے
جو مقبول صنم خانہ مری تصویر ہو جائے
ہرادا زلف کی غارت گر ایماں ہو جائے
کہیں وہ بات کہ دشمن بھی ہم زباں ہو جائے
پھر تو عشاق کا دل عالم ایماں ہو جائے
بلا سے غیر جو ہو جائے نکتہ چیں ہو جائے
وہ نقاب اٹھائے جو آگئے مرے اجڑے گھر کو بنا گئے
کیونکر کہوں وہ لوگ گناہوں سے بچ گئے
جاجا کے تیر آہ ہمارے جو گڑ گئے
کچھ جوش پر جو دیدۂ خونبار ہوگئے
عالم تماشا کشتۂ رفتار ہو گئے
ایسے ملے وہ تجھ سے کہ اک جان ہو گئے
ٹکڑے جو ان کے گرتے ہی ساغر کے ہوگئے
شایان نذر ساقی کوثر کے ہو گئے
ہم تو شب فراق میں یوں جیتے رہ گئے
جھوٹی شراب اپنی جو اغیار دے گئے
کاری جو زخم ناوک دلدار دے گئے
اتنا نہ بیقرار رہا یار کے لیے
چرچہ ہے ان کا کیوں کہ وہ آکر چلے گئے
تکلیف اے فلک نہ کر آزار کے لیے
ہے دار تیرے واسطے تو دار کیلئے
ہر دم نیا عذاب ہے ہشیار کیلئے
کہاں سے لاؤں دل اپنا سا باغباں کیلئے
ادائے خاص ہے وہ مجھ سے خستہ جاں کے لیے
جان دے کر بھی تو ہم مورد الزام ہوئے
پردہ ہے اس لیے وہ پری روکیے ہوئے
ایک میرے ہی دوست کیا نہ ہوئے
ہم پلائیں تم پیو پیمانہ ایسا چاہیے
رات آدھی ڈھل چکی ہے اب تو سونا چاہیے
پائے ہمت اب تجھے بیدل نہ ہونا چاہیے
کچھ علاج اضطراب دل نہ ہونا چاہیے
کس واسطے ہے دیدۂ تر کچھ نہ پوچھیے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.