سرورق
فہرست
پیش گفتار
مقدمہ
لگے گر ہاتھ میرے تار اس زلف معنبر کا
روز رومال نیا دیدۂ تر پر رکھا
خداوندانہیں مشتاق میں سرد و صنوبر کا
جب سر انگشت کو میں دیدۂ تر پر رکھا
شب جو اس نے قدم اپنا مرے سر پر رکھا
سو سو طرح کا حادثہ تجھ پر گزر چکا
آج کچھ سینے میں دل ہے خود بخود بیتاب سا
جی جائے گا رایگاں کسی کا
شب کہ دل درد والم سے سر بسر لبریز تھا
عاشق بے دل تو مشتاق نگاہ تیز تھا
جب سر زلف صنم خم کھا گیا
کچھ اعتماد ان کے نہیں ارتباط کا
جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا
کام دل اپنا تو ہر گز نہ بتاں سے نکلا
ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آگیا
دل تجھ کو دیا لے میرا غم خوار یہی تھا
گر اس منھ سے برقع کبھی کھل گیا
اب تو پھر کوچے میں اس کے شوروشر رہنے لگا
کیا جانے کیا کرے گا یہ دیدار دیکھنا
ٹک دیکھتا تو جا ترا بسمل کدھر چلا
صحبت میں غیر کی نہ مرے یار بیٹھنا
رونے سے سوز داغ جگر دور ہو گیا
دل ودماغ تھا کب ہم کو ایسی ذلّت کا
پاس وفا بتاں سے زبس دور ہو گیا
مرا زخم جگر کاری ہے اس مرہم سے کیا ہوگا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ملنے کا اس کے جب کبھی کچھ ہم نے ڈھب کیا
میں نے کس چشم کے افسانے کو آغاز کیا
گو زخمی ہیں ہم پر اسے کیا غم ہے ہمارا
ہر بات کے کہنے میں جو جاں کن ہے ہمارا
تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا
اس کو منظور یاں نہ آنا تھا
جامے کے بند جب وہ گلشن میں واکرے گا
ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
کشور دل کو خدا جانے یہ کس نے لوٹا
نقاب افگندہ ازرخ جس طرف شب کو وہ جانکلا
مجھے کر قتل ناحق دل ربا کے ہاتھ کیا آیا
شرمندہ نہ تھا نالۂ شب گیر اثر کا
تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
یہ چاک گریباں تو داماں سے گزرا
احوال پریشاں ہے گلستاں میں صبا کا
زلفوں سے اس کی میں نے جس دن کہ ہاتھ دھویا
اے عشق تو کام دل ناکام نہ دینا
کل ہمیں اس کی طرف کو شوق رہبر ہوگیا
جانشیں رخ پر ترے خطّ معنبر ہوگیا
جب اس گل نازک کا دیدار نظر آیا
کنج قفس میں جو کوئی مر گیا
عشق مجھے اہل بصر کر گیا
موسم گل کوچ مگر کر گیا
دن رات نپٹ غم سے ترے نالہ کناں تھا
غیر ہی کو نت فلک نے اس کا ہم پہلو کیا
جس کے نہ لگا زخم تری کج نظری کا
پونچھ کر آنکھوں کا کاجل یوں نہ بالوں سے لگا
کب میں نے کہا تو مجھے دیدار دکھا جا
کوئی ہمیشہ گرفتار غم نہیں ہوتا
جن روزوں کہ رنگ آنکھوں کا اپنی جگری تھا
نظر آتا ہے یہ لونڈا مجھے ہرجائی سا
جدھر دیکھو ادھر چرچا ہے ان ہنگامہ سازوں کا
آگے مرے کسی نے ترا نام اگر لیا
ہائے کیا کیجیے اس جامۂ عریانی کا
زیادہ قصیدہ نہ کر عاشق آزمائی کا
چھپایا تم نے منھ ایسا کہ بس جی ہی جلا ڈالا
قاصد جب اس کے پاس مرا نامہ لے گیا
تو جس شب کہ جا غیر کے پاس سویا
جوں سا یہ اس کے پیچھے میں برسوں لگا پھرا
مرا دل گیا جب سے زلفوں میں کھویا
منھ دیکھ کے یار آرسی کا
زلفوں کی درہمی نے برہم جہان مارا
ذرا ہم سے بھی ملتے جایئے گا
یہ قطرہ اشک نے مژگاں سے تار باندھ دیا
بس کہ ہر دم چاک تازہ میں گریباں میں دیا
درمیاں میں نقاب کس دن تھا
خط ترا مشک تاب کس دن تھا
دل چرانا یہ کام ہے تیرا
میرا زانو دبا کے اٹھ جانا
ہے لالہ گوں شفق سے دامن جو آسماں کا
عالم ہمیں خوش آیا ازبس کہ اس جہاں کا
مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
بھٹکا پھرے ہے تیری دل اک ادا کا مارا
عارض نہ تری زلف پریشان میں دیکھا
آویزۂ لعل اس کے جو میں کان میں دیکھا
آتا ہے یاد مجھ کو خوں خوار کا لپٹنا
ہجوم گر یہ زبس رات چشم تر میں رہا
وہ حسن جاتا رہا اس کا وہ گلو نہ رہا
وہ عشق و ولولہ وشورہاے وہو نہ رہا
دیدۂ بے دید دشمن ہو گیا
ہو کیوں نہ تشنۂ خوں وہ ہم سے بے کسوں کا
دوست تھا ا پنا سو دشمن ہوگیا
میاں تم ہم سے نت کرتے ہو رم کیا
ترچھے قدم کے پڑتے کل جوں قد اس کا لچکا
برہم زن تقریر نہیں پیروجواں کا
خط گرد ہے چہرے کے ترے ناد علی سا
جب کوہ و بیاباں میں جا ہم نے قدم مارا
دشنام سو سنیں لب خوباں سے کیا کیا
گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
جو رنگ بدلے ٹک اس چرخ آب نوسی کا
نہیں زلفوں کی تری بے سروپائی کا گلا
کتنوں کو تونے شوخ کماں کش الٹ دیا
فسانہ اک طرف شب ہائے ہجراں کی درازی کا
کس رات میں اس فکر سے تاصبح نہ جاگا
کس سے سیکھا ہے میاں تم نے مٹک کر چلنا
آکے جب پاس مرے وہ گل تر بیٹھ گیا
کل دیکھ کے مجھ کو جو سر رہ سے وہ بھاگا
ناتوانی نے کیا اب تو ہمیں بے دست و پا
پس گئے اہل زمیں یوں آسماں کے زیر پا
روکے ان آنکھوں نے دریا کردیا
اس نے جب بند قبا وا کر دیا
جب عارض گل رنگ سے خط اس نے نکالا
ہر اشک ہے مری چشم پر آب میں دریا
گزر ہو کیوں کے وہاں صبح وشام عاشق کا
کبھی تو ہنس کے لیا کر تو نام عاشق کا
تیرے ہاتھوں سے میاں دل مرا بن کر ٹوٹا
آج کیا جانے مری کون نظر سے گزرا
اس راہ سے جو ہو کر کل تو ذرا نہ گزرا
کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
کیا دخل ہے جاکر ہمیں اس کو میں بھٹکنا
اب اوروں سے کی گرم صحبت بھلا
دیر تک اپنے شہیدوں پہ نظر کرنا تھا
اک برق کا سا جھمکا اس مہ لقا سے دیکھا
پاؤں بے طرح پھر اس شوخ پسر کا نکلا
کل اس کو باتیں کرتے اک آشنا سے دیکھا
عاشق ہوں مجھ کو ڈر نہیں روز وفات کا
مجھ کو زلفوں سے تری پیار وہی ہے جو تھا
صورت کو تیری دیکھ کے مانی نے رودیا
ازل کے روز سے سر رشتہ گم تھا زار رونے کا
معالج ہو سکے اب کیا کوئی غمخوار رونے کا
تری کو سے مرکر یہ بے جان نکلا
اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان رہ گیا
کل میں جو راہ میں اسے پہچان رہ گیا
جس کشتے کا زخموں میں ہو چور بدن سارا
آپھی دم شمشیر ہے یاں ہم پہ دم اپنا
دائے وہ زخمی کہ سنبھلا اور سنبھل کر رہ گیا
شمع پر پروانہ شب جس وقت جل کر رہ گیا
قدم اس دھج سے کچھ پڑتا ہے اس غارت گرجاں کا
خدا جانے یہ دل کشتہ ہے کس انداز داماں کا
ان آہوں سے حجاب اس آسماں کا اٹھ نہیں سکتا
یہ خیال اک دن اسی صورت فزوں ہو جائے گا
ساقی شراب لایا مطرب رباب لایا
جی رات لبوں پہ آرہا تھا
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
یہ چیرۂ بل دار نہ دیکھا تھا سودیکھا
قاصد کبھی ہمارا دلدار تک نہ پہنچا
کریں گے خواب راحت یا یہی جنجال ہووے گا
ہجراں میں بس کہ مجھ پہ عذاب الیم تھا
نام مت لے تو گھر کے جانے کا
اٹھائے زخم اتنے کس نے میرا سا جگر کس کا
پاؤں گر رکھ نہیں سکتا ہے تو در پر اپنا
سینہ جلتا ہے تب عشق سے اکثر اپنا
ردیف ب
نوح کا یہ نہیں طوفاں کہ زمیں جاوے ڈوب
شب کیا میں نے جو اک نالۂ زار آخر شب
مجھ کو صحبت ہے سر زلف سے اب آخر شب
پاؤں اس دھج سے تو رکھو نہ زمیں پر صاحب
صاد سے چشم تو ہے زلف دوتا دال سے خوب
یہ خستہ تمام ہو چکا اب
بال و پر باز کیا چاہیئے اب
لو اب اس دل کو تمہیں آگ لگاؤ صاحب
بات میں ہو گئے خفا صاحب
سج کرکے جو آج آئے ہیں شمشیر و سپر آپ
ردیف پ
ردیف ت
ہو جس جگہ نہ ناوک تقدیر کی نشست
ہو جس کے دل میں داغ غم یار کی نشست
دل جانے ہے اس ابروے خم دار کی نشست
ایسا بھی کوئی کرے ہے خلل ملک دیں میں بہت
رہا یہ دل تو بیمار محبت
برا ہوتا ہے اظہار محبت
جگر میں کھٹکے ہے خار محبت
نہ کر تو مجھ سے انکار محبت
اس کی ابرو سے کچھ آئی نہ تھی دو چار کی موت
زبس کہ گریہ سے فرصت ہمیں نہیں دن رات
جب سے کافر نے سنی ہے کسی بد ذات کی بات
ہم کو گر رکھا زمیں میں دیدۂ گریاں سمیت
اشک سے میرے بچے ہمسایہ کیوں کر گھر سمیت
بس کہ گرم گریہ تھا دل رات چشم تر سمیت
سو دل سے تیرے تیر کا گزرا ہے سر درست
کچھ مجھ سے ان دنوں نہیں اس کی نظر درست
اور یاں پیروجواں جتنے ہیں ہیں پیر پرست
جب سے جدا ہوا ہے تو اے مایۂ حیات
گرچہ جوں آئینہ اول تھا یہ دل حیرت پرست
مرے خوں کا پیاسا وہ قاتل رہانت
بدنام کیا میں نے عبث نام محبت
جس میں ہم دیکھیں تھے ہر آن خدا کی قدرت
عاشق وہی کہ جس کے آنسو بہا کریں نت
نہیں آیا ہمارے پاس اب تک یار کیا باعث
ردیف ث
عنقا ملا ہے کس کو دلا جستجو عبث
پڑتی ہی نہیں اس دل بیتاب کو کل آج
ردیف ج
قاتل مرے یاروں کو نہ خط سادہ لکھا بھیج
بڑھ گئی بیماریٔ دل کیجیے یارب کیا علاج
رکھتا ہوں ایک میں تو ترے غم کی احتیاج
روم دیتا ہے اس کے رخ کوباج
تجھ سے میں یہ نہیں کہتا کہ تو تلوار نہ کھینچ
یوں ہے عارض کی جھلک زلف پریشان کے بیچ
کب کا اک عمر سے جھگڑا تھا دل و جان کے بیچ
اک دن جو لے گئی مجھے وحشت چمن کے بیچ
دھجّیاں پانووں سے باندھیں ہم نے اس منزل کے بیچ
سحر ہے رخ پر تری زلفوں کے بل کھانے کی طرح
ردیف ح
دیکھ اس رشک پری کے باغ میں آنے کی طرح
شہر آتا ہے نظر پر گرد ویرانے کی طرح
شاخ گل گو کہ لچکتی ہے قد یار کی طرح
کہتا ہے کون ہاتھ ہیں اس کے حنا سے سرخ
ردیف خ
لگائے ہاتھ کوئی اس بدن کو کیا گستاخ
مہندی سے دست یار سپید و سیاہ و سرخ
تھی آب دم اس کے میں میاں بس کہ بلا سرد
ہر چند رہی نت ترے کوچے کی ہوا سرد
ردیف د
غیر سے آشنائیاں تاچند
دانتوں کے روبرو ہوئی سلگ گہر سپید
اے دل سپیدی آئی ہوئے موے سر سپید
نہ تو مے لعل یار کے مانند
زلف ہے گرچہ مار کے مانند
کیے جس ڈھب سے اس نے چاک دربند
کیا عالم کے منہ پر جس نے در بند
بہت کیں ہم نے اپنی چشم تر بند
پھڑک کر کیا کرے وہ مرغ پر بند
اگر کھولے چمن میں اپنے تو بند
کیے اس گل نے جوں جامے کے وابند
کہاں تلک پھریں اڑتے ادھر ادھر صیّاد
ردیف ذ
ہم نے بھیجا جو کبھی یار کو لکھ کر کاغذ
کیا غم مجھے گو ہووے قفس کا مرے در بند
شوق سے لکھیے اگر جانب جاناں کاغذ
کہتے ہیں وصل کی شب جس کو سو وہ رات ہے شاذ
بہار گل نہ رہی اس قدر چمن میں دیر
ردیف ر
اس تیغ زن کو یارو مرے دل سے کیا خبر
آخر گئے ہی تجھ کو وہ بے وفا سمجھ کر
راتوں کو تو گلیوں میں نہ اے ماہ لقا پھر
سر کھول کے کافر نہ نہا نہر کے اوپر
ہے اس کی آئینے میں خط و خال پر نظر
یار یہ دونوں اگر کم ہوں تو کم ہی بہتر
مقتل میں لائی جب مجھے تقدیر کھینچ کر
لائی تو یاں تلک مجھے تقدیر کھینچ کر
یوں کہہ کے گیا دل تو مجھے یاد کیا کر
اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
باندھ آیا تھا کمر وہ دشمن جاں کھینچ کر
کندن سے نورتن کی پھبن دیکھ ڈنڈ پر
منہ سے برقع کو مری جاں نہ اتارا آخر
جس بت نے نہ باندھا کبھی زنّار کمر پر
تیروں پہ تیر کھا کر زخموں پہ زخم اٹھا کر
یہ دلّی کا نقشہ سنوارا زمیں پر
گر اب کی ہو جیے گل و سرد و سمن سے دور
زلف کا چھٹنا ترے رخسار پر
پتھر پہ جب گرے ترے ہاتھوں سے چھوٹ کر
شاید ہوئی نہیں مری حاجت روا ہنوز
ردیف ز
ہے دلبروں میں تو ہی عاشقوں کا اک خوں ریز
وہی ٹھوکر ہے اور وہی انداز
بادل سے برستے ہیں مرے دیدۂ تر روز
آچکا خط پہ سر مو نہ گیا ناز ہنوز
ردیف س
روکش ہے ترے حسن سے نے زہرہ نہ برحبیں
پہلو ہے مرا گرم بہ فرش پر طاؤس
نیرنگی ہے کس کی یہ چمن گستر طاؤس
یار کرتا نہیں نگاہ افسوس
اٹھ گیا بن کہے ہی یار افسوس
کیوں ترا مبتلا کیا افسوس
نقص طالع سے دیجیے کس کو دوس
کیوں نہ یہ زلف پھبے اب ترے رخسار کے پاس
کون آتا ہے عیادت کو دل زار کے پاس
نہیں دل دار کوئی ہووے دل آزار ہی کاش
ردیف ش
وقفہ اسے پیک نگہ دیدۂ تر ہے در پیش
کرے ہے جوں جوں اپنے حسن کی وہ شوخ آرایش
بھڑکے ہے تب عشق کی دل میں غضب آتش
دانستہ کیا جس نے مرا نام فراموش
جنت کی تمنّا ہے نہ گلزار کی خواہش
رکھتا ہوں میں تجھ سے جی سے اخلاص
ردیف ص
کچھ خط ہی نہیں فداے عارض
پاس اپنے تو اسے یارو نے سیم نہ زر خالص
ردیف ض
دیکھ آئینے میں اپنی وہ بہار عارض
کس دن لکھا تھا آپ کو میں عاشقانہ خط
ردیف ط
ردیف ظ
رکھتا ہے بس کہ ہاتھ گریباں سے اختلاط
عالم ہے مرے بیاں سے محظوظ
میں کیا گر یہ دن اور رات شروع
ردیف ع
ہر اک کی معاش کی ہے اک وضع
جن کے مکاں چمن ہیں وے لوٹیں بہار شمع
ردیف غ
باندھے ہے جب کمر سے مرا خوش خرام تیغ
کبھی جو غصے کے وقت اس کے ہاتھ آئی تیغ
جب اس نے قبضہ پکڑ ہاتھ میں اٹھائی تیغ
مرے سینے کا بن سرخی نہیں داغ
ردیف ف
آتا ہے عجب سج سے وہ کاندھے پہ دھرے تیغ
تھے جو جنوں زدہ گئے زنجیر کی طرف
دیکھا ہے جب سے اس بت خود کام کی طرف
زلفیں رہیں مکھڑے پہ کھل اک اس طرف اک اس طرف
افعی سیاہ ہے تری زلف
ساتھ ساقی کے گیا اپنا تو مے پینے کا لطف
ردیف ق
کس سے کہیئے آہ کیا ہوتا ہے عشق
کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
کسی پر میں نہ یاں از خود کیا عشق
عشق میں اس کے ہوئے ہیں بس کہ ہم رسواے خلق
وے شخص جو کہتے ہیں کہ ہے ذات خدا ایک
ردیف ک
روتے روتے سو گیا ہے یہ دل رنجور ٹک
کہاں ہم اور وہ رونا سحر تک
شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
لاوے تو لاوے اس کے تئیں میرے گھر تلک
ردیف گ
اس نے دیکھا صاف کیا اس دیدۂ پرخوں کا رنگ
رکھتی ہے جو عارض کی ترے جلوہ گری رنگ
امڈے ہیں نین سے آج بادل
ردیف ل
دامن کے تئیں ذرا اٹھا چل
چپ بس بہت ہوئی تری فریاد مبتدل
گو نہ ہاتھ آئے ہمارے ترے رخسار کا پھل
آکر ہماری خاک پہ اس نے چڑھائے گل
کر دیا اس کی کمر نے ہم کو بیمار خیال
دھو گیا تمام ہمارا غبار دل
یوں پڑا رہتا ہے اس ابروے خم دار میں بل
ہر چند ہے وہ نور نظر روبرو سے چشم
جب واقف راہ و روش ناز ہوئے تم
ردیف م
بے نام ونشاں بہت رہے ہم
ایک سے آنکھیں لڑا بیٹھے ہیں ہم
جب تک کہ میں ہوں رہیو مرے روبروے چشم
یوں چلتے ہیں لوگ راہ ظالم
غنچے نے ترے لب سے لیا وام تبسّم
ہے خط یار شب کو نیا لکھ رکھیں گے ہم
سننے پائے نہ دہن اس کے سے دشنام تمام
جوں شمع داغ غم نے جلایا بدن تمام
وہ دن گئے کہ ہم کو کبھی تھا ریا سے کام
ہوتا نہیں ہے یار کا جور و ستم تمام
یا تو گل دیتے تھے چن کر خویش و بیگانے کو ہم
ردیف چ
کیا کریں جاکے گلستاں میں ہم
کچھ اس قدر نہیں سفر ہستی و عدم
نقش نگیں ہے دل میں تو اپنے بتاں کا نام
صیّاد نے ہمیں نہ کیا صید ہے ستم
جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
کیا وصل کی شب کی میں کہوں رات کا عالم
ایک عالم میں کیا تو در بدر میرے تئیں
ردیف ن
ازبس کہ نہیں قرار جی میں
بوے گل لائی ہی آخر شور پر میرے تئیں
کوئی مے بند کرے کوئی پری شیشے میں
اور اگر پھول و پان دیتے ہیں
پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
دنیا میں تیری شکل کا ہووے سو کوئی انساں کہاں
اور سب تم سے ورے بیٹھے ہیں
ایک وہ گالیاں اس شوخ کی کھا رہتے ہیں
ابرو سے کہہ میاں نہ کرے تیغ رانیاں
آنسوؤں سے بس کہ یاں رہتا ہے کار آستیں
جس طرح سب جہاں میں کچھ ہیں
ہم سے کیا کرو نہ میاں تم ٹھٹھولیاں
حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں
اب نت کی سہے تری جفا کون
عاشق ہو مصحفی بھی گر اس کا عجب نہیں
کیا کہیئے کہ کیا ہے یہ دل زار بغل میں
آتا ہے کس کو پیارے راتوں کو خواب تجھ بن
نہ تنہا ہم ہی مثل گل گریباں چاک رہتے ہیں
آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
دن کو تو سن لو میری میں کچھ بات اگر کہوں
عاشق کو ترے چاہیئے کیا ہار گلے میں
کیجیے ظلم سزاوار جفا ہم ہی ہیں
اب میرے تیرے اور ہے کیا یاروں میاں
آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں رؤوں
ازبس کہ چشم ترے بہاریں نکالیاں
اپنی تو ہجر ہی میں کٹیں راتیں کالیاں
کھچ ہماری بھی تمہیں فکر ہے اب یا کہ نہیں
اوروں کی دیدہ بازیاں نظروں میں ٹالیاں
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
سدا خمیازہ ہی کھینچا سدا کرتے رہے آہیں
کہتے ہیں بہرو وفا جس کو جہاں میں وہ نہیں
کون کافر یہ کہے دیدار کی خواہش نہیں
یا نہ ہوتی تھی کبھی اک مژہ ترپانی میں
کھولی زلف اس نے جو ہیں تابہ کمر پانی میں
ٹک سمجھ کر تو نہانے کو اتر پانی میں
جو کھولے بال اپنے وہ بت بے پیر پانی میں
ہماری طر آپ کم دیکھتے ہیں
یا تو رہتا تھا وہ رخ شام و سحر آنکھوں میں
عشق ہے آفت و بلا تو نہیں
مستی میں تف دل سے اگر نالہ کروں میں
قرآں میں نے کسی کی ہم فال دیکھتے ہیں
کیوں کے ہر گل کے تئیں چاک گریباں دیکھوں
دنیاے دوں کی اپنے تئیں چاہ ہی نہیں
ہے نت سر شوریدہ مرا چاک قفس میں
اب مرغ دل اپنا تو ہے صیّاد کے بس میں
جو عاشق ہیں مضموں نیا باندھتے ہیں
نہ ہر دم ہر گھڑی اس ذلت وخواری پہ روتا ہوں
اگر اے برق عالم سوز یہ ہیں تیری اچپلیاں
آرام سے اک دن کبھی ہم بیٹھے نہ گھر میں
شاید کہ ہم سے پھر نگہیں یار کی پھریں
پیچھے لگی وہ زلفیں دل زار کے پھریں
نے محرم قفس نہ شناساے باغ میں
کب ہیں نرگس کہ بہ ایں شوخ ادائی آنکھیں
حرکات اس کی سے نکلیں ہیں ادائیں لاکھوں
کیوں نہ لوں وصل کی شب تیری بلائیں لاکھوں
وہی آہ و فغاں وزاریاں ہیں
نہ تنہا دل میں سو نشتر چھپے ہیں
چقیں پلکوں کی جب اٹھا دی ہیں
خورشید اوج خوبی ماہ سپہر احساں
گر اس روش سے ہو تو سوے چمن خراماں
ہم نہ وہ تاب وتواں رکھتے ہیں
ملا چاہو تم تو بہانے بہت ہیں
ہے بسا گل عذار آنکھوں میں
یار بن شغل مے و جام کے نزدیک نہیں
میں جب اس کو خنجر بکف دیکھتا ہوں
چہرہ اتر رہا ہے نقشے بگڑ گئے ہیں
دیکھا جو زیست غیر میں اس کا سر آستیں
پہنے ہے بر میں جامہ وہ جب چن کر آستیں
بے وفایان جہاں کس سے وفا کرتے ہیں
صبح اٹھ ہم جو در خانہ کو وا کرتے ہیں
اس زلف میں عرق کے قطرے لٹک رہے ہیں
شب ہے اور آشنا کی باتیں ہیں
بال زلفوں کے جب سنوارے ہیں
کبھی جو یار کی پلکیں دو چار ہوتی ہیں
بلبل کے چہچہوں سے آزار کھینچتے ہیں
زبس کہ زلف کا تھا شب خیال میرے تئیں
ہم جن بتوں کی خاطر زنّار باندھتے ہیں
کس مست کی لوہوسی آنکھیں نظر آئیں ہیں
مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
ازبس تری ادائیں مجھ کو کڑھاتیاں ہیں
کوچے میں عافیت کے کہاں بیٹھتا ہوں میں
ہم ترے کوچے سے ناچار چلے جاتے ہیں
غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہماں کہیں
بال بکھرے ہیں کہیں زلف پریشان کہیں
گر ہو طپنچہ بند وہ رشک فرنگیاں
اس گفتگو کا اور ہی انداز ہے سنو
ردیف و
دل ہے لب ریز تمنا دیکھیو
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
بہار گل کی خوبی ہم دل افگاروں سے مت پوچھو
گر اپنا حال غم سے ترے تنگ ہے تو ہو
دیکھ سر تابہ قدم مائل بیداد ہے سرو
آج جو صبح سے تم چیں بہ جبیں بیٹھے ہو
اپنی پیشانی پہ تم مالش صندل نہ کرو
رہنے دو مرے سینے میں پیکاں کو نہ چھیڑو
زلفوں کو کیوں کیا ہے پریشان یہ کہو
تو کہے سو بار اگر اپنی زباں سے دور ہو
ہمارے حال پر اس کی نگاہ کیوں کر ہو
آپھی اکتا کےجو تیرے آستاں سے دور ہو
ہم جی سے خفا بیٹھے ہیں آؤ نہ ادھر کو
نے وہ آپ آوے نہ قاصد درمیاں سے دورہو
نام عشق اب تو لیا اس میں بھلا ہو یا نہ ہو
مجھے کر قتل ناحق آپ کو بدنام کرتے ہو
زبس آٹھوں پہر گھیرے ہی رہتی ہے حیا تجھ کو
جاتا تھا سر رہ سے چلا صبح کہیں کو
گو مجھ پہ فلک تیز کرے خنجر کیں کو
کیا حسن سے اس کے ہو خبر اہل زمیں کو
ٹک مرے حال پر نظر تو کرو
اے دل اک روز ہم اپنا بھی جگر دیکھیں تو
اوروں پہ نہ نیمچہ نکالو
شام تک کرتی ہے تو کیوں کے اثر دیکھیں تو
ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
بزم ہو یار ہو اور شغل مے وجام بھی ہو
چھیڑا ہے کس نے تجھ کو جو چیں بر جبیں ہے تو
دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ
جان ستم رسیدہ آئی ہے لب تلک تو
جو غیر سے ملا ہو وہ ہم سے یار کب ہو
بیچ دنیا کے کچھ آئے نہیں گھر کرنے کو
اک تو آگوہی ترستے تھے نظر کرنے کو
آیا اس کو میں جو میں خاک بہ سر کرنے کو
آپ آئے ہیں ہمیں رخصت اگر کرنے کو
بعد از سالے وما ہے گر کبھو آیا کرو
مستی میں اس کے پاؤں کی افتاد دیکھیو
کوچے میں ترے گو کہ نہ جا اپنے تئیں ہو
ہوا ہے عشق کا اظہار دیکھیے کیا ہو
یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
ردہف ہ
ہم نے چاہا تھا کریں گے رخ جاناں پہ نگاہ
ہم بھی ہیں ترے حسن کے حیران ادھر دیکھ
جس جاگہ نہ ہووے پر و پیکان کاصرفہ
کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
کیا نظر پڑ گئیں وہ چشم خمار آلودہ
ہر چند بہار وباغ ہے یہ
دل کہ جوں شیشۂ مے دیدۂ گریان ہے یہ
جس کو چاہئے اسے اپنا کرے انسان ہے یہ
گر ہوئے ہم سے مکدر ٹک دوچار آئینہ
دیکھتا ہوں اس کو میں ہردم دو چارآئینہ
غیروں ہی کی مجلس میں تو اے بت نہ سدا بیٹھ
کل سوے غیر اس نے کئی بار کی نگاہ
اٹھنے سے ترے شور قیامت بھی گیا بیٹھ
شیریں لب اس صنم کئے ہیں جوں نبات تحفہ
مجھ کو یاروں نے بد و نیک کہا کیا کیا کچھ
عید کا روز ہے کیوں آج نہاں ہے شیشہ
نت رہا سوے چمن مرغ گرفتار کا منہ
دل بستگی ہے مجھ کو گل و گلستاں کے ساتھ
دم بہ دم لب پہ مرے نالۂ وادرد ہے آہ
زمانے کا چلن یکساں نہیں کچھ
اس کی مژگان رخنہ گر کو دیکھ
اپنے عاشق کی چشم تر کو دیکھ
ردہف ی ، ے
زمزمے ہم سے سنو بلبل خوش الحال کے
چمن آراے نو بہار تو دیکھ
تم گھر میں اپنے ہم سے جب منہ چھپا کے بیٹھے
غم میں تیرے راحت و آرام سے جاتے رہے
چتون سے اک تو دل پر آگے ہی بے کلی ہے
ہم کیا کریں چمن میں گر پھر ہوا چلی ہے
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
برقع ہے یہ یا کوئی بلا ہے
دل مرا تیرے غم میں مرتا ہے
کدھر جایئے اور کہاں بیٹھیے
انداز کے صدقے نہ ہم ناز کے صدقے
اس طفل کو دیکھو تو یہ رنگ کسو کا ہے
سب اٹھے بزم سے اور اپنے اپنے گھر کو چلے
یاں ضعف سے یہ گردن زنہار نہیں اٹھتی
ہر چند خال کنج دہن دل کا چور ہے
جس وقت کہ کوٹھے پر وہ ماہ تمام آوے
زلفوں نے تری دیکھ تو کیا کام کیا ہے
اک ایسے ہی وحشی کو مرا رام کیا ہے
دیوار و در اپنے سے اجل آن نہ نکلی
غبغب کی موج جلوہ ذقن میں چرا گئی
اس رشک مہ کو یاد دلاتی ہے چاندنی
حضور عشق سے الفت کا کام کیوں لیجیے
ہم آپھی گر نہ کوچۂ جاناں تلک گئے
کون عہد وفا اس بت سفاک سے باندھے
گلدستہ جو لخت دل صد چاک سے باندھے
جو بند قبا یار کے تاپاک سے باندھے
جب اس بت نے مہندی بھرے ہاتھ دھوئے
جب تک کہ میرے دل میں تری آرزو رہے
رحمت تری اے ناقہ کش محمل حاجی
نہیں کرتی اثر فریاد میری
اس نزاکت پر پھریں ہم کیوں نہ گل کھائے ہوئے
شانے کی عمر گر چہ جدائی میں کٹ گئی
گردن سے میری تیغ جفا گر پلٹ گئی
قدغن ہے کہ در تک کوئی یاں آ نے نہ پاوے
اک پل میں بھلائے سب دکھ درد زمانے کے
جوں تیغ کوش غلاف کل اس کی اگل پڑی
ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
اس کے ہاتھوں سے ہیں سب آئینہ گر فریادی
ہم نہ فرہاد ہیں جو تیشے سے سر چیریں گے
چلتے چلتے جو کمر اس نے ذرا لچکا دی
نظر آتے ہیں پردے تیری آنکھوں کے گلابی سے
دل چیز کیا ہے چاہئے تو جان لیجیے
پان کھا کر گھر سے باہر یوں نہ آیا کیجئے
سیاہی کیا بیاں کیجے تری زلفوں کے بالوں کی
رسائی عرش تک کیوں کر نہ ہوسے اس کے نالوں کی
جب زہ اس کی کمان پر آئی
جی کی دشمن اس کی زلفوں کی پریشانی ہوئی
آئے ہے دل میں خس و خار سے اک ہیبت سی
مجھ سے نسیم قدس بھی پیچھے کہیں رہی
کیا لچک نتھ کی ہے اور کیا ہی ڈلک موتی کی ہے
یہ تیروں کا کس کے نشانہ ہوا ہے
مستی ہے کہ اک ابر دھواں دھار اٹھا ہے
تری چپ تو ہے خصم جانی ہماری
عمر گزری ہے ہمیں نالہ وزاری کرتے
نہ کہیں صبح ہی ہوتی ہے نہ خواب آتا ہے
نے گل کے نہ یاسمن کے صدقے
یاد فندق میں شب اس دل نے جو بیتابی کی
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
ہم تو بیٹھے ہی رہے یار کے در کے آگے
بیٹھا مونڈھے کو بچھا جب وہ در کے آگے
سر اس کے پہ کیا کوئی دستار باندھے
یار کے آکے رہے قریب میرے
نہ ملیے اس سے رہیئے فاصلے سے
ہمیں گالی دینا یہ خو تھی کسو کی
باتوں نے اس کی ہم کو خاموش کر دیا ہے
دامن کی اک جھپک نے مدہوش کر دیا ہے
شب آکے روبرو ہیں بجلی چمک گئی
باغ سرسبز ہے اور آب و ہوا اچھی ہے
اب تلک یار کی ہے چمن جبیں ویسی ہی
پاسباں جاگے ہے دربند ہے مینہ برسے ہے
منظور گر تمہیں بھی تماشا خلق ہے
کوچہ ترا یہ جاے تماشاے خلق ہے
تو بے وفا ہوا تو مروت کہاں رہی
کیا کہوں بات میں اس گریے کی طغیانی کی
خوش حال ان کا وے جو گلستاں میں مر گئے
تصویر یار جب تئیں پیش نظر رہی
کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری لوہے زلف رسا گئی
جب کمر میں کٹار رکھا ہے
نہ غم عاشق رسوا ہے تجھے
دنیا میں دل سے دل کو محبت نہیں رہی
اس سوا اور ہزاروں ہیں تو کیا کام مجھے
ڈرتی نہیں وہ چشم سیہ زاری دل سے
پہنچا ہے زیاں تجھ کو وفاداری دل سے
جب دیکھوں وہ صورت مرے آگے ہی کھڑی ہے
کس گل کی نزاکت یہ مری آنکھ پڑی ہے
دل کیوں کے کریں بیٹھ کے ہم یار سے خالی
لب زخم جگر سیے ہی بنی
سر تری تیغ کو دیے ہی بنی
اب تو اس بزم میں پیارے تمہیں آئے ہی بنی
تو ہرشب نت بغل میں اور کے ہے
بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
روح بلبل چمن میں بھٹکے ہے
گہ خون روئی گاہے لخت جگر نکالے
آغاز صبح ہجر کا انجام دور ہے
مارے گئے کئی ترے اے یار ہاتھ سے
او دامن اٹھا کے جانے والے
پردہ گر درمیاں سے اٹھ جاوے
آنکھوں سے رواں خون دل ریش رہے ہے
جوں ہی ٹک یار کی پیشانی میں چیں پڑتی ہے
عین رقت میں کوئی مجھ سے رکا جاتا ہے
سر دل پر مجھے اک نیشتر معلوم ہوتا ہے
اٹھ گیا ہے وہ ستم دیدہ کہیں مدت سے
تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
جب سے اس شوخ نے شمشیر وسپر باندھی ہے
راہ خدا میں اتنی سعیٔ دم کریں گے
اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
چاہ سی کہیں بلا بھی ہوتی ہے
یوں کرکے مرے لاشۂ قربان کے ٹکڑے
اول تو قفس کا مرے درباز کہاں ہے
اس کی جب بات کان پڑتی ہے
جوں نقش قدم پیارے واں خاک میں جم بیٹھے
اس کے لب مے گوں ہیں سدا کام میں اپنے
خط آچکا پہ ہنوز اس کی آن باقی ہے
دل کو یہ اضطرار کیسا ہے
دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
یہ نہیں پیارے وہ تقریر و بیاں اور ہی ہے
معشوق کی بلا سے پرا خوار ہو کوئی
ہے جی میں تو اپنے کہ وفا کیجیے اس سے
آہ و فغاں ونالہ و زاری
ایسے تم کیا ہو میاں جو تمہیں ہم دیکھیں گے
جب وہ قاتل خرام کرتا ہے
دل غش کردہ مرا زار و نزار اس کا ہے
کیا جانے کب وہ چہرۂ پرنور دیکھیے
نت ضعف سے فتادہ یہ سربرزمین ہے
کوچے میں اس کے کتنوں کا سر برزمین ہے
کوچے کی تیرے خون میں تر اکثر زمین ہے
نہ کرو دیر مرے قتل میں تم آؤ بھی
ہر طرف وہ شمع رو ہے جلوہ آرا دیکھ لے
ہم کو تو اپنا ہی جانا چاہئیے
وصل کی شب جسے کہتے ہیں سو پائی نہ گئی
اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی
کل جوں ہی دابی چشم تر انگشت کے تلے
روتے نت زار زار گزری ہے
آغوش میں کب آکے تم اے یار سو گئے
ہم کو نے دنیا دنے دیں چاہئے
چہرے سے نقاب دور کیجیے
شب ہجر کل بے قراری میں گزری
تری واں تغافل شعاری میں گزری
انداز وناز میں تجھے استاد کر گئے
صورت کے تیری صدقے تصویر ہے تو یہ ہے
غیر کے قابو میں یوں آجائے یار افسوس ہے
ہم رہیں باحسرت وحرماں دو چار افسوس ہے
کرتے نہیں جو داد تو بیداد کیجیے
خاطر کو بند غم سے ٹک آزاد کیجیے
عاشق کو اپنے منع محبت نہ کیجیے
ہے آج تو گلشن میں بہار گل مہندی
اجل کی گھات مری جان ہر کسی پر ہے
شب روتے روتے ہم جو ترے غم میں سوگئے
نظروں سے جب نہاں وہ برودوش ہوگئے
اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
دین و ایمان دل و جان سب تجھے دوں ایسے جی
بتاں وہ مہر ومحبت وہ چاہ بھول گئے
جاویں کدھر کو اب اس تاب وتعب کے مارے
ہوس گریہ سے ہو دل کوئی دم تا خالی
دن رات دل اضطراب میں ہے
معشوقۂ گل نقاب میں ہے
جب مری خاک پہ ٹک بیٹھ کے یار اٹھتاہے
کا ہے کو ترے دام سے آزاد ہو کوئی
سخت نازک ہے ترا موے کمر رشتے سے
جان کر زلف کیا ہم نے حذر رشتے سے
جگر چھن گئے ان کی پلکوں کے ہلتے
ان گرم نگاہوں سے تری کوہ بھی جل جائے
انگشتری جو دے ہے مرے یار پھینک دے
ٹھکراتے طرف دامن بند قبا کو ملتے
تم رات وعدہ کرکے جو ہم سے چلے گئے
یہ تو آواز ہم صفیر ہی ہے
بات سن لے خدا غریبوں کی
لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
تسبیح شیخ میں گو ہوویں ہزار دانے
بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
خبر کچھ نہیں مجھ کو بسمل کی اپنے
پوچھا جو ہم نے اس سے کل تیرا نام کیا ہے
نہا کر جب وہ اپنے سر کے بالوں کے تئیں جھاڑے
گالی سے لب شیریں کو بس تلخ نہ کیجیے
ہر اک نے نگاہوں سے مجھے دال دیا ہے
رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
کس طرح شام فراق اپنی سحر ہوتی ہے
نہ چھو پیارے کہ تیری زلف کا ہر تار نازک ہے
ناتوانی سے تلاش سوختن میں مرگئے
نہ باہر ہی اسے آرام ہے ہر گز نہ گھر ٹھہرے
راہ میں جاتے دو چار اک تازہ آفت ہوگئی
لیتے ہی بوسہ ہوگئے بے زار کس لیے
خیال صید جو وہ عنبریں کمند کرے
کیوں کے مژگاں کو تری تیزی نشتر پہنچے
وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے
جس گلی میں نہ صبا اور نہ کبوتر پہنچے
بوند اشک کی اک تازہ نت آن نکلتی ہے
ہر آن میں گالی دے ہر اک بات میں جھنجلائے
جلوہ گر یار کا قامت ہے خدا خیر کرے
گر جدا ٹک بھی یار ہوتا ہے
گل کترے نہ بلبل مری فریاد کے آگے
ہے تجھ پہ تو زور ہی آن صدقے
ناچار ہو دین و دل اس شوخ کو دے گزرے
فراغت میں بتاں کی صورت دل خواہ یاد آوے
ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
مانی ان ابرووں کی تصویر کھینچتا ہے
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
خط آیا وہ ادا نہ وے اطوار رہ گئے
قد قیام اور خرام آفت ہے
جاکر کہے یہ حرف مرے یار سے کوئی
جب میری طرح تو بھی تکے راہ کسی کی
بیٹھ کر وہ جہاں سے اٹھتا ہے
وے جو ہم لوگوں سے کرتے تھے محبت مر گئے
اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے
تاب کس کی ہے کہ بے پردہ ترا منہ دیکھے
پرواہ تجھے کب ہے میاں جان کسی کی
ہیں یہاں داغ جگر زخم نمایاں کے تلے
دل تڑپتا ہے مرے سینے میں پیکاں کے تلے
جسے تصویر دکھلائی ہے تیری
زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
باغ میں جاکے وہ جب بند قبا کھولے ہے
غزل سرائی میں گر واکراں زباں اپنی
چھاتی پہ لٹکتی نہیں زنجیر طلا کی
جس دم کہ آنکھ میری اس شوخ سے لڑی ہے
بزم سے اٹھے جو ہم بے کل گئے
اے دل تو نہ بھڑ اس سے کہ تیغ اس کی ہے کٹی
رہے جو قبضۂ شمشیر کیں پہ ہاتھ دھرے
خنجر تلے اے دل نہ تڑپ اتنا بھی دم لے
دکھا کر منہ کو چھپ جایا نہ کیجیے
کیا کروں میں جو گلستاں میں بہار آئی ہے
محبت میں صادق یہ اغیار ٹھہرے
برق رخسار یار پھر چمکی
کبھی جو ہجر میں ہم بے قرار ہوتے تھے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
کبھو پلکیں جی میں ڈبا گئے کبھو انکھڑیوں کو لڑا گئے
غرض ان بے وفاؤں سے وفاداری تو مشکل ہے
تیرے سوا کسو کو تمنا نہ چاہیئے
وحشت اگر یہی ہے تو صحرا کو جائیں گے
چمن کے بیچ ہے اب تو بہار عباسی
درد مند دوست بے آہ و فغاں کیوں کر رہے
مگر کہ جذب کی طاقت گئی گریباں سے
گڑے ہیں کشتہ الفت جہاں زمیں کے تلے
اگر بتوں کی تمنا سے دل مرا پھر جائے
قفس میں مرغ گرفتارکیوں پھڑکتا ہے
واں کب سے ذقن اس نے زلفوں میں چھپالی ہے
زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
فندق کہیں بندھی ہے کہیں ہے حنا لگی
رباعیات
جو اشک ان آنکھوں سے جدا ہوتا ہے
اے کہ ہم بزمی اغیار آئی ہے تجھے
مسدس
مخمس
پروانے اور شمع میں چاہت نہیں رہی
مخمس بر غزل آصفی
جب سے ہوا ہے مجھ سے وہ پیماں شکن جدا
زبس آئینہ رو ہے طفل حجام
مثنوی در بیان ہجو پسر حجام
مثنوی در بیان ہجو چار پائی
یہ جو ہم پاس چاپائی ہے
کیا کروں وصف تیرے اجوائن
مثنوی در صفت اجوائن
تتمۂ نسخۂ رام پور
سرورق
فہرست
پیش گفتار
مقدمہ
لگے گر ہاتھ میرے تار اس زلف معنبر کا
روز رومال نیا دیدۂ تر پر رکھا
خداوندانہیں مشتاق میں سرد و صنوبر کا
جب سر انگشت کو میں دیدۂ تر پر رکھا
شب جو اس نے قدم اپنا مرے سر پر رکھا
سو سو طرح کا حادثہ تجھ پر گزر چکا
آج کچھ سینے میں دل ہے خود بخود بیتاب سا
جی جائے گا رایگاں کسی کا
شب کہ دل درد والم سے سر بسر لبریز تھا
عاشق بے دل تو مشتاق نگاہ تیز تھا
جب سر زلف صنم خم کھا گیا
کچھ اعتماد ان کے نہیں ارتباط کا
جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا
کام دل اپنا تو ہر گز نہ بتاں سے نکلا
ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آگیا
دل تجھ کو دیا لے میرا غم خوار یہی تھا
گر اس منھ سے برقع کبھی کھل گیا
اب تو پھر کوچے میں اس کے شوروشر رہنے لگا
کیا جانے کیا کرے گا یہ دیدار دیکھنا
ٹک دیکھتا تو جا ترا بسمل کدھر چلا
صحبت میں غیر کی نہ مرے یار بیٹھنا
رونے سے سوز داغ جگر دور ہو گیا
دل ودماغ تھا کب ہم کو ایسی ذلّت کا
پاس وفا بتاں سے زبس دور ہو گیا
مرا زخم جگر کاری ہے اس مرہم سے کیا ہوگا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ملنے کا اس کے جب کبھی کچھ ہم نے ڈھب کیا
میں نے کس چشم کے افسانے کو آغاز کیا
گو زخمی ہیں ہم پر اسے کیا غم ہے ہمارا
ہر بات کے کہنے میں جو جاں کن ہے ہمارا
تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا
اس کو منظور یاں نہ آنا تھا
جامے کے بند جب وہ گلشن میں واکرے گا
ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
کشور دل کو خدا جانے یہ کس نے لوٹا
نقاب افگندہ ازرخ جس طرف شب کو وہ جانکلا
مجھے کر قتل ناحق دل ربا کے ہاتھ کیا آیا
شرمندہ نہ تھا نالۂ شب گیر اثر کا
تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
یہ چاک گریباں تو داماں سے گزرا
احوال پریشاں ہے گلستاں میں صبا کا
زلفوں سے اس کی میں نے جس دن کہ ہاتھ دھویا
اے عشق تو کام دل ناکام نہ دینا
کل ہمیں اس کی طرف کو شوق رہبر ہوگیا
جانشیں رخ پر ترے خطّ معنبر ہوگیا
جب اس گل نازک کا دیدار نظر آیا
کنج قفس میں جو کوئی مر گیا
عشق مجھے اہل بصر کر گیا
موسم گل کوچ مگر کر گیا
دن رات نپٹ غم سے ترے نالہ کناں تھا
غیر ہی کو نت فلک نے اس کا ہم پہلو کیا
جس کے نہ لگا زخم تری کج نظری کا
پونچھ کر آنکھوں کا کاجل یوں نہ بالوں سے لگا
کب میں نے کہا تو مجھے دیدار دکھا جا
کوئی ہمیشہ گرفتار غم نہیں ہوتا
جن روزوں کہ رنگ آنکھوں کا اپنی جگری تھا
نظر آتا ہے یہ لونڈا مجھے ہرجائی سا
جدھر دیکھو ادھر چرچا ہے ان ہنگامہ سازوں کا
آگے مرے کسی نے ترا نام اگر لیا
ہائے کیا کیجیے اس جامۂ عریانی کا
زیادہ قصیدہ نہ کر عاشق آزمائی کا
چھپایا تم نے منھ ایسا کہ بس جی ہی جلا ڈالا
قاصد جب اس کے پاس مرا نامہ لے گیا
تو جس شب کہ جا غیر کے پاس سویا
جوں سا یہ اس کے پیچھے میں برسوں لگا پھرا
مرا دل گیا جب سے زلفوں میں کھویا
منھ دیکھ کے یار آرسی کا
زلفوں کی درہمی نے برہم جہان مارا
ذرا ہم سے بھی ملتے جایئے گا
یہ قطرہ اشک نے مژگاں سے تار باندھ دیا
بس کہ ہر دم چاک تازہ میں گریباں میں دیا
درمیاں میں نقاب کس دن تھا
خط ترا مشک تاب کس دن تھا
دل چرانا یہ کام ہے تیرا
میرا زانو دبا کے اٹھ جانا
ہے لالہ گوں شفق سے دامن جو آسماں کا
عالم ہمیں خوش آیا ازبس کہ اس جہاں کا
مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
بھٹکا پھرے ہے تیری دل اک ادا کا مارا
عارض نہ تری زلف پریشان میں دیکھا
آویزۂ لعل اس کے جو میں کان میں دیکھا
آتا ہے یاد مجھ کو خوں خوار کا لپٹنا
ہجوم گر یہ زبس رات چشم تر میں رہا
وہ حسن جاتا رہا اس کا وہ گلو نہ رہا
وہ عشق و ولولہ وشورہاے وہو نہ رہا
دیدۂ بے دید دشمن ہو گیا
ہو کیوں نہ تشنۂ خوں وہ ہم سے بے کسوں کا
دوست تھا ا پنا سو دشمن ہوگیا
میاں تم ہم سے نت کرتے ہو رم کیا
ترچھے قدم کے پڑتے کل جوں قد اس کا لچکا
برہم زن تقریر نہیں پیروجواں کا
خط گرد ہے چہرے کے ترے ناد علی سا
جب کوہ و بیاباں میں جا ہم نے قدم مارا
دشنام سو سنیں لب خوباں سے کیا کیا
گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
جو رنگ بدلے ٹک اس چرخ آب نوسی کا
نہیں زلفوں کی تری بے سروپائی کا گلا
کتنوں کو تونے شوخ کماں کش الٹ دیا
فسانہ اک طرف شب ہائے ہجراں کی درازی کا
کس رات میں اس فکر سے تاصبح نہ جاگا
کس سے سیکھا ہے میاں تم نے مٹک کر چلنا
آکے جب پاس مرے وہ گل تر بیٹھ گیا
کل دیکھ کے مجھ کو جو سر رہ سے وہ بھاگا
ناتوانی نے کیا اب تو ہمیں بے دست و پا
پس گئے اہل زمیں یوں آسماں کے زیر پا
روکے ان آنکھوں نے دریا کردیا
اس نے جب بند قبا وا کر دیا
جب عارض گل رنگ سے خط اس نے نکالا
ہر اشک ہے مری چشم پر آب میں دریا
گزر ہو کیوں کے وہاں صبح وشام عاشق کا
کبھی تو ہنس کے لیا کر تو نام عاشق کا
تیرے ہاتھوں سے میاں دل مرا بن کر ٹوٹا
آج کیا جانے مری کون نظر سے گزرا
اس راہ سے جو ہو کر کل تو ذرا نہ گزرا
کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
کیا دخل ہے جاکر ہمیں اس کو میں بھٹکنا
اب اوروں سے کی گرم صحبت بھلا
دیر تک اپنے شہیدوں پہ نظر کرنا تھا
اک برق کا سا جھمکا اس مہ لقا سے دیکھا
پاؤں بے طرح پھر اس شوخ پسر کا نکلا
کل اس کو باتیں کرتے اک آشنا سے دیکھا
عاشق ہوں مجھ کو ڈر نہیں روز وفات کا
مجھ کو زلفوں سے تری پیار وہی ہے جو تھا
صورت کو تیری دیکھ کے مانی نے رودیا
ازل کے روز سے سر رشتہ گم تھا زار رونے کا
معالج ہو سکے اب کیا کوئی غمخوار رونے کا
تری کو سے مرکر یہ بے جان نکلا
اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان رہ گیا
کل میں جو راہ میں اسے پہچان رہ گیا
جس کشتے کا زخموں میں ہو چور بدن سارا
آپھی دم شمشیر ہے یاں ہم پہ دم اپنا
دائے وہ زخمی کہ سنبھلا اور سنبھل کر رہ گیا
شمع پر پروانہ شب جس وقت جل کر رہ گیا
قدم اس دھج سے کچھ پڑتا ہے اس غارت گرجاں کا
خدا جانے یہ دل کشتہ ہے کس انداز داماں کا
ان آہوں سے حجاب اس آسماں کا اٹھ نہیں سکتا
یہ خیال اک دن اسی صورت فزوں ہو جائے گا
ساقی شراب لایا مطرب رباب لایا
جی رات لبوں پہ آرہا تھا
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
یہ چیرۂ بل دار نہ دیکھا تھا سودیکھا
قاصد کبھی ہمارا دلدار تک نہ پہنچا
کریں گے خواب راحت یا یہی جنجال ہووے گا
ہجراں میں بس کہ مجھ پہ عذاب الیم تھا
نام مت لے تو گھر کے جانے کا
اٹھائے زخم اتنے کس نے میرا سا جگر کس کا
پاؤں گر رکھ نہیں سکتا ہے تو در پر اپنا
سینہ جلتا ہے تب عشق سے اکثر اپنا
ردیف ب
نوح کا یہ نہیں طوفاں کہ زمیں جاوے ڈوب
شب کیا میں نے جو اک نالۂ زار آخر شب
مجھ کو صحبت ہے سر زلف سے اب آخر شب
پاؤں اس دھج سے تو رکھو نہ زمیں پر صاحب
صاد سے چشم تو ہے زلف دوتا دال سے خوب
یہ خستہ تمام ہو چکا اب
بال و پر باز کیا چاہیئے اب
لو اب اس دل کو تمہیں آگ لگاؤ صاحب
بات میں ہو گئے خفا صاحب
سج کرکے جو آج آئے ہیں شمشیر و سپر آپ
ردیف پ
ردیف ت
ہو جس جگہ نہ ناوک تقدیر کی نشست
ہو جس کے دل میں داغ غم یار کی نشست
دل جانے ہے اس ابروے خم دار کی نشست
ایسا بھی کوئی کرے ہے خلل ملک دیں میں بہت
رہا یہ دل تو بیمار محبت
برا ہوتا ہے اظہار محبت
جگر میں کھٹکے ہے خار محبت
نہ کر تو مجھ سے انکار محبت
اس کی ابرو سے کچھ آئی نہ تھی دو چار کی موت
زبس کہ گریہ سے فرصت ہمیں نہیں دن رات
جب سے کافر نے سنی ہے کسی بد ذات کی بات
ہم کو گر رکھا زمیں میں دیدۂ گریاں سمیت
اشک سے میرے بچے ہمسایہ کیوں کر گھر سمیت
بس کہ گرم گریہ تھا دل رات چشم تر سمیت
سو دل سے تیرے تیر کا گزرا ہے سر درست
کچھ مجھ سے ان دنوں نہیں اس کی نظر درست
اور یاں پیروجواں جتنے ہیں ہیں پیر پرست
جب سے جدا ہوا ہے تو اے مایۂ حیات
گرچہ جوں آئینہ اول تھا یہ دل حیرت پرست
مرے خوں کا پیاسا وہ قاتل رہانت
بدنام کیا میں نے عبث نام محبت
جس میں ہم دیکھیں تھے ہر آن خدا کی قدرت
عاشق وہی کہ جس کے آنسو بہا کریں نت
نہیں آیا ہمارے پاس اب تک یار کیا باعث
ردیف ث
عنقا ملا ہے کس کو دلا جستجو عبث
پڑتی ہی نہیں اس دل بیتاب کو کل آج
ردیف ج
قاتل مرے یاروں کو نہ خط سادہ لکھا بھیج
بڑھ گئی بیماریٔ دل کیجیے یارب کیا علاج
رکھتا ہوں ایک میں تو ترے غم کی احتیاج
روم دیتا ہے اس کے رخ کوباج
تجھ سے میں یہ نہیں کہتا کہ تو تلوار نہ کھینچ
یوں ہے عارض کی جھلک زلف پریشان کے بیچ
کب کا اک عمر سے جھگڑا تھا دل و جان کے بیچ
اک دن جو لے گئی مجھے وحشت چمن کے بیچ
دھجّیاں پانووں سے باندھیں ہم نے اس منزل کے بیچ
سحر ہے رخ پر تری زلفوں کے بل کھانے کی طرح
ردیف ح
دیکھ اس رشک پری کے باغ میں آنے کی طرح
شہر آتا ہے نظر پر گرد ویرانے کی طرح
شاخ گل گو کہ لچکتی ہے قد یار کی طرح
کہتا ہے کون ہاتھ ہیں اس کے حنا سے سرخ
ردیف خ
لگائے ہاتھ کوئی اس بدن کو کیا گستاخ
مہندی سے دست یار سپید و سیاہ و سرخ
تھی آب دم اس کے میں میاں بس کہ بلا سرد
ہر چند رہی نت ترے کوچے کی ہوا سرد
ردیف د
غیر سے آشنائیاں تاچند
دانتوں کے روبرو ہوئی سلگ گہر سپید
اے دل سپیدی آئی ہوئے موے سر سپید
نہ تو مے لعل یار کے مانند
زلف ہے گرچہ مار کے مانند
کیے جس ڈھب سے اس نے چاک دربند
کیا عالم کے منہ پر جس نے در بند
بہت کیں ہم نے اپنی چشم تر بند
پھڑک کر کیا کرے وہ مرغ پر بند
اگر کھولے چمن میں اپنے تو بند
کیے اس گل نے جوں جامے کے وابند
کہاں تلک پھریں اڑتے ادھر ادھر صیّاد
ردیف ذ
ہم نے بھیجا جو کبھی یار کو لکھ کر کاغذ
کیا غم مجھے گو ہووے قفس کا مرے در بند
شوق سے لکھیے اگر جانب جاناں کاغذ
کہتے ہیں وصل کی شب جس کو سو وہ رات ہے شاذ
بہار گل نہ رہی اس قدر چمن میں دیر
ردیف ر
اس تیغ زن کو یارو مرے دل سے کیا خبر
آخر گئے ہی تجھ کو وہ بے وفا سمجھ کر
راتوں کو تو گلیوں میں نہ اے ماہ لقا پھر
سر کھول کے کافر نہ نہا نہر کے اوپر
ہے اس کی آئینے میں خط و خال پر نظر
یار یہ دونوں اگر کم ہوں تو کم ہی بہتر
مقتل میں لائی جب مجھے تقدیر کھینچ کر
لائی تو یاں تلک مجھے تقدیر کھینچ کر
یوں کہہ کے گیا دل تو مجھے یاد کیا کر
اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
باندھ آیا تھا کمر وہ دشمن جاں کھینچ کر
کندن سے نورتن کی پھبن دیکھ ڈنڈ پر
منہ سے برقع کو مری جاں نہ اتارا آخر
جس بت نے نہ باندھا کبھی زنّار کمر پر
تیروں پہ تیر کھا کر زخموں پہ زخم اٹھا کر
یہ دلّی کا نقشہ سنوارا زمیں پر
گر اب کی ہو جیے گل و سرد و سمن سے دور
زلف کا چھٹنا ترے رخسار پر
پتھر پہ جب گرے ترے ہاتھوں سے چھوٹ کر
شاید ہوئی نہیں مری حاجت روا ہنوز
ردیف ز
ہے دلبروں میں تو ہی عاشقوں کا اک خوں ریز
وہی ٹھوکر ہے اور وہی انداز
بادل سے برستے ہیں مرے دیدۂ تر روز
آچکا خط پہ سر مو نہ گیا ناز ہنوز
ردیف س
روکش ہے ترے حسن سے نے زہرہ نہ برحبیں
پہلو ہے مرا گرم بہ فرش پر طاؤس
نیرنگی ہے کس کی یہ چمن گستر طاؤس
یار کرتا نہیں نگاہ افسوس
اٹھ گیا بن کہے ہی یار افسوس
کیوں ترا مبتلا کیا افسوس
نقص طالع سے دیجیے کس کو دوس
کیوں نہ یہ زلف پھبے اب ترے رخسار کے پاس
کون آتا ہے عیادت کو دل زار کے پاس
نہیں دل دار کوئی ہووے دل آزار ہی کاش
ردیف ش
وقفہ اسے پیک نگہ دیدۂ تر ہے در پیش
کرے ہے جوں جوں اپنے حسن کی وہ شوخ آرایش
بھڑکے ہے تب عشق کی دل میں غضب آتش
دانستہ کیا جس نے مرا نام فراموش
جنت کی تمنّا ہے نہ گلزار کی خواہش
رکھتا ہوں میں تجھ سے جی سے اخلاص
ردیف ص
کچھ خط ہی نہیں فداے عارض
پاس اپنے تو اسے یارو نے سیم نہ زر خالص
ردیف ض
دیکھ آئینے میں اپنی وہ بہار عارض
کس دن لکھا تھا آپ کو میں عاشقانہ خط
ردیف ط
ردیف ظ
رکھتا ہے بس کہ ہاتھ گریباں سے اختلاط
عالم ہے مرے بیاں سے محظوظ
میں کیا گر یہ دن اور رات شروع
ردیف ع
ہر اک کی معاش کی ہے اک وضع
جن کے مکاں چمن ہیں وے لوٹیں بہار شمع
ردیف غ
باندھے ہے جب کمر سے مرا خوش خرام تیغ
کبھی جو غصے کے وقت اس کے ہاتھ آئی تیغ
جب اس نے قبضہ پکڑ ہاتھ میں اٹھائی تیغ
مرے سینے کا بن سرخی نہیں داغ
ردیف ف
آتا ہے عجب سج سے وہ کاندھے پہ دھرے تیغ
تھے جو جنوں زدہ گئے زنجیر کی طرف
دیکھا ہے جب سے اس بت خود کام کی طرف
زلفیں رہیں مکھڑے پہ کھل اک اس طرف اک اس طرف
افعی سیاہ ہے تری زلف
ساتھ ساقی کے گیا اپنا تو مے پینے کا لطف
ردیف ق
کس سے کہیئے آہ کیا ہوتا ہے عشق
کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
کسی پر میں نہ یاں از خود کیا عشق
عشق میں اس کے ہوئے ہیں بس کہ ہم رسواے خلق
وے شخص جو کہتے ہیں کہ ہے ذات خدا ایک
ردیف ک
روتے روتے سو گیا ہے یہ دل رنجور ٹک
کہاں ہم اور وہ رونا سحر تک
شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
لاوے تو لاوے اس کے تئیں میرے گھر تلک
ردیف گ
اس نے دیکھا صاف کیا اس دیدۂ پرخوں کا رنگ
رکھتی ہے جو عارض کی ترے جلوہ گری رنگ
امڈے ہیں نین سے آج بادل
ردیف ل
دامن کے تئیں ذرا اٹھا چل
چپ بس بہت ہوئی تری فریاد مبتدل
گو نہ ہاتھ آئے ہمارے ترے رخسار کا پھل
آکر ہماری خاک پہ اس نے چڑھائے گل
کر دیا اس کی کمر نے ہم کو بیمار خیال
دھو گیا تمام ہمارا غبار دل
یوں پڑا رہتا ہے اس ابروے خم دار میں بل
ہر چند ہے وہ نور نظر روبرو سے چشم
جب واقف راہ و روش ناز ہوئے تم
ردیف م
بے نام ونشاں بہت رہے ہم
ایک سے آنکھیں لڑا بیٹھے ہیں ہم
جب تک کہ میں ہوں رہیو مرے روبروے چشم
یوں چلتے ہیں لوگ راہ ظالم
غنچے نے ترے لب سے لیا وام تبسّم
ہے خط یار شب کو نیا لکھ رکھیں گے ہم
سننے پائے نہ دہن اس کے سے دشنام تمام
جوں شمع داغ غم نے جلایا بدن تمام
وہ دن گئے کہ ہم کو کبھی تھا ریا سے کام
ہوتا نہیں ہے یار کا جور و ستم تمام
یا تو گل دیتے تھے چن کر خویش و بیگانے کو ہم
ردیف چ
کیا کریں جاکے گلستاں میں ہم
کچھ اس قدر نہیں سفر ہستی و عدم
نقش نگیں ہے دل میں تو اپنے بتاں کا نام
صیّاد نے ہمیں نہ کیا صید ہے ستم
جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
کیا وصل کی شب کی میں کہوں رات کا عالم
ایک عالم میں کیا تو در بدر میرے تئیں
ردیف ن
ازبس کہ نہیں قرار جی میں
بوے گل لائی ہی آخر شور پر میرے تئیں
کوئی مے بند کرے کوئی پری شیشے میں
اور اگر پھول و پان دیتے ہیں
پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
دنیا میں تیری شکل کا ہووے سو کوئی انساں کہاں
اور سب تم سے ورے بیٹھے ہیں
ایک وہ گالیاں اس شوخ کی کھا رہتے ہیں
ابرو سے کہہ میاں نہ کرے تیغ رانیاں
آنسوؤں سے بس کہ یاں رہتا ہے کار آستیں
جس طرح سب جہاں میں کچھ ہیں
ہم سے کیا کرو نہ میاں تم ٹھٹھولیاں
حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں
اب نت کی سہے تری جفا کون
عاشق ہو مصحفی بھی گر اس کا عجب نہیں
کیا کہیئے کہ کیا ہے یہ دل زار بغل میں
آتا ہے کس کو پیارے راتوں کو خواب تجھ بن
نہ تنہا ہم ہی مثل گل گریباں چاک رہتے ہیں
آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
دن کو تو سن لو میری میں کچھ بات اگر کہوں
عاشق کو ترے چاہیئے کیا ہار گلے میں
کیجیے ظلم سزاوار جفا ہم ہی ہیں
اب میرے تیرے اور ہے کیا یاروں میاں
آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں رؤوں
ازبس کہ چشم ترے بہاریں نکالیاں
اپنی تو ہجر ہی میں کٹیں راتیں کالیاں
کھچ ہماری بھی تمہیں فکر ہے اب یا کہ نہیں
اوروں کی دیدہ بازیاں نظروں میں ٹالیاں
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
سدا خمیازہ ہی کھینچا سدا کرتے رہے آہیں
کہتے ہیں بہرو وفا جس کو جہاں میں وہ نہیں
کون کافر یہ کہے دیدار کی خواہش نہیں
یا نہ ہوتی تھی کبھی اک مژہ ترپانی میں
کھولی زلف اس نے جو ہیں تابہ کمر پانی میں
ٹک سمجھ کر تو نہانے کو اتر پانی میں
جو کھولے بال اپنے وہ بت بے پیر پانی میں
ہماری طر آپ کم دیکھتے ہیں
یا تو رہتا تھا وہ رخ شام و سحر آنکھوں میں
عشق ہے آفت و بلا تو نہیں
مستی میں تف دل سے اگر نالہ کروں میں
قرآں میں نے کسی کی ہم فال دیکھتے ہیں
کیوں کے ہر گل کے تئیں چاک گریباں دیکھوں
دنیاے دوں کی اپنے تئیں چاہ ہی نہیں
ہے نت سر شوریدہ مرا چاک قفس میں
اب مرغ دل اپنا تو ہے صیّاد کے بس میں
جو عاشق ہیں مضموں نیا باندھتے ہیں
نہ ہر دم ہر گھڑی اس ذلت وخواری پہ روتا ہوں
اگر اے برق عالم سوز یہ ہیں تیری اچپلیاں
آرام سے اک دن کبھی ہم بیٹھے نہ گھر میں
شاید کہ ہم سے پھر نگہیں یار کی پھریں
پیچھے لگی وہ زلفیں دل زار کے پھریں
نے محرم قفس نہ شناساے باغ میں
کب ہیں نرگس کہ بہ ایں شوخ ادائی آنکھیں
حرکات اس کی سے نکلیں ہیں ادائیں لاکھوں
کیوں نہ لوں وصل کی شب تیری بلائیں لاکھوں
وہی آہ و فغاں وزاریاں ہیں
نہ تنہا دل میں سو نشتر چھپے ہیں
چقیں پلکوں کی جب اٹھا دی ہیں
خورشید اوج خوبی ماہ سپہر احساں
گر اس روش سے ہو تو سوے چمن خراماں
ہم نہ وہ تاب وتواں رکھتے ہیں
ملا چاہو تم تو بہانے بہت ہیں
ہے بسا گل عذار آنکھوں میں
یار بن شغل مے و جام کے نزدیک نہیں
میں جب اس کو خنجر بکف دیکھتا ہوں
چہرہ اتر رہا ہے نقشے بگڑ گئے ہیں
دیکھا جو زیست غیر میں اس کا سر آستیں
پہنے ہے بر میں جامہ وہ جب چن کر آستیں
بے وفایان جہاں کس سے وفا کرتے ہیں
صبح اٹھ ہم جو در خانہ کو وا کرتے ہیں
اس زلف میں عرق کے قطرے لٹک رہے ہیں
شب ہے اور آشنا کی باتیں ہیں
بال زلفوں کے جب سنوارے ہیں
کبھی جو یار کی پلکیں دو چار ہوتی ہیں
بلبل کے چہچہوں سے آزار کھینچتے ہیں
زبس کہ زلف کا تھا شب خیال میرے تئیں
ہم جن بتوں کی خاطر زنّار باندھتے ہیں
کس مست کی لوہوسی آنکھیں نظر آئیں ہیں
مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
ازبس تری ادائیں مجھ کو کڑھاتیاں ہیں
کوچے میں عافیت کے کہاں بیٹھتا ہوں میں
ہم ترے کوچے سے ناچار چلے جاتے ہیں
غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہماں کہیں
بال بکھرے ہیں کہیں زلف پریشان کہیں
گر ہو طپنچہ بند وہ رشک فرنگیاں
اس گفتگو کا اور ہی انداز ہے سنو
ردیف و
دل ہے لب ریز تمنا دیکھیو
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
بہار گل کی خوبی ہم دل افگاروں سے مت پوچھو
گر اپنا حال غم سے ترے تنگ ہے تو ہو
دیکھ سر تابہ قدم مائل بیداد ہے سرو
آج جو صبح سے تم چیں بہ جبیں بیٹھے ہو
اپنی پیشانی پہ تم مالش صندل نہ کرو
رہنے دو مرے سینے میں پیکاں کو نہ چھیڑو
زلفوں کو کیوں کیا ہے پریشان یہ کہو
تو کہے سو بار اگر اپنی زباں سے دور ہو
ہمارے حال پر اس کی نگاہ کیوں کر ہو
آپھی اکتا کےجو تیرے آستاں سے دور ہو
ہم جی سے خفا بیٹھے ہیں آؤ نہ ادھر کو
نے وہ آپ آوے نہ قاصد درمیاں سے دورہو
نام عشق اب تو لیا اس میں بھلا ہو یا نہ ہو
مجھے کر قتل ناحق آپ کو بدنام کرتے ہو
زبس آٹھوں پہر گھیرے ہی رہتی ہے حیا تجھ کو
جاتا تھا سر رہ سے چلا صبح کہیں کو
گو مجھ پہ فلک تیز کرے خنجر کیں کو
کیا حسن سے اس کے ہو خبر اہل زمیں کو
ٹک مرے حال پر نظر تو کرو
اے دل اک روز ہم اپنا بھی جگر دیکھیں تو
اوروں پہ نہ نیمچہ نکالو
شام تک کرتی ہے تو کیوں کے اثر دیکھیں تو
ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
بزم ہو یار ہو اور شغل مے وجام بھی ہو
چھیڑا ہے کس نے تجھ کو جو چیں بر جبیں ہے تو
دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ
جان ستم رسیدہ آئی ہے لب تلک تو
جو غیر سے ملا ہو وہ ہم سے یار کب ہو
بیچ دنیا کے کچھ آئے نہیں گھر کرنے کو
اک تو آگوہی ترستے تھے نظر کرنے کو
آیا اس کو میں جو میں خاک بہ سر کرنے کو
آپ آئے ہیں ہمیں رخصت اگر کرنے کو
بعد از سالے وما ہے گر کبھو آیا کرو
مستی میں اس کے پاؤں کی افتاد دیکھیو
کوچے میں ترے گو کہ نہ جا اپنے تئیں ہو
ہوا ہے عشق کا اظہار دیکھیے کیا ہو
یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
ردہف ہ
ہم نے چاہا تھا کریں گے رخ جاناں پہ نگاہ
ہم بھی ہیں ترے حسن کے حیران ادھر دیکھ
جس جاگہ نہ ہووے پر و پیکان کاصرفہ
کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
کیا نظر پڑ گئیں وہ چشم خمار آلودہ
ہر چند بہار وباغ ہے یہ
دل کہ جوں شیشۂ مے دیدۂ گریان ہے یہ
جس کو چاہئے اسے اپنا کرے انسان ہے یہ
گر ہوئے ہم سے مکدر ٹک دوچار آئینہ
دیکھتا ہوں اس کو میں ہردم دو چارآئینہ
غیروں ہی کی مجلس میں تو اے بت نہ سدا بیٹھ
کل سوے غیر اس نے کئی بار کی نگاہ
اٹھنے سے ترے شور قیامت بھی گیا بیٹھ
شیریں لب اس صنم کئے ہیں جوں نبات تحفہ
مجھ کو یاروں نے بد و نیک کہا کیا کیا کچھ
عید کا روز ہے کیوں آج نہاں ہے شیشہ
نت رہا سوے چمن مرغ گرفتار کا منہ
دل بستگی ہے مجھ کو گل و گلستاں کے ساتھ
دم بہ دم لب پہ مرے نالۂ وادرد ہے آہ
زمانے کا چلن یکساں نہیں کچھ
اس کی مژگان رخنہ گر کو دیکھ
اپنے عاشق کی چشم تر کو دیکھ
ردہف ی ، ے
زمزمے ہم سے سنو بلبل خوش الحال کے
چمن آراے نو بہار تو دیکھ
تم گھر میں اپنے ہم سے جب منہ چھپا کے بیٹھے
غم میں تیرے راحت و آرام سے جاتے رہے
چتون سے اک تو دل پر آگے ہی بے کلی ہے
ہم کیا کریں چمن میں گر پھر ہوا چلی ہے
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
برقع ہے یہ یا کوئی بلا ہے
دل مرا تیرے غم میں مرتا ہے
کدھر جایئے اور کہاں بیٹھیے
انداز کے صدقے نہ ہم ناز کے صدقے
اس طفل کو دیکھو تو یہ رنگ کسو کا ہے
سب اٹھے بزم سے اور اپنے اپنے گھر کو چلے
یاں ضعف سے یہ گردن زنہار نہیں اٹھتی
ہر چند خال کنج دہن دل کا چور ہے
جس وقت کہ کوٹھے پر وہ ماہ تمام آوے
زلفوں نے تری دیکھ تو کیا کام کیا ہے
اک ایسے ہی وحشی کو مرا رام کیا ہے
دیوار و در اپنے سے اجل آن نہ نکلی
غبغب کی موج جلوہ ذقن میں چرا گئی
اس رشک مہ کو یاد دلاتی ہے چاندنی
حضور عشق سے الفت کا کام کیوں لیجیے
ہم آپھی گر نہ کوچۂ جاناں تلک گئے
کون عہد وفا اس بت سفاک سے باندھے
گلدستہ جو لخت دل صد چاک سے باندھے
جو بند قبا یار کے تاپاک سے باندھے
جب اس بت نے مہندی بھرے ہاتھ دھوئے
جب تک کہ میرے دل میں تری آرزو رہے
رحمت تری اے ناقہ کش محمل حاجی
نہیں کرتی اثر فریاد میری
اس نزاکت پر پھریں ہم کیوں نہ گل کھائے ہوئے
شانے کی عمر گر چہ جدائی میں کٹ گئی
گردن سے میری تیغ جفا گر پلٹ گئی
قدغن ہے کہ در تک کوئی یاں آ نے نہ پاوے
اک پل میں بھلائے سب دکھ درد زمانے کے
جوں تیغ کوش غلاف کل اس کی اگل پڑی
ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
اس کے ہاتھوں سے ہیں سب آئینہ گر فریادی
ہم نہ فرہاد ہیں جو تیشے سے سر چیریں گے
چلتے چلتے جو کمر اس نے ذرا لچکا دی
نظر آتے ہیں پردے تیری آنکھوں کے گلابی سے
دل چیز کیا ہے چاہئے تو جان لیجیے
پان کھا کر گھر سے باہر یوں نہ آیا کیجئے
سیاہی کیا بیاں کیجے تری زلفوں کے بالوں کی
رسائی عرش تک کیوں کر نہ ہوسے اس کے نالوں کی
جب زہ اس کی کمان پر آئی
جی کی دشمن اس کی زلفوں کی پریشانی ہوئی
آئے ہے دل میں خس و خار سے اک ہیبت سی
مجھ سے نسیم قدس بھی پیچھے کہیں رہی
کیا لچک نتھ کی ہے اور کیا ہی ڈلک موتی کی ہے
یہ تیروں کا کس کے نشانہ ہوا ہے
مستی ہے کہ اک ابر دھواں دھار اٹھا ہے
تری چپ تو ہے خصم جانی ہماری
عمر گزری ہے ہمیں نالہ وزاری کرتے
نہ کہیں صبح ہی ہوتی ہے نہ خواب آتا ہے
نے گل کے نہ یاسمن کے صدقے
یاد فندق میں شب اس دل نے جو بیتابی کی
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
ہم تو بیٹھے ہی رہے یار کے در کے آگے
بیٹھا مونڈھے کو بچھا جب وہ در کے آگے
سر اس کے پہ کیا کوئی دستار باندھے
یار کے آکے رہے قریب میرے
نہ ملیے اس سے رہیئے فاصلے سے
ہمیں گالی دینا یہ خو تھی کسو کی
باتوں نے اس کی ہم کو خاموش کر دیا ہے
دامن کی اک جھپک نے مدہوش کر دیا ہے
شب آکے روبرو ہیں بجلی چمک گئی
باغ سرسبز ہے اور آب و ہوا اچھی ہے
اب تلک یار کی ہے چمن جبیں ویسی ہی
پاسباں جاگے ہے دربند ہے مینہ برسے ہے
منظور گر تمہیں بھی تماشا خلق ہے
کوچہ ترا یہ جاے تماشاے خلق ہے
تو بے وفا ہوا تو مروت کہاں رہی
کیا کہوں بات میں اس گریے کی طغیانی کی
خوش حال ان کا وے جو گلستاں میں مر گئے
تصویر یار جب تئیں پیش نظر رہی
کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری لوہے زلف رسا گئی
جب کمر میں کٹار رکھا ہے
نہ غم عاشق رسوا ہے تجھے
دنیا میں دل سے دل کو محبت نہیں رہی
اس سوا اور ہزاروں ہیں تو کیا کام مجھے
ڈرتی نہیں وہ چشم سیہ زاری دل سے
پہنچا ہے زیاں تجھ کو وفاداری دل سے
جب دیکھوں وہ صورت مرے آگے ہی کھڑی ہے
کس گل کی نزاکت یہ مری آنکھ پڑی ہے
دل کیوں کے کریں بیٹھ کے ہم یار سے خالی
لب زخم جگر سیے ہی بنی
سر تری تیغ کو دیے ہی بنی
اب تو اس بزم میں پیارے تمہیں آئے ہی بنی
تو ہرشب نت بغل میں اور کے ہے
بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
روح بلبل چمن میں بھٹکے ہے
گہ خون روئی گاہے لخت جگر نکالے
آغاز صبح ہجر کا انجام دور ہے
مارے گئے کئی ترے اے یار ہاتھ سے
او دامن اٹھا کے جانے والے
پردہ گر درمیاں سے اٹھ جاوے
آنکھوں سے رواں خون دل ریش رہے ہے
جوں ہی ٹک یار کی پیشانی میں چیں پڑتی ہے
عین رقت میں کوئی مجھ سے رکا جاتا ہے
سر دل پر مجھے اک نیشتر معلوم ہوتا ہے
اٹھ گیا ہے وہ ستم دیدہ کہیں مدت سے
تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
جب سے اس شوخ نے شمشیر وسپر باندھی ہے
راہ خدا میں اتنی سعیٔ دم کریں گے
اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
چاہ سی کہیں بلا بھی ہوتی ہے
یوں کرکے مرے لاشۂ قربان کے ٹکڑے
اول تو قفس کا مرے درباز کہاں ہے
اس کی جب بات کان پڑتی ہے
جوں نقش قدم پیارے واں خاک میں جم بیٹھے
اس کے لب مے گوں ہیں سدا کام میں اپنے
خط آچکا پہ ہنوز اس کی آن باقی ہے
دل کو یہ اضطرار کیسا ہے
دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
یہ نہیں پیارے وہ تقریر و بیاں اور ہی ہے
معشوق کی بلا سے پرا خوار ہو کوئی
ہے جی میں تو اپنے کہ وفا کیجیے اس سے
آہ و فغاں ونالہ و زاری
ایسے تم کیا ہو میاں جو تمہیں ہم دیکھیں گے
جب وہ قاتل خرام کرتا ہے
دل غش کردہ مرا زار و نزار اس کا ہے
کیا جانے کب وہ چہرۂ پرنور دیکھیے
نت ضعف سے فتادہ یہ سربرزمین ہے
کوچے میں اس کے کتنوں کا سر برزمین ہے
کوچے کی تیرے خون میں تر اکثر زمین ہے
نہ کرو دیر مرے قتل میں تم آؤ بھی
ہر طرف وہ شمع رو ہے جلوہ آرا دیکھ لے
ہم کو تو اپنا ہی جانا چاہئیے
وصل کی شب جسے کہتے ہیں سو پائی نہ گئی
اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی
کل جوں ہی دابی چشم تر انگشت کے تلے
روتے نت زار زار گزری ہے
آغوش میں کب آکے تم اے یار سو گئے
ہم کو نے دنیا دنے دیں چاہئے
چہرے سے نقاب دور کیجیے
شب ہجر کل بے قراری میں گزری
تری واں تغافل شعاری میں گزری
انداز وناز میں تجھے استاد کر گئے
صورت کے تیری صدقے تصویر ہے تو یہ ہے
غیر کے قابو میں یوں آجائے یار افسوس ہے
ہم رہیں باحسرت وحرماں دو چار افسوس ہے
کرتے نہیں جو داد تو بیداد کیجیے
خاطر کو بند غم سے ٹک آزاد کیجیے
عاشق کو اپنے منع محبت نہ کیجیے
ہے آج تو گلشن میں بہار گل مہندی
اجل کی گھات مری جان ہر کسی پر ہے
شب روتے روتے ہم جو ترے غم میں سوگئے
نظروں سے جب نہاں وہ برودوش ہوگئے
اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
دین و ایمان دل و جان سب تجھے دوں ایسے جی
بتاں وہ مہر ومحبت وہ چاہ بھول گئے
جاویں کدھر کو اب اس تاب وتعب کے مارے
ہوس گریہ سے ہو دل کوئی دم تا خالی
دن رات دل اضطراب میں ہے
معشوقۂ گل نقاب میں ہے
جب مری خاک پہ ٹک بیٹھ کے یار اٹھتاہے
کا ہے کو ترے دام سے آزاد ہو کوئی
سخت نازک ہے ترا موے کمر رشتے سے
جان کر زلف کیا ہم نے حذر رشتے سے
جگر چھن گئے ان کی پلکوں کے ہلتے
ان گرم نگاہوں سے تری کوہ بھی جل جائے
انگشتری جو دے ہے مرے یار پھینک دے
ٹھکراتے طرف دامن بند قبا کو ملتے
تم رات وعدہ کرکے جو ہم سے چلے گئے
یہ تو آواز ہم صفیر ہی ہے
بات سن لے خدا غریبوں کی
لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
تسبیح شیخ میں گو ہوویں ہزار دانے
بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
خبر کچھ نہیں مجھ کو بسمل کی اپنے
پوچھا جو ہم نے اس سے کل تیرا نام کیا ہے
نہا کر جب وہ اپنے سر کے بالوں کے تئیں جھاڑے
گالی سے لب شیریں کو بس تلخ نہ کیجیے
ہر اک نے نگاہوں سے مجھے دال دیا ہے
رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
کس طرح شام فراق اپنی سحر ہوتی ہے
نہ چھو پیارے کہ تیری زلف کا ہر تار نازک ہے
ناتوانی سے تلاش سوختن میں مرگئے
نہ باہر ہی اسے آرام ہے ہر گز نہ گھر ٹھہرے
راہ میں جاتے دو چار اک تازہ آفت ہوگئی
لیتے ہی بوسہ ہوگئے بے زار کس لیے
خیال صید جو وہ عنبریں کمند کرے
کیوں کے مژگاں کو تری تیزی نشتر پہنچے
وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے
جس گلی میں نہ صبا اور نہ کبوتر پہنچے
بوند اشک کی اک تازہ نت آن نکلتی ہے
ہر آن میں گالی دے ہر اک بات میں جھنجلائے
جلوہ گر یار کا قامت ہے خدا خیر کرے
گر جدا ٹک بھی یار ہوتا ہے
گل کترے نہ بلبل مری فریاد کے آگے
ہے تجھ پہ تو زور ہی آن صدقے
ناچار ہو دین و دل اس شوخ کو دے گزرے
فراغت میں بتاں کی صورت دل خواہ یاد آوے
ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
مانی ان ابرووں کی تصویر کھینچتا ہے
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
خط آیا وہ ادا نہ وے اطوار رہ گئے
قد قیام اور خرام آفت ہے
جاکر کہے یہ حرف مرے یار سے کوئی
جب میری طرح تو بھی تکے راہ کسی کی
بیٹھ کر وہ جہاں سے اٹھتا ہے
وے جو ہم لوگوں سے کرتے تھے محبت مر گئے
اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے
تاب کس کی ہے کہ بے پردہ ترا منہ دیکھے
پرواہ تجھے کب ہے میاں جان کسی کی
ہیں یہاں داغ جگر زخم نمایاں کے تلے
دل تڑپتا ہے مرے سینے میں پیکاں کے تلے
جسے تصویر دکھلائی ہے تیری
زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
باغ میں جاکے وہ جب بند قبا کھولے ہے
غزل سرائی میں گر واکراں زباں اپنی
چھاتی پہ لٹکتی نہیں زنجیر طلا کی
جس دم کہ آنکھ میری اس شوخ سے لڑی ہے
بزم سے اٹھے جو ہم بے کل گئے
اے دل تو نہ بھڑ اس سے کہ تیغ اس کی ہے کٹی
رہے جو قبضۂ شمشیر کیں پہ ہاتھ دھرے
خنجر تلے اے دل نہ تڑپ اتنا بھی دم لے
دکھا کر منہ کو چھپ جایا نہ کیجیے
کیا کروں میں جو گلستاں میں بہار آئی ہے
محبت میں صادق یہ اغیار ٹھہرے
برق رخسار یار پھر چمکی
کبھی جو ہجر میں ہم بے قرار ہوتے تھے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
کبھو پلکیں جی میں ڈبا گئے کبھو انکھڑیوں کو لڑا گئے
غرض ان بے وفاؤں سے وفاداری تو مشکل ہے
تیرے سوا کسو کو تمنا نہ چاہیئے
وحشت اگر یہی ہے تو صحرا کو جائیں گے
چمن کے بیچ ہے اب تو بہار عباسی
درد مند دوست بے آہ و فغاں کیوں کر رہے
مگر کہ جذب کی طاقت گئی گریباں سے
گڑے ہیں کشتہ الفت جہاں زمیں کے تلے
اگر بتوں کی تمنا سے دل مرا پھر جائے
قفس میں مرغ گرفتارکیوں پھڑکتا ہے
واں کب سے ذقن اس نے زلفوں میں چھپالی ہے
زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
فندق کہیں بندھی ہے کہیں ہے حنا لگی
رباعیات
جو اشک ان آنکھوں سے جدا ہوتا ہے
اے کہ ہم بزمی اغیار آئی ہے تجھے
مسدس
مخمس
پروانے اور شمع میں چاہت نہیں رہی
مخمس بر غزل آصفی
جب سے ہوا ہے مجھ سے وہ پیماں شکن جدا
زبس آئینہ رو ہے طفل حجام
مثنوی در بیان ہجو پسر حجام
مثنوی در بیان ہجو چار پائی
یہ جو ہم پاس چاپائی ہے
کیا کروں وصف تیرے اجوائن
مثنوی در صفت اجوائن
تتمۂ نسخۂ رام پور
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔