سر ورق
فہرست
خورشید کو سایے میں زلفوں کے چھیا رکھا
پیغام و سلام اس نے ذرا بھی نہیں لکھا
ترا خدنگِ نگہ جس کے دل کے پار ہوا
نطف کیا، جب بہ سرِ راہ عیاں ہو جاتا
مرضِ عشق سے گر اب کے سنبھل جاؤں گا
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
صانع نے جو خم ابروے دلدار میں رکھا
جس دم کہ وہ کمر میں رکھا کر کٹاؤ نکلا
ہوا شعلہ جو میری آہ آتش ناک سے پیدا
شعلۂ آتش پہ جب میں اپنا داماں رکھ دیا
دل کب متحمل ہو جدائی کے الم کا
نالۂ مرغِ سحر دل میں اثر کر ہی گیا
یک چند اس طرف جو میں جانے سے رہ گیا
مجھ تک یہ نہ آوے، تمہیں منظور یہی تھا
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسا
آیا جو یاں تو ووں ہی بہانے سے اٹھ گیا
کچھ آرزو نہ تھی بت و بت خانہ دیکھنا
سخت مشکل ہے اب اس کوچے میں جانا اپنا
کیا کہئے یار تھا سو وہ اغیار ہو گیا
تیرِ کرشمہ دل سے مرے پار ہوگیا
رخ پہ عالم ہے وہ زلفوں کی پریشانی کا
منہ دیکھوں میں روزِ عید تیرا
میں اس صنمِ ماہ نقا کو نہیں دیکھا
ٹکڑا جہاں گرا جگرِ چاک چاک کا
جانے سے جس گلی کے مجھے عار ہی رہا
ملنے سے میرے، اس کو زبس عار ہی رہا
ہے کسوں پر جو ذرا وہ بتِ بے باک چڑھا
اس نے جس وقت کہ خال اپنے زنخداں پہ رکھا
جس سنگ پہ خونِ کوہ کن تھا
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شب ترے کوچے میں کوئی کہتے ہیں مرکر رہ گیا
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
کہوں کیا، ہجر میں صبر وشکیبائی پہ کیا گزرا
جہاں اندیشۂ اخبار کا دن رات ہے کھٹکا
کیا تعجب ہے اگر پھر کے ہو جینا میرا
کاٹ کر سر میں تیری راہ میں دھر جاؤں گا
میں زلف منہ میں لی تو کہا، مار کھائے گا
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
حسن و خوبی میں تجھے یوسف ثانی سمجھا
محنت کے لئے یا ہوئے آرام کو پیدا
میں تو دیکھا نہیں اس جلوہ گری کا سونا
شب کہ نظروں میں خیالِ رخِ دلدار رہا
کون سے روز ترا وعدۂ دیدار نہ تھا
شبِ ہجراں تھی، میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
کیوں کھینچ کے تیغا مجھے اک بار لگایا
تو ایسا غیر کے حصے میں آیا
غم کی شدت میں کروں فکر میں شیدائی کیا؟
مجھ سے مطلب ہے ترا اے شبِ تنہائی, کیا؟
غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
حسن اس کا اب سماں کچھ اور دکھلانے لگا
ہاتھ میرے نہ کبھی دامنِ دلدار لگا
ایک ہچکی میں ٹھکانے دلِ بیمار لگا
پاس میرے وہ ترا پیار سے آنا نہ رہا
کوچے سے ترے دل مجھے جانے نہیں دیتا
قصد کرتا ہوں جو اس در سے کہیں جانے کا
دم آخر ہے یہ تجھ کو بھی روامل جاتا
جاؤ اس کو میں تو اک اک سے جدا مل جانا
نہ مرے دل کو گرفتار کرو تم اپنا
رہتا ہوں تجھے دیکھ کے میں ہاتھ ہی ملتا
تو جائے سر رہ میں جس کو کہ نظر آیا
دنیا میں جب تلک کہ میں اندوہ گیں رہا
رونے سے کام بس کہ شب اے ہم نشیں! رہا
ہر روز رہا مجھ سے شبِ تار کا وعدہ
ہے یہ دلِ دیوانہ تو پروانہ پری کا
ہر دم ہے ترے حسن کا حیران دوسرا
تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
کرتا تھا کہیں وصف میں اس غنچہ دہن کا
کسی جنگل کے کل بوٹے سے جی مرا بہل جاتا
چاہتا یوں نہ دل نشیں ہوگا
ہائے اس کا ہمک کر اٹھ جانا
اس دمِ سرد سے خطرہ نہ اگر کیجئے گا
جفا و جور نت کے اب تو یہدل سہ نہیں سکتا
ابنِ مریم آسماں کا ، میں زمیں کا ہو رہا
جو تو اے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووے گا
ہوا ہے پیدا دشمنِ جاں بس کہ باغباں میرا
کسو بھی طرح گزارا نہیں جہاں میرا
زلفیں دکھا کے اس نے عالم کو مار ڈالا
بلبلِ خوش صفیر ہوں گلشنِ روزگار کا
ٹھکانا اک جگہ ہو تا نہیں اس غم کے مارے کا
دامن اس شوخ نے کھینچا جو جھٹک کر اپنا
ہے آنسوؤں سے غوغا ان پر کبوتروں کا
اشکوں سے میرے لخت جگر دور رہ گیا
غیر کے گھر میں یار رہنے لگا
اک حرفِ کن میں جس نے کو کون و مکاں بنایا
پہلو سے اٹھ کے شب جو وہ آرامِ جاں گیا
ہے یہاں کس کو دماغ انجمن آرائی کا
گرچہ مذکور ہے ہر جا تری رعنائی کا
داغ دیکھے تھا کھڑا لالۂ صحرائی کا
قاصد اس کو سے پھرایا نہ پھرا ہووے گا
دل گرایا جگر اس دیدۂ گریاں سے چوا
دنیا سے اپنے یار کو لدوائے شتاب
شاید کسو نے پھر اسے برہم کیا ہے اب
ہم کو دینے لگے تم چھیڑ کے کالی کیا خوب
بام پر اس کے جو ہوتا گزرِ نالہ شب
کیوں نکلتا سوتے سوتے منہ سے اپنے یا نصیب
باتیں بنا کے مجھ کو سیدا نہ کیجے صاحب
کس دن گلی سے اس کی پھرا نامہ بر شتاب
غیروں سے میاں تیری ملاقات نہیں خوب
دن کو تو نہیں کوئی ملاقات کی تقریب
جی چلے تیرا تو ل چکھ تو بھی اسے مست شراب
یہ حالت ہے کہ دل سینے میں گھبراتا ہے بے موجب
دلِ دیوانہ اس کی گالیاں کھاتا ہے بے موجب
کھکھلا کر نہ ہنسا کیجئے آپ
البتہ فنِ عشق میںہو جس کو مہارت
ہر چند آس نے تیری طرف سے بنائی بات
خدا نے حور و پری کو کب ایسی دی صورت
منعم تو ہو رہا ہے گرفتار سنگ وخشت
ہرگز کھلا نہ شیخ پہ اسرارِ سنگ و خشت
خواب میں آئے ہے جب اس کے میاں آدمی رات
اے زبان تیشہ کہہ کچھ کوہ کن کی سرگزشت
گلی میں اس کی نہ پوچھو کدھر ہے سجدہ درست
میانِ عالمِ ہستی اگر ہے سجدہ دوست
تھی میرے ہاتھ ہی میں، تمہاری کمر تو رات
ہاے اس کے وہ ننھے ننھے بات
رخسار پر ہے زلفِ پریشان کی اوقات
لے کے دل زلف میں رکھا ہے لپیٹ
جیسے کسی چیز پر ہوتی ہے طفلاں میں بحث
آتی ہے یہ کچھ آہ کے صدمے سے دل پہ چوٹ
تا بہ فلک تو گئی اشک کے طوفاں کی موج
یار ملتا ہے کوئی ، یہ آہ و زاری ہے عبث
نہ تو اس شہر میں دوا کا رواج
یوں ہوا معلوم ہم کو دل کی بے تابی سے آج
عیسلی سے کیوں کہ ہو دلِ بیمار کا علاج
نکلا ہے سرخ پوش ہو وہ نوجوان آج
خسرووں کے سر سے کب جاوے ہواے تخت و تاج
کچھ ان دنوں ہے اور ہوا گلستاں کے بیچ
ہم کو ناکامیِ طالع نے رکھا کام کے بیچ
لے گیا شوق قفس کو دلِ ناکام کے بیچ
جی جگر سب ہو گیا قاتل مرے لوہو کا خرچ
ملتے ملتے ووں ہی ہو جاتا ہے بیگانے کی طرح
ہوتی ہے کیا بھی مرے صاحب حیا کی طرح
تاچند کرتے خدمتِ گل باغباں کی طرح
رات کاٹی ہم نے تجھ بن جس طرح
سینے سے جلوہ گر ہے ترے ابتداے صبح
گالیاں دیتے ہوتم مجھ کو مری جاں صریح
اپنا تو مرغِ دل ہے گرفتار حسنِ شوخ
لباس پہنے ہے اکثر وہ شوخِ پر فن سرخ
اس مست کو ہوا ہے جو شوقِ شراب و سیخ
کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
کس کے یاد آئے تجھے دستِ نگاریں فرہاد
آئنے کو ہے ترے حسن کی خدمت شاید
ناوک سے نگہ کی ترے ہرگز نہ بچا صید
کس طرح جھانکے کوئی واں کرکے اب گردن بلند
ہم نے خط لکھنے کو جب اس کے اٹھایا کاغذ
آیا جو وہ کل تیر و کماں ہاتھ میں لے کر
آتا ہے جی میں یوں کہ کسی گل کو تاڑ کر
ہم کو ترساتے ہو تم کیوں یہ ادا دکھلا کر
ہم نے لٹا دیا ہے گھر بار تیری خاطر
نکلے ہے یہی دل کے مرے ساز سے باہر
وہ دن گئے کہ تھا تو شیریں مقالیوں پر
سرپہ کل طرے کا گڑوا رکھ کے لائی ہے بہار
دیکھے کیا جی پہ گزرے، نوبہار آئی ہے پھر
رہتا ہے دل اس زلفِ پریشاں میں گرفتار
عالم ہے تری زلفِ پریشاں میں گرفتار
میری اس کی ہے ملاقات کچھ اور
یوں ہے وہ نقاب اس بت بے پیر کے منہ پر
ارجن سا بشر آ نہ سکا تیر کے منہ پر
کیا ہی شیریں زبان ہے کافر
خنداں رہِ کرم سے چلے آؤ میرے گھر
ہم تو سوئے نہ فراغت سے کبھی بستر پر
پھولوں کی چھڑی کھائے ہے گل بندِ قبا پر
ہم صبح کو کوچے سے ترے رہ گئے چل کر
اتنا تو نہ جینے سے فلک مجھ کو خفا کر
کافر یہ جو بکھرے ہیں ترے بال ہوا پر
سنبلِ تر کے تئیں پردۂ رخسار نہ کر
جان من جلوہ گری پر سرِ بازار نہ کر
جتنا کہ سراہا، وہ ہوا او ربھی مغرور
جامہ ملتا ہے بدن سے ترے چسپاں ہو کر
باندھی ہے ہم نے از بس جوں نے کمر فغاں پر
کس کے مجروح یہ مدفوں ہیں تہِ خاک ہنوز
بیگانگی ہے اس کی ملاقات میں ہنوز
خوں ٹپکتا ہے مرے دیدۂ گریاں سے ہنوز
طوطی میں کہاں ہے تری گفتار کا انداز
ٹک آکے بیٹھے جو وہ مہ جبیں ہمارے پاس
دور سے دیکھتے ہیں یار کا دیدار اور بس
اس دل ویران کا عالم نظر آیا کہ بس
کر دیا ہے مجھ کو دو باتوں نے آس کی بے حواس
کس منہ سے ہم جہاں میں کریں روزوے عیش
جس آنکھ کو ہو رخنہ دیوار کی تلاش
یا عہدِ وفا ہوا فراموش
ہے دام میں زلفوں کے گرفتار کوئی شخص
دل فرش ہوا جائے ہے آغازِ شبِ رقص
ہوتا ہے حسنِ رو سے ترے آرسی کو فیض
کیوں نہ اب مژگاں سے دیکھے تیغ اور خنجر کی عرض
نہ مسیحا کو دکھایا جگرِ ریش غرض
عیش کہاں، کدھر نشاط، کہتے ہیں کس کو انبساط
گنتا تھا بس کہ اپنے تئیں خاکسار محض
حسن نے بھیجا ہے لکھ لعل شکر خاکو خط
کیا لکھے اس کے تئیں اب کوئی ہمسار کا خط
گل پھول کی خوش رہی سرو وسمن کا حظ
نکل گیا مرے منہ سے کہیں خدا حافظ
پردۂ فانوس میں یوں تو نہاں جلتی ہے شمع
ساتھ پروانے کے راتوں کو جلا کرتی ہے شمع
اک ان میں حقِ خدمت ہوا مرا ضایع
لے گیا پروانہ دل میں حسرت دیدار شمع
ہے تو تو وہ نقشِ قلمِ قدرتِ صانع
ہے مرے سینے میں روشن داغِ فرقت کا چراغ
ابر کیوں کر ہو سکے اس چشمِ گریا کا حریف
کون کرے سیرِ باغ کس کو ہے اتنا دماغ
اس نے جس دن سے کیا آنکھ لڑانا موقوف
نادار ہوے ہیں ہم یہاں تک
عشق کیا ہے؟ تباہی عاشق
چہرے پہ تازگی سے ہے جوشِ شکست رنگ
آئینہ ہوا اس رخِ زیبا کے مقابل
ہے گرفتاریِ دل باعثِ بیماریِ دل
کیا شوق مین ۃیں نعرہ زناں قمری و بلبل
دن رات ہیں میرے دل کے دنبال
عالم کو کیا ہے تو نے پامال
دل میں جب عشق کی اٹھی ہے شول
تھا آپ ہی دیوان مر انامۂ اعمال
چمنِ دہر میں غم ناک ہیں ہم اور بلبل
مزہ ہے، ہووے کر چپکے ہی چپکے مدعا حاصل
دیکھ آئینے میں زلف کو جھجکا نہ کرو تم
کیوں تیوری چڑھی رہتی ہے اب کچھ نہیں معلوم
صرف مشتاق ہیں اک تیری ملاقات کے ہم
کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
خط پہ ہے سبزہ زار کا عالم
شمع رو ایسے کے پروانے ہیں ہم
نظروں میں تیری پیارے گو بے وقار تھے ہم
کب لگ سکے جفا کو اس کی وفاے عالم
صرف گریہ کا ہوا ہے اثرِ نالہ تمام
سیراب آبِ جو سے قدح اور قدح سے ہم
کیا دل میں ترے کس گل کی خوبی نے اثر شبنم
میری آنکھوں میں تر ہو رشکِ گلِ خنداں تم
ہر دم کو سمجھتے ہیں دمِ بازپسیں ہم
یادگارِ گزشتگاں ہیں ہم
دنیا ہے جاے رنج ومحن، غم بہت ہے یاں
وابستہ بہارِ طرب غم بہت ہے یاں
جی چاہتا ہے وعدۂ دیدار ہو کہیں
مرتے ہیں جان ہم تو ترے اشتیاق میں
دروازہ نہ تھا اس کا تو جاے سگ و درباں
نے زخمِ خوں چکاں ہوں نہ حلقِ بریدہ ہوں
اے شبِ ہجر! کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
لیتا ہوں میں جب اس کی بلائیں ، وہ نازنیں
تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں
ادھر سے جھانکتے ہیں کہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
یا تو آوے وہ رشکِ ماہ کہیں
کبھی وفالیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں
جوں اشک راہِ خشک سے کم ہے خبر ہمیں
راہِ عدم دکھائے ہے اس کی کمر ہمیں
جاں باز سپاہی یہیں بے جان ہوئے ہیں
سر کیوں کہ نہ ہم باغ کی دیوار سے ماریں
کم خواب کی یہ جو نظر آتی ہیں ازاریں
رکھتا ہے جو تو زبان شیریں
دیکھ آیا ہے یہ کس جامۂ جسپاں کے تئیں
دلی ہوئی ہے ویراں، سونے کھنڈر بڑے ہیں
کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
کس کے مقتل سے ہوا آج گزارِ دامن
پھول لالے کے ہیں جتنے چشم خوں آلودہ ہیں
خونِ ناحق ہے ترا نقش و نگارِ دامن
عشق میں امتحاں ہزاروں ہیں
اشک خونیں ہیں مرے نقش ونگار ِ دامن
میں کیا کہوں کہ راتیں کیا سخت کٹیاں ہیں
یا گزرتی تھی بہم عالمِ یک جائی میں
تبِ غم سے جو چھاتیاں جلیاں
جس گھڑی قاتل کے تھا حلقومِ بسمل ہاتھ میں
کبھی اس تازہ گل بن ہم جو رخت اپنا بدلتے ہیں
جن روزوں کہ تھا اپنا گزرا اس کی گلی میں
امیدِ وفا پر میں جفائیں بھی اٹھائیں
کشتوں کی اس کے لاشیں جو اب تک گڑیں نہیں
ہے غلط تجھ سے جو امید بھی رکھتے ہیں
مژگاں تری جب تک کہ صف آرا نہ ہوئی تھیں
پہلو میں کہاں تک دلِ بے تاب کو دابیں
خنجر کی میاں پونچھ تو لوہو بھری نابیں
جی تلک داؤ محبت میں لگا بیٹھا ہوں
مجھ کو اس بت سے ملا دے تو سراہ کہیں
یارو ہماری گر اسے چاہ اس قدر نہیں
یار بن زبست کا کچھ لطف جوانی میں نہیں
سرِ جہاں سے ہم کو خبر ہے بھی اور نہیں
چلتے چلتے جو تری راہ میں آجاتے ہیں
جب بتاں زلف کی زنجیر دکھا جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے جو کبھی رونے پر آجاتے ہیں
کبھی پردے سے جو وے آنکھ لڑا جاتے ہیں
سرزنش یاں خاک کوے یار کو ہے اور نہیں
نقشِ شیریں میں ترے حسن کا پرداز کہاں
اول تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیاں میں
عشق بازی ہے کچھ یہ کھیل نہیں
اقطاعِ زمیں سارے گر دیکھے موزوں ہیں
جن ہاتھوں سے لیتا تھا کسو کی میں بلائیں
چوسر میں ہم اس شوخ سے جی ہار گئے ہیں
ہمارے داغِ جگر شب نمود کرتے ہیں
جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
باتوں میں آپ ہنس ہنس نتے زہر گھولتے ہیں
جفا شعار جو ہو سو وفا شعار نہ ہو
کیا کم ہوا ہے زخموں سے میرا بدن اتو
یا الہٰی! مرے نالے کا اثر پیدا ہو
وہ نہیں میں جسے مرنے کا خطر پیدا ہو
تاچند رکھوں دل میں گلستاں کی ہوس کو
پھر عشق کا اِن روزوں آزار ہوا مجھ کو
مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو
بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
سدھاری قوتِ دل تاب اور طاقت سے کہو دیجو
گو کہ رنجیروں میں جکڑیں، روک اس کی کس سے ہو
خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
پیکاں ترا جگر کے اگر متصل نہ ہو
گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
پہلو سے مرے یار کا پیکاں نہ نکالو
رہے مے خانے کے در پر پڑا دن رات کا ہے کو
بالوں کو سنوارو ہو، پٹھوں ، کو بناتے ہو
گرچہ تم تازہ گلِ گلشنِ رعنائی ہو
اک بات میں کہوں اگر آزردہ تو نہ ہو
جس گل کے بیچ مہر و محبت کی بو نہ ہو
اگر تم آؤ ہمیں سرفراز کرنے کو
از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
رہ گئے دیکھتے ہی ہم در کو
یاد آئے جو ترے موے پریشاں مجھ کو
خوار رکھتا ہے اب تلک ہم کو
خاک میں مل گئے ہم، یار کا چلنا دیکھو
گریہ دل کو نہ سوے چشمِ بہاؤ
آج اس نے کیا ہے اپنا بناؤ
نہ تنہا اضطرابِ دل نے شب رسوا کیا مجھ کو
میرے ملنے سے تمہیں حظ نہ اگر ملتا ہو
ساتھ وسعت کے ہے ہر چند جہاں رہنے کو
کب تک مری آنکھوں سے رواں خونِ جگر ہو
مقدور ہو تو لاگ نہ رکھیے کس کے ساتھ
روز کی خارا تراشی سخت مجبوری ہے یہ
بس کو پیوند ہوا ہے جگر چاک کے ساتھ
مرغانِ باغ کی تو خوش آوازیاں تو دیکھ
کچھ زلف ہی الجھتی نہیں ہے صبا کے ساتھ
پھبتا ہے یوں وہ تکمۂ گوہر گلے کے ساتھ
شبنم ہوئی پانی ترے دانداں کی طرف دیکھ
اس اشک کے قطرے کی مرے جلوہ گری دیکھ
کیا شبزہ ہے سیراب، بیاباں کی طرف دیکھ
راتوں کو ستاروں کی ذرا جلوہ گری دیکھ
اس نے جو جوکچھ کہا شب ہم کو گھر میں بیٹھ بیٹھ
پیچ پگڑی کا کھل رہا ہے کچھ
دل ہے پہلو میںکہ اک دشمنِ جاں کاہ ہے یہ
دل کو ہے رفتگی اس ابروے خم دار کے ساتھ
ہے مزہ سیرِ چمن کا تو فقط یار کے ساتھ
تو مری تربت پہ آیا واہ واہ
صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
عشق کیا اک ذلت و خواری ہے یہ
اس پردگی سے کیوں کہ وہ آنکھیں لڑا سکے
مسی کو مل کے غیر کے گھر آپ کل گئے
نالے سے میرے کوہ و بیاباں دہل گئے
لیلیٰ کا محمل اس کے محافے سے دور ہے
لے گئے دل کو مرے چھین کے بالے والے
کیا غم ہے، گر سحر وہ گئی چشمِ تر لیے
باگیسوے آشفتہ جو تو باغ میں جاوے
بس کہ تھی حسن میں یوسف سے سوائی مہنگی
سرخ ہیں مے سے وہ چشمِ نیم خوابِ نر گسی
جورِ فراق اور ستمِ آسماں بھی ہے
عجب پاکیزہ صورت اس بتِ کافر ادا کی ہے
کب اس طرف وہ بتِ کج کلاہ آتا ہے
سر پر خار سے دامن کو جھٹکتے آئے
نہیں بندگی میں تو کچھ راہ اس کی
میر کیا چیز ہے سودا کیا ہے
گر ابر گھرا ہوا گھڑا ہے
منہ خنجرِ قاتل پہ رکھوں، بے ادبی ہے
گو کہ مخلِ ہمدمی، چرخِ جفا طراز ہے
موسمِ گل باغباں، باغ کا در کھول دے
آب ہو حسرتِ دل تو تو بھی جاتی ہے
پاؤں کا رنگ لب سے ترے آشکار ہے
شب نالہ ہاے گرم جو سے فلک چلے
زلفِ مشکیں ہو جہاں، سنبل کی بو کیا چیز ہے
نے تیر، نہ تلوار، نہ خنجر، نہ چھرا ہے
سنتے تو ہیں اکسیر ہے، عنقا ہے ، ہما ہے
زبس نظروں میں تھے ڈھنگ اس بلاے ناگہانی کے
ڈرتا ہوں صبا تجھ سے جو وہ زلف اکڑ جائے
اینٹھے کبھو خط اور کبھو وہ زلف اکڑ جائے
اس کی رفتار کا مذکور جب آجاتا ہے
کون اس باغ سے اے بادِ صبا! جاتا ہے
کس منہ سے کریں ہم ہوسِ محملِ لیلیٰ
لافِ گرمی ترے عارض سے جو گلشن مارے
غیر سے آنکھ نہ یوں وہ بتِ پر فن مارے
اس ظلم کی آفت کسی ہم فن پہ نہ ہووے
نہ تو یہ آہ ہی ہم دوشِ اثر ہوتی ہے
میں وہ نہیں ہوں کہ اس بت سے دل مرا پھر جاے
دکھا کے در سے وہ مڑنے کی گر ادا پھر جاے
غم اس کا کچھ نہیں گو مجھ سے اک جہاں پھر جاے
جہاں سے جاے وہ جو تم سے اے بتاں! پھر جاے
نہ قاصد ہے، نہ نامہ ہے، نہ پیغامِ زبانی ہے
نہ وہ راتیں، نہ وہ باتیں، نہ وہ قصہ کہانی ہے
نصیب اپنے میں غم، اوروں کو عیش و شادمانی ہے
مہندی نے ترے ہاتھوں پہ یہ رنگ دیا ہے
کاجل تری آنکھوں میں میاں کس نے دیا ہے
دیں تو کیا چیز ہے، ایمان بھی صدقے کیجے
غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھاہیے
یہ لوگ میاں جی سے گزر جائے ہیں کیسے
یہ دل کہ اتشِ غم پر سپند رہتا ہے
دیکھے جو تری فندق سفاک کے ڈورے
ٹوٹے جو راوے جگر چاک کے ڈورے
گئے ہیں یار اپنے اپنے گھر، دالان خالی ہے
کسی پر دل کا آجانا غضب ہے
زخم کاری جگر پر آیا ہے
جب گھر سے وہ بعدِ ماہ نکلے
شام جلتا ہے دلِ خستہ، سحر جلتا ہے
نہ فقط مال کا عاشق کے ضرر ہوتاہے
ٹکڑے ٹکڑے جو کسی گل کا جگر ہوتاہے
تصور تیری صورت کا مجھے ہر دم سناتا ہے
آگے ہستی کے تری، ہستیِ عالم کیا ہے
قاصد نویدِ وصل زبانی ہے یار کی
رکھ کے ہم زانو پہ جس وقت کہ سر بیٹھ گئے
اس نے کتنوں کو مار اتارا ہے
آنکھ لڑتے ہی یہ حالت ہم پہ کچھ طاری ہوئی
بازوے کوہ کن کی تلاشی زمین ہے
آئی پسند کوے بتاں کی زمین مجھے
اٹھ گیا زیست کے کرنے کا مزہ دنیا سے
کس چاؤ سے دل کا مرے ارمان نکل جاے
منہ سے ترے مربھی جو مری جان نکل جاے
لت اس بتِ کافر کی ملاقات نئی ہے
کوچے میں اس کے جو کوئی جی کھو کے جاسکے
کچھ حیا آنکھوں میں ہے اس کی تو کچھ پیار بھی ہے
جس سے امید وفاتھی بے وفائی اس نے کی
جب کبھی صید افگنی کو وہ صنم چڑھ جاے ہے
جب شبِ غم اشکِ سرخ اپنے کایم چڑھ جاے ہے
جب ترا ماتھا غضب سے اے صنم! چڑھ جاے ہے
دیکھ تو ہم میں غمِ عشق نے کیا رکھا ہے
پیری میں بھی ہم الفتِ طفلاں سے نہ چھوٹے
نہ دوستی، نہ محبت، نہ دلبری دیکھی
نالے مرے ہر چند اثر کچھ نہیں رکھتے
جس گھڑی یاد وہ زلف و کمر آجاتی ہے
تازہ ترکیب کوئی جب نظر آجاتی ہے
حظ کھینچے تو نے مجھ پر تحریر کیا نکالی
ملتا ترا اغیار سے منظور کسے ہے
رونق، بہارِ حسن تمہارا ہمیں سے ہے
صورت عرق مینۃے یہ رخِ پر حجاب کی
یہ نہ سمجھو کہ سحر چاک گریباں ہووے
لباسِ سرخ میں کافر بھبوکا، بن کے آیا ہے
رکا سیبِ زنخداں تو مرے ہاتھ میں ہے
سو مفر ہیں اس کے،۔ گر کوئی بلا پیچھے پڑے
ہاتھ میں لے کے وہ جب تیغ و سپر نکلے ہے
صبح کی شام ہوئی، شام کی پھر رات ہوئی
شرم آتی ہے اب اٹھ کر یاں سے کیا گھر جائیے
گرچشمِ تر سے ہم نے ٹک آستیں اٹھالی
جی میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جائیے
نہ اس رونے سے آفت دیدۂ گریاں پہ آئی ہے
بہار موسمِ گل اب کے پھر طغیاں پہ آئی ہے
یاد اس کو دیدہ بازی کے ہیں فن نئے نئے
خط نیا، خال نیا، زلف کی تحریر نئی
کاجل آنکھوں میں نہ اتنا بھی لگایا کیجے
بہ حالِ نزع ہوں میں دے مجھے شمشیر سے پانی
جوں جوں الفت زیادہ ہوتی ہے
جز نجد کے دیکھی نہ کوئی منزلِ لیلیٰ
نہ ڈر سے شیخ کے جامِ مل آستیں میں ہے
نہ یہ وہ دل ہے کہ اب جس سے نالہ سر کھینچے
دور رہنا ہی بھلا ہے ہمیں محبوبوں سے
گو تم نے مجھے زیست سے بیزار رکھا ہے
مروت بھی اگر آنکھوں میں اس کی اک ذرا ہوتی
غرض کہ جو حرکت ہے سو دل لبھانے کی
تم ہم کو اپنا منہ نہ دکھاؤ تو خوب ہے
کوئی کیا جانے کہ اس عشق میں کیا بنتی ہے
رفتار اس کی دل پہ جو ٹھوکر لگا گئی
کب ہاتھ مرا اس کے گریباں کے تلے جاے
جوں جوں دل زخم کھائے جاتا ہے
گاہ مد سرمے کی، کاجل کی گہے تحریر ہے
آیا تھا ترے سجدے کو میں خوابِ عدم سے
ملو ہو غیروں سے اور ہم سے بے وفائی ہے
یوں ہے نازاں جی سے مجھ کو وہ ستم گر مار کے
دیکھ کر سورت تمہاری ہم بہت پر غم ہوئے
مار ڈالا ہے ادا نے تیری
راہ میں کشتے پڑے ہیں کئی ارمان بھرے
مثلِ آئینہ فقط وہ ہے اور اک حیرت ہے
چمن ہے، سبزہ ہے ، ساقی ہے اور ہوا بھی ہے
ہر ایک قدم پر جو وہاں غش کی جگہ ہے
جھپٹے میں آگیا ہے دل اپنا اس پری کے
دل خارا میں مرا نالہ اثر کرتا ہے
ہر قدم انداز ہے، ہر گام پر اک ناز ہے
یوں قتل غریبوں کا، اے شوخ! روا کب ہے
شب وہ ان آنکھوں کو شغلِ اشک باری دے گئے
اے فلک آپ کو اتنا جو پھرایا تو نے
خطرہ ہے مجھے اس دل کم بخت کی خو سے
چھیڑے سے مرے ہر دم زلف اس کی اکڑتی ہے
ہر ایک بال وہ، جس کے تئیں کمر نہ لگے
طاق پر خوشۂ الگور دھرا رہتا ہے
جو تھے سننے والے اس آہِ حزیں کے
کوئی ایسا نہیں ملتا کہ ہم کو ہم سے لے جاوے
رباعیات
مسدس
مسدس دوم
مسدس سوم
مثمن ناتمام
مثنوی در افراط سرما
مثنوی در افراط گرما
مثنوی در افراط آتش
مثنوی پسر تنبولی
منہ پھرا لینے میں توبارے بھلا اک ناز ہے
سر ورق
فہرست
خورشید کو سایے میں زلفوں کے چھیا رکھا
پیغام و سلام اس نے ذرا بھی نہیں لکھا
ترا خدنگِ نگہ جس کے دل کے پار ہوا
نطف کیا، جب بہ سرِ راہ عیاں ہو جاتا
مرضِ عشق سے گر اب کے سنبھل جاؤں گا
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
صانع نے جو خم ابروے دلدار میں رکھا
جس دم کہ وہ کمر میں رکھا کر کٹاؤ نکلا
ہوا شعلہ جو میری آہ آتش ناک سے پیدا
شعلۂ آتش پہ جب میں اپنا داماں رکھ دیا
دل کب متحمل ہو جدائی کے الم کا
نالۂ مرغِ سحر دل میں اثر کر ہی گیا
یک چند اس طرف جو میں جانے سے رہ گیا
مجھ تک یہ نہ آوے، تمہیں منظور یہی تھا
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسا
آیا جو یاں تو ووں ہی بہانے سے اٹھ گیا
کچھ آرزو نہ تھی بت و بت خانہ دیکھنا
سخت مشکل ہے اب اس کوچے میں جانا اپنا
کیا کہئے یار تھا سو وہ اغیار ہو گیا
تیرِ کرشمہ دل سے مرے پار ہوگیا
رخ پہ عالم ہے وہ زلفوں کی پریشانی کا
منہ دیکھوں میں روزِ عید تیرا
میں اس صنمِ ماہ نقا کو نہیں دیکھا
ٹکڑا جہاں گرا جگرِ چاک چاک کا
جانے سے جس گلی کے مجھے عار ہی رہا
ملنے سے میرے، اس کو زبس عار ہی رہا
ہے کسوں پر جو ذرا وہ بتِ بے باک چڑھا
اس نے جس وقت کہ خال اپنے زنخداں پہ رکھا
جس سنگ پہ خونِ کوہ کن تھا
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شب ترے کوچے میں کوئی کہتے ہیں مرکر رہ گیا
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
کہوں کیا، ہجر میں صبر وشکیبائی پہ کیا گزرا
جہاں اندیشۂ اخبار کا دن رات ہے کھٹکا
کیا تعجب ہے اگر پھر کے ہو جینا میرا
کاٹ کر سر میں تیری راہ میں دھر جاؤں گا
میں زلف منہ میں لی تو کہا، مار کھائے گا
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
حسن و خوبی میں تجھے یوسف ثانی سمجھا
محنت کے لئے یا ہوئے آرام کو پیدا
میں تو دیکھا نہیں اس جلوہ گری کا سونا
شب کہ نظروں میں خیالِ رخِ دلدار رہا
کون سے روز ترا وعدۂ دیدار نہ تھا
شبِ ہجراں تھی، میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
کیوں کھینچ کے تیغا مجھے اک بار لگایا
تو ایسا غیر کے حصے میں آیا
غم کی شدت میں کروں فکر میں شیدائی کیا؟
مجھ سے مطلب ہے ترا اے شبِ تنہائی, کیا؟
غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
حسن اس کا اب سماں کچھ اور دکھلانے لگا
ہاتھ میرے نہ کبھی دامنِ دلدار لگا
ایک ہچکی میں ٹھکانے دلِ بیمار لگا
پاس میرے وہ ترا پیار سے آنا نہ رہا
کوچے سے ترے دل مجھے جانے نہیں دیتا
قصد کرتا ہوں جو اس در سے کہیں جانے کا
دم آخر ہے یہ تجھ کو بھی روامل جاتا
جاؤ اس کو میں تو اک اک سے جدا مل جانا
نہ مرے دل کو گرفتار کرو تم اپنا
رہتا ہوں تجھے دیکھ کے میں ہاتھ ہی ملتا
تو جائے سر رہ میں جس کو کہ نظر آیا
دنیا میں جب تلک کہ میں اندوہ گیں رہا
رونے سے کام بس کہ شب اے ہم نشیں! رہا
ہر روز رہا مجھ سے شبِ تار کا وعدہ
ہے یہ دلِ دیوانہ تو پروانہ پری کا
ہر دم ہے ترے حسن کا حیران دوسرا
تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
کرتا تھا کہیں وصف میں اس غنچہ دہن کا
کسی جنگل کے کل بوٹے سے جی مرا بہل جاتا
چاہتا یوں نہ دل نشیں ہوگا
ہائے اس کا ہمک کر اٹھ جانا
اس دمِ سرد سے خطرہ نہ اگر کیجئے گا
جفا و جور نت کے اب تو یہدل سہ نہیں سکتا
ابنِ مریم آسماں کا ، میں زمیں کا ہو رہا
جو تو اے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووے گا
ہوا ہے پیدا دشمنِ جاں بس کہ باغباں میرا
کسو بھی طرح گزارا نہیں جہاں میرا
زلفیں دکھا کے اس نے عالم کو مار ڈالا
بلبلِ خوش صفیر ہوں گلشنِ روزگار کا
ٹھکانا اک جگہ ہو تا نہیں اس غم کے مارے کا
دامن اس شوخ نے کھینچا جو جھٹک کر اپنا
ہے آنسوؤں سے غوغا ان پر کبوتروں کا
اشکوں سے میرے لخت جگر دور رہ گیا
غیر کے گھر میں یار رہنے لگا
اک حرفِ کن میں جس نے کو کون و مکاں بنایا
پہلو سے اٹھ کے شب جو وہ آرامِ جاں گیا
ہے یہاں کس کو دماغ انجمن آرائی کا
گرچہ مذکور ہے ہر جا تری رعنائی کا
داغ دیکھے تھا کھڑا لالۂ صحرائی کا
قاصد اس کو سے پھرایا نہ پھرا ہووے گا
دل گرایا جگر اس دیدۂ گریاں سے چوا
دنیا سے اپنے یار کو لدوائے شتاب
شاید کسو نے پھر اسے برہم کیا ہے اب
ہم کو دینے لگے تم چھیڑ کے کالی کیا خوب
بام پر اس کے جو ہوتا گزرِ نالہ شب
کیوں نکلتا سوتے سوتے منہ سے اپنے یا نصیب
باتیں بنا کے مجھ کو سیدا نہ کیجے صاحب
کس دن گلی سے اس کی پھرا نامہ بر شتاب
غیروں سے میاں تیری ملاقات نہیں خوب
دن کو تو نہیں کوئی ملاقات کی تقریب
جی چلے تیرا تو ل چکھ تو بھی اسے مست شراب
یہ حالت ہے کہ دل سینے میں گھبراتا ہے بے موجب
دلِ دیوانہ اس کی گالیاں کھاتا ہے بے موجب
کھکھلا کر نہ ہنسا کیجئے آپ
البتہ فنِ عشق میںہو جس کو مہارت
ہر چند آس نے تیری طرف سے بنائی بات
خدا نے حور و پری کو کب ایسی دی صورت
منعم تو ہو رہا ہے گرفتار سنگ وخشت
ہرگز کھلا نہ شیخ پہ اسرارِ سنگ و خشت
خواب میں آئے ہے جب اس کے میاں آدمی رات
اے زبان تیشہ کہہ کچھ کوہ کن کی سرگزشت
گلی میں اس کی نہ پوچھو کدھر ہے سجدہ درست
میانِ عالمِ ہستی اگر ہے سجدہ دوست
تھی میرے ہاتھ ہی میں، تمہاری کمر تو رات
ہاے اس کے وہ ننھے ننھے بات
رخسار پر ہے زلفِ پریشان کی اوقات
لے کے دل زلف میں رکھا ہے لپیٹ
جیسے کسی چیز پر ہوتی ہے طفلاں میں بحث
آتی ہے یہ کچھ آہ کے صدمے سے دل پہ چوٹ
تا بہ فلک تو گئی اشک کے طوفاں کی موج
یار ملتا ہے کوئی ، یہ آہ و زاری ہے عبث
نہ تو اس شہر میں دوا کا رواج
یوں ہوا معلوم ہم کو دل کی بے تابی سے آج
عیسلی سے کیوں کہ ہو دلِ بیمار کا علاج
نکلا ہے سرخ پوش ہو وہ نوجوان آج
خسرووں کے سر سے کب جاوے ہواے تخت و تاج
کچھ ان دنوں ہے اور ہوا گلستاں کے بیچ
ہم کو ناکامیِ طالع نے رکھا کام کے بیچ
لے گیا شوق قفس کو دلِ ناکام کے بیچ
جی جگر سب ہو گیا قاتل مرے لوہو کا خرچ
ملتے ملتے ووں ہی ہو جاتا ہے بیگانے کی طرح
ہوتی ہے کیا بھی مرے صاحب حیا کی طرح
تاچند کرتے خدمتِ گل باغباں کی طرح
رات کاٹی ہم نے تجھ بن جس طرح
سینے سے جلوہ گر ہے ترے ابتداے صبح
گالیاں دیتے ہوتم مجھ کو مری جاں صریح
اپنا تو مرغِ دل ہے گرفتار حسنِ شوخ
لباس پہنے ہے اکثر وہ شوخِ پر فن سرخ
اس مست کو ہوا ہے جو شوقِ شراب و سیخ
کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
کس کے یاد آئے تجھے دستِ نگاریں فرہاد
آئنے کو ہے ترے حسن کی خدمت شاید
ناوک سے نگہ کی ترے ہرگز نہ بچا صید
کس طرح جھانکے کوئی واں کرکے اب گردن بلند
ہم نے خط لکھنے کو جب اس کے اٹھایا کاغذ
آیا جو وہ کل تیر و کماں ہاتھ میں لے کر
آتا ہے جی میں یوں کہ کسی گل کو تاڑ کر
ہم کو ترساتے ہو تم کیوں یہ ادا دکھلا کر
ہم نے لٹا دیا ہے گھر بار تیری خاطر
نکلے ہے یہی دل کے مرے ساز سے باہر
وہ دن گئے کہ تھا تو شیریں مقالیوں پر
سرپہ کل طرے کا گڑوا رکھ کے لائی ہے بہار
دیکھے کیا جی پہ گزرے، نوبہار آئی ہے پھر
رہتا ہے دل اس زلفِ پریشاں میں گرفتار
عالم ہے تری زلفِ پریشاں میں گرفتار
میری اس کی ہے ملاقات کچھ اور
یوں ہے وہ نقاب اس بت بے پیر کے منہ پر
ارجن سا بشر آ نہ سکا تیر کے منہ پر
کیا ہی شیریں زبان ہے کافر
خنداں رہِ کرم سے چلے آؤ میرے گھر
ہم تو سوئے نہ فراغت سے کبھی بستر پر
پھولوں کی چھڑی کھائے ہے گل بندِ قبا پر
ہم صبح کو کوچے سے ترے رہ گئے چل کر
اتنا تو نہ جینے سے فلک مجھ کو خفا کر
کافر یہ جو بکھرے ہیں ترے بال ہوا پر
سنبلِ تر کے تئیں پردۂ رخسار نہ کر
جان من جلوہ گری پر سرِ بازار نہ کر
جتنا کہ سراہا، وہ ہوا او ربھی مغرور
جامہ ملتا ہے بدن سے ترے چسپاں ہو کر
باندھی ہے ہم نے از بس جوں نے کمر فغاں پر
کس کے مجروح یہ مدفوں ہیں تہِ خاک ہنوز
بیگانگی ہے اس کی ملاقات میں ہنوز
خوں ٹپکتا ہے مرے دیدۂ گریاں سے ہنوز
طوطی میں کہاں ہے تری گفتار کا انداز
ٹک آکے بیٹھے جو وہ مہ جبیں ہمارے پاس
دور سے دیکھتے ہیں یار کا دیدار اور بس
اس دل ویران کا عالم نظر آیا کہ بس
کر دیا ہے مجھ کو دو باتوں نے آس کی بے حواس
کس منہ سے ہم جہاں میں کریں روزوے عیش
جس آنکھ کو ہو رخنہ دیوار کی تلاش
یا عہدِ وفا ہوا فراموش
ہے دام میں زلفوں کے گرفتار کوئی شخص
دل فرش ہوا جائے ہے آغازِ شبِ رقص
ہوتا ہے حسنِ رو سے ترے آرسی کو فیض
کیوں نہ اب مژگاں سے دیکھے تیغ اور خنجر کی عرض
نہ مسیحا کو دکھایا جگرِ ریش غرض
عیش کہاں، کدھر نشاط، کہتے ہیں کس کو انبساط
گنتا تھا بس کہ اپنے تئیں خاکسار محض
حسن نے بھیجا ہے لکھ لعل شکر خاکو خط
کیا لکھے اس کے تئیں اب کوئی ہمسار کا خط
گل پھول کی خوش رہی سرو وسمن کا حظ
نکل گیا مرے منہ سے کہیں خدا حافظ
پردۂ فانوس میں یوں تو نہاں جلتی ہے شمع
ساتھ پروانے کے راتوں کو جلا کرتی ہے شمع
اک ان میں حقِ خدمت ہوا مرا ضایع
لے گیا پروانہ دل میں حسرت دیدار شمع
ہے تو تو وہ نقشِ قلمِ قدرتِ صانع
ہے مرے سینے میں روشن داغِ فرقت کا چراغ
ابر کیوں کر ہو سکے اس چشمِ گریا کا حریف
کون کرے سیرِ باغ کس کو ہے اتنا دماغ
اس نے جس دن سے کیا آنکھ لڑانا موقوف
نادار ہوے ہیں ہم یہاں تک
عشق کیا ہے؟ تباہی عاشق
چہرے پہ تازگی سے ہے جوشِ شکست رنگ
آئینہ ہوا اس رخِ زیبا کے مقابل
ہے گرفتاریِ دل باعثِ بیماریِ دل
کیا شوق مین ۃیں نعرہ زناں قمری و بلبل
دن رات ہیں میرے دل کے دنبال
عالم کو کیا ہے تو نے پامال
دل میں جب عشق کی اٹھی ہے شول
تھا آپ ہی دیوان مر انامۂ اعمال
چمنِ دہر میں غم ناک ہیں ہم اور بلبل
مزہ ہے، ہووے کر چپکے ہی چپکے مدعا حاصل
دیکھ آئینے میں زلف کو جھجکا نہ کرو تم
کیوں تیوری چڑھی رہتی ہے اب کچھ نہیں معلوم
صرف مشتاق ہیں اک تیری ملاقات کے ہم
کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
خط پہ ہے سبزہ زار کا عالم
شمع رو ایسے کے پروانے ہیں ہم
نظروں میں تیری پیارے گو بے وقار تھے ہم
کب لگ سکے جفا کو اس کی وفاے عالم
صرف گریہ کا ہوا ہے اثرِ نالہ تمام
سیراب آبِ جو سے قدح اور قدح سے ہم
کیا دل میں ترے کس گل کی خوبی نے اثر شبنم
میری آنکھوں میں تر ہو رشکِ گلِ خنداں تم
ہر دم کو سمجھتے ہیں دمِ بازپسیں ہم
یادگارِ گزشتگاں ہیں ہم
دنیا ہے جاے رنج ومحن، غم بہت ہے یاں
وابستہ بہارِ طرب غم بہت ہے یاں
جی چاہتا ہے وعدۂ دیدار ہو کہیں
مرتے ہیں جان ہم تو ترے اشتیاق میں
دروازہ نہ تھا اس کا تو جاے سگ و درباں
نے زخمِ خوں چکاں ہوں نہ حلقِ بریدہ ہوں
اے شبِ ہجر! کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
لیتا ہوں میں جب اس کی بلائیں ، وہ نازنیں
تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں
ادھر سے جھانکتے ہیں کہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
یا تو آوے وہ رشکِ ماہ کہیں
کبھی وفالیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں
جوں اشک راہِ خشک سے کم ہے خبر ہمیں
راہِ عدم دکھائے ہے اس کی کمر ہمیں
جاں باز سپاہی یہیں بے جان ہوئے ہیں
سر کیوں کہ نہ ہم باغ کی دیوار سے ماریں
کم خواب کی یہ جو نظر آتی ہیں ازاریں
رکھتا ہے جو تو زبان شیریں
دیکھ آیا ہے یہ کس جامۂ جسپاں کے تئیں
دلی ہوئی ہے ویراں، سونے کھنڈر بڑے ہیں
کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
کس کے مقتل سے ہوا آج گزارِ دامن
پھول لالے کے ہیں جتنے چشم خوں آلودہ ہیں
خونِ ناحق ہے ترا نقش و نگارِ دامن
عشق میں امتحاں ہزاروں ہیں
اشک خونیں ہیں مرے نقش ونگار ِ دامن
میں کیا کہوں کہ راتیں کیا سخت کٹیاں ہیں
یا گزرتی تھی بہم عالمِ یک جائی میں
تبِ غم سے جو چھاتیاں جلیاں
جس گھڑی قاتل کے تھا حلقومِ بسمل ہاتھ میں
کبھی اس تازہ گل بن ہم جو رخت اپنا بدلتے ہیں
جن روزوں کہ تھا اپنا گزرا اس کی گلی میں
امیدِ وفا پر میں جفائیں بھی اٹھائیں
کشتوں کی اس کے لاشیں جو اب تک گڑیں نہیں
ہے غلط تجھ سے جو امید بھی رکھتے ہیں
مژگاں تری جب تک کہ صف آرا نہ ہوئی تھیں
پہلو میں کہاں تک دلِ بے تاب کو دابیں
خنجر کی میاں پونچھ تو لوہو بھری نابیں
جی تلک داؤ محبت میں لگا بیٹھا ہوں
مجھ کو اس بت سے ملا دے تو سراہ کہیں
یارو ہماری گر اسے چاہ اس قدر نہیں
یار بن زبست کا کچھ لطف جوانی میں نہیں
سرِ جہاں سے ہم کو خبر ہے بھی اور نہیں
چلتے چلتے جو تری راہ میں آجاتے ہیں
جب بتاں زلف کی زنجیر دکھا جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے جو کبھی رونے پر آجاتے ہیں
کبھی پردے سے جو وے آنکھ لڑا جاتے ہیں
سرزنش یاں خاک کوے یار کو ہے اور نہیں
نقشِ شیریں میں ترے حسن کا پرداز کہاں
اول تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیاں میں
عشق بازی ہے کچھ یہ کھیل نہیں
اقطاعِ زمیں سارے گر دیکھے موزوں ہیں
جن ہاتھوں سے لیتا تھا کسو کی میں بلائیں
چوسر میں ہم اس شوخ سے جی ہار گئے ہیں
ہمارے داغِ جگر شب نمود کرتے ہیں
جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
باتوں میں آپ ہنس ہنس نتے زہر گھولتے ہیں
جفا شعار جو ہو سو وفا شعار نہ ہو
کیا کم ہوا ہے زخموں سے میرا بدن اتو
یا الہٰی! مرے نالے کا اثر پیدا ہو
وہ نہیں میں جسے مرنے کا خطر پیدا ہو
تاچند رکھوں دل میں گلستاں کی ہوس کو
پھر عشق کا اِن روزوں آزار ہوا مجھ کو
مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو
بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
سدھاری قوتِ دل تاب اور طاقت سے کہو دیجو
گو کہ رنجیروں میں جکڑیں، روک اس کی کس سے ہو
خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
پیکاں ترا جگر کے اگر متصل نہ ہو
گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
پہلو سے مرے یار کا پیکاں نہ نکالو
رہے مے خانے کے در پر پڑا دن رات کا ہے کو
بالوں کو سنوارو ہو، پٹھوں ، کو بناتے ہو
گرچہ تم تازہ گلِ گلشنِ رعنائی ہو
اک بات میں کہوں اگر آزردہ تو نہ ہو
جس گل کے بیچ مہر و محبت کی بو نہ ہو
اگر تم آؤ ہمیں سرفراز کرنے کو
از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
رہ گئے دیکھتے ہی ہم در کو
یاد آئے جو ترے موے پریشاں مجھ کو
خوار رکھتا ہے اب تلک ہم کو
خاک میں مل گئے ہم، یار کا چلنا دیکھو
گریہ دل کو نہ سوے چشمِ بہاؤ
آج اس نے کیا ہے اپنا بناؤ
نہ تنہا اضطرابِ دل نے شب رسوا کیا مجھ کو
میرے ملنے سے تمہیں حظ نہ اگر ملتا ہو
ساتھ وسعت کے ہے ہر چند جہاں رہنے کو
کب تک مری آنکھوں سے رواں خونِ جگر ہو
مقدور ہو تو لاگ نہ رکھیے کس کے ساتھ
روز کی خارا تراشی سخت مجبوری ہے یہ
بس کو پیوند ہوا ہے جگر چاک کے ساتھ
مرغانِ باغ کی تو خوش آوازیاں تو دیکھ
کچھ زلف ہی الجھتی نہیں ہے صبا کے ساتھ
پھبتا ہے یوں وہ تکمۂ گوہر گلے کے ساتھ
شبنم ہوئی پانی ترے دانداں کی طرف دیکھ
اس اشک کے قطرے کی مرے جلوہ گری دیکھ
کیا شبزہ ہے سیراب، بیاباں کی طرف دیکھ
راتوں کو ستاروں کی ذرا جلوہ گری دیکھ
اس نے جو جوکچھ کہا شب ہم کو گھر میں بیٹھ بیٹھ
پیچ پگڑی کا کھل رہا ہے کچھ
دل ہے پہلو میںکہ اک دشمنِ جاں کاہ ہے یہ
دل کو ہے رفتگی اس ابروے خم دار کے ساتھ
ہے مزہ سیرِ چمن کا تو فقط یار کے ساتھ
تو مری تربت پہ آیا واہ واہ
صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
عشق کیا اک ذلت و خواری ہے یہ
اس پردگی سے کیوں کہ وہ آنکھیں لڑا سکے
مسی کو مل کے غیر کے گھر آپ کل گئے
نالے سے میرے کوہ و بیاباں دہل گئے
لیلیٰ کا محمل اس کے محافے سے دور ہے
لے گئے دل کو مرے چھین کے بالے والے
کیا غم ہے، گر سحر وہ گئی چشمِ تر لیے
باگیسوے آشفتہ جو تو باغ میں جاوے
بس کہ تھی حسن میں یوسف سے سوائی مہنگی
سرخ ہیں مے سے وہ چشمِ نیم خوابِ نر گسی
جورِ فراق اور ستمِ آسماں بھی ہے
عجب پاکیزہ صورت اس بتِ کافر ادا کی ہے
کب اس طرف وہ بتِ کج کلاہ آتا ہے
سر پر خار سے دامن کو جھٹکتے آئے
نہیں بندگی میں تو کچھ راہ اس کی
میر کیا چیز ہے سودا کیا ہے
گر ابر گھرا ہوا گھڑا ہے
منہ خنجرِ قاتل پہ رکھوں، بے ادبی ہے
گو کہ مخلِ ہمدمی، چرخِ جفا طراز ہے
موسمِ گل باغباں، باغ کا در کھول دے
آب ہو حسرتِ دل تو تو بھی جاتی ہے
پاؤں کا رنگ لب سے ترے آشکار ہے
شب نالہ ہاے گرم جو سے فلک چلے
زلفِ مشکیں ہو جہاں، سنبل کی بو کیا چیز ہے
نے تیر، نہ تلوار، نہ خنجر، نہ چھرا ہے
سنتے تو ہیں اکسیر ہے، عنقا ہے ، ہما ہے
زبس نظروں میں تھے ڈھنگ اس بلاے ناگہانی کے
ڈرتا ہوں صبا تجھ سے جو وہ زلف اکڑ جائے
اینٹھے کبھو خط اور کبھو وہ زلف اکڑ جائے
اس کی رفتار کا مذکور جب آجاتا ہے
کون اس باغ سے اے بادِ صبا! جاتا ہے
کس منہ سے کریں ہم ہوسِ محملِ لیلیٰ
لافِ گرمی ترے عارض سے جو گلشن مارے
غیر سے آنکھ نہ یوں وہ بتِ پر فن مارے
اس ظلم کی آفت کسی ہم فن پہ نہ ہووے
نہ تو یہ آہ ہی ہم دوشِ اثر ہوتی ہے
میں وہ نہیں ہوں کہ اس بت سے دل مرا پھر جاے
دکھا کے در سے وہ مڑنے کی گر ادا پھر جاے
غم اس کا کچھ نہیں گو مجھ سے اک جہاں پھر جاے
جہاں سے جاے وہ جو تم سے اے بتاں! پھر جاے
نہ قاصد ہے، نہ نامہ ہے، نہ پیغامِ زبانی ہے
نہ وہ راتیں، نہ وہ باتیں، نہ وہ قصہ کہانی ہے
نصیب اپنے میں غم، اوروں کو عیش و شادمانی ہے
مہندی نے ترے ہاتھوں پہ یہ رنگ دیا ہے
کاجل تری آنکھوں میں میاں کس نے دیا ہے
دیں تو کیا چیز ہے، ایمان بھی صدقے کیجے
غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھاہیے
یہ لوگ میاں جی سے گزر جائے ہیں کیسے
یہ دل کہ اتشِ غم پر سپند رہتا ہے
دیکھے جو تری فندق سفاک کے ڈورے
ٹوٹے جو راوے جگر چاک کے ڈورے
گئے ہیں یار اپنے اپنے گھر، دالان خالی ہے
کسی پر دل کا آجانا غضب ہے
زخم کاری جگر پر آیا ہے
جب گھر سے وہ بعدِ ماہ نکلے
شام جلتا ہے دلِ خستہ، سحر جلتا ہے
نہ فقط مال کا عاشق کے ضرر ہوتاہے
ٹکڑے ٹکڑے جو کسی گل کا جگر ہوتاہے
تصور تیری صورت کا مجھے ہر دم سناتا ہے
آگے ہستی کے تری، ہستیِ عالم کیا ہے
قاصد نویدِ وصل زبانی ہے یار کی
رکھ کے ہم زانو پہ جس وقت کہ سر بیٹھ گئے
اس نے کتنوں کو مار اتارا ہے
آنکھ لڑتے ہی یہ حالت ہم پہ کچھ طاری ہوئی
بازوے کوہ کن کی تلاشی زمین ہے
آئی پسند کوے بتاں کی زمین مجھے
اٹھ گیا زیست کے کرنے کا مزہ دنیا سے
کس چاؤ سے دل کا مرے ارمان نکل جاے
منہ سے ترے مربھی جو مری جان نکل جاے
لت اس بتِ کافر کی ملاقات نئی ہے
کوچے میں اس کے جو کوئی جی کھو کے جاسکے
کچھ حیا آنکھوں میں ہے اس کی تو کچھ پیار بھی ہے
جس سے امید وفاتھی بے وفائی اس نے کی
جب کبھی صید افگنی کو وہ صنم چڑھ جاے ہے
جب شبِ غم اشکِ سرخ اپنے کایم چڑھ جاے ہے
جب ترا ماتھا غضب سے اے صنم! چڑھ جاے ہے
دیکھ تو ہم میں غمِ عشق نے کیا رکھا ہے
پیری میں بھی ہم الفتِ طفلاں سے نہ چھوٹے
نہ دوستی، نہ محبت، نہ دلبری دیکھی
نالے مرے ہر چند اثر کچھ نہیں رکھتے
جس گھڑی یاد وہ زلف و کمر آجاتی ہے
تازہ ترکیب کوئی جب نظر آجاتی ہے
حظ کھینچے تو نے مجھ پر تحریر کیا نکالی
ملتا ترا اغیار سے منظور کسے ہے
رونق، بہارِ حسن تمہارا ہمیں سے ہے
صورت عرق مینۃے یہ رخِ پر حجاب کی
یہ نہ سمجھو کہ سحر چاک گریباں ہووے
لباسِ سرخ میں کافر بھبوکا، بن کے آیا ہے
رکا سیبِ زنخداں تو مرے ہاتھ میں ہے
سو مفر ہیں اس کے،۔ گر کوئی بلا پیچھے پڑے
ہاتھ میں لے کے وہ جب تیغ و سپر نکلے ہے
صبح کی شام ہوئی، شام کی پھر رات ہوئی
شرم آتی ہے اب اٹھ کر یاں سے کیا گھر جائیے
گرچشمِ تر سے ہم نے ٹک آستیں اٹھالی
جی میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جائیے
نہ اس رونے سے آفت دیدۂ گریاں پہ آئی ہے
بہار موسمِ گل اب کے پھر طغیاں پہ آئی ہے
یاد اس کو دیدہ بازی کے ہیں فن نئے نئے
خط نیا، خال نیا، زلف کی تحریر نئی
کاجل آنکھوں میں نہ اتنا بھی لگایا کیجے
بہ حالِ نزع ہوں میں دے مجھے شمشیر سے پانی
جوں جوں الفت زیادہ ہوتی ہے
جز نجد کے دیکھی نہ کوئی منزلِ لیلیٰ
نہ ڈر سے شیخ کے جامِ مل آستیں میں ہے
نہ یہ وہ دل ہے کہ اب جس سے نالہ سر کھینچے
دور رہنا ہی بھلا ہے ہمیں محبوبوں سے
گو تم نے مجھے زیست سے بیزار رکھا ہے
مروت بھی اگر آنکھوں میں اس کی اک ذرا ہوتی
غرض کہ جو حرکت ہے سو دل لبھانے کی
تم ہم کو اپنا منہ نہ دکھاؤ تو خوب ہے
کوئی کیا جانے کہ اس عشق میں کیا بنتی ہے
رفتار اس کی دل پہ جو ٹھوکر لگا گئی
کب ہاتھ مرا اس کے گریباں کے تلے جاے
جوں جوں دل زخم کھائے جاتا ہے
گاہ مد سرمے کی، کاجل کی گہے تحریر ہے
آیا تھا ترے سجدے کو میں خوابِ عدم سے
ملو ہو غیروں سے اور ہم سے بے وفائی ہے
یوں ہے نازاں جی سے مجھ کو وہ ستم گر مار کے
دیکھ کر سورت تمہاری ہم بہت پر غم ہوئے
مار ڈالا ہے ادا نے تیری
راہ میں کشتے پڑے ہیں کئی ارمان بھرے
مثلِ آئینہ فقط وہ ہے اور اک حیرت ہے
چمن ہے، سبزہ ہے ، ساقی ہے اور ہوا بھی ہے
ہر ایک قدم پر جو وہاں غش کی جگہ ہے
جھپٹے میں آگیا ہے دل اپنا اس پری کے
دل خارا میں مرا نالہ اثر کرتا ہے
ہر قدم انداز ہے، ہر گام پر اک ناز ہے
یوں قتل غریبوں کا، اے شوخ! روا کب ہے
شب وہ ان آنکھوں کو شغلِ اشک باری دے گئے
اے فلک آپ کو اتنا جو پھرایا تو نے
خطرہ ہے مجھے اس دل کم بخت کی خو سے
چھیڑے سے مرے ہر دم زلف اس کی اکڑتی ہے
ہر ایک بال وہ، جس کے تئیں کمر نہ لگے
طاق پر خوشۂ الگور دھرا رہتا ہے
جو تھے سننے والے اس آہِ حزیں کے
کوئی ایسا نہیں ملتا کہ ہم کو ہم سے لے جاوے
رباعیات
مسدس
مسدس دوم
مسدس سوم
مثمن ناتمام
مثنوی در افراط سرما
مثنوی در افراط گرما
مثنوی در افراط آتش
مثنوی پسر تنبولی
منہ پھرا لینے میں توبارے بھلا اک ناز ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.