سرورق
فہرست
کلی کو اس چمن میں جب نہ ہو وقفہ تبسّم کا
ردیف الف
لگن میں گر نصیب غیر ہیں تیرے چرن دھونا
نہانا تم کو واں حمّام میں جا اور بدن دھونا
سو بار یوں تو میرا ہو جی نڈھال ڈوبا
شور و ففغان بلبل گلزار کم ہوا
میرے اور اس کے درمیاں جس نے نفاق رکھ دیا
لب پہ لایا نہ سخن آپ کو بیمار کیا
گہہ روئے خوں گہہ اشکوں سے داماں بھر لیا
کچھ نہ پتنگے ہی کا تن جل گیا
صانع کا یہ اولین عمل تھا
زلف آئنے میں تھی وہ طلسمات کا کیڑا
یا ترا وصل صنم ! مجھ کو سزاوار نہ تھا
عارض ہے یا کہ تارا میں کچھ نہیں سمجھتا
اے نالۂ دل ! دف نہ ڈفالی کا بجانا
جاتا نہیں ہے دل سے ہر گز تصور اس کا
ہمارے شیشۂ دل پر یہ سنگ سخت گرا
دور سے گل پہ جو نہیں مرغ خوش آہنگ گرا
چاہ غم میں جو شب بیض یہ دل تنگ گرا
کل سیر گلستاں کو ہم کو بھی صبا جانا
مرغ دل پھر دام زلف خم بہ خم میں جا پھنسا
ٹک جس ےس کہ دل میں پیار رکھا
کون سمجھا اس سے میری چشم ترنے کیا کہا
گر میں دام ہوس حور و پری سے چھوٹا
کوئی خبر لا دے کہ اس سے نامہ بر نے کیا کہا
حنائی پا کی ٹھوکر دیتی ہے کھو خواب آتش کا
دل میں کھبتی ہے نازنیں کی ادا
حال دل خوب ہے مکشوف خدا پر میرا
فقط اک سادی الفت کا صنم ناتا سمجھتا تھا
مستان رہ عشق کریں کیا گلۂ پا
ہو ایک اسیروں کا ترے سلسلۂ پا
جب سر نگوں ہو وہ بت ناداں خجل ہوا
زنجیر سے مرتے تک باہر نہ قدم نکلا
ہوس سے ہے دل اہل ہوس تہ و بالا
تم نے دل کن کن اداؤں سے لیا عاشق کا
ایک عمر سے تھا اس کا وطن دامن صحرا
لینے دے دم تو اے نفس آتشیں ! ذرا
گر ہوں ہم اب کے اس قفس تنگ سے جدا
طالع کرے ہے طوطی خوش رنگ سے جدا
جب تک یہ محبت میں بدنام نہیں ہوتا
رکھتے ہیں سر کر در کے ترے سنگ سے جدا
ہجر بتاں میں راحت و آرام گم ہوا
وہ بھولا سواد وطن کی فضا
جب تیرے شست تیر فگن سے نکل گیا
پیکاں جب اس کا زخم کہن سے نکل گیا
گو جوش پہ ٹک آیا دریاؤ طبیعت کا
سر زیر تیغ ناز جھکایا نہ جائے گا
درد جگر جو سلسلہ جنبان برق تھا
میں فرط غم میں رات جو خواہان برق تھا
اے جان ! تم سے مل چلے ٹک ہم تو کیا ہوا
بزم سخن میں فکر مرا جب دخیل تھا
دیکھو تو کر رہا ہے وہ آج شور و شر کیا
رتبہ مرے سخن کا سمجھے ہے ہر بشر کیا
کب اس کے لب سے ہو نفس سرد آشنا
جب تک نہ مجھے خاک میں ملوائے گا غصّا
کوئی دشت عاشق سا نہ بیاباں ہے دوسرا
پروانے کے تئیں سمجھو نہ تم نور کا خوشا
اس قدر تیز نہ چل میں ترے قربان ہوا !
خانۂ تن میں کوئی دم کی ہے مہمان ہوا
نقش قدم کی طرح جب چل نہ سکا بٹھا دیا
ہمارے آنسوؤں کا جس دم آیا جوش میں دریا
آتش کدہ دہر سے دل سرد ہے اتنا
کر آوے شان قہاری کا اس کی جوش میں دریا
تاراج فصل دے نے کیا گلستاں کو کیا
کس طرح کریں ضبط فغان ہو نہیں سکتا
سرمہ کھلا دیا جرس پر فغاں کو کیا
نگاہ ناز نے جس کی دم نخچیر کو توڑا
ساقی ! نہ دکھا مجھ کو شیشہ مئے گلگوں کا
ان پہ ہر چند رہی اشک فشاں زاری شب
ردیف ب
نو اسیران قفس شاکی صیاد ہیں سب
ہے یہ جو سطح بحر پہ تحریر موج آب
تھی خط تیغ سے ان کو جو سر نوشت نصیب
اے دل ! کسی گل کی بو نہ کر اب
ردیف پ
شب ہوئے شیخ و برہمن بھی تیری یاد سے چپ
گو تجھ کو مسلماں کہے کافر نہ دلا چپ
دریا میں چھوڑ دیوے جو گیسوے یار سانپ
نوحے کی اس گلی میں صدا تھی بلند رات
ردیف ت
لاکھوں ڈہے پڑے ہیں مکان بلند و پست
غم نہاں سے جو دل پر شکست ہے دن رات
تا سحر قید محبت سے نہ ہم چھوٹے رات
ردیف ٹ
کہتا ہے کہ جلوہ ہے عیاں یار کا گھٹ گھٹ
ظالم میں کیا کہوں تری تیغ جفا کی کاٹ
چین جبیں نے اس کی دیا ملک چیں الٹ
لاکھوں گئے ہیں مجھ پہ یہاں تیغ کیں الٹ
رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
ردیف ث
کیوں تشنۂ خوں میرا خونخوار ہے کیا باعث
ردیف ج
لگا ہے کس کی نگہ کا یہ تیر کاری آج
روز اول سے ہے یارو چرخ کج رفتار کج
دل کی بے چینی نے شب مجھ کو کیا زمزمہ منج
جویا نہ سلطنت کے نہ خواہان تخت و تاج
ردیف چ
پھول لالے کا رکھا اس نے جو دستار کے بیچ
کیا تجھ میں برائی ہے ذرا بولیو تو مانچ
پروانہ گرد شمع پھرا انجمن کے بیچ
ردیف ح
کرتا ہے مجھ پہ ظلم و ستم باغباں صریح
تا جاوے نہ اٹھ کر میرے پہلو سے وہ گھر صبح
ردیف خ
جس نخل کو کہ ہو نہ تمنائے برگ و شاخ
انگلی چھٹی تیری ہے صںم نسترن کی شاخ
نرگس کی رکھ قلم تو نہ بو یاسمن کی شاخ
ہو صراحی نہ اس سے کیونکر سرخ
مہندی سے یوں ہوا کف دست نگار سرخ
ردیف د
گو زمانے کو کرے گردش ایام سپید
ہے بے مروتی سے یہ خون جہاں سپید
پہنے ہے جب لباس وہ سرو رواں سپید
کسی پہ کیونکر کھلے پیکر گلی کا بھید
اول شب سے ہے واں وہ تو بہ تیاری عید
آنکھیں کرے ہیں نجد کا گرد و غبار بند
اگر ہزار کرے بلبل سحر فریاد
پھین ہو کر یہ شب اشکوں کا بہا آب سپید
اے فلک رکھ نہ تو یہ بات روا میرے بعد
موسم گل نے کیے کوہ و بیاباں آباد
ردیف ذ
سرخ کیا بھیجے اسے عاشق مسکیں کاغذ
جس ورق پر ہو مری کج نظری کی تصویر
ردیف ر
جب سے وہ آستاں ہے ہماری جبیں سے دور
پردہ ہوا ہے کس کے رخ آتشیں سے دور
ہوتا ہے رو و مو کا غبار آستیں سے دور
اگر سو طرح کی تہمت لگاویں دشمناں تم پر
قاصد کے ڈر سے بسکہ میں کہ بات مختصر
ہوئی بہ رنج و محن میری شست سال کی عمر
ملتی ہے اجل جس کو کفن نذر پکڑ کر
زلفوں سے ملا شانہ شکن نذر پکڑ کر
جان جاتی ہے مری اے بت کم سن تجھ پر
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
خال نرمہ سے ہے یوں اس خط ریحانی پہ مہر
لاکھ داغوں سے ہے میرے رخت عریانی پہ مہر
ہے دام فگن زلف گرہ گیر ہوا پر
مژگاں نے سجے ترکش پر تیر ہوا پر
تھا کس کا سحر نعرۂ تکبیر ہوا پر
رقصاں یہ بگولا ہے نہ چک پھیر ہوا پر
دیتے ہو گالیاں جو کھڑے میرے نام پر
کبودی سے نہ ہو کیوں ماتمی جلباب ناخن پر
دیدۂ کور کو کیا روئے نگار آئے نظر
کھاوے نہ زہر کیونکر پری اس سہاگ پر
صبا نہ آئی کبھی بلبل اسیر کے گھر
اے آہ نہ جا تو دل رنجور سے باہر
چل کریں ساقی چراغ بادہ روشن آب پر
تھی گھتا میں گات کس کی سایہ افگن آب پر
حلقہ کہاں کا رکھ نہ گل اندام دوش پر
رکھتے ہیں باندھ کر ثمر خام دوش پر
غنچے جلتے ہیں مری تازہ مضامینی پر
جس طرح صبح کٹی یوں ہی کٹے شام بخیر
ساتھ پھرتا ہے لیے اپنے وہ قاتل دو چار
خنجر ناز سے اک سمت ہیں بسمل دو چار
اس نے شعلہ سا دیا ہے جو تری جان میں چھوڑ
ردیف ڑ
اے صبا ! اب کے تو اک گل نہ گلستاں میں چھوڑ
مطرب پسر نے دی ہے جو مجھ پر زبان چھوڑ
اوپر سے سیل فتنہ نہ اے آسماں چھوڑ
ردیف ز
جس نگہ سے کہ ہوئی تھی نہ حیا محرم راز
اہل معنی کب پہنتے ہیں زنانوں کا لباس
ردیف س
حیا سے بیٹھے وہ شب سر جھکا کے میرے پاس
داغوں سے میں ہوں ہوش ربائے پر طاؤس
ردیف ش
دیکھے وہ جسے ہووے ہوائے پر طاؤس
میں خس ہوں اور مزاج دلبر آتش
ہے لخت دل آنکھوں میں وہ پرکالۂ آتش
کیوں کر نہ کہوں رنگ رخ یار کو آتش
محمل نشین مار کی جو ہے زباں خموش
ردیف ص
معشوق لوگ رکھتے ہیں گل پھول کا خواص
اس وضع سے ہر گز نہ کرے حور و پری رقص
سنتا نہیں ہے وہ شہ خوباں کسی کی غرض
ردیف ض
اس ماہ روئے جب نہ سنی مصحفی کی عرض
اے شوخ ! نہ کر میرے دل زار سے اعراض
ہر چند کہ ہو مریض محتاط
ردیف ط
ردیف ظ
ڈھونڈتا ہے بےخبر دن رات کیا جس تس میں خظ
دیکھ کے میں یار کے روئے دل آرا کا خط
ردیف ع
یاں نت شب وصال رہی آرزوے شمع
ترے اس داغ دل پر آفریں شمع
عالم ہے ترا اے بت بے پیر مرقع
ردیف غ
کب ہر اک سفلے سے اپنا کرتے ہیں خالی دماغ
دامن دل کھینچے ہے وحشت بیاباں کی طرف
ردیف ف
نہ ہو خلق کو کیوں تمناے یوسف
ردیف ق
کیوں پھینک نہ دوں توڑ کے نوک قلم شوق
جب تلک تعمیر ویرانی کرے معمار عشق
ردیف ک
شب کو جوں ہو ستارگاں کی چمک
یار ہوتا ہے مرا لالہ عذر ایک نہ ایک
جس رنگ ہے رخسارہ ترا گل سے بھی نازک
عشق و حسن و سرود میں ہے لاگ
ردیف گ
نالے نے میرے شب جو لگا دی چمن کو آگ
ردیف ل
مرد قانع کو پسند آئے جو خود رنج کی چال
پرے سرک کہ نہ رڑپے گا روبرو بسمل
بسکہ دن رات مری آہ شرر بار ہے گرم
ردیف م
محرم کے حباب اور ہیں وہ محرم گل و شبنم
شرمندہ ترے رو سے ہیں اے زخم جگر ہم
اشک سر مژگاں تھے جو اے دیدۂ تر ہم
نکلی نہ قتل گہ میں کسی کی ہوس تمام
کبھی پیدا کبھی ناپید ہیں ہم
ناحق کو محبت میں گرفتا رہے ہم
نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
ہم تو جوں سرمہ اسے آنکھوں میں جا دیتے ہیں
لگتے ہیں نت جو خواباں شرمانے باوے ہیں
ردیف ن
اپنی مجلس میں بتاں جب ہمیں جا دیتے ہیں
قریب شمع شب مل مل کف افسوس شیشے میں
پری کس کے تصور سے میں کی محبوس شیشے میں
بھری ہے تو نے مے ساقی کہ رنگ اس شیشے میں
دامن کشی کی ہاتھ کو اپنے سزا نہ دوں ؟
جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
پٹک دیویں زمیں پر یا بہ سوےآسماں پھینکیں
جب تلک واں رہے جینے سے رہی یاس ہمیں
میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان !
گھر اشک ہیں مژگاں پہ جو دو چار رواں
اس گل پہ ہے بہار شب و روز ان دنوں
مثل یوسف گو پڑے پھر شہر زن کی قید میں
خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
قیس اس مہ عرب کے ہے دنبال کارواں
تنہا رووں سے پوچھو نہ کوئی حال کارواں
جو جلوہ گر رہے ہے بتوں کے جمال میں
سیں میں گو کہ اپنے گریباں کی دھجیاں
سورج کے رخ پہ کیونکہ نظر کی ہے کیا کہوں
اس شوخ کی خاطر ہے مری سخت حزیں جان
زیر نقاب آبگوں ہائے رے ان کی چالیاں
دیکھے ہے دور چرخ جب آرام میں ہمیں
ٹھکرا کے چل بتوں کو نہ اے دل کنشت میں
رکھتی ہے صبا پاؤں جو مستانہ چمن میں
کھولی ہے کس نے زلف گرہ گیر آب میں
مژگاں نے کس کی پھینکے ہیں یہ تیر آب میں
لیلیٰ سے کی تھیں قیس نے کس دن عدولیاں
دیکھی ہیں انگلیاں جو تری گوری گوریاں
گیسو کی تیرے چین کو دیھکیں جو چینیاں
آئیں پسند ہم کو تو عزلت گزینیاں
سمجھو نہ پیالیاں مے گلگوں کی پیلیاں
جس جعد کا ہو گوہر دل سنگ فلاخن
ہم وہ نہیں کہ عشق پے درد سر کریں
گل کا گلہ نہ شکوۂ راد سحر کریں
پکڑا گیا میں عشق بتاں کے گناہ میں
مژگاں کو تو دیکھ اس کے ہم تیر اسے کہتے ہیں
بے زخم مجھے مارا شمشیر اسے کہتے ہیں
آہ کس زلف پریشاں کا پریشاں ہوں میں
جو صورتیں تھیں صفا کی غبار میں آئیں
اس تیغ کے ہیں زخم مرے تن میں ہزاروں
غم سے دل کی مرے کونپل نہ جلے خشک تو ہو
اک مشت استخواں کے سوا مجھ میں کچھ نہیں
ردیف و
یہ کہاں اشک میں پانی کہ گریباں تو ہو
ہم تلک آؤ اب اتنی نہیں فرصت تم کو
آتا ہے طپانچوں کو سجے آن تو دیکھو
اک روگ سا رہتا ہے لگا نت مرے جی کو
اتنے ہی میں دنیا سے گزر کر گئے ہم تو
یا دل کی بے کلی سے دلآ رام رام ہو
خاک میں مل رہے ہیں ہم ہم سے نہ تم ہنسا کرو
یہ زیب حسن ہے اسے بہر خدا نہ کھو
جانے دو مجھے بر سر تقریر نہ لاؤ
ردیف ہ
اس بات بات کا کیا غم ہے جو بسمل کا برا ہو
کہتا نہیں کہ یار کے داماں سے دور رہ
اے داد خواہ ! ٹک در سلطاں سے دور رہ
شب کا جاگا ہوا آیا وہ خمار آلودہ
گو مرے خون سے ہو دامن یار آلودہ
آیا وہ تلے تیغ کے جھٹ جس پہ پڑی آنکھ
اے جی نگرے جوآں (کذا) ادھر دیکھ
کہنے میں رہا نہیں ہے دل آہ
نکلا سوار ہو جو وہ قاتل کٹار باندھ
جان گئی یار کی یاری کے ساتھ
کیا فائدہ کھڑا ہو محصول کوٹ باندھ
لحد میں کھول نہ اے ہمنشیں ہمارا منہ
دل خوں میں لٹاتے ہیں عاشق کا حنا والے
ردیف ے ، ی
تنہا نہ قصد دل میں ہیں ناوک فگن کئی
نالے سے میرے چاک ہوئے پیرہن کئی
برگشتہ نگہ کا جو تری تیر الٹ جائے
لگ کر مرے سر پر جو تری تیغ الٹ جائے
آنکھیں وہ بلا جن سے دم آہو کا الٹ جائے
گر اس کے پاؤں کی مہندی سے اپنا دل لپٹے
گر یہ کس کام کا وہ جس میں کہ مژگاں ڈوبے
کشتی چرخ نہ اے نوح کے طوفاں ڈوبے
باہم زبسکہ مہر و محبت نہیں رہی
نہ کرتے پھریں آپ سیل او سپاٹے
سبزہ اب تربت مجنوں سے تو کیا خاک اگے
زیب دامان مژہ سلک لآلی کیجے
عرصۂ حشر میں شکل اپنی جو کالی کیجے
کس بہانے سے ترے در تلک آوے کوئی
رفتہ رفتہ دل میں چاہ اس کی جو مفرط ہو گئ
روتے روتے ہجر کی شب آنکھ جو شط ہو گئی
لہو سے شعلۂ جوالہ جب وہ خود بن جائے
رہے دوپٹے میں ہر عضو تن چرائے ہوئے
انساں سے گہے جن سے ہمیں کام پڑا ہے
اس عشق میں کیا کیا نہ ستم ہم نے اٹھائے
تنہا ترا مزاج نہ خونخوار گرم ہے
وصل موقوف رکھا ہجر کی آفت ڈالی
بہار پھولوں سے جب کوہ و دشت و زاغ بھرے
یہی دن اور یہی راتیں رہیں گی
اس لیے مجنوں کا یہ سر زیر ہے
سج دھج نہیں رکھتا کوئی نازک شجر ایسی
فلک کرتا ہے سامان جدائی
ترا کشتہ اس کو خدا جانتا ہے
گر کار گر یہ چشم پرخوں تلک نہ پہنچے
پہلو میں نہیں ہے جو مرا دل کئی دن سے
ہے اس صف مژگاں کے مقابل کئی دن سے
سن اے دلبر ! تو میری جان رکھ لے
غیر کے گھر میں وہ جا شب گل بالین ہوئے
ناخن اس شوخ کے مہندی سے جو رنگین ہوئے
گو گود صبا تیری پھولوں سے بھری ہوگی
یا جان ہی جاوے گی مری دھیان میں اس کے
رکھتے تھے ہم تو تم سے صنم صاف دوستی
بوسے سے گیسوؤں کے جو منہ مہک رہا ہے
شاید کہ کوئی قیدی کچھ کھا کے مر رہا ہے
اپنا مکھرا ہمیں آکر کبھی دکھلاتے ہیں
بالی کے نہ بندے نہ گوہر کے حوالے
گجرا ہے وہاں ساعت دلبر کے حوالے
دکھ نہ دیجو کہیں خوباں کی ملاقاتوں سے
ہلاؤں لب تو کرے احتمال اس میں بھی
بدن سے جان کو کیوں کر نکال ڈالے کوئی
روٹھے آملتے ہیں جن میں کہ وفا ہوتی ہے
تصویر تیری پیارے ہم نے لگا رکھی ہے
اب آفتاب عمر کا وقت غروب ہے
ترے کوچے میں قید غم سے دل آزاد ہوتا ہے
بے طرح دل میں سمائی ہے محبت تیری
الفت کا تری دل سے مرے خار نکل جائے
کھو دیا چین مرا راتوں کی بے خوابی نے
دنیا میں اگر چاہے آرام کی روٹی
فقط نہ گریے سے اس چشم نم کو آگ لگی
کبھی پاؤں نہ اس کی گلی میں گئے کبھی ہاتھ نہ طوق کمر کے ہوئے
تامے میں کوئی حرف بھی سنجیدہ نہ ہووے
تہمت عشق کی رسوائی بری لگتی ہے
یہ تو مشکل ہے کہ دنیا میں بدن رہ جاوے
حیف جلووں کی ترے چار طرف دھوم رہے
کہنے کو میرے شاید وہ شوخ مان جاوے
تنہا نہ خون دل ہی کے پینے پہ حرف ہے
مسی سے لب کی اودے نگینے پہ حرف ہے
جیسے بنت سے ٹوپی کے مینے پہ حرف ہے
ملنے کی کسی طرح سے امید تو ہووے
ہم نے خوشی اس کی ہر اک بات میں رکھی
ہمیں تباہ کیا دل کی بے قراری نے
بعد قتل عاشقاں گر دست و خنجر دھوئے
واہ تم بھی خوب ہو دے کر دغا جاتے رہے
پاؤں سے اس کے پاؤں ملے تو پاؤں کو زنجیر ملی
کچھ اس میں کم نہ ہووے گی شان ستمگری
نے پیار سے بولے نہ مجھے مار ہی ڈالے
رنگ چہرے کا ترے گل میں نہ گلزار میں ہے
دل لگا جس کا تری خوبی رخسار میں ہے
چاؤ جوانی میں تھے کیا کیا دل میں بھرے عیاروں کے
جدائی کا قلق کب یوسف دور از وطن جانے
گلشن سے روز اٹھ کر صحرا کو جاتی ہوگی
پیسے ہے دل کو حسرت بوس وکنار بھی
قطعہ ، رباعیات ، مثنویات ، سلام و مراثی
قطعۂ تہنیت
سبھوں کے مبارک ہو یہ نونہال
رباعیات
حسب فرمایش فتح علی کپتان
ہے یہ جو نئی سی اک حکایت
مثنوی گلزار شہادت
یوں یاں سے لکھے ہے کلک تحریر
مثنوی مرغ نامہ مرزا تقی
دل میں تھا مدت سے یہ مذکور ہو
مثنوی بحر المحبت
لب زخم قلم ذرا وا ہو
آغاز داستاں
اک جگہ اک جوان خوش ظاہر
مثنوی جذبۂ عشق
عشق ہے جوہر محیط جہاں
خاک دہلی میں اک جوان حسیں
آغاز دستان
یہ جو قوم شیخ ہے اے دوستاں !
مثنوی در ہجو قوم شیخ
سلام
مژدہ اسے جو سبح جہاں سے سفری ہے
جب فاطمہ کے لعل نے حجت تمام کی
کہا ہے جس نے جگر بند مصطفیٰ پہ سلام
اس پر سلام ہو کے کواز قاش زیس جدا
سلام فاطمہ دکھیا کے بیٹے بے سر پر
سلام اس پہ کہو جس کا گھر رہا نہ رہا
کہتا ہوں تیرا شاہا مجرا ! سلام و کورنش
سلام اس پہ خنجر ہے جس کا سلامی
کر کے بابا کے تئیں عابد رنجور سلام
مجرا اسے جس کشتۂ مغفور کی گردن
سلام کہیے تو ایسا حسین کی خاطر
بعد درود کہہ سلام بعد سلام بندگی
اس پر سلام تھا جو دل و جان فاطمہ
اس پر سلام جس کو کہ زہرا کی جائیاں
سلامی ترا سب کو ہم دیکھتے ہیں
کہہ سلام اس پہ جو ہے مہر درخشان علی
ملک سب آتے ہوں جس کے سلام کی خاطر
جبریل جسے لے کر خالق کا سلام آوے
کہہ سلام اس کو کہ جس کا کربلا مسکن ہوا
اسے مجرا کہ سر جس کا بہ نوک نیزہ جاتا تھا
اس کو مجرا جسے مقبول جہاں ہونا تھا
سلام اس پر کہو جو سیدالشہدا کہاتا تھا
بہر ترویح سید عالم
مرثیہ
ولو کوئی تو روح پیمبر کے واسطے
سرورق
فہرست
کلی کو اس چمن میں جب نہ ہو وقفہ تبسّم کا
ردیف الف
لگن میں گر نصیب غیر ہیں تیرے چرن دھونا
نہانا تم کو واں حمّام میں جا اور بدن دھونا
سو بار یوں تو میرا ہو جی نڈھال ڈوبا
شور و ففغان بلبل گلزار کم ہوا
میرے اور اس کے درمیاں جس نے نفاق رکھ دیا
لب پہ لایا نہ سخن آپ کو بیمار کیا
گہہ روئے خوں گہہ اشکوں سے داماں بھر لیا
کچھ نہ پتنگے ہی کا تن جل گیا
صانع کا یہ اولین عمل تھا
زلف آئنے میں تھی وہ طلسمات کا کیڑا
یا ترا وصل صنم ! مجھ کو سزاوار نہ تھا
عارض ہے یا کہ تارا میں کچھ نہیں سمجھتا
اے نالۂ دل ! دف نہ ڈفالی کا بجانا
جاتا نہیں ہے دل سے ہر گز تصور اس کا
ہمارے شیشۂ دل پر یہ سنگ سخت گرا
دور سے گل پہ جو نہیں مرغ خوش آہنگ گرا
چاہ غم میں جو شب بیض یہ دل تنگ گرا
کل سیر گلستاں کو ہم کو بھی صبا جانا
مرغ دل پھر دام زلف خم بہ خم میں جا پھنسا
ٹک جس ےس کہ دل میں پیار رکھا
کون سمجھا اس سے میری چشم ترنے کیا کہا
گر میں دام ہوس حور و پری سے چھوٹا
کوئی خبر لا دے کہ اس سے نامہ بر نے کیا کہا
حنائی پا کی ٹھوکر دیتی ہے کھو خواب آتش کا
دل میں کھبتی ہے نازنیں کی ادا
حال دل خوب ہے مکشوف خدا پر میرا
فقط اک سادی الفت کا صنم ناتا سمجھتا تھا
مستان رہ عشق کریں کیا گلۂ پا
ہو ایک اسیروں کا ترے سلسلۂ پا
جب سر نگوں ہو وہ بت ناداں خجل ہوا
زنجیر سے مرتے تک باہر نہ قدم نکلا
ہوس سے ہے دل اہل ہوس تہ و بالا
تم نے دل کن کن اداؤں سے لیا عاشق کا
ایک عمر سے تھا اس کا وطن دامن صحرا
لینے دے دم تو اے نفس آتشیں ! ذرا
گر ہوں ہم اب کے اس قفس تنگ سے جدا
طالع کرے ہے طوطی خوش رنگ سے جدا
جب تک یہ محبت میں بدنام نہیں ہوتا
رکھتے ہیں سر کر در کے ترے سنگ سے جدا
ہجر بتاں میں راحت و آرام گم ہوا
وہ بھولا سواد وطن کی فضا
جب تیرے شست تیر فگن سے نکل گیا
پیکاں جب اس کا زخم کہن سے نکل گیا
گو جوش پہ ٹک آیا دریاؤ طبیعت کا
سر زیر تیغ ناز جھکایا نہ جائے گا
درد جگر جو سلسلہ جنبان برق تھا
میں فرط غم میں رات جو خواہان برق تھا
اے جان ! تم سے مل چلے ٹک ہم تو کیا ہوا
بزم سخن میں فکر مرا جب دخیل تھا
دیکھو تو کر رہا ہے وہ آج شور و شر کیا
رتبہ مرے سخن کا سمجھے ہے ہر بشر کیا
کب اس کے لب سے ہو نفس سرد آشنا
جب تک نہ مجھے خاک میں ملوائے گا غصّا
کوئی دشت عاشق سا نہ بیاباں ہے دوسرا
پروانے کے تئیں سمجھو نہ تم نور کا خوشا
اس قدر تیز نہ چل میں ترے قربان ہوا !
خانۂ تن میں کوئی دم کی ہے مہمان ہوا
نقش قدم کی طرح جب چل نہ سکا بٹھا دیا
ہمارے آنسوؤں کا جس دم آیا جوش میں دریا
آتش کدہ دہر سے دل سرد ہے اتنا
کر آوے شان قہاری کا اس کی جوش میں دریا
تاراج فصل دے نے کیا گلستاں کو کیا
کس طرح کریں ضبط فغان ہو نہیں سکتا
سرمہ کھلا دیا جرس پر فغاں کو کیا
نگاہ ناز نے جس کی دم نخچیر کو توڑا
ساقی ! نہ دکھا مجھ کو شیشہ مئے گلگوں کا
ان پہ ہر چند رہی اشک فشاں زاری شب
ردیف ب
نو اسیران قفس شاکی صیاد ہیں سب
ہے یہ جو سطح بحر پہ تحریر موج آب
تھی خط تیغ سے ان کو جو سر نوشت نصیب
اے دل ! کسی گل کی بو نہ کر اب
ردیف پ
شب ہوئے شیخ و برہمن بھی تیری یاد سے چپ
گو تجھ کو مسلماں کہے کافر نہ دلا چپ
دریا میں چھوڑ دیوے جو گیسوے یار سانپ
نوحے کی اس گلی میں صدا تھی بلند رات
ردیف ت
لاکھوں ڈہے پڑے ہیں مکان بلند و پست
غم نہاں سے جو دل پر شکست ہے دن رات
تا سحر قید محبت سے نہ ہم چھوٹے رات
ردیف ٹ
کہتا ہے کہ جلوہ ہے عیاں یار کا گھٹ گھٹ
ظالم میں کیا کہوں تری تیغ جفا کی کاٹ
چین جبیں نے اس کی دیا ملک چیں الٹ
لاکھوں گئے ہیں مجھ پہ یہاں تیغ کیں الٹ
رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
ردیف ث
کیوں تشنۂ خوں میرا خونخوار ہے کیا باعث
ردیف ج
لگا ہے کس کی نگہ کا یہ تیر کاری آج
روز اول سے ہے یارو چرخ کج رفتار کج
دل کی بے چینی نے شب مجھ کو کیا زمزمہ منج
جویا نہ سلطنت کے نہ خواہان تخت و تاج
ردیف چ
پھول لالے کا رکھا اس نے جو دستار کے بیچ
کیا تجھ میں برائی ہے ذرا بولیو تو مانچ
پروانہ گرد شمع پھرا انجمن کے بیچ
ردیف ح
کرتا ہے مجھ پہ ظلم و ستم باغباں صریح
تا جاوے نہ اٹھ کر میرے پہلو سے وہ گھر صبح
ردیف خ
جس نخل کو کہ ہو نہ تمنائے برگ و شاخ
انگلی چھٹی تیری ہے صںم نسترن کی شاخ
نرگس کی رکھ قلم تو نہ بو یاسمن کی شاخ
ہو صراحی نہ اس سے کیونکر سرخ
مہندی سے یوں ہوا کف دست نگار سرخ
ردیف د
گو زمانے کو کرے گردش ایام سپید
ہے بے مروتی سے یہ خون جہاں سپید
پہنے ہے جب لباس وہ سرو رواں سپید
کسی پہ کیونکر کھلے پیکر گلی کا بھید
اول شب سے ہے واں وہ تو بہ تیاری عید
آنکھیں کرے ہیں نجد کا گرد و غبار بند
اگر ہزار کرے بلبل سحر فریاد
پھین ہو کر یہ شب اشکوں کا بہا آب سپید
اے فلک رکھ نہ تو یہ بات روا میرے بعد
موسم گل نے کیے کوہ و بیاباں آباد
ردیف ذ
سرخ کیا بھیجے اسے عاشق مسکیں کاغذ
جس ورق پر ہو مری کج نظری کی تصویر
ردیف ر
جب سے وہ آستاں ہے ہماری جبیں سے دور
پردہ ہوا ہے کس کے رخ آتشیں سے دور
ہوتا ہے رو و مو کا غبار آستیں سے دور
اگر سو طرح کی تہمت لگاویں دشمناں تم پر
قاصد کے ڈر سے بسکہ میں کہ بات مختصر
ہوئی بہ رنج و محن میری شست سال کی عمر
ملتی ہے اجل جس کو کفن نذر پکڑ کر
زلفوں سے ملا شانہ شکن نذر پکڑ کر
جان جاتی ہے مری اے بت کم سن تجھ پر
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
خال نرمہ سے ہے یوں اس خط ریحانی پہ مہر
لاکھ داغوں سے ہے میرے رخت عریانی پہ مہر
ہے دام فگن زلف گرہ گیر ہوا پر
مژگاں نے سجے ترکش پر تیر ہوا پر
تھا کس کا سحر نعرۂ تکبیر ہوا پر
رقصاں یہ بگولا ہے نہ چک پھیر ہوا پر
دیتے ہو گالیاں جو کھڑے میرے نام پر
کبودی سے نہ ہو کیوں ماتمی جلباب ناخن پر
دیدۂ کور کو کیا روئے نگار آئے نظر
کھاوے نہ زہر کیونکر پری اس سہاگ پر
صبا نہ آئی کبھی بلبل اسیر کے گھر
اے آہ نہ جا تو دل رنجور سے باہر
چل کریں ساقی چراغ بادہ روشن آب پر
تھی گھتا میں گات کس کی سایہ افگن آب پر
حلقہ کہاں کا رکھ نہ گل اندام دوش پر
رکھتے ہیں باندھ کر ثمر خام دوش پر
غنچے جلتے ہیں مری تازہ مضامینی پر
جس طرح صبح کٹی یوں ہی کٹے شام بخیر
ساتھ پھرتا ہے لیے اپنے وہ قاتل دو چار
خنجر ناز سے اک سمت ہیں بسمل دو چار
اس نے شعلہ سا دیا ہے جو تری جان میں چھوڑ
ردیف ڑ
اے صبا ! اب کے تو اک گل نہ گلستاں میں چھوڑ
مطرب پسر نے دی ہے جو مجھ پر زبان چھوڑ
اوپر سے سیل فتنہ نہ اے آسماں چھوڑ
ردیف ز
جس نگہ سے کہ ہوئی تھی نہ حیا محرم راز
اہل معنی کب پہنتے ہیں زنانوں کا لباس
ردیف س
حیا سے بیٹھے وہ شب سر جھکا کے میرے پاس
داغوں سے میں ہوں ہوش ربائے پر طاؤس
ردیف ش
دیکھے وہ جسے ہووے ہوائے پر طاؤس
میں خس ہوں اور مزاج دلبر آتش
ہے لخت دل آنکھوں میں وہ پرکالۂ آتش
کیوں کر نہ کہوں رنگ رخ یار کو آتش
محمل نشین مار کی جو ہے زباں خموش
ردیف ص
معشوق لوگ رکھتے ہیں گل پھول کا خواص
اس وضع سے ہر گز نہ کرے حور و پری رقص
سنتا نہیں ہے وہ شہ خوباں کسی کی غرض
ردیف ض
اس ماہ روئے جب نہ سنی مصحفی کی عرض
اے شوخ ! نہ کر میرے دل زار سے اعراض
ہر چند کہ ہو مریض محتاط
ردیف ط
ردیف ظ
ڈھونڈتا ہے بےخبر دن رات کیا جس تس میں خظ
دیکھ کے میں یار کے روئے دل آرا کا خط
ردیف ع
یاں نت شب وصال رہی آرزوے شمع
ترے اس داغ دل پر آفریں شمع
عالم ہے ترا اے بت بے پیر مرقع
ردیف غ
کب ہر اک سفلے سے اپنا کرتے ہیں خالی دماغ
دامن دل کھینچے ہے وحشت بیاباں کی طرف
ردیف ف
نہ ہو خلق کو کیوں تمناے یوسف
ردیف ق
کیوں پھینک نہ دوں توڑ کے نوک قلم شوق
جب تلک تعمیر ویرانی کرے معمار عشق
ردیف ک
شب کو جوں ہو ستارگاں کی چمک
یار ہوتا ہے مرا لالہ عذر ایک نہ ایک
جس رنگ ہے رخسارہ ترا گل سے بھی نازک
عشق و حسن و سرود میں ہے لاگ
ردیف گ
نالے نے میرے شب جو لگا دی چمن کو آگ
ردیف ل
مرد قانع کو پسند آئے جو خود رنج کی چال
پرے سرک کہ نہ رڑپے گا روبرو بسمل
بسکہ دن رات مری آہ شرر بار ہے گرم
ردیف م
محرم کے حباب اور ہیں وہ محرم گل و شبنم
شرمندہ ترے رو سے ہیں اے زخم جگر ہم
اشک سر مژگاں تھے جو اے دیدۂ تر ہم
نکلی نہ قتل گہ میں کسی کی ہوس تمام
کبھی پیدا کبھی ناپید ہیں ہم
ناحق کو محبت میں گرفتا رہے ہم
نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
ہم تو جوں سرمہ اسے آنکھوں میں جا دیتے ہیں
لگتے ہیں نت جو خواباں شرمانے باوے ہیں
ردیف ن
اپنی مجلس میں بتاں جب ہمیں جا دیتے ہیں
قریب شمع شب مل مل کف افسوس شیشے میں
پری کس کے تصور سے میں کی محبوس شیشے میں
بھری ہے تو نے مے ساقی کہ رنگ اس شیشے میں
دامن کشی کی ہاتھ کو اپنے سزا نہ دوں ؟
جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
پٹک دیویں زمیں پر یا بہ سوےآسماں پھینکیں
جب تلک واں رہے جینے سے رہی یاس ہمیں
میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان !
گھر اشک ہیں مژگاں پہ جو دو چار رواں
اس گل پہ ہے بہار شب و روز ان دنوں
مثل یوسف گو پڑے پھر شہر زن کی قید میں
خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
قیس اس مہ عرب کے ہے دنبال کارواں
تنہا رووں سے پوچھو نہ کوئی حال کارواں
جو جلوہ گر رہے ہے بتوں کے جمال میں
سیں میں گو کہ اپنے گریباں کی دھجیاں
سورج کے رخ پہ کیونکہ نظر کی ہے کیا کہوں
اس شوخ کی خاطر ہے مری سخت حزیں جان
زیر نقاب آبگوں ہائے رے ان کی چالیاں
دیکھے ہے دور چرخ جب آرام میں ہمیں
ٹھکرا کے چل بتوں کو نہ اے دل کنشت میں
رکھتی ہے صبا پاؤں جو مستانہ چمن میں
کھولی ہے کس نے زلف گرہ گیر آب میں
مژگاں نے کس کی پھینکے ہیں یہ تیر آب میں
لیلیٰ سے کی تھیں قیس نے کس دن عدولیاں
دیکھی ہیں انگلیاں جو تری گوری گوریاں
گیسو کی تیرے چین کو دیھکیں جو چینیاں
آئیں پسند ہم کو تو عزلت گزینیاں
سمجھو نہ پیالیاں مے گلگوں کی پیلیاں
جس جعد کا ہو گوہر دل سنگ فلاخن
ہم وہ نہیں کہ عشق پے درد سر کریں
گل کا گلہ نہ شکوۂ راد سحر کریں
پکڑا گیا میں عشق بتاں کے گناہ میں
مژگاں کو تو دیکھ اس کے ہم تیر اسے کہتے ہیں
بے زخم مجھے مارا شمشیر اسے کہتے ہیں
آہ کس زلف پریشاں کا پریشاں ہوں میں
جو صورتیں تھیں صفا کی غبار میں آئیں
اس تیغ کے ہیں زخم مرے تن میں ہزاروں
غم سے دل کی مرے کونپل نہ جلے خشک تو ہو
اک مشت استخواں کے سوا مجھ میں کچھ نہیں
ردیف و
یہ کہاں اشک میں پانی کہ گریباں تو ہو
ہم تلک آؤ اب اتنی نہیں فرصت تم کو
آتا ہے طپانچوں کو سجے آن تو دیکھو
اک روگ سا رہتا ہے لگا نت مرے جی کو
اتنے ہی میں دنیا سے گزر کر گئے ہم تو
یا دل کی بے کلی سے دلآ رام رام ہو
خاک میں مل رہے ہیں ہم ہم سے نہ تم ہنسا کرو
یہ زیب حسن ہے اسے بہر خدا نہ کھو
جانے دو مجھے بر سر تقریر نہ لاؤ
ردیف ہ
اس بات بات کا کیا غم ہے جو بسمل کا برا ہو
کہتا نہیں کہ یار کے داماں سے دور رہ
اے داد خواہ ! ٹک در سلطاں سے دور رہ
شب کا جاگا ہوا آیا وہ خمار آلودہ
گو مرے خون سے ہو دامن یار آلودہ
آیا وہ تلے تیغ کے جھٹ جس پہ پڑی آنکھ
اے جی نگرے جوآں (کذا) ادھر دیکھ
کہنے میں رہا نہیں ہے دل آہ
نکلا سوار ہو جو وہ قاتل کٹار باندھ
جان گئی یار کی یاری کے ساتھ
کیا فائدہ کھڑا ہو محصول کوٹ باندھ
لحد میں کھول نہ اے ہمنشیں ہمارا منہ
دل خوں میں لٹاتے ہیں عاشق کا حنا والے
ردیف ے ، ی
تنہا نہ قصد دل میں ہیں ناوک فگن کئی
نالے سے میرے چاک ہوئے پیرہن کئی
برگشتہ نگہ کا جو تری تیر الٹ جائے
لگ کر مرے سر پر جو تری تیغ الٹ جائے
آنکھیں وہ بلا جن سے دم آہو کا الٹ جائے
گر اس کے پاؤں کی مہندی سے اپنا دل لپٹے
گر یہ کس کام کا وہ جس میں کہ مژگاں ڈوبے
کشتی چرخ نہ اے نوح کے طوفاں ڈوبے
باہم زبسکہ مہر و محبت نہیں رہی
نہ کرتے پھریں آپ سیل او سپاٹے
سبزہ اب تربت مجنوں سے تو کیا خاک اگے
زیب دامان مژہ سلک لآلی کیجے
عرصۂ حشر میں شکل اپنی جو کالی کیجے
کس بہانے سے ترے در تلک آوے کوئی
رفتہ رفتہ دل میں چاہ اس کی جو مفرط ہو گئ
روتے روتے ہجر کی شب آنکھ جو شط ہو گئی
لہو سے شعلۂ جوالہ جب وہ خود بن جائے
رہے دوپٹے میں ہر عضو تن چرائے ہوئے
انساں سے گہے جن سے ہمیں کام پڑا ہے
اس عشق میں کیا کیا نہ ستم ہم نے اٹھائے
تنہا ترا مزاج نہ خونخوار گرم ہے
وصل موقوف رکھا ہجر کی آفت ڈالی
بہار پھولوں سے جب کوہ و دشت و زاغ بھرے
یہی دن اور یہی راتیں رہیں گی
اس لیے مجنوں کا یہ سر زیر ہے
سج دھج نہیں رکھتا کوئی نازک شجر ایسی
فلک کرتا ہے سامان جدائی
ترا کشتہ اس کو خدا جانتا ہے
گر کار گر یہ چشم پرخوں تلک نہ پہنچے
پہلو میں نہیں ہے جو مرا دل کئی دن سے
ہے اس صف مژگاں کے مقابل کئی دن سے
سن اے دلبر ! تو میری جان رکھ لے
غیر کے گھر میں وہ جا شب گل بالین ہوئے
ناخن اس شوخ کے مہندی سے جو رنگین ہوئے
گو گود صبا تیری پھولوں سے بھری ہوگی
یا جان ہی جاوے گی مری دھیان میں اس کے
رکھتے تھے ہم تو تم سے صنم صاف دوستی
بوسے سے گیسوؤں کے جو منہ مہک رہا ہے
شاید کہ کوئی قیدی کچھ کھا کے مر رہا ہے
اپنا مکھرا ہمیں آکر کبھی دکھلاتے ہیں
بالی کے نہ بندے نہ گوہر کے حوالے
گجرا ہے وہاں ساعت دلبر کے حوالے
دکھ نہ دیجو کہیں خوباں کی ملاقاتوں سے
ہلاؤں لب تو کرے احتمال اس میں بھی
بدن سے جان کو کیوں کر نکال ڈالے کوئی
روٹھے آملتے ہیں جن میں کہ وفا ہوتی ہے
تصویر تیری پیارے ہم نے لگا رکھی ہے
اب آفتاب عمر کا وقت غروب ہے
ترے کوچے میں قید غم سے دل آزاد ہوتا ہے
بے طرح دل میں سمائی ہے محبت تیری
الفت کا تری دل سے مرے خار نکل جائے
کھو دیا چین مرا راتوں کی بے خوابی نے
دنیا میں اگر چاہے آرام کی روٹی
فقط نہ گریے سے اس چشم نم کو آگ لگی
کبھی پاؤں نہ اس کی گلی میں گئے کبھی ہاتھ نہ طوق کمر کے ہوئے
تامے میں کوئی حرف بھی سنجیدہ نہ ہووے
تہمت عشق کی رسوائی بری لگتی ہے
یہ تو مشکل ہے کہ دنیا میں بدن رہ جاوے
حیف جلووں کی ترے چار طرف دھوم رہے
کہنے کو میرے شاید وہ شوخ مان جاوے
تنہا نہ خون دل ہی کے پینے پہ حرف ہے
مسی سے لب کی اودے نگینے پہ حرف ہے
جیسے بنت سے ٹوپی کے مینے پہ حرف ہے
ملنے کی کسی طرح سے امید تو ہووے
ہم نے خوشی اس کی ہر اک بات میں رکھی
ہمیں تباہ کیا دل کی بے قراری نے
بعد قتل عاشقاں گر دست و خنجر دھوئے
واہ تم بھی خوب ہو دے کر دغا جاتے رہے
پاؤں سے اس کے پاؤں ملے تو پاؤں کو زنجیر ملی
کچھ اس میں کم نہ ہووے گی شان ستمگری
نے پیار سے بولے نہ مجھے مار ہی ڈالے
رنگ چہرے کا ترے گل میں نہ گلزار میں ہے
دل لگا جس کا تری خوبی رخسار میں ہے
چاؤ جوانی میں تھے کیا کیا دل میں بھرے عیاروں کے
جدائی کا قلق کب یوسف دور از وطن جانے
گلشن سے روز اٹھ کر صحرا کو جاتی ہوگی
پیسے ہے دل کو حسرت بوس وکنار بھی
قطعہ ، رباعیات ، مثنویات ، سلام و مراثی
قطعۂ تہنیت
سبھوں کے مبارک ہو یہ نونہال
رباعیات
حسب فرمایش فتح علی کپتان
ہے یہ جو نئی سی اک حکایت
مثنوی گلزار شہادت
یوں یاں سے لکھے ہے کلک تحریر
مثنوی مرغ نامہ مرزا تقی
دل میں تھا مدت سے یہ مذکور ہو
مثنوی بحر المحبت
لب زخم قلم ذرا وا ہو
آغاز داستاں
اک جگہ اک جوان خوش ظاہر
مثنوی جذبۂ عشق
عشق ہے جوہر محیط جہاں
خاک دہلی میں اک جوان حسیں
آغاز دستان
یہ جو قوم شیخ ہے اے دوستاں !
مثنوی در ہجو قوم شیخ
سلام
مژدہ اسے جو سبح جہاں سے سفری ہے
جب فاطمہ کے لعل نے حجت تمام کی
کہا ہے جس نے جگر بند مصطفیٰ پہ سلام
اس پر سلام ہو کے کواز قاش زیس جدا
سلام فاطمہ دکھیا کے بیٹے بے سر پر
سلام اس پہ کہو جس کا گھر رہا نہ رہا
کہتا ہوں تیرا شاہا مجرا ! سلام و کورنش
سلام اس پہ خنجر ہے جس کا سلامی
کر کے بابا کے تئیں عابد رنجور سلام
مجرا اسے جس کشتۂ مغفور کی گردن
سلام کہیے تو ایسا حسین کی خاطر
بعد درود کہہ سلام بعد سلام بندگی
اس پر سلام تھا جو دل و جان فاطمہ
اس پر سلام جس کو کہ زہرا کی جائیاں
سلامی ترا سب کو ہم دیکھتے ہیں
کہہ سلام اس پہ جو ہے مہر درخشان علی
ملک سب آتے ہوں جس کے سلام کی خاطر
جبریل جسے لے کر خالق کا سلام آوے
کہہ سلام اس کو کہ جس کا کربلا مسکن ہوا
اسے مجرا کہ سر جس کا بہ نوک نیزہ جاتا تھا
اس کو مجرا جسے مقبول جہاں ہونا تھا
سلام اس پر کہو جو سیدالشہدا کہاتا تھا
بہر ترویح سید عالم
مرثیہ
ولو کوئی تو روح پیمبر کے واسطے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.