سروق
فہرست
مقدمہ
کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا
ردیف الف
کیا غیر کا خطرہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا؟
مجھ سے کہتے ہیں تو اس کا آشنا کیونکر ہوا؟
تیشہ فرہاد نے جب سر پہ اٹھا کر مارا
مجھ صید ناتواں سے مگر عار لے گیا
بے ڈول ہم نے دیکھا شیوہ یہ خوش قداں کا
نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
نخل لالے کا جب زمیں سے اٹھا
بزم میں اس کی شب اغیار پپہنچتا ہوگا
دن جوانی کے گئے موسم پیری آیا
گاہ بازو پہ یہ سر گہ تہ خنجر دیکھا
غم کے مارے روز و شب ناچار میں رہنے لگا
پیری سے ہو گیا یوں اس کا دل داغ ٹھنڈا
تیغ نے اس کی کلیجا کھا لیا
شب گھر سے جو سیٹی کی وہ آواز پہ نکلا
شب نیند کا ماتا تو میاں ! ہو نہ رہا تھا ؟
ہو گئے ہیں خاک آکر سو رہ نورد اس جا
دیکھ آئنے میں اک مہ تاباں ہے دوسرا
انگڑائی لے کر اپنا مجھ پر خمار ڈالا
میں زمزمہ سنج تھا چمن کا
اس نے جس دم نیمچہ کر کے علم آگے دھرا
توے ہوں ایسے کیوں کہ فراموش نقش پا
ہے کاروان رفتہ فراموش نشق پا
لخت دل ہے یہ کہ گل برگ تری کا ٹکڑا
عشق سے نہ ملنے کا سبب کچھ بھی تو ہوگا
کون ہے وہ کہ نہیں جان ! دوانا تیرا
جدا جو لیلیٰ کے محمل سے رہ گیا ہوگا
بالوں کو اس کے دیکھ کے میں مبتلا ہوا
کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
خیال یار جو شب میرا ہم کنار رہا
جب چھپ کے وہ گھر غیر کے مہمان گیا تھا
سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا
جو پھرا کے اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا
یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
پیام وصل لا دیتا ہے مجھ کو ہر سحر جھوٹا
اس کے خط میں جو لکھا غیر کا میں نام الٹا
نہ تعظیم مسیحا کو بھی جو بیمار اٹھ بیٹھا
مرے پانوں کی آہٹ سے جو شب دلدار اٹھا بیٹھا
واں جن دنوں میں اس پر عالم شباب کا تھا
ناتوانی نے مجھے جب سے نظر بند کیا
تیار ہو سفر کو جب یار گھر سے نکلا
کپڑے نئے پہن کر واں یار گھر سے نکلا
یاس سے لب تک میں آہ سرد لاکر رہ گیا
جو دم حقے کا دوں بولے کہ میں حقا نہیں پیتا
ہمیشہ تم کو میاں ! ننگ وعار ہم سے رہا
چھپ کے دو چار دن اس سے میں جہاں بیٹھ رہا
میاں ! اس طرف بھی کبھی آئیے گا
لحد میں گر اس دل کو لے جائیے گا
جیتے ہی جی کو خاک کیا میں نے کیا کیا
اول تو تیرے کوچے میں آنا نہیں ملتا
ہے جو گم دریاے الفت کا کنارا دوسرا
اک تیر میں جب اس نے نشانہ اڑا دیا
نزع کے دم بھی میں منہ کرکے ادھر دیکھ لیا
کب میں یاروں کے تئیں دیکھ پکارا نہ کیا
باغ میں گل تجھے کب دیکھ پکارا نہ کیا
دل لب زخم جگر کا جب کہ تبخالہ بنا
عرصہ جہان کا مری وحشت پہ تنگ تھا
پہلوے دل میں رات جو اس کا خدنگ تھا
منہدی ہے کہ قہر ہے خدا کا
جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا
میں ٹک گیا کہ بر دم خنجر جگر رکھا
گلبن تلے جو ضعف سے بلبل نے غش کیا
یوں ہے پر دود ترے سوختہ تن کا کپڑا
ڈھونڈ لاوے تو فلک خوار و پریشاں مجھ سا
اس شوخ کا رستہ میں اگر روک کے بیٹھا
بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا
بوے خوں دیتا ہے مجھ کو کچھ یہ گلشن اے صبا
کیا خوش آوے خاک ہم کو سیر گلشن اے صبا
وقتے کہ ہو گیا ہو اغیار یار تیرا
ہے ہے تیرا سر جھکا کے چلنا
میں اک دم چین سے رستے میں اس گل کے کہاں بیٹھا
پانی بھرے ہے یارو ! یاں قرمزی دوشالا
میں نے بھی تیرے عشق میں کیا کیا نہیں کیا
ترے کو میں اس بہانے ہمیں دن کو رات کرنا
ہر عضو میں ہو جس کے اک دل بری کا نقشہ
دیکھ اس سرور رواں کے بر میں کم خوابی قبا
بیمار کا ترے جو بدن رعشہ دار تھا
میدان عشق سے جو میں کھا کر قسم بڑھا
یاں سے گئے پہ گرچہ پھر آیا نہ جائے گا
ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
قتل کرتی ہے بتاں کے مسکرانے کی ادا
یوں تو کیا مجھ سے مہ جبیں نہ ملا
شانہ کرتے جو وہاں زلف کا مو ٹوٹ گیا
اس کے کوچے میں نہ میں یوں ہی چلا جاؤں گا
نالہ کرتا جو ترے کوچے میں آجاؤں گا
جب دن دہوں کے اس نے گہنا اتار رکھا
اک دن حنا گئی جو بہ سیر فرنگ پا
غیر کے ساتھ تری گرمی بازار ہے خوب
ردیف ب
راہی آنکھوں سے ہوئے لخت جگر آخر شب
رہ گیا تھا وہ آکے شب کی شب
یار جب گھر کو چلا باندھ کمر آخر شب
یار سوتے سے اٹھ آوے مرے گھر آخر شب
آج کس کا ہے مرے گھر سے سفر آخر شب
حصے میں ہمارے بھی کبھی آؤگے صاحب
ٹک آنکھ جھپکتے ہی سحر ہو گئی یہ شب
فراق ہی میں رہا یہ دل فراق نصیب
خوب رویوں سے دلا ! جی لگانا نہیں خوب
ردیف پ
چھوا تھا میں تو سمجھ اس کو یاسمین کا سانپ
دل کو میرے بے قراری ہے بہت
ردیف ت
خوشبوئی سے جس کی ہو خجل عنبر سارا
کاغذ کا ورق یہ پائے صورت
مرا معبود تھا وہ نازنیں رات
شعر دولت ہے کہاں کی دولت ؟
سو گیا تھا شام وہ رکھ کر جبیں پر پشت دست
اس کے مقتل میں مرا خون بٹا دست بہ دست
پردے سے صنم تو جسے دکھلائے دو انگشت
جب چاک سے پردے کے نظر آویں دو انگشت
یہ کیونکہ کہوں میں مرے گھر آئیے اک رات
وہ ٹھہرا تھا جو آکے ساعت کی ساعت
شانہ لوٹے ہے مزے کاکل پیچاں سے لپٹ
جوں ہی آ رہتی ہے سینے پہ گریباں سے لپٹ
غمزۂ شوخ جو پھینکے ہے کبھی تیر سمٹ
ردیف ث
بوسہ لبوں کا لے مزہ وصل یار لوٹ
مرتا ہے اس پہ یہ دل شیدا عبث عبث
ردیف ج
یاں نہ صفرا کا نہ سودا کا علاج
میں مسیحا سے جو پوچھا چشم گریاں کا علاج
سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج
ہیرا قلق میں پیس کھایا میں لاعلاج
بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
تھے جو کھٹکے ہوئے اس کافر بد ذات کے بیج
ردیف چ
ردیف ح
بس کہ اس فن حذاقت میں ہے ہشیار مسیح
غافل قدم نہ رکھ کہ ہیں اس میں ہزار پینچ
چمکے ہے کچھ وہ ابروے خم دار بے طرح
مجھ کو صیاد سے ہے شکوۂ احوال صریح
ردیف خ
ناوک آہ کرے جس کا سپر میں سوراخ
ہے سوئے آسماں مری آہ و فغاں کا رخ
ردیف د
ہر پور پہ اس کی ہو مرا کیونکر نہ جی بند
عاشقی ہر گز نہ کر اے دل ! کہ ہے یہ کام بد
ہاتھ آجائے جو سیب ذقن یار کی گیند
چرخ زن جسم میں یوں ہے دل بیتاب کی گیند
ہے پیش گاہ دہر میں زردار کی نمود
سمجھیں ہیں ہم جو اٹھتی ہے گاہے زمیں سے گرد
ردیف ذ
گلے میں چاہیے کیا تجھ کو سیم بر ! تعویذ
گلی سے آتی ہے اس کی صبا غبار آلود
زاہد کے نہیں داغ سیہ رنگ جبیں پر
ردیف ر
بیٹھے ہے جو کوئی اس بت پر فن کے برابر
تختے پہ تباہی کے ہوں ساحل ہے ابھی دور
میں کیا کہوں اس نغمۂ مستور کی تصویر
روبرو اس کے تو اس شرم پر آیا کیوں کر
تھا سرخ پوش کوئی شاید چمن کے اندر
جب اس نے ہاتھ دھوئے خون عاشق سے ذرا مل کر
تنگ آکر کے ترا عاشق زار آخر کار
ہوئی ہے چاہ ثابت جب سے اپنے اور بگانے پر
آسودگان خاک کے عالم کی سیر کر
رکھتا ہے قدم ناز سے جس دم تو زمیں پر
دل لے گیا ہے میرا وہ سیم تن چرا کر
جی جائے ہے اپنا تو تری چال کے اوپر
کس کو بھیجوں کون لاوے یار جانی کی خبر
آخر کو مصحفی نے دی جان تیری خاطر
کوہ غم کو جو رکھا عشق نے سر پر پتھر
رکھ کے چھاتی پہ جو اک مکے سے توڑے پتھر
مارے ٹکروں کے یہ جب تک کہ نہ توڑے پتھر
مجتمع تھے جو مری خاک پہ تھوڑے پتھر
سجدہ گاہ اپنی کیے راہ کے روڑے پتھر
دل لے گئے آنکھوں میں بہ تدبیر لگا کر
جانے دیتا میں نہ تھا جس کو نظر سے باہر
گلے سے لگ کہ مرے جی کا حال ہے کچھ اور
واں شوق قتل رکھے ہے قاتل کو بے قرار
دل کی بیتابی کہے ہے در پر اس کے جاکے گر
تیغ قاتل جب علم ہو مت دلا ! گھبرا کے گر
راتوں کو کیا پھرو ہو منہ پر نقاب لے کر
ہوا وہ گرم اسی خط کا مدعا پڑھ کر
ہے فرش زمیں پر جو یہ مہتاب کی چادر
جو بات بناتا ہوں بگڑ جاتی ہے آخر
تم کھڑے تھے جو کل کواڑ کی آڑ
ردیف ڑ
ردیف ز
اس شوخ نے کیا ہے جو دست ستم دراز
ہاتھ میں رکھنے لگا جب سے وہ تلوار دراز
کرتا ہے ہم سے گرگ فلک کج روی ہنوز
چمن کو آگ لگاوے ہے باغباں ہر روز
ردیف س
شوخیوں سے تری نکلی نہ مری خاک ہوس
میری طرح سے یار نے میلا کیا لباس
عید تو آکے مرے جی کو جلاوے افسوس
سر کاٹ کاٹ اس نے بنائے ہیں سنگ فرش
ردیف ش
یوں زلف کے میں کی ہے ہر تار کی پرستش
ہے کس کو فکر عشق میں شعر و سخن کا ہوش
یوں ہوں گے تیرے چاہنے والے ہزار شخص
نوک مژگاں پر کرے ہے یوں دل صد پارہ رقص
ردیف ص
ابر سدا لیوے ہے دیدۂ گریاں سے فیض
ردیف ض
بندہ رکھتا ہے جس صنم سے غرض
ردیف ط
بے خودوں کو کشش زلف گرہ گیر ہے شرط
گر اس نے کی نہ خون سے بسمل کے احتیاط
ردیف ظ
اپنا تو اس کے ساتھ گیا زندگی کا حظ
ہوئے نہ وصل کی دولت سے ہم کبھی محظوظ
ردیف ع
چشم سے ہوتے ہیں جب آنسو رواں وقت وداع
دکھلائے بام پر جو وہ رخ شام کو فروغ
ردیف غ
روشن کروں میں گر شب غم آہ کا چراغ
وصل کی شب گو کہ گل ہو گھر ہمارے کا چراغ
آئی جو سوختہ سے کبھی مجھ کو بوے داغ
شب فراق میں کم ہے رواج شمع و چراغ
وہ دل روشن کہ تھا سارے زمانے کا چراغ
اس نے پاؤں کو لگائی جو حنا چار طرف
ردیف ف
شانہ کرتا ہے جو تقریر پریشانی زلف
تھا جو فرقت میں تری تشنۂ خنجر عاشق
ردیف ق
صیغۂ شعر سے باہر ہوں جو کم ظرف کے حرف
آگیا دیکھتے آنکھوں کے دن اور رات میں فرق
رفتار تری جب نہ ہوئی غور رس کبک
بہار گل میں کیا ہم نے جب گریباں چاک
ردیف ک
نالوں سے میرے آگ نکلتی ہے اب تلک
سینے کا اٹھان دیکھیو ٹک
آؤ جی ہم کھپا کریں کب تک
ردیف گ
برسات میں رکھے ہے فلک کیا صفا کا رنگ
دیکھا ہے کس کے ہاتھ کی بھیگی حنا کا رنگ
اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
ردیف ل
مجھ سیہ کا دم آنکھوں میں لایا کاجل
دست معشق سیم تن کا گل
ردیف م
جب کبھی پڑتی ہے اس حسن کی تصویر پہ چشم
اب دیکھے ذرا تیشۂ فولاد کا عالم
ٹک دیکھیو اس حسن خداداد کا عالم
تھا عشق کی آتش سے زبس سینہ مرا گرم
یا اس نفس سرد کی تھی سینے میں جا گرم
ہم کرنے نہ پائے تھے چمن میں ابھی جا گرم
جلا دی کی یاں شان ہے کو مہر و کجا رحم
حور پاوے ہے کب اس جلوہ گری کا عالم
بھولتا ہے کوئی اس جلوہ گری کا عالم
کہتے ہیں کچھ بھی اس صنم نازنیں سے ہم
غیر کو جائے ہے ہمراہ نشانی پیغام
اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
ردیف ن
پھول لالے کے نہ اس خاک سے جم نکلے ہیں
خوش طالعی میں شمس و قمر دونوں ایک ہیں
تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
اگر چہ دل تو ہمیں تم سے کچھ عزیز نہیں
بن دیکھے جن کے پل میں آنکھیں بھر آئیاں ہوں
خطرہ رہے گر اس سے دو دن جدائیاں ہوں
طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
گھر میں باشندے تو اک ناز میں مرجاتے ہیں
یوں ہے ڈاک بدن کی اس پیرہن کی تہ میں
یوں رو رو اس گلی میں دن رات کاٹتے ہیں
بخت ان کے جو اسے گھر میں بلا سکتے ہیں
نہ تو ہم سوز غم عشق چھپا سکتے ہیں
آپ نظروں میں اگر دل کو چرا سکتے ہیں
ہے میاں ! صاف چمن خانۂ ماتم تجھ بن
دھڑک دھڑک دل کرتا ہے جب اس کے در تک جاتے ہیں
اس نازنین کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
لاکھوں نزاکتوں سے بھرے ہاتھ پاؤں ہیں
گوشۂ چشم سے جب اس کی نگاہیں نکلیں
خواب میں دیکھے تھا میں ہے اس کا داماں ہاتھ میں
میں کون ہوں کہ منع تمناے دل کروں
اوکھے سے ہم جو گاہے ڈھب پاکے بولتے ہیں
بلبل کا آشیانہ جس دن جلا چمن میں
بالوں کا رات کس کے جوڑا کھلا چمن میں
بھرا تھا نون تاروں نے مرے ہر زخم کاری میں
دم لے ہے جو قاتل کی دیوار کے سائے میں
مکھڑے پہ بال بکھرے اس گل کے ہر سحر میں
مشتاق سیر گلشن آویں نہ اب کدھر ہیں ؟
جو میں نے خم بہ تہ تیغ ناز کی گردن
میں مر گیا ٹلے مری چھاتی کی سل کہیں
ہے انگوٹھی کا تری اک تو نگینہ رنگین
اوروں سے سنیں اس بت عیار کی باتیں
جی کو کیا میں فرض کہ اس سے جدا کروں
ہے یہ وہ درد کہ جس کا کوئی چارا ہی نہیں
اک دن ہوئی جو اس سے ملاقات راہ میں
نے آنس کے خواہاں ہیں نے پیار کے بھوکے ہیں
آتش غم میں نہ کچھ میں ہی جلا جاتا ہوں
چاہنے والے ترے میرے سوا اور بھی ہیں
اشک جس وقت کہ مژگاں پہ رواں ہوتے ہیں
ہے مئے گلگلوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں
ہیں گلے اس کے میں چاندی کی کئی زنجیریں
سیر گلشن کو جو مانند صبا جاتا ہوں
جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں
جی میں آتا ہے کہ بوسہ کف پا کا لے لوں
صورت بت سے دکھاتی ہے پری پتھر میں
گل کا پتلا قضا کے ہاتھ میں ہوں
سو ڈھنگ ہیں چوری کے تری چشم سیہ میں
کون سی شکل ہے دس جس کے خریدار نہیں
سر مشک کا ہے تیرا تو کافور کی گردن
کون ہے وہ جو تری چشم کا بیمار نہیں
صیاد دبا رکھے ہے جوں چیل کی گردن
کل زیب سنان تھی ترے محبوس کی گردن
یہ کہوں کیوں کہ ملاقات کا مقدور نہیں
آہ اس ساتھ کہاں بیٹھ کے دو بات کروں
اے آں کہ معارض ہو مری تیغ زباں سے
ملگجے کپڑوں میں دونا نظر آتا ہے وہ حسن
بیٹھا ہوں بے قرار سر رہ سنبھل کہیں
کھلی دیکھیں کبھی جو نرگس شہلا کی واں کلیاں
تم خفا ہم سے بہت تھے یہ خبر کرتے ہیں
جب لگے کھینچنے ہر خار بیاباں دامن
ہوں گے ہوئے بھی ہم سے ہزاروں زمانے میں
کس پر ہے یہ تلوار سجی پھر کے تو دیکھو
ردیف و
ہے ہے ٹک اس طرف کو اجی پھر کے دیکھ لو
خورشید کا ادھر سے گزر کس طرح سے ہو
اشک بے صرفہ نہ اے دیدۂ تر جانے دو
عاشق کے دل زار کو تم ہاتھ سے مت دو
حسن اور عشق یار ہیں دونو
کیا نہ تھا غم دل آشکار ہم نے تو
مت آستیں سے ساعد سیمیں نکال تو
جب سر جھکا کے دھووے ہے دریا میں بال تو
آئی بہار حسرت دل اب نکال تو
پاس اپنے نہ ہر اک کو مری جان بٹھاؤ
نہ نسیم نامہ مانگے نہ صبا پیام بر ہو
مرتا ہے کوئی پھر کے نظر دیکھتے جاؤ
بسمل کے تڑپنے میں جو قاتل کی خوشی ہو
یوں مجھ پہ شب وصل میں سو لات چلاؤ
بخت خوابیدہ کو ٹھوکر سے جگاتے جاؤ
دے بوسۂ قلیاں ہی ذرا اور نہیں تو
آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
جان جاتی ہے اک نظر دیکھو
آگ میں گو جلائیے دل کو
شب مہتاب ہو صحرا ہو تو ہو
طول شب فراق سے کب تک گزند ہو
تم ایسا شوق دلا کر چھپا گئے منہ کو
جو تم غلام کو چاہو ہو سرفراز کرو
خدا نے ہاتھ سے اپنے ترے سنوارے پانو
برقع لپیٹے منہ سے جاتے ہو تم کدھر کو
جب ہم نے اس کی جانب بھیجا پیامبر کو
تم تو سو رہتے ہو سر بالش کمخواب پہ رکھ
سر ٹھوکروں میں پھرتے ہیں جس کے قدم کے ساتھ
ردیف ہ ، ھ
اس نے رکھا جو اک انداز سے رخسار پہ ہاتھ
دل میں ٹکرا کے میری آہ سے آہ
اور ہی اپنا مجھے عاشق بے جان سمجھ
جھانک لیتے تھے کبھی روزن دیوار کی راہ
قیس و فرہاد پہ آساں ہوئی کہسار کی راہ
رفتہ رفتہ ہوئی کوٹھے پہ جو دلدار کی راہ
دیکھ کر کوچے میں اس کے لاکھوں تربت کی جگہ
جاتے تھے دوڑے دوڑے چلے محملوں کے ساتھ
نہ یار سے نہ کوئی آشنا ہے میرے ساتھ
شانہ جس طرح رہے زلف پریشاں میں الجھ
بھزاد ! لکھ کے دیدۂ خوں بار کی شبیہ
لکھنے لگا جو چہرہ کش اس یار کی شبیہ
مانی ! جو کھینچے مرغ گرفتار کی شبیہ
مانی تو پہلے لکھ کے شب تار کی شبیہ
مانی جو کھینچنی ہو تجھے پیار کی شبیہ
واں ہوئے عاشق نہیں جس کو میں جانے کی جگہ
ردیف ی ـ ے
نہ جاؤ کوئی میرے قاتل کے پیچھے
ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے
دشمن جان ہوئی اپنی تو یاری تیری
دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
عمر پس ماندہ کچھ ذلیل سی ہے
آئے ہے یاد کی اسے گلزار رات سے
کپڑے پہن کے آئے ہے وہ ہر زماں نئے
اٹھ کے اب یاں سے کدھر جائے کوئی
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
کیا کہیں آہ نہ پوچھو جو مصیبت گزری
عبث تو آشیاں بلبل کا اے صیاد ! لوٹے ہے
چند روز دست و پا اپنے نہ تھے
از بس کہ مرے دیدۂ حیران میں کچھ ہے
صںع مانی ہے نہ کار خامۂ بہزاد ہے
دل نہ دیجے اس کو اپنا جس سے یاری کیجیے
جانے کا نہ لے نام کہ مر جائے گا کوئی
دیکھنا کیسا کہ واں در تک بھی جانا منع ہے
شہادت کی طلب میں نامہ گر اس کو رقم کیجے
گر اپنے ہاتھ سے خط اس جفا جو کو رقم کیجے
اک تیغ کے لگتے ہی لگی جان ٹھکانے
یا آئے مرا دل کسی عنوان ٹھکانے
پوشیدہ میں اس سے جو کہیں راہ نکالی
ان کے ہاتھوں سے کئی دل کے نشانے لگ گئے
جس دم وہ میری خاک کو ٹھوکر لگا چلے
چشم اس کی مرا کیونکر دل زار سنبھالے
جن دنوں تھی دل سے ہم پر مہربانی آپ کی
چھوڑ دی ہے کب سے میں سوگند کھانی آپ کی
منہ چھپا کر آپ جب پردے کے اندر ہوگئے
مژگاں سے زخم کیا کیا اپنے جگر میں آئے
بہ وقت بوسہ شدت سے جو لعل یار کو ملیے
تیری رفتار سے اک بے خبری نکلے ہے
ہے طرفہ ماجرا مرے قاتل کے سامنے
ٹھوکر تری جب مردۂ صد سالہ جلا دے
سچ ہے جی عشق کا بیمار برا ہوتا ہے
ادھر تو رقص میں دامن ترا اچھلتا ہے
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
مژگاں ہے مری چشم گہر بار کی ٹٹی
عیسیٰ کو ان لبوں کی گفتار مار ڈالے
دشنام پاسباں کے دو چار کھا کے آئے
اشک کا صرفہ گر کرو کشتے کی اپنے لاش سے
یوں جو چاہو تو کرو کم نگہی
ملنے کا کچھ بھی ڈھنگ ہے اس بات بدمعاش سے
دل کا سراغ میں کیا سینۂ پاش پاش سے
اس کے لہرانے میں چال آئی نہ مطلق سانپ کی
بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
پر ہے اک شہر ترے حسن کے آوازے سے
میرے مرتے ہی فلک ٹوٹ پڑے پانی کے
بانہہ اس کی میں اک دن جو شب تار گھسیٹی
اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
سوتے ہیں ہم زمیں پر کیا خاک زندگی ہے
ناز نولی جو کبھی اس نے منگائی مہندی
لیٹ کر اس نے جو تلووں کی دکھائی مہندی
اس نے ساون کی جو پنجوں میں لگائی مہندی
شب عید اس نے جو پاؤں کی چھڑائی مہندی
شب بزم غیر میں تم اگر جا کے سو رہے
ہے تمناے سیر باغ کسے
دن میں سو سو بار اب ہم ان کے گھر جانے لگے
اس کا مستی میں جو لغزش سے قدم پڑتا ہے
یاران رفتہ آہ بہت دور جا بسے
کیا فائدہ جو مجھ سے نہیں اور نکالی
کبھی گر بات حق کی مردم آگاہ بول اٹھے
جو ہم اٹھتے ہی ان کے منہ سے بسم اللہ بول اٹھے
گھڑ گھڑاہٹ جو سنی تیری صنم ! ہیکل کی
یا رب کہیں وہ غیر کی الفت کو چھوڑ دے
جس جگہ چشم تری حوصلہ پرداز ہوئی
دل دھڑکے ہے میرا تری تیاری شب سے
منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
کھڑکیاں چھاپی گئیں روزن در بند ہوئے
صانع عالم کہ روے خوش کا وہ خلاق ہے
دل فریبی میں جبیں کا چاند اگرچہ طاق ہے
ہے غریبی میں خبر کس کو وطن والوں کی
مرگیا پر نہ رفیقوں کو خبر میں نے کی
یاران عدم رفتہ گئے دور بہت سے
مجنوں کے وقت شکوہ جس دم جگر پہ ٹھہری
جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
دل ہی دل میں یاں محبت اپنا گھر کرتی رہی
چاہیے جس کو پھر اس کے کیوں کہ گھر تک جائیے
بوسے ہم خواب میں لیتے تھے پڑے پاؤں کے
دام میں صیاد جوں بلبل کو لا کر چھوڑ دے
جی میں سمجھے تھے کہ دکھ درد یہ سب دور ہوئے
ہم تو سمجھے تھے کہ ناسور کہن دور ہوئے
تھی جن سے گفتگو ہمیں وہ یار مر گئے
بام پر آکر جو شب وے کچھ اشارا کر گئے
پھر لگے اک بات کے یاں بننے افسانے کئی
شب مجھے آئے تھے اس کے گھر سے سمجھانے کئی
قفل طالع کے نہ کھولے جو ہنر کی کنجی
موسم آئے نہیں گلگشت کے گلزاروں کے
کرتا ہوں شمع جب میں روشن بغیر پوچھے
تم واں گئے کسی کی ملاقات کے لیے
کسی کے دل میں تمنا کسی کی جا نہ کرے
ہمارے خون کرنے میں نہیں تقصیر مہندی کی
یوں ہی اک تن میں مرے دم کی ہوا باقی ہے
مسی پر اس کے رنگ پاں کی سرخی
در تلک آکے ٹک آواز سنا جاؤ جی
مجھ کو نہ آنے جانے کے در سے نکالیے
ساتھ باجے کے جو راتوں کو ترے چنگ اڑے
یہ اک پری کی شکل جو چلمن کی اوٹ ہے
نہ میلے ٹھیلے کی یاں جا نہ وعدہ گاہ کوئی
ہاتھ آئے کس طرح در جاناں کی نوکری
جالی تلک آنا بھی موقوف کیا تم نے
چاہ دل سے جو اٹھا گرے کا لہرا پانی
اپنی مجلس میں ہمیں آنے کی رخصت دیجے
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
اس گلی میں جو جاکے نکلے ہے
پڑے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
نہ بیٹھ سائے تلے جاکے باغ میں گل کے
بیٹھے بیٹھے جو خیال اس کا گزر جاتا ہے
ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
کانوں کا ہر اک بالا ہر چند ہلالی ہے
بیقراری اور بھی دل کو اگر ہو جائے گی
کیا کوئی عہد یاری اس سیم بر سے باندھے
کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری
وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
صحراے عاشقی کہ سراسر زمین ہے
خیال حسن پرستی کو طاق پر رکھ دے
نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
آستیں قاتل نے کب خوں سے ہمارے پاک کی
دیوانہ وار بس کہ وہ مستی سے دو میں ہے
جس لالہ رو کو دیکھ ہزارا لہو پیے
کیا یارو اسے چھوڑ کے ہم بیٹھ رہیں گے
کی اس نے جو اپنی مجھے تلوار حوالے
چرخ پر ہیں غبار کے ٹکڑے
بارہ وفات میں چل پیارے کہ گھات بھی ہے
تھی کل گلاب کی جو ترے ہاتھ میں چھڑی
آیا لیے ہوئے جو وہ کل ہاتھ میں چھڑی
تنہا تو مجھے چھوڑ نہ جا میں ترے صدقے
ہجر کی شب بس چار پہر تک دل کو اک بے تابی ہے
دم لوں ہوں جس درخت کی میں چھانو کے تلے
آنکھوں میں اس کی میں نے جو تصویر کھینچ لی
ہے ایک تو آفت شب ہجراں کی سیاہی
دلا ایک دن خاطر یار رکھ دے
ملتے کو جو تم چاہو تو ہے بات ذرا سی
ہم گئے جان سے اور آپ نہ گھر سے نکلے
نالے سے میرے سقف عرش بریں نہ ٹوٹے
کیوں دل میں خار حسرت اے ہم نشیں نہ ٹوٹے
خدنگ شرم و حیا کا شکار رہنے دے
سو بار دن بھی ہووے گا اور رات ہووے گی
اک زخم میں ہووے گی نہ بسمل کی تسلی
دیکھ اس کی شب وصل میں اوسان ہمارے
نکلے نہ شب وصل بھی ارمان ہمارے
خط لے کے یہاں سے گئے انسان ہمارے
وہ شب کہنے لگا کرکے نظر بیمار پر ا پنے
نظر کر آئنے میں ایک دن رخسار پر اپنے
کس ناوک نگاہ کا یہ دل شکار ہے
کیا قہر ہے کسی کو جو جی چاہنے لگے
غیر سے گرم ملو ہم پہ یہ بیداد رہے
مجلس قرب میں گر اس کی ہمیں راہ ملے
تنہا نہ آسماں کی مٹی خراب ہے
تم نے پردے میں صنم گرچہ لگائی مسّی
کیا دھؤاں دھار صنم تو نے لگائی مسّی
میں جو بھیجی تو نہ کافر نے لگائی مسّی
روز شادی جو کبھی اس نے لگائی مسّی
سن کے جو نام مرا گھر سے نہ باہر آوے
سو بار تیرے در پہ ہم آکر چلے گئے
چھوڑ اس کو سوئے غیر مری چاہ کھنچ گئی
غوطہ زن حسن کے دریا میں نگاہ اپنی ہے
تیری بیدادی سے شہر اے فتنہ گر خالی ہوئے
آپ سے ہم اس پہ کرتے ہی نظر خالی ہوئے
کشتگاں سے تیرے جب شہر اور نگر خالی ہوئے
مری جانب سے جا کر یہ کرے اس کو خبر کوئی
صحبت کی مری آپ کی زنہار نہ ٹھہری
کاش اک رات مرے گھر وہ کرم فرمائے
آشیاں دور رہا ہم سے چمن سے نکلے
دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کرلی
کوئی کیا جانے کہ خوباں کو ادا کس سے ہے
نہیں لگتی اسے زنہار دق اور سل کی بیماری
غم کھاؤں ہوں نت پر مری نیت نہیں بھرتی
جب ساری سری خوں میں ترے تیر کی بھرتی
وہ جاتے جاتے جس کو پیچھے پھر کر دیکھ لیتا ہے
وہ آکر بزم میں جب ایدھر اودھر دیکھ لیتا ہے
مرے گھر میں کل اس کو غیر سے جس وقت صھبت تھی
استرے سے اس بت گل پیرہن کے رونگٹے
جوں نخ ریشم ہوں جس نازک بدن کے رونگٹے
رات روشن جو میں کی شمع سخن کی بتی
زہرہ کی جب آئی کف ہاروت میں انگلی
دل کے چھپاؤں گو کہ میں پیکاں لگے ہوئے
بندے کی ہے اب ہم کونے (ہے) خدا کی چوری
کبھو جو خط میں اسے حالت فراق لکھی
پان کھانے کی ادا جب ترے یاد آئے مجھے
بر در پیر مغاں یا کوئی لے جائے مجھے
ابھی لڑکے ہو میاں تم کو جواں ہونا ہے
مہندی زیاد مت مل ساعد حنائی ہوگی
گڑیں شہید ترے کس نمط زمیں کے تلے
ہم رہ گئے منہ تکتے گھر اپنے وہ جا بیٹھے
رباعیات
قطعۂ تاریخ فتح رام پور
فرہنگ
سروق
فہرست
مقدمہ
کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا
ردیف الف
کیا غیر کا خطرہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا؟
مجھ سے کہتے ہیں تو اس کا آشنا کیونکر ہوا؟
تیشہ فرہاد نے جب سر پہ اٹھا کر مارا
مجھ صید ناتواں سے مگر عار لے گیا
بے ڈول ہم نے دیکھا شیوہ یہ خوش قداں کا
نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
نخل لالے کا جب زمیں سے اٹھا
بزم میں اس کی شب اغیار پپہنچتا ہوگا
دن جوانی کے گئے موسم پیری آیا
گاہ بازو پہ یہ سر گہ تہ خنجر دیکھا
غم کے مارے روز و شب ناچار میں رہنے لگا
پیری سے ہو گیا یوں اس کا دل داغ ٹھنڈا
تیغ نے اس کی کلیجا کھا لیا
شب گھر سے جو سیٹی کی وہ آواز پہ نکلا
شب نیند کا ماتا تو میاں ! ہو نہ رہا تھا ؟
ہو گئے ہیں خاک آکر سو رہ نورد اس جا
دیکھ آئنے میں اک مہ تاباں ہے دوسرا
انگڑائی لے کر اپنا مجھ پر خمار ڈالا
میں زمزمہ سنج تھا چمن کا
اس نے جس دم نیمچہ کر کے علم آگے دھرا
توے ہوں ایسے کیوں کہ فراموش نقش پا
ہے کاروان رفتہ فراموش نشق پا
لخت دل ہے یہ کہ گل برگ تری کا ٹکڑا
عشق سے نہ ملنے کا سبب کچھ بھی تو ہوگا
کون ہے وہ کہ نہیں جان ! دوانا تیرا
جدا جو لیلیٰ کے محمل سے رہ گیا ہوگا
بالوں کو اس کے دیکھ کے میں مبتلا ہوا
کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
خیال یار جو شب میرا ہم کنار رہا
جب چھپ کے وہ گھر غیر کے مہمان گیا تھا
سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا
جو پھرا کے اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا
یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
پیام وصل لا دیتا ہے مجھ کو ہر سحر جھوٹا
اس کے خط میں جو لکھا غیر کا میں نام الٹا
نہ تعظیم مسیحا کو بھی جو بیمار اٹھ بیٹھا
مرے پانوں کی آہٹ سے جو شب دلدار اٹھا بیٹھا
واں جن دنوں میں اس پر عالم شباب کا تھا
ناتوانی نے مجھے جب سے نظر بند کیا
تیار ہو سفر کو جب یار گھر سے نکلا
کپڑے نئے پہن کر واں یار گھر سے نکلا
یاس سے لب تک میں آہ سرد لاکر رہ گیا
جو دم حقے کا دوں بولے کہ میں حقا نہیں پیتا
ہمیشہ تم کو میاں ! ننگ وعار ہم سے رہا
چھپ کے دو چار دن اس سے میں جہاں بیٹھ رہا
میاں ! اس طرف بھی کبھی آئیے گا
لحد میں گر اس دل کو لے جائیے گا
جیتے ہی جی کو خاک کیا میں نے کیا کیا
اول تو تیرے کوچے میں آنا نہیں ملتا
ہے جو گم دریاے الفت کا کنارا دوسرا
اک تیر میں جب اس نے نشانہ اڑا دیا
نزع کے دم بھی میں منہ کرکے ادھر دیکھ لیا
کب میں یاروں کے تئیں دیکھ پکارا نہ کیا
باغ میں گل تجھے کب دیکھ پکارا نہ کیا
دل لب زخم جگر کا جب کہ تبخالہ بنا
عرصہ جہان کا مری وحشت پہ تنگ تھا
پہلوے دل میں رات جو اس کا خدنگ تھا
منہدی ہے کہ قہر ہے خدا کا
جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا
میں ٹک گیا کہ بر دم خنجر جگر رکھا
گلبن تلے جو ضعف سے بلبل نے غش کیا
یوں ہے پر دود ترے سوختہ تن کا کپڑا
ڈھونڈ لاوے تو فلک خوار و پریشاں مجھ سا
اس شوخ کا رستہ میں اگر روک کے بیٹھا
بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا
بوے خوں دیتا ہے مجھ کو کچھ یہ گلشن اے صبا
کیا خوش آوے خاک ہم کو سیر گلشن اے صبا
وقتے کہ ہو گیا ہو اغیار یار تیرا
ہے ہے تیرا سر جھکا کے چلنا
میں اک دم چین سے رستے میں اس گل کے کہاں بیٹھا
پانی بھرے ہے یارو ! یاں قرمزی دوشالا
میں نے بھی تیرے عشق میں کیا کیا نہیں کیا
ترے کو میں اس بہانے ہمیں دن کو رات کرنا
ہر عضو میں ہو جس کے اک دل بری کا نقشہ
دیکھ اس سرور رواں کے بر میں کم خوابی قبا
بیمار کا ترے جو بدن رعشہ دار تھا
میدان عشق سے جو میں کھا کر قسم بڑھا
یاں سے گئے پہ گرچہ پھر آیا نہ جائے گا
ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
قتل کرتی ہے بتاں کے مسکرانے کی ادا
یوں تو کیا مجھ سے مہ جبیں نہ ملا
شانہ کرتے جو وہاں زلف کا مو ٹوٹ گیا
اس کے کوچے میں نہ میں یوں ہی چلا جاؤں گا
نالہ کرتا جو ترے کوچے میں آجاؤں گا
جب دن دہوں کے اس نے گہنا اتار رکھا
اک دن حنا گئی جو بہ سیر فرنگ پا
غیر کے ساتھ تری گرمی بازار ہے خوب
ردیف ب
راہی آنکھوں سے ہوئے لخت جگر آخر شب
رہ گیا تھا وہ آکے شب کی شب
یار جب گھر کو چلا باندھ کمر آخر شب
یار سوتے سے اٹھ آوے مرے گھر آخر شب
آج کس کا ہے مرے گھر سے سفر آخر شب
حصے میں ہمارے بھی کبھی آؤگے صاحب
ٹک آنکھ جھپکتے ہی سحر ہو گئی یہ شب
فراق ہی میں رہا یہ دل فراق نصیب
خوب رویوں سے دلا ! جی لگانا نہیں خوب
ردیف پ
چھوا تھا میں تو سمجھ اس کو یاسمین کا سانپ
دل کو میرے بے قراری ہے بہت
ردیف ت
خوشبوئی سے جس کی ہو خجل عنبر سارا
کاغذ کا ورق یہ پائے صورت
مرا معبود تھا وہ نازنیں رات
شعر دولت ہے کہاں کی دولت ؟
سو گیا تھا شام وہ رکھ کر جبیں پر پشت دست
اس کے مقتل میں مرا خون بٹا دست بہ دست
پردے سے صنم تو جسے دکھلائے دو انگشت
جب چاک سے پردے کے نظر آویں دو انگشت
یہ کیونکہ کہوں میں مرے گھر آئیے اک رات
وہ ٹھہرا تھا جو آکے ساعت کی ساعت
شانہ لوٹے ہے مزے کاکل پیچاں سے لپٹ
جوں ہی آ رہتی ہے سینے پہ گریباں سے لپٹ
غمزۂ شوخ جو پھینکے ہے کبھی تیر سمٹ
ردیف ث
بوسہ لبوں کا لے مزہ وصل یار لوٹ
مرتا ہے اس پہ یہ دل شیدا عبث عبث
ردیف ج
یاں نہ صفرا کا نہ سودا کا علاج
میں مسیحا سے جو پوچھا چشم گریاں کا علاج
سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج
ہیرا قلق میں پیس کھایا میں لاعلاج
بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
تھے جو کھٹکے ہوئے اس کافر بد ذات کے بیج
ردیف چ
ردیف ح
بس کہ اس فن حذاقت میں ہے ہشیار مسیح
غافل قدم نہ رکھ کہ ہیں اس میں ہزار پینچ
چمکے ہے کچھ وہ ابروے خم دار بے طرح
مجھ کو صیاد سے ہے شکوۂ احوال صریح
ردیف خ
ناوک آہ کرے جس کا سپر میں سوراخ
ہے سوئے آسماں مری آہ و فغاں کا رخ
ردیف د
ہر پور پہ اس کی ہو مرا کیونکر نہ جی بند
عاشقی ہر گز نہ کر اے دل ! کہ ہے یہ کام بد
ہاتھ آجائے جو سیب ذقن یار کی گیند
چرخ زن جسم میں یوں ہے دل بیتاب کی گیند
ہے پیش گاہ دہر میں زردار کی نمود
سمجھیں ہیں ہم جو اٹھتی ہے گاہے زمیں سے گرد
ردیف ذ
گلے میں چاہیے کیا تجھ کو سیم بر ! تعویذ
گلی سے آتی ہے اس کی صبا غبار آلود
زاہد کے نہیں داغ سیہ رنگ جبیں پر
ردیف ر
بیٹھے ہے جو کوئی اس بت پر فن کے برابر
تختے پہ تباہی کے ہوں ساحل ہے ابھی دور
میں کیا کہوں اس نغمۂ مستور کی تصویر
روبرو اس کے تو اس شرم پر آیا کیوں کر
تھا سرخ پوش کوئی شاید چمن کے اندر
جب اس نے ہاتھ دھوئے خون عاشق سے ذرا مل کر
تنگ آکر کے ترا عاشق زار آخر کار
ہوئی ہے چاہ ثابت جب سے اپنے اور بگانے پر
آسودگان خاک کے عالم کی سیر کر
رکھتا ہے قدم ناز سے جس دم تو زمیں پر
دل لے گیا ہے میرا وہ سیم تن چرا کر
جی جائے ہے اپنا تو تری چال کے اوپر
کس کو بھیجوں کون لاوے یار جانی کی خبر
آخر کو مصحفی نے دی جان تیری خاطر
کوہ غم کو جو رکھا عشق نے سر پر پتھر
رکھ کے چھاتی پہ جو اک مکے سے توڑے پتھر
مارے ٹکروں کے یہ جب تک کہ نہ توڑے پتھر
مجتمع تھے جو مری خاک پہ تھوڑے پتھر
سجدہ گاہ اپنی کیے راہ کے روڑے پتھر
دل لے گئے آنکھوں میں بہ تدبیر لگا کر
جانے دیتا میں نہ تھا جس کو نظر سے باہر
گلے سے لگ کہ مرے جی کا حال ہے کچھ اور
واں شوق قتل رکھے ہے قاتل کو بے قرار
دل کی بیتابی کہے ہے در پر اس کے جاکے گر
تیغ قاتل جب علم ہو مت دلا ! گھبرا کے گر
راتوں کو کیا پھرو ہو منہ پر نقاب لے کر
ہوا وہ گرم اسی خط کا مدعا پڑھ کر
ہے فرش زمیں پر جو یہ مہتاب کی چادر
جو بات بناتا ہوں بگڑ جاتی ہے آخر
تم کھڑے تھے جو کل کواڑ کی آڑ
ردیف ڑ
ردیف ز
اس شوخ نے کیا ہے جو دست ستم دراز
ہاتھ میں رکھنے لگا جب سے وہ تلوار دراز
کرتا ہے ہم سے گرگ فلک کج روی ہنوز
چمن کو آگ لگاوے ہے باغباں ہر روز
ردیف س
شوخیوں سے تری نکلی نہ مری خاک ہوس
میری طرح سے یار نے میلا کیا لباس
عید تو آکے مرے جی کو جلاوے افسوس
سر کاٹ کاٹ اس نے بنائے ہیں سنگ فرش
ردیف ش
یوں زلف کے میں کی ہے ہر تار کی پرستش
ہے کس کو فکر عشق میں شعر و سخن کا ہوش
یوں ہوں گے تیرے چاہنے والے ہزار شخص
نوک مژگاں پر کرے ہے یوں دل صد پارہ رقص
ردیف ص
ابر سدا لیوے ہے دیدۂ گریاں سے فیض
ردیف ض
بندہ رکھتا ہے جس صنم سے غرض
ردیف ط
بے خودوں کو کشش زلف گرہ گیر ہے شرط
گر اس نے کی نہ خون سے بسمل کے احتیاط
ردیف ظ
اپنا تو اس کے ساتھ گیا زندگی کا حظ
ہوئے نہ وصل کی دولت سے ہم کبھی محظوظ
ردیف ع
چشم سے ہوتے ہیں جب آنسو رواں وقت وداع
دکھلائے بام پر جو وہ رخ شام کو فروغ
ردیف غ
روشن کروں میں گر شب غم آہ کا چراغ
وصل کی شب گو کہ گل ہو گھر ہمارے کا چراغ
آئی جو سوختہ سے کبھی مجھ کو بوے داغ
شب فراق میں کم ہے رواج شمع و چراغ
وہ دل روشن کہ تھا سارے زمانے کا چراغ
اس نے پاؤں کو لگائی جو حنا چار طرف
ردیف ف
شانہ کرتا ہے جو تقریر پریشانی زلف
تھا جو فرقت میں تری تشنۂ خنجر عاشق
ردیف ق
صیغۂ شعر سے باہر ہوں جو کم ظرف کے حرف
آگیا دیکھتے آنکھوں کے دن اور رات میں فرق
رفتار تری جب نہ ہوئی غور رس کبک
بہار گل میں کیا ہم نے جب گریباں چاک
ردیف ک
نالوں سے میرے آگ نکلتی ہے اب تلک
سینے کا اٹھان دیکھیو ٹک
آؤ جی ہم کھپا کریں کب تک
ردیف گ
برسات میں رکھے ہے فلک کیا صفا کا رنگ
دیکھا ہے کس کے ہاتھ کی بھیگی حنا کا رنگ
اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
ردیف ل
مجھ سیہ کا دم آنکھوں میں لایا کاجل
دست معشق سیم تن کا گل
ردیف م
جب کبھی پڑتی ہے اس حسن کی تصویر پہ چشم
اب دیکھے ذرا تیشۂ فولاد کا عالم
ٹک دیکھیو اس حسن خداداد کا عالم
تھا عشق کی آتش سے زبس سینہ مرا گرم
یا اس نفس سرد کی تھی سینے میں جا گرم
ہم کرنے نہ پائے تھے چمن میں ابھی جا گرم
جلا دی کی یاں شان ہے کو مہر و کجا رحم
حور پاوے ہے کب اس جلوہ گری کا عالم
بھولتا ہے کوئی اس جلوہ گری کا عالم
کہتے ہیں کچھ بھی اس صنم نازنیں سے ہم
غیر کو جائے ہے ہمراہ نشانی پیغام
اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
ردیف ن
پھول لالے کے نہ اس خاک سے جم نکلے ہیں
خوش طالعی میں شمس و قمر دونوں ایک ہیں
تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
اگر چہ دل تو ہمیں تم سے کچھ عزیز نہیں
بن دیکھے جن کے پل میں آنکھیں بھر آئیاں ہوں
خطرہ رہے گر اس سے دو دن جدائیاں ہوں
طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
گھر میں باشندے تو اک ناز میں مرجاتے ہیں
یوں ہے ڈاک بدن کی اس پیرہن کی تہ میں
یوں رو رو اس گلی میں دن رات کاٹتے ہیں
بخت ان کے جو اسے گھر میں بلا سکتے ہیں
نہ تو ہم سوز غم عشق چھپا سکتے ہیں
آپ نظروں میں اگر دل کو چرا سکتے ہیں
ہے میاں ! صاف چمن خانۂ ماتم تجھ بن
دھڑک دھڑک دل کرتا ہے جب اس کے در تک جاتے ہیں
اس نازنین کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
لاکھوں نزاکتوں سے بھرے ہاتھ پاؤں ہیں
گوشۂ چشم سے جب اس کی نگاہیں نکلیں
خواب میں دیکھے تھا میں ہے اس کا داماں ہاتھ میں
میں کون ہوں کہ منع تمناے دل کروں
اوکھے سے ہم جو گاہے ڈھب پاکے بولتے ہیں
بلبل کا آشیانہ جس دن جلا چمن میں
بالوں کا رات کس کے جوڑا کھلا چمن میں
بھرا تھا نون تاروں نے مرے ہر زخم کاری میں
دم لے ہے جو قاتل کی دیوار کے سائے میں
مکھڑے پہ بال بکھرے اس گل کے ہر سحر میں
مشتاق سیر گلشن آویں نہ اب کدھر ہیں ؟
جو میں نے خم بہ تہ تیغ ناز کی گردن
میں مر گیا ٹلے مری چھاتی کی سل کہیں
ہے انگوٹھی کا تری اک تو نگینہ رنگین
اوروں سے سنیں اس بت عیار کی باتیں
جی کو کیا میں فرض کہ اس سے جدا کروں
ہے یہ وہ درد کہ جس کا کوئی چارا ہی نہیں
اک دن ہوئی جو اس سے ملاقات راہ میں
نے آنس کے خواہاں ہیں نے پیار کے بھوکے ہیں
آتش غم میں نہ کچھ میں ہی جلا جاتا ہوں
چاہنے والے ترے میرے سوا اور بھی ہیں
اشک جس وقت کہ مژگاں پہ رواں ہوتے ہیں
ہے مئے گلگلوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں
ہیں گلے اس کے میں چاندی کی کئی زنجیریں
سیر گلشن کو جو مانند صبا جاتا ہوں
جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں
جی میں آتا ہے کہ بوسہ کف پا کا لے لوں
صورت بت سے دکھاتی ہے پری پتھر میں
گل کا پتلا قضا کے ہاتھ میں ہوں
سو ڈھنگ ہیں چوری کے تری چشم سیہ میں
کون سی شکل ہے دس جس کے خریدار نہیں
سر مشک کا ہے تیرا تو کافور کی گردن
کون ہے وہ جو تری چشم کا بیمار نہیں
صیاد دبا رکھے ہے جوں چیل کی گردن
کل زیب سنان تھی ترے محبوس کی گردن
یہ کہوں کیوں کہ ملاقات کا مقدور نہیں
آہ اس ساتھ کہاں بیٹھ کے دو بات کروں
اے آں کہ معارض ہو مری تیغ زباں سے
ملگجے کپڑوں میں دونا نظر آتا ہے وہ حسن
بیٹھا ہوں بے قرار سر رہ سنبھل کہیں
کھلی دیکھیں کبھی جو نرگس شہلا کی واں کلیاں
تم خفا ہم سے بہت تھے یہ خبر کرتے ہیں
جب لگے کھینچنے ہر خار بیاباں دامن
ہوں گے ہوئے بھی ہم سے ہزاروں زمانے میں
کس پر ہے یہ تلوار سجی پھر کے تو دیکھو
ردیف و
ہے ہے ٹک اس طرف کو اجی پھر کے دیکھ لو
خورشید کا ادھر سے گزر کس طرح سے ہو
اشک بے صرفہ نہ اے دیدۂ تر جانے دو
عاشق کے دل زار کو تم ہاتھ سے مت دو
حسن اور عشق یار ہیں دونو
کیا نہ تھا غم دل آشکار ہم نے تو
مت آستیں سے ساعد سیمیں نکال تو
جب سر جھکا کے دھووے ہے دریا میں بال تو
آئی بہار حسرت دل اب نکال تو
پاس اپنے نہ ہر اک کو مری جان بٹھاؤ
نہ نسیم نامہ مانگے نہ صبا پیام بر ہو
مرتا ہے کوئی پھر کے نظر دیکھتے جاؤ
بسمل کے تڑپنے میں جو قاتل کی خوشی ہو
یوں مجھ پہ شب وصل میں سو لات چلاؤ
بخت خوابیدہ کو ٹھوکر سے جگاتے جاؤ
دے بوسۂ قلیاں ہی ذرا اور نہیں تو
آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
جان جاتی ہے اک نظر دیکھو
آگ میں گو جلائیے دل کو
شب مہتاب ہو صحرا ہو تو ہو
طول شب فراق سے کب تک گزند ہو
تم ایسا شوق دلا کر چھپا گئے منہ کو
جو تم غلام کو چاہو ہو سرفراز کرو
خدا نے ہاتھ سے اپنے ترے سنوارے پانو
برقع لپیٹے منہ سے جاتے ہو تم کدھر کو
جب ہم نے اس کی جانب بھیجا پیامبر کو
تم تو سو رہتے ہو سر بالش کمخواب پہ رکھ
سر ٹھوکروں میں پھرتے ہیں جس کے قدم کے ساتھ
ردیف ہ ، ھ
اس نے رکھا جو اک انداز سے رخسار پہ ہاتھ
دل میں ٹکرا کے میری آہ سے آہ
اور ہی اپنا مجھے عاشق بے جان سمجھ
جھانک لیتے تھے کبھی روزن دیوار کی راہ
قیس و فرہاد پہ آساں ہوئی کہسار کی راہ
رفتہ رفتہ ہوئی کوٹھے پہ جو دلدار کی راہ
دیکھ کر کوچے میں اس کے لاکھوں تربت کی جگہ
جاتے تھے دوڑے دوڑے چلے محملوں کے ساتھ
نہ یار سے نہ کوئی آشنا ہے میرے ساتھ
شانہ جس طرح رہے زلف پریشاں میں الجھ
بھزاد ! لکھ کے دیدۂ خوں بار کی شبیہ
لکھنے لگا جو چہرہ کش اس یار کی شبیہ
مانی ! جو کھینچے مرغ گرفتار کی شبیہ
مانی تو پہلے لکھ کے شب تار کی شبیہ
مانی جو کھینچنی ہو تجھے پیار کی شبیہ
واں ہوئے عاشق نہیں جس کو میں جانے کی جگہ
ردیف ی ـ ے
نہ جاؤ کوئی میرے قاتل کے پیچھے
ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے
دشمن جان ہوئی اپنی تو یاری تیری
دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
عمر پس ماندہ کچھ ذلیل سی ہے
آئے ہے یاد کی اسے گلزار رات سے
کپڑے پہن کے آئے ہے وہ ہر زماں نئے
اٹھ کے اب یاں سے کدھر جائے کوئی
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
کیا کہیں آہ نہ پوچھو جو مصیبت گزری
عبث تو آشیاں بلبل کا اے صیاد ! لوٹے ہے
چند روز دست و پا اپنے نہ تھے
از بس کہ مرے دیدۂ حیران میں کچھ ہے
صںع مانی ہے نہ کار خامۂ بہزاد ہے
دل نہ دیجے اس کو اپنا جس سے یاری کیجیے
جانے کا نہ لے نام کہ مر جائے گا کوئی
دیکھنا کیسا کہ واں در تک بھی جانا منع ہے
شہادت کی طلب میں نامہ گر اس کو رقم کیجے
گر اپنے ہاتھ سے خط اس جفا جو کو رقم کیجے
اک تیغ کے لگتے ہی لگی جان ٹھکانے
یا آئے مرا دل کسی عنوان ٹھکانے
پوشیدہ میں اس سے جو کہیں راہ نکالی
ان کے ہاتھوں سے کئی دل کے نشانے لگ گئے
جس دم وہ میری خاک کو ٹھوکر لگا چلے
چشم اس کی مرا کیونکر دل زار سنبھالے
جن دنوں تھی دل سے ہم پر مہربانی آپ کی
چھوڑ دی ہے کب سے میں سوگند کھانی آپ کی
منہ چھپا کر آپ جب پردے کے اندر ہوگئے
مژگاں سے زخم کیا کیا اپنے جگر میں آئے
بہ وقت بوسہ شدت سے جو لعل یار کو ملیے
تیری رفتار سے اک بے خبری نکلے ہے
ہے طرفہ ماجرا مرے قاتل کے سامنے
ٹھوکر تری جب مردۂ صد سالہ جلا دے
سچ ہے جی عشق کا بیمار برا ہوتا ہے
ادھر تو رقص میں دامن ترا اچھلتا ہے
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
مژگاں ہے مری چشم گہر بار کی ٹٹی
عیسیٰ کو ان لبوں کی گفتار مار ڈالے
دشنام پاسباں کے دو چار کھا کے آئے
اشک کا صرفہ گر کرو کشتے کی اپنے لاش سے
یوں جو چاہو تو کرو کم نگہی
ملنے کا کچھ بھی ڈھنگ ہے اس بات بدمعاش سے
دل کا سراغ میں کیا سینۂ پاش پاش سے
اس کے لہرانے میں چال آئی نہ مطلق سانپ کی
بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
پر ہے اک شہر ترے حسن کے آوازے سے
میرے مرتے ہی فلک ٹوٹ پڑے پانی کے
بانہہ اس کی میں اک دن جو شب تار گھسیٹی
اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
سوتے ہیں ہم زمیں پر کیا خاک زندگی ہے
ناز نولی جو کبھی اس نے منگائی مہندی
لیٹ کر اس نے جو تلووں کی دکھائی مہندی
اس نے ساون کی جو پنجوں میں لگائی مہندی
شب عید اس نے جو پاؤں کی چھڑائی مہندی
شب بزم غیر میں تم اگر جا کے سو رہے
ہے تمناے سیر باغ کسے
دن میں سو سو بار اب ہم ان کے گھر جانے لگے
اس کا مستی میں جو لغزش سے قدم پڑتا ہے
یاران رفتہ آہ بہت دور جا بسے
کیا فائدہ جو مجھ سے نہیں اور نکالی
کبھی گر بات حق کی مردم آگاہ بول اٹھے
جو ہم اٹھتے ہی ان کے منہ سے بسم اللہ بول اٹھے
گھڑ گھڑاہٹ جو سنی تیری صنم ! ہیکل کی
یا رب کہیں وہ غیر کی الفت کو چھوڑ دے
جس جگہ چشم تری حوصلہ پرداز ہوئی
دل دھڑکے ہے میرا تری تیاری شب سے
منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
کھڑکیاں چھاپی گئیں روزن در بند ہوئے
صانع عالم کہ روے خوش کا وہ خلاق ہے
دل فریبی میں جبیں کا چاند اگرچہ طاق ہے
ہے غریبی میں خبر کس کو وطن والوں کی
مرگیا پر نہ رفیقوں کو خبر میں نے کی
یاران عدم رفتہ گئے دور بہت سے
مجنوں کے وقت شکوہ جس دم جگر پہ ٹھہری
جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
دل ہی دل میں یاں محبت اپنا گھر کرتی رہی
چاہیے جس کو پھر اس کے کیوں کہ گھر تک جائیے
بوسے ہم خواب میں لیتے تھے پڑے پاؤں کے
دام میں صیاد جوں بلبل کو لا کر چھوڑ دے
جی میں سمجھے تھے کہ دکھ درد یہ سب دور ہوئے
ہم تو سمجھے تھے کہ ناسور کہن دور ہوئے
تھی جن سے گفتگو ہمیں وہ یار مر گئے
بام پر آکر جو شب وے کچھ اشارا کر گئے
پھر لگے اک بات کے یاں بننے افسانے کئی
شب مجھے آئے تھے اس کے گھر سے سمجھانے کئی
قفل طالع کے نہ کھولے جو ہنر کی کنجی
موسم آئے نہیں گلگشت کے گلزاروں کے
کرتا ہوں شمع جب میں روشن بغیر پوچھے
تم واں گئے کسی کی ملاقات کے لیے
کسی کے دل میں تمنا کسی کی جا نہ کرے
ہمارے خون کرنے میں نہیں تقصیر مہندی کی
یوں ہی اک تن میں مرے دم کی ہوا باقی ہے
مسی پر اس کے رنگ پاں کی سرخی
در تلک آکے ٹک آواز سنا جاؤ جی
مجھ کو نہ آنے جانے کے در سے نکالیے
ساتھ باجے کے جو راتوں کو ترے چنگ اڑے
یہ اک پری کی شکل جو چلمن کی اوٹ ہے
نہ میلے ٹھیلے کی یاں جا نہ وعدہ گاہ کوئی
ہاتھ آئے کس طرح در جاناں کی نوکری
جالی تلک آنا بھی موقوف کیا تم نے
چاہ دل سے جو اٹھا گرے کا لہرا پانی
اپنی مجلس میں ہمیں آنے کی رخصت دیجے
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
اس گلی میں جو جاکے نکلے ہے
پڑے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
نہ بیٹھ سائے تلے جاکے باغ میں گل کے
بیٹھے بیٹھے جو خیال اس کا گزر جاتا ہے
ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
کانوں کا ہر اک بالا ہر چند ہلالی ہے
بیقراری اور بھی دل کو اگر ہو جائے گی
کیا کوئی عہد یاری اس سیم بر سے باندھے
کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری
وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
صحراے عاشقی کہ سراسر زمین ہے
خیال حسن پرستی کو طاق پر رکھ دے
نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
آستیں قاتل نے کب خوں سے ہمارے پاک کی
دیوانہ وار بس کہ وہ مستی سے دو میں ہے
جس لالہ رو کو دیکھ ہزارا لہو پیے
کیا یارو اسے چھوڑ کے ہم بیٹھ رہیں گے
کی اس نے جو اپنی مجھے تلوار حوالے
چرخ پر ہیں غبار کے ٹکڑے
بارہ وفات میں چل پیارے کہ گھات بھی ہے
تھی کل گلاب کی جو ترے ہاتھ میں چھڑی
آیا لیے ہوئے جو وہ کل ہاتھ میں چھڑی
تنہا تو مجھے چھوڑ نہ جا میں ترے صدقے
ہجر کی شب بس چار پہر تک دل کو اک بے تابی ہے
دم لوں ہوں جس درخت کی میں چھانو کے تلے
آنکھوں میں اس کی میں نے جو تصویر کھینچ لی
ہے ایک تو آفت شب ہجراں کی سیاہی
دلا ایک دن خاطر یار رکھ دے
ملتے کو جو تم چاہو تو ہے بات ذرا سی
ہم گئے جان سے اور آپ نہ گھر سے نکلے
نالے سے میرے سقف عرش بریں نہ ٹوٹے
کیوں دل میں خار حسرت اے ہم نشیں نہ ٹوٹے
خدنگ شرم و حیا کا شکار رہنے دے
سو بار دن بھی ہووے گا اور رات ہووے گی
اک زخم میں ہووے گی نہ بسمل کی تسلی
دیکھ اس کی شب وصل میں اوسان ہمارے
نکلے نہ شب وصل بھی ارمان ہمارے
خط لے کے یہاں سے گئے انسان ہمارے
وہ شب کہنے لگا کرکے نظر بیمار پر ا پنے
نظر کر آئنے میں ایک دن رخسار پر اپنے
کس ناوک نگاہ کا یہ دل شکار ہے
کیا قہر ہے کسی کو جو جی چاہنے لگے
غیر سے گرم ملو ہم پہ یہ بیداد رہے
مجلس قرب میں گر اس کی ہمیں راہ ملے
تنہا نہ آسماں کی مٹی خراب ہے
تم نے پردے میں صنم گرچہ لگائی مسّی
کیا دھؤاں دھار صنم تو نے لگائی مسّی
میں جو بھیجی تو نہ کافر نے لگائی مسّی
روز شادی جو کبھی اس نے لگائی مسّی
سن کے جو نام مرا گھر سے نہ باہر آوے
سو بار تیرے در پہ ہم آکر چلے گئے
چھوڑ اس کو سوئے غیر مری چاہ کھنچ گئی
غوطہ زن حسن کے دریا میں نگاہ اپنی ہے
تیری بیدادی سے شہر اے فتنہ گر خالی ہوئے
آپ سے ہم اس پہ کرتے ہی نظر خالی ہوئے
کشتگاں سے تیرے جب شہر اور نگر خالی ہوئے
مری جانب سے جا کر یہ کرے اس کو خبر کوئی
صحبت کی مری آپ کی زنہار نہ ٹھہری
کاش اک رات مرے گھر وہ کرم فرمائے
آشیاں دور رہا ہم سے چمن سے نکلے
دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کرلی
کوئی کیا جانے کہ خوباں کو ادا کس سے ہے
نہیں لگتی اسے زنہار دق اور سل کی بیماری
غم کھاؤں ہوں نت پر مری نیت نہیں بھرتی
جب ساری سری خوں میں ترے تیر کی بھرتی
وہ جاتے جاتے جس کو پیچھے پھر کر دیکھ لیتا ہے
وہ آکر بزم میں جب ایدھر اودھر دیکھ لیتا ہے
مرے گھر میں کل اس کو غیر سے جس وقت صھبت تھی
استرے سے اس بت گل پیرہن کے رونگٹے
جوں نخ ریشم ہوں جس نازک بدن کے رونگٹے
رات روشن جو میں کی شمع سخن کی بتی
زہرہ کی جب آئی کف ہاروت میں انگلی
دل کے چھپاؤں گو کہ میں پیکاں لگے ہوئے
بندے کی ہے اب ہم کونے (ہے) خدا کی چوری
کبھو جو خط میں اسے حالت فراق لکھی
پان کھانے کی ادا جب ترے یاد آئے مجھے
بر در پیر مغاں یا کوئی لے جائے مجھے
ابھی لڑکے ہو میاں تم کو جواں ہونا ہے
مہندی زیاد مت مل ساعد حنائی ہوگی
گڑیں شہید ترے کس نمط زمیں کے تلے
ہم رہ گئے منہ تکتے گھر اپنے وہ جا بیٹھے
رباعیات
قطعۂ تاریخ فتح رام پور
فرہنگ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।