ترتیب
ناصر کاظمی ۔ایک نظر میں
حرف اوّل
برگ نے
ترتیب
اعتبار نغمہ
حر ف مکرّر
غزل
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
مایوس نہ ہو اداس راہی
رونقیں تھی جہاں میں کیا کیا کچھ
ختم ہوا تاروں کا راگ
او میرے مصروف خدا
حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی
ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
کچھ کہہ کے خموش ہو گئے ہم
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
عشق میں جیت ہوئی یا مات
دیکھ محبت کا دستور
نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
پہنچے گور کنارے ہم
شہر در شہر گھر جلائے گئے
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے
کوئی جیے یا کوئی مرے
یہ بھی کیا شام ملاقات آئی
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا
کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
خموشی انگلیاں چٹخارہی ہے
کم فرصتیٔ خواب طرب یاد رہے گی
نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تری خامشی کو کیا سمجھوں
دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
سفر منزل شب یاد نہیں
یاد آتا ہے روز وشب کوئی
یاس میں جب کبھی آنسو نکلا
کرتا اسے بے قرار کچھ دیر
ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر
اوّلیں چاند نے کیا بات سمجھائی مجھ کو
کبھی کبھی تو جذب عشق تات کھا کے رہ گیا
رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
دن ڈھلارات پھر آگئی سور ہو سور ہو
تنہا عیش کے خواب نہ بن
ترے حیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی
بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکر ناز
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
یہ کہہ رہا ہے دیار طرب کا نظارا
تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
خیال ترک تمنّا نہ کر سکے تو بھی
یہ رات تمہاری ہے چمکتے رہو تارو
فکر تعمیر آشیاں بھی ہے
رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ کے مجھے
ساز ہستی کی صدا غور سے سن
بے منت خضر راہ رہنا
قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
واہوا پھر درت میخانہ گل
جب سے دیکھا ہے تیرے ہات کا چاند
جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
کون اس راہ سے گزرتا ہے
چمن در چمن وہ رمق اب کہاں
بے حجابانہ انجمن میں آ
دم گھٹنے لگا ہے وضع غم سے
تارے گنوائے یا سحر دکھلائے
دور اس تیرہ خاکداں سے دور
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
لب معجز بیاں نے چھین لیا
آنکھوں میں ہیں دکھ بھرے فسانے
قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں
آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
ہر ادا آب رواں کی لہر ہے
شبنم آلود پلک یاد آئی
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے
آئینہ لے کے صبا پھر آئی
کیوں غم رفتگاں کرے کوئی
کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
نت نئی سوچ میں لگے رہنا
سر میں جب عشق کا سودانہ رہا
مدت ہوئی کہ سیر چمن کو ترس گئے
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بیگانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو
حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
وہ اس دا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
برگ ریز
چمن میں پھر رسن وطوق و وار کے دن ہیں
یہ آج کون سے طوفاں میں ہے سفینہ دل
کیا ہلا آسمان سے اتری
گھٹ کے مرجاؤں گا اے صبح جمال
کیس گردش میں اب کے سال پڑا
دیوان
تر تیب
آراتش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
ممکن نہیں متاع سخن مجھ سے چھین لے
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
رہ نورد بیاباں غم صبر کر صبر کر
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
ان سہمے ہوے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
اپنی دھن میں رہتا ہوں
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
دفعتہً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
سر مقتل بھی صدادی ہم نے
دھوپ نکلی دن سہانے ہوگئے
تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں
آج تو بے سبب اداس ہے جی
جب تک نہ لہو دیدۂ انجم سے ٹپک لے
پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
موسم گلزار ہستی اندنوں کیا ہے نہ پوچھ
تم آگئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں
ہم جس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے
ساری رات جگاتی ہے
چراغ بن کے وہی جھلملائے شام فراق
تیری مجبوریاں درست مگر
کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
کسی کا درد ہو دل بیقرار اپنا ہے
جلوہ ساماں ہے رنگ وبو ہم سے
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے
تری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
کب تلک مدعا کہے کوئی
دل بھی عجب عالم ہے نظر بھر کے تو دیکھو
پیارے دیس کی پیاری مٹی
اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
تو ہے یا تیرا سایہ ہے
دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جو گفتنی نہیں وہ باتبھی سنادوں گا
زمیں چل رہی ہے کہ صبح زوال زماں ہے
درد کانٹا ہے اس کی چھبن پھول ہے
کارواں سست راہبر خاموش
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تیری یادیں
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
گارہا تھا کوئی درختوں میں
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام ودر
رات ڈھل رہی ہے
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
دل میں اور تو کیا رکھا ہے
چہرہ افروز ہوئی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو
ہنستے گاتے روتے پھول
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
ایسا بھی کوئی سپنا جاگے
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہا ںاور بال بناؤ کس کے لیے
جرم انکار کی سزا ہی دے
قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا
اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں
ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
یہ خواب سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
یہ رنگ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
پھر لہو بول رہا ہے دل میں
جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
سو گئی شہر کی ہر ایک گل
شعا حسن کو چھپاتی تھی
برف گرتی رہے آگ جلتی رہے
کنج کنج زن بسنت آگئی
کہاں گئے وہ سخنور جو میر محفل تھے
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
کیا لگے آنکھ کہ پھر دل میں سمایا کوئی
چند گھرانوں نے مل جل کر
بنے بنائے ہوے راستوں پہ جانکلے
شکوہ بہ طرز عام نہیں آپ سے مجھے
جنت ماہی گیروں کی
غم ہے یا خوشی ہے تو
دیس سبز جھیلوں کا
دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
کچھ یاد گار شہر ستمگرہی لے چلیں
رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوے
متفرق اشعار
ہر ایک شکل کو دل سے نکل کر رکھا
ہم سبو گھر سے نکلتے ہی نہیں اب ناصر
ترے بغیر بھی خالی نہیں مری راتیں
چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی
کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے رو برو کوئی اور ہے
پہلی بارش
عرض سخن
دیباچہ طبع سوئم
پہلی بارش
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
تو جب میرے گھر آیا تھا
میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
دن کا پھول ابھی جاگا تھا
پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
پچھلے پہر کا سنّاٹا تھا
گرد نے خیمہ تان لیا تھا
مجھ کو اور کہیں جانا تھا
تو جب دوبارہ آیا تھا
تجھ بن گھر کتنا سوناتھا
دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دم ہونٹوں پر آکے رکا تھا
چاند ابھی تھک کر سویا تھا
نئے دیس کا رنگ نیا تھا
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
میں اس شہر میں کیوں آیا تھا
پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
روتے روتے کون ہنسا تھا
پون ہری،جنگل بھی ہرا تھا
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
تیرا قصور نہیں میرا تھا
نشاط خواب
فہرست
نشاط خواب
شہر غریب
نیا سفر
بارش کی دعا
گجر پھولوں کے
ساتواں رنگ
نعت
نعت
نعت
نعت
نعت
نعت
سلام
رباعیات
گلشن پاک ہمارا
متفرق اشعار
شرگودھا میرا شہر
متفرق اشعار
تو ہے مری زندگی
تو ہے عزیز ملّت
تیرگی ختم ہوئی صبح کے آثار ہوئے
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
آج تری یادوں کا دن ہے
ہر محاذ جنگ پر
قائد اعظم
اے ارض وطن
حصّہ سوم(تراجم)
گیت
جاڑے کی رات
پی ، فو، جن
انہد مرلی شور مچایا
برو کلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے
فوری تحفہ
سر کی چھایا ایک کتھا
تعارف
سر کی چھایا (ایک کتھا)
پہلا منظر
دوسرا منظر
تیسرا منظر
چوتھا منظر
وقفہ
پانچواں منظر
چھٹا منظر
ساتواں منظر
آٹھواں منظر
نواں منظر
دسواں منظر
گیارہواں منظر
بارھواں منظر
تیراھواں منظر
غیر مطبوعہ کلام
کیوں نہ سر سبز ہو ہماری غزل
یہ ستم اور کہ ہم پھول کہیں خاروں کو
دفعتاً ہنگامۂ محشر اٹھا
پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
خاک بسر ہے چمن دیکھے کب تک رہے
یوں بیٹھا ہوں دل کے داغ سے خوش
آدمی ہے نہ آدمی کی ذات
جب رات گئے تسوی یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا
اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم
رہ جنوں میں خرد کا حوالہ کیا کرتا
دل دکھایا تھا جس نے پہلی بار
بستیاں بستی رہیں گی لیکن
ترتیب
ناصر کاظمی ۔ایک نظر میں
حرف اوّل
برگ نے
ترتیب
اعتبار نغمہ
حر ف مکرّر
غزل
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
مایوس نہ ہو اداس راہی
رونقیں تھی جہاں میں کیا کیا کچھ
ختم ہوا تاروں کا راگ
او میرے مصروف خدا
حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی
ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
کچھ کہہ کے خموش ہو گئے ہم
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
عشق میں جیت ہوئی یا مات
دیکھ محبت کا دستور
نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
پہنچے گور کنارے ہم
شہر در شہر گھر جلائے گئے
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے
کوئی جیے یا کوئی مرے
یہ بھی کیا شام ملاقات آئی
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا
کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
خموشی انگلیاں چٹخارہی ہے
کم فرصتیٔ خواب طرب یاد رہے گی
نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تری خامشی کو کیا سمجھوں
دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
سفر منزل شب یاد نہیں
یاد آتا ہے روز وشب کوئی
یاس میں جب کبھی آنسو نکلا
کرتا اسے بے قرار کچھ دیر
ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر
اوّلیں چاند نے کیا بات سمجھائی مجھ کو
کبھی کبھی تو جذب عشق تات کھا کے رہ گیا
رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
دن ڈھلارات پھر آگئی سور ہو سور ہو
تنہا عیش کے خواب نہ بن
ترے حیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی
بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکر ناز
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
یہ کہہ رہا ہے دیار طرب کا نظارا
تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
خیال ترک تمنّا نہ کر سکے تو بھی
یہ رات تمہاری ہے چمکتے رہو تارو
فکر تعمیر آشیاں بھی ہے
رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ کے مجھے
ساز ہستی کی صدا غور سے سن
بے منت خضر راہ رہنا
قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
واہوا پھر درت میخانہ گل
جب سے دیکھا ہے تیرے ہات کا چاند
جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
کون اس راہ سے گزرتا ہے
چمن در چمن وہ رمق اب کہاں
بے حجابانہ انجمن میں آ
دم گھٹنے لگا ہے وضع غم سے
تارے گنوائے یا سحر دکھلائے
دور اس تیرہ خاکداں سے دور
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
لب معجز بیاں نے چھین لیا
آنکھوں میں ہیں دکھ بھرے فسانے
قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں
آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
ہر ادا آب رواں کی لہر ہے
شبنم آلود پلک یاد آئی
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے
آئینہ لے کے صبا پھر آئی
کیوں غم رفتگاں کرے کوئی
کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
نت نئی سوچ میں لگے رہنا
سر میں جب عشق کا سودانہ رہا
مدت ہوئی کہ سیر چمن کو ترس گئے
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بیگانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو
حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
وہ اس دا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
برگ ریز
چمن میں پھر رسن وطوق و وار کے دن ہیں
یہ آج کون سے طوفاں میں ہے سفینہ دل
کیا ہلا آسمان سے اتری
گھٹ کے مرجاؤں گا اے صبح جمال
کیس گردش میں اب کے سال پڑا
دیوان
تر تیب
آراتش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
ممکن نہیں متاع سخن مجھ سے چھین لے
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
رہ نورد بیاباں غم صبر کر صبر کر
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
ان سہمے ہوے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
اپنی دھن میں رہتا ہوں
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
دفعتہً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
سر مقتل بھی صدادی ہم نے
دھوپ نکلی دن سہانے ہوگئے
تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں
آج تو بے سبب اداس ہے جی
جب تک نہ لہو دیدۂ انجم سے ٹپک لے
پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
موسم گلزار ہستی اندنوں کیا ہے نہ پوچھ
تم آگئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں
ہم جس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے
ساری رات جگاتی ہے
چراغ بن کے وہی جھلملائے شام فراق
تیری مجبوریاں درست مگر
کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
کسی کا درد ہو دل بیقرار اپنا ہے
جلوہ ساماں ہے رنگ وبو ہم سے
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے
تری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
کب تلک مدعا کہے کوئی
دل بھی عجب عالم ہے نظر بھر کے تو دیکھو
پیارے دیس کی پیاری مٹی
اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
تو ہے یا تیرا سایہ ہے
دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جو گفتنی نہیں وہ باتبھی سنادوں گا
زمیں چل رہی ہے کہ صبح زوال زماں ہے
درد کانٹا ہے اس کی چھبن پھول ہے
کارواں سست راہبر خاموش
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تیری یادیں
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
گارہا تھا کوئی درختوں میں
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام ودر
رات ڈھل رہی ہے
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
دل میں اور تو کیا رکھا ہے
چہرہ افروز ہوئی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو
ہنستے گاتے روتے پھول
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
ایسا بھی کوئی سپنا جاگے
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہا ںاور بال بناؤ کس کے لیے
جرم انکار کی سزا ہی دے
قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا
اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں
ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
یہ خواب سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
یہ رنگ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
پھر لہو بول رہا ہے دل میں
جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
سو گئی شہر کی ہر ایک گل
شعا حسن کو چھپاتی تھی
برف گرتی رہے آگ جلتی رہے
کنج کنج زن بسنت آگئی
کہاں گئے وہ سخنور جو میر محفل تھے
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
کیا لگے آنکھ کہ پھر دل میں سمایا کوئی
چند گھرانوں نے مل جل کر
بنے بنائے ہوے راستوں پہ جانکلے
شکوہ بہ طرز عام نہیں آپ سے مجھے
جنت ماہی گیروں کی
غم ہے یا خوشی ہے تو
دیس سبز جھیلوں کا
دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
کچھ یاد گار شہر ستمگرہی لے چلیں
رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوے
متفرق اشعار
ہر ایک شکل کو دل سے نکل کر رکھا
ہم سبو گھر سے نکلتے ہی نہیں اب ناصر
ترے بغیر بھی خالی نہیں مری راتیں
چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی
کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے رو برو کوئی اور ہے
پہلی بارش
عرض سخن
دیباچہ طبع سوئم
پہلی بارش
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
تو جب میرے گھر آیا تھا
میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
دن کا پھول ابھی جاگا تھا
پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
پچھلے پہر کا سنّاٹا تھا
گرد نے خیمہ تان لیا تھا
مجھ کو اور کہیں جانا تھا
تو جب دوبارہ آیا تھا
تجھ بن گھر کتنا سوناتھا
دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دم ہونٹوں پر آکے رکا تھا
چاند ابھی تھک کر سویا تھا
نئے دیس کا رنگ نیا تھا
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
میں اس شہر میں کیوں آیا تھا
پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
روتے روتے کون ہنسا تھا
پون ہری،جنگل بھی ہرا تھا
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
تیرا قصور نہیں میرا تھا
نشاط خواب
فہرست
نشاط خواب
شہر غریب
نیا سفر
بارش کی دعا
گجر پھولوں کے
ساتواں رنگ
نعت
نعت
نعت
نعت
نعت
نعت
سلام
رباعیات
گلشن پاک ہمارا
متفرق اشعار
شرگودھا میرا شہر
متفرق اشعار
تو ہے مری زندگی
تو ہے عزیز ملّت
تیرگی ختم ہوئی صبح کے آثار ہوئے
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
آج تری یادوں کا دن ہے
ہر محاذ جنگ پر
قائد اعظم
اے ارض وطن
حصّہ سوم(تراجم)
گیت
جاڑے کی رات
پی ، فو، جن
انہد مرلی شور مچایا
برو کلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے
فوری تحفہ
سر کی چھایا ایک کتھا
تعارف
سر کی چھایا (ایک کتھا)
پہلا منظر
دوسرا منظر
تیسرا منظر
چوتھا منظر
وقفہ
پانچواں منظر
چھٹا منظر
ساتواں منظر
آٹھواں منظر
نواں منظر
دسواں منظر
گیارہواں منظر
بارھواں منظر
تیراھواں منظر
غیر مطبوعہ کلام
کیوں نہ سر سبز ہو ہماری غزل
یہ ستم اور کہ ہم پھول کہیں خاروں کو
دفعتاً ہنگامۂ محشر اٹھا
پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
خاک بسر ہے چمن دیکھے کب تک رہے
یوں بیٹھا ہوں دل کے داغ سے خوش
آدمی ہے نہ آدمی کی ذات
جب رات گئے تسوی یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا
اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم
رہ جنوں میں خرد کا حوالہ کیا کرتا
دل دکھایا تھا جس نے پہلی بار
بستیاں بستی رہیں گی لیکن
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।