سرورق
فہرست
پیش لفظ
مقدمہ
ھر گز نہیں مقدور تری حمد زباں کا
غزلیات ردیف (الف)
مقدور کسے نعت پیمبر کی رقم کا
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردا حجاب کا
وھی معنی ہیں گو دھوکا ہے صورت کے ازالے کا
دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
نہ جوں حباب تو دم کھا حیات فانی کا
پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا؟
پھر کے جو وہ شوخ، نظر کر گیا
قائم تو اپنی ہستی نہ سمجھا کہاں تلک
دل یاد ہیں وہ دن کہ تجھے ناؤ نوش تھا
جلوہ چاہے ہے اسے اس بت ہرجائی کا
جی تلک آتش ہجراں میں سنبھالا نہ گیا
ٹکڑے کب غم نے یہ جگر نہ کیا
دل سے طوفان گریہ آمڈے ہزار
عہدے سے تیرے ہم کو بر آیا نہ جائے گا
ڈر، نالے سے جو ہووے قریں جان خستہ کا
میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
ہے مختصر تو بہ قصہ مری تباہی کا
میں نہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
شام یا صبح، یاں سے جب قائم
اب جو کوچے سے تیرے جائے گا
گرا شب آنکھ سے کچھ آب، کچھ مژگاں سے خوں ٹپکا
کیا میں کیا اعتبار میرا
دیا فلک نے ہمیں عز و جاہ یا نہ دیا
قائم اپنے میں ضعف اس حد کو
سن کے شور اس لب شکر خا کا
شب جو دل بے قرار تھا، کیا تھا؟
میں کیا کہوں کہ جو کچھ مجھ پہ زیر دام ہوا
کان تک یار کے، قائم مرے اس عالم سے
بے دماغی سے نہ اس تک دل رنجور گیا
جس چشم کو وہ میرا خوش چشم نظر آیا
جو کوہ کن تجھے قوت ہی آزمانا تھا
مرے نزدیک دل سے، درد پہلو دور بہتر تھا
کب یہ کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا؟
محتسب سے صلاح کیجے گا
ہے جو کوئی کہ آشنا دل کا
چھوڑ، ماواے ذقن، زلف پریشاں میں پھسا
عوض طرب کے گزشتوں کی ہم نے غم کھینچا
میں اس سلیقے سے دل کا مزا تمام لیا
درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
یہ جامہ سیر گلشن میں کبھو اے خوش دھن پھٹتا
یہ کہیو تو قاصد کہ ہے پیغام کسی کا
چرخ مینائی سے کیا مر کے کوئی چھوٹے گا؟
دل! رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
تمام ریم و لہو، دل کے داغ سے نکلا
تا، اس طرف سے ہے گزر، اس شہ سوار کا
وہ حال سے مرے اتنا نہ بے خبر ہوتا
ہم بھی ہر طرح تری دوری میں دل شاد کیا
میں اس چمن سے اور یہ مجھ سے چمن گیا
میں عشق میں بتاں کے دل و دیں تو کھو چکا
ہم ہیں جنوں نے نام چمن بو نہیں کیا
نہیں بند قبا میں تن ہمارا
نہ لیں تھے نام ہم اس سے ہی آشنائی کا
جز مرے کس کے تو یاں پار جگر سے گزرا؟
قدم تو کس کا، ترے کو میں پھر گیا ہو گا
ہے فصل گل نہ روے گریبان دیکھنا
جب سنگ آستانہ ترا تکیہ گاہ تھا
تو مہربان کبھو ہم پر ایک دم نہ ہوا
مرتے مرتے بھی نہ جن نے کبھو آرام دیا
کیوں کر ہو سخن تمام اپنا
جلوں کو رونے سے ہر سوز عشق کا رونا
اک ڈھب پہ کبھو وہ بت خود کام نہ پایا
جو یاں جیے ہے تو غافل بہ چشم نم جیکا
دن ہی ملیے گا یا شب آئیے گا؟
گو تغافل سے میرا کام ہوا
دل وہیں ھووے گا میرا وہ جہاں ہووے گا
دل چرا لے کے اب کدھر کو چلا
عیش و طرب کہاں ہے غم دل کدھر گیا
ہوا سے آہ کی چمکا ہے سوز داغ مرا
صبا یک بار گلشن تک ہمارے مشت پرلے جا
گالی تو دی ہے یار نے بوسہ نہ گو دیا
بس کہ حاصل مجھے کچھ جز غم حرماں نہ ہوا
ہم سے بے چاروں کا کچھ چرخ نے چارا نہ کیا
اس منہ سے کلام کچھ نہ نکلا
مرے دماغ سے مانوس ہے شمیم صبا
منت لے کس کی، جس میں کہ کانٹا ہو ننگ کا
کس کس کی یاد دل میں رکھے ہوش نقش پا
کھول مکھڑا تونے ہم جلتوں کا چارا کیا کیا
کس مہ سے یہ گھر ہووے اندھیرے سے اجالا
ہے عبث شکوہ، دل! اس شوخ کی بے دادی کا
آدم کا جسم جن کے عناصر سے مل بنا
افشا نہ ہوئے کیوں کہ بھلا راز عندلیب
گرچہ دل کش ہیں سب بتاں کی ادا
رہتے ہیں میرے دل پر اکثر ہزار سودا
ردیف (ب)
آج قائم تجھے آئے گی نہ جانے کب خواب
رات کو چین ہے نہ دن کو تاب
ردیف(ت)
تا چند سخن سازی نیرنگ خرابات
زلف دیکھی تھی کس کی خواب میں رات
خوب نکلے ہم اس کے کوچے سے
ردیف (ث)
نہ پوچھ گریۂ خوں کا ترے ہے کیا باعث؟
شعلہ ہو دل سے گزرا آخر شرار الفت
آج سمجھے کہ تھی سب سعیٔ دل زار عبث
اے وہ! کہ تو کرے ھے ھر آزار کا علاج
ردیف (ج)
مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
ردیف(چ)
اے زیست! زیست وہ تھی جو کاٹی عدم کے بیچ
تجھ پہ شب جاگے سے کیفیت جو کچھ آتی ہے صبح
ردیف(ح)
لوٹنا خوں میں گلستاں کی طرح
گردش میں ہوں میں رات دن ایام کی طرح
قائم ہر اک کا کام نہیں دعویٔ سخا
چاہے نہنگ و بحر جو کوئی برنگ سرخ
ردیف (خ)
کچھ نہ پوچھ اے ہم نشیں!اپنے تو جل جانے کی طرح
تیں کی ہے کیوں یہ سیہ نامہ اس قد گستاخ
یوں تو دنیا میں ہر اک کام کے استانہ ہیں شیخ
ردیف (د)
جی بھی لے، دل کیا ہے تو چل، یک نشد دوشد
حلقۂ زفل شب آسا میں ترا روے سفید
نے غم اس کے نے لیا دل کو نہ کی جان پسند
اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
سب کو آیا ہے ترے حسن کا یاں طور پسند
کچھ آج دل پہ یہ وحشت کا رنگ ہے صیاد
ردیف (ذ)
زبس کہ ہے مری تحریر سے بجاں کاغذ
ردیف (ر)
نہ ہووے شاق کیوں کر ہم فن اپنا نفس بدرگ پر؟
کس قدر ہے لب شیریں کا ترے نام لذیذ
برہم تو نہیں زلف گرہ گیر ہوا پر
شب کہا میں ترے کوچے میں نہ رہنا بہتر
آج کل پھر موسم گل کے ہے آنے کی خبر
بے شغل، نہ زندگی بسر کر
بھلا اے ابر مژگاں، ٹک تو بس کر
حرف کفرو دیں پہ ھی کیا منحصر
دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
مفت ہے یہ دید پیارے یک نظر
واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
ردیف (ز)
نخل امید کیوں کہ ہمارا ہو آہ سبز
تھی وفا اس مرتبہ یا بے وفائی اس قدر؟
آمادۂ خلش ہیں مرے عضو تن ہنوز
آنکھیں تو چو پڑی ہیں، مژہ خوں چکاں ہنوز
صحت کا جی میں چاؤ نہ آزار کی ہوس
میں ہوں اسیر پہ کرتا ہوں سیر باغ ہنوز
ردیف (س)
بیٹھیے کوئی روز دل کے پاس
نہ کلہ کا جی میں یاں خطرہ نہ افسر کی ہوس
گویاں نہ کسی کو آئے افسوس
یاں چشم تمام آب ہیں سارا جگر آتش
ردیف (ش)
کسو کے ہوگی دل غم برشت میں آتش
جاتے جاتے جائے گا مہ رویہ سینے کا خراش
دیکھا ہے آج راہ میں ہم اک حریر پوش
پی کے مئے غیر کے رہے شب باش
ردیف (ص)
دلا! اس آفت جاں سے تو کہہ تو کیا اخلاص
ردیف (ض)
رکھتا ہے جو تو صفائے عارض
تھا وہ بے گانہ کیا یاں ہم نے جس سے اختلاط
دیکھی میں تری چشم کے بیمار کی شب نبض
جی نکلنا تھا ہمیں یارب غرض
ردیف(ط)
اس کو نہ راست کہہ تو نہ اس کو بتا غلط
چوری نہ کی جو تجھ سے کیا بھی ہم اختلاط
بن ترے لالہ زار سے کیا حظ
بھوکے کو کب ہو سۂ واژوں سے انسباط
ردیف (ظ)
یوں جلے آہ پتنگے سا تماشائی شمع
ہمیشہ دست تاسف ملے ہے وہ جس کو
گو بنام اک زبان رکھتی ہے شمع
آتش تب نے کی ہے تاب شروع
آگ ہر چند کہ سینے میں طپاں رکھتی ہے شمع
دل تیر مژہ کھائے کہ ابرو کی سہے تیغ
جاں بہ لب ہے نالہ کھاؤں کیوں نہ میں سینے میں داغ
ردیف (غ)
بس نہیں اب دل پہ میرے جائے داغ
آج آپ مرے حال پہ کرتے ہیں تاسف
ردیف (ف)
دیکھ ہو کے ٹک تو بارے اے خوں خواریک طرف
قائم ہر ایک کوچے میں ہے طرفہ تعزیہ
دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
اگرچہ داغ ہیں لالے کے دل میں چار طرف
اے محنت آزمائے عاشق
اب کے اگر بخیر ہے انجام اشتیاق
اے راست وعدہ شام سے تجھ بن سحر تلک
ہر پردۂ زمین میں طوفاں ہے زیر خاک
ردیف (ک)
قائم جو ہے شمع بزم معنی
مجھ بے گنہ کے قتل کا آہنگ کب تلک
دل دے کے دیا میں تجھ کو جاں تک
ہیں جو کوئی کہ نالہ نیوش شکست رنگ
ردیف (گ)
ردیف (ل)
گو اب مرے مزار پہ کوئی نہ لائے گا
بلبل می ںبھی ہیں گرچہ خوش آوازیوں کے ڈول
بے سبب آغوش کی صورت نہیں ہے چاک دل
کو تب عشق کہ ہو چارۂ افسردن دل
ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
پر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغ گل
ردیف (م)
اب کے جو یہاں سے جائیں گے ہم
ہے زیر چرخ سزاوار حمد اس کا نام
ہیں مژگان دراز البتہ چشم یار کو لازم
جب موج پر اپنی آگئیں چشم
جوں نخل شمع کب ہیں رہیں بہار ہم
قائم جگہ ہے رونے کی یہ حالت تباہ
کیا کہوں کرتا ہے کیا کیا وہ بت خود کام، کام
کب شمع گئی ہے سرستی یاں تک گزر کہ ہم
ردیف (ن)
ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
میرا سالب ولہجہ کہاں مرغ چمن میں
جہاں کو وہ لب مے گو خراب رکھتے ہیں
جیتے جو تری چشم کے بیمار رہے ہیں
ہزار مہر ہیں مخفی فلک کے کینے میں
گل کا بھی تجھ سے کم تو میاں رنگ و بو نہیں
اس سے لے ہستی تک اپنی تفرقہ یک مو نہیں
کوئی مختار کھو یا کوئی مجبور ھمیں
ربط کیا عشق سے تھا اس دل بے تاب کے تئیں
قتل کرتا ہے ہمیں وہ بت طناز کہاں
شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
قائم اس بزم میں تھا کون کہ جن نے نہ پیا
کل، اے آشوب نالہ آج نہیں
کون چاہے ہے بتاں تم سے مدارا کے تئیں
لے چکو دل جو نگہ کو تو یہ دشوار نہیں
تا کجا مستی میں نا خوش دل احباب کریں
شب ہو چکی تمام، سحر پھیر ڈھب نہیں
وہ ہے کون دن کہ ترے لیے مجھے تجھ گلی میں گزر نہیں
جو خزائن ہیں چھپے آج مرے سینے میں
جو کوئی درپہ ترے بیٹھے ہیں
نہ بیم غم ہے، نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں
یاں سے اٹھ غیر کے گھر شب تو گیا، کہتے ہیں
نہ دل بھرا ہے، نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کیا ہو گیا کہ نالہ اثر سے قرلیں نہیں
وائے اس دل پہ جو بے چین شب و روز نہیں
جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں
کب ان آنکھوں کی ہم چشمی کریں تصویر کی آنکھیں
نے گریہ شب ہوں میں نہ آہ سحری ہوں
بس اے طپیدن دل بس کہ یاں توان نہیں
جیا بکام کب اس بخت ارجمند سے میں
خوش رہ اے دل اگر تو شاد نہیں
جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
نہ کہہ کہ بے اثر انفاس سرد ہوتے ہیں
کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
آپ جو کچھ قرار کرتے ہیں
عبث ہیں ناصحا ہم سے زخود رفتوں کی تدبیریں
آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
لائق وفا کے خلق و سزاے جفا ہوں میں
معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
کیدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں
کرتا تھا کل گلی میں وہ اپنی خرام ناز
صحرا پہ گر جنوں مجھے لاوے عتاب میں
یوں ہیں رنجش ہو اور گلا بھی یوھیں
کچھ وقر تیرے سامنے رکھتا ہوں میں نہیں
نگاہوں سے نگاھیں سامنے ہوتے ھی جب لڑیاں
مژگاں پھری ہیں آج جو ٹیڑھی نگہ نہیں
پھوٹی بھلی وہ چشم جو آنسو سے تر نہیں
ترک وفا گرچہ صداقت نہیں
ہم تو دم بھی گرو نالہ شب گیر کریں
واشد کی دل کے اور کوئی راہ ہی نہیں
چشم اسی طرح اگر خون جگر روتے ہیں
ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سیے ہیں
جس کو ہستی و عدم جانتے ہیں
غم زدے بھی غرض اس دور میں ہم سے کم ہیں
ھمارے درد دل کے تئیں یہ کب بے درد پوچھیں ہیں
دور اس گل سے بس کہ داغ ہوں میں
مجھے اس اپنی مصیبت سے ہے فراغ کہاں
ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں
درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں
سیکڑوں ہیں آگہی غفلت کے بھی اسباب میں
جو زر کو خرچ کے جام شراب لیتے ہیں
امتحاں کرنا جسے منظور ہو پیارے ہمیں
میں اس اخفا سے تیری یاد میں دل شاد کرتا ہوں
جینا ہے تلخ لذت مرگ آشنا کے تئیں
جمع چھوڑے ہے زمانہ دو کو یاں باہم کہاں
شب تن زار ملا آہ کے سر رشتہ میں
تا چند تجھ پہ دور سے پیارے نظر کروں
چھیڑا تمھیں ہے یا کبھو بوسہ لیا ہے میں
آدمی ہونا بہت مشکل ہے قائم زیر چرخ
ردیف (و)
جب وہ رخ روشن خط شب رنگ تلے ہو
جب نہ تب مجھ سے جو تم دل کی طلب کرتے ہو
آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
قبول عذر تو واں ہو جہاں ملال بھی ہو
میں ہوں کہ میرے دکھ پہ کوئی چشم تر نہ ہو
رھنے دے شب اپنے پاس مجھ کو
ہم موئے پھرتے ہیں اور خواھش جاں ہے اس کو
کرکے ہے ہے اے نم اشک تو رووے مجھ کو
ضائع نہ کر تو دام میں صیاد دانہ کو
شکوہ نہ بخت سے ہے ، نے آسماں سے مجھ کو
کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دھاں مجھ کو
ناصحا! کر نہ اسے سی کے پشیماں مجھ کو
ٹک تو خاموش رکھو منہ میں زباں سنتے ھو
حضرت درد کی خدمت میں جب آقائم نے
کب دل نے مضطرب نہ کیا اضطراب کو
اتنی اے دیدۂ و دل مجھ پہ نہ بے داد کرو
راہ پینڈے اسے رکھتا ہوں اگر گھیر کبھو
گردش شبانہ روز نہیں یہ سپہر کو
یارو کیوں بکتے ہو بے فائدہ مجھ سے، جاؤ
نے ھجر چاہتا ہوں نہ وصل جیب کو
ھوئی جلا داغ سے پچھنوں کے ترے سینے کو
شمع ساں جلنے کو صانع نے بنایا مجھ کو
اگر عرصے میں تو محشر کے با ایں قدوقامت ہو
ردیف (ہ)
یہ کون طرز وفا ہے جو ہم سے کرتے ہو
جو دیں ناخن تجھے ناداں نہ ہو زنہار بالیدہ
سرسری سمجھی کوئی جاتی ہے حرف دل کی تہ
شیخ جی تم نے نہ سمجھا یہ کرامات کی راہ
جی میں چھلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ
آج اگر بزم میں ہے کچھ اثر پروانہ
جاتے ہی ہو گر خواہ نخواہ
بتاں جو تمھارا ثنا گر ہے وہ
مت پوچھ دل کی کیوں کہ کٹی درد وغم ک ساتھ
ردیف (ی)
نہ ہم فلک کے کبھو ریو ورنگ کے چھوٹے
جوں موچ مرا قافلہ غافل ہے سفر سے
قتل پہ میرے تجھے کد چاھیے
خوگ درد ہوں میں کرتے ہیں درماں میرے
کب شمع یوں گداز محبت میں گل سکے
آشنا ھو جیو مت ہجر کے کوئی غم سے
کیا اختلاط ابھی تمہیں اغیار ساتھ ہے
پاس میں تجھ غم کے ہم اپنی بھی غم خواری نہ کی
زبس کہ رات اذیت تھی عشق کے تب کی
گہ پیر شیخ و گاہ مرید مغاں رہے
دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
ہر چند دکھ دھی سے زمانے کو عشق ہے
ارمغاں لیتے کئی زخم نمایاں کو گئے
دل سے کچھ آج تراوندہ نیا مضموں ہے
یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
اس دل کی خوھے روکے اٹھے سر پٹک پڑے
اے گریہ دعا کر کہ شب غم بسر آوے
تا شوخی نگاہ تری گرم ناز ہے
نے ناز نہ عشوہ ہے نہ تقطیع نہ چھب ہے
رات اس سے کہا میں کہ ترے کوچے میں پیارے
فلک نے چغد کو منزل دی مجھ دوانے کی
جب میں دیکھا ہے تو اس دل کو غمیں دیکھا ہے
نہ پوچھو کیوں کہ میری ان دنوں اوقات کٹتی ہے
ھنوز شوق دل بے قرار باقی ہے
جو بو کچھ اور بھری ہو دماغا میں گل کے
خدا ہی حافظ اس مژگاں کی ہے شوخی وشنگی سے
حقیقت میں نہیں نقش ونگار اتنے تو یاں قائم
یوھیں جو یہ چشم تر رھیں گے
آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجیے
کیا لطف ہے زندگی کا پیارے
کوئی ٹک اس کو حال کی میرے خبر کرے
سنبل کو چل کے باغ میں شرمندہ کیجیے
کسے حباب نمط یاں ہواے افسر ہے
سحرہوئی، رات بیتی، مے ہے شیشے میں وھیں باقی
لبریز شوق میرا ازبس کہ مو بمو ہے
تیری زباں سے خستہ کوئی، زار ہے کوئی
کیوں جائے کوچنی تری زلفوں میں پھنسے کی
مرجائیے، کسی سے پر الفت نہ کیجیے
اے ریش رو سیاہ ترا، پیش مہ و شاں
کس دن مرے جنوں کی خبر دشت تلک گئی
کیوں کہ تجھ ھجر میں آرام سے سونا ہووے
شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی
مردن دشوار میں یہ جان بے تقصیر ہے
خوب ہی عاشق کو اپنے تم تو بہکاتے رہے
روز وشب ہے حالت انجام مے نوشی مجھے
نیا ھر لحظہ ہر داغ کہن ہے
یارب، کوئی اس چشم کا بیمار نہ ہووے
شب تن زار ملا، ااہ کے سر رشتے سے
دامان گل تئیں ہے کہاں دسترس مجھے
گو ہم سے تم ملے نہ تو ہم بھی نہ مرگئے
چشم اگر تا بہ شب یوھیں رووے
لگ کے پھر دل نہ چھٹے جس سے تنک لاگ لگے
جوں طفل سر شک ارغوانی
آمد میں میں اشک نا تواں کی
فہم کے ساتھ جو شناعت ہے
اے دل جو یہ پوچھے تجھ سے قائم
جز سیر دل اب اور کتابت نہ سبق ہے
دل ڈھونڈھنا سینے میں مرے بوالعجبی ہے
کیا لطف ہے واں رہیے جہاں بے مزگی ہے
سنتا ہی نہیں وہ بت گمراہ کسی کی
دو ہمتوں کے فائدہ کیا اضطراب سے
کسے گل گشت گلشن کی ہوس ہے
بانگ مسجد سے کب اس کو سر مانوسی ہے
مت کہہ کہ رات اس سے وعدہ ٹھہر چکا ہے
کیا جانے ہم کہاں ہیں اور دین و دل کدھر ہے
جس طرف سے تو مری جان پلک مار چلے
کاہے کو شیخی و ریا چاہیے
اج اے گریہ خبر لے مرے دیوانے کی
شکوہ اغیار سے نے یار کی بیزاری سے
کب نالہ بلائے جاں نہیں ہے
ممکن نہیں دل سے تاب وتب جائے
ویسی ہی آہ، وہ ہی نالا ہے
بات جب اس زبان پر آئی
کوئی اپنی خاطر ایسا کہیں اک مکان ہووے
خدا کسی پہ کسی دل کو مبتلا نہ کرے
کیا کیا عدم میں ہم پر ظلم وستم نہ ہوں گے
جو کچھ کہ اس میں ہو شادی و غم غنیمت ہے
تا مژہ دل سے پھر اب اشک کا نم پہنچا ہے
دس طرف وہ نگاہ لڑتی ہے
تا اس کمر کے غم نے کیا مثل مو مجھے
زاہد در مسجد پہ خرابات کی تونے
کریں ہم یاد کس کس گلستاں کی
پھرے زمانہ جہاں تک ہے ہم سے یا نہ پھرے
عجب اک پیچ وخم کے ساتھ اس عارض پہ رو واں ہے
پھر وہی دم کو ترے چرخ اثر دیتا ہے
یہ نیست وھست اے دل سب وھم ہی تیرا ہے
ہیں نہ اک خوں سے مرے دیوار و در بھیگے ہوئے
مرا جی گو تجھے پیارا نہیں ہے
کیا دل غم زدہ ہوگا تو جسے شاد کرے
دیکھتے غیر کے مری اس سے نگاہ لڑگئی
رکھے تھا صبر کا دعویٰ تری بیداد کے آگے
اٹھاوے ستم یا جفا، کیا کرے
عوض امید کے پھر دل کویاس آئی ہے
جو کترا خط پشت لب کو تیں عالم ہوا راضی
جو دیکھتے ہو اس میں خیالات و خواب ہے
نسبت ہے آفتاب کو کیا روئے یار سے
کرو ہو بوسے کا وعدہ تم آج اشاروں سے
مرے حال سے وہ بت آگاہ کیا ہے
نہ پوچھو کہ قائم کا کیا حال ہے
ہے وہ تجھ میں واسطے جس کے تو اس خواری میں ہے
ہم نے توخبر اس لب شیریں کی نہ پائی
تو اپنی سی دل کی خونہ سمجھے
گر فخر ہے مجھ سے ہے و گر عارہے مجھ سے
حال دل صبح و شام کیا کہیے
ااج ناداں حسن پر جس تن کے تو مغرور ہے
وہ بھی کیا دن تھے کہ جی کو لاگ اس کے سات تھی
کس طرح سے ماہ نو انجم کے عقدے وا کرے
شب وروز دل کو اپنے ہے سر حکایت اس سے
گھر آچکا میں تو نہ پھرا اس کی راہ سے
افغان وآہ کشتۂ بیداد کیا کرے؟
کمال نطق میں عیسیٰ بھلا تجھی سا ہے؟
رخصت ہو تم تو ووں گئے ہم یوں چلے گئے
ہمارے سوز دل کو شمع کا شعلہ جو سنتا ہے
شب جو ہم تجھ بن دل بے تاب کو تھامے رہے
ہم سے تو ترک کوئے یار ہو سکے ، یہ نہ ہو سکے
کون سا اہل صفا آلودگی سے پاک ہے
کس دل پہ داغ نے نہ تیرے بہار کی
نہ اے بے مہر مجھ پر ایک تو ہی بر سر کیں ہے
قائم صبا سے اہل چمن نے اگر کہیں
زیادہ چشم سے ابرو تری پیارے ستم گر ہے
تو قع بعد خط تھی اس سے ہم کو کامیابی کی
ہے جو دم مفلس کے جی پر نزع سے دشوار ہے
دل کو پھا نسا ہے ہر اک عضو کی تیرے چھب نے
شادی و عیش وہ یا رنج و عنا دیتا ہے
گو کہیں یار بلایا ہے وہ اب آتا ہے
گہہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی
شہا کچھ کام کا بندا ہے یا یہ ہیچ کارا ہے
ایسی جو تمھیں نا خوشی تام مہے مجھ سے
مرا کوئی احوال کیا جانتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھا تو دایما ہے
قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
حواشی
اختلاف نسخ وتعلیقات
فرھنگ
سرورق
فہرست
پیش لفظ
مقدمہ
ھر گز نہیں مقدور تری حمد زباں کا
غزلیات ردیف (الف)
مقدور کسے نعت پیمبر کی رقم کا
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردا حجاب کا
وھی معنی ہیں گو دھوکا ہے صورت کے ازالے کا
دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
نہ جوں حباب تو دم کھا حیات فانی کا
پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا؟
پھر کے جو وہ شوخ، نظر کر گیا
قائم تو اپنی ہستی نہ سمجھا کہاں تلک
دل یاد ہیں وہ دن کہ تجھے ناؤ نوش تھا
جلوہ چاہے ہے اسے اس بت ہرجائی کا
جی تلک آتش ہجراں میں سنبھالا نہ گیا
ٹکڑے کب غم نے یہ جگر نہ کیا
دل سے طوفان گریہ آمڈے ہزار
عہدے سے تیرے ہم کو بر آیا نہ جائے گا
ڈر، نالے سے جو ہووے قریں جان خستہ کا
میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
ہے مختصر تو بہ قصہ مری تباہی کا
میں نہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
شام یا صبح، یاں سے جب قائم
اب جو کوچے سے تیرے جائے گا
گرا شب آنکھ سے کچھ آب، کچھ مژگاں سے خوں ٹپکا
کیا میں کیا اعتبار میرا
دیا فلک نے ہمیں عز و جاہ یا نہ دیا
قائم اپنے میں ضعف اس حد کو
سن کے شور اس لب شکر خا کا
شب جو دل بے قرار تھا، کیا تھا؟
میں کیا کہوں کہ جو کچھ مجھ پہ زیر دام ہوا
کان تک یار کے، قائم مرے اس عالم سے
بے دماغی سے نہ اس تک دل رنجور گیا
جس چشم کو وہ میرا خوش چشم نظر آیا
جو کوہ کن تجھے قوت ہی آزمانا تھا
مرے نزدیک دل سے، درد پہلو دور بہتر تھا
کب یہ کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا؟
محتسب سے صلاح کیجے گا
ہے جو کوئی کہ آشنا دل کا
چھوڑ، ماواے ذقن، زلف پریشاں میں پھسا
عوض طرب کے گزشتوں کی ہم نے غم کھینچا
میں اس سلیقے سے دل کا مزا تمام لیا
درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
یہ جامہ سیر گلشن میں کبھو اے خوش دھن پھٹتا
یہ کہیو تو قاصد کہ ہے پیغام کسی کا
چرخ مینائی سے کیا مر کے کوئی چھوٹے گا؟
دل! رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
تمام ریم و لہو، دل کے داغ سے نکلا
تا، اس طرف سے ہے گزر، اس شہ سوار کا
وہ حال سے مرے اتنا نہ بے خبر ہوتا
ہم بھی ہر طرح تری دوری میں دل شاد کیا
میں اس چمن سے اور یہ مجھ سے چمن گیا
میں عشق میں بتاں کے دل و دیں تو کھو چکا
ہم ہیں جنوں نے نام چمن بو نہیں کیا
نہیں بند قبا میں تن ہمارا
نہ لیں تھے نام ہم اس سے ہی آشنائی کا
جز مرے کس کے تو یاں پار جگر سے گزرا؟
قدم تو کس کا، ترے کو میں پھر گیا ہو گا
ہے فصل گل نہ روے گریبان دیکھنا
جب سنگ آستانہ ترا تکیہ گاہ تھا
تو مہربان کبھو ہم پر ایک دم نہ ہوا
مرتے مرتے بھی نہ جن نے کبھو آرام دیا
کیوں کر ہو سخن تمام اپنا
جلوں کو رونے سے ہر سوز عشق کا رونا
اک ڈھب پہ کبھو وہ بت خود کام نہ پایا
جو یاں جیے ہے تو غافل بہ چشم نم جیکا
دن ہی ملیے گا یا شب آئیے گا؟
گو تغافل سے میرا کام ہوا
دل وہیں ھووے گا میرا وہ جہاں ہووے گا
دل چرا لے کے اب کدھر کو چلا
عیش و طرب کہاں ہے غم دل کدھر گیا
ہوا سے آہ کی چمکا ہے سوز داغ مرا
صبا یک بار گلشن تک ہمارے مشت پرلے جا
گالی تو دی ہے یار نے بوسہ نہ گو دیا
بس کہ حاصل مجھے کچھ جز غم حرماں نہ ہوا
ہم سے بے چاروں کا کچھ چرخ نے چارا نہ کیا
اس منہ سے کلام کچھ نہ نکلا
مرے دماغ سے مانوس ہے شمیم صبا
منت لے کس کی، جس میں کہ کانٹا ہو ننگ کا
کس کس کی یاد دل میں رکھے ہوش نقش پا
کھول مکھڑا تونے ہم جلتوں کا چارا کیا کیا
کس مہ سے یہ گھر ہووے اندھیرے سے اجالا
ہے عبث شکوہ، دل! اس شوخ کی بے دادی کا
آدم کا جسم جن کے عناصر سے مل بنا
افشا نہ ہوئے کیوں کہ بھلا راز عندلیب
گرچہ دل کش ہیں سب بتاں کی ادا
رہتے ہیں میرے دل پر اکثر ہزار سودا
ردیف (ب)
آج قائم تجھے آئے گی نہ جانے کب خواب
رات کو چین ہے نہ دن کو تاب
ردیف(ت)
تا چند سخن سازی نیرنگ خرابات
زلف دیکھی تھی کس کی خواب میں رات
خوب نکلے ہم اس کے کوچے سے
ردیف (ث)
نہ پوچھ گریۂ خوں کا ترے ہے کیا باعث؟
شعلہ ہو دل سے گزرا آخر شرار الفت
آج سمجھے کہ تھی سب سعیٔ دل زار عبث
اے وہ! کہ تو کرے ھے ھر آزار کا علاج
ردیف (ج)
مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
ردیف(چ)
اے زیست! زیست وہ تھی جو کاٹی عدم کے بیچ
تجھ پہ شب جاگے سے کیفیت جو کچھ آتی ہے صبح
ردیف(ح)
لوٹنا خوں میں گلستاں کی طرح
گردش میں ہوں میں رات دن ایام کی طرح
قائم ہر اک کا کام نہیں دعویٔ سخا
چاہے نہنگ و بحر جو کوئی برنگ سرخ
ردیف (خ)
کچھ نہ پوچھ اے ہم نشیں!اپنے تو جل جانے کی طرح
تیں کی ہے کیوں یہ سیہ نامہ اس قد گستاخ
یوں تو دنیا میں ہر اک کام کے استانہ ہیں شیخ
ردیف (د)
جی بھی لے، دل کیا ہے تو چل، یک نشد دوشد
حلقۂ زفل شب آسا میں ترا روے سفید
نے غم اس کے نے لیا دل کو نہ کی جان پسند
اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
سب کو آیا ہے ترے حسن کا یاں طور پسند
کچھ آج دل پہ یہ وحشت کا رنگ ہے صیاد
ردیف (ذ)
زبس کہ ہے مری تحریر سے بجاں کاغذ
ردیف (ر)
نہ ہووے شاق کیوں کر ہم فن اپنا نفس بدرگ پر؟
کس قدر ہے لب شیریں کا ترے نام لذیذ
برہم تو نہیں زلف گرہ گیر ہوا پر
شب کہا میں ترے کوچے میں نہ رہنا بہتر
آج کل پھر موسم گل کے ہے آنے کی خبر
بے شغل، نہ زندگی بسر کر
بھلا اے ابر مژگاں، ٹک تو بس کر
حرف کفرو دیں پہ ھی کیا منحصر
دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
مفت ہے یہ دید پیارے یک نظر
واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
ردیف (ز)
نخل امید کیوں کہ ہمارا ہو آہ سبز
تھی وفا اس مرتبہ یا بے وفائی اس قدر؟
آمادۂ خلش ہیں مرے عضو تن ہنوز
آنکھیں تو چو پڑی ہیں، مژہ خوں چکاں ہنوز
صحت کا جی میں چاؤ نہ آزار کی ہوس
میں ہوں اسیر پہ کرتا ہوں سیر باغ ہنوز
ردیف (س)
بیٹھیے کوئی روز دل کے پاس
نہ کلہ کا جی میں یاں خطرہ نہ افسر کی ہوس
گویاں نہ کسی کو آئے افسوس
یاں چشم تمام آب ہیں سارا جگر آتش
ردیف (ش)
کسو کے ہوگی دل غم برشت میں آتش
جاتے جاتے جائے گا مہ رویہ سینے کا خراش
دیکھا ہے آج راہ میں ہم اک حریر پوش
پی کے مئے غیر کے رہے شب باش
ردیف (ص)
دلا! اس آفت جاں سے تو کہہ تو کیا اخلاص
ردیف (ض)
رکھتا ہے جو تو صفائے عارض
تھا وہ بے گانہ کیا یاں ہم نے جس سے اختلاط
دیکھی میں تری چشم کے بیمار کی شب نبض
جی نکلنا تھا ہمیں یارب غرض
ردیف(ط)
اس کو نہ راست کہہ تو نہ اس کو بتا غلط
چوری نہ کی جو تجھ سے کیا بھی ہم اختلاط
بن ترے لالہ زار سے کیا حظ
بھوکے کو کب ہو سۂ واژوں سے انسباط
ردیف (ظ)
یوں جلے آہ پتنگے سا تماشائی شمع
ہمیشہ دست تاسف ملے ہے وہ جس کو
گو بنام اک زبان رکھتی ہے شمع
آتش تب نے کی ہے تاب شروع
آگ ہر چند کہ سینے میں طپاں رکھتی ہے شمع
دل تیر مژہ کھائے کہ ابرو کی سہے تیغ
جاں بہ لب ہے نالہ کھاؤں کیوں نہ میں سینے میں داغ
ردیف (غ)
بس نہیں اب دل پہ میرے جائے داغ
آج آپ مرے حال پہ کرتے ہیں تاسف
ردیف (ف)
دیکھ ہو کے ٹک تو بارے اے خوں خواریک طرف
قائم ہر ایک کوچے میں ہے طرفہ تعزیہ
دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
اگرچہ داغ ہیں لالے کے دل میں چار طرف
اے محنت آزمائے عاشق
اب کے اگر بخیر ہے انجام اشتیاق
اے راست وعدہ شام سے تجھ بن سحر تلک
ہر پردۂ زمین میں طوفاں ہے زیر خاک
ردیف (ک)
قائم جو ہے شمع بزم معنی
مجھ بے گنہ کے قتل کا آہنگ کب تلک
دل دے کے دیا میں تجھ کو جاں تک
ہیں جو کوئی کہ نالہ نیوش شکست رنگ
ردیف (گ)
ردیف (ل)
گو اب مرے مزار پہ کوئی نہ لائے گا
بلبل می ںبھی ہیں گرچہ خوش آوازیوں کے ڈول
بے سبب آغوش کی صورت نہیں ہے چاک دل
کو تب عشق کہ ہو چارۂ افسردن دل
ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
پر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغ گل
ردیف (م)
اب کے جو یہاں سے جائیں گے ہم
ہے زیر چرخ سزاوار حمد اس کا نام
ہیں مژگان دراز البتہ چشم یار کو لازم
جب موج پر اپنی آگئیں چشم
جوں نخل شمع کب ہیں رہیں بہار ہم
قائم جگہ ہے رونے کی یہ حالت تباہ
کیا کہوں کرتا ہے کیا کیا وہ بت خود کام، کام
کب شمع گئی ہے سرستی یاں تک گزر کہ ہم
ردیف (ن)
ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
میرا سالب ولہجہ کہاں مرغ چمن میں
جہاں کو وہ لب مے گو خراب رکھتے ہیں
جیتے جو تری چشم کے بیمار رہے ہیں
ہزار مہر ہیں مخفی فلک کے کینے میں
گل کا بھی تجھ سے کم تو میاں رنگ و بو نہیں
اس سے لے ہستی تک اپنی تفرقہ یک مو نہیں
کوئی مختار کھو یا کوئی مجبور ھمیں
ربط کیا عشق سے تھا اس دل بے تاب کے تئیں
قتل کرتا ہے ہمیں وہ بت طناز کہاں
شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
قائم اس بزم میں تھا کون کہ جن نے نہ پیا
کل، اے آشوب نالہ آج نہیں
کون چاہے ہے بتاں تم سے مدارا کے تئیں
لے چکو دل جو نگہ کو تو یہ دشوار نہیں
تا کجا مستی میں نا خوش دل احباب کریں
شب ہو چکی تمام، سحر پھیر ڈھب نہیں
وہ ہے کون دن کہ ترے لیے مجھے تجھ گلی میں گزر نہیں
جو خزائن ہیں چھپے آج مرے سینے میں
جو کوئی درپہ ترے بیٹھے ہیں
نہ بیم غم ہے، نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں
یاں سے اٹھ غیر کے گھر شب تو گیا، کہتے ہیں
نہ دل بھرا ہے، نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کیا ہو گیا کہ نالہ اثر سے قرلیں نہیں
وائے اس دل پہ جو بے چین شب و روز نہیں
جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں
کب ان آنکھوں کی ہم چشمی کریں تصویر کی آنکھیں
نے گریہ شب ہوں میں نہ آہ سحری ہوں
بس اے طپیدن دل بس کہ یاں توان نہیں
جیا بکام کب اس بخت ارجمند سے میں
خوش رہ اے دل اگر تو شاد نہیں
جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
نہ کہہ کہ بے اثر انفاس سرد ہوتے ہیں
کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
آپ جو کچھ قرار کرتے ہیں
عبث ہیں ناصحا ہم سے زخود رفتوں کی تدبیریں
آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
لائق وفا کے خلق و سزاے جفا ہوں میں
معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
کیدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں
کرتا تھا کل گلی میں وہ اپنی خرام ناز
صحرا پہ گر جنوں مجھے لاوے عتاب میں
یوں ہیں رنجش ہو اور گلا بھی یوھیں
کچھ وقر تیرے سامنے رکھتا ہوں میں نہیں
نگاہوں سے نگاھیں سامنے ہوتے ھی جب لڑیاں
مژگاں پھری ہیں آج جو ٹیڑھی نگہ نہیں
پھوٹی بھلی وہ چشم جو آنسو سے تر نہیں
ترک وفا گرچہ صداقت نہیں
ہم تو دم بھی گرو نالہ شب گیر کریں
واشد کی دل کے اور کوئی راہ ہی نہیں
چشم اسی طرح اگر خون جگر روتے ہیں
ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سیے ہیں
جس کو ہستی و عدم جانتے ہیں
غم زدے بھی غرض اس دور میں ہم سے کم ہیں
ھمارے درد دل کے تئیں یہ کب بے درد پوچھیں ہیں
دور اس گل سے بس کہ داغ ہوں میں
مجھے اس اپنی مصیبت سے ہے فراغ کہاں
ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں
درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں
سیکڑوں ہیں آگہی غفلت کے بھی اسباب میں
جو زر کو خرچ کے جام شراب لیتے ہیں
امتحاں کرنا جسے منظور ہو پیارے ہمیں
میں اس اخفا سے تیری یاد میں دل شاد کرتا ہوں
جینا ہے تلخ لذت مرگ آشنا کے تئیں
جمع چھوڑے ہے زمانہ دو کو یاں باہم کہاں
شب تن زار ملا آہ کے سر رشتہ میں
تا چند تجھ پہ دور سے پیارے نظر کروں
چھیڑا تمھیں ہے یا کبھو بوسہ لیا ہے میں
آدمی ہونا بہت مشکل ہے قائم زیر چرخ
ردیف (و)
جب وہ رخ روشن خط شب رنگ تلے ہو
جب نہ تب مجھ سے جو تم دل کی طلب کرتے ہو
آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
قبول عذر تو واں ہو جہاں ملال بھی ہو
میں ہوں کہ میرے دکھ پہ کوئی چشم تر نہ ہو
رھنے دے شب اپنے پاس مجھ کو
ہم موئے پھرتے ہیں اور خواھش جاں ہے اس کو
کرکے ہے ہے اے نم اشک تو رووے مجھ کو
ضائع نہ کر تو دام میں صیاد دانہ کو
شکوہ نہ بخت سے ہے ، نے آسماں سے مجھ کو
کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دھاں مجھ کو
ناصحا! کر نہ اسے سی کے پشیماں مجھ کو
ٹک تو خاموش رکھو منہ میں زباں سنتے ھو
حضرت درد کی خدمت میں جب آقائم نے
کب دل نے مضطرب نہ کیا اضطراب کو
اتنی اے دیدۂ و دل مجھ پہ نہ بے داد کرو
راہ پینڈے اسے رکھتا ہوں اگر گھیر کبھو
گردش شبانہ روز نہیں یہ سپہر کو
یارو کیوں بکتے ہو بے فائدہ مجھ سے، جاؤ
نے ھجر چاہتا ہوں نہ وصل جیب کو
ھوئی جلا داغ سے پچھنوں کے ترے سینے کو
شمع ساں جلنے کو صانع نے بنایا مجھ کو
اگر عرصے میں تو محشر کے با ایں قدوقامت ہو
ردیف (ہ)
یہ کون طرز وفا ہے جو ہم سے کرتے ہو
جو دیں ناخن تجھے ناداں نہ ہو زنہار بالیدہ
سرسری سمجھی کوئی جاتی ہے حرف دل کی تہ
شیخ جی تم نے نہ سمجھا یہ کرامات کی راہ
جی میں چھلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ
آج اگر بزم میں ہے کچھ اثر پروانہ
جاتے ہی ہو گر خواہ نخواہ
بتاں جو تمھارا ثنا گر ہے وہ
مت پوچھ دل کی کیوں کہ کٹی درد وغم ک ساتھ
ردیف (ی)
نہ ہم فلک کے کبھو ریو ورنگ کے چھوٹے
جوں موچ مرا قافلہ غافل ہے سفر سے
قتل پہ میرے تجھے کد چاھیے
خوگ درد ہوں میں کرتے ہیں درماں میرے
کب شمع یوں گداز محبت میں گل سکے
آشنا ھو جیو مت ہجر کے کوئی غم سے
کیا اختلاط ابھی تمہیں اغیار ساتھ ہے
پاس میں تجھ غم کے ہم اپنی بھی غم خواری نہ کی
زبس کہ رات اذیت تھی عشق کے تب کی
گہ پیر شیخ و گاہ مرید مغاں رہے
دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
ہر چند دکھ دھی سے زمانے کو عشق ہے
ارمغاں لیتے کئی زخم نمایاں کو گئے
دل سے کچھ آج تراوندہ نیا مضموں ہے
یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
اس دل کی خوھے روکے اٹھے سر پٹک پڑے
اے گریہ دعا کر کہ شب غم بسر آوے
تا شوخی نگاہ تری گرم ناز ہے
نے ناز نہ عشوہ ہے نہ تقطیع نہ چھب ہے
رات اس سے کہا میں کہ ترے کوچے میں پیارے
فلک نے چغد کو منزل دی مجھ دوانے کی
جب میں دیکھا ہے تو اس دل کو غمیں دیکھا ہے
نہ پوچھو کیوں کہ میری ان دنوں اوقات کٹتی ہے
ھنوز شوق دل بے قرار باقی ہے
جو بو کچھ اور بھری ہو دماغا میں گل کے
خدا ہی حافظ اس مژگاں کی ہے شوخی وشنگی سے
حقیقت میں نہیں نقش ونگار اتنے تو یاں قائم
یوھیں جو یہ چشم تر رھیں گے
آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجیے
کیا لطف ہے زندگی کا پیارے
کوئی ٹک اس کو حال کی میرے خبر کرے
سنبل کو چل کے باغ میں شرمندہ کیجیے
کسے حباب نمط یاں ہواے افسر ہے
سحرہوئی، رات بیتی، مے ہے شیشے میں وھیں باقی
لبریز شوق میرا ازبس کہ مو بمو ہے
تیری زباں سے خستہ کوئی، زار ہے کوئی
کیوں جائے کوچنی تری زلفوں میں پھنسے کی
مرجائیے، کسی سے پر الفت نہ کیجیے
اے ریش رو سیاہ ترا، پیش مہ و شاں
کس دن مرے جنوں کی خبر دشت تلک گئی
کیوں کہ تجھ ھجر میں آرام سے سونا ہووے
شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی
مردن دشوار میں یہ جان بے تقصیر ہے
خوب ہی عاشق کو اپنے تم تو بہکاتے رہے
روز وشب ہے حالت انجام مے نوشی مجھے
نیا ھر لحظہ ہر داغ کہن ہے
یارب، کوئی اس چشم کا بیمار نہ ہووے
شب تن زار ملا، ااہ کے سر رشتے سے
دامان گل تئیں ہے کہاں دسترس مجھے
گو ہم سے تم ملے نہ تو ہم بھی نہ مرگئے
چشم اگر تا بہ شب یوھیں رووے
لگ کے پھر دل نہ چھٹے جس سے تنک لاگ لگے
جوں طفل سر شک ارغوانی
آمد میں میں اشک نا تواں کی
فہم کے ساتھ جو شناعت ہے
اے دل جو یہ پوچھے تجھ سے قائم
جز سیر دل اب اور کتابت نہ سبق ہے
دل ڈھونڈھنا سینے میں مرے بوالعجبی ہے
کیا لطف ہے واں رہیے جہاں بے مزگی ہے
سنتا ہی نہیں وہ بت گمراہ کسی کی
دو ہمتوں کے فائدہ کیا اضطراب سے
کسے گل گشت گلشن کی ہوس ہے
بانگ مسجد سے کب اس کو سر مانوسی ہے
مت کہہ کہ رات اس سے وعدہ ٹھہر چکا ہے
کیا جانے ہم کہاں ہیں اور دین و دل کدھر ہے
جس طرف سے تو مری جان پلک مار چلے
کاہے کو شیخی و ریا چاہیے
اج اے گریہ خبر لے مرے دیوانے کی
شکوہ اغیار سے نے یار کی بیزاری سے
کب نالہ بلائے جاں نہیں ہے
ممکن نہیں دل سے تاب وتب جائے
ویسی ہی آہ، وہ ہی نالا ہے
بات جب اس زبان پر آئی
کوئی اپنی خاطر ایسا کہیں اک مکان ہووے
خدا کسی پہ کسی دل کو مبتلا نہ کرے
کیا کیا عدم میں ہم پر ظلم وستم نہ ہوں گے
جو کچھ کہ اس میں ہو شادی و غم غنیمت ہے
تا مژہ دل سے پھر اب اشک کا نم پہنچا ہے
دس طرف وہ نگاہ لڑتی ہے
تا اس کمر کے غم نے کیا مثل مو مجھے
زاہد در مسجد پہ خرابات کی تونے
کریں ہم یاد کس کس گلستاں کی
پھرے زمانہ جہاں تک ہے ہم سے یا نہ پھرے
عجب اک پیچ وخم کے ساتھ اس عارض پہ رو واں ہے
پھر وہی دم کو ترے چرخ اثر دیتا ہے
یہ نیست وھست اے دل سب وھم ہی تیرا ہے
ہیں نہ اک خوں سے مرے دیوار و در بھیگے ہوئے
مرا جی گو تجھے پیارا نہیں ہے
کیا دل غم زدہ ہوگا تو جسے شاد کرے
دیکھتے غیر کے مری اس سے نگاہ لڑگئی
رکھے تھا صبر کا دعویٰ تری بیداد کے آگے
اٹھاوے ستم یا جفا، کیا کرے
عوض امید کے پھر دل کویاس آئی ہے
جو کترا خط پشت لب کو تیں عالم ہوا راضی
جو دیکھتے ہو اس میں خیالات و خواب ہے
نسبت ہے آفتاب کو کیا روئے یار سے
کرو ہو بوسے کا وعدہ تم آج اشاروں سے
مرے حال سے وہ بت آگاہ کیا ہے
نہ پوچھو کہ قائم کا کیا حال ہے
ہے وہ تجھ میں واسطے جس کے تو اس خواری میں ہے
ہم نے توخبر اس لب شیریں کی نہ پائی
تو اپنی سی دل کی خونہ سمجھے
گر فخر ہے مجھ سے ہے و گر عارہے مجھ سے
حال دل صبح و شام کیا کہیے
ااج ناداں حسن پر جس تن کے تو مغرور ہے
وہ بھی کیا دن تھے کہ جی کو لاگ اس کے سات تھی
کس طرح سے ماہ نو انجم کے عقدے وا کرے
شب وروز دل کو اپنے ہے سر حکایت اس سے
گھر آچکا میں تو نہ پھرا اس کی راہ سے
افغان وآہ کشتۂ بیداد کیا کرے؟
کمال نطق میں عیسیٰ بھلا تجھی سا ہے؟
رخصت ہو تم تو ووں گئے ہم یوں چلے گئے
ہمارے سوز دل کو شمع کا شعلہ جو سنتا ہے
شب جو ہم تجھ بن دل بے تاب کو تھامے رہے
ہم سے تو ترک کوئے یار ہو سکے ، یہ نہ ہو سکے
کون سا اہل صفا آلودگی سے پاک ہے
کس دل پہ داغ نے نہ تیرے بہار کی
نہ اے بے مہر مجھ پر ایک تو ہی بر سر کیں ہے
قائم صبا سے اہل چمن نے اگر کہیں
زیادہ چشم سے ابرو تری پیارے ستم گر ہے
تو قع بعد خط تھی اس سے ہم کو کامیابی کی
ہے جو دم مفلس کے جی پر نزع سے دشوار ہے
دل کو پھا نسا ہے ہر اک عضو کی تیرے چھب نے
شادی و عیش وہ یا رنج و عنا دیتا ہے
گو کہیں یار بلایا ہے وہ اب آتا ہے
گہہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی
شہا کچھ کام کا بندا ہے یا یہ ہیچ کارا ہے
ایسی جو تمھیں نا خوشی تام مہے مجھ سے
مرا کوئی احوال کیا جانتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھا تو دایما ہے
قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
حواشی
اختلاف نسخ وتعلیقات
فرھنگ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।