سرورق
انتساب
فہرست
حرف چند
اے ہم نفسان محفل ما
رفتید ولے نہ ازدل ما
منظور ہے گزارش احوال واقعی!
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
کچھ یادیں کچھ باتیں
حمد
دعا فضول ہے بیکار ہے دعا کرنا
دعا سے شرم آتی ہے دعا میں کیا کروں تجھ سے
اے رب کریم تو ہے مولا میرا
رباعی
آتا ہی نہیں سمجھ میں یہ راز عجیب
یاد میں تیری محو ہو دل یہ دعا قبول کر
بقا ملی ہے رہ طیبہ میں فنا ہوکر
نعت
پیش حضور کیا ہے ضرورت سوال کی
برملا جلوہ ٔ جانا نہ ہے
سجدوں میں تجھے کیا سر شوریدہ مزاہے
جلوے رکھتے ہیں وہ اس رہ گزر کے ذرے
آقا ہو تم زمانہ تمہارا غلام ہے
پرواہ ہے کسی کی نہ ہے اندیشہ کسی کا
بندے سے ادا حق نہ ہوا تیری رضاکا
اپنے سائل کو بناتا ہے وہ منگتا تیرا
قبلہ پھر جائے جو ایما ہو ذرا بھی تیرا
ہے عجب علم وارادہ مرے داتا تیرا
لوٹ ہے تم پہ تمہاری صورت
کیا بات تری تو ہے بشیر اور نذیر
جاکے ہم طیبہ میں مہمان ہوئے جاتے ہیں
پھنسے ہیں یا نبی ہم کس بلا میں
تڑپ یہ بندا بھی قلب ناصبور کی ہو
خیال میں ہے وہی روبرو خیال نبی
آنکھیں اندھوں کو دیا کرتی ہے تنویر انکی
شکستہ دلوں کا سہارا محمد
جو تو آکر تسلی دے تو یہ درد جگر کیوں ہو
منقبت
پردۂ حسن جہاں تاب میں پنہاں نکلا!
کہتے ہیں علی کو اولیا ء مولٰنا
دنیا ہی میں جنتی ہوئے زوج بتول!
ستارہے ہیں عدولے خبر محب رسول
ہے خیال حضور آنکھوں میں
درپہ مولیٰ کے محب شان گدا ہو جائے گی
چہ موسی کا ظم ابن صادق آمد
تا ثیر کس بلا کی ہماری دعا میں ہے
نہ اٹھوں حشر تک یوں انکی چوکھٹ پر مرا سر ہو
ناز ہے دل کو بیقراری پر
غزلیات
یہاں مقراض لاچلتی ہے رخت ہستی جاں پر
طاقت سے بڑھ کے شوق تکلم کا جوش تھا
ملی مراد طلب کا جو سد باب ہوا
یہ کس کی نظر کا اشارا ہوا
YEAR1984
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Mohammad Tayyab Bakhsh
YEAR1984
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Mohammad Tayyab Bakhsh
سرورق
انتساب
فہرست
حرف چند
اے ہم نفسان محفل ما
رفتید ولے نہ ازدل ما
منظور ہے گزارش احوال واقعی!
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
کچھ یادیں کچھ باتیں
حمد
دعا فضول ہے بیکار ہے دعا کرنا
دعا سے شرم آتی ہے دعا میں کیا کروں تجھ سے
اے رب کریم تو ہے مولا میرا
رباعی
آتا ہی نہیں سمجھ میں یہ راز عجیب
یاد میں تیری محو ہو دل یہ دعا قبول کر
بقا ملی ہے رہ طیبہ میں فنا ہوکر
نعت
پیش حضور کیا ہے ضرورت سوال کی
برملا جلوہ ٔ جانا نہ ہے
سجدوں میں تجھے کیا سر شوریدہ مزاہے
جلوے رکھتے ہیں وہ اس رہ گزر کے ذرے
آقا ہو تم زمانہ تمہارا غلام ہے
پرواہ ہے کسی کی نہ ہے اندیشہ کسی کا
بندے سے ادا حق نہ ہوا تیری رضاکا
اپنے سائل کو بناتا ہے وہ منگتا تیرا
قبلہ پھر جائے جو ایما ہو ذرا بھی تیرا
ہے عجب علم وارادہ مرے داتا تیرا
لوٹ ہے تم پہ تمہاری صورت
کیا بات تری تو ہے بشیر اور نذیر
جاکے ہم طیبہ میں مہمان ہوئے جاتے ہیں
پھنسے ہیں یا نبی ہم کس بلا میں
تڑپ یہ بندا بھی قلب ناصبور کی ہو
خیال میں ہے وہی روبرو خیال نبی
آنکھیں اندھوں کو دیا کرتی ہے تنویر انکی
شکستہ دلوں کا سہارا محمد
جو تو آکر تسلی دے تو یہ درد جگر کیوں ہو
منقبت
پردۂ حسن جہاں تاب میں پنہاں نکلا!
کہتے ہیں علی کو اولیا ء مولٰنا
دنیا ہی میں جنتی ہوئے زوج بتول!
ستارہے ہیں عدولے خبر محب رسول
ہے خیال حضور آنکھوں میں
درپہ مولیٰ کے محب شان گدا ہو جائے گی
چہ موسی کا ظم ابن صادق آمد
تا ثیر کس بلا کی ہماری دعا میں ہے
نہ اٹھوں حشر تک یوں انکی چوکھٹ پر مرا سر ہو
ناز ہے دل کو بیقراری پر
غزلیات
یہاں مقراض لاچلتی ہے رخت ہستی جاں پر
طاقت سے بڑھ کے شوق تکلم کا جوش تھا
ملی مراد طلب کا جو سد باب ہوا
یہ کس کی نظر کا اشارا ہوا
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.