سرورق
دیباچہ
غزل در حمد
غزل در نعت
غزل در منقبت
پر تو ہوں ایک میں بھی رب غفور تیرا
ہمنام خدا کے ہیں یہ رتبا ہے علی کا
اسے حال معلوم ہو کیا کسی کا
شوخی کے ساتھ کچھ رہے پردہ حجاب کا
تھا شکایت کا جو ان سے حوصلہ جاتا رہا
وصف واعظ سے سنا کرتے ہیں حسن حور کا
جو وہ آئے بزم میں رات کو تو عجیب بزم کا حال تھا
تصور روز و شب خاطر میں ہے گیسوے جاناں کا
ترقی پر ہے جو بن آج کل اس ماہ تاباں کا
ہوا ہے عشق جب سے ابرو و مژگان دلبر کا
نظارہ روز و شب رہتا ہے اسکے روے انور کا
خوشا وہ روز کہ دل عشق میں خراب نہ تھا
رسوا اگر جہاں میں ہوا پھر کسی کو کیا
ستم کا نام مٹا ظلم کا نشاں نہ رہا
جب رخ سے نقاب اس گل رعنا نے اٹھایا
رونق فزاے باغ جو وہ گلبدن ہوا
نہ گلچیں ہے شفیق اپنا نہ مونس باغباں اپنا
کبھی چہرہ ہم سے چھپا لیا کبھی پردہ اس نے اٹھا دیا
تصور جب سے ابرو کا ہے کعبہ ہے مکاں اپنا
کسی سے کہہ نہیں سکتے معاملہ دل کا
وصل کا آج اس پری سے ہو کے ساماں رہ گیا
وہ جو بن پر جو آئیں لطف اٹھے زندگانی کا
ان آنکھوں نے دنیا میں کیا کیا نہ دیکھا
وہ گیسو جو مجھ کو دکھاتا رہیگا
عدم میں ساتھ نہ ہستی سے جسم زار آیا
دیوان میں لکھ کے وصف دل داغدار کا
امنگ پر آکے محو زینت کبھی جو وہ گلعذار ہو گا
ترے غم میں بدلا یہ نقشہ ہمارا
تو اے دل عبث مبتلا ہے کسی کا
وہ مزہ ملا تڑپ میں اگر اختیار ہوتا
فراق یار میں جھیلیں مصیبتیں کیا کیا
ہم ہوں گے نہ حسن رخ جانانہ رہیگا
خال عارض کسے پیارا نہ ہوا
میں جب تک مقیم در یا رتھا
یا بھول گیا وہ بت خود کام ہمارا
ہوے دام قفس میں اسیر جو ہم تو ذرا ہمیں لطف چمن نہ رہا
جلوہ گر آئینے میں پر تو ترا کیونکر ہوا
بیٹھ کر میں نہ دریا پہ اصلا اٹھا
وارد بزم کسی شب جو وہ قاتل ہوتا
کیا جانے لادے ان سے قاصد جواب کیا کیا
دکھلاؤ زلف مجھ کو سودا ہوا تو پھر کیا
قہر ہے آفت ہے یہ آنکھیں لڑانے کی ادا
صفدر ان کا خیال تھا کیا تھا
مسجد نہ میکدہ نہ خمخانہ دیکھنا
کبھی شب کو نہ آیا وہ رشک قمر کبھی جلوۂ نور سحر نہ ہوا
جلوہ جو اپنے حسن کا اس نے دکھا دیا
جو دل میں ذرا آپ کے گھر نہ ہو گا
جو گل تھا باغ میں ترا آئینہ دار تھا
یار تھا مقتل تھا شمشیر ادا تھی میں نہ تھا
انداز نرالا ہے تری جلوے گری کا
کس سے کس سے میں جابجا نہ ملا
کیا کہوں حال ہے جو کچھ دل کا
صانع نے اس کو آپ ستمگر بنا دیا
سفر میں آکر کبھی ان آنکھوں نے روے اہل وطن نہ دیکھا
کیا ہم سے پھر گئی نگہ یار دیکھنا
اب رہا کون آشنا میرا
روے تاباں جس نے دیکھا صرف حیرانی ہوا
جب تک اپنے دل کو شغل آہ آتش ناک تھا
ہر پری پیکر کا میں عالم میں دیوانہ ہوا
گریۂ میناے مے یا خندۂ پیمانہ تھا
غم عاشقی کار گر ہو چکا
کم ہو گی درد عشق کی شدت فغاں سے کیا
بیان کرتے ہو تم جو صفدر کہ شب اسے بے نقاب دیکھا
دل صد چاک اپنا جب کسی گیسو کا شانہ تھا
دیکھیے انجام کیا ہو بلبل ناشاد کا
راتوں کو مری سن کر فریاد بہت رویا
غنچوں میں ہے چرچا تری ناز کبدنی کا
پھر آج سامنا ہے کسی ماہ عید کا
میں گھر سے چلکے بزم دلدار تک نہ پہونچا
دنیا میں کچھ سواے رنج و محن نہ دیکھا
دیکھنے کا ترے ارمان نکلنے نہ دیا
بجا ہے تڑپے طائر دل کہ شوق غربت میں ہے وطن کا
جو گم ہوگا اسی پروہ دہن اک دن عیاں ہوگا
کس کام کا ہے وہ دل جس میں ملال آیا
بگڑے جو بار بار ہو اس سے نباہ کیا
ترا قد قیامت سے بڑھ کر بنایا
بیخطا تو نے جو تن سے کاٹ کر سر رکھ دیا
باغ میں جاکر مجھے وہ گلبدن یاد آگیا
وہ پہلو سے جس دم روانہ ہوا
جو حسین دیکھا کہیں میں اس کا دیوانہ رہا
سیر چمن کو آئیگا وہ گلعذار کب
پس فنا ہمیں گردوں ستائیگا پھر کیا
کوئی عالم میں نہیں ہے اس ستمگر کا جواب
دل میں ہیں رنج و حسرت دار ماں عجب عجب
فرقت میں ہیں یہ عیش کے ساماں تمام شب
حکم آنے کا جو اس کوچے میں پائے عندلیب
آئینہ دیکھتے نہیں جادو کے در سے آپ
ردیف باے فارسی
وہاں شانہ اور زلف معنبر تمام رات
ردیف تارے قرشت
یہ شب بزم جاناں میں تھی دل کی صورت
ہر چند جسم زار ہوا خاک کوے دوست
دکھلائے اس نے دست حنائی تمام رات
جنت سے بڑھ کے تھی مری محفل تمام رات
ذرا ٹھہرو نہ ہو یاروں سے تم اے جان من رخصت
کچھ تو تڑپ کے اے دل اندوہگیں الٹ
آنکھیں چرائے ہم سے ہے وہ دلربا عبث
ردیف ثاے مثلثہ
نظر آتا ہے پژمردہ گل رخسار کیا باعث
صد شکر بے حجاب ہوا مجھ سے یار آج
مائل جو رہیں یہ بت جان ندے دلا عبث
ابر آیا گھر کے ساقی پھر سوے میخانہ آج
مشہور زمانہ ہے تیری جلوہ گری آج
بعد مدت کے ملاقات ہوئی یار سے آج
حال پر میرے تڑپتا ہے وہ بسمل کی طرح
مثل رقیب اس سے صفائی ہو کس طرح
الجھتے ہیں گیسو ادھر بے طرح
اس طرح روے یار ہے پیکر شراب سرخ
کیا تماشا تھا ہمیں اس ستم ایجاد کا رخ
ردیف خاے معجمہ
دام الفت میں کوئی دل نہ پھنسا مرے بعد
ردیف دال مہملہ
نہ پوچھ درد اسیری کی داستان صیاد
کب بھولتی ہے چشم بت دلشکن کی یاد
نہ بیخبر ہو اسیروں سے اس قدر صیاد
ردیف ذال معجمہ
نہ ملا پر نہ ملا درد جگر کا تعویذ
ردیف راے مہملہ
سوز دل سے وہ لکھوں جانب دلبر کاغذ
خداے عالم رہ رضا میں وہ دل وہ ہمت مجھے عطا کر
بعد فنا ہیں داغ محبت بہار پر
حسینان جہاں مرتے ہیں کیا کیا اسکے جو بن پر
ہوے دیوانے اہل بزم کیا کیا اسکے جو بن پر
رکھ دیا سر کو تیغ قاتل پر
پس گیا دل انکی آرایش کا ساماں دیکھ کر
روز ہنستا ہے برنگ گل مری فریاد پر
نظر پڑ جاے سعدی کی جو اسکے روے تاباں پر
ہنستے ہیں اکثر مری بیتابی دل دیکھ کر
ہجر میں نیند آئے کیا اے ماہ پیکر رات بھر
آنکھ کس چہرے کو آئی دیکھ کر
عدم کو کیوں نہ میں ہستی سے جاؤں سرخرو ہو کر
قاتل رکا جو حسرت بسمل کو دیکھ کر
یہ شیشہ یہ سبو ہے یہ پیمانہ چند روز
ردیف راے ثقیلہ
ردیف زاے معجمہ
چل عندلیب دام میں صحن چمن کو چھوڑ
کیونکر اٹھا سکے کوئی اس دلربا کے ناز
یہ تمنا ہے تڑپے مثل بسمل چند روز
ردیف سین مہملہ
کب تھے یہ کسی آئینہ رخسار کے انداز
پہونچوں کہیں میں اس بت غنچہ دہن کے پاس
یارب ہے وصل یار پری زاد کی ہوس
داغ وحشت میرے ہوتے ہیں نمایاں ہر برس
ردیف شین معجمہ
یار کو ہے شراب کی خواہش
ہوئی اک خلق تم کو دیکھ کر غش
کسطرح کہوں وصل کی تدبیر ہے ناقص
ردیف صاد مہملہ
کرتا ہے کام سارے جہاں کا تمام رقص
مکیں گوشۂ عزلت ہوں کیا جہاں سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
تم دوپٹے میں چھپاتے ہو جو ایجان عارض
یہ کہکے پھیر دیتا ہے قاصد کو یار خط
ردیف طاے مہملہ
کیونکر بڑھاؤں اس بت نامہر بان سے ربط
سرورق
دیباچہ
غزل در حمد
غزل در نعت
غزل در منقبت
پر تو ہوں ایک میں بھی رب غفور تیرا
ہمنام خدا کے ہیں یہ رتبا ہے علی کا
اسے حال معلوم ہو کیا کسی کا
شوخی کے ساتھ کچھ رہے پردہ حجاب کا
تھا شکایت کا جو ان سے حوصلہ جاتا رہا
وصف واعظ سے سنا کرتے ہیں حسن حور کا
جو وہ آئے بزم میں رات کو تو عجیب بزم کا حال تھا
تصور روز و شب خاطر میں ہے گیسوے جاناں کا
ترقی پر ہے جو بن آج کل اس ماہ تاباں کا
ہوا ہے عشق جب سے ابرو و مژگان دلبر کا
نظارہ روز و شب رہتا ہے اسکے روے انور کا
خوشا وہ روز کہ دل عشق میں خراب نہ تھا
رسوا اگر جہاں میں ہوا پھر کسی کو کیا
ستم کا نام مٹا ظلم کا نشاں نہ رہا
جب رخ سے نقاب اس گل رعنا نے اٹھایا
رونق فزاے باغ جو وہ گلبدن ہوا
نہ گلچیں ہے شفیق اپنا نہ مونس باغباں اپنا
کبھی چہرہ ہم سے چھپا لیا کبھی پردہ اس نے اٹھا دیا
تصور جب سے ابرو کا ہے کعبہ ہے مکاں اپنا
کسی سے کہہ نہیں سکتے معاملہ دل کا
وصل کا آج اس پری سے ہو کے ساماں رہ گیا
وہ جو بن پر جو آئیں لطف اٹھے زندگانی کا
ان آنکھوں نے دنیا میں کیا کیا نہ دیکھا
وہ گیسو جو مجھ کو دکھاتا رہیگا
عدم میں ساتھ نہ ہستی سے جسم زار آیا
دیوان میں لکھ کے وصف دل داغدار کا
امنگ پر آکے محو زینت کبھی جو وہ گلعذار ہو گا
ترے غم میں بدلا یہ نقشہ ہمارا
تو اے دل عبث مبتلا ہے کسی کا
وہ مزہ ملا تڑپ میں اگر اختیار ہوتا
فراق یار میں جھیلیں مصیبتیں کیا کیا
ہم ہوں گے نہ حسن رخ جانانہ رہیگا
خال عارض کسے پیارا نہ ہوا
میں جب تک مقیم در یا رتھا
یا بھول گیا وہ بت خود کام ہمارا
ہوے دام قفس میں اسیر جو ہم تو ذرا ہمیں لطف چمن نہ رہا
جلوہ گر آئینے میں پر تو ترا کیونکر ہوا
بیٹھ کر میں نہ دریا پہ اصلا اٹھا
وارد بزم کسی شب جو وہ قاتل ہوتا
کیا جانے لادے ان سے قاصد جواب کیا کیا
دکھلاؤ زلف مجھ کو سودا ہوا تو پھر کیا
قہر ہے آفت ہے یہ آنکھیں لڑانے کی ادا
صفدر ان کا خیال تھا کیا تھا
مسجد نہ میکدہ نہ خمخانہ دیکھنا
کبھی شب کو نہ آیا وہ رشک قمر کبھی جلوۂ نور سحر نہ ہوا
جلوہ جو اپنے حسن کا اس نے دکھا دیا
جو دل میں ذرا آپ کے گھر نہ ہو گا
جو گل تھا باغ میں ترا آئینہ دار تھا
یار تھا مقتل تھا شمشیر ادا تھی میں نہ تھا
انداز نرالا ہے تری جلوے گری کا
کس سے کس سے میں جابجا نہ ملا
کیا کہوں حال ہے جو کچھ دل کا
صانع نے اس کو آپ ستمگر بنا دیا
سفر میں آکر کبھی ان آنکھوں نے روے اہل وطن نہ دیکھا
کیا ہم سے پھر گئی نگہ یار دیکھنا
اب رہا کون آشنا میرا
روے تاباں جس نے دیکھا صرف حیرانی ہوا
جب تک اپنے دل کو شغل آہ آتش ناک تھا
ہر پری پیکر کا میں عالم میں دیوانہ ہوا
گریۂ میناے مے یا خندۂ پیمانہ تھا
غم عاشقی کار گر ہو چکا
کم ہو گی درد عشق کی شدت فغاں سے کیا
بیان کرتے ہو تم جو صفدر کہ شب اسے بے نقاب دیکھا
دل صد چاک اپنا جب کسی گیسو کا شانہ تھا
دیکھیے انجام کیا ہو بلبل ناشاد کا
راتوں کو مری سن کر فریاد بہت رویا
غنچوں میں ہے چرچا تری ناز کبدنی کا
پھر آج سامنا ہے کسی ماہ عید کا
میں گھر سے چلکے بزم دلدار تک نہ پہونچا
دنیا میں کچھ سواے رنج و محن نہ دیکھا
دیکھنے کا ترے ارمان نکلنے نہ دیا
بجا ہے تڑپے طائر دل کہ شوق غربت میں ہے وطن کا
جو گم ہوگا اسی پروہ دہن اک دن عیاں ہوگا
کس کام کا ہے وہ دل جس میں ملال آیا
بگڑے جو بار بار ہو اس سے نباہ کیا
ترا قد قیامت سے بڑھ کر بنایا
بیخطا تو نے جو تن سے کاٹ کر سر رکھ دیا
باغ میں جاکر مجھے وہ گلبدن یاد آگیا
وہ پہلو سے جس دم روانہ ہوا
جو حسین دیکھا کہیں میں اس کا دیوانہ رہا
سیر چمن کو آئیگا وہ گلعذار کب
پس فنا ہمیں گردوں ستائیگا پھر کیا
کوئی عالم میں نہیں ہے اس ستمگر کا جواب
دل میں ہیں رنج و حسرت دار ماں عجب عجب
فرقت میں ہیں یہ عیش کے ساماں تمام شب
حکم آنے کا جو اس کوچے میں پائے عندلیب
آئینہ دیکھتے نہیں جادو کے در سے آپ
ردیف باے فارسی
وہاں شانہ اور زلف معنبر تمام رات
ردیف تارے قرشت
یہ شب بزم جاناں میں تھی دل کی صورت
ہر چند جسم زار ہوا خاک کوے دوست
دکھلائے اس نے دست حنائی تمام رات
جنت سے بڑھ کے تھی مری محفل تمام رات
ذرا ٹھہرو نہ ہو یاروں سے تم اے جان من رخصت
کچھ تو تڑپ کے اے دل اندوہگیں الٹ
آنکھیں چرائے ہم سے ہے وہ دلربا عبث
ردیف ثاے مثلثہ
نظر آتا ہے پژمردہ گل رخسار کیا باعث
صد شکر بے حجاب ہوا مجھ سے یار آج
مائل جو رہیں یہ بت جان ندے دلا عبث
ابر آیا گھر کے ساقی پھر سوے میخانہ آج
مشہور زمانہ ہے تیری جلوہ گری آج
بعد مدت کے ملاقات ہوئی یار سے آج
حال پر میرے تڑپتا ہے وہ بسمل کی طرح
مثل رقیب اس سے صفائی ہو کس طرح
الجھتے ہیں گیسو ادھر بے طرح
اس طرح روے یار ہے پیکر شراب سرخ
کیا تماشا تھا ہمیں اس ستم ایجاد کا رخ
ردیف خاے معجمہ
دام الفت میں کوئی دل نہ پھنسا مرے بعد
ردیف دال مہملہ
نہ پوچھ درد اسیری کی داستان صیاد
کب بھولتی ہے چشم بت دلشکن کی یاد
نہ بیخبر ہو اسیروں سے اس قدر صیاد
ردیف ذال معجمہ
نہ ملا پر نہ ملا درد جگر کا تعویذ
ردیف راے مہملہ
سوز دل سے وہ لکھوں جانب دلبر کاغذ
خداے عالم رہ رضا میں وہ دل وہ ہمت مجھے عطا کر
بعد فنا ہیں داغ محبت بہار پر
حسینان جہاں مرتے ہیں کیا کیا اسکے جو بن پر
ہوے دیوانے اہل بزم کیا کیا اسکے جو بن پر
رکھ دیا سر کو تیغ قاتل پر
پس گیا دل انکی آرایش کا ساماں دیکھ کر
روز ہنستا ہے برنگ گل مری فریاد پر
نظر پڑ جاے سعدی کی جو اسکے روے تاباں پر
ہنستے ہیں اکثر مری بیتابی دل دیکھ کر
ہجر میں نیند آئے کیا اے ماہ پیکر رات بھر
آنکھ کس چہرے کو آئی دیکھ کر
عدم کو کیوں نہ میں ہستی سے جاؤں سرخرو ہو کر
قاتل رکا جو حسرت بسمل کو دیکھ کر
یہ شیشہ یہ سبو ہے یہ پیمانہ چند روز
ردیف راے ثقیلہ
ردیف زاے معجمہ
چل عندلیب دام میں صحن چمن کو چھوڑ
کیونکر اٹھا سکے کوئی اس دلربا کے ناز
یہ تمنا ہے تڑپے مثل بسمل چند روز
ردیف سین مہملہ
کب تھے یہ کسی آئینہ رخسار کے انداز
پہونچوں کہیں میں اس بت غنچہ دہن کے پاس
یارب ہے وصل یار پری زاد کی ہوس
داغ وحشت میرے ہوتے ہیں نمایاں ہر برس
ردیف شین معجمہ
یار کو ہے شراب کی خواہش
ہوئی اک خلق تم کو دیکھ کر غش
کسطرح کہوں وصل کی تدبیر ہے ناقص
ردیف صاد مہملہ
کرتا ہے کام سارے جہاں کا تمام رقص
مکیں گوشۂ عزلت ہوں کیا جہاں سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
تم دوپٹے میں چھپاتے ہو جو ایجان عارض
یہ کہکے پھیر دیتا ہے قاصد کو یار خط
ردیف طاے مہملہ
کیونکر بڑھاؤں اس بت نامہر بان سے ربط
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.