سر ورق
فہرست
پیش لفظ
عرضِ مصنف
غزلیات
رخ تہِ زلف سیہ فام کہاں تک دیکھوں
محبت کا ہوگا اثر رفتہ رفتہ
اے شعبدہ گر تجھ کو دیکھا بھی تو یوں دیکھا
سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو
پھر سی زندگی سے ڈرتا ہوں
نعمت ترکِ طلب تر تمنا مانگے
برا ہو گیا یا بھلا ہو گیا
مقید ہو مرے غم خانۂ دل میں خدا رکھے
نشیمن میں بتیں گے دن یا قفس میں
مرے پہلو سے اٹھے غیر کے پہلو میں جا بیٹھے
واحد پرست، عشق بداماں بنا دیا
کوئی یہ زاہد سے جا کے کہہ دے کہ رسم الٹی شباب کی ہے
مرغِ دل ہے کہ کسی حال میں آزاد نہیں
مرنے والے مر گیے پر نام ہے
بتوں کے عشق میں بھی شانِ سلطانی نہیں جاتی
کیوں کسی کا گلا کرے کوئی
ان کا فرمان ہوگئی ہے اب
مستقل اضطراب ہونا تھا
یہ قفس ہے وہ ہے آشیانہ
ہے التجا یہ آپ سے نہ گیسوؤں کو کھولئے
میں نے یہ کب کہا کہ تو مجھ کو فقط خوشی ہی دے
حسن کو مطلقا نہیں ہے ثبات
ذرا ذرا سی آن میں وہ جانِ جاں بدل گیا
الفت کا انجام برا ہے
یہ کس لئے مرے دامن کے تار بکھرے ہیں
جام دیتے ہوئے تونے جو چرالی آنکھیں
میرے ناکردہ گناہوں کے مری ہستی پر
رگ رگ کے قریں ہم نے تم ساتو نہیں دیکھا
تقدیر کے لکھے سے سوا بن گئے ہیں ہم
مجھے نہ رہ کی خبر ہے نہ راہبر کی ولے
ہم راہِ محبت کے مسافر تھے چلے آئے
دیدارِ یار سے بھی سوا ہے خیالِ یار
تیر نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
محبت و عزم بدل جرأتِ کردار بدل
جوش ابرِ بہار کیا کہنا
اے یقیں ہے جو رحمت کی بے پنا ہی پر
لبوں پر میری جاں ہے اور میں ہوں
ادائیں، کنائے ، نگاہیں، اشارے
آئے ہیں وہ سربالیں جو قضا سے پہلے
کس سمت لے چلا ہے دیکھیں اب آب ودانہ
بالیں پہ میری ذکر مسیحا نہ کیجئے
شاید کہ کسی بھولنے والے نے کیا یاد
محفل میں تری راندۂ اغیار ہمیں تھے
اشک الم ہے سوزشِ پنہاں لئے ہوئے
کیا ہمیں اس سے وفاوہ کہ جفا کرتے ہیں
کچھ مداوا نہ کوئی چارا ہے
کھلے جو گل تو کہاں آئے گا قرار مجھے
اے خوشا وقتے کہ شوخِ طرح دار آہی گیا
دل و جگر جل چکے ہیں کب کے مگر زباں مائل فغاں ہے
الم میں جوشِ حسرت پر جوانی ہے جہاں میں ہوں
قفس سے سوئے آشیاں دیکھتا ہوں
تسلسل شبِ ہجراں نہ پوچھئے ہم سے
بجلی کی زد سے دور نہ بادِ خزاں سے دور
خوشی یاد آئی کہ غم یاد آئے
مفت تکلیف اٹھائی سفرِ دور کیا
گناہگار نہ ہو سائل گناہ تو ہے
خزاں میں بھی بہار جادواں معلوم ہوتی ہے
صبر کا اجر بھی اے جذبۂ کامل دیکھا
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ہم نے اس محبت میں کیا کہیں کہ کیا پایا
واقف نہیں ہیں شاید آدابِ گلستاں سے
بتوں کی یاد میں یادِ خدا معلوم ہوتی ہے
یہ مانا وہ مسیحائی یہ اپنی ناز کرتے ہیں
دعا کسی کی کرے یا نہ مستجاب کرے
یوں تو ان آنکھوں نے دیکھا ہے بہت کچھ لیکن
ہم کریں عشق سے انکار یہ کیابات ہوئی
دیں و دنیا کو بہ یک جنبش ہی ٹھکرانے لگا
عشق و الفت کے طور کچھ بھی نہیں
خود نما سجدوں کے قائل ہم نہیں
حسرتوں کی کیوں عبث دِل میں فراوانی کریں
ہیں اختیار سے باہر یہ کاکل و رخسار
سحر بے ثباتی کو ہم کم نہ سمجھے
اس میں امید اگر نہیں آتی
مرے سر پر اجل منڈلا گئی کیا تم نہ آؤ گے
ہوئے ہیں اس قدر مانوسِ غم جب غم نہیں ہوتا
تیکھے چتون، نین کٹاریں ابرو ہیں شمشیر
رنج آشنابھی ہے راحت آشنا بھی ہے
کھلے گل چمن پر نکھار آگیا
اٹھا صراحی، یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
اللہ نہ دکھائے پھر اس افتاد کا عالم
بشر کی زد میں جنوں بھی ہے آگہی بھی ہے
ایسی باتیں ہوں تو توقیرِ چمن کیا ہوگی
نہ راہی، نہ رہبر، نہ منزل، نہ جادہ
اے مجھے بھلانے والے مرے دل کی کچھ خبر بھی
مقامِ امتحاں ہے اب فنا ہونے کا وقت آیا
دِل میرے لئے ہے نہ جگر میرے لئے ہے
جو تنگ آجائیں تو دِل کا محن کہنا ہی پڑتا ہے
عشق رسوا ہو کسی طور بھی منظور نہیں
پرشکن ہے ابھی تک ان کی جبیں تھوڑی سی
آلام دیئے لاکھوں دیوانہ بنا ڈالا
زباں پر حالِ دِل لانے سے بھی مجبور رہتے ہیں
مائل لطف و کرم ہیں اشکِ مژگاں دیکھ کر
بشر کو عشق سے جب آگہی نہیں ہوتی
ترے یہ پندو نصائح بجا، مگر ناصح
رازِ دل جب لبِ گفتار تک آ پہنچا ہے
میں دامنِ اشکِ مہرومہ سے چراغِ ہستی بجھا رہا ہوں
غم کے ماروں کو اک آسرا مل گیا
یہ باعثِ فنا سہی، یہ ضامنِ بقا بھی ہے
جہاں ہیں سبھی فرشتے جہاں آدمی نہیں ہے
یہ عشق بہی خواہِ دل و جاں تو نہیں ہے
دل وجگر سے جو ٹپکے تو بات ہے ورنہ
دل میں آب لب پر آہ چشم ہے کہ گریاں ہے
کہیں ہیں کبر و رعونت کہیں ہیں عجز و نیاز
جانِ صدا ایذا طلب دی صاحبِ دل کر دیا
ہوش والوں سے یہ کہہ دو کہ میں مے نوش نہیں
مصحفِ رخ پہ وہ زلفوں کا پریشاں ہونا
نہ قابو میں کبھی بھی آ سکا اپنے یہ من برسوں
مرنے کی تمنا میں منظور ہے جینا بھی
مجھے کیا دبر سے نسبت مجھے کعبے سے کیا مطلب
جہاں فرد اپنی جگہ انجمن ہے
نہ ہجر میں اب وہ کرب باقی نہ یورش غم میں اب وہ دم خم
الم دیکھا نہیں جاتا خوشی دیکھی نہیں جاتی
گلستاں ہے نہ آشیاں اپنا
کون آیا ہے سوئے صحن گلستاں ہوکر
جدائی کی ہم نے بسر رات کرلی
رشک صد عرشِ بریں تھی مجھے معلوم نہ تھا
رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے
زندگی کو تباہ کرنا ہے
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
مانگی تھی وفائیں نے تو حقدار سمجھ کر
جبر آئے کہ اختیار آئے
ان اشکوں کو پانی کہنا بھول نہیں نادانی ہے
جوابِ گردش ایام لانا
یہ دنیا کے حسیں ہم جانتے ہیں
محبت کی افتاد ہے اور میں ہوں
واعظ کو تہجد میں رخِ حور کی سوجھی
آنکھوں سے یوں آنسو دھلکے
تصورات کا عالم سجا کے دیکھ تو لوں
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
نیکی کی امید ہو کس سے نیکی کر سکتا ہے کون
نہ دشمن نے نہ اس کی دشمنی نے
نہ عقبیٰ کا، نہ دنیا کا، نہ دیں کا
متاعِ سوزِ محبت کسی کو کیا معلوم
خرد رسوا، خجل دانشِ ، نظر بے آبرو کرلے
تری دسترس سے نکلیں تجھے کب ہوا گوارا
ہوماہ جبینوں سے ملنے میں نہ کوتاہی
ربابِ دِل پہ ترانہ سنا رہا ہے کوئی
مانوس ہو چکے ہیں جنوں سے ہم اس قدر
شوخی، شباب حسن، تبسم حیا کے ساتھ
آفت میں، غم میں، رنج میں، مشکل میں آگئے
ہم سے تجدید دوستی نہ کرو
مرے سامنے سے ہوکر مرے پاس سے نکل کر
جو یہ سوچیں کرم کیا ہے ستم کیا
غمِ دل سلامت رہے یا الٰہی
لبوں پر تبسم تو آنکھوں میں پانی ہے
نہ تھا ممکن محبت مستقل آزار ہو جائے
انہیں کیا علم جو ہم کو یہاں سمجھانے آئے ہیں
کس لئے تیری طرح یہ بھی تنی ہوئی ہے
غالب
اک دل بے قرار ہے اے دوست
یہ بجا کہ گردشِ وقت ہے، ابھی تیز گردشِ جا م سے
نامہ برآتے رہے جاتے رہے
خد کرے کہ وہ ساعت قریں قریں آئے
عشق کی آساں ہوئیں دشواریاں
کوچہ یار سے جب بادِ صبا آتی ہے
کرنے والے حجاب کرتے ہیں
آنے ہی نہ پائے تھی لیکن ہوتے ہیں وہ رخصت کیا کہیئے
وہ جب کبھی ملے بھی تو منہ پھیر کے ملے
انجم و مہر و ماہ سے گزرے
آنکھوں آنکھوں میں جب پیام آیا
صبحدم جب کوئے جاناں سے ہوا آنے لگی
وفا کے درس پر مامور ہیں ہم
علاجِ رنج و غم کرتے رہیں گے
زخم دل زخم جگر خود ہی سیئے ہیں یارب
زبان شاعری میں واقعات کہتے آئے ہیں
بیتاب نگاہوں میں ہیں سینکڑوں افسانے
ترے رخ کی زلفوں نے لی ہیں بلائیں
جگر کو تھام کے قابو میں دل کو لا نہ سکے
کیا حاجت بادہ خواری کی کیا مطلب ہے مے خانے سے
گھٹا ہے، ابر ہے، مے ہے، سبو ہے، جام ہے ساقی
دل لیا ہے تو بے وفا نہ بنو
عشق غم کا علاج ہے پیارے
جگر کا درد جگر میں رہے تو اچھا ہے
کوئی در سے کوئی دیوار سے آگے نہ گئے
اتنا نہیں کافی کہ عداوت نہیں ہوتی
چلے آئیے گا چلے جائیے گا
مجھ کو سو بار جہنم میں جلایا ہوتا
یہ اور بات کہ وہ مجھ پہ مہرباں تو نہیں
غم دل میں ہے ایسا کہ چھپایا نہیں جاتا
رواج جام و سبو سے بچا بچا کے پلا
روئے انور نقاب کی باتیں
تیری خاموشی پہ ویسے بھی تو ہم کو ناز ہے
دردِ فرقت کے سوا سوزِش پنہاں کے سوا
رقص کرتی ہے فضا وجد میں جام آیا ہے
تری نظروں سے ٹھکرایا گیا ہوں
اشک غم سے شکوہ بیداد کر لیتا ہوں میں
ان کو کہنے دو قضا کو جو قضا کہتے ہیں
عدو محفل سے ٹل جائے تو اچھا
واعظو میر ی بھی سن لو وعظ فرمانے کے بعد
لعل و گہر کے ہیں نہ یہ شمس و قمر کے ہیں
میرے نالوں میں نہاں سوز بھی ہے ساز بھی ہے
مستِ جوشِ شباب ہیں ہم لوگ
جستجو ان کی درِ غری پہ لے آئی ہے
پھول بھرے ہیں دامن دامن
حسن کا بنے کچھ اور کام عشق کا کام اور ہے
پھول کھلے کھل کر مرجھائے
ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی
امید افزا نگاہِ واپسیں ہے
سوزِ جگر سے دیدۂ تر تک
طبیعت ہجر میں یہ کہہ کے اب بہلائی جاتی ہے
آج ان کو نقاب میں دیکھا
ہو جستجو جسے ہر سر کی سنگِ در کے لئے
پھر ہم سے بگڑ لینا پھر ہم سے خفا ہونا
زنجیر نے کی جنبش وحشت نے لی انگڑائی
کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا
زندگی سوز بنے ساز نہ ہونے پائے
اک غم کی کہانی ہے کہتے بھی تو کیا کہتے
ہم پہ واعظ وعظ مت فرمائیے
غم بہر طور نمایاں ہو ضروری تو نہیں
فکر عقبیٰ بھی نہیں ہے غم دنیا بھی نہیں
نکہت زلف کہ گلشن کی ہوا ہو جیسے
فرقت یار میں اب غم کا وہ عالم ہے کہ بس
نہ ناؤ ہے نہ کنارا دکھائی دیتا ہے
محبت ابروئے خمدار بھی ہے
چلے سموم یا اب بادِ نو بہار چلے
شکوۂ دور جام ہے ساقی
آنکھ میں پانی دل میں آگ
پھر آج قصد بیاباں ہے دیکھئے کیا ہو
بدلے میں جفاؤں کے وفا کیوں نہیں دیتے
اس بات سے واقف ستم ایجاد نہیں ہے
اپنا ہو بیگانہ بھی
ساز دل پر نغمہ سوز الم گانا بھی ہے
کہیں بادِ صبا ہو کر کہیں سرور داں ہوکر
وہ تو خود جانے گا خود بھگتے گا جس کا کام ہے
حسن والوں کا احترام کرو
آئے ہیں سمجھانے لوگ
عشق میں فریاد؟ کیوں کیسی کہی
جوانی میں اگر تو بہ بھی کر لیں
مختصر سی ہے عشق کی تفسیر
دفعتاً دل اس بت کافر پہ شیدا ہو گیا
حسن پھر محوِ خود نمائی ہے
ہے غرض ہم کو فقط دل کے بہل جانے سے
دو روزہ عمر میں حاصل سکون دل نہیں ہوتا
نہ بے نیازِ مسرت نہ غم سے بیگانہ
وہ پسند ہے اہل ریا کو دنیا میں
اس سے زیادہ آزادی کا فیض بھلا کیا ہو سکتا ہے
نظمیات
گورو نانک
نزول پیغمبر
ہندو پاکستان کے نمائندوں سے خطاب
عقیدت کے پھول
حسنِ عقیدت
خیر مقدم: نمائندگانِ ایشیائی کانفرنس
تہنیت بخدمت دختر ہند اندراگاندھی
پاکستان سے خطاب
بیوی
شادی کی تقریب سعید
فرقہ پرستی
آہ! سروجنی نائیڈو
مرثیہ بروفات خلد آشیانی ڈاکٹر ذاکر حسین
مرثیہ مولانا آزاد
ماتم شاستری
محبوب الٰہی نظام الدین
سالگر پنڈت جواہر لال نہرو
ہلال عید
آزادی کی سلور جوبلی
قحط زدگانِ راجستھان
سری نگر
انتظار
مرثیہ پنڈت نہرو
لالہ لاجپت رائے
پنجاب ڈے پر
حکم سنگھ
صدر ہند ڈاکٹر ذاکر حسین سے خطاب
اقبال
حسین
امام حسین
نائب صدر جمہوریہ ہند سے
آزادی
حضرت علی
کلیم اللہ ولی
متفرقات
دہلی
ان شوخ حسینوں کی نرالی ہے ادا بھی
بجلی کی زد سے دور نہ بادِ خزاں سے دور
لبوں پر مہر آنکھوں میں زباں رکھ
نت نت کا یہ آنا جانا میرے بس کی بات نہیں
بے کسوں کا کیا نہیں ہوتا
آرہے ہیں ہم کو سمجھانے بہت
اک وقت محبت میں آتا ہے کہ جب آخر
ماہ و انجم کو دیکھنے والوں
دل میں بستا ہے وہی آنکھ میں مستور بھی ہے
ایک نطر ہم پر بھی کرلے
کچھ نور خدا دل میں کچھ جلوہ جانا نہ
سر ورق
فہرست
پیش لفظ
عرضِ مصنف
غزلیات
رخ تہِ زلف سیہ فام کہاں تک دیکھوں
محبت کا ہوگا اثر رفتہ رفتہ
اے شعبدہ گر تجھ کو دیکھا بھی تو یوں دیکھا
سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو
پھر سی زندگی سے ڈرتا ہوں
نعمت ترکِ طلب تر تمنا مانگے
برا ہو گیا یا بھلا ہو گیا
مقید ہو مرے غم خانۂ دل میں خدا رکھے
نشیمن میں بتیں گے دن یا قفس میں
مرے پہلو سے اٹھے غیر کے پہلو میں جا بیٹھے
واحد پرست، عشق بداماں بنا دیا
کوئی یہ زاہد سے جا کے کہہ دے کہ رسم الٹی شباب کی ہے
مرغِ دل ہے کہ کسی حال میں آزاد نہیں
مرنے والے مر گیے پر نام ہے
بتوں کے عشق میں بھی شانِ سلطانی نہیں جاتی
کیوں کسی کا گلا کرے کوئی
ان کا فرمان ہوگئی ہے اب
مستقل اضطراب ہونا تھا
یہ قفس ہے وہ ہے آشیانہ
ہے التجا یہ آپ سے نہ گیسوؤں کو کھولئے
میں نے یہ کب کہا کہ تو مجھ کو فقط خوشی ہی دے
حسن کو مطلقا نہیں ہے ثبات
ذرا ذرا سی آن میں وہ جانِ جاں بدل گیا
الفت کا انجام برا ہے
یہ کس لئے مرے دامن کے تار بکھرے ہیں
جام دیتے ہوئے تونے جو چرالی آنکھیں
میرے ناکردہ گناہوں کے مری ہستی پر
رگ رگ کے قریں ہم نے تم ساتو نہیں دیکھا
تقدیر کے لکھے سے سوا بن گئے ہیں ہم
مجھے نہ رہ کی خبر ہے نہ راہبر کی ولے
ہم راہِ محبت کے مسافر تھے چلے آئے
دیدارِ یار سے بھی سوا ہے خیالِ یار
تیر نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
محبت و عزم بدل جرأتِ کردار بدل
جوش ابرِ بہار کیا کہنا
اے یقیں ہے جو رحمت کی بے پنا ہی پر
لبوں پر میری جاں ہے اور میں ہوں
ادائیں، کنائے ، نگاہیں، اشارے
آئے ہیں وہ سربالیں جو قضا سے پہلے
کس سمت لے چلا ہے دیکھیں اب آب ودانہ
بالیں پہ میری ذکر مسیحا نہ کیجئے
شاید کہ کسی بھولنے والے نے کیا یاد
محفل میں تری راندۂ اغیار ہمیں تھے
اشک الم ہے سوزشِ پنہاں لئے ہوئے
کیا ہمیں اس سے وفاوہ کہ جفا کرتے ہیں
کچھ مداوا نہ کوئی چارا ہے
کھلے جو گل تو کہاں آئے گا قرار مجھے
اے خوشا وقتے کہ شوخِ طرح دار آہی گیا
دل و جگر جل چکے ہیں کب کے مگر زباں مائل فغاں ہے
الم میں جوشِ حسرت پر جوانی ہے جہاں میں ہوں
قفس سے سوئے آشیاں دیکھتا ہوں
تسلسل شبِ ہجراں نہ پوچھئے ہم سے
بجلی کی زد سے دور نہ بادِ خزاں سے دور
خوشی یاد آئی کہ غم یاد آئے
مفت تکلیف اٹھائی سفرِ دور کیا
گناہگار نہ ہو سائل گناہ تو ہے
خزاں میں بھی بہار جادواں معلوم ہوتی ہے
صبر کا اجر بھی اے جذبۂ کامل دیکھا
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ہم نے اس محبت میں کیا کہیں کہ کیا پایا
واقف نہیں ہیں شاید آدابِ گلستاں سے
بتوں کی یاد میں یادِ خدا معلوم ہوتی ہے
یہ مانا وہ مسیحائی یہ اپنی ناز کرتے ہیں
دعا کسی کی کرے یا نہ مستجاب کرے
یوں تو ان آنکھوں نے دیکھا ہے بہت کچھ لیکن
ہم کریں عشق سے انکار یہ کیابات ہوئی
دیں و دنیا کو بہ یک جنبش ہی ٹھکرانے لگا
عشق و الفت کے طور کچھ بھی نہیں
خود نما سجدوں کے قائل ہم نہیں
حسرتوں کی کیوں عبث دِل میں فراوانی کریں
ہیں اختیار سے باہر یہ کاکل و رخسار
سحر بے ثباتی کو ہم کم نہ سمجھے
اس میں امید اگر نہیں آتی
مرے سر پر اجل منڈلا گئی کیا تم نہ آؤ گے
ہوئے ہیں اس قدر مانوسِ غم جب غم نہیں ہوتا
تیکھے چتون، نین کٹاریں ابرو ہیں شمشیر
رنج آشنابھی ہے راحت آشنا بھی ہے
کھلے گل چمن پر نکھار آگیا
اٹھا صراحی، یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
اللہ نہ دکھائے پھر اس افتاد کا عالم
بشر کی زد میں جنوں بھی ہے آگہی بھی ہے
ایسی باتیں ہوں تو توقیرِ چمن کیا ہوگی
نہ راہی، نہ رہبر، نہ منزل، نہ جادہ
اے مجھے بھلانے والے مرے دل کی کچھ خبر بھی
مقامِ امتحاں ہے اب فنا ہونے کا وقت آیا
دِل میرے لئے ہے نہ جگر میرے لئے ہے
جو تنگ آجائیں تو دِل کا محن کہنا ہی پڑتا ہے
عشق رسوا ہو کسی طور بھی منظور نہیں
پرشکن ہے ابھی تک ان کی جبیں تھوڑی سی
آلام دیئے لاکھوں دیوانہ بنا ڈالا
زباں پر حالِ دِل لانے سے بھی مجبور رہتے ہیں
مائل لطف و کرم ہیں اشکِ مژگاں دیکھ کر
بشر کو عشق سے جب آگہی نہیں ہوتی
ترے یہ پندو نصائح بجا، مگر ناصح
رازِ دل جب لبِ گفتار تک آ پہنچا ہے
میں دامنِ اشکِ مہرومہ سے چراغِ ہستی بجھا رہا ہوں
غم کے ماروں کو اک آسرا مل گیا
یہ باعثِ فنا سہی، یہ ضامنِ بقا بھی ہے
جہاں ہیں سبھی فرشتے جہاں آدمی نہیں ہے
یہ عشق بہی خواہِ دل و جاں تو نہیں ہے
دل وجگر سے جو ٹپکے تو بات ہے ورنہ
دل میں آب لب پر آہ چشم ہے کہ گریاں ہے
کہیں ہیں کبر و رعونت کہیں ہیں عجز و نیاز
جانِ صدا ایذا طلب دی صاحبِ دل کر دیا
ہوش والوں سے یہ کہہ دو کہ میں مے نوش نہیں
مصحفِ رخ پہ وہ زلفوں کا پریشاں ہونا
نہ قابو میں کبھی بھی آ سکا اپنے یہ من برسوں
مرنے کی تمنا میں منظور ہے جینا بھی
مجھے کیا دبر سے نسبت مجھے کعبے سے کیا مطلب
جہاں فرد اپنی جگہ انجمن ہے
نہ ہجر میں اب وہ کرب باقی نہ یورش غم میں اب وہ دم خم
الم دیکھا نہیں جاتا خوشی دیکھی نہیں جاتی
گلستاں ہے نہ آشیاں اپنا
کون آیا ہے سوئے صحن گلستاں ہوکر
جدائی کی ہم نے بسر رات کرلی
رشک صد عرشِ بریں تھی مجھے معلوم نہ تھا
رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے
زندگی کو تباہ کرنا ہے
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
مانگی تھی وفائیں نے تو حقدار سمجھ کر
جبر آئے کہ اختیار آئے
ان اشکوں کو پانی کہنا بھول نہیں نادانی ہے
جوابِ گردش ایام لانا
یہ دنیا کے حسیں ہم جانتے ہیں
محبت کی افتاد ہے اور میں ہوں
واعظ کو تہجد میں رخِ حور کی سوجھی
آنکھوں سے یوں آنسو دھلکے
تصورات کا عالم سجا کے دیکھ تو لوں
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
نیکی کی امید ہو کس سے نیکی کر سکتا ہے کون
نہ دشمن نے نہ اس کی دشمنی نے
نہ عقبیٰ کا، نہ دنیا کا، نہ دیں کا
متاعِ سوزِ محبت کسی کو کیا معلوم
خرد رسوا، خجل دانشِ ، نظر بے آبرو کرلے
تری دسترس سے نکلیں تجھے کب ہوا گوارا
ہوماہ جبینوں سے ملنے میں نہ کوتاہی
ربابِ دِل پہ ترانہ سنا رہا ہے کوئی
مانوس ہو چکے ہیں جنوں سے ہم اس قدر
شوخی، شباب حسن، تبسم حیا کے ساتھ
آفت میں، غم میں، رنج میں، مشکل میں آگئے
ہم سے تجدید دوستی نہ کرو
مرے سامنے سے ہوکر مرے پاس سے نکل کر
جو یہ سوچیں کرم کیا ہے ستم کیا
غمِ دل سلامت رہے یا الٰہی
لبوں پر تبسم تو آنکھوں میں پانی ہے
نہ تھا ممکن محبت مستقل آزار ہو جائے
انہیں کیا علم جو ہم کو یہاں سمجھانے آئے ہیں
کس لئے تیری طرح یہ بھی تنی ہوئی ہے
غالب
اک دل بے قرار ہے اے دوست
یہ بجا کہ گردشِ وقت ہے، ابھی تیز گردشِ جا م سے
نامہ برآتے رہے جاتے رہے
خد کرے کہ وہ ساعت قریں قریں آئے
عشق کی آساں ہوئیں دشواریاں
کوچہ یار سے جب بادِ صبا آتی ہے
کرنے والے حجاب کرتے ہیں
آنے ہی نہ پائے تھی لیکن ہوتے ہیں وہ رخصت کیا کہیئے
وہ جب کبھی ملے بھی تو منہ پھیر کے ملے
انجم و مہر و ماہ سے گزرے
آنکھوں آنکھوں میں جب پیام آیا
صبحدم جب کوئے جاناں سے ہوا آنے لگی
وفا کے درس پر مامور ہیں ہم
علاجِ رنج و غم کرتے رہیں گے
زخم دل زخم جگر خود ہی سیئے ہیں یارب
زبان شاعری میں واقعات کہتے آئے ہیں
بیتاب نگاہوں میں ہیں سینکڑوں افسانے
ترے رخ کی زلفوں نے لی ہیں بلائیں
جگر کو تھام کے قابو میں دل کو لا نہ سکے
کیا حاجت بادہ خواری کی کیا مطلب ہے مے خانے سے
گھٹا ہے، ابر ہے، مے ہے، سبو ہے، جام ہے ساقی
دل لیا ہے تو بے وفا نہ بنو
عشق غم کا علاج ہے پیارے
جگر کا درد جگر میں رہے تو اچھا ہے
کوئی در سے کوئی دیوار سے آگے نہ گئے
اتنا نہیں کافی کہ عداوت نہیں ہوتی
چلے آئیے گا چلے جائیے گا
مجھ کو سو بار جہنم میں جلایا ہوتا
یہ اور بات کہ وہ مجھ پہ مہرباں تو نہیں
غم دل میں ہے ایسا کہ چھپایا نہیں جاتا
رواج جام و سبو سے بچا بچا کے پلا
روئے انور نقاب کی باتیں
تیری خاموشی پہ ویسے بھی تو ہم کو ناز ہے
دردِ فرقت کے سوا سوزِش پنہاں کے سوا
رقص کرتی ہے فضا وجد میں جام آیا ہے
تری نظروں سے ٹھکرایا گیا ہوں
اشک غم سے شکوہ بیداد کر لیتا ہوں میں
ان کو کہنے دو قضا کو جو قضا کہتے ہیں
عدو محفل سے ٹل جائے تو اچھا
واعظو میر ی بھی سن لو وعظ فرمانے کے بعد
لعل و گہر کے ہیں نہ یہ شمس و قمر کے ہیں
میرے نالوں میں نہاں سوز بھی ہے ساز بھی ہے
مستِ جوشِ شباب ہیں ہم لوگ
جستجو ان کی درِ غری پہ لے آئی ہے
پھول بھرے ہیں دامن دامن
حسن کا بنے کچھ اور کام عشق کا کام اور ہے
پھول کھلے کھل کر مرجھائے
ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی
امید افزا نگاہِ واپسیں ہے
سوزِ جگر سے دیدۂ تر تک
طبیعت ہجر میں یہ کہہ کے اب بہلائی جاتی ہے
آج ان کو نقاب میں دیکھا
ہو جستجو جسے ہر سر کی سنگِ در کے لئے
پھر ہم سے بگڑ لینا پھر ہم سے خفا ہونا
زنجیر نے کی جنبش وحشت نے لی انگڑائی
کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا
زندگی سوز بنے ساز نہ ہونے پائے
اک غم کی کہانی ہے کہتے بھی تو کیا کہتے
ہم پہ واعظ وعظ مت فرمائیے
غم بہر طور نمایاں ہو ضروری تو نہیں
فکر عقبیٰ بھی نہیں ہے غم دنیا بھی نہیں
نکہت زلف کہ گلشن کی ہوا ہو جیسے
فرقت یار میں اب غم کا وہ عالم ہے کہ بس
نہ ناؤ ہے نہ کنارا دکھائی دیتا ہے
محبت ابروئے خمدار بھی ہے
چلے سموم یا اب بادِ نو بہار چلے
شکوۂ دور جام ہے ساقی
آنکھ میں پانی دل میں آگ
پھر آج قصد بیاباں ہے دیکھئے کیا ہو
بدلے میں جفاؤں کے وفا کیوں نہیں دیتے
اس بات سے واقف ستم ایجاد نہیں ہے
اپنا ہو بیگانہ بھی
ساز دل پر نغمہ سوز الم گانا بھی ہے
کہیں بادِ صبا ہو کر کہیں سرور داں ہوکر
وہ تو خود جانے گا خود بھگتے گا جس کا کام ہے
حسن والوں کا احترام کرو
آئے ہیں سمجھانے لوگ
عشق میں فریاد؟ کیوں کیسی کہی
جوانی میں اگر تو بہ بھی کر لیں
مختصر سی ہے عشق کی تفسیر
دفعتاً دل اس بت کافر پہ شیدا ہو گیا
حسن پھر محوِ خود نمائی ہے
ہے غرض ہم کو فقط دل کے بہل جانے سے
دو روزہ عمر میں حاصل سکون دل نہیں ہوتا
نہ بے نیازِ مسرت نہ غم سے بیگانہ
وہ پسند ہے اہل ریا کو دنیا میں
اس سے زیادہ آزادی کا فیض بھلا کیا ہو سکتا ہے
نظمیات
گورو نانک
نزول پیغمبر
ہندو پاکستان کے نمائندوں سے خطاب
عقیدت کے پھول
حسنِ عقیدت
خیر مقدم: نمائندگانِ ایشیائی کانفرنس
تہنیت بخدمت دختر ہند اندراگاندھی
پاکستان سے خطاب
بیوی
شادی کی تقریب سعید
فرقہ پرستی
آہ! سروجنی نائیڈو
مرثیہ بروفات خلد آشیانی ڈاکٹر ذاکر حسین
مرثیہ مولانا آزاد
ماتم شاستری
محبوب الٰہی نظام الدین
سالگر پنڈت جواہر لال نہرو
ہلال عید
آزادی کی سلور جوبلی
قحط زدگانِ راجستھان
سری نگر
انتظار
مرثیہ پنڈت نہرو
لالہ لاجپت رائے
پنجاب ڈے پر
حکم سنگھ
صدر ہند ڈاکٹر ذاکر حسین سے خطاب
اقبال
حسین
امام حسین
نائب صدر جمہوریہ ہند سے
آزادی
حضرت علی
کلیم اللہ ولی
متفرقات
دہلی
ان شوخ حسینوں کی نرالی ہے ادا بھی
بجلی کی زد سے دور نہ بادِ خزاں سے دور
لبوں پر مہر آنکھوں میں زباں رکھ
نت نت کا یہ آنا جانا میرے بس کی بات نہیں
بے کسوں کا کیا نہیں ہوتا
آرہے ہیں ہم کو سمجھانے بہت
اک وقت محبت میں آتا ہے کہ جب آخر
ماہ و انجم کو دیکھنے والوں
دل میں بستا ہے وہی آنکھ میں مستور بھی ہے
ایک نطر ہم پر بھی کرلے
کچھ نور خدا دل میں کچھ جلوہ جانا نہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.