سرورق
باب الالف
نقش مضمر ہے لامیں الاّ کا
جلوے کا ہمیں شوق اسے شوق ہے رم کا
جنوں جوش تماشا ہے تحیر شوق رم میرا
دل تسلیم شیوہ کیوں نہ ہو مشہور استغنا
نوا پرداز رنگ راز کا میں نقش بند آیا
وہ ہے آسایش جاں وہ نہیں قاتل میرا
بادہ باقی نہ یہاں در دتہ جام رہا
کیا کہوں اے دلستاں تم سے جدا کیونکر ہوا
ہم سے جو عہد تھا وہ عہد شکن بھول گیا
وہ سرمست ادا پھر آج سر گرم فسون آیا
تو کام کو آیا ہے یہاں کام کئے جا
نہ تیرا شوق ورم اچھا نہ یہ لاؤ نعم اچھا
جذبۂ شوق سے جس دم میں فغاں ساز ہوا
دیکھکر گلزار وہ گل پیرہن یاد آگیا
جو بشر صورت آشنا نہ ہوا
نخل مراد باغ تمنا ہرا ہوا
وہ خلوت سے جس دم عیا ہوگیا
زباں پر راز الفت کا کبھی لایا نہیں جاتا
ترے فراق میں دل کو قرار آنہ سکا
وہ فروغ دیدہ و دل ماہ کامل ملگیا
جب دلیل راہ ہم کو شوق کامل ملگیا
قلقل مینائے مے کا شور میخانے میں تھا
ہموک مسرور طرب ساغر صہبانے کیا
حصریص ہو نہ جہاں میں نہ اپنا جیا بھٹکا
راز دل ان کو کسی طرح سنایا نہ گیا
ہوا ہے ہمر دیف ناز شوخ دلربا میرا
ہمارا شاہد نسرین غذار آجاتا
ہو کے بیخود بھی ترا عشق سراپا نہ گیا
کہا تھا ہم نے کیا اے شوخ بے پروایہ کیا سمجھا
کبھی تو چاہنے والوں کی بھی خبر لینا
اگر جذب رسا ہوتا تو وہ دلدار آجاتا
رنگ عالم ہے جدا عالم سرار جدا
نثار حسن ہوا عاشقوں میں نام رہا
وصال یار جو مقصود خاص وعام رہا
جو ہے قتیل عشق وہ بیدل نہیں رہا
مجو تجلّی رخ قاتل نہیں رہا
اثر سے جذب دل کے شوخ بے پروا نکل آیا
وہ جب خلوت سے شوخ انجمن آرا نکل آیا
ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہواو تیرا
گیا سب رنج وغم کنج قفس کا
عشق مبنع ہے ہفت قلزم کا
اسے کھیل رنگ جفا ہوگیا
جلوۂ حسن ترا مدّ نظر ہم نے کیا
گلشن میں ہے تماشہ نسرین ونسترن کا
جلوہ نیرنگ تیرا شاہد رعنا نکلا
اب مہر بان وہ شوخ دلا رام ہو گیا
جس کو صورت کا آشنا دیکھا
اس قمر طلعت کا جوشب کو نظارا ہوگیا
وہ رشک مہ جبنیاں ہے میہمان ہمارا
آْج جلوہ ےہوا نہ اس گل کا
کر سیر اپنے دل کی ہے نور کا تماشا
حسن کا جلوہ ہوا ہے دبدبہ تعظیم کا
دل شہد تمنا فراق یار میں تھا
امتحان عشق و ہ رعنا جوان لینے لگا
بنا عشق آفریں کثرت میں جلوہ رنگ وحدت کا
ارادہ ہوگیا اس شوخ سے اپنا ارادت کا
خلوت خاص ہے کیونکر ہو گذر عامی کا
بچانہ تار بھی سارے مکاں کو لوٹ لیا
عشوہ انگیز ہوا شاہد رعنا میرا
سوچتے جاتے یہی ہیں ہم کہیں دلبر سے کیا
کیا کام بنے تجھ سے خود کام مرے دل کا
ستمگر شوخ بے پروا کبھی سمجھا نہ سمجھے گا
ہجر میں وصل صنم خواب پریشاں دیکھا
جاں نثاری کا تجھے رنگ دکھایا جاتا
سہید جس کے ہیں وہ دلربا نہیں ملتا
بیٹھے بٹھائے تجھکو جو وہ یاد آگیا
دامن صحرا بنا گہر خانما برباد کا
وصال یار تھا شب کو خیال وخواب نہ تھا
دل سر مست ہے مسرورجام باطن مینا
سر ور جام وحدت رنگ جذب ہوشیار اپنا
خدایا آج تو آجائے وہ پیماں گسل میرا
یہ التماس ہے اس شوخ دلستاں سے مرا
کرم فرما نہیں ہوتا وہ شوخ لالہ رو میرا
سمجھاتے دلبر میں ہارا کوئی نہ اتنا سمجھا تا
اگر تاثیر قلبی سے ہمارا یار بنجاتا
توجہ کب ہوئی تیری کہے کیا چاہنے والا
غضب کے طیش میں وہ شوخ دیدہ آیا تھا
وہ رم شعار میرا شوخ دیدہ آیاتھا
اس کم وکیف کے اسرار جو انساں سمجھا
ہستی نیست نما دیدۂ چیراں سمجھا
لطف نظر کرشمۂ حسن نگارتھا
اٹھ جاے پردہ رخ سے تصویر ماؤ من کا
نیرنگ جلوہ رنگ ہے غیب و حضور کا
جلوہ دیکھا ہے یہ کس خورشید پر تنویر کا
داغ غم فراق مٹایا نجائے گا
بزم اغیار میں جورات کو قاتل بھی رہا
دیکھ کر عارض گلگوں کو چمن یاد آیا
اگر اتنا نہ تو عیّار ہوتا
حسرت وامید کا ماتم رہا
جانگسل ہجر میں کس طرح سنبھل جاؤں گا
طالب عشق ہے کیا سالک عریاں نہ ہوا
وہ گل رعنا نہیں سنتا فغان عندلیب
دل زندہ خود رہنما ہو گیا
کیوں ن ہو تفریح دل محبوب رعنا کا جواب
تجھ سے گلہ نہیں مجھے اے یار دلفریب
غیر کی محفل میں جانا ہے نہیں اے یار خوب
کس رنگ میں بیان کریں ماجرائے قلب
دیکھی ہے ہم نے جب سے وہ چشم سیاہ قلب
تو ہی انیس غم رہا نالۂ غمگسار شب
رنگ رعنائی بنا ان کا تفا ضاے شباب
مصیبتوں میں بسر ہو گیا زمان شباب
شام سے منتظر شوق تھے تا آخرشب
مجھ سے کہتے ہو کیا کہیں گے آپ
ردیف پ
ہم کو شہید کرتے ہیں تیغ نظر سے آپ
ردیف ت
جذبہ میں سلوک اور نفی میں ہے جو اثبات
شیدا ہے ترا طالب دیدار محبت
سب شخص کا ہے عکس جو ہے جلوۂ صفات
یاد آگئی جو شبکو مجھے اس صنم کی بات
وعدہ اس مہ رونے آنیکا کیا تھا چاندرات
کوئی تفور جاہ کوئی ہے چشم پرست
کبھی پیش نظر مینا ہے گاہے جام کی صورت
جب سے دیکھی ہے کسی ہوش ربا کی صورت
دیکھتا ہے وہ نہیں ہم دیکھتے ہیں رولے دوست
شب فراق میں کیونکر کٹی ہماری رات
عدوئے خیرہ سراب ہوگیا بڑا خرّانٹ
ردیف (ٹ)
کیف میں ہے نرگس مستانہ آج
ردیف جیم (ج)
بیرخ ہوا وہ آئینہ پیکر بری طرح
کہا جو شیخ نے ہے رنگ عشق رسم قبیح
ردیف حائے حطی(ح)
بلاے ہجر سے اپنی ہے انتشار میں روح
ردیف خائے معجمہ(خ)
آْجائے میرا آئینہ پیکر کسی طرح
ناظر جلوہ ہوں میں آئینہ سیما ہے وہ رخ
گلچیں قلم نہ کر تو نہال چمن کی شاخ
ناز وانداز کا غمرہ نہ رہا میرے بعد
ردیف دال(د)
لگا جو کرنے ترے حسن کا نظارا چاند
جانتے افسردہ دل ہیں انتشار اہل درد
نثار جلوۂ وحدت ہوا سعید شہید
بے تعلق رہ الم ہو گا بچھڑ جانے کے بعد
طلوع خوب ہوا جلوۂ صفات میں چاند
نہیں صفاے بطوں ہے میرا حجاب میں چاند
ہندو سبھا جہاں کو دکھائے کمال ہند
کیا ہے جلوۂ دیدار سے ہمیں خوشنود
آتا وہ نہیں دلبر سنگ آمدوسخت آمد
مہر تاباں ہوا سوز جگر قلب شہید
چلدیا سوئے عدم سینہ میں پیکاں چھوڑ کر
ردیف رائے مہملہ (ر)
تلاش جس نور کی ہے تجھ کو چھپا ہے تیرے بدن کے اندر
کچھ ترحم بانی بیداد کر
شوق ہم کو بھی ہوا ہے ہوں مقیم کوئے یار
ہوگئی ہم کو تجلی بھی حجاب روئے یار
عرش آہنگ ہوئے سروعلن میں رہ کر
شعلہ انگیز ہوا عشق بدن میں رہ کر
ستا تاکیوں ہے تیرا سوز غم داغ جگر بنکر
بہار باغ رعنائی بنا وہ نو بہار آخر
آگ جو دلمیں لگی ہے وہ بھجھائیں کیونکر
چشم بددور ہوا اور ہی عالم گل پر
ہو جائے رسا کوئی اگر نالہ اثر دار
یہ آنکھیں ملی ہیں فقیروں سے ملکر
آشفتہ کیا یار نے صورت کو دکھا کر
رہتا ہے کشیدہ ہی وہ دلدار دل آزار
حسن بہار دیکھا نسرین ونسترن پر
ختم ہوتے ہی نہیں لیل ونہار انتظار
ادھر کو رخ نہیں کرتا ہے کیوں وہ عشوہ طراز
پلا دے پیر مغاں ساغر حمنار انگیز
ردیف زائے معجمہ (ز)
وہ باغ میں ہے جلوہ نما انجمن ناز
دوست دشمن میں نہیں اے شوخ رنگ امتیاز
جانشاروں سے تمہیں ہے رنجش بیجا ہنوز
آستان پیر مغاں کا ہے جہاں میں ممتاز
کیا ہے قسمت نا ساز نے اسیر قفس
ردیف سین (س)
عشوہ انگیز ہے وہ آج فسوں پیکر ناز
کہتا ہے نہیں کون ومکان پر طاؤس
کر دیدۂ باطن سے سراغ پر طاؤس
عشاق ہوئے محرم راز سپر طاؤس
جو فرد ہوئے واقف حال پر طاؤس
کیوں نہوں اب خرم وخندان اسیران قفس
آنکھوں میں ہے وہ نقش و نگار پر طاؤس
دکھایا جلوۂ دیدار آج بنکے عروس
وہ باغ باغ ہوا دیکھکر گل نورس
تم نے دیکھا ہے نہیں ہے وہ نظام مخصوص
ردیف صاد
فروغ رنگ بطوں کیوں نہ ہو نوائے سروش
ردیف شین(ش)
عشوہ پیکر یار کا آیا ہے خط
بعد رنج بیشمار آیا ہے خط
ردیف طائے مہملہ (ط)
حسن فروغ عشق دل خستہ تن کا داغ
کیا ذو فنوں ہے شعبدہ گر سحر فن کا داغ
ردیف غین معجمہ (غ)
کرم نمائے تملق نہیں ہے یار شفیق
ردیف قاف (ق)
پھر جذب جنوں رم میں ہیں زنجیر کے مشتاق
اے خوشا طالع ہوئے جو حاکسار اہل عشق
بنیوا ہیں محزن اسرار ہے یہ کہنہ دلق
ہمارا شیفتہ دل بنگیا ہے مظہر شوق
اس شوخ رم شعار سے کہنا سلا م شوق
مشتاق جلوہ شاد ہوئے اے جنوں شوق
نہیں ہے سوز دروں کشف ہو تجھے کیا خاک
ردیف کاف (ک)
کیوں وہ کشیدہ ہوگیا سردروان سبز رنگ
ردیف گاف (گ)
رخ روشن کی دیکھ لی ہے جھلک
بے وفا بے مہر تو ہے آشنا کہتے ہیں لوگ
پھونکے دیتی ہے ہمیں اس دل بیتاب کی آگ
جہاں میں رہ کے بھی رہنے لگے جہاں سے الگ
خلوص دل سے دل شب میں بس دعا یہ مانگ
مظہر فیض ہوا مطلع انوار کا رنگ
فریب عشوہ سے مجھ سادہ دل کو یار نہ ٹھک
ردیف لام (ل)
جو اہل درد ہیں وہ حق کے ہوگئے مقبول
کسی کے ہجرنے ہم کو کیا ہے زار وملول
سلوک کا جو ہوا ہے دلیل راہ وکیل
اثر کبھی تو کرے گا ہمارا صبر جمیل
وہ سنتا ہی نہیں گلفام رعنا نالۂ بلبل
گلشن میں کل سنی تھی گل نے صفیر بلبل
گل کو مشتاق کسی طرح بنالے بلبل
باغ میں شوق سے گلردنے ہیں پالے بلبل
میرا نازک ادا تھا دلربا بادل
بیخودی میں شوق ہو جائے نہ رم سے متصل
خواب غفلت سے ہے جاگا طالع بیدار دل
ہیں رخ وزلف سے عیاں شام فراق وصبح وصل
یاد آتا ہے تیرا منہ کا چھپانا شب وصل
یہ کیوں صیاد بے پروانے توڑا شہپر بلبل
ہے عشوہ ساز شوخ فسو نکار آجکل
تبسم لب نوشیں جواب خندۂ گل
شوخ گلچہرہ کبھی عاشق دلگیر سے مل
سنی ہے کیف میں ہم نے صداے خندۂ دل
کہاں ہے وہ گل خنداں ہمیں نہیں معلوم
واہمہ خلاق ہے پرفن ہے عشق نا تمام
ردیف میم(م)
یہ مے کشی کا نہیں وقت شوق بے ہنگام
دیکھتے روز ہیں اس مطلع انوار کو ہم
وہ خیال نفس نہیں رہا کہ زبوں تھے خار وخسک میں ہم
جاکے سمجھائیں یہ ہے مدّ نظر یار کو ہم
براہ رابطہ جاتا ہے یہ فشون حرم
دیکھے ہیں ہم نے کیف میں انوار کیف جام
ہر طرف تیرے ہی قربان نظر آتے ہیں
اہل باطن کو یہ حیوان نظ آتے ہیں
اب وہ بگڑا ہوا امزاج نہیں
ردیف نون (ن)
محو غفلت ہے محو ذات نہیں
غضب کی کوفت ہے دلکو یہ کیسے آئے دن
اب وہ اگلا سا ارتباط نہیں
آج وہ سرو گلعذار نہیں
جہاں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
اگر مطلوب اس کے طالب دیدار ہوجائیں
وہ پاس ہے تیرے دور نہیں تو واصل ہے مہجور نہیں
تو کہاں سے آیا ہے کون ہے تجھے اپنی کچھ بھی خبر نہیں
ازبسکہ سوز دل ہیں آہ وفغان ہیں
ہم بھی ہیں طالب دیدار ترے کوچے میں
تیرا جلوہ دیکھکر تیرے طلبگاروں میں ہوں
کیا یہ بے پیر دل میں دیکھتے ہیں
اشک آ آکے میری آنکھوں میں تھم جاتے ہیں
کیوں آگئے ہیں بزم ظہور ونمود میں
تیرنگ روئے یار کے اپنی نظر میں ہیں
تنویر کیا ہو نور مہ وآفتاب میں
تو فروغ جاں ہے اپنا دلربا کیونکر کہیں
جنوں انگیز حیرت ہوگئے صحرائے مشرب میں
قد بالا کو تیرے سرورواں کہتے ہیں
تیرے عشاق جاناں طالب وصل معرا ہیں
ایک نیرنگ دکھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
دم نکل جاے کسی کی یاد میں
ستاتے ہیں اسی کو وہ جسے جلوہ دکھاتے ہیں
ہمیں جلوۂ حسن کا عشق ہوا یہ وہ جلوہ ہے شوق میں رم ہی نہیں
وہ حجاب دوئی کا اب نرہاتواور نہیں میں اور نہیں
تڑپتا ہے پھڑکتا ہے دل بیمار سینہ میں
وہ ادائیں آفت دل دشمن جاں ہوگئیں
دم دیجئے نہ دمبدم اب دم میں دم نہیں
سنائیں آپ کو کیا دل پہ جو صدمے گذرتے ہیں
ستمگر جو یہ ناز والے ہوئے ہیں
من و تو کا جھگڑا مٹائے ہوئے ہیں
جو تیرا عاشق جمال نہیں
شوق آزماہے مطلع انوار کیا کریں
بات کا آپ کو خیال نہیں
دریا کہوں کہ شاہسوار ہوا کہوں
وہ مسیحا جو ہوا بخیبر سوختگاں
رہا نہ انس وہ اب سیر بوستاں سے ہمیں
تمہیں بیگانۂ الفت وفا دشمن سمجھتے ہیں
تڑپتا ہی رہا اپنا دل مہحور سینے میں
گلشن میں شادماں تھے دلگیر ہیں قفس میں
آتا نہیں یہاں دل ناشاد کیا کروں
ان کو ہے عذر وفا ترک جفا کیا کریں
جو راز دل ہے وہ کیا شوخ بیوفا سے کہیں
دل جلانیکو یہاں عشوہ طراز آتے ہیں
کیوں کیا خستہ ملال ہمیں
پردۂ شرم اٹھا ماہ لقا دیکھ تو لوں
جلوہ فرما تجھے اے جلوہ نما دیکھ تو لوں
یار اس کا ہوں جو بے مہر میرا یار نہیں
مضطرب خیال ہوں حیرت انتظار میں
کہیں ملے وہ میرا شوخ ماہر وتو کہوں
گزر رہی ہے جو دلپر وہ تم سنو تو کہوں
بنا شوق شہادت حرص قاتل ذوق کشتن میں
جنوں شیدا ہوئے وحشت کا پہر سامان کرتے ہیں
تیرے جلوے ہی کی ہیں طالب دیدار آنکھیں
شوق میں منتشر ذوق نظر جاتے ہیں
کیوں منحرف ہوئے ہو جانانہ انجمن میں
دشمن ذوق وفا دل شکنی خوب نہیں
بسا ہے جلوۂ حسن نگار آنکھوں میں
جنوں مشرب ہیں نیرنگ تماشادلمیں کہتے ہیں
تیرے عشوؤں نے دئے ہیں ہمیں جھٹکے لاکھوں
یہ کیا جلوہ ہوا اے مہر عالمیگر بانوں میں
ستمگر عشوہ انگیزوں نے پھر خنجر نکالے ہیں
جو ہیں مشتاق صہبا محو پیمانوں میں رہتے ہیں
وہ باغ میں آیا تھا بہار چمن حسن
ملا کر آنکھ ہم کو عشوہ گر انعام دیتے ہیں
جو مدّعا ہے میرا دلربا کہوں نہ کہوں
کچھ خبر تجھکو بھی ہے اے محو سوداے جنوں
ہم ہیں اہل جذب اسم بامسمائے جنوں
عذاب روح میرا درد انتظار نہ بن
عدو نشاط میں وہ ماہ میرے ماتم میں
ہم عشوہ گری عشوہ نما دیکھ رہے ہیں
صلح کل ہیں کسی سے جنگ نہیں
مردم دیدہ ہے وہ نور سواد آنکھوں میں
وہ آئے نگار میں نہ مانوں
تیرے کوچے سے جو آتے ہیں وہ محرم نکلتے ہیں
آج وہ آہی گیا غنچہ وہاں باتوں میں
کیفیت اگلی سی اب ہندوستاں میں کیوں نہیں
ایڈور ڈالبرٹ شاہ جم حشم دارا نشاں
پلا وہ ساقی گلرخ مئے خمار شکن
دشمن شریک آج ہوئے انجمن میں کیوں
جاں بلب ہیں شوخی رنگ ادا جاتی نہیں
رہ دل میں خیال جلوۂ روئے نکو برسوں
کشیدہ ہی نظر آتے ہیں جس دم ہم سے ملتے ہیں
دل سوختہ ہیں جس کے اسے کچھ خبر نہیں
رہے بیگانۂ دیر وحرم کی جستجو برسوں
جو اہل دل ہوئے وہ پریشاں نظر نہیں
تمھیں ہو بے نیازی یہ ہی سرکاروں کی باتیں ہیں
جس کا جیسا رنگ ہے ویسا نظر آتا ہوں میں
خود نمائی کی روش باعث تو قیر نہیں
جلوہ افزائے نظر حسن کی تنویر نہیں
تیرے شیدا جان جاناں سینکڑوں
سالک عشق ہیں منزل کا پتہ لیتے ہیں
ردیف واو (و)
لن ترانی ہی سہی شوق یہ کم کیونکر ہو
کچھ بھی خبر جہاں کی نہیں تیرے مست کو
رہے گا کچھ نہ دھڑکا حشر کا اب روز محشر کو
ہے طلوع مہر تاباں جلوۂ تنویر کو
نہیں سنتے ہیں ایک مدت سے ہم آواز بلبل کو
نہ کرتا سوختہ دل وہ سراپا ناز بلبل کو
کیا ہے شیفتہ تونے سراپا ناز بلبل کو
خود گرفتہ نہ رہا درپے آزار نہ ہو
طالبو حیف ہے یہ وقت سحر جانے دو
جس کو تمکیں ہواستقامت ہو
مردم چشم میں تم نور نظر آتے ہو
ہمیں الفت تمہیں ہو عشق الفت ہو تو ایسی ہو
ہو گیا جوش جنوں سیر چمن سے ہم کو
دکھایا تم کو شوخی سے جو لعل شکر افشاں کو
قیامت ہے وہ آتے ہیں قدوقامت دکھا نیکو
ذرا طرز ستمگاری تو دیکھو
ستاتے کیوں ہو تم اپنے دل افگار محبت کو
انتظار شوق ہے پیغام یار آنے تو دو
کہاں بہلائیں جاکر اس دل بنیات وغمگین کو
حجاب ماز جانے دو دکھا دوروئے زیبا کو
طلسم حیرت آرائی کے شایق دلستاں کیوں ہو
مسیحا کیا بنے درد دل دلگیر تو کھینچو
خبر کیا کرب ہجراں کی ہو میری سرو موزونکو
کبھی تو یاد بھی کرتا تھا اپنے دل فگاروں کو
جلوہ مشتاق ہیں نیرنگ دکھاتے نہ چلو
فتنہ ہو قیامت ہو آفت ہو بلا کیا ہو
وہ زندہ دل کہاں جو شہید نظر نہ ہو
تمہاری نرگس شہلا فسونگر ہو توکیونکر ہو
ساقی جو جام عشق ہے پیر مغان میکدہ
ردیف ہائے ہوز
رنگ بیتابی بنا اپنا قفس میں آئینہ
نکردے چاک ہستی کی قبا تعمیر میخانہ
نہ ہو مجذوب کن رنگ جنوں تاثیر میخانہ
نظر مشتاق جلوہ شوق دامنگیر میخانہ
یہ کیا آسان تھا ملنا لب دلدار کا بوسہ
زکوۃ حسن دے محبوب رعنائی سبیل اللہ
بنگیا ہے شوق پنہاں انجمن میں آئینہ
تجلی سے یہ کس خورشید کی پرنور ہے شیشہ
باف جو بگڑی تھی وہ ہم سے بنائی نہ گئی
یہی تمناے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
وہ آئیں گے یہ نوید ایک آشنا نے دی
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑاوہ تلوار کا دہنی ہے
حضور قلب سے ہے جلوہ آراباطن ساقی
وہ ہی ساقی وہ ہی دور جام ہے
وہ شوخ عشوہ گریارب ہمارا یار نجائے
ترا جلوہ دیکھ کر دلربا ترا محو محو جمال ہے
کیوں آپ ہوے بیرخ اس جلوہ تماشا سے
بہار تاز بستان میں ہوئی ہے سروسوسن کی
وعدۂ وصل نے ہجراں میں تسلی کردی
وہی ساغر کش صہبا جنوں آمادہ آتا ہے
شجر سر سبز ہوں گلشن میں فصل نو بہار آئے
اثر ہے جذب کا آخر ملا وہ شوق مائل سے
خوش شناسی خود بخود محو خود آرائی ہوئی
جلوہ شیدا ہیں نگاہ مہر بانی چاہیئے
ہمارا حسن تعلق وفا بنے نہ بنے
نہ آؤ گے یہاں دھوکا دھڑی ہے
وہ جلوہ گر ہوا چمن آرا کہیں جسے
نہ ہوں محروم جلوہ جان جاناں دیکھنے والے
ہے بیقرار جان حزیں تیرے واسطے
صاحب نظر ہے محو تماشا کہیں جسے
کیا کام بنے شائق بیداد غضب سے
نیرنگ نما عشق ہوئے تیرے سبب سے
جذب قلبی کی اوسے خودہی خبر ہو جائیگی
جلوہ مشرب ہو نظر حسن اثر ہو جائے گی
ہدف تیرا نہ ہوگا دیکھ خنجر کھینچنے والے
ان لیلیٰ تصور بنگئے تھے جذب کامل سے
حیرت خیال جلوۂ ماہ مبین رہے
اسلام شوق کہنا میرے شوح بے مروت سے
وہ گلرو پیکر حیرت تقریر بلبل سے
تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
پریشاں کر رہا ہے کیوں محبت آزمانے سے
وہ پھر جلوہ افزا ہوا چاہتا ہے
خود شناسی خدا پرستی ہے
غم کی رو داد وہ پوچھیں تو بتائے نہ بنے
میں تو شیدا ہوں تماہار تم میری قاتل بنے
مظہر عشق ہے یہ تیرا جمال اچھا ہے
خود نما شوخ ہمیں محو لقا رہنے دے
پہلے دل میرا لے لیا تم نے
شوخ عیار جفا پیشہ ستمگر نکلے
روز وشب انتظار رہتا ہے
زلف پر پیچ دکھاتے ہیں مجھے
الٰہی شکر مجھے تم کہو کہ تو کیا ہے
ٹھکا نابے ٹھکانوں کا کہاں ہے
آپ سے ملنے کو سچ ہے میری صورت کیا ہے
ہر وقت دل کو ایک نیا اضطراب ہے
دل کی پھربے سرو سامانی کے ساماں ہونگے
خبرلے جلد اپنے ناتواں کی
وہ کیا ہم کو بنایا اور بنا کر رہ گئے
کیا ہو عروج پست خیالوں کے سامنے
در بدر خوار وخجل رسوا ہوئے
رسم والفت آپنے کیوں یار جانی چھوڑدی
نگاہیں شرمگیں ہیں اور صورت بھولی پھولی ہے
تیری یہ موہنی مورت بھلی معلوم ہوتی ہے
مہر ومہ تم سے خجل ہیں کیا ہو ہمسر چاندنی
تزکیہ نفس کا تھا تلخی دشنام نہ تھی
جلوۂ دیدار تو ایک بات ہے
آج گلشن میں جو اس کا کی سواری آئی
جو بشر ہر وقت محو ذات ہے
دل سے وہ شوق سر مشق ستم کہنے لگے
مجذوب عشق سالک عالی مقام ہے
بے نیازی خود نمائی سے تجھے زینت ملی
جنون مستان صحرائی یہ سیراہل دریا ہے
منوراپنے دل میں آفتاب روئے جاناں ہے
ہے تجلی خود نمائی میں نہاں ستّار کی
یاد آئی پھر ہمیں اس شوخ گل رخسار کی
وہی رنگ ہے وہی بزم ہے وہی بادہ ہے وہی جام ہے
چمن آراے ہستی کا یہ نیرنگ تماشا ہے
کیا طرز نوآئیں ہے نیرنگی فطرت کی
پارہ پارہ دل مہجور ہوانالۂ نے
چشم حیرت سے تماشارے جہاں دیکھا کئے
طالب دیدار سوئے آستاں دیکھا کئے
مقتل میں گر وہ جاتے خنجر کو لال کرتے
ہمارے ہم نفس کاش اس بت خود سر کو سمجھاتے
دیکھ جاتا ہے کدھر دل کے جلانے والے
کہاں گیا ہے وہ عشوہ پیکر ہمیں تو کچھ بھی خبر نہیں ہے
عیاں درد نہاں با خاطر ناشاد کیا کرتے
وہ اس رنج کشاکش سے ہمیں آزاد غم کر تے
جب تک شہید قلب نہ اپنا کرے کوئی
نیاز مند کرم ہیں گدا نواز کرے
وہ سراپا نازرشک نو بہار آنے کو ہے
کہیں متروک ذوق نالہ فرسا ہم ہوتا ہے
شفا کس طرح ہو بیرخ مسیحا ہم سے ہوتا ہے
جنون عشق سمجھانے سے پیدا اور ہوتا ہے
دل افسردہ تمہارے عشوۂ پیہم سے ہوتا ہے
جب وہ مستانہ ادھر فلتنہ شعار آتا ہے
بلائے جان مشتاقان ادائے شان برنائی
فروتنی سے کشادہ رہ سلامت ہے
وہ زلف درخ یار کا سودا نہیں رکھتے
ہے بوالعجب تماشا اپنے نہ ہیں کسی ے
سر مست ہی نہیں ہیں جو کیف باطنی کے
عشوہ گر حسن ادا نیرنگئی قاتل میں ہے
وہی کرشمۂ حسن نگار دیکھیں گے
سو ہان روح بنکے جو وہ دلستاں رہے
کس طرح سر مست ہوں ساغر کشان موج مے
لا مکاں ہم کو نظر آیا مکان موج مے
بہ خوب جلوہ ہوا دلربا جلا کے چلے
ہجوم عام جو یہ ساتھ یارلے کے چلے
نیاز ہجر ہے محو جہاں کہاں سے بنے
وہ ہم سے روز ملتا تھا ہمارا عشوہ گر پہلے
مانعٔ قاتل ہوئی ہے سینہ بریانی میری
فدائے روئے زیبا حسن صورت دیکھنے والے
ادھر رخ ہی نہیں ہوتا ہے کب تقدیر پھرتی ہے
جس کو ہے ذوق نظر حسن ندا ہوتا ہے
پردۂ غیب کا خود پر دہ کشا ہوتا ہے
ہے جنوں پیکر داوحشت بعر یانی میری
دل شب میں ہوا جلوہ ہمیں گہنشام گل رو کا
برق خرمن سوز ہر دم داغ سامانی میری
تیرا ہی جلوہ دیکھا جہاں تک نظر گئی
جو عرض حال ہے وہ دلستاں سنو تو سہی
جو وہ خورشید رو ساغر بکف مست شراب آئی
بہار جلوۂ گلزار نیرنگ شیوں سمجھے
تیری برہم مزاجی دلبر بیداد فن کیوں ہے
یارب وہ کہیں ہم کو محبوب نظر آئے
ستا رہا ہے تیرا درد انتظار مجھے
کیا یہ قدرت کا کارخانہ ہے
عشق تیرا بھی کیا فسانہ ہے شیفتہ جس کا اک زمانہ ہے
سلوک جذب میں جو اہل وجدوحال ہوئے
متفرقات
کریں ہم کس زباں سے شکر اس الطاف بیحد کا
ہم تو عاشق ہیں فسودشام ہمیں دونوں ایک
ہو کہیں نج روپ کا جلوہ شری گوپال لال
تودل میں بسا میرے جسودا کے دل آرام
دل دادہ تمہارا ہوں میں اے شام دلارام
تر بھون کے ناتھ ہو تر لوک کے تم ایش ہو
اے رشی صاحب نظر اے ہادی قوم قدیم
دو مجھے شر ناگتی کا شی کے راجا وشو ناتھ
امارت مبارک نیابت مبارک
کیوں نہ ہو شمہور عالم بال گنگا دھرتلک
محبوب خاص وعام ہو طبی رفاہ عام
اس محرم میں کیا ہم نے رسا کا ماتم
وہ محبت وہ ظرافت یاد گار
چشم بینا ہے تو آدیکھ تماشائے نظر
اپنی صورت نہ جب نظر آئی
آتم جھروکہ اعنی منظر بطون
تجھے نظر نہیں آئے گا ماہتاب حرم
یکا یک چلدئے جنت کو ہمدم
باجواہر ناتھ ساقی ہم سخن بودم بسے
پیش ازیں طبع تر خوئے جفا بود نبود
دربند غم تو بستۂ چند
عقل ست چو بیکارچہ باشد چہ بنا شد
ہوش نظارہ ترا شاید دم بسمل نماند
منورشد جریم دل بنور عشق پنہا نم
یہ ہجران کے شیکبد اے ستمگر جان غمناکم
عجب دارم ازان گل آستیان سن نمید اند
سبو بردوش رقصان ست رند پیر میخانہ
ہجرت مردم وپروانکردی کاش میکردی
نگاہ تند تو بہر دلم موج شرابستی
چون ضیا الدین احمد خان نمود
اے دریغازین سرائے بے بقا
فرخا فرخ تبار آید ہمے
AUTHORپنڈت جواہر ناتھ ساقی
YEAR1926
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER پنڈت جواہر ناتھ ساقی
AUTHORپنڈت جواہر ناتھ ساقی
YEAR1926
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER پنڈت جواہر ناتھ ساقی
سرورق
باب الالف
نقش مضمر ہے لامیں الاّ کا
جلوے کا ہمیں شوق اسے شوق ہے رم کا
جنوں جوش تماشا ہے تحیر شوق رم میرا
دل تسلیم شیوہ کیوں نہ ہو مشہور استغنا
نوا پرداز رنگ راز کا میں نقش بند آیا
وہ ہے آسایش جاں وہ نہیں قاتل میرا
بادہ باقی نہ یہاں در دتہ جام رہا
کیا کہوں اے دلستاں تم سے جدا کیونکر ہوا
ہم سے جو عہد تھا وہ عہد شکن بھول گیا
وہ سرمست ادا پھر آج سر گرم فسون آیا
تو کام کو آیا ہے یہاں کام کئے جا
نہ تیرا شوق ورم اچھا نہ یہ لاؤ نعم اچھا
جذبۂ شوق سے جس دم میں فغاں ساز ہوا
دیکھکر گلزار وہ گل پیرہن یاد آگیا
جو بشر صورت آشنا نہ ہوا
نخل مراد باغ تمنا ہرا ہوا
وہ خلوت سے جس دم عیا ہوگیا
زباں پر راز الفت کا کبھی لایا نہیں جاتا
ترے فراق میں دل کو قرار آنہ سکا
وہ فروغ دیدہ و دل ماہ کامل ملگیا
جب دلیل راہ ہم کو شوق کامل ملگیا
قلقل مینائے مے کا شور میخانے میں تھا
ہموک مسرور طرب ساغر صہبانے کیا
حصریص ہو نہ جہاں میں نہ اپنا جیا بھٹکا
راز دل ان کو کسی طرح سنایا نہ گیا
ہوا ہے ہمر دیف ناز شوخ دلربا میرا
ہمارا شاہد نسرین غذار آجاتا
ہو کے بیخود بھی ترا عشق سراپا نہ گیا
کہا تھا ہم نے کیا اے شوخ بے پروایہ کیا سمجھا
کبھی تو چاہنے والوں کی بھی خبر لینا
اگر جذب رسا ہوتا تو وہ دلدار آجاتا
رنگ عالم ہے جدا عالم سرار جدا
نثار حسن ہوا عاشقوں میں نام رہا
وصال یار جو مقصود خاص وعام رہا
جو ہے قتیل عشق وہ بیدل نہیں رہا
مجو تجلّی رخ قاتل نہیں رہا
اثر سے جذب دل کے شوخ بے پروا نکل آیا
وہ جب خلوت سے شوخ انجمن آرا نکل آیا
ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہواو تیرا
گیا سب رنج وغم کنج قفس کا
عشق مبنع ہے ہفت قلزم کا
اسے کھیل رنگ جفا ہوگیا
جلوۂ حسن ترا مدّ نظر ہم نے کیا
گلشن میں ہے تماشہ نسرین ونسترن کا
جلوہ نیرنگ تیرا شاہد رعنا نکلا
اب مہر بان وہ شوخ دلا رام ہو گیا
جس کو صورت کا آشنا دیکھا
اس قمر طلعت کا جوشب کو نظارا ہوگیا
وہ رشک مہ جبنیاں ہے میہمان ہمارا
آْج جلوہ ےہوا نہ اس گل کا
کر سیر اپنے دل کی ہے نور کا تماشا
حسن کا جلوہ ہوا ہے دبدبہ تعظیم کا
دل شہد تمنا فراق یار میں تھا
امتحان عشق و ہ رعنا جوان لینے لگا
بنا عشق آفریں کثرت میں جلوہ رنگ وحدت کا
ارادہ ہوگیا اس شوخ سے اپنا ارادت کا
خلوت خاص ہے کیونکر ہو گذر عامی کا
بچانہ تار بھی سارے مکاں کو لوٹ لیا
عشوہ انگیز ہوا شاہد رعنا میرا
سوچتے جاتے یہی ہیں ہم کہیں دلبر سے کیا
کیا کام بنے تجھ سے خود کام مرے دل کا
ستمگر شوخ بے پروا کبھی سمجھا نہ سمجھے گا
ہجر میں وصل صنم خواب پریشاں دیکھا
جاں نثاری کا تجھے رنگ دکھایا جاتا
سہید جس کے ہیں وہ دلربا نہیں ملتا
بیٹھے بٹھائے تجھکو جو وہ یاد آگیا
دامن صحرا بنا گہر خانما برباد کا
وصال یار تھا شب کو خیال وخواب نہ تھا
دل سر مست ہے مسرورجام باطن مینا
سر ور جام وحدت رنگ جذب ہوشیار اپنا
خدایا آج تو آجائے وہ پیماں گسل میرا
یہ التماس ہے اس شوخ دلستاں سے مرا
کرم فرما نہیں ہوتا وہ شوخ لالہ رو میرا
سمجھاتے دلبر میں ہارا کوئی نہ اتنا سمجھا تا
اگر تاثیر قلبی سے ہمارا یار بنجاتا
توجہ کب ہوئی تیری کہے کیا چاہنے والا
غضب کے طیش میں وہ شوخ دیدہ آیا تھا
وہ رم شعار میرا شوخ دیدہ آیاتھا
اس کم وکیف کے اسرار جو انساں سمجھا
ہستی نیست نما دیدۂ چیراں سمجھا
لطف نظر کرشمۂ حسن نگارتھا
اٹھ جاے پردہ رخ سے تصویر ماؤ من کا
نیرنگ جلوہ رنگ ہے غیب و حضور کا
جلوہ دیکھا ہے یہ کس خورشید پر تنویر کا
داغ غم فراق مٹایا نجائے گا
بزم اغیار میں جورات کو قاتل بھی رہا
دیکھ کر عارض گلگوں کو چمن یاد آیا
اگر اتنا نہ تو عیّار ہوتا
حسرت وامید کا ماتم رہا
جانگسل ہجر میں کس طرح سنبھل جاؤں گا
طالب عشق ہے کیا سالک عریاں نہ ہوا
وہ گل رعنا نہیں سنتا فغان عندلیب
دل زندہ خود رہنما ہو گیا
کیوں ن ہو تفریح دل محبوب رعنا کا جواب
تجھ سے گلہ نہیں مجھے اے یار دلفریب
غیر کی محفل میں جانا ہے نہیں اے یار خوب
کس رنگ میں بیان کریں ماجرائے قلب
دیکھی ہے ہم نے جب سے وہ چشم سیاہ قلب
تو ہی انیس غم رہا نالۂ غمگسار شب
رنگ رعنائی بنا ان کا تفا ضاے شباب
مصیبتوں میں بسر ہو گیا زمان شباب
شام سے منتظر شوق تھے تا آخرشب
مجھ سے کہتے ہو کیا کہیں گے آپ
ردیف پ
ہم کو شہید کرتے ہیں تیغ نظر سے آپ
ردیف ت
جذبہ میں سلوک اور نفی میں ہے جو اثبات
شیدا ہے ترا طالب دیدار محبت
سب شخص کا ہے عکس جو ہے جلوۂ صفات
یاد آگئی جو شبکو مجھے اس صنم کی بات
وعدہ اس مہ رونے آنیکا کیا تھا چاندرات
کوئی تفور جاہ کوئی ہے چشم پرست
کبھی پیش نظر مینا ہے گاہے جام کی صورت
جب سے دیکھی ہے کسی ہوش ربا کی صورت
دیکھتا ہے وہ نہیں ہم دیکھتے ہیں رولے دوست
شب فراق میں کیونکر کٹی ہماری رات
عدوئے خیرہ سراب ہوگیا بڑا خرّانٹ
ردیف (ٹ)
کیف میں ہے نرگس مستانہ آج
ردیف جیم (ج)
بیرخ ہوا وہ آئینہ پیکر بری طرح
کہا جو شیخ نے ہے رنگ عشق رسم قبیح
ردیف حائے حطی(ح)
بلاے ہجر سے اپنی ہے انتشار میں روح
ردیف خائے معجمہ(خ)
آْجائے میرا آئینہ پیکر کسی طرح
ناظر جلوہ ہوں میں آئینہ سیما ہے وہ رخ
گلچیں قلم نہ کر تو نہال چمن کی شاخ
ناز وانداز کا غمرہ نہ رہا میرے بعد
ردیف دال(د)
لگا جو کرنے ترے حسن کا نظارا چاند
جانتے افسردہ دل ہیں انتشار اہل درد
نثار جلوۂ وحدت ہوا سعید شہید
بے تعلق رہ الم ہو گا بچھڑ جانے کے بعد
طلوع خوب ہوا جلوۂ صفات میں چاند
نہیں صفاے بطوں ہے میرا حجاب میں چاند
ہندو سبھا جہاں کو دکھائے کمال ہند
کیا ہے جلوۂ دیدار سے ہمیں خوشنود
آتا وہ نہیں دلبر سنگ آمدوسخت آمد
مہر تاباں ہوا سوز جگر قلب شہید
چلدیا سوئے عدم سینہ میں پیکاں چھوڑ کر
ردیف رائے مہملہ (ر)
تلاش جس نور کی ہے تجھ کو چھپا ہے تیرے بدن کے اندر
کچھ ترحم بانی بیداد کر
شوق ہم کو بھی ہوا ہے ہوں مقیم کوئے یار
ہوگئی ہم کو تجلی بھی حجاب روئے یار
عرش آہنگ ہوئے سروعلن میں رہ کر
شعلہ انگیز ہوا عشق بدن میں رہ کر
ستا تاکیوں ہے تیرا سوز غم داغ جگر بنکر
بہار باغ رعنائی بنا وہ نو بہار آخر
آگ جو دلمیں لگی ہے وہ بھجھائیں کیونکر
چشم بددور ہوا اور ہی عالم گل پر
ہو جائے رسا کوئی اگر نالہ اثر دار
یہ آنکھیں ملی ہیں فقیروں سے ملکر
آشفتہ کیا یار نے صورت کو دکھا کر
رہتا ہے کشیدہ ہی وہ دلدار دل آزار
حسن بہار دیکھا نسرین ونسترن پر
ختم ہوتے ہی نہیں لیل ونہار انتظار
ادھر کو رخ نہیں کرتا ہے کیوں وہ عشوہ طراز
پلا دے پیر مغاں ساغر حمنار انگیز
ردیف زائے معجمہ (ز)
وہ باغ میں ہے جلوہ نما انجمن ناز
دوست دشمن میں نہیں اے شوخ رنگ امتیاز
جانشاروں سے تمہیں ہے رنجش بیجا ہنوز
آستان پیر مغاں کا ہے جہاں میں ممتاز
کیا ہے قسمت نا ساز نے اسیر قفس
ردیف سین (س)
عشوہ انگیز ہے وہ آج فسوں پیکر ناز
کہتا ہے نہیں کون ومکان پر طاؤس
کر دیدۂ باطن سے سراغ پر طاؤس
عشاق ہوئے محرم راز سپر طاؤس
جو فرد ہوئے واقف حال پر طاؤس
کیوں نہوں اب خرم وخندان اسیران قفس
آنکھوں میں ہے وہ نقش و نگار پر طاؤس
دکھایا جلوۂ دیدار آج بنکے عروس
وہ باغ باغ ہوا دیکھکر گل نورس
تم نے دیکھا ہے نہیں ہے وہ نظام مخصوص
ردیف صاد
فروغ رنگ بطوں کیوں نہ ہو نوائے سروش
ردیف شین(ش)
عشوہ پیکر یار کا آیا ہے خط
بعد رنج بیشمار آیا ہے خط
ردیف طائے مہملہ (ط)
حسن فروغ عشق دل خستہ تن کا داغ
کیا ذو فنوں ہے شعبدہ گر سحر فن کا داغ
ردیف غین معجمہ (غ)
کرم نمائے تملق نہیں ہے یار شفیق
ردیف قاف (ق)
پھر جذب جنوں رم میں ہیں زنجیر کے مشتاق
اے خوشا طالع ہوئے جو حاکسار اہل عشق
بنیوا ہیں محزن اسرار ہے یہ کہنہ دلق
ہمارا شیفتہ دل بنگیا ہے مظہر شوق
اس شوخ رم شعار سے کہنا سلا م شوق
مشتاق جلوہ شاد ہوئے اے جنوں شوق
نہیں ہے سوز دروں کشف ہو تجھے کیا خاک
ردیف کاف (ک)
کیوں وہ کشیدہ ہوگیا سردروان سبز رنگ
ردیف گاف (گ)
رخ روشن کی دیکھ لی ہے جھلک
بے وفا بے مہر تو ہے آشنا کہتے ہیں لوگ
پھونکے دیتی ہے ہمیں اس دل بیتاب کی آگ
جہاں میں رہ کے بھی رہنے لگے جہاں سے الگ
خلوص دل سے دل شب میں بس دعا یہ مانگ
مظہر فیض ہوا مطلع انوار کا رنگ
فریب عشوہ سے مجھ سادہ دل کو یار نہ ٹھک
ردیف لام (ل)
جو اہل درد ہیں وہ حق کے ہوگئے مقبول
کسی کے ہجرنے ہم کو کیا ہے زار وملول
سلوک کا جو ہوا ہے دلیل راہ وکیل
اثر کبھی تو کرے گا ہمارا صبر جمیل
وہ سنتا ہی نہیں گلفام رعنا نالۂ بلبل
گلشن میں کل سنی تھی گل نے صفیر بلبل
گل کو مشتاق کسی طرح بنالے بلبل
باغ میں شوق سے گلردنے ہیں پالے بلبل
میرا نازک ادا تھا دلربا بادل
بیخودی میں شوق ہو جائے نہ رم سے متصل
خواب غفلت سے ہے جاگا طالع بیدار دل
ہیں رخ وزلف سے عیاں شام فراق وصبح وصل
یاد آتا ہے تیرا منہ کا چھپانا شب وصل
یہ کیوں صیاد بے پروانے توڑا شہپر بلبل
ہے عشوہ ساز شوخ فسو نکار آجکل
تبسم لب نوشیں جواب خندۂ گل
شوخ گلچہرہ کبھی عاشق دلگیر سے مل
سنی ہے کیف میں ہم نے صداے خندۂ دل
کہاں ہے وہ گل خنداں ہمیں نہیں معلوم
واہمہ خلاق ہے پرفن ہے عشق نا تمام
ردیف میم(م)
یہ مے کشی کا نہیں وقت شوق بے ہنگام
دیکھتے روز ہیں اس مطلع انوار کو ہم
وہ خیال نفس نہیں رہا کہ زبوں تھے خار وخسک میں ہم
جاکے سمجھائیں یہ ہے مدّ نظر یار کو ہم
براہ رابطہ جاتا ہے یہ فشون حرم
دیکھے ہیں ہم نے کیف میں انوار کیف جام
ہر طرف تیرے ہی قربان نظر آتے ہیں
اہل باطن کو یہ حیوان نظ آتے ہیں
اب وہ بگڑا ہوا امزاج نہیں
ردیف نون (ن)
محو غفلت ہے محو ذات نہیں
غضب کی کوفت ہے دلکو یہ کیسے آئے دن
اب وہ اگلا سا ارتباط نہیں
آج وہ سرو گلعذار نہیں
جہاں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
اگر مطلوب اس کے طالب دیدار ہوجائیں
وہ پاس ہے تیرے دور نہیں تو واصل ہے مہجور نہیں
تو کہاں سے آیا ہے کون ہے تجھے اپنی کچھ بھی خبر نہیں
ازبسکہ سوز دل ہیں آہ وفغان ہیں
ہم بھی ہیں طالب دیدار ترے کوچے میں
تیرا جلوہ دیکھکر تیرے طلبگاروں میں ہوں
کیا یہ بے پیر دل میں دیکھتے ہیں
اشک آ آکے میری آنکھوں میں تھم جاتے ہیں
کیوں آگئے ہیں بزم ظہور ونمود میں
تیرنگ روئے یار کے اپنی نظر میں ہیں
تنویر کیا ہو نور مہ وآفتاب میں
تو فروغ جاں ہے اپنا دلربا کیونکر کہیں
جنوں انگیز حیرت ہوگئے صحرائے مشرب میں
قد بالا کو تیرے سرورواں کہتے ہیں
تیرے عشاق جاناں طالب وصل معرا ہیں
ایک نیرنگ دکھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
دم نکل جاے کسی کی یاد میں
ستاتے ہیں اسی کو وہ جسے جلوہ دکھاتے ہیں
ہمیں جلوۂ حسن کا عشق ہوا یہ وہ جلوہ ہے شوق میں رم ہی نہیں
وہ حجاب دوئی کا اب نرہاتواور نہیں میں اور نہیں
تڑپتا ہے پھڑکتا ہے دل بیمار سینہ میں
وہ ادائیں آفت دل دشمن جاں ہوگئیں
دم دیجئے نہ دمبدم اب دم میں دم نہیں
سنائیں آپ کو کیا دل پہ جو صدمے گذرتے ہیں
ستمگر جو یہ ناز والے ہوئے ہیں
من و تو کا جھگڑا مٹائے ہوئے ہیں
جو تیرا عاشق جمال نہیں
شوق آزماہے مطلع انوار کیا کریں
بات کا آپ کو خیال نہیں
دریا کہوں کہ شاہسوار ہوا کہوں
وہ مسیحا جو ہوا بخیبر سوختگاں
رہا نہ انس وہ اب سیر بوستاں سے ہمیں
تمہیں بیگانۂ الفت وفا دشمن سمجھتے ہیں
تڑپتا ہی رہا اپنا دل مہحور سینے میں
گلشن میں شادماں تھے دلگیر ہیں قفس میں
آتا نہیں یہاں دل ناشاد کیا کروں
ان کو ہے عذر وفا ترک جفا کیا کریں
جو راز دل ہے وہ کیا شوخ بیوفا سے کہیں
دل جلانیکو یہاں عشوہ طراز آتے ہیں
کیوں کیا خستہ ملال ہمیں
پردۂ شرم اٹھا ماہ لقا دیکھ تو لوں
جلوہ فرما تجھے اے جلوہ نما دیکھ تو لوں
یار اس کا ہوں جو بے مہر میرا یار نہیں
مضطرب خیال ہوں حیرت انتظار میں
کہیں ملے وہ میرا شوخ ماہر وتو کہوں
گزر رہی ہے جو دلپر وہ تم سنو تو کہوں
بنا شوق شہادت حرص قاتل ذوق کشتن میں
جنوں شیدا ہوئے وحشت کا پہر سامان کرتے ہیں
تیرے جلوے ہی کی ہیں طالب دیدار آنکھیں
شوق میں منتشر ذوق نظر جاتے ہیں
کیوں منحرف ہوئے ہو جانانہ انجمن میں
دشمن ذوق وفا دل شکنی خوب نہیں
بسا ہے جلوۂ حسن نگار آنکھوں میں
جنوں مشرب ہیں نیرنگ تماشادلمیں کہتے ہیں
تیرے عشوؤں نے دئے ہیں ہمیں جھٹکے لاکھوں
یہ کیا جلوہ ہوا اے مہر عالمیگر بانوں میں
ستمگر عشوہ انگیزوں نے پھر خنجر نکالے ہیں
جو ہیں مشتاق صہبا محو پیمانوں میں رہتے ہیں
وہ باغ میں آیا تھا بہار چمن حسن
ملا کر آنکھ ہم کو عشوہ گر انعام دیتے ہیں
جو مدّعا ہے میرا دلربا کہوں نہ کہوں
کچھ خبر تجھکو بھی ہے اے محو سوداے جنوں
ہم ہیں اہل جذب اسم بامسمائے جنوں
عذاب روح میرا درد انتظار نہ بن
عدو نشاط میں وہ ماہ میرے ماتم میں
ہم عشوہ گری عشوہ نما دیکھ رہے ہیں
صلح کل ہیں کسی سے جنگ نہیں
مردم دیدہ ہے وہ نور سواد آنکھوں میں
وہ آئے نگار میں نہ مانوں
تیرے کوچے سے جو آتے ہیں وہ محرم نکلتے ہیں
آج وہ آہی گیا غنچہ وہاں باتوں میں
کیفیت اگلی سی اب ہندوستاں میں کیوں نہیں
ایڈور ڈالبرٹ شاہ جم حشم دارا نشاں
پلا وہ ساقی گلرخ مئے خمار شکن
دشمن شریک آج ہوئے انجمن میں کیوں
جاں بلب ہیں شوخی رنگ ادا جاتی نہیں
رہ دل میں خیال جلوۂ روئے نکو برسوں
کشیدہ ہی نظر آتے ہیں جس دم ہم سے ملتے ہیں
دل سوختہ ہیں جس کے اسے کچھ خبر نہیں
رہے بیگانۂ دیر وحرم کی جستجو برسوں
جو اہل دل ہوئے وہ پریشاں نظر نہیں
تمھیں ہو بے نیازی یہ ہی سرکاروں کی باتیں ہیں
جس کا جیسا رنگ ہے ویسا نظر آتا ہوں میں
خود نمائی کی روش باعث تو قیر نہیں
جلوہ افزائے نظر حسن کی تنویر نہیں
تیرے شیدا جان جاناں سینکڑوں
سالک عشق ہیں منزل کا پتہ لیتے ہیں
ردیف واو (و)
لن ترانی ہی سہی شوق یہ کم کیونکر ہو
کچھ بھی خبر جہاں کی نہیں تیرے مست کو
رہے گا کچھ نہ دھڑکا حشر کا اب روز محشر کو
ہے طلوع مہر تاباں جلوۂ تنویر کو
نہیں سنتے ہیں ایک مدت سے ہم آواز بلبل کو
نہ کرتا سوختہ دل وہ سراپا ناز بلبل کو
کیا ہے شیفتہ تونے سراپا ناز بلبل کو
خود گرفتہ نہ رہا درپے آزار نہ ہو
طالبو حیف ہے یہ وقت سحر جانے دو
جس کو تمکیں ہواستقامت ہو
مردم چشم میں تم نور نظر آتے ہو
ہمیں الفت تمہیں ہو عشق الفت ہو تو ایسی ہو
ہو گیا جوش جنوں سیر چمن سے ہم کو
دکھایا تم کو شوخی سے جو لعل شکر افشاں کو
قیامت ہے وہ آتے ہیں قدوقامت دکھا نیکو
ذرا طرز ستمگاری تو دیکھو
ستاتے کیوں ہو تم اپنے دل افگار محبت کو
انتظار شوق ہے پیغام یار آنے تو دو
کہاں بہلائیں جاکر اس دل بنیات وغمگین کو
حجاب ماز جانے دو دکھا دوروئے زیبا کو
طلسم حیرت آرائی کے شایق دلستاں کیوں ہو
مسیحا کیا بنے درد دل دلگیر تو کھینچو
خبر کیا کرب ہجراں کی ہو میری سرو موزونکو
کبھی تو یاد بھی کرتا تھا اپنے دل فگاروں کو
جلوہ مشتاق ہیں نیرنگ دکھاتے نہ چلو
فتنہ ہو قیامت ہو آفت ہو بلا کیا ہو
وہ زندہ دل کہاں جو شہید نظر نہ ہو
تمہاری نرگس شہلا فسونگر ہو توکیونکر ہو
ساقی جو جام عشق ہے پیر مغان میکدہ
ردیف ہائے ہوز
رنگ بیتابی بنا اپنا قفس میں آئینہ
نکردے چاک ہستی کی قبا تعمیر میخانہ
نہ ہو مجذوب کن رنگ جنوں تاثیر میخانہ
نظر مشتاق جلوہ شوق دامنگیر میخانہ
یہ کیا آسان تھا ملنا لب دلدار کا بوسہ
زکوۃ حسن دے محبوب رعنائی سبیل اللہ
بنگیا ہے شوق پنہاں انجمن میں آئینہ
تجلی سے یہ کس خورشید کی پرنور ہے شیشہ
باف جو بگڑی تھی وہ ہم سے بنائی نہ گئی
یہی تمناے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
وہ آئیں گے یہ نوید ایک آشنا نے دی
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑاوہ تلوار کا دہنی ہے
حضور قلب سے ہے جلوہ آراباطن ساقی
وہ ہی ساقی وہ ہی دور جام ہے
وہ شوخ عشوہ گریارب ہمارا یار نجائے
ترا جلوہ دیکھ کر دلربا ترا محو محو جمال ہے
کیوں آپ ہوے بیرخ اس جلوہ تماشا سے
بہار تاز بستان میں ہوئی ہے سروسوسن کی
وعدۂ وصل نے ہجراں میں تسلی کردی
وہی ساغر کش صہبا جنوں آمادہ آتا ہے
شجر سر سبز ہوں گلشن میں فصل نو بہار آئے
اثر ہے جذب کا آخر ملا وہ شوق مائل سے
خوش شناسی خود بخود محو خود آرائی ہوئی
جلوہ شیدا ہیں نگاہ مہر بانی چاہیئے
ہمارا حسن تعلق وفا بنے نہ بنے
نہ آؤ گے یہاں دھوکا دھڑی ہے
وہ جلوہ گر ہوا چمن آرا کہیں جسے
نہ ہوں محروم جلوہ جان جاناں دیکھنے والے
ہے بیقرار جان حزیں تیرے واسطے
صاحب نظر ہے محو تماشا کہیں جسے
کیا کام بنے شائق بیداد غضب سے
نیرنگ نما عشق ہوئے تیرے سبب سے
جذب قلبی کی اوسے خودہی خبر ہو جائیگی
جلوہ مشرب ہو نظر حسن اثر ہو جائے گی
ہدف تیرا نہ ہوگا دیکھ خنجر کھینچنے والے
ان لیلیٰ تصور بنگئے تھے جذب کامل سے
حیرت خیال جلوۂ ماہ مبین رہے
اسلام شوق کہنا میرے شوح بے مروت سے
وہ گلرو پیکر حیرت تقریر بلبل سے
تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
پریشاں کر رہا ہے کیوں محبت آزمانے سے
وہ پھر جلوہ افزا ہوا چاہتا ہے
خود شناسی خدا پرستی ہے
غم کی رو داد وہ پوچھیں تو بتائے نہ بنے
میں تو شیدا ہوں تماہار تم میری قاتل بنے
مظہر عشق ہے یہ تیرا جمال اچھا ہے
خود نما شوخ ہمیں محو لقا رہنے دے
پہلے دل میرا لے لیا تم نے
شوخ عیار جفا پیشہ ستمگر نکلے
روز وشب انتظار رہتا ہے
زلف پر پیچ دکھاتے ہیں مجھے
الٰہی شکر مجھے تم کہو کہ تو کیا ہے
ٹھکا نابے ٹھکانوں کا کہاں ہے
آپ سے ملنے کو سچ ہے میری صورت کیا ہے
ہر وقت دل کو ایک نیا اضطراب ہے
دل کی پھربے سرو سامانی کے ساماں ہونگے
خبرلے جلد اپنے ناتواں کی
وہ کیا ہم کو بنایا اور بنا کر رہ گئے
کیا ہو عروج پست خیالوں کے سامنے
در بدر خوار وخجل رسوا ہوئے
رسم والفت آپنے کیوں یار جانی چھوڑدی
نگاہیں شرمگیں ہیں اور صورت بھولی پھولی ہے
تیری یہ موہنی مورت بھلی معلوم ہوتی ہے
مہر ومہ تم سے خجل ہیں کیا ہو ہمسر چاندنی
تزکیہ نفس کا تھا تلخی دشنام نہ تھی
جلوۂ دیدار تو ایک بات ہے
آج گلشن میں جو اس کا کی سواری آئی
جو بشر ہر وقت محو ذات ہے
دل سے وہ شوق سر مشق ستم کہنے لگے
مجذوب عشق سالک عالی مقام ہے
بے نیازی خود نمائی سے تجھے زینت ملی
جنون مستان صحرائی یہ سیراہل دریا ہے
منوراپنے دل میں آفتاب روئے جاناں ہے
ہے تجلی خود نمائی میں نہاں ستّار کی
یاد آئی پھر ہمیں اس شوخ گل رخسار کی
وہی رنگ ہے وہی بزم ہے وہی بادہ ہے وہی جام ہے
چمن آراے ہستی کا یہ نیرنگ تماشا ہے
کیا طرز نوآئیں ہے نیرنگی فطرت کی
پارہ پارہ دل مہجور ہوانالۂ نے
چشم حیرت سے تماشارے جہاں دیکھا کئے
طالب دیدار سوئے آستاں دیکھا کئے
مقتل میں گر وہ جاتے خنجر کو لال کرتے
ہمارے ہم نفس کاش اس بت خود سر کو سمجھاتے
دیکھ جاتا ہے کدھر دل کے جلانے والے
کہاں گیا ہے وہ عشوہ پیکر ہمیں تو کچھ بھی خبر نہیں ہے
عیاں درد نہاں با خاطر ناشاد کیا کرتے
وہ اس رنج کشاکش سے ہمیں آزاد غم کر تے
جب تک شہید قلب نہ اپنا کرے کوئی
نیاز مند کرم ہیں گدا نواز کرے
وہ سراپا نازرشک نو بہار آنے کو ہے
کہیں متروک ذوق نالہ فرسا ہم ہوتا ہے
شفا کس طرح ہو بیرخ مسیحا ہم سے ہوتا ہے
جنون عشق سمجھانے سے پیدا اور ہوتا ہے
دل افسردہ تمہارے عشوۂ پیہم سے ہوتا ہے
جب وہ مستانہ ادھر فلتنہ شعار آتا ہے
بلائے جان مشتاقان ادائے شان برنائی
فروتنی سے کشادہ رہ سلامت ہے
وہ زلف درخ یار کا سودا نہیں رکھتے
ہے بوالعجب تماشا اپنے نہ ہیں کسی ے
سر مست ہی نہیں ہیں جو کیف باطنی کے
عشوہ گر حسن ادا نیرنگئی قاتل میں ہے
وہی کرشمۂ حسن نگار دیکھیں گے
سو ہان روح بنکے جو وہ دلستاں رہے
کس طرح سر مست ہوں ساغر کشان موج مے
لا مکاں ہم کو نظر آیا مکان موج مے
بہ خوب جلوہ ہوا دلربا جلا کے چلے
ہجوم عام جو یہ ساتھ یارلے کے چلے
نیاز ہجر ہے محو جہاں کہاں سے بنے
وہ ہم سے روز ملتا تھا ہمارا عشوہ گر پہلے
مانعٔ قاتل ہوئی ہے سینہ بریانی میری
فدائے روئے زیبا حسن صورت دیکھنے والے
ادھر رخ ہی نہیں ہوتا ہے کب تقدیر پھرتی ہے
جس کو ہے ذوق نظر حسن ندا ہوتا ہے
پردۂ غیب کا خود پر دہ کشا ہوتا ہے
ہے جنوں پیکر داوحشت بعر یانی میری
دل شب میں ہوا جلوہ ہمیں گہنشام گل رو کا
برق خرمن سوز ہر دم داغ سامانی میری
تیرا ہی جلوہ دیکھا جہاں تک نظر گئی
جو عرض حال ہے وہ دلستاں سنو تو سہی
جو وہ خورشید رو ساغر بکف مست شراب آئی
بہار جلوۂ گلزار نیرنگ شیوں سمجھے
تیری برہم مزاجی دلبر بیداد فن کیوں ہے
یارب وہ کہیں ہم کو محبوب نظر آئے
ستا رہا ہے تیرا درد انتظار مجھے
کیا یہ قدرت کا کارخانہ ہے
عشق تیرا بھی کیا فسانہ ہے شیفتہ جس کا اک زمانہ ہے
سلوک جذب میں جو اہل وجدوحال ہوئے
متفرقات
کریں ہم کس زباں سے شکر اس الطاف بیحد کا
ہم تو عاشق ہیں فسودشام ہمیں دونوں ایک
ہو کہیں نج روپ کا جلوہ شری گوپال لال
تودل میں بسا میرے جسودا کے دل آرام
دل دادہ تمہارا ہوں میں اے شام دلارام
تر بھون کے ناتھ ہو تر لوک کے تم ایش ہو
اے رشی صاحب نظر اے ہادی قوم قدیم
دو مجھے شر ناگتی کا شی کے راجا وشو ناتھ
امارت مبارک نیابت مبارک
کیوں نہ ہو شمہور عالم بال گنگا دھرتلک
محبوب خاص وعام ہو طبی رفاہ عام
اس محرم میں کیا ہم نے رسا کا ماتم
وہ محبت وہ ظرافت یاد گار
چشم بینا ہے تو آدیکھ تماشائے نظر
اپنی صورت نہ جب نظر آئی
آتم جھروکہ اعنی منظر بطون
تجھے نظر نہیں آئے گا ماہتاب حرم
یکا یک چلدئے جنت کو ہمدم
باجواہر ناتھ ساقی ہم سخن بودم بسے
پیش ازیں طبع تر خوئے جفا بود نبود
دربند غم تو بستۂ چند
عقل ست چو بیکارچہ باشد چہ بنا شد
ہوش نظارہ ترا شاید دم بسمل نماند
منورشد جریم دل بنور عشق پنہا نم
یہ ہجران کے شیکبد اے ستمگر جان غمناکم
عجب دارم ازان گل آستیان سن نمید اند
سبو بردوش رقصان ست رند پیر میخانہ
ہجرت مردم وپروانکردی کاش میکردی
نگاہ تند تو بہر دلم موج شرابستی
چون ضیا الدین احمد خان نمود
اے دریغازین سرائے بے بقا
فرخا فرخ تبار آید ہمے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔