مندرجات
انتساب
تعارف
غزلیں
نعت
نعت
بن اندھیرے غزال یار کہاں؟
جو پیش آئیں غریبوں سے انکسار کے ساتھ
آپ کا رتبہ سلامت، ااپ من مانی کریں
نہ آسکی ہے جراحت آرزو سوے اندمال اب تک
بربادیوں کو ہم نے گلے سے لگا لیا
الفت کر سکتے ہیں لیکن کیا انجام الفت ہوگا
ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
صحرا کو گلستاں کہتا ہوں بجلی کو تجلی کہتا ہوں
تمہاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
خواص پڑ کے سور ہے، عوام اٹھ کے چل پڑے
عہد مایوسی جہاں تک ساز گار آتا گیا
بتوں کو نرم دل کہا ہے اور بار ہا کہا
نوجوانی میں یوں بھی بسر ہوگئی
جن کی عیاشی مسلّم ہے غزل میراث ہے
شاد مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے
دل کا چور زباں دشمن کی کھلنے پر پکڑا تو کیا
احتیاطوں کو نیا انداز دوں
وقت کیا شے ہے، پتہ آپ ہی چل جائے گا
راحت ملی نہ کاوش عزم سفر گئی
اچھل کے اندھے کنوئیں میں گرنے کو میں ترقی نہیں سمجھتا
ڈال کر بانہیں، بہا کر اشک، پھر آنے کی بات
ا ندھیرے میں ہم آپ ہیں روشنی میں
اٹھا نا ہے گھٹا کی زلف مشکیں سے دھواں مجھ کو
مجھ پہ جم جائے نگاہ فتنہ کار آساں نہیں
مستقبل روشن تر کہیے
کچھ وہ الزام لگائے ہیں کہ جی جانے ہے
سوتے ہی اپنے بستر پر
پھول پھول چہروں سے مدھ بھرے غزالوں سے
تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے
کوئی تلاش نہ ضایع نہ رائیگاں ہوگی
کچھ اس ادا سے مجھ کو انجمن میں دیکھتا ہے وہ
بنا پائی نہ ذرّے کو نگینا
خلوت حسن کی رنگیں یادو
جوضبط و آگہی کی ہاتھا پائی ختم ہو جائے
کرم موج پہ ساحل کو گوارا کر لوں
دیکھتا ہوں انجمن میں اس طرح میں سوئے دوست
کچھ سہی، غیر وفا دار نہیں کہہ سکتے
تری نگاہ میں احساس کا لہو پاکر
اے کاش، آپ ہم کو وہاں تک ستا سکیں
دھیمی پے چل ، بھینی خوشبو، ہلکی دستک جاری ہے
کل شہر سخنور ہے تو کیا عرض کیا جائے
نہیں کہ شغل مئے و جام میں کسر رکھیے
وطن پر ست ہی بیٹھے ہیں شہ نشینوں میں
جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں
یہ عرض دید کی غایت یہ اصل لنترانی ہے
چاہتے ہیں گھر بتگوں کے دل میں ہم
چشم پاداش میں کافی ہے مسلماں ہونا
تارے جوآسماں سے گرے خاک ہو گئے
ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حسیں پر
راز گلشن کلی جو پالے گی
کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا
منزلیں اشعار کہہ چلنے میں آساں ہوگئیں
مندر کا تصور کہ خمستاں کےارادے
چھوٹ سکتی تھیں کہیں سیر گلستاں ہم سے
کبھی اتنی پیے ہو تے ہو یارو
چاہت کا الزام برا ہے
ہر ساغر کے بعد عموماً مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
گر قاعدۂ چاک گریباں نہیں ہوتا
ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا
کئی دن سے اسے دیکھا نہیں ہے
کام جو آج نہ ہو پائے وہ کل ہو نہ سکے
بیٹھے تھے ان کی یاد میں کل بے خبر سے ہم
بندہ پرور دن تصوّر کر رہے ہیں رات کو
اسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
دولت عقل سے معذور ہے وہ
غم نہیں مانتا، شراب تو لاؤ
تو اور پوچھے میرا حال
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
بہ پاس احتیاط آرزو یہ بار ہا ہوا
ہے جو بے قابو طبیعت آج کل
یہ جگمگاتے ہوئے ستارے، یہ پھول جو مسکرا رہے ہیں
اک عوامی مسئلہ ہیں آج کل کی الجھنیں
مجلس شوریٰ میں کج فہموں کو داخل کیوں کیا
گو ہمیں حاصل جو تھی، وہ بھی تن آسانی گئی
تا چند باغبانی صحرا کرے کوئی
مجھ پہ اس حیا خو کی ہر نظر ادھوری ہے
دل پہ کیا درش، محبت جو چھپائے نہ بنے
لا اے ساقی تیری جے ہو
سکوں کی التجا پر سوز نا معلوم غائب ہے
مشکل سے اس بت کی قسمیں
باغباں ذوق تعلٰی سے گزرتے ہی نہیں
تم کو رسوائے حکایت کیا کریں
میں تو غزلیں کہہ کر دل بہلالیتا ہو لیکن وہ؟
اصطلاحاً برے کو بھلا کہہ دیا
میں نے کانٹوں میں لچک پائی ہے
جوانی ہے دل آجانے کے دن ہیں
اور تو کیا یہ نمک خوار سیاست دیں گے
مانا جبیں نواز ترا سنگ در نہیں
فنکار ہمیشہ ہی پریشان رہے ہیں
شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں
اس کے زانو سے اٹھانا پڑ رہا ہے سر مجھے
تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
اسی کوچے میں سحر ایک حسیں دیکھ آیا
اٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اٹھا
کبھی کوئی کرم، کوئی عنایت ہو بھی جاتی ہے
نام جس نے ستم کا کرم رکھ دیا
اس زمانے میں جو رنگین غزل کہتے ہیں
جہاں جہاں غم دوراں پہ گفتگو نہ ہوئی
کیا بتائیں ان سے کیا کہنا تھا کیا کہنا پڑا
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
رنگ رخ سرخی پیغام سے وابستہ ہے
بے کسوں پر ظلم دھا کرنا ز فرمایا گیا
کوئی نقش قدم یار ابھر نے نہ دیا
گزر جاتے ہیں جب دو دل حدود عہد وپیماں سے
یقین مانیے یہ بات بھی بڑی خوشی کی ہے
جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج
بقول غالب ہوا کیا ہے جو حشر دہقان کے لہو کا
عمر بکر کی شرار توں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں
ہے ذکر انقلاب کہیں فکر شر کہیں
بہار کی خبر میں احتمال بھی تو چاہیے
جب غریب جنتانے بربنائے آزادی دل پر تیر کھا کھا کر سعی سرخ رو کی ہے
خوف یہ ہے کہ وہ پھولوں پہ نہ آرام میں ہوں
اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی
نظر بچا کے مجھ کو وہ میں اس کو دیکھتارہا
سلیقہ ہی نہ آیا اشک ہائے دیدۂ تر سے
ایسی شراب جس کی زمانے کو بو نہ آئے
نہ عداوت نہ محبت کا گماں ہوتا ہے
ہوئی صبح بستر رنگ وبو سے وہ گلستان جواں اٹھا
آپ یا میں؟ سوچیے الفت جتا تا کون ہے
جو صورت پہ معنٰے کو قربان کردے کوئی اور ہوگا مرا دل نہیں ہے
میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں
دشمنوں سے جو آسرا لے گی
دیر پاتے ہیں جو ہم کو درمیان کوئے دوست
اس کو دیکھا، تھام کر دل رہ گئے
تعبیر پہ حاوی ہوں تشبیہہ پہ قابو ہے
دیکھتا ہوں پھول کو کھویا ہوا شبنم میں ہوں
ہماری وفا کا یقیں چاہتے ہیں مگر امتحاں بھی ہمارا نہیں ہے
مرا قاصد تقاضے پر تقاضہ کر رہا ہوگا
بت خانوں کو یہ آزادی
نکھر رہی ہے سنور رہی ہے نگار معنی کی زلف پرفن
نہ کوئی بت حسین ہے نہ کوئی بت جوان ہے
حیرت جلوۂ محبوب بتاؤں
گدرائی کلیوں کی صورت کب چھپتا ہے جو بن کوئی
ابر ہے، التجائے ساقی ہے
ہر نشان سجدہ کو اس کا نقش پا کہدوں
یہاں نہیں ہے وہاں نہیں ہے ادھر نہیں ہے ادھر نہیں ہے
اسلحہ آٹھ پہر بنتے ہیں
اداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے
بحث تھی جس پر وہ موضوع سخن باقی بھی ہے
ناصح جو غلط بین وغلط کار رہا ہے
عید کا دن ہے کوئی سلسلۂ دید نہیں
صداقتوں کے ہمنوا پچاس فی صدی نہیں
الفت کےبعد سیر چمن لازمی ہوئی
سروں پر جو ساماں اٹھائے کھڑے ہیں
پوچھو تو رہنما سے یہ کون مرحلہ ہے
یہ راہزن ہوں کہ رہرو ذرا گزر جائیں
تم نہ ہوگے تو کوئی اور سہارا ہوگا
لفظ ومعنی کے دھنی ہیں حسن پر مرتے ہیں ہم
فریب رسم محبت جو پاگیا ہوں میں
پاسبانوں پر مدار حفظ جاں کوئی نہیں
آرہی ہے بہار بن ٹھن کر
جلوے ہوں گے بام بھی ہوگی
غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ
ہم کسی گلچیں کو کیسے باغباں کہنے لگیں
بیکسی میں سابقہ پڑنے پہ اندازہ ہوا
ہماری غزلوں ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی
ایک تو اک جام ہی شائستۂ محفل نہیں
سر سے ٹوپی گر جائے گی گردن دکھ کر رہ جائے گی
جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا
قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
عہد مایوسی جہاں تک ساز گار آتا گیا
مطلع کہا ہے نظم وطن کا گلہ نہیں
بہت محتاط ہوں لیکن کہاں تک
کب خس و خاشاک میں بجلی چھپی رہتی نہیں
غیر ممکن ہے محبت نہ چھلک جائے کہیں
آدمی کی بابت بھی یہ قیاس ممکن ہے
رنگ ونگہت کی نرم آنچوں سے جب یہ ثابت ہے پھول کھلتے ہیں
وہ پھول جس نے گزرتی بہار دیکھی ہے
تغیئر نظم پر جو مگن ہو کے رہ گئے
جو بے تامّل ہے دور ساغر تو بے تکلف جو انیاں ہیں
چارۂ زخم دل زار سے بھر پائے نہ
جب کاوش الم سبب زندگی ہوئی
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
زلف برہم ہے وہ کیوں برہم نہیں
سلامت اگر عشق ایذا طلب ہے
قیاس پر ہے بہاروں کا اعتبار ابھی
یہ صورت یہ حالات ہیں آج کل
اس اندھیرے میں وہ آستاں آگیا
میں غزلخوان وطن یہ خطا کافی ہے
عقل کونے جھانکنے لگتی ہے جن حالات میں
اس کو خط لکھا ہے آج
سنگ میل منزل کا فاصلہ بتاتے ہیں
بارہا خط دے کے واپس نامہ بر سے لے لیا
شباب وخلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے
مانا سر نیاز کی اک آبرو بھی ہے
تمنّاؤں کا قتل عام کیوں ہے سوچنا ہوگا
بہت جب ان کے ہاں آیا گیا ہوں
بتوں میں اسے جلوہ گر کہہ رہا ہوں
قصّۂ غم بہت آسان بدل جاتا ہے
دہن یار کے مانند کمر ہے کہ نہیں
جو ہیں آج یہ شاخسانے کہاں تھے
جب سیاست کے ماروں کی حد ہوگئی
جودیوانہ خود سے باتیں کرتے کرتے چونک پڑا ہو
وہ جو ہم شاعروں سے ڈرتے ہیں
رہے چمن میں جو گلچیں کو باغباں کہہ کر
یہ تغزل، کہ چمن ہے میرا
کب رہزنوں سے مل کے نگہباں نہیں رہا
ماحول ساز گار کبھی ہے کبھی نہیں
جہاں تک ہماری غزل جائے گی
کہتے نہیں ہیں منہ پہ مروّت سے آپ کی
جب کسی سے وہ چال کرتے ہیں
خیال میرا ادب کے بارے میں اس نتیجے پہ آگیا ہے
کہوں کیا سورش عہد شباب اوّل سے آخر تک
فن برائے فن کارجحان کہن میری طرف
سوتے ہیں پاسبان چمن جاگتے رہو
وہ میرے دل میں بے شکل خیال ہوتا ہے
نئے چراغ نئی روشنی اگر ہے یہی
مچل رہے ہیں لب شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلا سے
غبار قافلۂ رنگ وبو بلند ہوا
قطعہ بند
جھجکا کہ خدا جانے کیف میخانہ
چاہتا ہو ںفائدہ سرکار کا
پتہ پتہ جب کہ تاراج خزاں ہو جائے گا
آج ہم جا کے مقیم در جاناں ہوں گے
کچھ تو حق آپ ہمارا سمجھیں
زمانہ ساز کو ہونٹوں میں کیوں برا کہہ دوں
کسی کی انجمن سے ہم بہت سنبھلتے آئے ہیں
حدود اکل وشرب کا سوال ہی نہیں رہا
کم سے کم گجرے گلے کا ہار زنجیریں بہت
ہر دل پہ آزمائش تیغ کمر ہے آج
عسس کی بات کروں راہزن پہ چوٹ کروں
خدا سے وہ دل طلب کریں ہم خدا سے ایسا مزاج مانگیں
جب تک ہم ہیں ممکن ہی نہیں نا محرم محرم ہو جائیں
خلوص و پاکیزگی الفت کو بے نیازانہ تولتا ہے
آئیں طوفان آشیاں نہ آڑیں
نہ ساز عیش نہ مینائے بادہ رکھتے ہیں
فضائیں بھانپ لیتے ہیں ہوائیں تاڑ لیتے ہیں
بزم عشرت کو ہمارے نام نے چونکا دیا
آئی نا مغرب کے قدموں میں سیاست گھوم کے
کہہ رہی ہیں الجھنیں حالات کی
تو دیکھنا جو ہم کو نظم واہتمام مل گیا
مایوس انقلاب غزل کہہ رہا ہوں میں
انجمن میں کیف اور جام شعر چلتے ہیں
یہ بناوٹ یہ تغافل، یہ نظر
خیر چاہو تو ایک کام کرو
جو آپ فرمائیں جس سے خوش ہوں میں وہ روش اختیار کر لوں
بو کو ہوا اڑاگئی، رنگ کو دھوپ کھا گئی
شباب ان کی ڈور پر شراب ان کے پاس ہے
ہاں تو ساقی رقص میں جب ساغر سر جوش تھا؟
اپنی کشتی آپ تو کوئی ڈبونے سے رہا
اگر چمن سے نکال دو گے چمن سے باہر گزارلیں گے
تمیز نقد انجمن کچھ اس قدر نکھر گئی
آنکھ نے جس پھول کوتا کا اسے توڑا نہیں
فراق یار کیا ہے، سو طرح کی ایک بیماری
ان کے مدّاح اس زمانے میں
جبین وزلف حسن محو خواب دیکھتا ہوں میں
اگر بسمل اگر گھائل نہ ہوگی
تم نے شعروں سے ہرن مارے ہیں
بہار آنے کے بعد جن کا چمن کا پھیر انہیں ہوا ہے
لیکن اتنی بات ہے
رخنہ کار امن عالم جو بھی ہو بد ذات ہے
متفرق اشعار
شاد عارفی نے اپنی نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے
نظمیں
سلام بحضور سلطان مدینہ
سلام
شادی کے بعد
بہتان
دسہرہ اشنان
فلمی محبت
شوفر
نمائش
نمائش
نمائش
نمائش
واپسی
مشورہ
اندھیر نگری
بیٹے کی شادی پر
نوروز
گنگا اشنان
دیوالی
مہترانی
بھکارن
ساس بہو
ساس
رت جگا
شادی سے پہلے
سالی
مال روڈ
مرے محلّے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری
شکار ماہی
مال زاد یاں اور دلّال
ملازمہ
مرید کی بیوی
وہ کافرہ
ابھی جبل پور جل رہا ہے
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
جنس جمیل
پرانے کوٹ
نصف بہتر
ان اونچے اونچے محلوں میں
رنگیلے راجا کی موت
اختلافات
پروڈیوسر
رسمی قید خانے
تادیب
خوشامد
روٹی
حیوان ناطق
غدّار
حرّیت
ادبار آتا ہے
دادی اور پوتی
شہر اور دیہات
سماج
مندرجانےوالی
مغرب زدگی
فسانۂ ناتمام
گوالن
وفائےوعدہ
گاؤں
دخت کش
پیارے بچو
شہرسے دور
مالن
سبق
گل کاری تصوّر
نفسیات سرما
بیوہ
گیہوں نے کہا
آج کل
ایک بیمار بیوہ کو دیکھ کر
جبر و قدر
رخصت ہوئی سہیلی
موج تبسّم
مقامات شاعر
آپ کی تعریف
گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل
یہ عبادت یہ رسوم
شب برأت
ہلال رمضان
پہلا روزہ
ٹکڑ گدے
دیہاتی لاری
شطرنج
پیشے ملے تو جوش
میرا حصّہ دور کا جلوہ
اضطرار
ہلال عید
ہولی
فاروق اعظم
قسط دوم
قسط سوم
قسط چہارم
ایک سوال
مفارقت
یوم محمد علی جوہر
جہیز
مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے
عورت
غمّازہ
نظم
بسنت
تثلیث
سگریٹ
ہمارے نوجواں
بحث
خط کی چوری
یاران سیاست سے
اپدیش
ساون بیت چکا ہے کنتو
برسات کی شروعات
جنگ زرگری
یہ ہماری زبان ہے پیارے
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
اتوائ سے اجراء تک
چاند کی نو آبادی
مگر عورت کا دل کتنا!
آپ تو گھورنے لگے ہم کو!
دیکھنے والا ہو تو
نظم مبارکبادی
سہرا
سہرا
نظم بہ طرز سہرا
سہرا
قطعہ تاریخ وفات
رباعیات وقطعات
YEAR1975
CONTRIBUTORSalim Saleem
PUBLISHER National Academy, Delhi
YEAR1975
CONTRIBUTORSalim Saleem
PUBLISHER National Academy, Delhi
مندرجات
انتساب
تعارف
غزلیں
نعت
نعت
بن اندھیرے غزال یار کہاں؟
جو پیش آئیں غریبوں سے انکسار کے ساتھ
آپ کا رتبہ سلامت، ااپ من مانی کریں
نہ آسکی ہے جراحت آرزو سوے اندمال اب تک
بربادیوں کو ہم نے گلے سے لگا لیا
الفت کر سکتے ہیں لیکن کیا انجام الفت ہوگا
ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
صحرا کو گلستاں کہتا ہوں بجلی کو تجلی کہتا ہوں
تمہاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
خواص پڑ کے سور ہے، عوام اٹھ کے چل پڑے
عہد مایوسی جہاں تک ساز گار آتا گیا
بتوں کو نرم دل کہا ہے اور بار ہا کہا
نوجوانی میں یوں بھی بسر ہوگئی
جن کی عیاشی مسلّم ہے غزل میراث ہے
شاد مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے
دل کا چور زباں دشمن کی کھلنے پر پکڑا تو کیا
احتیاطوں کو نیا انداز دوں
وقت کیا شے ہے، پتہ آپ ہی چل جائے گا
راحت ملی نہ کاوش عزم سفر گئی
اچھل کے اندھے کنوئیں میں گرنے کو میں ترقی نہیں سمجھتا
ڈال کر بانہیں، بہا کر اشک، پھر آنے کی بات
ا ندھیرے میں ہم آپ ہیں روشنی میں
اٹھا نا ہے گھٹا کی زلف مشکیں سے دھواں مجھ کو
مجھ پہ جم جائے نگاہ فتنہ کار آساں نہیں
مستقبل روشن تر کہیے
کچھ وہ الزام لگائے ہیں کہ جی جانے ہے
سوتے ہی اپنے بستر پر
پھول پھول چہروں سے مدھ بھرے غزالوں سے
تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے
کوئی تلاش نہ ضایع نہ رائیگاں ہوگی
کچھ اس ادا سے مجھ کو انجمن میں دیکھتا ہے وہ
بنا پائی نہ ذرّے کو نگینا
خلوت حسن کی رنگیں یادو
جوضبط و آگہی کی ہاتھا پائی ختم ہو جائے
کرم موج پہ ساحل کو گوارا کر لوں
دیکھتا ہوں انجمن میں اس طرح میں سوئے دوست
کچھ سہی، غیر وفا دار نہیں کہہ سکتے
تری نگاہ میں احساس کا لہو پاکر
اے کاش، آپ ہم کو وہاں تک ستا سکیں
دھیمی پے چل ، بھینی خوشبو، ہلکی دستک جاری ہے
کل شہر سخنور ہے تو کیا عرض کیا جائے
نہیں کہ شغل مئے و جام میں کسر رکھیے
وطن پر ست ہی بیٹھے ہیں شہ نشینوں میں
جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں
یہ عرض دید کی غایت یہ اصل لنترانی ہے
چاہتے ہیں گھر بتگوں کے دل میں ہم
چشم پاداش میں کافی ہے مسلماں ہونا
تارے جوآسماں سے گرے خاک ہو گئے
ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حسیں پر
راز گلشن کلی جو پالے گی
کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا
منزلیں اشعار کہہ چلنے میں آساں ہوگئیں
مندر کا تصور کہ خمستاں کےارادے
چھوٹ سکتی تھیں کہیں سیر گلستاں ہم سے
کبھی اتنی پیے ہو تے ہو یارو
چاہت کا الزام برا ہے
ہر ساغر کے بعد عموماً مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
گر قاعدۂ چاک گریباں نہیں ہوتا
ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا
کئی دن سے اسے دیکھا نہیں ہے
کام جو آج نہ ہو پائے وہ کل ہو نہ سکے
بیٹھے تھے ان کی یاد میں کل بے خبر سے ہم
بندہ پرور دن تصوّر کر رہے ہیں رات کو
اسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
دولت عقل سے معذور ہے وہ
غم نہیں مانتا، شراب تو لاؤ
تو اور پوچھے میرا حال
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
بہ پاس احتیاط آرزو یہ بار ہا ہوا
ہے جو بے قابو طبیعت آج کل
یہ جگمگاتے ہوئے ستارے، یہ پھول جو مسکرا رہے ہیں
اک عوامی مسئلہ ہیں آج کل کی الجھنیں
مجلس شوریٰ میں کج فہموں کو داخل کیوں کیا
گو ہمیں حاصل جو تھی، وہ بھی تن آسانی گئی
تا چند باغبانی صحرا کرے کوئی
مجھ پہ اس حیا خو کی ہر نظر ادھوری ہے
دل پہ کیا درش، محبت جو چھپائے نہ بنے
لا اے ساقی تیری جے ہو
سکوں کی التجا پر سوز نا معلوم غائب ہے
مشکل سے اس بت کی قسمیں
باغباں ذوق تعلٰی سے گزرتے ہی نہیں
تم کو رسوائے حکایت کیا کریں
میں تو غزلیں کہہ کر دل بہلالیتا ہو لیکن وہ؟
اصطلاحاً برے کو بھلا کہہ دیا
میں نے کانٹوں میں لچک پائی ہے
جوانی ہے دل آجانے کے دن ہیں
اور تو کیا یہ نمک خوار سیاست دیں گے
مانا جبیں نواز ترا سنگ در نہیں
فنکار ہمیشہ ہی پریشان رہے ہیں
شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں
اس کے زانو سے اٹھانا پڑ رہا ہے سر مجھے
تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
اسی کوچے میں سحر ایک حسیں دیکھ آیا
اٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اٹھا
کبھی کوئی کرم، کوئی عنایت ہو بھی جاتی ہے
نام جس نے ستم کا کرم رکھ دیا
اس زمانے میں جو رنگین غزل کہتے ہیں
جہاں جہاں غم دوراں پہ گفتگو نہ ہوئی
کیا بتائیں ان سے کیا کہنا تھا کیا کہنا پڑا
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
رنگ رخ سرخی پیغام سے وابستہ ہے
بے کسوں پر ظلم دھا کرنا ز فرمایا گیا
کوئی نقش قدم یار ابھر نے نہ دیا
گزر جاتے ہیں جب دو دل حدود عہد وپیماں سے
یقین مانیے یہ بات بھی بڑی خوشی کی ہے
جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج
بقول غالب ہوا کیا ہے جو حشر دہقان کے لہو کا
عمر بکر کی شرار توں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں
ہے ذکر انقلاب کہیں فکر شر کہیں
بہار کی خبر میں احتمال بھی تو چاہیے
جب غریب جنتانے بربنائے آزادی دل پر تیر کھا کھا کر سعی سرخ رو کی ہے
خوف یہ ہے کہ وہ پھولوں پہ نہ آرام میں ہوں
اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی
نظر بچا کے مجھ کو وہ میں اس کو دیکھتارہا
سلیقہ ہی نہ آیا اشک ہائے دیدۂ تر سے
ایسی شراب جس کی زمانے کو بو نہ آئے
نہ عداوت نہ محبت کا گماں ہوتا ہے
ہوئی صبح بستر رنگ وبو سے وہ گلستان جواں اٹھا
آپ یا میں؟ سوچیے الفت جتا تا کون ہے
جو صورت پہ معنٰے کو قربان کردے کوئی اور ہوگا مرا دل نہیں ہے
میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں
دشمنوں سے جو آسرا لے گی
دیر پاتے ہیں جو ہم کو درمیان کوئے دوست
اس کو دیکھا، تھام کر دل رہ گئے
تعبیر پہ حاوی ہوں تشبیہہ پہ قابو ہے
دیکھتا ہوں پھول کو کھویا ہوا شبنم میں ہوں
ہماری وفا کا یقیں چاہتے ہیں مگر امتحاں بھی ہمارا نہیں ہے
مرا قاصد تقاضے پر تقاضہ کر رہا ہوگا
بت خانوں کو یہ آزادی
نکھر رہی ہے سنور رہی ہے نگار معنی کی زلف پرفن
نہ کوئی بت حسین ہے نہ کوئی بت جوان ہے
حیرت جلوۂ محبوب بتاؤں
گدرائی کلیوں کی صورت کب چھپتا ہے جو بن کوئی
ابر ہے، التجائے ساقی ہے
ہر نشان سجدہ کو اس کا نقش پا کہدوں
یہاں نہیں ہے وہاں نہیں ہے ادھر نہیں ہے ادھر نہیں ہے
اسلحہ آٹھ پہر بنتے ہیں
اداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے
بحث تھی جس پر وہ موضوع سخن باقی بھی ہے
ناصح جو غلط بین وغلط کار رہا ہے
عید کا دن ہے کوئی سلسلۂ دید نہیں
صداقتوں کے ہمنوا پچاس فی صدی نہیں
الفت کےبعد سیر چمن لازمی ہوئی
سروں پر جو ساماں اٹھائے کھڑے ہیں
پوچھو تو رہنما سے یہ کون مرحلہ ہے
یہ راہزن ہوں کہ رہرو ذرا گزر جائیں
تم نہ ہوگے تو کوئی اور سہارا ہوگا
لفظ ومعنی کے دھنی ہیں حسن پر مرتے ہیں ہم
فریب رسم محبت جو پاگیا ہوں میں
پاسبانوں پر مدار حفظ جاں کوئی نہیں
آرہی ہے بہار بن ٹھن کر
جلوے ہوں گے بام بھی ہوگی
غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ
ہم کسی گلچیں کو کیسے باغباں کہنے لگیں
بیکسی میں سابقہ پڑنے پہ اندازہ ہوا
ہماری غزلوں ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی
ایک تو اک جام ہی شائستۂ محفل نہیں
سر سے ٹوپی گر جائے گی گردن دکھ کر رہ جائے گی
جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا
قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
عہد مایوسی جہاں تک ساز گار آتا گیا
مطلع کہا ہے نظم وطن کا گلہ نہیں
بہت محتاط ہوں لیکن کہاں تک
کب خس و خاشاک میں بجلی چھپی رہتی نہیں
غیر ممکن ہے محبت نہ چھلک جائے کہیں
آدمی کی بابت بھی یہ قیاس ممکن ہے
رنگ ونگہت کی نرم آنچوں سے جب یہ ثابت ہے پھول کھلتے ہیں
وہ پھول جس نے گزرتی بہار دیکھی ہے
تغیئر نظم پر جو مگن ہو کے رہ گئے
جو بے تامّل ہے دور ساغر تو بے تکلف جو انیاں ہیں
چارۂ زخم دل زار سے بھر پائے نہ
جب کاوش الم سبب زندگی ہوئی
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
زلف برہم ہے وہ کیوں برہم نہیں
سلامت اگر عشق ایذا طلب ہے
قیاس پر ہے بہاروں کا اعتبار ابھی
یہ صورت یہ حالات ہیں آج کل
اس اندھیرے میں وہ آستاں آگیا
میں غزلخوان وطن یہ خطا کافی ہے
عقل کونے جھانکنے لگتی ہے جن حالات میں
اس کو خط لکھا ہے آج
سنگ میل منزل کا فاصلہ بتاتے ہیں
بارہا خط دے کے واپس نامہ بر سے لے لیا
شباب وخلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے
مانا سر نیاز کی اک آبرو بھی ہے
تمنّاؤں کا قتل عام کیوں ہے سوچنا ہوگا
بہت جب ان کے ہاں آیا گیا ہوں
بتوں میں اسے جلوہ گر کہہ رہا ہوں
قصّۂ غم بہت آسان بدل جاتا ہے
دہن یار کے مانند کمر ہے کہ نہیں
جو ہیں آج یہ شاخسانے کہاں تھے
جب سیاست کے ماروں کی حد ہوگئی
جودیوانہ خود سے باتیں کرتے کرتے چونک پڑا ہو
وہ جو ہم شاعروں سے ڈرتے ہیں
رہے چمن میں جو گلچیں کو باغباں کہہ کر
یہ تغزل، کہ چمن ہے میرا
کب رہزنوں سے مل کے نگہباں نہیں رہا
ماحول ساز گار کبھی ہے کبھی نہیں
جہاں تک ہماری غزل جائے گی
کہتے نہیں ہیں منہ پہ مروّت سے آپ کی
جب کسی سے وہ چال کرتے ہیں
خیال میرا ادب کے بارے میں اس نتیجے پہ آگیا ہے
کہوں کیا سورش عہد شباب اوّل سے آخر تک
فن برائے فن کارجحان کہن میری طرف
سوتے ہیں پاسبان چمن جاگتے رہو
وہ میرے دل میں بے شکل خیال ہوتا ہے
نئے چراغ نئی روشنی اگر ہے یہی
مچل رہے ہیں لب شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلا سے
غبار قافلۂ رنگ وبو بلند ہوا
قطعہ بند
جھجکا کہ خدا جانے کیف میخانہ
چاہتا ہو ںفائدہ سرکار کا
پتہ پتہ جب کہ تاراج خزاں ہو جائے گا
آج ہم جا کے مقیم در جاناں ہوں گے
کچھ تو حق آپ ہمارا سمجھیں
زمانہ ساز کو ہونٹوں میں کیوں برا کہہ دوں
کسی کی انجمن سے ہم بہت سنبھلتے آئے ہیں
حدود اکل وشرب کا سوال ہی نہیں رہا
کم سے کم گجرے گلے کا ہار زنجیریں بہت
ہر دل پہ آزمائش تیغ کمر ہے آج
عسس کی بات کروں راہزن پہ چوٹ کروں
خدا سے وہ دل طلب کریں ہم خدا سے ایسا مزاج مانگیں
جب تک ہم ہیں ممکن ہی نہیں نا محرم محرم ہو جائیں
خلوص و پاکیزگی الفت کو بے نیازانہ تولتا ہے
آئیں طوفان آشیاں نہ آڑیں
نہ ساز عیش نہ مینائے بادہ رکھتے ہیں
فضائیں بھانپ لیتے ہیں ہوائیں تاڑ لیتے ہیں
بزم عشرت کو ہمارے نام نے چونکا دیا
آئی نا مغرب کے قدموں میں سیاست گھوم کے
کہہ رہی ہیں الجھنیں حالات کی
تو دیکھنا جو ہم کو نظم واہتمام مل گیا
مایوس انقلاب غزل کہہ رہا ہوں میں
انجمن میں کیف اور جام شعر چلتے ہیں
یہ بناوٹ یہ تغافل، یہ نظر
خیر چاہو تو ایک کام کرو
جو آپ فرمائیں جس سے خوش ہوں میں وہ روش اختیار کر لوں
بو کو ہوا اڑاگئی، رنگ کو دھوپ کھا گئی
شباب ان کی ڈور پر شراب ان کے پاس ہے
ہاں تو ساقی رقص میں جب ساغر سر جوش تھا؟
اپنی کشتی آپ تو کوئی ڈبونے سے رہا
اگر چمن سے نکال دو گے چمن سے باہر گزارلیں گے
تمیز نقد انجمن کچھ اس قدر نکھر گئی
آنکھ نے جس پھول کوتا کا اسے توڑا نہیں
فراق یار کیا ہے، سو طرح کی ایک بیماری
ان کے مدّاح اس زمانے میں
جبین وزلف حسن محو خواب دیکھتا ہوں میں
اگر بسمل اگر گھائل نہ ہوگی
تم نے شعروں سے ہرن مارے ہیں
بہار آنے کے بعد جن کا چمن کا پھیر انہیں ہوا ہے
لیکن اتنی بات ہے
رخنہ کار امن عالم جو بھی ہو بد ذات ہے
متفرق اشعار
شاد عارفی نے اپنی نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے
نظمیں
سلام بحضور سلطان مدینہ
سلام
شادی کے بعد
بہتان
دسہرہ اشنان
فلمی محبت
شوفر
نمائش
نمائش
نمائش
نمائش
واپسی
مشورہ
اندھیر نگری
بیٹے کی شادی پر
نوروز
گنگا اشنان
دیوالی
مہترانی
بھکارن
ساس بہو
ساس
رت جگا
شادی سے پہلے
سالی
مال روڈ
مرے محلّے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری
شکار ماہی
مال زاد یاں اور دلّال
ملازمہ
مرید کی بیوی
وہ کافرہ
ابھی جبل پور جل رہا ہے
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
جنس جمیل
پرانے کوٹ
نصف بہتر
ان اونچے اونچے محلوں میں
رنگیلے راجا کی موت
اختلافات
پروڈیوسر
رسمی قید خانے
تادیب
خوشامد
روٹی
حیوان ناطق
غدّار
حرّیت
ادبار آتا ہے
دادی اور پوتی
شہر اور دیہات
سماج
مندرجانےوالی
مغرب زدگی
فسانۂ ناتمام
گوالن
وفائےوعدہ
گاؤں
دخت کش
پیارے بچو
شہرسے دور
مالن
سبق
گل کاری تصوّر
نفسیات سرما
بیوہ
گیہوں نے کہا
آج کل
ایک بیمار بیوہ کو دیکھ کر
جبر و قدر
رخصت ہوئی سہیلی
موج تبسّم
مقامات شاعر
آپ کی تعریف
گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل
یہ عبادت یہ رسوم
شب برأت
ہلال رمضان
پہلا روزہ
ٹکڑ گدے
دیہاتی لاری
شطرنج
پیشے ملے تو جوش
میرا حصّہ دور کا جلوہ
اضطرار
ہلال عید
ہولی
فاروق اعظم
قسط دوم
قسط سوم
قسط چہارم
ایک سوال
مفارقت
یوم محمد علی جوہر
جہیز
مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے
عورت
غمّازہ
نظم
بسنت
تثلیث
سگریٹ
ہمارے نوجواں
بحث
خط کی چوری
یاران سیاست سے
اپدیش
ساون بیت چکا ہے کنتو
برسات کی شروعات
جنگ زرگری
یہ ہماری زبان ہے پیارے
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
اتوائ سے اجراء تک
چاند کی نو آبادی
مگر عورت کا دل کتنا!
آپ تو گھورنے لگے ہم کو!
دیکھنے والا ہو تو
نظم مبارکبادی
سہرا
سہرا
نظم بہ طرز سہرا
سہرا
قطعہ تاریخ وفات
رباعیات وقطعات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.