فہرست
حیات شیفتہ و حسرتی
دیباچۂ دیوان
خواہاں ہوں بوے باغ تنزہ شمیم کا
ردیف الف
یہ فیض عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
کیا فائدہ نصیحت ناسود مند کا
کچھ انتظار مجھ کو نہ مے کا نہ ساز کا
نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
ہاے اس برق جہاں سوز پر پرانا دل کا
ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
سب حوصلہ جو صرف ہوا جور یار کا
آس بزم میں ہر چیز سے کم تر نظر آیا
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
قبر پر وہ بت گل فام آیا
آس سے میں شکوے کی جا شکر ستم کر آیا
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانب باغ
قطعہ
جفا و جور کا آس سے گلا کیا
قطعہ
کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
یار کو محروم تماشا کیا
آس جنبش ابرو کا گلا ہو نہیں سکتا
گور میں یاد قد یار نے سونے نہ دیا
آج ہی کیا آگ ہے سر گرم کیں تو کب نہ تھا
میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
بس کہ آغاز محبت میں ہوا کام اپنا
میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
جی داغ غم رشک سے جل جائے تو اچھا
تقلید عدو سے ہمیں ابرام نہ ہوگا
دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
کیا لائق زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
کل نغمہ گر جو مطرب جادو ترانہ تھا
ردیف با
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
دشمن سے ہے میرے دل مضطر کی شکایت
ردیف تا
ردیف ثا
اس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے
نہ کر فاش راز گلستاں عبث
اے شیفتہ نوید شب غم سحر ہے آج
ردیف جیم
ردیف جیم فارسی
شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
ردیف حا
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
ردیف خا
ردیف ذال
ردیف دال
طلب بوسہ پر اس لب سے شکر آب لذیذ
روز غم میں کیا قیامت ہے شب عشرت کی یاد
ردیف رے
وصل کے لطف اٹھاؤں کیوں کر
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ردیف زے
ہند کی وہ زمیں ہے عشرت خیز
دور رہنا ہم سے کب تک اور بے گانے کے پاس
ردیف سین
آٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستان باد فروش
ردیف شین
ردیف صاد
آن کو دشمن سے ہے محبت خاص
ردیف ضاد
ہے دل کو یوں ترے دم اعجاز اثر سے فیض
ردیف طا
لازم ہے بے وفا تجھے اہل وفا سے ربط
ردیف ظا
ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
ردیف عین
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیاے شمع
ردیف غین
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
ردیف فا
واں ہوا پردہ آٹھانا موقوف
ردیف قاف
پابندئ وحشت میں ہیں زنجیر کے مشتاق
ردیف کاف
رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آکے لب تلک
طالع خفتۂ دشمن نہ جگانا شب وصل
ردیف لام
اصحاب درد کو ہے عجب تیزی خیال
یاں کے آنے میں نہی ں ان کو جو تمکیں کا خیال
قطعہ
یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہ
بلبل کو بھی نہیں ہے دماغ صداے گل
گہ ہم سے خفا وہ ہیں گہے ان سے خفا ہم
ردیف میم
مر گئے ہیں جو ہجر یار میں ہم
بچتے ہیں اس قدر جو ادھر کی ہوا سے ہم
کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
ردیف نون
کچھ درد ہے مطربوں کی کے میں
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
مانا سحر کو یار اسے یاں جلوہ گر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
کب ہاتھ کو خیال جزاے رفو نہیں
کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
ہم سے آزاد روش ہاتھ میں زر رکھتے ہیں
گرم جوشی ہے مگر فرق شرارت میں نہیں
نہ سجدہ ریز ہیں اعدا جو سر جھکاتے ہیں
ہے ستم کے رشک کا ان کے گماں میں امتحاں
تنگ تھی جا خاطر ناشاد میں
اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
خوش رو بد خو ہیں کیا میں چاہوں
عہد ثبات عہد پہ ہے متصل، نہیں
کن حسرتوں سے مرتے ہیں ہم، تم کو غم نہیں
مجھے عاشق جو دیکھا پیر کنعاں نے جوانی میں
کب نگہ اس کی عشوہ بار نہیں
کون ہے جو کام ہوس یاب نہیں
کون سے دن تری یاد اے بت سفاک نہیں
ناز و تمکیں ہے وہاں صبر کی یاں تاب نہیں
جی جائے پر جفا میں ہمارا زیاں نہیں
دل کا گلہ، فلک کی شکایت، یہاں نہیں
آرام سے ہے کون، جہان خراب میں
شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں
نا چار میں خموش وہ ناحق عتاب میں
گرکچھ خلل نہ آئے تمہارے فراغ میں
پائی ہے بوے دوست عنادل نے باغ میں
ہم سے جو ہو غبار تو دشمن سے صاف ہو
ردیف واؤ
فروغ مہر نہ ہو رخ پہ گرنقاب نہ ہو
غیر سے حرف تمنا ے جفا کہتے ہو!
ربط واں ہاتھ کو جب غیر کے دامان سے ہو
اضطراب جرس ہے کیوں دل کو
اے فلک یوں کامیاب عیش کر پرویز کو
اے دل جو ہو، سو ہونے دے، گرم فغاں نہ ہو
ہے بدبلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو
تہمت لگا کر ان کو کوئی کیا خجل نہ ہو
کچھ پیچ و تاب دل کا جبیں پر اثر نہ ہو
جب تک وہ مہر جلوہ یہاں جلوہ گر نہ ہو
نفس سرکش کی کسی ڈھب سے رعونت کم ہو
آٹھ، صبح ہوئی، مرغ چمن نغمہ سرا دیکھ
ردیف ھا
ردیف یا
کہوں میں کیا کہ کیا درد نہاں ہے
اگلے رشک ان کو یاد آنے لگے!
اور الفت بڑھ گئی اب اس ستم ایجاد سے
پھر محرک ستم شعاری ہے
وہاں پہنچنے کی منت دم صبا پر ہے
فصل گل ہے مے کدے کا سازو ساماں چاہیے
کیوں کر مجھے خط رقم کریں گے
دن سے یہاں آنے کی تدبیر ہے
کہا کہ تنگ ہوں اتنی بھی بد گمانی سے
دشمن ہمارا کون نہیں تیرے واسطے
عشق ذلت ہے تو ذلت ہی سہی
مجھ تازہ گرفتار نے فریاد زبس کی
دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
اس کا دل گر مرے جلنے سے پگھل جاتا ہے
ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
لطف اوروں پہ رہے ہم کو ستم بھی بس ہے
سجدے کی کسی در پہ تمنا نہیں رکھتے
پھر نصیحت کی کس کو تاب رہے
منہ بنائے ہوئے اس کو سے گزر کرتا ہے
عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
وہ جو اٹھے جان رخصت ہوگئی
ملنے کا مرے اور ترے چرچا نہ کریں گے
کیوں نہ مجھ کو مرض یاس کی شدت ہو جاے
ہے ستم واقف ہو میرے حال کی تغییر سے
ظالم کبھی تو داد دل و چشم تر ملے
ابر دریوزہ گر آب ہے اکثر ہم سے
دل لیا جس نے بے وفائی کی
اپنی شوخی کی بھی خبر کچھ ہے
نازکی کیا ہوئی ، کیوں غش نہیں، کیا صورت ہے
آؤ مل جاؤ لڑائی ہو چکی
زہر سے ایاس سے ، تلدوار سے
لطف ظاہر ہے مرے آزار سے
ترک ہونا یار اور اغیار سے
کچھ بات راز کی ہے ذرا پاس آئیے
لب میں اگر نہیں تو ہمارے سخن میں ہے
میرے خوشی کا ان کو نہایت خیال ہے
ہوا نہ مد نظر چشم یار کے بدلے
ایام ہجر میں جو اجل کا خیال ہے
تری خوبیاں غیر کیا جانتا ہے
فقط یار جور وجفا جانتا ہے
سمجھ لے اور کوئی دن رقیب خوار مجھے
ابھی کہوں تو کریں لوگ شرم سار مجھے
سحر گئے جو وہ گل گشت گل ستاں کے لیے
جو کوے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے
پروانہ وار جلنا دستور ہے ہمارا
فردیات
دن کو دکھلاتے ہیں حسن آتش افشاں کی بہار
شیفتہ کا غیر مطبوعہ کلام
روز گر جاتے تو کیا کچھ نہ دکھاتے دیکھا
اپنی تیغ نگہ کی آب کو دیکھ
گرکیجے اس پری کی بیاں داستان رقص
اگر طلب کرے وہ مہ عذار آئینہ
متفرق فردیات
رباعیات
مثنویات
نظم
ہاے دہلی و زہے دل شدگان دہلی
اختلاف نسخ
اختلاف نسخ
نثر خاتمہ
فہرست
حیات شیفتہ و حسرتی
دیباچۂ دیوان
خواہاں ہوں بوے باغ تنزہ شمیم کا
ردیف الف
یہ فیض عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
کیا فائدہ نصیحت ناسود مند کا
کچھ انتظار مجھ کو نہ مے کا نہ ساز کا
نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
ہاے اس برق جہاں سوز پر پرانا دل کا
ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
سب حوصلہ جو صرف ہوا جور یار کا
آس بزم میں ہر چیز سے کم تر نظر آیا
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
قبر پر وہ بت گل فام آیا
آس سے میں شکوے کی جا شکر ستم کر آیا
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانب باغ
قطعہ
جفا و جور کا آس سے گلا کیا
قطعہ
کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
یار کو محروم تماشا کیا
آس جنبش ابرو کا گلا ہو نہیں سکتا
گور میں یاد قد یار نے سونے نہ دیا
آج ہی کیا آگ ہے سر گرم کیں تو کب نہ تھا
میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
بس کہ آغاز محبت میں ہوا کام اپنا
میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
جی داغ غم رشک سے جل جائے تو اچھا
تقلید عدو سے ہمیں ابرام نہ ہوگا
دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
کیا لائق زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
کل نغمہ گر جو مطرب جادو ترانہ تھا
ردیف با
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
دشمن سے ہے میرے دل مضطر کی شکایت
ردیف تا
ردیف ثا
اس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے
نہ کر فاش راز گلستاں عبث
اے شیفتہ نوید شب غم سحر ہے آج
ردیف جیم
ردیف جیم فارسی
شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
ردیف حا
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
ردیف خا
ردیف ذال
ردیف دال
طلب بوسہ پر اس لب سے شکر آب لذیذ
روز غم میں کیا قیامت ہے شب عشرت کی یاد
ردیف رے
وصل کے لطف اٹھاؤں کیوں کر
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ردیف زے
ہند کی وہ زمیں ہے عشرت خیز
دور رہنا ہم سے کب تک اور بے گانے کے پاس
ردیف سین
آٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستان باد فروش
ردیف شین
ردیف صاد
آن کو دشمن سے ہے محبت خاص
ردیف ضاد
ہے دل کو یوں ترے دم اعجاز اثر سے فیض
ردیف طا
لازم ہے بے وفا تجھے اہل وفا سے ربط
ردیف ظا
ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
ردیف عین
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیاے شمع
ردیف غین
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
ردیف فا
واں ہوا پردہ آٹھانا موقوف
ردیف قاف
پابندئ وحشت میں ہیں زنجیر کے مشتاق
ردیف کاف
رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آکے لب تلک
طالع خفتۂ دشمن نہ جگانا شب وصل
ردیف لام
اصحاب درد کو ہے عجب تیزی خیال
یاں کے آنے میں نہی ں ان کو جو تمکیں کا خیال
قطعہ
یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہ
بلبل کو بھی نہیں ہے دماغ صداے گل
گہ ہم سے خفا وہ ہیں گہے ان سے خفا ہم
ردیف میم
مر گئے ہیں جو ہجر یار میں ہم
بچتے ہیں اس قدر جو ادھر کی ہوا سے ہم
کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
ردیف نون
کچھ درد ہے مطربوں کی کے میں
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
مانا سحر کو یار اسے یاں جلوہ گر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
کب ہاتھ کو خیال جزاے رفو نہیں
کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
ہم سے آزاد روش ہاتھ میں زر رکھتے ہیں
گرم جوشی ہے مگر فرق شرارت میں نہیں
نہ سجدہ ریز ہیں اعدا جو سر جھکاتے ہیں
ہے ستم کے رشک کا ان کے گماں میں امتحاں
تنگ تھی جا خاطر ناشاد میں
اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
خوش رو بد خو ہیں کیا میں چاہوں
عہد ثبات عہد پہ ہے متصل، نہیں
کن حسرتوں سے مرتے ہیں ہم، تم کو غم نہیں
مجھے عاشق جو دیکھا پیر کنعاں نے جوانی میں
کب نگہ اس کی عشوہ بار نہیں
کون ہے جو کام ہوس یاب نہیں
کون سے دن تری یاد اے بت سفاک نہیں
ناز و تمکیں ہے وہاں صبر کی یاں تاب نہیں
جی جائے پر جفا میں ہمارا زیاں نہیں
دل کا گلہ، فلک کی شکایت، یہاں نہیں
آرام سے ہے کون، جہان خراب میں
شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں
نا چار میں خموش وہ ناحق عتاب میں
گرکچھ خلل نہ آئے تمہارے فراغ میں
پائی ہے بوے دوست عنادل نے باغ میں
ہم سے جو ہو غبار تو دشمن سے صاف ہو
ردیف واؤ
فروغ مہر نہ ہو رخ پہ گرنقاب نہ ہو
غیر سے حرف تمنا ے جفا کہتے ہو!
ربط واں ہاتھ کو جب غیر کے دامان سے ہو
اضطراب جرس ہے کیوں دل کو
اے فلک یوں کامیاب عیش کر پرویز کو
اے دل جو ہو، سو ہونے دے، گرم فغاں نہ ہو
ہے بدبلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو
تہمت لگا کر ان کو کوئی کیا خجل نہ ہو
کچھ پیچ و تاب دل کا جبیں پر اثر نہ ہو
جب تک وہ مہر جلوہ یہاں جلوہ گر نہ ہو
نفس سرکش کی کسی ڈھب سے رعونت کم ہو
آٹھ، صبح ہوئی، مرغ چمن نغمہ سرا دیکھ
ردیف ھا
ردیف یا
کہوں میں کیا کہ کیا درد نہاں ہے
اگلے رشک ان کو یاد آنے لگے!
اور الفت بڑھ گئی اب اس ستم ایجاد سے
پھر محرک ستم شعاری ہے
وہاں پہنچنے کی منت دم صبا پر ہے
فصل گل ہے مے کدے کا سازو ساماں چاہیے
کیوں کر مجھے خط رقم کریں گے
دن سے یہاں آنے کی تدبیر ہے
کہا کہ تنگ ہوں اتنی بھی بد گمانی سے
دشمن ہمارا کون نہیں تیرے واسطے
عشق ذلت ہے تو ذلت ہی سہی
مجھ تازہ گرفتار نے فریاد زبس کی
دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
اس کا دل گر مرے جلنے سے پگھل جاتا ہے
ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
لطف اوروں پہ رہے ہم کو ستم بھی بس ہے
سجدے کی کسی در پہ تمنا نہیں رکھتے
پھر نصیحت کی کس کو تاب رہے
منہ بنائے ہوئے اس کو سے گزر کرتا ہے
عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
وہ جو اٹھے جان رخصت ہوگئی
ملنے کا مرے اور ترے چرچا نہ کریں گے
کیوں نہ مجھ کو مرض یاس کی شدت ہو جاے
ہے ستم واقف ہو میرے حال کی تغییر سے
ظالم کبھی تو داد دل و چشم تر ملے
ابر دریوزہ گر آب ہے اکثر ہم سے
دل لیا جس نے بے وفائی کی
اپنی شوخی کی بھی خبر کچھ ہے
نازکی کیا ہوئی ، کیوں غش نہیں، کیا صورت ہے
آؤ مل جاؤ لڑائی ہو چکی
زہر سے ایاس سے ، تلدوار سے
لطف ظاہر ہے مرے آزار سے
ترک ہونا یار اور اغیار سے
کچھ بات راز کی ہے ذرا پاس آئیے
لب میں اگر نہیں تو ہمارے سخن میں ہے
میرے خوشی کا ان کو نہایت خیال ہے
ہوا نہ مد نظر چشم یار کے بدلے
ایام ہجر میں جو اجل کا خیال ہے
تری خوبیاں غیر کیا جانتا ہے
فقط یار جور وجفا جانتا ہے
سمجھ لے اور کوئی دن رقیب خوار مجھے
ابھی کہوں تو کریں لوگ شرم سار مجھے
سحر گئے جو وہ گل گشت گل ستاں کے لیے
جو کوے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے
پروانہ وار جلنا دستور ہے ہمارا
فردیات
دن کو دکھلاتے ہیں حسن آتش افشاں کی بہار
شیفتہ کا غیر مطبوعہ کلام
روز گر جاتے تو کیا کچھ نہ دکھاتے دیکھا
اپنی تیغ نگہ کی آب کو دیکھ
گرکیجے اس پری کی بیاں داستان رقص
اگر طلب کرے وہ مہ عذار آئینہ
متفرق فردیات
رباعیات
مثنویات
نظم
ہاے دہلی و زہے دل شدگان دہلی
اختلاف نسخ
اختلاف نسخ
نثر خاتمہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔