سرورق
مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات
منقبت جناب امیر المومنین علیہ السلام
قصیدۂ فارسی بمدح خدا وند نعمت جناب منشی نو لکشور صاحب دام اقبالہ
جامع اقبال وجاہ وحشمت وعالیجناب
اے ضیائے ہر دوچشم ماہتاب وآفتاب
اے معدن سخاوعطا حاتم زبان
قصیدۂ دیگر بزبان اردو تبو صیف موصوف الیہ
بیخبر ہو دونوں عالم سے سوائے مصطفا
نتائج طبع حضرت مصنف
خدا کی حمد کرنے میں رہا قاصر سخن اپنا
غزل تحمید یہ ازرای سوبھارام صاحب وصفی تخلص والد ماجد حضرت مصنف
ہمسے موزون ہوئی وصف رخ تابان کیا کیا
ظلم سے تیرے یہ تنگ اوستم ایجاد آیا
تیری الفت میں صنم یہ حال میرا ہوگیا
میرے دلکو اندنوں اک بت کا سودا ہوگیا
بیان ہو وصف کس سے اوس پر یروسر وقامت کا
جب دم نزع عیادت کو وہ دلبر آیا
ہے قدر غیر کی میرا وقارتک نرہا
کس دل میں یار عشق کا تیرے اثر نتھا
اس سنگدل کے دل میں محبت نے گھر کیا
وصلت کہاں کی شوق ہی میں کام ہوگیا
کھینچے کسطرح سے نقشہ وہ مری جانی کا
ساقی غنشہ دہن جب رونق بستان ہوا
جو وہ خورشید رو درتک کبھی جلوہ نما ہوگا
چھولیا دامن ترے فتراک کا
دیکھا ہے جلوہ اسنے رخ بے نقاب کا
کرم مجھپر بھی اے رشک قمر ہوتا تو کیا ہوتا
کب معرکۂ شعر سے سرکا قدم اپنا
نور افشان کا ترے ایسا نمایاں ہوگیا
چھد گیا ہے یار کے تیر نظر سے دیکھنا
کسید دیکھ نو عالم مری بیتائی دل کا
تو سن جوش جنون خواہان ہے پھر مہمیز کا
نام عنقا جہان ہور ہبر کا
آغاز عشق ہی میں خفا وہ صنم ہوا
خوارو ذلیل بھی سربازار ہوچکا
بیان کس سے کریں اندوہ فرقت ہم جوانی کا
اسقدر میں مورد لطف وغنایت ہوگیا
ہم سخن جس سے وہ یار بے دہان ہوجائیگا
نخل امید میں ثمر آیا
جلا تمام بدن پر نہیں دھواں پیدا
آتش غم سے اگر ہر عضو تن جلجائگا
جھڑ کی نہیں دیتے ہیں کہ غصّا نہیں ہوتا
ہر لفظ میں عالم ہے عقیق یمنی کا
جب تک مجھ سے بکدر وہ بت پر فن رہا
احسان یہ مجھ پہ ہے مرے بخت سعید کا
دلنشین عشق بت غار تگر دین ہوگیا
قیدی یہ دل زار ہے زلفوں کی رسن کا
جانب تزئین ابھی دل آتے آتے آئیگا
پھیرتا حلق پہ خنجر ہے جو ٹھہرا ٹھہرا
میں جاتا آپ سے گروصل کا پیام آتا
گوتھا دانشمند پر موذی کے دم میں آگیا
بیان کیا وصف کیجے ناوک اندازی جانان کا
آنکھوں میں مری جان ہے منکا بھی ڈھککا
کیوں نہ سمجھوں اونکو پتلا نور کا
زبان بھی صاف ہوتی کچھ تجھے طرز سخن آتا
دیکھنے والوں سے بیکار ہے پروا اونکا
ہر روز ترقی پہ ہے سودا مرے دل کا
ردیف الباء موحدہ
اونکے آگے کیوں ہے تنویر شعاع آفتاب
تا زبان آیا رہا مطلب
جتنا تھا شوق شہادت میں مرا دل بیتاب
سب کی نظروں سے نہاں رہتے ہیں آپ
عشق صادق نے دکھایا یہ اثر آپ سے آپ
ردیف الباء فارسی
آہ میں کچھ نظر آئی نہ اثر کی صورت
ردیف التاء فوقانیہ
غیرت برج قمر ہو یہ مکان آجکی رات
ہے خوفناک منزل عشق بتاں بہست
درد دل ہوتا ہے رہ رہ کے سوا کیا باعث
ردیف الجیم
ردیف الثاء مثلثہ
یا خدا مجھ کو ملا دے مرے دلدار سے آج
ردیف الحاء مہملہ
جو آیا رات کو وہ مہ لقا قمر کیطرح
عالم ہی کو نہیں ہے کچھ اے ماہر وپسند
ردیف الدال مہملہ
ہو نہ رسواے زمانہ مہ کامل کی طرح
کیا قہر ہے وہ جائینگے گھرو دو گھڑی کے بعد
عزیزو جان دی ہے ہمنے چشم مست دلبر پر
ردیف الراء مہملہ
رخ ترا یاد آگیا گل دیکھکر
نہیں ہے اے دل ناشاد مسی لعل جاناں پر
چشم ترکے سامنے گر آئے ابر
ردیف الزاء معجمہ
آیا نہ میرے گھر میں وہ رشک قمر ہنوز
انکی فرقت کا جو ہے رنج ومحن ابکے برس
دکھلائی تھی جب آہ تنے تاثیر چند روز
ردیف السین مہملہ
ردیف الطاء مہملہ
پہونچے کسطرح سے ہمارا خط
انکے رخ سے ہوگئی بے نور شمع
روشن کرے جو ہاتھ سے وہ گلعذار شمع
ردیف العین مہملہ
میرا ہی دل ہے یہ کہ ہیں جپر ہزارداغ
گلشن میں جا کے ہمنے جب اسکو دکھاے داغ
ردیف الغین معجمہ
دیکھتے ہیں جب سے ہم رخسار جاناں کی طرف
ردیف الفاء
ردیف الکاف
کچھ دور نہیں ہے وہ آئین مرے گھر تک
تیرے عاشق کی کجی کرتی ہے تقدیر ابتک
ردیف اللام
وہ دل اب ہے کب دل لگانے کے قابل
رہتی ہے رات دن یہی ابتو دعا سے دل
ردیف المیم
بیتاب ہورہے تھے جو درد جگر سے ہم
ردیف النون
جام حسرت جومئے وصل سے بھر لیتے ہیں
ننگ سے رکھتے ہیں مطلب نہ کچھ اب نام سے ہم
سمایا جب سے ہم وہ گلعذار آنکھوں میں
گل عارض نہ کبھی سیب ذقن دیتے ہیں
اونکے وعدوں کا اعتبار نہیں
جان جاتی ہے مری اونکو خبر کچھ بھی نہیں
یہی تھی عشق کی دولت مری زلور لڑکپن میں
مائل شمع رخ جانانہ ہوں
نام خدا درناز سے اترائے جاتے ہیں
معروف رہا کرتے ہیں وہ جورو جفا میں
بیخود وہ یوں ہیں نشۂ حسن شباب ہیں
رہی اک غیرت لیلی کی دل میں جستجو برسوں
غیروں سے قدر گھٹنے میں کب ہم بڑھے نہیں
خوے ناز و دلفریبی جو صنم رکھے نہیں
مونھ سے مونھ پیار میں آکر جو ملا دیتے ہیں
دیدۂ نمناک جس شب خونفشان ہوتا نہیں
واہ واہ کا شورآج اس انجمن میں کیوں نہیں
ردیف الواو
دلمیں اوس بانیٔ بیداد کے گھر ہونے دو
اگر دیکھا نہیں اوسنے کبھی رخسار دلبر کو
توقیر بڑھے سجدۂ شکرانہ ادا ہو
یارب مری تقدیر میں وہ دن بھی لکھا ہو
حسرت ہے کہ اسطرحسے جان اپنی فدا ہو
اک طرح کا غم ہو تو کہوں پوچھتے کیا ہو
گویا لب ناز سے جو وہ غنچہ دہن ہو
دم اعجاز کب تم ناز سے تیوری چڑھاتی ہو
گواونکے دلمیں وصل سے انکار کیوں نہ ہو
آئے جب روے کتابی کے برابر گیسو
سنگ دریا کا ہو گامرے سر کا تکیہ
ردیف الہاء ہوز
زخمی نگھ یار کا یہ دل تو نہیں ہے
ہم تو حلال ہوگئے تیغ نگاہ سے
پھر جائیگی اک آن میں مجھ بیگناہ سے
ایک کے دو دو کے ہونگے چاراو ٹھتے بیٹھتے
جب سے وہ خورشید طلعت رونق کا شانہ ہے
قید اسکی کچھ نہیں کعبہ ہے یا تبخانہ ہے
عشق ابر کا ہوا زلف رسا سے پہلے
نہ بھولا یاد کبھی دل سے باغبان میری
وہ خلوت ترک کرکے بزم میں اگر آئے
کہتے ہیں وہ قدا اپنا دکھا یا نکر ینگے
جل بجھتی ہے کیوں شمع یہ کیا دل سے لگی ہے
پھانسی کٹے گلے سے مرے حرص وآز کی
تمھاری بزم میں دیکھیں کب اپنی بار آئے
ظلم کا غم نہ شکایت مجھے بیداد کی ہے
شام کو گروہ نقاب رخ انور اولٹے
نر کون گا میں کبھی یاروں کی تدبیروں سے
تاب کب وعدۂ فردا کی ہے اے یار مجھے
تیر نگھ کسیکا مقرر نظر میں ہے
چشم جلوے سے ترے پر نور ہے
ہوں دفن مرکے کوچۂ جانان کے سامنے
تو نہ لپٹے جو مرے سینے سے
جو مرمٹے ترے کوچے سے فرد ہو کے اوٹھے
جو یاد زلف ورخ گلعذار آتی ہے
لگادی آگ اوسوز نہانی
بعد مردن رحم اے گلچین مقرر چاہیے
شب وصل اونھیں ضدا گر ہوگئی
دل دکھائے ہیں بتوں کے آہ کی تاثیر نے
نہیں معلوم کہاں جاتے ہیں مرنے والے
نہ کیا آہ نے اثر کچھ بھی
داد کو پہونچیں کرے ہمپہ جو بیداد کوئی
شراب سے ہے اگر زاہدو وضو باقی
رسم الفت کی مگر دنیا سے عنقا ہوگئی
ہرن ہیں نشے اپنے جام مے آنکھوں میں پر خون ہے
پڑا ہے محتسب بد مست ہر اک جام واژوں ہے
جب سے کیا ہے اوسنے فلک نے جدا مجھے
حیلے کی دم وصل یہ عادت نہیں اچھی
عشقبازی نہ چھوٹے گی دن سے
اونکے فرقت میں نہ موت آئی ندامت رہے گی
چلکے شمشیر خرام اے سروقامت رہ گئی
حسینوں سے تمنا اپنے دلکی کوئی کیا نکلے
کھلے کیا پیچ اوس زلف دوتا کے
گلے تمسے کریں کیا ہم جفا کے
پہلو میں جو وہ غیرت شمشاد نہیں ہے
غم فراق کا کھٹکا وصال یار میں ہے
لکھوں جو وصف ابروے خمدار یار کے
ابھی تڑپکر میں جان دونگا نجادمجھ سے ملال کرکے
کیوں دل سے بیوفا کی جدائی میں روئیے
اب نہ رغبت ہی رہی اونکو نہ چاہت میری
جو ہم موجد ہیں الفت کے تونکلی ہے جفا تم سے
اندنون گشت میں اوقات بسر ہوتی ہے
سر کے بھل جاتا ہوں یہ شوق شہادت دل میں ہے
تخلیہ میں اوٹھ چلو موقع نہیں محفل میں ہے
گونہیں غافل ہوں دم بھر وصل کی تدبیر سے
شیشۂ مے کا تصور کب ہماری دل میں ہے
بوسہ لب شیریں کا امداد نہیں کرتے
فقیر خانے مانا کہ آنہیں سکتے
مرنےپہ بھی ملیگی نہ کوئے بتاں مجھے
دیکھا نہ ایک رنگ پہ باغ جہاں کبھی
بنی تبخانہ میں اوس بت کی جب تصویر پتھر کی
الفت آفت ہوئی ہے جی کی
اے پریر و جو ترے درکا گدا ہوتا ہے
شب فراق میں رویا کیا سحر کے لیے
مرے ارمان نکلنے کی بھلا اب کون صورت ہے
اسطرح کے جینے سے حیا بھی نہیں آتی
خیال اسکا بھی دل میں ذرا جناب رہے
وحشت نے اپنے پاؤں جو زنداں میں رکھ لیے
کسیطرح سےہوا اونکو مرا خیال تو ہے
مخمس غزل حضرت ظل سبحانی خلیفہ الرحمانی سلطان نعالم وعالمیان واجد علیشاہ حلد اللہ ملکہ وسلطنتہ
برنگ روح قیام دل وجگر کیجے
رنگ لاتی ہے زمانے کی ہوا ایک نہ ایک
مخمس غزل جناب دلیر الدولہ بھادر عرف مرزا حیدر صاحب
مخمس غزل حاجی الحرمین شریفین نواب محمد کلب علیخان صاحب بہادر والی رام پور فرزند دلپذیر دولت انگلشیہ دام اقبالہ
تڑپتا ہے مریض عشق کیونکر دیکھتے جاؤ
مخمس غزل خواجۂ حیدر علی آتش مرحوم
مخمس غزل جناب او ستادی یار السلطان آفتاب الدولہ مہر الملک خواجہ ارشد علیخان بہادر شمس جنگ عرف خواجہ اسد متخلص بہ قلق
نقاب میں رخ پر نور کو چھپائے ہوئے
شیشلہ ٔ دل مئے الفت سے اوبلنے ندیا
مخمس غزل منشی جواہر سنگہ جو ہر تخلص
ہوئے نامور بے نشان کیسے کیسے
مسدّس اشعار ملا وحشی
دام میں زلف سیہ فام کے ہوں جیسے اسیر
تواریخ
متفرقات
اشعار تاسف رخصت جناب ونگیفلڈ صاحب بہادر چیف کمشنر اودھ
مہر سپھر جاہ وکرامت چیف کمشنر صاحب دولت
سہرا حسب ارشاد اوستادی جناب آفتاب الدولہ بہادر قلق دام فیضہ
مہکتا ہے خوشبو سے باغ جہان
قصیدہ بحضور جوڈیشل کمشنر بہادر
عجب طرح کی ہے آئی بہار ابکے سال
کرنیل مکندرو صاحب بھادر کمشنر سیتا پور
حضور آپکا اخلاق ہے وہ عالمگیر
کہاں ہے ساقی تو بہ شکن بہار آئی
رباعیات
درمدح محمد علیشاہ خلد اللہ ملکہ
تعریف فصل بہار
در تلازمۂ شراب
درتہنیست یوم دسہرہ
در تلازمۂ تیرو کمان
در تلازمۂ دوالی
در تعریف عیش باغ
تعریف ظروف چینی
تعریف تالاب حسین آباد مبارک
صفت کوٹھی ظفر الدولہ بہادر
رسید انبہ
رسید حقہ
صفت شب برات
صفت رسید پارچہا
رسید کیلہ
صفت انگور
رسید خربوزہ
تقریظ جادو تحریر
قطعۂ تاریخ
سرورق
مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات
منقبت جناب امیر المومنین علیہ السلام
قصیدۂ فارسی بمدح خدا وند نعمت جناب منشی نو لکشور صاحب دام اقبالہ
جامع اقبال وجاہ وحشمت وعالیجناب
اے ضیائے ہر دوچشم ماہتاب وآفتاب
اے معدن سخاوعطا حاتم زبان
قصیدۂ دیگر بزبان اردو تبو صیف موصوف الیہ
بیخبر ہو دونوں عالم سے سوائے مصطفا
نتائج طبع حضرت مصنف
خدا کی حمد کرنے میں رہا قاصر سخن اپنا
غزل تحمید یہ ازرای سوبھارام صاحب وصفی تخلص والد ماجد حضرت مصنف
ہمسے موزون ہوئی وصف رخ تابان کیا کیا
ظلم سے تیرے یہ تنگ اوستم ایجاد آیا
تیری الفت میں صنم یہ حال میرا ہوگیا
میرے دلکو اندنوں اک بت کا سودا ہوگیا
بیان ہو وصف کس سے اوس پر یروسر وقامت کا
جب دم نزع عیادت کو وہ دلبر آیا
ہے قدر غیر کی میرا وقارتک نرہا
کس دل میں یار عشق کا تیرے اثر نتھا
اس سنگدل کے دل میں محبت نے گھر کیا
وصلت کہاں کی شوق ہی میں کام ہوگیا
کھینچے کسطرح سے نقشہ وہ مری جانی کا
ساقی غنشہ دہن جب رونق بستان ہوا
جو وہ خورشید رو درتک کبھی جلوہ نما ہوگا
چھولیا دامن ترے فتراک کا
دیکھا ہے جلوہ اسنے رخ بے نقاب کا
کرم مجھپر بھی اے رشک قمر ہوتا تو کیا ہوتا
کب معرکۂ شعر سے سرکا قدم اپنا
نور افشان کا ترے ایسا نمایاں ہوگیا
چھد گیا ہے یار کے تیر نظر سے دیکھنا
کسید دیکھ نو عالم مری بیتائی دل کا
تو سن جوش جنون خواہان ہے پھر مہمیز کا
نام عنقا جہان ہور ہبر کا
آغاز عشق ہی میں خفا وہ صنم ہوا
خوارو ذلیل بھی سربازار ہوچکا
بیان کس سے کریں اندوہ فرقت ہم جوانی کا
اسقدر میں مورد لطف وغنایت ہوگیا
ہم سخن جس سے وہ یار بے دہان ہوجائیگا
نخل امید میں ثمر آیا
جلا تمام بدن پر نہیں دھواں پیدا
آتش غم سے اگر ہر عضو تن جلجائگا
جھڑ کی نہیں دیتے ہیں کہ غصّا نہیں ہوتا
ہر لفظ میں عالم ہے عقیق یمنی کا
جب تک مجھ سے بکدر وہ بت پر فن رہا
احسان یہ مجھ پہ ہے مرے بخت سعید کا
دلنشین عشق بت غار تگر دین ہوگیا
قیدی یہ دل زار ہے زلفوں کی رسن کا
جانب تزئین ابھی دل آتے آتے آئیگا
پھیرتا حلق پہ خنجر ہے جو ٹھہرا ٹھہرا
میں جاتا آپ سے گروصل کا پیام آتا
گوتھا دانشمند پر موذی کے دم میں آگیا
بیان کیا وصف کیجے ناوک اندازی جانان کا
آنکھوں میں مری جان ہے منکا بھی ڈھککا
کیوں نہ سمجھوں اونکو پتلا نور کا
زبان بھی صاف ہوتی کچھ تجھے طرز سخن آتا
دیکھنے والوں سے بیکار ہے پروا اونکا
ہر روز ترقی پہ ہے سودا مرے دل کا
ردیف الباء موحدہ
اونکے آگے کیوں ہے تنویر شعاع آفتاب
تا زبان آیا رہا مطلب
جتنا تھا شوق شہادت میں مرا دل بیتاب
سب کی نظروں سے نہاں رہتے ہیں آپ
عشق صادق نے دکھایا یہ اثر آپ سے آپ
ردیف الباء فارسی
آہ میں کچھ نظر آئی نہ اثر کی صورت
ردیف التاء فوقانیہ
غیرت برج قمر ہو یہ مکان آجکی رات
ہے خوفناک منزل عشق بتاں بہست
درد دل ہوتا ہے رہ رہ کے سوا کیا باعث
ردیف الجیم
ردیف الثاء مثلثہ
یا خدا مجھ کو ملا دے مرے دلدار سے آج
ردیف الحاء مہملہ
جو آیا رات کو وہ مہ لقا قمر کیطرح
عالم ہی کو نہیں ہے کچھ اے ماہر وپسند
ردیف الدال مہملہ
ہو نہ رسواے زمانہ مہ کامل کی طرح
کیا قہر ہے وہ جائینگے گھرو دو گھڑی کے بعد
عزیزو جان دی ہے ہمنے چشم مست دلبر پر
ردیف الراء مہملہ
رخ ترا یاد آگیا گل دیکھکر
نہیں ہے اے دل ناشاد مسی لعل جاناں پر
چشم ترکے سامنے گر آئے ابر
ردیف الزاء معجمہ
آیا نہ میرے گھر میں وہ رشک قمر ہنوز
انکی فرقت کا جو ہے رنج ومحن ابکے برس
دکھلائی تھی جب آہ تنے تاثیر چند روز
ردیف السین مہملہ
ردیف الطاء مہملہ
پہونچے کسطرح سے ہمارا خط
انکے رخ سے ہوگئی بے نور شمع
روشن کرے جو ہاتھ سے وہ گلعذار شمع
ردیف العین مہملہ
میرا ہی دل ہے یہ کہ ہیں جپر ہزارداغ
گلشن میں جا کے ہمنے جب اسکو دکھاے داغ
ردیف الغین معجمہ
دیکھتے ہیں جب سے ہم رخسار جاناں کی طرف
ردیف الفاء
ردیف الکاف
کچھ دور نہیں ہے وہ آئین مرے گھر تک
تیرے عاشق کی کجی کرتی ہے تقدیر ابتک
ردیف اللام
وہ دل اب ہے کب دل لگانے کے قابل
رہتی ہے رات دن یہی ابتو دعا سے دل
ردیف المیم
بیتاب ہورہے تھے جو درد جگر سے ہم
ردیف النون
جام حسرت جومئے وصل سے بھر لیتے ہیں
ننگ سے رکھتے ہیں مطلب نہ کچھ اب نام سے ہم
سمایا جب سے ہم وہ گلعذار آنکھوں میں
گل عارض نہ کبھی سیب ذقن دیتے ہیں
اونکے وعدوں کا اعتبار نہیں
جان جاتی ہے مری اونکو خبر کچھ بھی نہیں
یہی تھی عشق کی دولت مری زلور لڑکپن میں
مائل شمع رخ جانانہ ہوں
نام خدا درناز سے اترائے جاتے ہیں
معروف رہا کرتے ہیں وہ جورو جفا میں
بیخود وہ یوں ہیں نشۂ حسن شباب ہیں
رہی اک غیرت لیلی کی دل میں جستجو برسوں
غیروں سے قدر گھٹنے میں کب ہم بڑھے نہیں
خوے ناز و دلفریبی جو صنم رکھے نہیں
مونھ سے مونھ پیار میں آکر جو ملا دیتے ہیں
دیدۂ نمناک جس شب خونفشان ہوتا نہیں
واہ واہ کا شورآج اس انجمن میں کیوں نہیں
ردیف الواو
دلمیں اوس بانیٔ بیداد کے گھر ہونے دو
اگر دیکھا نہیں اوسنے کبھی رخسار دلبر کو
توقیر بڑھے سجدۂ شکرانہ ادا ہو
یارب مری تقدیر میں وہ دن بھی لکھا ہو
حسرت ہے کہ اسطرحسے جان اپنی فدا ہو
اک طرح کا غم ہو تو کہوں پوچھتے کیا ہو
گویا لب ناز سے جو وہ غنچہ دہن ہو
دم اعجاز کب تم ناز سے تیوری چڑھاتی ہو
گواونکے دلمیں وصل سے انکار کیوں نہ ہو
آئے جب روے کتابی کے برابر گیسو
سنگ دریا کا ہو گامرے سر کا تکیہ
ردیف الہاء ہوز
زخمی نگھ یار کا یہ دل تو نہیں ہے
ہم تو حلال ہوگئے تیغ نگاہ سے
پھر جائیگی اک آن میں مجھ بیگناہ سے
ایک کے دو دو کے ہونگے چاراو ٹھتے بیٹھتے
جب سے وہ خورشید طلعت رونق کا شانہ ہے
قید اسکی کچھ نہیں کعبہ ہے یا تبخانہ ہے
عشق ابر کا ہوا زلف رسا سے پہلے
نہ بھولا یاد کبھی دل سے باغبان میری
وہ خلوت ترک کرکے بزم میں اگر آئے
کہتے ہیں وہ قدا اپنا دکھا یا نکر ینگے
جل بجھتی ہے کیوں شمع یہ کیا دل سے لگی ہے
پھانسی کٹے گلے سے مرے حرص وآز کی
تمھاری بزم میں دیکھیں کب اپنی بار آئے
ظلم کا غم نہ شکایت مجھے بیداد کی ہے
شام کو گروہ نقاب رخ انور اولٹے
نر کون گا میں کبھی یاروں کی تدبیروں سے
تاب کب وعدۂ فردا کی ہے اے یار مجھے
تیر نگھ کسیکا مقرر نظر میں ہے
چشم جلوے سے ترے پر نور ہے
ہوں دفن مرکے کوچۂ جانان کے سامنے
تو نہ لپٹے جو مرے سینے سے
جو مرمٹے ترے کوچے سے فرد ہو کے اوٹھے
جو یاد زلف ورخ گلعذار آتی ہے
لگادی آگ اوسوز نہانی
بعد مردن رحم اے گلچین مقرر چاہیے
شب وصل اونھیں ضدا گر ہوگئی
دل دکھائے ہیں بتوں کے آہ کی تاثیر نے
نہیں معلوم کہاں جاتے ہیں مرنے والے
نہ کیا آہ نے اثر کچھ بھی
داد کو پہونچیں کرے ہمپہ جو بیداد کوئی
شراب سے ہے اگر زاہدو وضو باقی
رسم الفت کی مگر دنیا سے عنقا ہوگئی
ہرن ہیں نشے اپنے جام مے آنکھوں میں پر خون ہے
پڑا ہے محتسب بد مست ہر اک جام واژوں ہے
جب سے کیا ہے اوسنے فلک نے جدا مجھے
حیلے کی دم وصل یہ عادت نہیں اچھی
عشقبازی نہ چھوٹے گی دن سے
اونکے فرقت میں نہ موت آئی ندامت رہے گی
چلکے شمشیر خرام اے سروقامت رہ گئی
حسینوں سے تمنا اپنے دلکی کوئی کیا نکلے
کھلے کیا پیچ اوس زلف دوتا کے
گلے تمسے کریں کیا ہم جفا کے
پہلو میں جو وہ غیرت شمشاد نہیں ہے
غم فراق کا کھٹکا وصال یار میں ہے
لکھوں جو وصف ابروے خمدار یار کے
ابھی تڑپکر میں جان دونگا نجادمجھ سے ملال کرکے
کیوں دل سے بیوفا کی جدائی میں روئیے
اب نہ رغبت ہی رہی اونکو نہ چاہت میری
جو ہم موجد ہیں الفت کے تونکلی ہے جفا تم سے
اندنون گشت میں اوقات بسر ہوتی ہے
سر کے بھل جاتا ہوں یہ شوق شہادت دل میں ہے
تخلیہ میں اوٹھ چلو موقع نہیں محفل میں ہے
گونہیں غافل ہوں دم بھر وصل کی تدبیر سے
شیشۂ مے کا تصور کب ہماری دل میں ہے
بوسہ لب شیریں کا امداد نہیں کرتے
فقیر خانے مانا کہ آنہیں سکتے
مرنےپہ بھی ملیگی نہ کوئے بتاں مجھے
دیکھا نہ ایک رنگ پہ باغ جہاں کبھی
بنی تبخانہ میں اوس بت کی جب تصویر پتھر کی
الفت آفت ہوئی ہے جی کی
اے پریر و جو ترے درکا گدا ہوتا ہے
شب فراق میں رویا کیا سحر کے لیے
مرے ارمان نکلنے کی بھلا اب کون صورت ہے
اسطرح کے جینے سے حیا بھی نہیں آتی
خیال اسکا بھی دل میں ذرا جناب رہے
وحشت نے اپنے پاؤں جو زنداں میں رکھ لیے
کسیطرح سےہوا اونکو مرا خیال تو ہے
مخمس غزل حضرت ظل سبحانی خلیفہ الرحمانی سلطان نعالم وعالمیان واجد علیشاہ حلد اللہ ملکہ وسلطنتہ
برنگ روح قیام دل وجگر کیجے
رنگ لاتی ہے زمانے کی ہوا ایک نہ ایک
مخمس غزل جناب دلیر الدولہ بھادر عرف مرزا حیدر صاحب
مخمس غزل حاجی الحرمین شریفین نواب محمد کلب علیخان صاحب بہادر والی رام پور فرزند دلپذیر دولت انگلشیہ دام اقبالہ
تڑپتا ہے مریض عشق کیونکر دیکھتے جاؤ
مخمس غزل خواجۂ حیدر علی آتش مرحوم
مخمس غزل جناب او ستادی یار السلطان آفتاب الدولہ مہر الملک خواجہ ارشد علیخان بہادر شمس جنگ عرف خواجہ اسد متخلص بہ قلق
نقاب میں رخ پر نور کو چھپائے ہوئے
شیشلہ ٔ دل مئے الفت سے اوبلنے ندیا
مخمس غزل منشی جواہر سنگہ جو ہر تخلص
ہوئے نامور بے نشان کیسے کیسے
مسدّس اشعار ملا وحشی
دام میں زلف سیہ فام کے ہوں جیسے اسیر
تواریخ
متفرقات
اشعار تاسف رخصت جناب ونگیفلڈ صاحب بہادر چیف کمشنر اودھ
مہر سپھر جاہ وکرامت چیف کمشنر صاحب دولت
سہرا حسب ارشاد اوستادی جناب آفتاب الدولہ بہادر قلق دام فیضہ
مہکتا ہے خوشبو سے باغ جہان
قصیدہ بحضور جوڈیشل کمشنر بہادر
عجب طرح کی ہے آئی بہار ابکے سال
کرنیل مکندرو صاحب بھادر کمشنر سیتا پور
حضور آپکا اخلاق ہے وہ عالمگیر
کہاں ہے ساقی تو بہ شکن بہار آئی
رباعیات
درمدح محمد علیشاہ خلد اللہ ملکہ
تعریف فصل بہار
در تلازمۂ شراب
درتہنیست یوم دسہرہ
در تلازمۂ تیرو کمان
در تلازمۂ دوالی
در تعریف عیش باغ
تعریف ظروف چینی
تعریف تالاب حسین آباد مبارک
صفت کوٹھی ظفر الدولہ بہادر
رسید انبہ
رسید حقہ
صفت شب برات
صفت رسید پارچہا
رسید کیلہ
صفت انگور
رسید خربوزہ
تقریظ جادو تحریر
قطعۂ تاریخ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।