سرورق
کیا ہے میں نے بسم اللہ سے آغاز دیوان کا
جہاں میں کون ہے جس پر نہیں احسان احمد کا
سب پہ ظاہر ہے حال حیدر کا
وصل سے اس مہروش کے تبہ اعلا ہو گیا
ایک عالم کو بہار آتے ہی سودا ہو گیا
حائل ہے زیست وصل ہو اس جانجان سے کیا
شناور جانتا ہے بحر معنی آشنائی کا
یہ اہل کبر مٹے یاد گار تک نہ رہا
حضور یار ہمارا وقار تک نہ رہا
تیرا عاشق ہوں سلیماں ہے مقابل میرا
دل دام زلف میں جو پھنسا تھا پھنسا رہا
دل عکس رخ یار کی جا ہوں نہیں سکتا
قلت غم سے دل مشتاق غم کو غم ہوا
غم بھر مجھ کو جو شغل مے سر جوش رہا
بوسہ دیا نہ عارض روشن دکھا دیا
لکھتا ہوں وصف چشم بت بیمثال کا
شاید کہ شاد ہو کے وہ دے بوسہ خال کا
غیر کے پاس جو تو جا کے ذرا بیٹھ گیا
عبث نہیں ہے بہت بیقرار دل میرا
نشتر حسرت رگ جاں میں کھٹکتا جائے گا
رحم ہم پر بعد مردن بھی نہ کھایا جائے گا
وصف لکھا ہے جو اسکے پھول سے رخسار کا
باعث وحشت ہوا نظارہ قصر یار کا
لب شیریں کی محبت میں سفر کر ہی گیا
بہار آئی ہوا پھر زمانہ بلبل کا
اسنے گردن پہ پئے قتل جو خنجر رکھا
بدل گیا ترے آتے ہی ڈھنگ پھولوں کا
جوانی کا جوبن جو ڈھل جائگا
غل ہوا گھر سے جو باہر وہ طرح دار آیا
پڑتا ہے دلپر تیر سا نالہ ہزار کا
دل مرا کشمکش غم سے نڈر تھا کہ نہ تھا
پہلو لحد ہے مردہ ہے دل تیرے زار کا
نہ آئے وہ ہمیں مینہ فگار ہی رکھا
جبتک جیا فنا ہی کا کھٹکا لگا رہا
وحی ساں حاصل جواب خط اگر ہو جائیگا
روتے روتے آخر آنکھوں کا ضرر ہو جائیگا
کوئی تدبیر میں قصور نہ تھا
منہ چاہ زنخدان کو لگانے نہیں دیتا
سائل ہے جو دریا مری آنکھوں سے تری کا
میں حور کا طالب ہوں نہ خواہاں ہوں پری کا
ملک استغنا ملا جنگل کو میں راہی ہوا
ہر ایک کے گھر آپ کا جانا نہیں اچھا
سوز دل سے یہ ترے ہجر میں بیتاب ہوا
پانوں پر قاتل کے جب سر رکھدیا
اس بت کی دوستی میں نیا رنگ ہو گیا
ہم سے کیونکر وہ ہم سخن ہوتا
گلا کیوں ہجر میں اسکا نہ کرتا
بلا سے کیا ڈرے دل تیرے شیداے جفا کش کا
وحشت نے مجھ کو چرخ کا ہمسر بنا دیا
جاگ آنکھیں کھول دے سوتا ہےکیا
کون آئینہ رخسار کا حیراں نہ ہوا
دکھلا کے شکل خواب میں بیداد کر دیا
توڑ پئ اس ترک کے موے مژہ میں تیر کا
نور سے لے بے سایہ جسکا جسم عالی ہو گیا
خالی ازرنج نہیں روح کا تن سے جانا
تیرے پھندے سے نکلنا نہیں ممکن میرا
جاں بلب ہوں سر بالیں وہ اگر آئے گا
گفتگو میں جو خیال رخ جاناں ہوتا
کام کوئی نہ شب وصل ہمارا نکلا
تھی سیہ مست فنا شب اور میں ہشیار تھا
دیکھا جو بحر کو تو دوئی کا اثر ملا
درد فرقت سے تڑپ کر مر گیا اچھا ہوا
ہاتھ دل سے نہ ترے غم میں فقط دھو بیٹھا
درخت ہم نے بویا تھا آشنائی کا
غیروں کے آگے یار سے بوسہ طلب کیا
لطف شب آفتاب نکلتے ہوئے نہ تھا
ہے شب وصل سر شام نہ جانی سونا
عرصہ ترے بیمار کو اب کھینچ نہیں سکتا
کس شب انھیں شغل مے و مینا نہیں ہوتا
برتر ہے آسماں سے مقام ابوتراب
ہیں جو کاتب واقف راز نہاں عندلیب
طاقت آجائے جوان ہو جو پیے پیر شراب
ٹھہروں مجرم جو پیوں میں کبھی بے یار شراب
صدمے اٹھا اٹھا کے ہوں میں ناتواں بہت
انداز سخن خوب چلن خوب ادا خوب
جس صبح اٹھوں آئے نظر یار کی صورت
وہ دل کہاں کہ جس میں رہے آرزوے دوست
سنتے ہیں ہم وہ سنتے نہیں ہیں کسی کی بات
کہیں کیا کس قدر ہے دل خدا دوست
شمع اجل جلائے گی پروانۂ حیات
مجھ مشت پر سے ہے خلش اے باغباں عبث
تنگ ہے عارض کو اسکی ناز کی ہیں گل سے بحث
دکھا چہرہ ہے پردہ جانی عبث
جاتے ہیں کوے یار میں ہم بار بار آج
آیا ہے میرے گھر میں جو وہ گلزار آج
تیر ہے مژگاں قاتل تیر کی کیا احتیاج
کیونکر طبیعت سے ہو اس آزار کا علاج
ہزار شکر جہاں سے ہے اپنے رخصت آج
شام ہے ہر صبح آخر دہر میں ہر شام صبح
جب کوئی کہتا ہے ہم سے کون سا ہے خوب گنج
بوسۂ رخ جو لیا زلف پریشاں کی طرح
خزاں کا خوف کہاں ہے عجب بہار میں روح
کیا ہو پسند ہجر بت سیمبر میں صبح
شمع ایمن ہے وہ رخ برق تجلی ہے وہ رخ
کب مثل لعل یار ہے لعل نداب سرخ
مہتابی اس کا مکان کی ہے کس قدر بلند
خجلت سے تیرے آگے ہے رنگ چمن سفید
بیخود ہوں حوکی ہے نہ مجھ کو پری کی یاد
وصف گیسو ودہن ہے اے قمر طلعت پسند
ہم ہیں یوں محبس فکر زن و فرزند میں بند
بازوے یار پر جو تھا تعویذ
جان دیتا ہے دل پر داغ زلف یار پر
داغ سودا یوں عیاں ہے میرے جسم زار پر
یوں گیا تنہا مجھے وہ راحت جان چھوڑ کر
دنیا میں عیش و غم یہ ہے دارو مدار عمر
گزروں فرقت میں جومیں جانب گلشن ہو کر
پوچھو نہ کچھ جو ہجر میں صدمے ہیں جاں پر
اس پر پرونے جو منت کی بڑھائی زنجیر
اٹھا میں قید خانے سے دامن کو جھاڑ کر
لگایا اس مژہ نے تیر دل پر
کمر بندھی ہے ہماری عدم کے جانے پر
تیرے کوچے میں ہم اے یار نہ آئیں کیوں کر
روک لی تیغ اس نے جب مجھ نیم جانکو دیکھ کر
کبھی اے مہ نظر لطف و عنایت مجھ پر
دیکھ سکتا ہے کوئی کب تمہیں اے رشک قمر
قضا ہنستی ہے تدبیر و دوا پر
شب وصل صنم کا لطف ہو مجھ سے بیاں کیونکر
کہاں اب وادی وحشت سے جاؤں ناتواں ہو کر
سواری انکی دیکھیں کیوں نہ رہرو شادماں ہوکر
کہاں جاؤں چمن سے باغباں میں ناتواں ہو کر
تعجب شاعروں کو کیا ہے میری خوش کلامی پر
بلبل کا نطق بند ہے گفتار کے حضور
خواب میں کب تک کرے گا پانوں اے غافل دراز
دشت خالی ہوئے خونریز ہے وہ تیر ہنوز
کبھی جاتا ہوں جو اس بانی بیداد کے پاس
یوسف سے بھی سوا ہے مجھے میرا دل عزیز
آرزو گل کی نہ ہم کو ہے گلستاں کی ہوس
درہم کی ہے تلاش نہ دینار کی تلاش
فراق یار میں کرتا ہوں بار بار افسوس
شب وصل بت دلخواہ خاموش
زلف اگر دیکھے کرے اپنا دل مانوس رقص
عالم حیرت میں مجھ کو انجمن سے کیا غرض
وصف عارض میں جو ہو تحریر خط
رقم کیا ہے اسے ابتو اضطرار میں خط
ممکن نہیں ہے خار سے دامان کی احتیاط
کھیلنا اپنی جان پر ہے شرط
لفظ بمعنی ہیں سب املا غلط انشا غلط
تنگ آیا ہوں میں سن سنکے بیان واعظ
کون کہتا ہے کہ اعجاز بیان ہے واعظ
روشن ہے سب پہ گو نہ کہے کچھ زباں شمع
مرے دل کی طرح شب بھر جلی شمع
پھولے نہ لالہ باغ میں دکھلا کے چار داغ
مال کی ہم کو نہ دولت کی طمع
کیا جلاؤں مہروش تیرے مقابل میں چراغ
ہنگام سیر باغ جو آیا خیال زلف
خود نہیں جاتے ہیں ہم کوچۂ جاناں کی طرف
مجھے کوئی جہاں میں نہیں مبتلائے زلف
سمجھے اٹھا جو پردۂ دولت سرائے عشق
یارب کوئی جہاں میں نہ ہو مبتلائے عشق
روز شمار کے ہے برابر شب فراق
ہے عشق آب و رنگ گل روئے یار تک
سوز غم سے یہ مرے سینے میں جلتی ہے آگ
تلاش یار میں ہے رہ نما دل
اے دل سجھ کے بوسۂ زلف سیاہ مانگ
سر سے چلنا ہے دم تیغ پہ مشکل قاتل
ہم سے بھاگے گا جو تو سیکڑوں منزل قاتل
کس کو فراق یار میں ہے آرزوے گل
اس باغ میں ہوے تروتازہ ہزار پھول
ہر گز نہ ہو سکے ترے رخ سے دو چار چشم
ہو گئے ہیں ذبح تیغ غمزۂ قاتل سے ہم
اس آفت زمانہ سے ہو کر دو چار چشم
نہ مجھے کفر سے مطلب نہ ہے اسلام سے کام
شوق یوست میں تگاپوے زلیخا دیکھیں
اس کے کوچے میں اب نہ جائیں گے ہم
حال ابتر ہو تو گیسوئے رسا بن جاؤں
شعرا بندش مضمون کمر کی جانیں
بڑھ کے ہے جام جہاں بیں سے تماشا دل میں
وہ دل بھی کوئی دل ہے مکیں جس میں تو نہیں
فرق پیری میں ہے اب تاب و توانائی میں
یارروں کے برخلاف جو صحبت ہے ان دنوں
جیسے پابند زلف جاناں ہوں
کہتا ہوں شعر مدحت حسن ملیح میں
ذرے افشاں کے نہیں زلف بت بے پیر میں
خیر کیسی الفت زلف بت بے پیر میں
اس ستم پر خطر روز جزا ہے کہ نہیں
اس کے دیدار کی پیری میں بھی امید نہیں
کرتا ہے غیر شانہ اس زلف دل ستاں میں
روز آ آ کر ہوا دامن کی دیجاتا ہے کون
سوزش عشق سے بیتاب رہا کرتا ہوں
اس کے کوچے میں خاک جاؤں میں
روتا ہوں سوز دل سے عبث اضطراب میں
دیکھا جو عکس زلف کا جام شراب میں
شہرے عالم میں جو حضور کے ہیں
دل ہے خود مردہ تری بیداد کی حاجت نہیں
جہاں سے دل یہ خدایا اٹھائے بیٹھے ہیں
کوچۂ یار سے اٹھنے کو تو ہم اٹھتے ہیں
آئی نظر وہ چاند سی تصویر خواب میں
چبھ گئے ہیں دل میں یوں تیروں کے پیکاں سیکڑوں
پڑا ہے داغ الفت کا جو اے مجنوں ترے دل میں
زہاد بادہ کش ہوئے رائیں بدل گئیں
یاد اس حور لقا کی اگر آئے دل میں
بظاہر گو کہ دھبا لگ گیا اپنی طریقت میں
بہار آئی جنون کا جوش ہے صحرا کو جاتے ہیں
ہزار در سے ہم انکے اٹھائے جاتے ہیں
نہیں اپنا دل پر داغ قیدی اسکی کاکل میں
کب خیال رخ دلدار میں بیتاب نہیں
موجۂ باد بہاری اگر آباتے ہیں
کیوں بار بار جاؤں نہ میں کوے یار میں
مر کے آرام مجھ آوارہ کو دے خاک میں
جیسا کہ تیرہ گھر ہے مرا انتظار میں
ماہ کو کرتا ہے چاندی مہر کو زر آسماں
بات کب بے سروپا کہتے ہیں
قتل کر ڈالیں مجھے مہندی لگا کر ہاتھ میں
ثابت ہوا کہ تجھ سا جہاں میں حسیں نہیں
اول تو میں اس کو چیمیں جاؤں کہ نہ جاؤں
میں تو کہتا تھا کہ اس درد جگر کو کیا کہوں
نہ خوش ہوں سیر گلشن سے نہ جی لگتا ہے جنگل میں
ہوں وہ دیوانہ کہ زنداں میں جو گھبرتاہوں
کمر وہ بال جسے دیکھنے کی تاب نہیں
کسی سے دل کو لگا چکے ہیں ہم اپنی ہستی مٹا چکے ہیں
سحر ہوتی نہیں ہے کون شب اس دہر فانی میں
بے خیال یار زیب خانہ باغ دل نہیں
بتوں کی الفت میں دل ہے شیدا بچوں تو یاد خدا کروں میں
اس کے نظارہ سے کچھ محروم میرا دل نہیں
فہم انکا تمہیں اے اہل سخن کچھ بھی نہیں
ہے وہ گلچیں بہار گل رخسار کہ میں
سرقتل عاشق باوفا تمہیں کب نہ تھا کہ جواب میں
بہار لائی ہے دولت کو ساتھ گلشن میں
ربط اس سروقد سے کھیل نہیں
نہ میں دولت نہ حشمت چاہتا ہوں
اسقدر آنکھوں کو زشت آیا نظر روے وطن
ہماری عمر کے دن اس تفکر میں گزرتے ہیں
قفس کو اڑ کے ہم صحن چمن سے جانے والے ہیں
تیر مژگاں پہ نظر کرتا ہوں
نیند کیا ہجر میں آئے کسی پہلو مجھ کو
بسکہ ہے عشق رخ و الفت گیسو مجھ کو
ہے کوچۂ قاتل میں رواں دل کو بلالو
اس نے لکھا ہے کہ اپنا حال لکھ کر بھیج دو
وہ نالہ کر اے دل کہ عیاں جس سے اثر ہو
کیونکر دل مشتاق کو امید سخن ہو
کم نہیں قد میں درازی میں سرموگیسو
آہ کیونکر نہیں کرتی ہے اثر دیکھیں تو
سمجھے ہیں نخل ثمر دار مقرر مجھ کو
ہر سحر کوچۂ محبوب میں جانا مجھ کو
غضب کہ جا ہے کہ اتنا تمہیں خیال نہ ہو
آؤ خفا نہ ہو مرے کہنے کو مان لو
نظر آتا ہے مثل نے تھی اپنا دہن ہم کو
قفس میں ہے ہواے نغمہ سنجان چمن ہم کو
مے کے پینے سے ہے رونق اور حسن یار کو
شاد گلشن میں کرے جاکر کسی میخوار کو
تیر مژگاں لگاؤ گے کس کو
دولت کی سلطنت کی خزانیکی آرزو
دل بہت آج ہے اداس آؤ
ہے یہ رغبت جوش وحشت میں ترے پامال کو
کیا غضب تم نے کیا کرکے اشارے دل کو
ذرا جو دیکھ کے خنداں ہوروے جاناں کو
شب فرقت میں جو روتا ہوں مجھے رونے دو
نہ دو ایذا اسیران بلا کو
دل عالم کو نہ کرتے ہوے پامال چلو
نظر آجائے جدھر انکی سواری ہم کو
ان آنکھوں سے میں کیونکر دیکھ سکتا ہوں رہ دل کو
گزر گئی شب وصلت بس اک کلام کے ساتھ
بوالہوس کو دید روے یار سے کیا فائدہ
ہر جگہ ہیں یہ مرے داغ بدن میرے ساتھ
جیسے دیکھی ہم نے تیری کاکل مشکین سیاہ
ہوا قصہ شب فرقت کا کوتاہ
بہارآئی ہے اے ساقی شراب عشق مستی ہے
نگہ جب گوشۂ ستمگر سے نکلتی ہے
چھرے خوشی سے تیرے تپنچے کے کھائیں گے
تجھ کو قرار کیوں نہیں اے آسماں کبھی
یہ ہے حجاب کہ منھ روبرو نہیں کرتے
کس پری کا ہو گیا سایا مجھے
ہجر میں کیا کیا نہ پیش آیا مجھے
کیا خوب شکل اس بت کافر ادا کی ہے
تاثیر میرے جذب کی ہے یا دعا کی ہے
تاب غصے کی کہاں اے ستم ایجاد مجھے
اگر عاشق کا خون کرنا روا ہے
رنج و محن اٹھائیے ایذا اٹھائیے
خضر کو راہ بتاتی ہے جستجو تیری
شب وصل کیا مختصر ہوگئی
روک اے مرغ قفس اپنی زباں باتون سے
شب وصل کم اسقدر ہو گئی
خدا کی بڑی مجھ پہ رحمت ہوئی
ہمارے قتل کا غصہ سبب ہے
یارب یہ بلا ہجر کی سر سے کہیں ٹل جائے
اگر حجاب سے ظاہر میں آ نہیں سکتے
سینے پہ رہا کرتی ہے تصویر کسی کی
سوزش جو پس مرگ رہی تن میں ہمارے
جو سنے آنکھ سے بیساختہ آنسو نکلے
نہیں دیتے سرموابروے خمدار خنجر سے
اڑا نہ جاے جہاں جبرئیل کے پرسے
کبھی صحرا میں اگر بہر شکار آتا ہے
جھکیں گے مست دور شیشۂ پیمانہ آتا ہے
خانۂ صیاد سے صحن چمن نزدیک ہے
ہر گز یہ کل نہ ہوگا جو کچھ رنگ آج ہے
دل کو وہ زلف گرہ گیر پسند آئی ہے
اس رخپہ کوئی سوختہ جان کیا نظر کرے
جب تک سفر وطن سے نہ صاحب ہنر کرے
چاہیے تیرا ہے دلمیں غم رہے
نشان آہ لیلکر فوج غم کے ساتھ ہم نکلے
ہر چند کہ دل مائل فریاد و فغاں ہے
گانے میں لے رہے ہیں وہ تانیں نئی نئی
ہوے ہیں پیر اجل بالاے سر ہے
دیکھکر منہ کو جو اپنے وہ شکر خند کرے
تیرے آگے حسین کوئی کیا ہے
تیز رفتاری میں یہ وہم و گماں سے تیز ہے
الٰہی باغ میں کس کشتۂ قامت کی تربت ہے
تری تلوار نے موڑا اگر منہ کیا قباحت ہے
استعارے سے نہ کوئی شعر خالی چاہئے
چمن میں لیکے جو اس گل کی بو صبا آئی
وہ دم نزع جو آجائیں تماشا ہو جائے
محض اس کا دہن تو ہم ہے
بنانا چاہتا ہے تو جو سب سے اپنا گھر پہلے
دیکھتے ہیں ہم تماشاے بہار زندگی
دختر زر کی شب وروز دلاتاک رہے
مر کے راحت کا آسرا تو ہے
بنی ہے چین شکن زلف عنبریں کے لیے
ہے کون حسیں جسکی خبر ہم نہیں رکھتے
وہاں شتاب یہاں خاطر انتشار میں ہے
خط نکلنے پہ بھی ہے حسن رخ یار وہی
سیر عالم جوش مستی میں کروں امید ہے
زاہدوں کو اند نون جو دعوی توحید ہے
اب وہ آنے میں جو دم بھر بھی توقف کرتے
محیط دہر میں کب رہروملک فنا ٹھہرے
جو خال گوشۂ ابروے یار دیکھیں گے
خیال اس رشک لیلی کا یہاں ہمراہ ہے دل کے
شراب پیتے ہی رنج خمار دیکھیں گے
نہیں ممکن جو بیٹھیں چار دن آپس میں ہل ملکے
یہ اسکی بزم میں عالم ہیں اب بیتابی دل کے
محبت میں ہوگا اثر ہوتے ہوتے
یہ نہ ٹھہرے گا جو ہم تالا مکاں لیجائینگے
باعث وحشت مرے پاؤں کی آہٹ ہو گئی
عجب کیا ہے جو عاقل گردش ایام میں آئے
دید رخ تو باعث حیرانی نظر
متفرقات
چہ چیبا نرگس مستانہ داری
کے روم پیش شفیق لطف فرماے دگر
ازل سے گرچہ حسن و عشق میں تھا رابطہ باہم
مخمس بر غزل حضرت شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہ العزیز
عاشق نار نے فرقت میں یہ ایذا دیکھی
مخمس بر غزل تدبیرالدولہ منشی مظفر علی خان بہادر متخلص بہ اسیر
مخمس برغزل حاجی الحرمین الشریفین منشی امداد حسین فرخ آبادی متخلص بہ صفیر
صفت لکھنا ہے مشکل اے بت بے پیر گردن کی
مضمون یہ مشکل سے ہوا ہے معلوم
رباعیات
غزل
حبذا مایہ دار دولت عشق
تاریخ فارسی
شاہ خادم صفی ولی خدا
گل تازۂ بوستان خدا
قطعات تاریخ اردو
زائچہ
ستارے ہیں اوتاد میں سب تمام
خاتمہ الطبع منقول از مطبوعۂ بار دوم
قطعات تاریخ مطبوعۂ سابق منقول از ایڈیشن اول
چھپا جب یہ دیوان باغ و بہار
جو ذکر قل ہواللہ احد میخانہ ہو میرا
وہی ہے خاص بندہ فی الحقیقت رب سرمد کا
دھیان ہے دل میں جو اس کے عارض پرنور کا
تا نظر آجائے جلوہ اس رخ پرنور کا
اس درجہ محو جلوۂ حسن بتان رہا
بھول کر اس کی زبان پر مرا نام آہی گیا
قتل عشاق کام ہے تیرا
تھا جو سرکار جنوں سے سلسلہ جاتا رہا
اخگر کی طرح پر وہ مجھے سوزتن ہوا
افروختہ جو ساقی پیمان شکن ہوا
ٹانکے ادھڑ کے وامرا زخم بدن ہوا
مر کر بھی میں یہ کشتۂ تیغ محن ہوا
تقدیر سے علاج مرا جزوتن ہوا
کیوں رہ نورومنزل رنج ومحن ہوا
فرقت میں بحر اشک اگر موج زن ہوا
ہندو جو عاشق بت شیریں دہن ہوا
یہ گرم سوز عشق سے اپنا سخن ہوا
اے بت ترا کلام دلیل دہن ہوا
ثابت تجلیات سے وہ بے دہن ہوا
اک دن بھی مہربان ن یہ چرخ کہن ہوا
پئے تحریر حمد رب جو اٹھے گا قلم میرا
ہوا ہے عشق ایسے مہروش کی چشم جادو کا
فلک کیا سامنا کرتا ہے اس ترک جفا جوکا
قصۂ زیست ہی تمام کیا
غضب خدا کا ہوا ہے عاشق یہ ایک معشوق بے نشان کا
جسے پسند تھا جو حق نے وہ مذاق دیا
خط کا پشت لب محبوب پہ آنا کیسا
رات کو کوچۂ و بازار میں جانا کیسا
دیر سے اٹھ کے جو کعبہ میں وبت جا بیٹھا
یاد آتا ہے کہ بے پردہ جنوں ایسا نہ تھا
تھا رندا عجب کیا ہے یہاں میں اگر آیا
قدم پر اسکے تو اے سایہ میں غریب جدا
دل نشیں کس کو نہیں ہے قد موزوں تیرا
وہ بھی گالی ہمیں جو ہو دینا
جو ہے جلا بھنا وہ ہے نخچیر آپ کا
آہ کا بھی اسکی فرقت میں اثر جاتا رہا
آنکھوں سے میرے ابر کو کیا کام پڑ گیا
چل بسے سب کون ہمدم رہ گیا
در سے سر پھورا اسے رسوا کیا
جس نے کہ اک نظر میں مرا دل چرا لیا
دفعتاً منہ کو کلیجہ دم فریاد آیا
جو گرد شمع کوئی بزم میں پتنگ پھرا
دہر میں جم رہا نہ جام رہا
پریوں پہ تصدیق دل دیوانہ رہے گا
کسی پراے دل ناداں تجھے عاشق نہ ہونا تھا
ہوا عشق کمر میں جسم ایسا ناتواں اپنا
بنائیں اس خراب آباد میں کیا ہم مکاں اپنا
اگر حال مرا کچھ بھی اس بت سے کہا جاتا
بھروسا عیش دنیا کا ہے کیا آخر فنا ہوگا
ہے تپ ہجر میں احوال بہت زار مرا
عمر بھر ہم نے بگولے کی طرح چکر کیا
اشک کے قطروں سے ایسا برہمن کو تر کیا
کس رضا مندی سے نذر تیغ قاتل سر کیا
دل کو دعوے تھا بڑا صبروشکیبائی کا
یہ مجھ کو جشن سال گرہ سے الم ہوا
خالی کبھی نہ فیض سے دست کرم ہوا
شعلۂ عشق جلا دے کبھی خرمن میرا
کثرت داغ سے گلدستہ بنا دل تو کیا
اس گل کے قرین لالہ غداروں کی چمک کیا
ہے غلط رحم کی ظالم سے تمنا کرنا
یوں میرے دل کا داغ جلتا ہے
دل جا کے پیش عارض جانا نہ جل کیا
انساں گو کہ حاکم افلاک ہو گیا
ناز کی سے ہاتھ میں لیکر وہ خنجر رہ گیا
دست وحشت میں جو میں دیوانہ گرم نالہ تھا
کس حسین پر دل سودازدہ مفتوں نہ ہوا
ایسی خوشی نہ تھی غمزہ نہ تھا یہ ناز نہ تھا
ردیف باے موحدہ
جو بعد مرگ ہوئی مجھ کو جستجوئے شراب
کچھ غم نہیں کہ بعد مرے ہوگا گھر خراب
سوتا ہے میرے ساتھ مرا یار روزوشب
لوث دوئی سے پاک ہے کیا دامن حباب
رخ جو اس بت کا ہے زلف پر شکن میں آفتاب
مریخ ہے اس بانی بیداد کی صورت
وہ پریزداد خفا ہو جو کہوں حور کی بات
درد فراق کا نہ کسی نے کیا علاج
اب تلک تو نہ کچھ کھلا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
ردیف جیم عربی
لایا ہمیں قفس کی طرف آب و دانہ آج
عہد میں تیرے ہوا یہ بیوفائی کا رواج
ردیف جیم فارسی
دیکھے ہیں جب سے تری زلف گرہ گیر کے پیچ
ہاتھ سے اسکے جو کل ہم نے کیا نوش قدح
خونیں جگر ہے دیدۂ خونبار کی طرح
مدت ہوئی کہ ورد زباں ہے دعائے صبح
ردیف خاے معجمہ
آئینہ کو کہاں یہ میسر صفائے رخ
ردیف دال مہملہ
کیوں کر تری طرف سے پھرے مبتلا کا رخ
جاے واں کس نشان سے قاصد
پاؤں میں فوج غم پہ ظفر یا علی مدد
ردیف ذال معجمہ
ہمیں تو قند کے شربت سے ہے شرب لذید
کیا عجب جو ہو وصلت فرقت صنم کے بعد
ردیف رائے مہملہ
رشک آیا یہ مرے داغ دل غمناک پر
کیا کہوں صدمے ہیں کیا میرے دل غمناک پر
اعضاے تن ہیں نور رخ لالہ فام نور
آج جامے سے ہے وہ ترک ستمگر باہر
غم کسی کو ہوے صدمہ اس دل ناکام پر
ہو جو غرفے سے تمہارا رخ انور باہر
کیا ہے بخت نے اس شوخ سبزہ رنگ سے دور
جو دل آزار ہیں خوش ہیں وہ دل آزاری پر
نیند آئے فرقت جاناں میں کیونکر رات بھر
تیرے گھر میں ہو بھلا اپنا گزارا کیوں کر
توصیف حور کی تو نہ اتنا ملال کر
تمنا ہے جو وہ شمشاد قد گزرے ادھر ہو کر
شب وصل صنم گزری کچھ ایسی مختصر ہو کر
کھولے ہوے جو پھرتے ہیں سر آسمان پر
سوزش دل نے کیا نالہ بلند آخر کار
ہے خون فشاں جو یہ مژۂ تر زمین پر
ہوگا دل سلسلۂ زلف میں بند آخر کار
کیا حق شفاعت اس طرح ثابت پیمبر پر
انسان کو زندگی میں ہے خوف خدا ضرور
پایا ہے اوج میں نے جو بام حبیب پر
پیدا کیے سب جس نے وہ یہاں نہیں ظاہر
ردیف زاے معجمہ
پیتے ہیں ماہ صوم میں میکش شراب روز
باقی نہیں ہے مجھ کو کسی بات کی ہوس
جب تک جیے رہے صنم بیوفا کے پاس
ردیف سین مہملہ
سنے چمن میں اگر تیری داستاں نرگس
ردیف شین معجمہ
رہتی ہے ہم کو دید رخ یار کی تلاش
ہوا ہے یوں دل نالاں قد دم سے یار خوش
خانقہ میں آکے دکھلائے جو وہ جانا نہ رقص
ردیف صاد مہملہ
ہم تو انکو روزوشب لکھتے ہیں خط
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاء مہملہ
ماہ تاباں ہے کہ خورشید درخشاں عارض
ہاں تیری ہی سمجھ ہے کچھ اے نکتہ دان غلط
ردیف ظاء معجمہ
نظر پڑا تجھے کیا کوئی گرم خو واعظ
ردیف غین معجمہ
تمام رات جو کرتی ہے اشکباری شمع
ردیف عین مہملہ
جیسے ہیں سوز غم سے دل پر محن میں داغ
موسم پیری میں ٹھنڈا ہے جو تھا دل میں چراغ
ہر اک غیر سے ہر یگانے سے واقف
ردیف فاء
جائیں الیاس و خضر چشمہ حیواں کی طرف
نہیں پڑھتا وہ دلبر نامۂ شوق
ردیف قاف
جب کھلے منصور پر اسرار حق
ردیف کاف عربی
کوئی کیا پہونچے اس والا مکاں تک
اس خط سیہ سے نہیں گیسو کا جدا رنگ
بوالہوس اور عشق گیسو واہ اے پیر فلک
ردیف گاف فارسی
ہے جو شکل آئینہ لبریز شوق یار دل
بیرنگی جہاں کے ہیں ہم کو پسند رنگ
ردیف لام
عمر بہر ہوگی نہ کم بے سروسامانی دل
کوئی لے گیا ہے ابھی ابھی مرے من سے صبرو قرار دل
اسکی بے مہری سے ہے مشکل میں دل
لکھتے ہی لکھتے ہونگے ہم اے نامہ بر تمام
ردیف میم
خط جا تجھکو مرے سر کی قسم
خط میں یہ مضمون کسی منشی سے لکھوائیں گے ہم
جب سے عاشق ہیں ترے اے کافر عیار ہم
مل کے اس شوخ سے قاصد بادب بعد سلام کہیو میرا یہ پیام
زبان دل کرتا ہوں میں شب کو ذکر ہو ہر دم
پاک کرنا آنسوؤں کا ہے جو کار آستیں
ردیف نون
یاد میں اس کی جھکاتا ہوں جو سرسجدے میں
ہمارے چھیڑنے کو سب جو تیرا نام لیتے ہیں
اپنی آنکھوں سے نبجا شاکی بینائی ہیں
رتبہ ہمارے دل کا کسی پر عیاں نہیں
جاؤں کہاں حوادث عالم کہاں نہیں
اعضا ہیں ایسے نرم کہ جسکا بیاں نہیں
غربت میں ہم پھنسے ہین وطن جانتے نہیں
وہی اگلے بکھیڑے آج اے مہرو نکلتے ہیں
جو دل میں تھیں وہ بھولے ہم وصل کی شب باتیں
کون ذرہ ہے جو تیرے فیض سے صحرا نہیں
دیدۂ غور سے دیکھا تو یہاں کچھ بھی نہیں
وہ میکش ہوں جو یاد آیا مجھے میخانہ تربت میں
نوخیز سبزہ ہوں نہ گل نودمیدہ ہوں
شب فرقت ہم اس امید پر فریاد کرتے ہیں
وہ سو سو گالیاں حق ہیں مرے ارشاد کرتے ہیں
صحبت زاہد سخت بری ہے رند کا واں کچھ کام نہیں
نہ پوچھ مجھ سے کہ تو کون ہے کہان ہوں میں
کمر کے عشق میں اس درجہ ناتواں ہوں میں
کیا دیکھیں ہم فروغ رخ یار رات دن
آئینہ سے ہے انکے سروکار رات دن
وہ دہن ہوں جسمیں میں سخن نہیں وہ سخن ہوں جسمیں صدا نہیں
موسم گل ہے مے گلگوں چمن میں کیوں نہیں
وہ وفا بھی نہ کریں اور جفا بھی نہ کریں
دل ہے خواہاں ہدف تیر ستمگر میں ہوں
وہ کیفیت ہو آجائے جو زاہد بادہ خواروں میں
بتوں کو کیا میں بیجا چاہتا ہوں
قتل کو تیغ کف صبح و مسا آپ بھی ہیں
تفاوت کچھ نہیں پیش نظر ہے دین و دنیا میں
جمع کیوں ترکش میں یہ بیکار تیرے تیر ہیں
پردہ نہ چاہئے کوئی زنہار درمیاں
مرے اشکوں کی طغیانی نہ پوچھو
کیوں نہ غیروں سے ہو ملنے کا توہم مجھ کو
سوا مرنے کے کیا چارہ غم فرقت میں غمگین کو
کب تک کہ سر ہمارے بدن سے قلم نہ ہو
خوش ہوں غم کے آنے سے اب مجھ کو غم نہ ہو
تابع فرمان کروں میں کس طرح محبوب کو
مجھے تم غیر کا شیدا نہ سمجھو
دیکھ تو کرتا ہے خاطر سب کی یکساں آئینہ
مثل آب موجزن ہر دم ہے آب آئینہ
ردیف ہائے ہوز
روبرو شیخ کے کل کی تھی ہنسی سے توبہ
پئ اسطرح اژ مری آہ رسا کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
عدم سے ہم جو جہاں خراب میں آئے
صحرا ہے بوستاں جو ہے فرقت حبیب کی
تمکو باور مری الفت نہ سہی
سوچتا ہوں کہ معاند ہے مرا دل کیا ہے
زمانے نے اک دم بھی راحت نہ دی
کن آفتوں میں جاں مری تاسحر رہی
چاہے جس صید پہ صحرا میں وہ تو سن ڈالے
وانقاب رخ پر نور ہوا چاہتی ہے
دل کے ٹکڑے مژۂ دیدۂ تر سے ٹپکے
شکل دیکھے جو زلیخا سر بازار تری
جب میری آہ سرد برنگ صبا چلی
مہوشوں میں سروقامت غنچہ لب چھوٹے برے
بجا ہے دل کو جو اور دن کی آرزو کم ہے
نہایت قلت فرصت کا غم ہے
وحشی تمہاری چال جو وحشت کی چل گئے
لی بتکدے کی راہ نہ سوے حرم چلے
اٹھ کر تمہاری بزم سے ہم پیشتر چلے
راہ مشکل ہے بہت وصل بت بے پیر کی
مرا اشک چشم اشک شبنم نہیں ہے
زخم ہر دل میں ہیں مژگاں بت بے پیر کے
جانے سے تیرے ایسی اداسی چمن میں ہے
کیا فائدہ ہے روح جو مجرم کے تن میں ہے
سیکڑوں ہونے کو ہیں بسمل ابھی
شب کو یاد زلف میں حالت عجب طاری ہوئی
سیاہ بخت رہے تیرہ روزگار رہے
جو چشم کوہ پہ دو دن یہ اشکبار رہے
نبض کی طرح سے سو مرتبہ چل کر بیٹھے
جلوۂ رخسارۂ جاناں ہمارے دل میں ہے
گرم جو راہ طلب میں ہے بڑی مشکل میں ہے
عاشقوں سے بڑھ کے معشوقوں کا دل مشکل میں ہے
ہم ہیں اسکے پاس اب کوئی نہیں محفل میں ہے
جفا بلا سے تمہاری سرشت ہی میں سہی
رک رک کے یہ روانہ جو ہر وقت سانس ہے
عشق کا آغاز ہے اے دل ابھی
اہل طمع کو گنج زور گنج سیم دے
شباب میں مجھے فکر مال کار رہی
ترا یہ حسن یہ جو بن رہے رہے نہ رہے
چلون ساتھ اسکے یہ یارا کہاں ہے
اسطرف ہے تیغ وہ شمشیر زن باندھے ہوئے
جب تلک ربط گل و خار کا گلشن میں رہے
اجل نہ آئے جو ہجر جاناں میں اور چندے تو کسکو غم ہے
لب رنگیں پہ جو تیرے ہے یہ باسی ہستی
جس نے تیری نگہ ناز کی کھائی برچھی
کوئی کب یاد کرتا ہے کسی کی
نہیں سنتے ہیں وہ ہر گز کسی کی
کبھی دھیان چہرۂ یار کا کبھی یاد گیسوے یار کی
نہ کسی عیش میں گزری نہ کسی غم میں رہے
مسیحا کو وہ شوخ کیا جانتا ہے
یاد ابرو میں ہیں ہم جی سے گزرنے والے
کب ہیں نقصان سے عاشق ترے ڈرنے والے
ہوئی جو وصلت کی شب میسر تو دور نفرت سے ہٹ کے بیٹھے
دل اپنا قید زلف سیہ میں تباہ ہے
صد شکر مجھے عشق دیا میرے خدا نے
اک برق تجلی کے طلبگار ہیں ہم بھی
قاضی کسی گیسو کے گرفتار ہیں ہم بھی
جگر کے داغ چمکائے ہماری اشکباری نے
غائبانہ بشر ایسی نہ کوئی بات کہے
آج ذرے ہیں تو کل مہر سما ہو جائیں گے
لاکھوں دنیا میں ہیں تدبیر بدلنے والے
ہر گز وہ وفا وصل کا وعدا نہیں کرتے
دیکھ کر آئینہ ہمسر کس لیے پیدا کرے
حفظ عزت کے لیے خلقت سے ڈرنا چاہئے
کیوں چلے جاتے وہ اٹھکر جو مروت ہوتی
تری خاک قدم کو کیمیا اے سیمبر سمجھے
ہوے پیر دور جوانی نہیں ہے
تضمین مصاریع آخر غزل قدسی مع مستزاد
مرحبا سید مکی مدنی العربی
غزلیات فارسی
در ہواے آن پری پیکر ولم دیوانہ شد
باکمال ضعف در کویش رسیداں آرزوست
مرا باید شمیم زلف جاناں آرزو کردن
دید رخ تو باعث حیرانی نظر
ذوق غم تو ازدل شیدانمی رود
چہ زیبا نرگس مستانہ داری
کے روم پیش شفیق لطف فرماے دگر
سوئے من اگر گزرے کنی گہے اے شریر آفریں
یہ ہجر شرب مے ناب کے رواباشد
جب بعد فراق ان سے وصلت ہو گی
رباعیات
قطعہ
کلیات جناب فضل رسول
خاتمۃ الطبع
سرورق
کیا ہے میں نے بسم اللہ سے آغاز دیوان کا
جہاں میں کون ہے جس پر نہیں احسان احمد کا
سب پہ ظاہر ہے حال حیدر کا
وصل سے اس مہروش کے تبہ اعلا ہو گیا
ایک عالم کو بہار آتے ہی سودا ہو گیا
حائل ہے زیست وصل ہو اس جانجان سے کیا
شناور جانتا ہے بحر معنی آشنائی کا
یہ اہل کبر مٹے یاد گار تک نہ رہا
حضور یار ہمارا وقار تک نہ رہا
تیرا عاشق ہوں سلیماں ہے مقابل میرا
دل دام زلف میں جو پھنسا تھا پھنسا رہا
دل عکس رخ یار کی جا ہوں نہیں سکتا
قلت غم سے دل مشتاق غم کو غم ہوا
غم بھر مجھ کو جو شغل مے سر جوش رہا
بوسہ دیا نہ عارض روشن دکھا دیا
لکھتا ہوں وصف چشم بت بیمثال کا
شاید کہ شاد ہو کے وہ دے بوسہ خال کا
غیر کے پاس جو تو جا کے ذرا بیٹھ گیا
عبث نہیں ہے بہت بیقرار دل میرا
نشتر حسرت رگ جاں میں کھٹکتا جائے گا
رحم ہم پر بعد مردن بھی نہ کھایا جائے گا
وصف لکھا ہے جو اسکے پھول سے رخسار کا
باعث وحشت ہوا نظارہ قصر یار کا
لب شیریں کی محبت میں سفر کر ہی گیا
بہار آئی ہوا پھر زمانہ بلبل کا
اسنے گردن پہ پئے قتل جو خنجر رکھا
بدل گیا ترے آتے ہی ڈھنگ پھولوں کا
جوانی کا جوبن جو ڈھل جائگا
غل ہوا گھر سے جو باہر وہ طرح دار آیا
پڑتا ہے دلپر تیر سا نالہ ہزار کا
دل مرا کشمکش غم سے نڈر تھا کہ نہ تھا
پہلو لحد ہے مردہ ہے دل تیرے زار کا
نہ آئے وہ ہمیں مینہ فگار ہی رکھا
جبتک جیا فنا ہی کا کھٹکا لگا رہا
وحی ساں حاصل جواب خط اگر ہو جائیگا
روتے روتے آخر آنکھوں کا ضرر ہو جائیگا
کوئی تدبیر میں قصور نہ تھا
منہ چاہ زنخدان کو لگانے نہیں دیتا
سائل ہے جو دریا مری آنکھوں سے تری کا
میں حور کا طالب ہوں نہ خواہاں ہوں پری کا
ملک استغنا ملا جنگل کو میں راہی ہوا
ہر ایک کے گھر آپ کا جانا نہیں اچھا
سوز دل سے یہ ترے ہجر میں بیتاب ہوا
پانوں پر قاتل کے جب سر رکھدیا
اس بت کی دوستی میں نیا رنگ ہو گیا
ہم سے کیونکر وہ ہم سخن ہوتا
گلا کیوں ہجر میں اسکا نہ کرتا
بلا سے کیا ڈرے دل تیرے شیداے جفا کش کا
وحشت نے مجھ کو چرخ کا ہمسر بنا دیا
جاگ آنکھیں کھول دے سوتا ہےکیا
کون آئینہ رخسار کا حیراں نہ ہوا
دکھلا کے شکل خواب میں بیداد کر دیا
توڑ پئ اس ترک کے موے مژہ میں تیر کا
نور سے لے بے سایہ جسکا جسم عالی ہو گیا
خالی ازرنج نہیں روح کا تن سے جانا
تیرے پھندے سے نکلنا نہیں ممکن میرا
جاں بلب ہوں سر بالیں وہ اگر آئے گا
گفتگو میں جو خیال رخ جاناں ہوتا
کام کوئی نہ شب وصل ہمارا نکلا
تھی سیہ مست فنا شب اور میں ہشیار تھا
دیکھا جو بحر کو تو دوئی کا اثر ملا
درد فرقت سے تڑپ کر مر گیا اچھا ہوا
ہاتھ دل سے نہ ترے غم میں فقط دھو بیٹھا
درخت ہم نے بویا تھا آشنائی کا
غیروں کے آگے یار سے بوسہ طلب کیا
لطف شب آفتاب نکلتے ہوئے نہ تھا
ہے شب وصل سر شام نہ جانی سونا
عرصہ ترے بیمار کو اب کھینچ نہیں سکتا
کس شب انھیں شغل مے و مینا نہیں ہوتا
برتر ہے آسماں سے مقام ابوتراب
ہیں جو کاتب واقف راز نہاں عندلیب
طاقت آجائے جوان ہو جو پیے پیر شراب
ٹھہروں مجرم جو پیوں میں کبھی بے یار شراب
صدمے اٹھا اٹھا کے ہوں میں ناتواں بہت
انداز سخن خوب چلن خوب ادا خوب
جس صبح اٹھوں آئے نظر یار کی صورت
وہ دل کہاں کہ جس میں رہے آرزوے دوست
سنتے ہیں ہم وہ سنتے نہیں ہیں کسی کی بات
کہیں کیا کس قدر ہے دل خدا دوست
شمع اجل جلائے گی پروانۂ حیات
مجھ مشت پر سے ہے خلش اے باغباں عبث
تنگ ہے عارض کو اسکی ناز کی ہیں گل سے بحث
دکھا چہرہ ہے پردہ جانی عبث
جاتے ہیں کوے یار میں ہم بار بار آج
آیا ہے میرے گھر میں جو وہ گلزار آج
تیر ہے مژگاں قاتل تیر کی کیا احتیاج
کیونکر طبیعت سے ہو اس آزار کا علاج
ہزار شکر جہاں سے ہے اپنے رخصت آج
شام ہے ہر صبح آخر دہر میں ہر شام صبح
جب کوئی کہتا ہے ہم سے کون سا ہے خوب گنج
بوسۂ رخ جو لیا زلف پریشاں کی طرح
خزاں کا خوف کہاں ہے عجب بہار میں روح
کیا ہو پسند ہجر بت سیمبر میں صبح
شمع ایمن ہے وہ رخ برق تجلی ہے وہ رخ
کب مثل لعل یار ہے لعل نداب سرخ
مہتابی اس کا مکان کی ہے کس قدر بلند
خجلت سے تیرے آگے ہے رنگ چمن سفید
بیخود ہوں حوکی ہے نہ مجھ کو پری کی یاد
وصف گیسو ودہن ہے اے قمر طلعت پسند
ہم ہیں یوں محبس فکر زن و فرزند میں بند
بازوے یار پر جو تھا تعویذ
جان دیتا ہے دل پر داغ زلف یار پر
داغ سودا یوں عیاں ہے میرے جسم زار پر
یوں گیا تنہا مجھے وہ راحت جان چھوڑ کر
دنیا میں عیش و غم یہ ہے دارو مدار عمر
گزروں فرقت میں جومیں جانب گلشن ہو کر
پوچھو نہ کچھ جو ہجر میں صدمے ہیں جاں پر
اس پر پرونے جو منت کی بڑھائی زنجیر
اٹھا میں قید خانے سے دامن کو جھاڑ کر
لگایا اس مژہ نے تیر دل پر
کمر بندھی ہے ہماری عدم کے جانے پر
تیرے کوچے میں ہم اے یار نہ آئیں کیوں کر
روک لی تیغ اس نے جب مجھ نیم جانکو دیکھ کر
کبھی اے مہ نظر لطف و عنایت مجھ پر
دیکھ سکتا ہے کوئی کب تمہیں اے رشک قمر
قضا ہنستی ہے تدبیر و دوا پر
شب وصل صنم کا لطف ہو مجھ سے بیاں کیونکر
کہاں اب وادی وحشت سے جاؤں ناتواں ہو کر
سواری انکی دیکھیں کیوں نہ رہرو شادماں ہوکر
کہاں جاؤں چمن سے باغباں میں ناتواں ہو کر
تعجب شاعروں کو کیا ہے میری خوش کلامی پر
بلبل کا نطق بند ہے گفتار کے حضور
خواب میں کب تک کرے گا پانوں اے غافل دراز
دشت خالی ہوئے خونریز ہے وہ تیر ہنوز
کبھی جاتا ہوں جو اس بانی بیداد کے پاس
یوسف سے بھی سوا ہے مجھے میرا دل عزیز
آرزو گل کی نہ ہم کو ہے گلستاں کی ہوس
درہم کی ہے تلاش نہ دینار کی تلاش
فراق یار میں کرتا ہوں بار بار افسوس
شب وصل بت دلخواہ خاموش
زلف اگر دیکھے کرے اپنا دل مانوس رقص
عالم حیرت میں مجھ کو انجمن سے کیا غرض
وصف عارض میں جو ہو تحریر خط
رقم کیا ہے اسے ابتو اضطرار میں خط
ممکن نہیں ہے خار سے دامان کی احتیاط
کھیلنا اپنی جان پر ہے شرط
لفظ بمعنی ہیں سب املا غلط انشا غلط
تنگ آیا ہوں میں سن سنکے بیان واعظ
کون کہتا ہے کہ اعجاز بیان ہے واعظ
روشن ہے سب پہ گو نہ کہے کچھ زباں شمع
مرے دل کی طرح شب بھر جلی شمع
پھولے نہ لالہ باغ میں دکھلا کے چار داغ
مال کی ہم کو نہ دولت کی طمع
کیا جلاؤں مہروش تیرے مقابل میں چراغ
ہنگام سیر باغ جو آیا خیال زلف
خود نہیں جاتے ہیں ہم کوچۂ جاناں کی طرف
مجھے کوئی جہاں میں نہیں مبتلائے زلف
سمجھے اٹھا جو پردۂ دولت سرائے عشق
یارب کوئی جہاں میں نہ ہو مبتلائے عشق
روز شمار کے ہے برابر شب فراق
ہے عشق آب و رنگ گل روئے یار تک
سوز غم سے یہ مرے سینے میں جلتی ہے آگ
تلاش یار میں ہے رہ نما دل
اے دل سجھ کے بوسۂ زلف سیاہ مانگ
سر سے چلنا ہے دم تیغ پہ مشکل قاتل
ہم سے بھاگے گا جو تو سیکڑوں منزل قاتل
کس کو فراق یار میں ہے آرزوے گل
اس باغ میں ہوے تروتازہ ہزار پھول
ہر گز نہ ہو سکے ترے رخ سے دو چار چشم
ہو گئے ہیں ذبح تیغ غمزۂ قاتل سے ہم
اس آفت زمانہ سے ہو کر دو چار چشم
نہ مجھے کفر سے مطلب نہ ہے اسلام سے کام
شوق یوست میں تگاپوے زلیخا دیکھیں
اس کے کوچے میں اب نہ جائیں گے ہم
حال ابتر ہو تو گیسوئے رسا بن جاؤں
شعرا بندش مضمون کمر کی جانیں
بڑھ کے ہے جام جہاں بیں سے تماشا دل میں
وہ دل بھی کوئی دل ہے مکیں جس میں تو نہیں
فرق پیری میں ہے اب تاب و توانائی میں
یارروں کے برخلاف جو صحبت ہے ان دنوں
جیسے پابند زلف جاناں ہوں
کہتا ہوں شعر مدحت حسن ملیح میں
ذرے افشاں کے نہیں زلف بت بے پیر میں
خیر کیسی الفت زلف بت بے پیر میں
اس ستم پر خطر روز جزا ہے کہ نہیں
اس کے دیدار کی پیری میں بھی امید نہیں
کرتا ہے غیر شانہ اس زلف دل ستاں میں
روز آ آ کر ہوا دامن کی دیجاتا ہے کون
سوزش عشق سے بیتاب رہا کرتا ہوں
اس کے کوچے میں خاک جاؤں میں
روتا ہوں سوز دل سے عبث اضطراب میں
دیکھا جو عکس زلف کا جام شراب میں
شہرے عالم میں جو حضور کے ہیں
دل ہے خود مردہ تری بیداد کی حاجت نہیں
جہاں سے دل یہ خدایا اٹھائے بیٹھے ہیں
کوچۂ یار سے اٹھنے کو تو ہم اٹھتے ہیں
آئی نظر وہ چاند سی تصویر خواب میں
چبھ گئے ہیں دل میں یوں تیروں کے پیکاں سیکڑوں
پڑا ہے داغ الفت کا جو اے مجنوں ترے دل میں
زہاد بادہ کش ہوئے رائیں بدل گئیں
یاد اس حور لقا کی اگر آئے دل میں
بظاہر گو کہ دھبا لگ گیا اپنی طریقت میں
بہار آئی جنون کا جوش ہے صحرا کو جاتے ہیں
ہزار در سے ہم انکے اٹھائے جاتے ہیں
نہیں اپنا دل پر داغ قیدی اسکی کاکل میں
کب خیال رخ دلدار میں بیتاب نہیں
موجۂ باد بہاری اگر آباتے ہیں
کیوں بار بار جاؤں نہ میں کوے یار میں
مر کے آرام مجھ آوارہ کو دے خاک میں
جیسا کہ تیرہ گھر ہے مرا انتظار میں
ماہ کو کرتا ہے چاندی مہر کو زر آسماں
بات کب بے سروپا کہتے ہیں
قتل کر ڈالیں مجھے مہندی لگا کر ہاتھ میں
ثابت ہوا کہ تجھ سا جہاں میں حسیں نہیں
اول تو میں اس کو چیمیں جاؤں کہ نہ جاؤں
میں تو کہتا تھا کہ اس درد جگر کو کیا کہوں
نہ خوش ہوں سیر گلشن سے نہ جی لگتا ہے جنگل میں
ہوں وہ دیوانہ کہ زنداں میں جو گھبرتاہوں
کمر وہ بال جسے دیکھنے کی تاب نہیں
کسی سے دل کو لگا چکے ہیں ہم اپنی ہستی مٹا چکے ہیں
سحر ہوتی نہیں ہے کون شب اس دہر فانی میں
بے خیال یار زیب خانہ باغ دل نہیں
بتوں کی الفت میں دل ہے شیدا بچوں تو یاد خدا کروں میں
اس کے نظارہ سے کچھ محروم میرا دل نہیں
فہم انکا تمہیں اے اہل سخن کچھ بھی نہیں
ہے وہ گلچیں بہار گل رخسار کہ میں
سرقتل عاشق باوفا تمہیں کب نہ تھا کہ جواب میں
بہار لائی ہے دولت کو ساتھ گلشن میں
ربط اس سروقد سے کھیل نہیں
نہ میں دولت نہ حشمت چاہتا ہوں
اسقدر آنکھوں کو زشت آیا نظر روے وطن
ہماری عمر کے دن اس تفکر میں گزرتے ہیں
قفس کو اڑ کے ہم صحن چمن سے جانے والے ہیں
تیر مژگاں پہ نظر کرتا ہوں
نیند کیا ہجر میں آئے کسی پہلو مجھ کو
بسکہ ہے عشق رخ و الفت گیسو مجھ کو
ہے کوچۂ قاتل میں رواں دل کو بلالو
اس نے لکھا ہے کہ اپنا حال لکھ کر بھیج دو
وہ نالہ کر اے دل کہ عیاں جس سے اثر ہو
کیونکر دل مشتاق کو امید سخن ہو
کم نہیں قد میں درازی میں سرموگیسو
آہ کیونکر نہیں کرتی ہے اثر دیکھیں تو
سمجھے ہیں نخل ثمر دار مقرر مجھ کو
ہر سحر کوچۂ محبوب میں جانا مجھ کو
غضب کہ جا ہے کہ اتنا تمہیں خیال نہ ہو
آؤ خفا نہ ہو مرے کہنے کو مان لو
نظر آتا ہے مثل نے تھی اپنا دہن ہم کو
قفس میں ہے ہواے نغمہ سنجان چمن ہم کو
مے کے پینے سے ہے رونق اور حسن یار کو
شاد گلشن میں کرے جاکر کسی میخوار کو
تیر مژگاں لگاؤ گے کس کو
دولت کی سلطنت کی خزانیکی آرزو
دل بہت آج ہے اداس آؤ
ہے یہ رغبت جوش وحشت میں ترے پامال کو
کیا غضب تم نے کیا کرکے اشارے دل کو
ذرا جو دیکھ کے خنداں ہوروے جاناں کو
شب فرقت میں جو روتا ہوں مجھے رونے دو
نہ دو ایذا اسیران بلا کو
دل عالم کو نہ کرتے ہوے پامال چلو
نظر آجائے جدھر انکی سواری ہم کو
ان آنکھوں سے میں کیونکر دیکھ سکتا ہوں رہ دل کو
گزر گئی شب وصلت بس اک کلام کے ساتھ
بوالہوس کو دید روے یار سے کیا فائدہ
ہر جگہ ہیں یہ مرے داغ بدن میرے ساتھ
جیسے دیکھی ہم نے تیری کاکل مشکین سیاہ
ہوا قصہ شب فرقت کا کوتاہ
بہارآئی ہے اے ساقی شراب عشق مستی ہے
نگہ جب گوشۂ ستمگر سے نکلتی ہے
چھرے خوشی سے تیرے تپنچے کے کھائیں گے
تجھ کو قرار کیوں نہیں اے آسماں کبھی
یہ ہے حجاب کہ منھ روبرو نہیں کرتے
کس پری کا ہو گیا سایا مجھے
ہجر میں کیا کیا نہ پیش آیا مجھے
کیا خوب شکل اس بت کافر ادا کی ہے
تاثیر میرے جذب کی ہے یا دعا کی ہے
تاب غصے کی کہاں اے ستم ایجاد مجھے
اگر عاشق کا خون کرنا روا ہے
رنج و محن اٹھائیے ایذا اٹھائیے
خضر کو راہ بتاتی ہے جستجو تیری
شب وصل کیا مختصر ہوگئی
روک اے مرغ قفس اپنی زباں باتون سے
شب وصل کم اسقدر ہو گئی
خدا کی بڑی مجھ پہ رحمت ہوئی
ہمارے قتل کا غصہ سبب ہے
یارب یہ بلا ہجر کی سر سے کہیں ٹل جائے
اگر حجاب سے ظاہر میں آ نہیں سکتے
سینے پہ رہا کرتی ہے تصویر کسی کی
سوزش جو پس مرگ رہی تن میں ہمارے
جو سنے آنکھ سے بیساختہ آنسو نکلے
نہیں دیتے سرموابروے خمدار خنجر سے
اڑا نہ جاے جہاں جبرئیل کے پرسے
کبھی صحرا میں اگر بہر شکار آتا ہے
جھکیں گے مست دور شیشۂ پیمانہ آتا ہے
خانۂ صیاد سے صحن چمن نزدیک ہے
ہر گز یہ کل نہ ہوگا جو کچھ رنگ آج ہے
دل کو وہ زلف گرہ گیر پسند آئی ہے
اس رخپہ کوئی سوختہ جان کیا نظر کرے
جب تک سفر وطن سے نہ صاحب ہنر کرے
چاہیے تیرا ہے دلمیں غم رہے
نشان آہ لیلکر فوج غم کے ساتھ ہم نکلے
ہر چند کہ دل مائل فریاد و فغاں ہے
گانے میں لے رہے ہیں وہ تانیں نئی نئی
ہوے ہیں پیر اجل بالاے سر ہے
دیکھکر منہ کو جو اپنے وہ شکر خند کرے
تیرے آگے حسین کوئی کیا ہے
تیز رفتاری میں یہ وہم و گماں سے تیز ہے
الٰہی باغ میں کس کشتۂ قامت کی تربت ہے
تری تلوار نے موڑا اگر منہ کیا قباحت ہے
استعارے سے نہ کوئی شعر خالی چاہئے
چمن میں لیکے جو اس گل کی بو صبا آئی
وہ دم نزع جو آجائیں تماشا ہو جائے
محض اس کا دہن تو ہم ہے
بنانا چاہتا ہے تو جو سب سے اپنا گھر پہلے
دیکھتے ہیں ہم تماشاے بہار زندگی
دختر زر کی شب وروز دلاتاک رہے
مر کے راحت کا آسرا تو ہے
بنی ہے چین شکن زلف عنبریں کے لیے
ہے کون حسیں جسکی خبر ہم نہیں رکھتے
وہاں شتاب یہاں خاطر انتشار میں ہے
خط نکلنے پہ بھی ہے حسن رخ یار وہی
سیر عالم جوش مستی میں کروں امید ہے
زاہدوں کو اند نون جو دعوی توحید ہے
اب وہ آنے میں جو دم بھر بھی توقف کرتے
محیط دہر میں کب رہروملک فنا ٹھہرے
جو خال گوشۂ ابروے یار دیکھیں گے
خیال اس رشک لیلی کا یہاں ہمراہ ہے دل کے
شراب پیتے ہی رنج خمار دیکھیں گے
نہیں ممکن جو بیٹھیں چار دن آپس میں ہل ملکے
یہ اسکی بزم میں عالم ہیں اب بیتابی دل کے
محبت میں ہوگا اثر ہوتے ہوتے
یہ نہ ٹھہرے گا جو ہم تالا مکاں لیجائینگے
باعث وحشت مرے پاؤں کی آہٹ ہو گئی
عجب کیا ہے جو عاقل گردش ایام میں آئے
دید رخ تو باعث حیرانی نظر
متفرقات
چہ چیبا نرگس مستانہ داری
کے روم پیش شفیق لطف فرماے دگر
ازل سے گرچہ حسن و عشق میں تھا رابطہ باہم
مخمس بر غزل حضرت شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہ العزیز
عاشق نار نے فرقت میں یہ ایذا دیکھی
مخمس بر غزل تدبیرالدولہ منشی مظفر علی خان بہادر متخلص بہ اسیر
مخمس برغزل حاجی الحرمین الشریفین منشی امداد حسین فرخ آبادی متخلص بہ صفیر
صفت لکھنا ہے مشکل اے بت بے پیر گردن کی
مضمون یہ مشکل سے ہوا ہے معلوم
رباعیات
غزل
حبذا مایہ دار دولت عشق
تاریخ فارسی
شاہ خادم صفی ولی خدا
گل تازۂ بوستان خدا
قطعات تاریخ اردو
زائچہ
ستارے ہیں اوتاد میں سب تمام
خاتمہ الطبع منقول از مطبوعۂ بار دوم
قطعات تاریخ مطبوعۂ سابق منقول از ایڈیشن اول
چھپا جب یہ دیوان باغ و بہار
جو ذکر قل ہواللہ احد میخانہ ہو میرا
وہی ہے خاص بندہ فی الحقیقت رب سرمد کا
دھیان ہے دل میں جو اس کے عارض پرنور کا
تا نظر آجائے جلوہ اس رخ پرنور کا
اس درجہ محو جلوۂ حسن بتان رہا
بھول کر اس کی زبان پر مرا نام آہی گیا
قتل عشاق کام ہے تیرا
تھا جو سرکار جنوں سے سلسلہ جاتا رہا
اخگر کی طرح پر وہ مجھے سوزتن ہوا
افروختہ جو ساقی پیمان شکن ہوا
ٹانکے ادھڑ کے وامرا زخم بدن ہوا
مر کر بھی میں یہ کشتۂ تیغ محن ہوا
تقدیر سے علاج مرا جزوتن ہوا
کیوں رہ نورومنزل رنج ومحن ہوا
فرقت میں بحر اشک اگر موج زن ہوا
ہندو جو عاشق بت شیریں دہن ہوا
یہ گرم سوز عشق سے اپنا سخن ہوا
اے بت ترا کلام دلیل دہن ہوا
ثابت تجلیات سے وہ بے دہن ہوا
اک دن بھی مہربان ن یہ چرخ کہن ہوا
پئے تحریر حمد رب جو اٹھے گا قلم میرا
ہوا ہے عشق ایسے مہروش کی چشم جادو کا
فلک کیا سامنا کرتا ہے اس ترک جفا جوکا
قصۂ زیست ہی تمام کیا
غضب خدا کا ہوا ہے عاشق یہ ایک معشوق بے نشان کا
جسے پسند تھا جو حق نے وہ مذاق دیا
خط کا پشت لب محبوب پہ آنا کیسا
رات کو کوچۂ و بازار میں جانا کیسا
دیر سے اٹھ کے جو کعبہ میں وبت جا بیٹھا
یاد آتا ہے کہ بے پردہ جنوں ایسا نہ تھا
تھا رندا عجب کیا ہے یہاں میں اگر آیا
قدم پر اسکے تو اے سایہ میں غریب جدا
دل نشیں کس کو نہیں ہے قد موزوں تیرا
وہ بھی گالی ہمیں جو ہو دینا
جو ہے جلا بھنا وہ ہے نخچیر آپ کا
آہ کا بھی اسکی فرقت میں اثر جاتا رہا
آنکھوں سے میرے ابر کو کیا کام پڑ گیا
چل بسے سب کون ہمدم رہ گیا
در سے سر پھورا اسے رسوا کیا
جس نے کہ اک نظر میں مرا دل چرا لیا
دفعتاً منہ کو کلیجہ دم فریاد آیا
جو گرد شمع کوئی بزم میں پتنگ پھرا
دہر میں جم رہا نہ جام رہا
پریوں پہ تصدیق دل دیوانہ رہے گا
کسی پراے دل ناداں تجھے عاشق نہ ہونا تھا
ہوا عشق کمر میں جسم ایسا ناتواں اپنا
بنائیں اس خراب آباد میں کیا ہم مکاں اپنا
اگر حال مرا کچھ بھی اس بت سے کہا جاتا
بھروسا عیش دنیا کا ہے کیا آخر فنا ہوگا
ہے تپ ہجر میں احوال بہت زار مرا
عمر بھر ہم نے بگولے کی طرح چکر کیا
اشک کے قطروں سے ایسا برہمن کو تر کیا
کس رضا مندی سے نذر تیغ قاتل سر کیا
دل کو دعوے تھا بڑا صبروشکیبائی کا
یہ مجھ کو جشن سال گرہ سے الم ہوا
خالی کبھی نہ فیض سے دست کرم ہوا
شعلۂ عشق جلا دے کبھی خرمن میرا
کثرت داغ سے گلدستہ بنا دل تو کیا
اس گل کے قرین لالہ غداروں کی چمک کیا
ہے غلط رحم کی ظالم سے تمنا کرنا
یوں میرے دل کا داغ جلتا ہے
دل جا کے پیش عارض جانا نہ جل کیا
انساں گو کہ حاکم افلاک ہو گیا
ناز کی سے ہاتھ میں لیکر وہ خنجر رہ گیا
دست وحشت میں جو میں دیوانہ گرم نالہ تھا
کس حسین پر دل سودازدہ مفتوں نہ ہوا
ایسی خوشی نہ تھی غمزہ نہ تھا یہ ناز نہ تھا
ردیف باے موحدہ
جو بعد مرگ ہوئی مجھ کو جستجوئے شراب
کچھ غم نہیں کہ بعد مرے ہوگا گھر خراب
سوتا ہے میرے ساتھ مرا یار روزوشب
لوث دوئی سے پاک ہے کیا دامن حباب
رخ جو اس بت کا ہے زلف پر شکن میں آفتاب
مریخ ہے اس بانی بیداد کی صورت
وہ پریزداد خفا ہو جو کہوں حور کی بات
درد فراق کا نہ کسی نے کیا علاج
اب تلک تو نہ کچھ کھلا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
ردیف جیم عربی
لایا ہمیں قفس کی طرف آب و دانہ آج
عہد میں تیرے ہوا یہ بیوفائی کا رواج
ردیف جیم فارسی
دیکھے ہیں جب سے تری زلف گرہ گیر کے پیچ
ہاتھ سے اسکے جو کل ہم نے کیا نوش قدح
خونیں جگر ہے دیدۂ خونبار کی طرح
مدت ہوئی کہ ورد زباں ہے دعائے صبح
ردیف خاے معجمہ
آئینہ کو کہاں یہ میسر صفائے رخ
ردیف دال مہملہ
کیوں کر تری طرف سے پھرے مبتلا کا رخ
جاے واں کس نشان سے قاصد
پاؤں میں فوج غم پہ ظفر یا علی مدد
ردیف ذال معجمہ
ہمیں تو قند کے شربت سے ہے شرب لذید
کیا عجب جو ہو وصلت فرقت صنم کے بعد
ردیف رائے مہملہ
رشک آیا یہ مرے داغ دل غمناک پر
کیا کہوں صدمے ہیں کیا میرے دل غمناک پر
اعضاے تن ہیں نور رخ لالہ فام نور
آج جامے سے ہے وہ ترک ستمگر باہر
غم کسی کو ہوے صدمہ اس دل ناکام پر
ہو جو غرفے سے تمہارا رخ انور باہر
کیا ہے بخت نے اس شوخ سبزہ رنگ سے دور
جو دل آزار ہیں خوش ہیں وہ دل آزاری پر
نیند آئے فرقت جاناں میں کیونکر رات بھر
تیرے گھر میں ہو بھلا اپنا گزارا کیوں کر
توصیف حور کی تو نہ اتنا ملال کر
تمنا ہے جو وہ شمشاد قد گزرے ادھر ہو کر
شب وصل صنم گزری کچھ ایسی مختصر ہو کر
کھولے ہوے جو پھرتے ہیں سر آسمان پر
سوزش دل نے کیا نالہ بلند آخر کار
ہے خون فشاں جو یہ مژۂ تر زمین پر
ہوگا دل سلسلۂ زلف میں بند آخر کار
کیا حق شفاعت اس طرح ثابت پیمبر پر
انسان کو زندگی میں ہے خوف خدا ضرور
پایا ہے اوج میں نے جو بام حبیب پر
پیدا کیے سب جس نے وہ یہاں نہیں ظاہر
ردیف زاے معجمہ
پیتے ہیں ماہ صوم میں میکش شراب روز
باقی نہیں ہے مجھ کو کسی بات کی ہوس
جب تک جیے رہے صنم بیوفا کے پاس
ردیف سین مہملہ
سنے چمن میں اگر تیری داستاں نرگس
ردیف شین معجمہ
رہتی ہے ہم کو دید رخ یار کی تلاش
ہوا ہے یوں دل نالاں قد دم سے یار خوش
خانقہ میں آکے دکھلائے جو وہ جانا نہ رقص
ردیف صاد مہملہ
ہم تو انکو روزوشب لکھتے ہیں خط
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاء مہملہ
ماہ تاباں ہے کہ خورشید درخشاں عارض
ہاں تیری ہی سمجھ ہے کچھ اے نکتہ دان غلط
ردیف ظاء معجمہ
نظر پڑا تجھے کیا کوئی گرم خو واعظ
ردیف غین معجمہ
تمام رات جو کرتی ہے اشکباری شمع
ردیف عین مہملہ
جیسے ہیں سوز غم سے دل پر محن میں داغ
موسم پیری میں ٹھنڈا ہے جو تھا دل میں چراغ
ہر اک غیر سے ہر یگانے سے واقف
ردیف فاء
جائیں الیاس و خضر چشمہ حیواں کی طرف
نہیں پڑھتا وہ دلبر نامۂ شوق
ردیف قاف
جب کھلے منصور پر اسرار حق
ردیف کاف عربی
کوئی کیا پہونچے اس والا مکاں تک
اس خط سیہ سے نہیں گیسو کا جدا رنگ
بوالہوس اور عشق گیسو واہ اے پیر فلک
ردیف گاف فارسی
ہے جو شکل آئینہ لبریز شوق یار دل
بیرنگی جہاں کے ہیں ہم کو پسند رنگ
ردیف لام
عمر بہر ہوگی نہ کم بے سروسامانی دل
کوئی لے گیا ہے ابھی ابھی مرے من سے صبرو قرار دل
اسکی بے مہری سے ہے مشکل میں دل
لکھتے ہی لکھتے ہونگے ہم اے نامہ بر تمام
ردیف میم
خط جا تجھکو مرے سر کی قسم
خط میں یہ مضمون کسی منشی سے لکھوائیں گے ہم
جب سے عاشق ہیں ترے اے کافر عیار ہم
مل کے اس شوخ سے قاصد بادب بعد سلام کہیو میرا یہ پیام
زبان دل کرتا ہوں میں شب کو ذکر ہو ہر دم
پاک کرنا آنسوؤں کا ہے جو کار آستیں
ردیف نون
یاد میں اس کی جھکاتا ہوں جو سرسجدے میں
ہمارے چھیڑنے کو سب جو تیرا نام لیتے ہیں
اپنی آنکھوں سے نبجا شاکی بینائی ہیں
رتبہ ہمارے دل کا کسی پر عیاں نہیں
جاؤں کہاں حوادث عالم کہاں نہیں
اعضا ہیں ایسے نرم کہ جسکا بیاں نہیں
غربت میں ہم پھنسے ہین وطن جانتے نہیں
وہی اگلے بکھیڑے آج اے مہرو نکلتے ہیں
جو دل میں تھیں وہ بھولے ہم وصل کی شب باتیں
کون ذرہ ہے جو تیرے فیض سے صحرا نہیں
دیدۂ غور سے دیکھا تو یہاں کچھ بھی نہیں
وہ میکش ہوں جو یاد آیا مجھے میخانہ تربت میں
نوخیز سبزہ ہوں نہ گل نودمیدہ ہوں
شب فرقت ہم اس امید پر فریاد کرتے ہیں
وہ سو سو گالیاں حق ہیں مرے ارشاد کرتے ہیں
صحبت زاہد سخت بری ہے رند کا واں کچھ کام نہیں
نہ پوچھ مجھ سے کہ تو کون ہے کہان ہوں میں
کمر کے عشق میں اس درجہ ناتواں ہوں میں
کیا دیکھیں ہم فروغ رخ یار رات دن
آئینہ سے ہے انکے سروکار رات دن
وہ دہن ہوں جسمیں میں سخن نہیں وہ سخن ہوں جسمیں صدا نہیں
موسم گل ہے مے گلگوں چمن میں کیوں نہیں
وہ وفا بھی نہ کریں اور جفا بھی نہ کریں
دل ہے خواہاں ہدف تیر ستمگر میں ہوں
وہ کیفیت ہو آجائے جو زاہد بادہ خواروں میں
بتوں کو کیا میں بیجا چاہتا ہوں
قتل کو تیغ کف صبح و مسا آپ بھی ہیں
تفاوت کچھ نہیں پیش نظر ہے دین و دنیا میں
جمع کیوں ترکش میں یہ بیکار تیرے تیر ہیں
پردہ نہ چاہئے کوئی زنہار درمیاں
مرے اشکوں کی طغیانی نہ پوچھو
کیوں نہ غیروں سے ہو ملنے کا توہم مجھ کو
سوا مرنے کے کیا چارہ غم فرقت میں غمگین کو
کب تک کہ سر ہمارے بدن سے قلم نہ ہو
خوش ہوں غم کے آنے سے اب مجھ کو غم نہ ہو
تابع فرمان کروں میں کس طرح محبوب کو
مجھے تم غیر کا شیدا نہ سمجھو
دیکھ تو کرتا ہے خاطر سب کی یکساں آئینہ
مثل آب موجزن ہر دم ہے آب آئینہ
ردیف ہائے ہوز
روبرو شیخ کے کل کی تھی ہنسی سے توبہ
پئ اسطرح اژ مری آہ رسا کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
عدم سے ہم جو جہاں خراب میں آئے
صحرا ہے بوستاں جو ہے فرقت حبیب کی
تمکو باور مری الفت نہ سہی
سوچتا ہوں کہ معاند ہے مرا دل کیا ہے
زمانے نے اک دم بھی راحت نہ دی
کن آفتوں میں جاں مری تاسحر رہی
چاہے جس صید پہ صحرا میں وہ تو سن ڈالے
وانقاب رخ پر نور ہوا چاہتی ہے
دل کے ٹکڑے مژۂ دیدۂ تر سے ٹپکے
شکل دیکھے جو زلیخا سر بازار تری
جب میری آہ سرد برنگ صبا چلی
مہوشوں میں سروقامت غنچہ لب چھوٹے برے
بجا ہے دل کو جو اور دن کی آرزو کم ہے
نہایت قلت فرصت کا غم ہے
وحشی تمہاری چال جو وحشت کی چل گئے
لی بتکدے کی راہ نہ سوے حرم چلے
اٹھ کر تمہاری بزم سے ہم پیشتر چلے
راہ مشکل ہے بہت وصل بت بے پیر کی
مرا اشک چشم اشک شبنم نہیں ہے
زخم ہر دل میں ہیں مژگاں بت بے پیر کے
جانے سے تیرے ایسی اداسی چمن میں ہے
کیا فائدہ ہے روح جو مجرم کے تن میں ہے
سیکڑوں ہونے کو ہیں بسمل ابھی
شب کو یاد زلف میں حالت عجب طاری ہوئی
سیاہ بخت رہے تیرہ روزگار رہے
جو چشم کوہ پہ دو دن یہ اشکبار رہے
نبض کی طرح سے سو مرتبہ چل کر بیٹھے
جلوۂ رخسارۂ جاناں ہمارے دل میں ہے
گرم جو راہ طلب میں ہے بڑی مشکل میں ہے
عاشقوں سے بڑھ کے معشوقوں کا دل مشکل میں ہے
ہم ہیں اسکے پاس اب کوئی نہیں محفل میں ہے
جفا بلا سے تمہاری سرشت ہی میں سہی
رک رک کے یہ روانہ جو ہر وقت سانس ہے
عشق کا آغاز ہے اے دل ابھی
اہل طمع کو گنج زور گنج سیم دے
شباب میں مجھے فکر مال کار رہی
ترا یہ حسن یہ جو بن رہے رہے نہ رہے
چلون ساتھ اسکے یہ یارا کہاں ہے
اسطرف ہے تیغ وہ شمشیر زن باندھے ہوئے
جب تلک ربط گل و خار کا گلشن میں رہے
اجل نہ آئے جو ہجر جاناں میں اور چندے تو کسکو غم ہے
لب رنگیں پہ جو تیرے ہے یہ باسی ہستی
جس نے تیری نگہ ناز کی کھائی برچھی
کوئی کب یاد کرتا ہے کسی کی
نہیں سنتے ہیں وہ ہر گز کسی کی
کبھی دھیان چہرۂ یار کا کبھی یاد گیسوے یار کی
نہ کسی عیش میں گزری نہ کسی غم میں رہے
مسیحا کو وہ شوخ کیا جانتا ہے
یاد ابرو میں ہیں ہم جی سے گزرنے والے
کب ہیں نقصان سے عاشق ترے ڈرنے والے
ہوئی جو وصلت کی شب میسر تو دور نفرت سے ہٹ کے بیٹھے
دل اپنا قید زلف سیہ میں تباہ ہے
صد شکر مجھے عشق دیا میرے خدا نے
اک برق تجلی کے طلبگار ہیں ہم بھی
قاضی کسی گیسو کے گرفتار ہیں ہم بھی
جگر کے داغ چمکائے ہماری اشکباری نے
غائبانہ بشر ایسی نہ کوئی بات کہے
آج ذرے ہیں تو کل مہر سما ہو جائیں گے
لاکھوں دنیا میں ہیں تدبیر بدلنے والے
ہر گز وہ وفا وصل کا وعدا نہیں کرتے
دیکھ کر آئینہ ہمسر کس لیے پیدا کرے
حفظ عزت کے لیے خلقت سے ڈرنا چاہئے
کیوں چلے جاتے وہ اٹھکر جو مروت ہوتی
تری خاک قدم کو کیمیا اے سیمبر سمجھے
ہوے پیر دور جوانی نہیں ہے
تضمین مصاریع آخر غزل قدسی مع مستزاد
مرحبا سید مکی مدنی العربی
غزلیات فارسی
در ہواے آن پری پیکر ولم دیوانہ شد
باکمال ضعف در کویش رسیداں آرزوست
مرا باید شمیم زلف جاناں آرزو کردن
دید رخ تو باعث حیرانی نظر
ذوق غم تو ازدل شیدانمی رود
چہ زیبا نرگس مستانہ داری
کے روم پیش شفیق لطف فرماے دگر
سوئے من اگر گزرے کنی گہے اے شریر آفریں
یہ ہجر شرب مے ناب کے رواباشد
جب بعد فراق ان سے وصلت ہو گی
رباعیات
قطعہ
کلیات جناب فضل رسول
خاتمۃ الطبع
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔