مقدمہ
اپنا بیان اپنی زبان
نہ چمک تجلی مہر میں نہ ضیائے حسن قمر میں آ
حمد
نعت
یہ بزم ماہ وانجم انساں کی رہ گزر ہے
غزل
بے ربط خیالوں میں الجھ جائینگے ہم اور
اب سیکھ لیا حسن نے انداز ستم بھی
غنچہ و گل کا طلبگار چمن تک پہونچے
راہ پر گردش ایام بھی آجائے گی
انہیں کیا جواب دوں گا میں غم مسال کرکے
زندگی مرگ غم تک آپہونچی
حشر بن کر جو صبح وشام آئے
دیوانے کی نظروں کو جہاں دیکھ رہا ہے
پیدا گلوں کے رنگ سے خون جگر نہیں
دیکھا تو حسن خود ہی تغیر پسند تھا
محبت میں حریف دل شکن بھی کام آتا ہے
شیوۂ جوروستم حد سے گزر جانے دو
مجھے اس نظر سے دیکھو جو جنوں میں کام آئے
نظر ہے جلوۂ جاناں ہے دیکھئے کیا ہو
فضا کتنی تحیر آفریں ہے
نگاہ برق سے محفوظ آشیاں تو نہیں
وہ برق وہ طوفان شرر بھو گیا ہوں
نہ بھلا سکے گی دنیا مرے دل سے وہ فسانہ
رشک مہ وانجم تھی اپنی ہی جبیں پہلے
کون سا دل ہے جسے درد کا احساس نہیں
نگاہ شوق دل کی ترجماں ہے
ایک شعلہ میں حقیقت بھی ہے افسانہ بھی
جب سے پہونچی ہے نظر جلوۂ جاناں کے قریب
رہے عمر بھر سلامت ترا ناز کم نگاہی
ادا شناس جنوں بزم کائنات نہیں
ادا ادا کو تری کرکے دل نشیں میں نے
پھول کو گرمی احساس ہے در کارا بھی
ہم سکھا دینگے ہر اک قطرے کو طوفاں ہونا
کیا دیکھتے انہیں نگہ خو نگر سے ہم
آئینہ کیا دکھائے گی بزم جہاں ہمیں
یہ نکہت درنگ اپنی فطرت نہ بدل جائیں
ہمیں کیا وساطہ رنج وخوشی سے
جب زندگی کے غم نہ کسی طور کم ہوئے
زندگی گھر بھی گئی وقت کے طوفانوں میں
تجھ سے وابستہ میں ہم عالم امکاں سے نہیں
پروانے کی فطرت ہوں میں پراونہ نہیں ہوں
اب تازہ نہیں ہوگی وہ رسم کہن برسوں
ہے یاد ہمیں اب تک وہ دور بھی اے ساقی
عشق پائندہ جنوں پائندہ تر ہوتا گیا
مری محبت رضا ہے اسکی رہین منشائے یار ہوں میں
شام غم کا اثر وہی ہے ابھی
قصۂ عشق کے عنوان بدل سکتے ہیں
جان دل جان وفا جان نظر ہوتا ہے
درد خود وجہ سکوں ہے دل سوزاں کیلئے
شکایت کرکے وہ چشم پشیماں کون دیکھے گا
محروم التفات دل پر محن رہے
نزدیک آگیا ہے اب ان کا آستانہ
لذت درد جگر یاد آئی
وہ ہوا چلی چمن میں کہ بدل گیا زمانہ
جنوں شوق سلامت یہ مرحلہ کیا ہے
گل نے کیا کہدیا اشاروں سے
حسن کا پھر کوئی اعجاز دکھایا نہ گیا
تسکین ذوق دید کے ساماں نہ ہوسکے
اب رنگ گلستاں بھی کھٹکتا ہے نظر میں
شوخی جو ابھر آئی کہیں اک گل تر میں
نہ لغزشوں سے نہ دل سے نہ راہبر سے ملا
فطرت کی نظر سے دیکھو تو ہر چیز میں ربط محکم ہے
قفس بھی خطرے میں محفوظ آشیاں بھی نہیں
جو نظر نظر گراں ہے جو نفس نفس حزیں ہے
نگاہ منفعل بھی کم نہیں ہے
زمیں بھی بدلے گی یہ آسماں بھی بدلے گا
یہ تو معلوم نہیں مجھ کو کدہ رجانا ہے
الجھتی تھی نگاہ ناز دیوانوں سے پہلے بھی
غنیمت ہیں یہ حادثات زمانہ
اہل غم گردش ایام سے آگے نہ گئے
ابھی دور ہی سے دیکھو مری سمت مسکراکر
لذت احساس غم بھی کم نہ ہو جائے کہیں
آشیاں کا نشاں ملنے نہ ملے
التفات نگاہ باقی ہے
نئی حیات ہر اک تازہ انقلاب میں ہے
کوئی چپ ہوگیا گنگناکر
وہ الم نصیب ہیں ہم جو پناہ تک نہ پہونچے
فرصت شوق بہت کم ہے مگر ہے تو سہی
غم صیاد سے گھبرائیں کیا ہم ان زمانوں میں
عشق کی مجبوریوں کا درد کس کے دل میں ہے
ذرات دل بکھر کے نہ پھر عمر بھر ملے
حیات عشق میں پہلی سی دل کشی نہ رہی
یہ ماہ ومہر ہیں کیوں لالہ زار میں کیا ہے
دشمن دل ہی نہیں آفت جاں ہوتی ہے
جو موت سے غرض ہے وہی زندگی سے ہے
بیٹھے ہیں درد دل کا فسانہ لئے ہوئے
ز باں پر دل کے افسانے کبھی لایا نہیں کرتے
ظلم کے ساتھ انفعال بھی ہے
عشق کو آزاد رہنے دے غم انجام سے
ہزار تونے ضیائیں دیں چاند تاروں کو
چند بے ربط خیالات لئے بیٹھا ہوں
شکست دل کا طبیعت پہ کچھ اثر بھی نہیں
شمس وقمر سے آگے خیال ونظر سے دور
کیسے لٹا دوں عشق کی دولت
شمع سے خون چھلکنے لگا پروانے کا
دل حزیں کی صورت قرار پانہ سکا
ہے ذوق نظارہ نا مکمل کہ تاب برق وشرر نہیں ہے
معصوم شوخیوں کا کرشمہ دکھا گئے
طوفان اضطراب کی منزل کہیں جسے
کہاں بہار کی دنیا کہاں جنوں کے قدم
یہ عرش وفرش تمہارے تمہیں مبارک ہوں
محبت کا جہاں ہے اور میں ہوں
یہ حادثات جہاں اپنا کام کرجاتے
جستجو کا ہمیں شعور نہیں
جنھوں نے ذوق وفا دیا ہے انہیں سے عرض وفا کرینگے
غم دو جہاں بھی یارب کسے ناگوار ہوتا
شرمگیں پھر نگہ ناز رہے یا نہ رہے
دل کی دھڑکن بھی مجھے رات گرا ں گزری ہے
درد ہو دل میں تو اک روح رواں رہتی ہے
کہتے نہیں ہیں شدت درد جگر کو ہم
مری خامشی ہی اک دن مری ترجماں بنے گی
کبھی فطرت الم کو طرب آشنا نہ کرنا
یوں نظر پھیر کہ امید کرم بھی نہ رہے
غم دیا ہے تو کم وبیش کا احساس نہ دے
بہت طوفان غم آئینگے ہم تک
پردۂ رخ الٹ بھی دے حسن کو آشکار کر
وقت گر یز پاسہی پھر بھی ہے تیرے ساتھ ساتھ
ہندوستاں کا حافظ وخیام اٹھ گیا
آہ جگر
مقدمہ
اپنا بیان اپنی زبان
نہ چمک تجلی مہر میں نہ ضیائے حسن قمر میں آ
حمد
نعت
یہ بزم ماہ وانجم انساں کی رہ گزر ہے
غزل
بے ربط خیالوں میں الجھ جائینگے ہم اور
اب سیکھ لیا حسن نے انداز ستم بھی
غنچہ و گل کا طلبگار چمن تک پہونچے
راہ پر گردش ایام بھی آجائے گی
انہیں کیا جواب دوں گا میں غم مسال کرکے
زندگی مرگ غم تک آپہونچی
حشر بن کر جو صبح وشام آئے
دیوانے کی نظروں کو جہاں دیکھ رہا ہے
پیدا گلوں کے رنگ سے خون جگر نہیں
دیکھا تو حسن خود ہی تغیر پسند تھا
محبت میں حریف دل شکن بھی کام آتا ہے
شیوۂ جوروستم حد سے گزر جانے دو
مجھے اس نظر سے دیکھو جو جنوں میں کام آئے
نظر ہے جلوۂ جاناں ہے دیکھئے کیا ہو
فضا کتنی تحیر آفریں ہے
نگاہ برق سے محفوظ آشیاں تو نہیں
وہ برق وہ طوفان شرر بھو گیا ہوں
نہ بھلا سکے گی دنیا مرے دل سے وہ فسانہ
رشک مہ وانجم تھی اپنی ہی جبیں پہلے
کون سا دل ہے جسے درد کا احساس نہیں
نگاہ شوق دل کی ترجماں ہے
ایک شعلہ میں حقیقت بھی ہے افسانہ بھی
جب سے پہونچی ہے نظر جلوۂ جاناں کے قریب
رہے عمر بھر سلامت ترا ناز کم نگاہی
ادا شناس جنوں بزم کائنات نہیں
ادا ادا کو تری کرکے دل نشیں میں نے
پھول کو گرمی احساس ہے در کارا بھی
ہم سکھا دینگے ہر اک قطرے کو طوفاں ہونا
کیا دیکھتے انہیں نگہ خو نگر سے ہم
آئینہ کیا دکھائے گی بزم جہاں ہمیں
یہ نکہت درنگ اپنی فطرت نہ بدل جائیں
ہمیں کیا وساطہ رنج وخوشی سے
جب زندگی کے غم نہ کسی طور کم ہوئے
زندگی گھر بھی گئی وقت کے طوفانوں میں
تجھ سے وابستہ میں ہم عالم امکاں سے نہیں
پروانے کی فطرت ہوں میں پراونہ نہیں ہوں
اب تازہ نہیں ہوگی وہ رسم کہن برسوں
ہے یاد ہمیں اب تک وہ دور بھی اے ساقی
عشق پائندہ جنوں پائندہ تر ہوتا گیا
مری محبت رضا ہے اسکی رہین منشائے یار ہوں میں
شام غم کا اثر وہی ہے ابھی
قصۂ عشق کے عنوان بدل سکتے ہیں
جان دل جان وفا جان نظر ہوتا ہے
درد خود وجہ سکوں ہے دل سوزاں کیلئے
شکایت کرکے وہ چشم پشیماں کون دیکھے گا
محروم التفات دل پر محن رہے
نزدیک آگیا ہے اب ان کا آستانہ
لذت درد جگر یاد آئی
وہ ہوا چلی چمن میں کہ بدل گیا زمانہ
جنوں شوق سلامت یہ مرحلہ کیا ہے
گل نے کیا کہدیا اشاروں سے
حسن کا پھر کوئی اعجاز دکھایا نہ گیا
تسکین ذوق دید کے ساماں نہ ہوسکے
اب رنگ گلستاں بھی کھٹکتا ہے نظر میں
شوخی جو ابھر آئی کہیں اک گل تر میں
نہ لغزشوں سے نہ دل سے نہ راہبر سے ملا
فطرت کی نظر سے دیکھو تو ہر چیز میں ربط محکم ہے
قفس بھی خطرے میں محفوظ آشیاں بھی نہیں
جو نظر نظر گراں ہے جو نفس نفس حزیں ہے
نگاہ منفعل بھی کم نہیں ہے
زمیں بھی بدلے گی یہ آسماں بھی بدلے گا
یہ تو معلوم نہیں مجھ کو کدہ رجانا ہے
الجھتی تھی نگاہ ناز دیوانوں سے پہلے بھی
غنیمت ہیں یہ حادثات زمانہ
اہل غم گردش ایام سے آگے نہ گئے
ابھی دور ہی سے دیکھو مری سمت مسکراکر
لذت احساس غم بھی کم نہ ہو جائے کہیں
آشیاں کا نشاں ملنے نہ ملے
التفات نگاہ باقی ہے
نئی حیات ہر اک تازہ انقلاب میں ہے
کوئی چپ ہوگیا گنگناکر
وہ الم نصیب ہیں ہم جو پناہ تک نہ پہونچے
فرصت شوق بہت کم ہے مگر ہے تو سہی
غم صیاد سے گھبرائیں کیا ہم ان زمانوں میں
عشق کی مجبوریوں کا درد کس کے دل میں ہے
ذرات دل بکھر کے نہ پھر عمر بھر ملے
حیات عشق میں پہلی سی دل کشی نہ رہی
یہ ماہ ومہر ہیں کیوں لالہ زار میں کیا ہے
دشمن دل ہی نہیں آفت جاں ہوتی ہے
جو موت سے غرض ہے وہی زندگی سے ہے
بیٹھے ہیں درد دل کا فسانہ لئے ہوئے
ز باں پر دل کے افسانے کبھی لایا نہیں کرتے
ظلم کے ساتھ انفعال بھی ہے
عشق کو آزاد رہنے دے غم انجام سے
ہزار تونے ضیائیں دیں چاند تاروں کو
چند بے ربط خیالات لئے بیٹھا ہوں
شکست دل کا طبیعت پہ کچھ اثر بھی نہیں
شمس وقمر سے آگے خیال ونظر سے دور
کیسے لٹا دوں عشق کی دولت
شمع سے خون چھلکنے لگا پروانے کا
دل حزیں کی صورت قرار پانہ سکا
ہے ذوق نظارہ نا مکمل کہ تاب برق وشرر نہیں ہے
معصوم شوخیوں کا کرشمہ دکھا گئے
طوفان اضطراب کی منزل کہیں جسے
کہاں بہار کی دنیا کہاں جنوں کے قدم
یہ عرش وفرش تمہارے تمہیں مبارک ہوں
محبت کا جہاں ہے اور میں ہوں
یہ حادثات جہاں اپنا کام کرجاتے
جستجو کا ہمیں شعور نہیں
جنھوں نے ذوق وفا دیا ہے انہیں سے عرض وفا کرینگے
غم دو جہاں بھی یارب کسے ناگوار ہوتا
شرمگیں پھر نگہ ناز رہے یا نہ رہے
دل کی دھڑکن بھی مجھے رات گرا ں گزری ہے
درد ہو دل میں تو اک روح رواں رہتی ہے
کہتے نہیں ہیں شدت درد جگر کو ہم
مری خامشی ہی اک دن مری ترجماں بنے گی
کبھی فطرت الم کو طرب آشنا نہ کرنا
یوں نظر پھیر کہ امید کرم بھی نہ رہے
غم دیا ہے تو کم وبیش کا احساس نہ دے
بہت طوفان غم آئینگے ہم تک
پردۂ رخ الٹ بھی دے حسن کو آشکار کر
وقت گر یز پاسہی پھر بھی ہے تیرے ساتھ ساتھ
ہندوستاں کا حافظ وخیام اٹھ گیا
آہ جگر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.