2
تصانیف مولانا شبلی مرحوم
فہرست مضامین
گذارش
ادراک حال مازنگہ می توان نمود
صبح امید
آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم
تماشائے عبرت یعنی وہ قومی مسدس
ہجرت نبوی صلعم
جبکہ آمادہ خون ہوگئے کفار قریش
تعمیر مسجد نبوی صلعم
ہجرت کے بعد آپ نے پہلا کیا جو کام
ایک خاتون کی آزادانہ گستاخی اور رسول اللہ صلعم کا حلم اور عفو
اہل بیت رسول صلعم کی زندگی
افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
ایثار کی اعلیٰ ترین نظیر
کافرون نے یہ کیا جنگ احد مین مشہور
بدرمیں معرکہ آرا جو ہوا لشکر کفر
مساوات اسلام
کہ کے یہ اس نے کیا سرور عالم سے خطاب
درگاہ نبوی کے جو موذن تھے بلالؓ
عہد فاروں میں حسین کہ ہوئی انکی وفات
عام الرتادہ کہتے ہیں جسکو عرب میں لوگ
خلافت فاروقی کا ایک واقعہ
گرچہ وہ حد مناسب سے بڑھا جاتا تھا
ایک دن حضرت فاروں نے منبر پہ کہا
عدل فاروقی کا ایک نمونہ
بولے یہ ابن عمرؓ سب سے مخاطب ہوکر
اپنے فرزند سے فاروں معظم نے کہا
اظہار وقبول حق
وارث عدل پیمبر عمرؓ ابن الخطاب
ایک نے مجمع سادات سے بڑھ کر یہ کہا
جراء ت صداقت
مدتوں حضرت عباس بھی تھے شامل کفر
ایک دن سیر کو اس شان سے نکلا منصور
نظام حکومت اسلام
جب ولی عہد ہوا تخت حکومت کا یزید
الجھی ہیں وہ شمیم انگیزیان عطر محبت کی
جی ہم نے بھی کی تھی حکمرانی ان ممالک پر
ہمارا طرز حکومتہ
بت اجگان سے ہند اکبر نے جب چاہی
نخوت حسن سے بیگم نے بصد ناز کہا
ہان مجھے واقعہ قتل سے انکار نہیں
قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گذر
اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اسکو ہلاک
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہونچی جو خبر
عدل جہانگیری
مفتی دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
خدمت شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام
ہوچکا جب کہ شہنشاہ کو پورا یقین
لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح
سلام کے تزل کا اصلی سبب
اے ہمایوں کہر افسر اورنگ شہی
خطاب بحضور وایسراے
مولوی صاحب سے کہا میں نے کہ کیا آپ
شغل تکفیر
مذہب یا سیاست
تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
کیا لطف ہے کہ حامی ندوہ ہیں اب وہ لوگ
جنگ زرگری معائنہ ندوۃ العلما
ان ابلہاں قوم کو سمجھا ے یہ کوئی
آتا ہے اب معائنۂ ندوہ کا مشن
منکر مے بودن وہمرنگ مستان زیسیتن
معترض ہیں مجھ پہ میرے مہر بانان قدیم
لیکن اب تو آپ کی بھی کھلتی جاتی ہے زبان
خبر میں تو شامت اعمال سے جو ہوں سوہون
تجزیہ وتفرقہ
ہمیں جس چیز نے کھویا وہ تفریق تخجری تھی
اصرار قوم اور طفل سیاست
یہ سب بجادرست مگر سچ جو پوچھئیے
یہ جو لیڈر شکنی آپ نے کی خوب کیا
خطاب بہ احرار ایک مرکز کی ضرورت
فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں
جزرومدلہلال کا لب ولہجہ
دیکھ کر صریت فکر کا یہ دور جدید
لیگ کے عظمت وجبر وت سے انکار نہیں
مسلم لیگ
اسکے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست
خطاب بہ رائٹ آنریبل سیدا میر علی صاحب
ہر چند لیگ کانفس والسپین ہے اب
آپ لبرل جو نہیں ہیں تو بلا سے نہ سہی
لوگ کہتے ہیں کہ آمادہ اصلاح ہے لیگ
مسلم لیگ
صلح کانفرنس کی شکست اور جنگ کا آغاز
جا جو لیگ نے کہ ہوا خاتمہ تمام
کب تک کہ لوگ حلقہ بگوش خواص ہیں
مسلم لیگ
لیگ کو جب نظر آیا کہ چلی ہاتھ سے قوم
لیگ کو سلف گورنمنٹ ہے اب پیش نظر
لیگ مع سوٹ ایبل
اس نے سن کے یہ سب مجھ سے بآہستہ کہا
مسلم یونیورسٹی
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
آفاق سے کچھ اور نہ تھا مدعا ے خاص
سنتے رہے وہ غور سے یہ داستان غم
اک غلغلہ بپا ہے کہ الحاق جب نہیں
مایوس گو ترقی قومی سے میں نہیں
یونیورسٹی
مجھ کو حیرت تھی کہ تعلیم غلامی کیلئے
مسئلہ الحاق
شیخ صاحب نے کہا مجھ سے باندار لطف
اپنی سفارت کی جو تجویز بظاہر موزوں
یونیورسٹی ڈییوٹیشن
یونیورسٹی اور الحاق
شرط الحاق پہ اصرار اور ایسا اصراء
یونیورسٹی فونڈیشن کمیٹی کا اجلاس لکھنؤ
سب کے جو لکھنؤ میں دکھایا گیا سمان
بعض ہے جماعت احرار کا ضرور
یا صبح دم جو دیکھیئے آکر تو بزم میں
حیراں تھے عوام کہ کیا ماجرا ہے یہ
جو بات کل تلک سبب ننگ دعا رتھی
وہ برادر کہ مرا یوسف کنعانی تھا
بربادئ خانماں
لے دے کے رہ گیا تھا سہارا بس آپکا
طر آتا نہیں اب صبر کا پہلو مجھ کو
نرعے بھی تھا ایکدن کہ یہ وحشت سراہے دل
نالۂ شبلی
پسر عبد عزیزا موی
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا انصاف
مجاہے آج اگر اس نرم میں پہ زیب وسامان ہیں
دعوت عمل
علاج اپنا ہم اب تک تو سمجھتے تھے کہ آساں ہے
تیر قاتل کا یا حسان رہ گیا
غزلیات
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
تیس دن کے لیے ترک مے وساقی کر لوں
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
بکھرتا جاتا ہے شیرازۂ اوراق اسلامی
متفرقات
آج دعوت نہ آنے کا مجھے بھی ہے ملال
یوں چشم تر میں قامت جانان ہے جلوہ گر
نشہ آور تھی نگاہ مست ساقی اسقدر
اک شہر میں کہ پایۂ تخت قدیم ہے
مصارف کی طرف سے مطمئن ہو نہیں بہر صورت
2
تصانیف مولانا شبلی مرحوم
فہرست مضامین
گذارش
ادراک حال مازنگہ می توان نمود
صبح امید
آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم
تماشائے عبرت یعنی وہ قومی مسدس
ہجرت نبوی صلعم
جبکہ آمادہ خون ہوگئے کفار قریش
تعمیر مسجد نبوی صلعم
ہجرت کے بعد آپ نے پہلا کیا جو کام
ایک خاتون کی آزادانہ گستاخی اور رسول اللہ صلعم کا حلم اور عفو
اہل بیت رسول صلعم کی زندگی
افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
ایثار کی اعلیٰ ترین نظیر
کافرون نے یہ کیا جنگ احد مین مشہور
بدرمیں معرکہ آرا جو ہوا لشکر کفر
مساوات اسلام
کہ کے یہ اس نے کیا سرور عالم سے خطاب
درگاہ نبوی کے جو موذن تھے بلالؓ
عہد فاروں میں حسین کہ ہوئی انکی وفات
عام الرتادہ کہتے ہیں جسکو عرب میں لوگ
خلافت فاروقی کا ایک واقعہ
گرچہ وہ حد مناسب سے بڑھا جاتا تھا
ایک دن حضرت فاروں نے منبر پہ کہا
عدل فاروقی کا ایک نمونہ
بولے یہ ابن عمرؓ سب سے مخاطب ہوکر
اپنے فرزند سے فاروں معظم نے کہا
اظہار وقبول حق
وارث عدل پیمبر عمرؓ ابن الخطاب
ایک نے مجمع سادات سے بڑھ کر یہ کہا
جراء ت صداقت
مدتوں حضرت عباس بھی تھے شامل کفر
ایک دن سیر کو اس شان سے نکلا منصور
نظام حکومت اسلام
جب ولی عہد ہوا تخت حکومت کا یزید
الجھی ہیں وہ شمیم انگیزیان عطر محبت کی
جی ہم نے بھی کی تھی حکمرانی ان ممالک پر
ہمارا طرز حکومتہ
بت اجگان سے ہند اکبر نے جب چاہی
نخوت حسن سے بیگم نے بصد ناز کہا
ہان مجھے واقعہ قتل سے انکار نہیں
قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گذر
اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اسکو ہلاک
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہونچی جو خبر
عدل جہانگیری
مفتی دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
خدمت شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام
ہوچکا جب کہ شہنشاہ کو پورا یقین
لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح
سلام کے تزل کا اصلی سبب
اے ہمایوں کہر افسر اورنگ شہی
خطاب بحضور وایسراے
مولوی صاحب سے کہا میں نے کہ کیا آپ
شغل تکفیر
مذہب یا سیاست
تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
کیا لطف ہے کہ حامی ندوہ ہیں اب وہ لوگ
جنگ زرگری معائنہ ندوۃ العلما
ان ابلہاں قوم کو سمجھا ے یہ کوئی
آتا ہے اب معائنۂ ندوہ کا مشن
منکر مے بودن وہمرنگ مستان زیسیتن
معترض ہیں مجھ پہ میرے مہر بانان قدیم
لیکن اب تو آپ کی بھی کھلتی جاتی ہے زبان
خبر میں تو شامت اعمال سے جو ہوں سوہون
تجزیہ وتفرقہ
ہمیں جس چیز نے کھویا وہ تفریق تخجری تھی
اصرار قوم اور طفل سیاست
یہ سب بجادرست مگر سچ جو پوچھئیے
یہ جو لیڈر شکنی آپ نے کی خوب کیا
خطاب بہ احرار ایک مرکز کی ضرورت
فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں
جزرومدلہلال کا لب ولہجہ
دیکھ کر صریت فکر کا یہ دور جدید
لیگ کے عظمت وجبر وت سے انکار نہیں
مسلم لیگ
اسکے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست
خطاب بہ رائٹ آنریبل سیدا میر علی صاحب
ہر چند لیگ کانفس والسپین ہے اب
آپ لبرل جو نہیں ہیں تو بلا سے نہ سہی
لوگ کہتے ہیں کہ آمادہ اصلاح ہے لیگ
مسلم لیگ
صلح کانفرنس کی شکست اور جنگ کا آغاز
جا جو لیگ نے کہ ہوا خاتمہ تمام
کب تک کہ لوگ حلقہ بگوش خواص ہیں
مسلم لیگ
لیگ کو جب نظر آیا کہ چلی ہاتھ سے قوم
لیگ کو سلف گورنمنٹ ہے اب پیش نظر
لیگ مع سوٹ ایبل
اس نے سن کے یہ سب مجھ سے بآہستہ کہا
مسلم یونیورسٹی
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
آفاق سے کچھ اور نہ تھا مدعا ے خاص
سنتے رہے وہ غور سے یہ داستان غم
اک غلغلہ بپا ہے کہ الحاق جب نہیں
مایوس گو ترقی قومی سے میں نہیں
یونیورسٹی
مجھ کو حیرت تھی کہ تعلیم غلامی کیلئے
مسئلہ الحاق
شیخ صاحب نے کہا مجھ سے باندار لطف
اپنی سفارت کی جو تجویز بظاہر موزوں
یونیورسٹی ڈییوٹیشن
یونیورسٹی اور الحاق
شرط الحاق پہ اصرار اور ایسا اصراء
یونیورسٹی فونڈیشن کمیٹی کا اجلاس لکھنؤ
سب کے جو لکھنؤ میں دکھایا گیا سمان
بعض ہے جماعت احرار کا ضرور
یا صبح دم جو دیکھیئے آکر تو بزم میں
حیراں تھے عوام کہ کیا ماجرا ہے یہ
جو بات کل تلک سبب ننگ دعا رتھی
وہ برادر کہ مرا یوسف کنعانی تھا
بربادئ خانماں
لے دے کے رہ گیا تھا سہارا بس آپکا
طر آتا نہیں اب صبر کا پہلو مجھ کو
نرعے بھی تھا ایکدن کہ یہ وحشت سراہے دل
نالۂ شبلی
پسر عبد عزیزا موی
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا انصاف
مجاہے آج اگر اس نرم میں پہ زیب وسامان ہیں
دعوت عمل
علاج اپنا ہم اب تک تو سمجھتے تھے کہ آساں ہے
تیر قاتل کا یا حسان رہ گیا
غزلیات
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
تیس دن کے لیے ترک مے وساقی کر لوں
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
بکھرتا جاتا ہے شیرازۂ اوراق اسلامی
متفرقات
آج دعوت نہ آنے کا مجھے بھی ہے ملال
یوں چشم تر میں قامت جانان ہے جلوہ گر
نشہ آور تھی نگاہ مست ساقی اسقدر
اک شہر میں کہ پایۂ تخت قدیم ہے
مصارف کی طرف سے مطمئن ہو نہیں بہر صورت
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.