پیش لفظ
کچھ اپنے بارے میں
چنتارس
تجھ کو دیپک دیکھ رہا ہے اپنا سا یا دیکھ رہا ہے
من کا سورج کب چمکے گا کتنی دور سویرا ہے
جاتی رت نے سندیسہ دیا ہے
اک ان ایسا میں جسے ڈھونڈوں
لے کی لوراگنی سہہ رہی ہے
جاؤں پنگھٹ پہ کپڑے جو دھونے
میرے ہر دے میں سویا ہے کوئی
موہے اپنی لگن کے بندھن نے کچھ ایسا باندھا جیون بھر
گورے پیروں پہ مہندی کی دھار
سپنوں کا بازار لگا ہے
کیا کیا بھاؤ دکھائے تم نے
میری کویتا کی دھرتی میں
اندھیاری رینا میں جب بھی
تیرے نینوں میں سپنوں کے ڈورے
میں جس دئے سے کاجل کاڑھوں وہ دیپک بجھ جائے
آنکھوں والے اندھوں سے ٹکرانہ جائیں
میں تو ایسا جلاجیون بھر
جانے کیسی آئی سجن ملن کی رینا
بہہ گئے کیسے گاؤں تھے سارے
کتنے دکھ جھیلے ہیں میں نے کتنے گیت سنائے ہیں
تن کے درپن میں من کا سنگھار
جال پگڈنڈیوں کے بچھائے
بوند میں بھی ندی بہہ رہی ہے
مر گئے نین مٹ گئے نین
ایک طرح کے پھول کھلائے اب کے رت نے ہر آنگن میں
من کے مکتب میں پڑھتے تھے گیتا
کان کس نے ہوا کے بھرے
کیا ساگر کی تھاہ بتاؤں ساگر مجھ میں رہتے ہیں
من گاگر میں تن ساگر کی ڈوب گئی گہرائی
دھول جھٹک کر اک درپن سے میں نے روپ کا کھوج لگایا
رین گئی اور ہوا سویرا طھہر کب گھر آؤ گے
ہائے وہ بندیا کا سورج ہائے وہ پیپل کی چھاؤں
مہندی سے لکھ دوری ہاتھوں پہ سکھیو
موہے پھاگن کی رت من بھائے رے پیا
آج آئیں گے ساجن دوار
اے نہروں میں بہتی چاندی
پھر پھاگن کے بن مہکے ہیں بیتا سمے بلائے
پیڑوں پہ نیا بور کہے آئی جوانی
میں شام چرن چھو آتی
رات کے اس سونے منڈپ میں
رستہ نہ روکو نٹ کھٹ شام
کس نے بھری لہو پچکاری
میں جوبن رس کی پچکاری
اب وہ گھر ہے گھوراندھیرا
مانا بڑی سورما ہہے نراشا
دکھ بھرے نین
تیری دیا سے ادھورا جیون
میں نے کیا سپنے دیکھے تھے
قائد اعظم محمد علی جناح
من میں جیون کا اندھیارا
یہ پت جھڑ کی رت یہ سورج
کتنے ٹوٹے ناتے من کے
پہلے جنم کا ٹوٹا بھائے
بیتے جیون کے مندر میں
مرے من میں ہیں ترے دکھ ایسے
جنم جنم کے سوتے دکھ نے
من میں چھپی ہے چھب اک ایسی
مہک رہی ہو چنبیلی جیسے
سچ نے جنم لیا ہے جس پل
آنکھ پہ پھول کی پٹی باندھے
من اجیالا بھینٹ چڑھا کر
توری پچکاری میں ساےر رنگ ہیں مرے
رت نے بھی پلٹا کھایا
دکھ میں کتنے سکھ سائے ہیں
تو پنگھٹ پر چھوڑ کے جس کو چلی گئی تھی
پیش لفظ
کچھ اپنے بارے میں
چنتارس
تجھ کو دیپک دیکھ رہا ہے اپنا سا یا دیکھ رہا ہے
من کا سورج کب چمکے گا کتنی دور سویرا ہے
جاتی رت نے سندیسہ دیا ہے
اک ان ایسا میں جسے ڈھونڈوں
لے کی لوراگنی سہہ رہی ہے
جاؤں پنگھٹ پہ کپڑے جو دھونے
میرے ہر دے میں سویا ہے کوئی
موہے اپنی لگن کے بندھن نے کچھ ایسا باندھا جیون بھر
گورے پیروں پہ مہندی کی دھار
سپنوں کا بازار لگا ہے
کیا کیا بھاؤ دکھائے تم نے
میری کویتا کی دھرتی میں
اندھیاری رینا میں جب بھی
تیرے نینوں میں سپنوں کے ڈورے
میں جس دئے سے کاجل کاڑھوں وہ دیپک بجھ جائے
آنکھوں والے اندھوں سے ٹکرانہ جائیں
میں تو ایسا جلاجیون بھر
جانے کیسی آئی سجن ملن کی رینا
بہہ گئے کیسے گاؤں تھے سارے
کتنے دکھ جھیلے ہیں میں نے کتنے گیت سنائے ہیں
تن کے درپن میں من کا سنگھار
جال پگڈنڈیوں کے بچھائے
بوند میں بھی ندی بہہ رہی ہے
مر گئے نین مٹ گئے نین
ایک طرح کے پھول کھلائے اب کے رت نے ہر آنگن میں
من کے مکتب میں پڑھتے تھے گیتا
کان کس نے ہوا کے بھرے
کیا ساگر کی تھاہ بتاؤں ساگر مجھ میں رہتے ہیں
من گاگر میں تن ساگر کی ڈوب گئی گہرائی
دھول جھٹک کر اک درپن سے میں نے روپ کا کھوج لگایا
رین گئی اور ہوا سویرا طھہر کب گھر آؤ گے
ہائے وہ بندیا کا سورج ہائے وہ پیپل کی چھاؤں
مہندی سے لکھ دوری ہاتھوں پہ سکھیو
موہے پھاگن کی رت من بھائے رے پیا
آج آئیں گے ساجن دوار
اے نہروں میں بہتی چاندی
پھر پھاگن کے بن مہکے ہیں بیتا سمے بلائے
پیڑوں پہ نیا بور کہے آئی جوانی
میں شام چرن چھو آتی
رات کے اس سونے منڈپ میں
رستہ نہ روکو نٹ کھٹ شام
کس نے بھری لہو پچکاری
میں جوبن رس کی پچکاری
اب وہ گھر ہے گھوراندھیرا
مانا بڑی سورما ہہے نراشا
دکھ بھرے نین
تیری دیا سے ادھورا جیون
میں نے کیا سپنے دیکھے تھے
قائد اعظم محمد علی جناح
من میں جیون کا اندھیارا
یہ پت جھڑ کی رت یہ سورج
کتنے ٹوٹے ناتے من کے
پہلے جنم کا ٹوٹا بھائے
بیتے جیون کے مندر میں
مرے من میں ہیں ترے دکھ ایسے
جنم جنم کے سوتے دکھ نے
من میں چھپی ہے چھب اک ایسی
مہک رہی ہو چنبیلی جیسے
سچ نے جنم لیا ہے جس پل
آنکھ پہ پھول کی پٹی باندھے
من اجیالا بھینٹ چڑھا کر
توری پچکاری میں ساےر رنگ ہیں مرے
رت نے بھی پلٹا کھایا
دکھ میں کتنے سکھ سائے ہیں
تو پنگھٹ پر چھوڑ کے جس کو چلی گئی تھی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔