دیباچہ
فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے
مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے
کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں
اسی طرح کی شب و روز ہیں وہی دنیا
گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا
پھول سے اڑگئی ہے خوشبو بھی
یہ جبر بھی ہے بہت اختیار کرتے ہوئے
کسی کے انتظار میں نہیں ہوں
تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے
رات اس حسن دلآرام کی چھب تھی کوئی
شب سیاہ پہ واروشنی کا باب تو ہو
کام کیا آئیں گے اس آنکھ کے تیور خالی
یہ دوڑ دھوپ ہے جتنی بھی جستجو نہ سمجھ
دیکھے کوئی تعلق خاطر کے رنگ بھی
اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں حیرانی حیرانی سے
کمی رکھتا ہوں اپنے کام کی تکمیل میں
تنہائی، سکوت، ہوا، پانی
اپنا دیوانہ بنا کر لے جائے
کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں
جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی
قیام کرنے چلا ہوں میں اک نئی زمیں پر
وجود کا انحصار گو خاک پر نہیں تھا
جونا گوار ہے سب کچھ گوارا کرتے ہوئے
چیخ اٹھو کہ کرا ہو صاحب
ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں
قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے
روحوں کی خاموشی میں آواز لگاتے رہا کرو
خوشبو کی طرح دل میں بسا کر اسے دیکھو
وہ سرسے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا
مرے یقیں کو پس پردۂ گماں کرکے
نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے
بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے
دل حزیں ہمارے ہاتھ اگرتری کمند ہو
اجڑتی سر زمیں پر پھر کئی منظر اتر آئے بہاروں کے
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
درد کے راہی غموں کی رہ گزر تنہائیاں
غم کی لے پر تھرک رہی ہے رات
کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا
باغی ہوئی ہے ہم سے تو اپنی سپاہ تک
افرا تفری تھی ایسی جلدی میں
منزل ہاتھ نہیں آپاتی، خواب ادھورا رہ جاتا ہے
جب کوئی آئنہ بھی نہ تھا میرے سامنے
معنی کی زد میں ہوں کبھی لفظوں کی مار پر
راس آگئی نظر کو جو آب وہوائے خواب
خواب کی رت سے تعبیر کے سبز روموسموں کی طرف
دل بھی آپ کو بھول چکا ہے
یاد یہ کس کی آگئی گردش روز گار میں
میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آجاتا
کسی نے دی تھی درخواب پر کبھی دستک
گزرا وقات ہوتی ہے کہیں خوابوں میں کھو کر بھی
دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں
اصل حالت کا بیاں ظاہر کے سانچوں میں نہیں
بکھرتا حرف ہوں خوش رنگ سی تصویر ہو جاؤں
اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے
کہ مل چکا ہوں کہیں پہ اس مہ جبیں سے پہلے
کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے
گھڑی گھڑی اسے روکو، گھڑی گھڑی سمجھاؤ
اب بجتے ہیں کیا رباب اور چنگ
ہم عشق بھی گاہ کرکے دیکھا
گرمی عشق نے پگھلائے ہیں پتھر کیا کیا
اگر تری آنکھ کے اشارے نہیں رہیں گے
اس کھنڈر پر نئی بنیاد اٹھانا ہے مجھے
میرے گمان میں
دیباچہ
فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے
مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے
کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں
اسی طرح کی شب و روز ہیں وہی دنیا
گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا
پھول سے اڑگئی ہے خوشبو بھی
یہ جبر بھی ہے بہت اختیار کرتے ہوئے
کسی کے انتظار میں نہیں ہوں
تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے
رات اس حسن دلآرام کی چھب تھی کوئی
شب سیاہ پہ واروشنی کا باب تو ہو
کام کیا آئیں گے اس آنکھ کے تیور خالی
یہ دوڑ دھوپ ہے جتنی بھی جستجو نہ سمجھ
دیکھے کوئی تعلق خاطر کے رنگ بھی
اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں حیرانی حیرانی سے
کمی رکھتا ہوں اپنے کام کی تکمیل میں
تنہائی، سکوت، ہوا، پانی
اپنا دیوانہ بنا کر لے جائے
کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں
جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی
قیام کرنے چلا ہوں میں اک نئی زمیں پر
وجود کا انحصار گو خاک پر نہیں تھا
جونا گوار ہے سب کچھ گوارا کرتے ہوئے
چیخ اٹھو کہ کرا ہو صاحب
ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں
قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے
روحوں کی خاموشی میں آواز لگاتے رہا کرو
خوشبو کی طرح دل میں بسا کر اسے دیکھو
وہ سرسے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا
مرے یقیں کو پس پردۂ گماں کرکے
نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے
بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے
دل حزیں ہمارے ہاتھ اگرتری کمند ہو
اجڑتی سر زمیں پر پھر کئی منظر اتر آئے بہاروں کے
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
درد کے راہی غموں کی رہ گزر تنہائیاں
غم کی لے پر تھرک رہی ہے رات
کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا
باغی ہوئی ہے ہم سے تو اپنی سپاہ تک
افرا تفری تھی ایسی جلدی میں
منزل ہاتھ نہیں آپاتی، خواب ادھورا رہ جاتا ہے
جب کوئی آئنہ بھی نہ تھا میرے سامنے
معنی کی زد میں ہوں کبھی لفظوں کی مار پر
راس آگئی نظر کو جو آب وہوائے خواب
خواب کی رت سے تعبیر کے سبز روموسموں کی طرف
دل بھی آپ کو بھول چکا ہے
یاد یہ کس کی آگئی گردش روز گار میں
میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آجاتا
کسی نے دی تھی درخواب پر کبھی دستک
گزرا وقات ہوتی ہے کہیں خوابوں میں کھو کر بھی
دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں
اصل حالت کا بیاں ظاہر کے سانچوں میں نہیں
بکھرتا حرف ہوں خوش رنگ سی تصویر ہو جاؤں
اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے
کہ مل چکا ہوں کہیں پہ اس مہ جبیں سے پہلے
کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے
گھڑی گھڑی اسے روکو، گھڑی گھڑی سمجھاؤ
اب بجتے ہیں کیا رباب اور چنگ
ہم عشق بھی گاہ کرکے دیکھا
گرمی عشق نے پگھلائے ہیں پتھر کیا کیا
اگر تری آنکھ کے اشارے نہیں رہیں گے
اس کھنڈر پر نئی بنیاد اٹھانا ہے مجھے
میرے گمان میں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.